lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
بہشتی زیور --- اشرف علی تھانوی --- بہشتی زیور کا خود ساختہ اسلام / نجس چیز کو چاٹنا
ایک اعتراض بار بار کیا جاتا ہے کہ اگر انگلی پر نجاست لگي ہو اور کوئي اس کو چاٹ لے تو فقہ حنفی کہتی ہے انگلی پاک ہوجائے گي
اس پر بعض افراد یہ اعتراض کرتے ہیں کہ فقہ حنفی کتنی گندی ہے کہتی کہ اگر انگلی پر نجاست لگی ہو تو اس کو چاٹ کر پاک کیا جاسکتا ہے ، یہ صرف ان جھلاء کی فقہ حنفی سے ناسمجھی کا نتیجہ ہے
اگر کوئی اپنی بیوی سے دبر سے جماع کرے اور بعد میں مقتی صاحب سے پوچھے کہ کیا مجھ پر غسل فرض ہے تو یقیقنا مفتی صاحب کہیں گے کہ غسل فرض ہو گيا ہے اس یہ اگر کوئي جاہل یہ نتیجہ نکالے کہ مفتی صاحب کے نذدیک دبر سے جماع کرنا جائز ہے تو اس کی جہالت پر سر ہی پیٹا جائے گا
فقہ حنفی نجاست چاٹنے کو برا عمل سمجتھی ہے لیکن اگر کو پاگل یا غیر عاقل بچہ ایسا کرلے تو کیا انگلی پاک سمجھی جائے گي یا نہیں تو فقہ حنفی کہتی پاک سمجھی جائے گي
مثلا اگر کسی پاگل کے ہاتھ نجاست ہو اور وہ اس کو چاٹنے کے بعد کسی پانی میں انگلی ڈال دے تو کیا پانی پاک سمجھا جائے گا فقہ حنفی کہتی ہے کہ اگر چہ نجاست چاٹنا غلط کام ہے لیکن چاٹنے سے انگلی پاک ہوجاگی اور اس پانی کو پاک سمجھا جائے
یا جیسے اشرف علی تھانوي نے بہشتی زیور میں لکھا ہے کہ اگر بچہ دودھ پیتے ہوئے ماں کے پستان پر قے کردے اور پھر اس کو چوس بھی لے تو کیا ماں کو اپني چھاتی دھونے کی ضرورت ہے یا نہیں تو چوں کہ نجاست چاٹنے سے پاک ہوجاتی ہے تو ماں کو اپنی چھاتی دھونے کی ضرورت نہیں
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا تھوک سے پاکی ہوجاتی ہے
احناف کا موقف وہی ہے کہ پانی کے بجائے کسی اور چیز سے اگر نجاست کا ازالہ ہوجائے تو وہ چیز پاک ہوجائے گي ،
دلیل
إذا جاء أحدكم إلى المسجد فلينظر فإن رأى في نعليه قذراً أو أذى فليمسحه وليصل فيهما. رواه أبو داود وصححه الألباني.
یہاں نجاست کو پانی سے دھونے کا نہیں کہا جارہا بلکہ نجاست کے ازالہ کے لئيے اس کے ازالہ کو کافی کہا جا رہا ہے تو تھوک سے بھی اگر نجاست کا ازالہ ہوجائے تو وہ چیز پاک سمجھی جائے گي
تھوک سے پاکی ایک بہترین اور واضح دلیل بخاری سے
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ مَا كَانَ لإِحْدَانَا إِلاَّ ثَوْبٌ وَاحِدٌ تَحِيضُ فِيهِ، فَإِذَا أَصَابَهُ شَىْءٌ مِنْ دَمٍ، قَالَتْ بِرِيقِهَا فَقَصَعَتْهُ بِظُفْرِهَا
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن نافع نے بیان کیا ، انھوں نے عبداللہ ابن ابی نجیح سے ، انھوں نے مجاہد سے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہمارے پاس صرف ایک کپڑا ہوتا تھا ، جسے ہم حیض کے وقت پہنتے تھے ۔ جب اس میں خون لگ جاتا تو اس پر تھوک ڈال لیتے اور پھر اسے ناخنوں سے مسل دیتے ۔
حنفی نہیں کسی کی بھی انگلی کے ساتھ پّاخانہ لگ جائےاگر کسی حنفی کی انگلی کے ساتھ پاخانہ لگ جا ے
یہ چاٹنا ایک غلیظ عمل ہے اور صرف مجنون یا دیوانہ یا پاگل یا غیر عاقل بچہ ہی کرسکتا ہےاور وہ پاخانہ کو چاٹ لے
تھوک سےپاکی حاصل ہوجاتی ہے اس بات کو اوپر احادیث کی روشنی میں بتایا گیا ہے ، دلائل سے بات کرسکتے ہیں تو کریں ، جذباتت سے نہیںتو کیا اس کی انگلی پاک ھو جا ے گی
آپ کے حسن تدبیر پہ لاحول ولا قوۃ ہی پڑھا جاسکتا ہے ۔چوری اور سینہ زوریحنفی نہیں کسی کی بھی انگلی کے ساتھ پّاخانہ لگ جائے
یہ چاٹنا ایک غلیظ عمل ہے اور صرف مجنون یا دیوانہ یا پاگل یا غیر عاقل بچہ ہی کرسکتا ہے
تھوک سےپاکی حاصل ہوجاتی ہے اس بات کو اوپر احادیث کی روشنی میں بتایا گیا ہے ، دلائل سے بات کرسکتے ہیں تو کریں ، جذباتت سے نہیں
میرے نزدیک اسلام کے سب سے بڑے اور خطرناک دشمن یہودیوں کے بعد یہی حنفی ہیں جو پرلے درجے کے منافق ہیں اسلام کے لبادے میں اسلام کی جڑوں کو کاٹنے میں لگے ہوئے ہیں کل بھی اور آج بھی۔ تلمیذ صاحب آپ کی اس جراءت اور اپنی فقہ کی گندگی اور بے حیائی کو صحابہ پر تھوپنے کے شرمناک عمل پر میرا دل چاہ رہا ہے کہ آپکی شایان شان آپکی تواضع کروں لیکن فورم کے قوانین سے مجبور ہوں۔جیسے اشرف علی تھانوي نے بہشتی زیور میں لکھا ہے کہ اگر بچہ دودھ پیتے ہوئے ماں کے پستان پر قے کردے اور پھر اس کو چوس بھی لے تو کیا ماں کو اپني چھاتی دھونے کی ضرورت ہے یا نہیں تو چوں کہ نجاست چاٹنے سے پاک ہوجاتی ہے تو ماں کو اپنی چھاتی دھونے کی ضرورت نہیں
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا تھوک سے پاکی ہوجاتی ہے
احناف کا موقف وہی ہے کہ پانی کے بجائے کسی اور چیز سے اگر نجاست کا ازالہ ہوجائے تو وہ چیز پاک ہوجائے گي ،
دلیل
إذا جاء أحدكم إلى المسجد فلينظر فإن رأى في نعليه قذراً أو أذى فليمسحه وليصل فيهما. رواه أبو داود وصححه الألباني.
یہاں نجاست کو پانی سے دھونے کا نہیں کہا جارہا بلکہ نجاست کے ازالہ کے لئيے اس کے ازالہ کو کافی کہا جا رہا ہے تو تھوک سے بھی اگر نجاست کا ازالہ ہوجائے تو وہ چیز پاک سمجھی جائے گي
تھوک سے پاکی ایک بہترین اور واضح دلیل بخاری سے
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ مَا كَانَ لإِحْدَانَا إِلاَّ ثَوْبٌ وَاحِدٌ تَحِيضُ فِيهِ، فَإِذَا أَصَابَهُ شَىْءٌ مِنْ دَمٍ، قَالَتْ بِرِيقِهَا فَقَصَعَتْهُ بِظُفْرِهَا
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن نافع نے بیان کیا ، انھوں نے عبداللہ ابن ابی نجیح سے ، انھوں نے مجاہد سے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہمارے پاس صرف ایک کپڑا ہوتا تھا ، جسے ہم حیض کے وقت پہنتے تھے ۔ جب اس میں خون لگ جاتا تو اس پر تھوک ڈال لیتے اور پھر اسے ناخنوں سے مسل دیتے ۔
ہم جو الفاظ بولتے ہیں یا جو الفاظ لکھتے ہیں ان کو لکھنے والے موجود ہیں اور ان الفاظ کے قائلین کا احتساب قیامت کے روز ہوگا اس لئيے آپ کی حنفی مسلک پر اور بین السطور مجھ پر جو کچھ آپ نے کہا اس کا معاملہ اسی اخروی احتساب پر چھوڑتے ہیںمیرے نزدیک اسلام کے سب سے بڑے اور خطرناک دشمن یہودیوں کے بعد یہی حنفی ہیں جو پرلے درجے کے منافق ہیں اسلام کے لبادے میں اسلام کی جڑوں کو کاٹنے میں لگے ہوئے ہیں کل بھی اور آج بھی۔ تلمیذ صاحب آپ کی اس جراءت اور اپنی فقہ کی گندگی اور بے حیائی کو صحابہ پر تھوپنے کے شرمناک عمل پر میرا دل چاہ رہا ہے کہ آپکی شایان شان آپکی تواضع کروں لیکن فورم کے قوانین سے مجبور ہوں۔
کیا آپ بتانا پسند فرمائيں گے آپ حنفی فقہ کی کس عبارت سے یہ یقین ہوا کہ زبان کا استعمال شرط ہے اور معاملہ تھوک سے طھارت کا نہیںمحترم آپ نے جو انتہائی بے شرمی سے صحابہ کی دلیل دی ہے وہ آپکو مفید مطلب نہیں کیونکہ وہاں تھوک سے صفائی کی بات ہورہی ہے (بشرط صحت روایت) جب کہ آپکی فقہ میں ہر قسم کی گندگی جسم کے کسی بھی حصہ پر لگ جانے کی صورت میں اسے زبان سے تین مرتبہ چاٹ کر جسم کا وہ حصہ پاک کیا جاسکتا ہے۔ زبان سے ہر قسم کی گندگی چاٹنا اور خون پر تھوک پھینک کر اسے ناخنوں سے صاف کردینے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔فقہ حنفی میں صفائی کے لئے زبان کا استعمال شرط ہے ناکہ تھوک کا۔
میں نے صرف یہ کہا تھا کہ ایسا عمل کا صدور صرف پاگل یہ غیر عاقل بچہ سے ہونا ممکن ہےتلمیذ صاحب کا یہ فرمانا کہ گندگی چاٹنے کا یہ فتویٰ دیوانوں اور پاگلوں کے لئے ہے سراسر جھوٹ ہے اور اپنی جان چھڑانے کی خاطر یہ آپ کی باطل تاویل ہے کیونکہ بہشتی زیور میں اور اشرف علی تھانوی صاحب نے فقہ کی جس اصل کتاب سے اس ’’پاکیزہ مسئلہ‘‘ کو بہشتی زیور میں نقل کیا ہے اس میں بھی ایسی کوئی بات نہیں لکھی جس سے صاف ظاہر ہے کہ ہمہ اقسام کی نجاستیں چاٹنے کی یہ رعایت اور آسانی ہر صحت مند اور دماغی طور پر درست حنفی کے لئے ہے۔ میرے نزدیک ابوحنیفہ کے مذہب کی یہ آسانی اس وقت کے لئے ہے جب حنفی کو پانی میسر نہ ہو اور اسے بدن یا جسم کے کسی بھی حصہ کی پاکی بھی مطلوب ہو تو وہ بے دھڑک جسم پر لگی ہوئی نجاست اپنی زبان مبارک سے چاٹ سکتا ہے یہ دیکھے بغیر کہ وہ کس قسم کی نجاست ہے جسے وہ چاٹ رہا ہے لیکن پاکی شرطیہ حاصل ہوجائے گی۔
اس الزام کی دلیل چاھئیے ورنہ یہ صرف ایک دیوانہ کی بھڑک کہلائے گیمیرے نزدیک ابوحنیفہ کے مذہب کی یہ آسانی اس وقت کے لئے ہے جب حنفی کو پانی میسر نہ ہو اور اسے بدن یا جسم کے کسی بھی حصہ کی پاکی بھی مطلوب ہو تو وہ بے دھڑک جسم پر لگی ہوئی نجاست اپنی زبان مبارک سے چاٹ سکتا ہے
آپ مجھے صرف یہ بتادیں کہ کیا اہل حدیث فقہ کے میں اس مسئلہ کا جواب موجود ہے کہ اگر کوئی پاگل نجاست زدہ انگلی کو چاٹ کر پانی میں انگلی ڈالے تو کیا وہ پانی پاک ہو گا یا نہیں ، یا اہل حدیث ایک نا مکمل فقہ ہے ؟؟؟؟ ایسی نا مکمل فقہ کس کام کی جو ادھوری ہو !!!حنفی فقہاء یہ بتانا بھول گئے کہ زبان سے نجاست چاٹنے سے جسم کا کوئی بھی حصہ پاک تو ہو جائے گا لیکن اس عمل سے زبان جو ناپاک ہوجائے گی اسے کیسے پاک کیا جائے گا۔ کیا اس شخص کو اپنی گندی زبان کسی اور سے چٹوانی پڑے گی؟
کیا کسی مسئلہ کا شرعی حل بتانے کے لئيے آپ حضرات کے مفتی حضرات پہلے اس مسئلہ پر عمل کرتے ہیں پھر فتوی دیتے ہیں ، جو لوگ فقہاء پر اعتراض کرتے ان کی عقل ایسی ہی سلب ہوجاتی ہےایک سوال یہ بھی ہے کہ حنفی فقہاء کو کیسے پتا چلا کہ ہرقسم کی گندگی زبان سے چاٹنے سے دور ہو جاتی ہے اور جسم کا وہ حصہ پاک ہوجاتا ہے کیا اس مسئلہ کو فقہ میں درج کرنے سے پہلے حنفیوں کی قانون ساز کمیٹی کے ہر ممبر نے عملی طور پر ہر قسم کی نجاست کو اپنی زبان سے چاٹا ہوگا؟