ایک اعتراض بار بار کیا جاتا ہے کہ اگر انگلی پر نجاست لگي ہو اور کوئي اس کو چاٹ لے تو فقہ حنفی کہتی ہے انگلی پاک ہوجائے گي
اس پر بعض افراد یہ اعتراض کرتے ہیں کہ فقہ حنفی کتنی گندی ہے کہتی کہ اگر انگلی پر نجاست لگی ہو تو اس کو چاٹ کر پاک کیا جاسکتا ہے ، یہ صرف ان جھلاء کی فقہ حنفی سے ناسمجھی کا نتیجہ ہے
اگر کوئی اپنی بیوی سے دبر سے جماع کرے اور بعد میں مقتی صاحب سے پوچھے کہ کیا مجھ پر غسل فرض ہے تو یقیقنا مفتی صاحب کہیں گے کہ غسل فرض ہو گيا ہے اس یہ اگر کوئي جاہل یہ نتیجہ نکالے کہ مفتی صاحب کے نذدیک دبر سے جماع کرنا جائز ہے تو اس کی جہالت پر سر ہی پیٹا جائے گا
فقہ حنفی نجاست چاٹنے کو برا عمل سمجتھی ہے لیکن اگر کو پاگل یا غیر عاقل بچہ ایسا کرلے تو کیا انگلی پاک سمجھی جائے گي یا نہیں تو فقہ حنفی کہتی پاک سمجھی جائے گي
مثلا اگر کسی پاگل کے ہاتھ نجاست ہو اور وہ اس کو چاٹنے کے بعد کسی پانی میں انگلی ڈال دے تو کیا پانی پاک سمجھا جائے گا فقہ حنفی کہتی ہے کہ اگر چہ نجاست چاٹنا غلط کام ہے لیکن چاٹنے سے انگلی پاک ہوجاگی اور اس پانی کو پاک سمجھا جائے
یا جیسے اشرف علی تھانوي نے بہشتی زیور میں لکھا ہے کہ اگر بچہ دودھ پیتے ہوئے ماں کے پستان پر قے کردے اور پھر اس کو چوس بھی لے تو کیا ماں کو اپني چھاتی دھونے کی ضرورت ہے یا نہیں تو چوں کہ نجاست چاٹنے سے پاک ہوجاتی ہے تو ماں کو اپنی چھاتی دھونے کی ضرورت نہیں
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا تھوک سے پاکی ہوجاتی ہے
احناف کا موقف وہی ہے کہ پانی کے بجائے کسی اور چیز سے اگر نجاست کا ازالہ ہوجائے تو وہ چیز پاک ہوجائے گي ،
دلیل
إذا جاء أحدكم إلى المسجد فلينظر فإن رأى في نعليه قذراً أو أذى فليمسحه وليصل فيهما. رواه أبو داود وصححه الألباني.
یہاں نجاست کو پانی سے دھونے کا نہیں کہا جارہا بلکہ نجاست کے ازالہ کے لئيے اس کے ازالہ کو کافی کہا جا رہا ہے تو تھوک سے بھی اگر نجاست کا ازالہ ہوجائے تو وہ چیز پاک سمجھی جائے گي
تھوک سے پاکی ایک بہترین اور واضح دلیل بخاری سے
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ مَا كَانَ لإِحْدَانَا إِلاَّ ثَوْبٌ وَاحِدٌ تَحِيضُ فِيهِ، فَإِذَا أَصَابَهُ شَىْءٌ مِنْ دَمٍ، قَالَتْ بِرِيقِهَا فَقَصَعَتْهُ بِظُفْرِهَا
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن نافع نے بیان کیا ، انھوں نے عبداللہ ابن ابی نجیح سے ، انھوں نے مجاہد سے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہمارے پاس صرف ایک کپڑا ہوتا تھا ، جسے ہم حیض کے وقت پہنتے تھے ۔ جب اس میں خون لگ جاتا تو اس پر تھوک ڈال لیتے اور پھر اسے ناخنوں سے مسل دیتے ۔
بھائی جان اللہ آپ کو ہدایت دے فقہ حنفی کی کتابوں میں تو آپ نے مطلق لکھا ہے کہ کسی بھی نجاست کو چاٹ لیا جائے تو وہ حصہ صاف ہو جائے گا لیکن آپ تو اس کو مقید کر رہے ہیں منیۃ المصلی میں لکھا ہے :
وکذا اذا شرب الخمر ثم صلی بعد زمان وکذا اذااصاب بعض اعضائہ نجاسۃ فطھرھا بلسانہ حتی ذھب اثرھا وکذا السکین اذا تنجس فلحسہ بلسانہ اومسحہ بریقہ وکذا الصبی اذا قاء علی ثدی الامام ثم مص الثدی مرارا یطھر انتھی وکذا فی غیرھا والذی تقتضیہ القواعد المذھبیۃ من تحریر الکلام فی ھذا المقام انہ اذا اصاب بعض اعضائہ نجاسۃ حقیقیۃ فان کانت مرئیۃ ولحسھا ھو اوغیرہ حتی ذھب عینھا واثرھا ان کان لایشق زوالہ یطھر وان کانت غیر مرئیۃ فتطھر باللحس ثلاث مرات
اس طرح جب شراب پی پھر کچھ دیر بعد نماز پڑھی یوں ہی جب اس کے بعض اعضا پر نجاست لگی اور اس نے اس کو اپنی زبان سے پاک کردیا یہاں تک کہ اس کا اثر چلاگیا اسی طرح جب چھُری ناپاک ہوگئی پھر اس نے اسے زبان سے چاٹا یا تھوک سے صاف کیا یوں ہی جب بچّے نے ماں کے پستان پر قے کی پھر کئی بار پستان کو چُوسا تو وہ پاک ہوجائے گا انتہی۔ دوسری کتب میں بھی اسی طرح ہے۔
قواعدِ مذہبیہ اس مقام پر جس کلام کے تحریر کے متقاضی ہیں وہ یہ ہیں کہ جب کسی عضو پر نجاستِ حقیقی لگ جائے تو اگر وہ دکھائی دینے والی ہے اور اس نے یا کسی دوسرے نے اس کو چاٹ لیا یہاں تک کہ اصل نجاست اور اس کا اثر زائل ہوگیا۔ اگر اس کو دُور کرنے میں مشقّت نہ ہو تو پاک ہوجائے گا، اور اگر وہ نجاست دکھائی نہیں دیتی تو تین بار چاٹنے سے پاک ہوجاتی ہے
آج تک آپ نے کبھی مانا ہے کہ آپ غلطی پر ہیں ؟ کیا آپ اس آیت سے نا واقف ہیں :
فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا
کیا تمہارا نجاست کو چاٹنا اس آیت کی خلاف ورزی نہیں ہے اور آپ باربار پاگل اور بچے کی بات کرتے ہیں تو یہ دونون شریعت کے مکلف نہیں کیا فقہ حنفی صرف غیر مکلفین کے لیے ہے کیا نجاست کو دور کرنےکے لیے صرف زبان ہی رہ گئی ہے
حلقہ شوق میں وہ جرات اندیشہ کہاں
آہ محکومی و
تقلید و زوال تحقیق!
خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق!