• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اشرف علی تھانوی --- بہشتی زیور کا خود ساختہ اسلام / نجس چیز کو چاٹنا

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
جواب نمبر 2


نمبر 01 - دور برطانیہ سے پہلے بھی یہاں مسلمان آباد تھے مگر کافر غیر کتابی [ہندو ، سکھ ، مجوسی ، چمار ، چوڑا وغیرہ] کے ذبیحہ کو نجس اور مردار قرار دیتے تھے دور برطانیہ میں جب یہ لامذہب فرقہ پیدا ہوا تو انہوں نے اس نجاست اور مردار کو کھانا شروع کردیا اور فتوی دے دیا کھ یہ حلال ہے
(عرف الجادی ص 10 و ص 239 و دلیل الطالب ص 413)
امین اوکاڑوی کے بے حیائی اور بے شرمی ملاحظہ ہو کہ یہ اور اسکا ناپاک دیوبندی فرقہ خود انہی کے بقول دور برطانیہ کی یادگار اور پیداوار ہے لیکن دوسروں کو دور برطانیہ کا طعنہ دیتا ہے۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔

مذکورہ بالا عبارت میں دلیل الطالب کا حوالہ دیا گیا ہے لیکن خود دیوبندیوں کو بھی نہیں پتا کہ یہ کس کی کتاب ہے اور مصنف کا اہل حدیث ہونا بھی نامعلوم ہے۔ لیکن اہل حدیث پر اعتراض قائم کرنے کے لئے امین اوکاڑوی صاحب کے شیطانی دماغ میں جو کچھ آتا ہے بغیر سوچے سمجھے اہل حدیث کے سر تھوپتے چلے جاتے ہیں۔ بہرحال دوسری کتاب جس کا حوالہ دیا گیا ہے وہ عرف الجادی ہے۔ یہ اہل حدیث کی کتاب نہیں کیونکہ اسے دیوبندی ہی چھاپتے ہیں اور اسکا مصنف بھی وحید الزماں ہے جس کے بارے میں اس جھوٹے امین اوکاڑوی نے خود گواہی دی ہے اس کی تمام کتابوں سے اہل حدیث علماء اور عوام بے زاری اور برات کا اظہار کرچکے ہیں۔ ملاحظہ ہو: نواب صدیق حسن خان، میاں نذیر حسین، نواب وحیدالزماں، میر نورالحسن، مولوی محمد حسین اور مولوی ثنا ء اللہ وغیرہ نے جو کتابیں لکھی ہیں، اگر چہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے قرآن و حدیث کے مسائل لکھے ہیں لیکن غیر مقلدین کے تمام فرقوں کے علماء اور عوام بالاتفاق ان کتابوں کو غلط قرار دے مسترد کر چکے ہیں بلکہ برملا تقریروں میں کہتے ہیں کہ ان کتابوں کو آگ لگا دو۔ (تحقیق مسئلہ تقلید، صفحہ 6)
امین اوکاڑوی کی خود اپنی اس گواہی کے بعد انہی مردود کتابوں اور انکے مسائل کو کو اہل حدیث کے ذمہ لگانا امین اوکاڑوی کو مکار، دغاباز، دھوکے باز، جھوٹا اور دجال ثابت کرتا ہے۔

نمبر 02 - اسی طرح بارہ [1200] سو سال تک اس ملک میں اتفاق رہا کہ اگر ذبح کرتے وقت جان بوجھ کر بسم الله نہ پڑھی جائے تو وہ جانور مردار اور نجس ہے - مگر اس نجاست خور فرقہ نے اس کے بھی جواز کا فتوی دے دیا۔
[عرف الجادی]
یہ پھر عرف الجادی کا حوالہ ہے جس کے بارے میں پہلے عرض کردیا گیا ہے کہ جو کتاب اہل حدیثوں کے ہاں بالاتفاق مردود ہے اصولا اور اخلاقا اس کا حوالہ اہل حدیث کے خلاف پیش نہیں کیا جاسکتا اور جو ایسا کرے گا وہ بددیانت اور فراڈی ہوگا۔ عرف الجادی وغیرہ کتابیں اہل حدیث کے ہاں مردود ہیں اس کے بارے امین اوکاڑوی ہی کی ایک اور گواہی ملاحظہ فرمائیں: نواب وحیدالزماں نے ہدیۃ المہدی ، نزل الابرار اور کنز الحقائق وغیرہ کتابیں لکھیں مگر ان کتابوں کا جو حشر ہوا وہ خدا کسی دشمن کی کتاب کا بھی نہ کرے۔نہ ہی غیر مقلد مدارس نے ان کو قبول کیا کہ ان میں سے کسی کتاب کو داخل نصاب کرلیتے نہ ہی غیرمقلد مفتیوں نے ان کو قبول کیا کہ اپنے فتاویٰ میں ان کو لیتے اور نہ ہی غیر مقلد عوام نے ان کو قبول کیا ۔(تجلیات صفدر ، جلد1، صفحہ 621)

نمبر 03 - بندوق سے جو جانور مرجائے وہ مردار اور نجس ہے مگر اس لامذہب فرقہ نے یہ نجاست بھی کھانا شروع کردی اور اس کو حلال کہہ دیا۔
[بدور الاہلہ ص 335 ، فتاوی ثنائیہ ج 1 ص 150 و ج 2 ص 132]
چونکہ امین اوکاڑوی کثرت سے جھوٹ بولنے اور تحریف کرنے کا عادی تھا حتی کہ اسکے ناپاک ہاتھوں سے قرآن و حدیث بھی محفوظ نہ رہے۔اس لئے ہمیں اس کی بات کا کوئی اعتبار نہیں امین اوکاڑوی کے مقلدوں سے درخواست ہے کہ فتاوی ثنائیہ سے یہ عبارت مکمل اور باحوالہ نقل کریں اس کے بعد ہی ہم کوئی جواب دے سکیں گے۔

نمبر 04 - بجو کو اس ملک کے مسلمان حرام اور نجس سمجھتے تھے مگر اس لامذہب فرقہ نے فتوی دیا "بجو حلال ہے ، جو شخص بجو کا کھانا حلال نہ جانے وہ منافق دے دین ہے ، اس کی امامت ہرگز جائز نہیں ، یہ قول صحیح اور موافق حدیث رسول الله صلی الله علیه وسلم ہے"
[فتاوی ستاریہ ج 2 ص 21 ص 277]
یہاں بھی ہمیں امین اوکاڑوی دجال کی بات کا اعتبار نہیں لہٰذا یہ مسئلہ مکمل اور باحوالہ نقل کریں۔

نمبر 05 - بارہ [1200] سو سال سے اس ملک کے مسلمان منی کو ناپاک اور نجس قرار دیتے تھے اس فرقہ نے اس کو پاک قرار دیا اور ایک قول میں اس کا کھانا بھی جائز قرار دیا۔
[فقہ محمدیہ ج 1 ص 46]
(البتہ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ منی کا کسٹرڈ بناتے ہیں یا قلفیاں جماتے ہیں)
امین اوکاڑوی کو صرف اہل حدیث پر اعتراض سے غرض ہوتی تھی اور وہ اس بات کی کوئی فکر نہیں کرتا تھا کے اس کی زد کہاں کہاں پڑ رہی ہے۔ دیوبندیوں کے تسلیم شدہ بزرگ شیخ عبدالقادر جیلانی کے نزدیک منی پاک ہے اور حنبلیوں کا بھی یہی مذہب ہے۔ اب حنفی اپنے حنبلی بھائیوں سے خود ہی پوچھ لیں کہ وہ منی کا کسٹرڈ بنا کرکھاتے ہیں یا اسکی قلفیاں جما کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ خود امین اوکاڑوی کے اپنے مذہب میں ہر قسم کی نجاست چاٹنا جائز ہے اور اسکا یہ کہنا بھی فریب ہے کہ منی ناپاک اور نجس ہے۔ دیکھئے یہاں دیوبندی مفتی صاحب ایک جنبی حنفی کو کسٹرڈ اور قلفی بنائے بغیر خالص اور اصلی منی چاٹنے کا جواز فراہم کررہے ہیں۔ http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=6331
اب اگر منی حنفیوں کے ہاں نجس اور ناپاک ہوتی تو اسکے چاٹنے کا کیسے حکم دیتے۔

اس مسئلہ کے لئے امین اوکاڑوی نے جس کتاب کا حوالہ دیا ہے یعنی فقہ محمدی یہ وحیدالزماں کی تصنیف ہے جس کے بارے میں اوپر ذکر کیا جاچکا ہے کہ ایسے سارے حوالے اہل حدیث کے خلاف باطل و مردود ہیں۔

اہل حدیث کے ہاں منی نجس اور ناپاک ہے اس کے لئے ممتاز اہل حدیث عالم و محدث حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا فتویٰ ماہنامہ الحدیث میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔


نمبر 06 - بارہ [1200] سو سال تک یہاں کے مسلمان حلال جانوروں کے پیشاب کو پینا جائز نہیں سمجھتے تھے اور اس کو نجس قرار دیتے تھے لیکن لامذہبوں نے اس نجاست کے پینے کو جائز قرار دیا ، لکھا کہ "لکھا کہ حلال جانوروں کا پیشاب و پاخانہ پاک ہے جس کپڑے پر لگا ہو اس میں نماز پڑھنی درست ہے ، نیز بطور ادویات استعمال کرنا درست ہے"
[فتاوی ستاریہ ج 1 ص 56 ، ج 1 ص 89]
یہاں بھی امین اوکاڑوی کے جھوٹا ہونے کی وجہ سے اصل اور پورے حوالے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ یہ بھی بتائیں کہ یہاں تو صرف حلال جانوروں کے پیشاب اور پاخانہ کی بات کی گئی ہے لیکن ابوحنیفہ کے مذہب میں حلال جانور تو چھوڑیے ہر قسم کی گندگی چاہے وہ انسان کا پیشاب و پاخانہ ہو یا حرام جانور کا اگر کپڑوں یا جسم کے ساتھ لگا ہو تو حنفی کی نماز ہوجاتی ہے۔ اپنے مذہب کے اس مسئلہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟

نمبر 07 - بارہ [1200] سو سال سے اس ملک میں یہ مسئلہ تھا کہ تھوڑے پانی ، دودھ وغیرہ میں تھوڑی سی نجاست پڑجائے تو وہ نجس ہوجاتا ہے "پاک پانی میں نجاست پڑجاوے تو اس سے وضو ، غسل وغیرہ کچھ درست نہیں چاہے وہ نجاست تھوڑی ہو یا بہت" [بہشتی زیور ج 1 ص 57 ، ہدایہ ج 1 ص 18] لیکن دور برطانیہ میں اس فرقہ نام نہاد اہل حدیث نے فتوی دیا کہ اگر پانی وغیرہ میں نجاست پڑجائے تو جب تک نجاست سے اس کا رنگ ، بو ، مزہ نہ بدلے وہ پاک ہے۔
[عرف الجادی ، بدور الاہلہ]
(مثلا ایک بالٹی دودھ میں ایک چمچہ پیشاب ڈال دیا جائے تو نہ اس کا رنگ پیشاب جیسا ہوتا ہے نہ بو نہ مزہ ہمارے مذہب میں وہ پھر بھی ناپاک ہے اس کا پینا حرام بلکہ کپڑے یا بدن پر لگ جائے تو نماز ناجائز ، اس فرقہ کے نزدیک وہ دودھ پاک ، حلال طیب ہے ، یہ اس نجس کو پینا جائز سمجھتے ہیں)
عرف الجادی کا مردود حوالہ ہے جو اہل حدیث پر حجت نہیں۔

نمبر 08 - بارہ [1200] سو سال تک اس ملک کے مسلمان الخمر [شراب] کو پیشاب کی طرح سمجھتے تھے لیکن اس فرقہ غیر مقلدین نے فتوی دیا کہ "الخمر طاھر" [کنز الحقائق] شراب پاک ہے بلکہ بتایا کہ اگر شراب میں آٹا گوند کر روٹی پکالی جائے تو کھانا جائز ہے [نزل الابرار ج 1 ص 50] اور وجہ یہ بتائی کہ اگر پیشاب میں آٹا گوند کر روٹی پکالی جائے تو پیشاب بھی تو جل جائے گا۔
یہاں بھی امین اوکاڑی فراڈی نے کنزالحقائق اور نزل الابرار کا حوالہ دیا ہے جو کہ وحیدالزماں کی تصنیفات ہونے کی وجہ سے باطل مسائل ہیں اور ان مسائل سے اہل حدیث کا کوئی تعلق نہیں البتہ اس قسم کے کئی حوالے فقہ حنفی کی زینت ضرور ہیں اس بارے میں کیا خیال ہے۔

الغرض اس قسم کے اور کئی مسائل بھی تھے جن سے ملک میں نجاست خوری کی بنیاد ڈال دی ، جب احناف نے ثبوت مانگا کے اپنے اصول پر قرآن پاک کی صریح آیات یا احادیث صحیحہ صریحہ غیر معارضہ سے ان مسائل کا ثبوت پیش کرو تو بجائے احادیث پیش کرنے کے لگے فقہاء کو گالیاں دینے اور فقہ کے خلاف شور مچانا شروع کردیا کہ ان کے ہاں نجاست چاٹنا جائز ہے حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے - نجاست عین کا چاٹنا تو کجا ، جس پانی وغیرہ میں نجاست تھوڑی سی پڑجائے کہ نجاست کا رنگ نہ بو نہ مزہ کچھ بھی ظاہر نہ ہو پھر بھی اس پانی کا پینا حرام ہے ، اس میں احناف کا کوئی اختلاف نہیں بلکہ بہشتی گوہر میں لکھا ہے کہ ایسے ناپاک پانی کا استعمال جس کے تینوں وصف یعنی مزہ اور بو اور رنگ نجاست کی وجہ سے بدل گئے ہوں کسی طرح درست نہیں نہ جانوروں کو پلانا درست ہے نہ مٹی وغیرہ میں ڈال کر گارا بنانا جائز ہے [بہشتی گوہر ج 1 ص 5 بحوالہ درمختار ج 1 ص 207] تو جب نجس پانی جانور کو پلانا ہمارے مذہب میں جائز نہیں تو انسان کو چاٹنے کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے؟
نجاست خوری کے بارے میں یہ تو امین اوکاڑوی کے وہ جھوٹ ہیں جسے نہ وہ اپنی زندگی میں ثابت کرسکا اور نہ اسکے اندھے مقلدین آج تک اس میں کوئی کامیابی حاصل کرسکے۔ لیکن فقہ حنفی کی کتابوں کا مطالعہ کرنے والا یہ ضرور جانتا ہے کہ بہت سے جانور ہیں جو نجاست خوری کرتے ہیں جیسے سور لیکن یہ مخصوص قسم کی نجاستیں ہی کھاتے ہیں لیکن حنفی دنیا کا وہ واحد جانور ہے جو پاکی کے حصول کے لئے ہر قسم کی نجاست چاٹتا ہے۔

چناچہ بہشتی زیور میں صاف لکھا ہے کہ نجاست چاٹنا منع ہے [بہشتی زیور ج 2 ص 5] دراصل اختلاف بعض چیزوں کے پاک ناپاک ہونے میں ہے ، ان مسائل کی تفصیل یہ لوگ بیان نہیں کرتے اور غلط نتائج نکالتے ہیں۔
اس کا جواب ماقبل میں تفصیل کے ساتھ عرض کردیا گیا ہے وہاں دیکھا جاسکتا ہے۔

نمبر 01 - مثلآ بعض جاہل عورتوں کی عادت ہوتی ہے کپڑا سی رہی تھی انگلی میں سوئی لگ گئی اور تھوڑا سے خون نکل آیا وہ بجائے اس پر پانی ڈالنے کے اس کو دو تین مرتبہ چاٹ کر تھوک دیتی ہیں اب اس کا مسئلہ بتانا ہے تو فقہ یہ کہتی ہے کہ اس نے جو چاٹا یہ گناہ ہے اور پہلی دفعہ چاٹنے سے منہ بھی ناپاک ہوگیا مگر بار بار تھوکنے سے جب خون کا کوئی نشان باقی نہ رہا تو انگلی اور منہ پاک سمجھے جائیں گے ، اس مسئلے کے خلاف اگر وہ صحیح صریح غیر معارض حدیث پیش کردیں تو البتہ ہم ان کی علمی قابلیت مان لیں گے یعنی
اپنا مطلب حاصل کرنے کے لئے امین اوکاڑوی جس مسئلہ میں چاہیں غلط بیانی کرلیتے تھے دنیا جانتی ہے کہ جب انگلی میں سوئی چبھ جائے اور خون کا قطرہ نکل آئے تو انسان اسے چوس لیتا ہے۔ جبکہ امین اوکاڑوی اپنی فقہ کا مسئلہ ثابت کرنے کے لئے فرمارہے ہیں انگلی میں سوئی لگ جانے پر انسان اسے دو یا تین مرتبہ چاٹ لیتا ہے۔ کہاں زبان سے چاٹنا اور کہاں منہ سے چوسنا۔ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت۔

فقہ کہتی ہے کہ چاٹنا منع ہے وہ حدیث سنائیں کہ چاٹنا جائز ہے؟
یہ ان جاہلوں کی پرانی عادت ہے کہ مسئلہ اپنا ہوتا ہے اور دلیل مخالفین سے طلب کرتے ہیں۔

لیکن ان کا اپنا مسئلہ تو یہ ہے کہ خون پاک ہے ، انگلی کو لگا انگلی بھی پاک رہی ، منہ کو لگا منہ بھی پاک رہا یعنی غیر مقلد عورت اس خون کو پاک سمجھ کر چاٹے گی حنفی ناپاک سمجھ کر۔
یہ امین اوکاڑوی کی خالص کذب بیانی ہے ورنہ ہر حنفی مرد و عورت انگلی سے خون کا قطرہ نکل آنے کی بنا پر اسے چوس ہی رہے ہوتے ہیں۔ درزی کا دکان پر یا گھروں میں اس کا عام مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ اور چونکہ راقم الحروف خود بھی درزی کا کام کرتا ہے لہٰذا اس بات سے بخوبی واقف ہے۔

نمبر 02 - ایک اہل سنت و الجماعت اور ایک غیر مقلد گنا چوستے جارہے تھے ، دونوں کے منہ سے خون نکل آیا حنفی گناہ چھوڑ کر تھوکنے لگا ، پانی وغیرہ پاس نہ تھا غیر مقلد نے پوچھا کیا بات ہے ؟ اس نے کہا بھئی خون نکل آیا جس کی وجہ سے منہ ناپاک ہوگیا ہے- اس نے کہا ہمارے مذہب میں تو خون پاک ہے ، تھوکا دونوں نے مگر حنفی ناپاک سمجھ کر تھوکتا رہا غیر مقلد پاک سمجھ کر ، جب نشان مٹ گیا تو حنفی نے گنا چوسنا شروع کردیا کیونکہ چاٹنے اور تھوکنے سے منہ پاک ہوگیا تھا غیر مقلد سے کہا یہ مسئلہ غلط ہے تو اس کے خلاف حدیث سنادو؟
جب مسئلہ حنفی کا ہے تو حنفی ہی کو دلیل پیش کرنی چاہیے وہ اپنے مسئلہ کی دلیل اہل حدیث سے کیوں چاہتا ہے؟

نمبر 03 - ایک حنفی اور غیر مقلد سفر میں تھے دونوں کے پاس ایک ایک چھوٹی بالٹی پانی کی تھی ، آگے ایک شرابی ملا جس کے ہونٹوں کو شراب لگی ہوئی تھی یہ شراب حنفی کے نزدیک پیشاب کی طرح نجس تھی اور غیر مقلد کے نزدیک پاک تھی ، اب اختلاف یہ ہوا کہ وہ اگر مٹکے کو منہ لگا کر پانی پئے تو حنفی کے ہاں باقی پانی نجس ہے اور غیر مقلد کے نزدیک باقی بچا ہوا پانی پاک ہے ، اب وہ شرابی اگر شراب ہونٹوں سے چاٹ چاٹ کر تھوکنا شروع کردے تو حنفی مذہب میں یہ چاٹنا گناہ ہے اور غیر مقلد کے ہاں چاٹنا گناہ نہیں کیونکہ وہ پاک چیز چاٹ رہا ہے ، ہاں اگر چاٹنے سے شراب کا اثر زائل ہوجائے تو حنفی کے نزدیک اب اس کا منہ پاک ہوگیا ہے اور غیر مقلد کے نزدیک تو پہلے شراب آلودہ بھی پاک ہی تھا۔
امین اوکاڑوی نے جھوٹ کا کارخانہ لگایا ہوا تھا۔کتنی بے شرمی سے کہہ رہا ہے کہ حنفی مذہب میں شراب جیسی نجس چیز چاٹنا گناہ ہے جب کہ انکی فقہ میں ہر قسم کی نجاست چاٹنا جائز ہے۔ اور کیا منی، ٹٹی اور پیشاب وغیرہ حنفی مذہب میں پاک ہے جسے حنفی کو اپنی زبان سے چاٹنے کی اجازت دیتے ہو؟؟؟

نمبر 04 - ایک بلی نے چوہے کا شکار کیا اور اس کے منہ کو خون لگا ہوا ہے ، اب غیر مقلدوں کے مذہب میں چونکہ خون پاک ہے اس لئے اس کا خون آلودہ منہ بھی پاک ہے اس بلی نے غیر مقلد کے مٹکے میں منہ ڈال دیا تو اس کے نزدیک وہ پانی پاک ہے - مگر حنفی فقہ کی رو سے وہ پانی ناپاک ہے ، اب وہ بلی بیٹھی اپنا منہ چاٹ چاٹ کر صاف کرتی رہی جب خون کا اثر بالکل ختم ہوگیا تو اب اس کا جھوٹا نجس نہیں مکروہ ہوگا کیونکہ اس نے چاٹ کر اپنا منہ صاف کرلیا ہے۔
کہاں لکھا ہے کہ اہل حدیث کے مذہب میں خون پاک ہے؟؟؟ اور وہ بھی گندے چوہے کا خون؟؟؟

نمبر 05 - ایک حنفی اور غیر مقلد سفر میں تھے اتفاق سے حنفی کو احتلام ہوگیا اور پانی کہیں ملتا نہیں - حنفی نے کہا یہ جو منی لگی ہوئی ہے یہ ناپاک ہے ، غیر مقلد نے کہا کہ یہ پاک ہے بلکہ ایک قول میں کھانا بھی جائز ہے ، حنفی نے کہا کہ پھر اگر تم چاٹ کر صاف کرلو تو تمہارا ناشتہ ہوجائے گا اور جب اس کا اثر ختم ہوجائے گا تو میرا جسم پاک ہوجائے گا۔
امین اوکاڑوی تو اس طرح کے فرضی اور جھوٹے قصے بنانے میں ماہر تھا۔ ہم نے ثابت کردیا ہے کہ نجاست خور حنفی ہوتا ہے۔امین اوکاڑوی اگر دارلعلوم دیوبندی کا یہ فتویٰ دیکھ لیتے تو شرم اور غیرت سے مر جاتے یہاں ناپاکی کی صورت میں حنفی کو اپنی ہی زبان سے اپنی منی چاٹنے کی اجازت دی جارہی ہے۔
http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=6331

بہرحال حنفی فقہ میں نجاست کا چاٹنا ہرگز جائز نہیں ، ہاں بعض چیزیں ہمارے مذہب میں نجس ہیں جیسے شراب ، خون ، قے لیکن غیر مقلدوں کے ہاں پاک ہیں اس لئے ہمارے فقہاء نے یہ فرق بتایا کہ جب منہ آلودہ ہو تو نجس ہے اور اگر پانی نہیں ملا اور قے والے نے دو تین مرتبہ ہونٹ چاٹ کر تھوک دیا یا شراب والے نے دو تین مرتبہ چاٹ کر تھوک دیا یا جس کے دانتوں سے خون نکلا تھا اس نے چاٹ کر تھوک دیا تو چاٹنا تو منع تھا اس کا گناہ الگ رہا البتہ خون ، قے ، شراب کا اثر ختم ہونے سے منہ کی پاکی کا حکم ہوگا ، اس کے برعکس غیر مقلد کے ہاں جب خون ، قے یا شراب منہ کو لگی ہوئی تھی اس وقت بھی منہ پاک تھا جب چاٹا تو بھی پاک چیزوں کو چاٹا - "یہ دو مسائل ہیں جن کو غلط انداز میں بیان کرکے کہا جاتا ہے کہ ان کے ہاں نجاست چاٹنا جائز ہے جو بالکل جھوٹ ہے"
فقہ حنفی کی کتابوں میں درج حنفی کا اپنی زبان سے تین مرتبہ ہر قسم کی نجاست چاٹنے کا مسئلہ امین اوکاڑوی کے اس پورے بیان کی تردید کرکے اسے جھوٹا اور مکار ثابت کررہا ہے۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
[/arb]
اس سے ثابت ہوا کہ اصل مسئلہ تھوک سے طھارت کا ہے نہ کہ زبان شرط ہے اور تھوک سے حیض کے خون کا ازالہ حدیث سے ثابت ہے جیسا کہ اوپر گذرا
ے
یہ تو آپ کی من مانی تشریح ہے اگر حقیقت کی طرف غور کریں تو اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ ہر جگہ صرف زبان کا لفظ بولا گیا ہے :إذا أصابت النجاسة بعض أعضائه ولحسها بلسانه حتى ذهب أثرها يطهر وكذا السكين إذا تنجس فلحسه بلسانه أو مسحه بريقه . هكذا في فتاوى قاضي خان .
ولو لحس الثوب بلسانه حتى ذهب الأثر فقد طهر . كذا في المحيط
وکذا اذا شرب الخمر ثم صلی بعد زمان وکذا اذااصاب بعض اعضائہ نجاسۃ فطھرھا بلسانہ منیۃ المصلی
ان سب کتابوں میں تو صرف زبان کا لفظ ہے آپ اس حقیقت کو کیوں جٹلا رہے ہیں
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
یہ تو آپ کی من مانی تشریح ہے اگر حقیقت کی طرف غور کریں تو اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ ہر جگہ صرف زبان کا لفظ بولا گیا ہے :إذا أصابت النجاسة بعض أعضائه ولحسها بلسانه حتى ذهب أثرها يطهر وكذا السكين إذا تنجس فلحسه بلسانه أو مسحه بريقه . هكذا في فتاوى قاضي خان .
ان سب کتابوں میں تو صرف زبان کا لفظ ہے آپ اس حقیقت کو کیوں جٹلا رہے ہیں
فتاوی عالمگیری کی پوری عبارت نقل کریں ، جہاں کی آپ نے عبارت نقل کی وہاں کچھ یوں بھی ہے

لأنه يطهر بالبزاق

کیوں کہ یہ تھوک سے پاک ہوجاتی ہے
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
نمبر 03 - بندوق سے جو جانور مرجائے وہ مردار اور نجس ہے مگر اس لامذہب فرقہ نے یہ نجاست بھی کھانا شروع کردی اور اس کو حلال کہہ دیا۔
[بدور الاہلہ ص 335 ، فتاوی ثنائیہ ج 1 ص 150 و ج 2 ص 132]
چونکہ امین اوکاڑوی کثرت سے جھوٹ بولنے اور تحریف کرنے کا عادی تھا حتی کہ اسکے ناپاک ہاتھوں سے قرآن و حدیث بھی محفوظ نہ رہے۔اس لئے ہمیں اس کی بات کا کوئی اعتبار نہیں امین اوکاڑوی کے مقلدوں سے درخواست ہے کہ فتاوی ثنائیہ سے یہ عبارت مکمل اور باحوالہ نقل کریں اس کے بعد ہی ہم کوئی جواب دے سکیں گے۔
چونکہ مسٹر شاہد نزیر زبیر علی زئی کی بتائی ہوئی ترتیب پر عامل ہیں یعنی جھوٹ بولو تو ایسے کہ سچ بھی شرماجائے ۔موصوف کے تمام ڈھکوسلوں کا جواب دینے کی ضرورت بھی نہیں اور میرے پاس آپ کے جھوٹ دجل اور فریب و فضول گوئی کا جواب دیتے رہنے کا ٹائم بھی نہیں ۔فتاوٰی ثنائیہ کا صفحہ آپ کو دکھارہا ہوں اسی سے آپ کے جھوٹ کا پول "پولا" دکھ جائے گا ۔
رہی بات وحید الزمان کی تو اس کے بارے میں بھی مسٹر شاہد نزیر اور اس جیسی سوچ رکھنے والے زبیر علی زئی کے بتائے ہوئے جھوٹ بیان کرتے ہیں اور اندر اندر وحید الزمان کو اپنے اکابرین میں شمار کرکے پھولے نہیں سماتے ۔اس بارے میں درج زیل لنکس کا مطالعہ مفید ہوگا
http://forum.mohaddis.com/posts/140779/
http://forum.mohaddis.com/posts/140768/
http://forum.mohaddis.com/posts/134587/
http://forum.mohaddis.com/posts/132612/
http://forum.mohaddis.com/posts/132609/
http://forum.mohaddis.com/posts/132608/
فتاوٰی ثنائیہ

شکریہ
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
فتاوی عالمگیری کی پوری عبارت نقل کریں ، جہاں کی آپ نے عبارت نقل کی وہاں کچھ یوں بھی ہے

لأنه يطهر بالبزاق

کیوں کہ یہ تھوک سے پاک ہوجاتی ہے
تو ظاہر ہے کہ زبان کو تھوک تو لگا ہی ہوتا ہے
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
چونکہ مسٹر شاہد نزیر زبیر علی زئی کی بتائی ہوئی ترتیب پر عامل ہیں یعنی جھوٹ بولو تو ایسے کہ سچ بھی شرماجائے
سبحان اللہ یہ بات وہ شخص کررہا ہے جس فرقہ کا دین و ایمان ہی جھوٹ ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ اس اصول پر کاربند ہیں کہ اس سے پہلے کہ کوئی ہمیں جھوٹا کہے دوسرے کو جھوٹا کہنا شروع کردو لیکن ایسی کوشش بے سود ہے کیونکہ دیوبندی فرقے کے جھوٹ پایہ ثبوت کو پہنچ چکے ہیں۔

موصوف کے تمام ڈھکوسلوں کا جواب دینے کی ضرورت بھی نہیں اور میرے پاس آپ کے جھوٹ دجل اور فریب و فضول گوئی کا جواب دیتے رہنے کا ٹائم بھی نہیں
بہت خوبصورت بہانہ ہے جو شخص ہر وقت فارغ رہتا ہے اور باطل کا دفاع کرکے اپنا نامہ اعمال سیاہ کرتا رہتا ہے وہ کہہ رہا ہے کہ اسکے پاس ٹائم نہیں۔ آپ کے پاس اسلئے ٹائم نہیں کہ آپ کے پاس کوئی جواب ہی نہیں۔

فتاوٰی ثنائیہ کا صفحہ آپ کو دکھارہا ہوں اسی سے آپ کے جھوٹ کا پول "پولا" دکھ جائے گا ۔
ہم نے صرف مطالبہ کیا تھا کہ پورا حوالہ پیش کرو اور پورا حوالہ پیش کرنے سے ہم جھوٹے کیسے ثابت ہوگئے؟؟؟ پورا حوالہ آنے سے جھوٹ کا پول تو امین اوکاڑوی کذاب کا کھل گیا ہے۔ امین اوکاڑوی بندوق کے شکار کو پوری جماعت اہل حدیث کی طرف منسوب کررہا ہے جبکہ ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے جس جملے سے جواب کا آغاز کیا ہے اسی سے معلوم ہورہا ہے کہ یہ پوری جماعت اہل حدیث کا موقف نہیں بلکہ بعض اہل حدیث علماء کا موقف ہے جبکہ دوسرے علماء اسکے خلاف اور برعکس موقف رکھتے ہیں۔ دیکھئے ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: جو علماء بندوق کو تیر کے حکم میں سمجھتے ہیں انکے نزدیک شکار بندوق حلال ہے۔خاکسار کا بھی یہی خیال ہے۔(فتاویٰ ثنائیہ)

پہلے زمانے میں تیر ہوتا تھا اور بندوق کا کوئی وجود نہیں تھا اس لئے بندوق سے شکار ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور اجتہادی مسائل میں علماء کا اختلاف ہوجانا ایک عام مسئلہ ہے اسی لئے اہل حدیثوں کے مابین بھی یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے کچھ علماء بندوق کو تیر کے حکم میں سمجھتے ہیں اور کچھ نہیں سمجھتے۔ لیکن امین اوکاڑوی نے خالص کذب بیانی کرتے ہوئے اس کو جماعت اہل حدیث کا متفقہ مسئلہ قرار دیا ہے اور جان بوجھ کر پوری عبارت نقل نہیں کہ کہیں اسکے جھوٹ کا پول نہ کھل جائے لیکن اسی کے مقلد سہج نے اپنے امام اوکاڑوی کا پول کھول کر رکھ دیا۔

امین اوکاڑوی نے ایک اور بھی دعویٰ کیا ہے کہ بندوق سے جو جانور مرجانے وہ مردار اور نجس ہے۔سہج صاحب سے مطالبہ ہے کہ اپنے امام کے اس دعویٰ کی واضح دلیل پیش کریں۔ ورنہ ہم امین اوکاڑوی کو ہمیشہ کی طرح اس مسئلہ میں بھی جھوٹا سمجھیں گے۔

رہی بات وحید الزمان کی تو اس کے بارے میں بھی مسٹر شاہد نزیر اور اس جیسی سوچ رکھنے والے زبیر علی زئی کے بتائے ہوئے جھوٹ بیان کرتے ہیں اور اندر اندر وحید الزمان کو اپنے اکابرین میں شمار کرکے پھولے نہیں سماتے ۔اس بارے میں درج زیل لنکس کا مطالعہ مفید ہوگا
http://forum.mohaddis.com/posts/140779/
http://forum.mohaddis.com/posts/140768/
http://forum.mohaddis.com/posts/134587/
http://forum.mohaddis.com/posts/132612/
http://forum.mohaddis.com/posts/132609/
http://forum.mohaddis.com/posts/132608/
جی واقعی بہت مفید ہوگا مطالعہ کرنے والے ہر شخص کو معلوم ہوجائے گا کہ سہج صاحب نے ہر جگہ شرمندگی اٹھائی ہے اور کہیں بھی ان سے وحیدالزماں اہل حدیث ثابت نہیں ہوسکا لیکن امین اوکاڑوی کی اہل حدیث کے حق میں گواہی دیوبندیوں کے ماتھے کی سیاہی ضرور بن گئی ہے۔
 
شمولیت
نومبر 21، 2013
پیغامات
105
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
56
اہلسنت دنیا کی سب سے بڑی جماعت ہے اور دنیا بھر میں اسکی پہچان میلاد ہے۔ اہلسنت چاہے دنیا کےکسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہوں، میلاد ضرور کرتے ہیں۔ دیوبندی فرقے کے لوگ (مقلد وہابی) امام احمد رضا خان صاحب کے بعد سے پاک و ہند کے اہلسنت کو بریلوی کہنےلگے جبکہ امام احمد رضا خان صاحب سے پہلے مولانا فضل حق خیر آبادی کی نسبت سے خیر آبادی کہا کرتے تھے۔
دیوبندی فرقہ وہابیت کی ایک شاخ ہے جو فقہ میں تو امام ابو حنیفہ کی تقلید کرتے ہیں مگر عقائد وہابیوں جیسے ہیں۔ دیوبندی فرقہ کا بانی اسماعیل دہلوی ہے جو اصل میں غیر مقلد ہوگیا تھا، پھر مقلد بن کر وہابیت کو پھیلایا جو دیوبندی مذہب کی شکل میں موجود ہے۔
دیوبندیوں کی کفریانہ عبارات پر علمائے حرمین شریفین نے کفر کا فتوی لگایا تھا۔ جس میں سے ایک عبارت یوں ہے کہ "امکان کذب سے مراد دخول کذب تحت قدرت باری تعالی ہے" یعنی جھوٹ اللہ تعالی کی قدرت میں ہے۔ معاذ اللہ۔ جبکہ اللہ تعالی ہر عیب سے پاک ہے۔
دیوبندیوں کی اب تین قسم ہیں۔ حیاتی ، مماتی اور پنج پیری۔ حیاتی وہ ہیں جو جعلی تصوف کو چلا رہے ہیں اور ان کے اندر قادری، چشتی اور نقشبدی بھی ہیں۔ نبی کریم صلوۃ سلام کو حیات مانتے ہیں۔ مماتی حضور صلوۃ سلام کو حیات نہیں مانتے اور شرک اور بدعت کی تسبیح پڑھتے رہتے ہیں۔ پنج پیری سرحد کے علاقے پنج پیر میں پائے جاتے ہیں جو کہ تعداد میں بہت کم ہیں۔ ان میں اور وہابیوں میں تقریباً تقلید ہی کا فرق ورنہ پورے وہابی ہی ہیں۔​
 
شمولیت
نومبر 21، 2013
پیغامات
105
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
56
ہمارا زمانہ پُر فتن اور دین سے دوری اور بیزاری کا ہے اور روز نئے نئے فتنے جنم لیتے ہیں اور ان تمام فتنوں کے پیچھے یہودی، عیسائی اور مغربی دانشوروں کا ہاتھ ہوتا ہے، دین سے دور اور نفرت کرنے والے، دین پر ریسرچ کے نام پر (خاص کر دین سے نفرت کرنے والے ممالک کی)بڑی بڑی یونیور سٹیوں میں کام کیا جارہا ہے اور اسی ریسرچ میں ان کا دین الحاد اور دہریت والا بنایا جاتا ہے اور پھر اس ذہن کو عام لوگوں میں منتقل کروایا جاتا ہے۔

یہ بات کسی پر بھی مخفی نہیں کہ چند سالوں سے مدارس دینیہ کے خلاف مختلف طریقوں سے جو پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے ewg اس میں سے ایک الہدی انٹرنیشنل بھی ہے، کہ جب سے پاکستان میں طالبات کے مدارس کھلے اور جس میں ان طالبات کو قرآن، حدیث، فقہ کی تعلیم دی جانے لگی اور ملک میں ایک اچھی خوشگوار تبدیلی آئی اور وہ خاندان جو دین سے دور تھے ان کے گھرانوں کی لڑکیاں بھی مدرسہ میں داخل ہوئیں اور اس سے پورے خاندان میں تبدیلی آنے لگی۔

تو یہ تبدیلی اس گروہ کے لئے پریشانی کا باعث بنی، اس کے مقابل انہوں نے الہدیٰ انٹرنیشنل کے نام سے ادارے کھولنے شروع کئے جس میں ایک سال کا کورس کروایا جاتا ہے، اس کے بعد پھر وہ طالبہ دوسری عورتوں کو وہ کورس کروانے لگتی ہے جس سے بڑا فتنہ پیدا ہورہا ہے۔

مثلاً ایک سال پڑھنے کے بعد علماء جنہوں نے اپنی زندگیاں دین میں صرف کیں، ان پر اعتراضات کرنے پر سرگرم کردیتی ہیں، نیز ایک فتنہ یہ بھی برپا کیا جارہا ہے کہ مرد اور عورتوں کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے۔

نیز یہ کہ مسجدوں میں عورتوں کو آنا درست ہے، نیز عورت بغیر محرم کے سفر کرسکتی ہے، جہاں مرضی وہاں جاسکتی ہے، جبکہ ہمارے ملک کی اکثریت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ کی اتباع کرنے والی ہے، ان عورتوں کا ذہن یہ بنایا جاتا ہے کہ اماموں کی اتباع چھوڑ کر قرآن و حدیث کو خود سمجھ کر اس پر عمل کریں۔

غرض یہ کہ الہدی انٹر نیشنل کے ذریعہ سے عورتوں میں اسلام کی رغبت پیدا کرنے کے بجائے مغربی معاشرہ کے اثرات پھیلائے جارہے ہیں، اللہ جل شانہ ہم سب کو تمام فتوں سے محفوظ فرماکر صراط مستقیم نصیب فرمائے اور اسی پر استقامت عطا فرمائے۔ آمین
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
ہم نے صرف مطالبہ کیا تھا کہ پورا حوالہ پیش کرو اور پورا حوالہ پیش کرنے سے ہم جھوٹے کیسے ثابت ہوگئے؟؟؟ پورا حوالہ آنے سے جھوٹ کا پول تو امین اوکاڑوی کذاب کا کھل گیا ہے۔ امین اوکاڑوی بندوق کے شکار کو پوری جماعت اہل حدیث کی طرف منسوب کررہا ہے جبکہ ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے جس جملے سے جواب کا آغاز کیا ہے اسی سے معلوم ہورہا ہے کہ یہ پوری جماعت اہل حدیث کا موقف نہیں بلکہ بعض اہل حدیث علماء کا موقف ہے جبکہ دوسرے علماء اسکے خلاف اور برعکس موقف رکھتے ہیں۔ دیکھئے ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: جو علماء بندوق کو تیر کے حکم میں سمجھتے ہیں انکے نزدیک شکار بندوق حلال ہے۔خاکسار کا بھی یہی خیال ہے۔(فتاویٰ ثنائیہ)

پہلے زمانے میں تیر ہوتا تھا اور بندوق کا کوئی وجود نہیں تھا اس لئے بندوق سے شکار ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور اجتہادی مسائل میں علماء کا اختلاف ہوجانا ایک عام مسئلہ ہے اسی لئے اہل حدیثوں کے مابین بھی یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے کچھ علماء بندوق کو تیر کے حکم میں سمجھتے ہیں اور کچھ نہیں سمجھتے۔ لیکن امین اوکاڑوی نے خالص کذب بیانی کرتے ہوئے اس کو جماعت اہل حدیث کا متفقہ مسئلہ قرار دیا ہے اور جان بوجھ کر پوری عبارت نقل نہیں کہ کہیں اسکے جھوٹ کا پول نہ کھل جائے لیکن اسی کے مقلد سہج نے اپنے امام اوکاڑوی کا پول کھول کر رکھ دیا۔

مسٹر شاہد نزیر کے بارے میں کہا تھا ناں کہ موصوف زبیر علی زئی کا اسٹائیل اپنائے ہوئے ہیں کہ جھوٹ ایسے بولو کہ سچ بھی شرماجائے۔
اب یہی دیکھ لیں کہ مسٹر شاہد نزیر کا ڈھکوسلہ کہ ،فرماتے ہیں “بندوق سے شکار ایک اجتہادی مسئلہ ہے“ مسٹر شاہد نزیر نے میرے پیش کردہ اسکین پیج میں سے نشان زدہ الفاظ میں سے خود ہی عبارت منتخب کی اور اس کے انتخاب میں بھی دجل و فرید کاری دکھادی کہ تمام نشان زد کردہ الفاظ کو نہیں لکھا بلکہ صرف وہی عبارت اٹھائی جس پر جھوٹ و دجل کا ملمہ آسانی سے چڑھایا جاسکے ۔لیکن موصوف جانتے ہی ہوں گے کہ جھوٹ جھوٹ ہی ہوتا ہے اور دجل بھی دجل ہی ہوتا ہے چاھے جتنا بھی میٹھا کرکے پیش کیا جائے۔ دیکھئے



اسی صفحے پر اسی سوال کے جواب میں جس کا جواب ثناء اللہ امرتسری نے دیا اس نے ایک اور حوالہ بھی پیش کیا اپنے موقف کی حمایت میں““اگر تکبیر پڑھ کر گولی۔۔۔چلائی جائے اور جانور قبل از ذبح مرجائے تو حلال ہے۔احادیث صحیحہ سے یہی ثابت ہے۔(اہل حدیث سوہدرہ8مئی52ء““
اور مسٹر شاہد نزیر ثناء اللہ امرتسری اور علماء اہل حدیث سوہدرہ اور ان تمام اہل حدیث علماء کی قبروں پر لاتیں مارتے ہوئے فرماتے ہیں
بندوق سے شکار ایک اجتہادی مسئلہ ہے
تو وہاں جو لکھا ہوا ہے کہ ““احادیث صحیحہ سے یہی ثابت ہے““ یہ لکھنے والے جھوٹے دجال و کذاب ہیں کہ نہیں ؟؟ یا مسٹر شاہد نزیر اپنے آپ کو جھوٹا دجال و کذاب ثابت فرمارہے ہیں ؟یا موصوف کا ارادہ اب ثناء اللہ امرتسری کو بھی اکابرین فرقہ جماعت اہل حدیث کی ٹوٹی پھوٹی صف سے آؤٹ کرنے کا ہے ؟
بندوق سے شکار کے مسئلہ کو اجتہادی کہنے والا جھوٹا ثابت ہوا یا اس مسئلہ کو احادیث صحیحہ سے ثابت شدہ کہنے والے ؟ یہ فیصلہ دیکھنے پڑھنے والے خود کرلیں۔

اور لگے ہاتھوں یہ بھی سمجھ لو مسٹر شاہد نزیر تم اور تمہارے جیسے دوسرے جتنے بھی افراد یہ ڈھکوسلہ دیتے ہیں ناں کہ وحید الزمان ہمارا نہیں تھا ،ان ڈھکوسلوں کی حقیقت مولانا امین صفدر اوکاڑوی رحمۃ اللہ علیہ سالوں پہلے کرچکے تھے اور اک مزے کی بات مسٹڑ شاہد نزیر کوئی حدیث ایسی پیش کردیں کہ جس میں ہو کہ جھوٹے کذاب اور دجال شخص کی گواہی اپنے حق میں پیش کردیا کرو؟
اس سے بڑا دجل اور فریب اور ناجانے کیا کیا ، کیا ہوگا کہ مسٹر شاہد نزیر خود ہی ایک بندے کو جھوٹا کہتے ہیں اور خود ہی اس کی گواہی کو اپنے حق میں لاکر پھولا نہیں سماتے۔
امین اوکاڑوی کی اہل حدیث کے حق میں گواہی
شکریہ
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top