• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اشماریہ شاہ۔ تعارف

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
اہلا و سہلا ۔
اشماریہ بھائی اپنے نام کا معنی واضح کرنا پسند فرمائیں گے ؟

بھائی یہ صرف نک نیم یا قلمی نام ہے۔ اشتیاق احمد کے ایک ناول سے ماخوذ ہے۔ اس لیے معنی مجھے بھی نہیں معلوم۔
انٹرنیٹ پر ہر جگہ یہی نام استعمال کرتا ہوں۔
ویسے اب یہ سوال بہت عام ہو گیا ہے اس لیے سوچ رہا ہوں کہ اپنا اصلی نام ڈیسکرپشن میں لکھ دیا کروں ہر جگہ پر۔
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
نام: اشماریہ
مقام: کراچی
پیشہ: طالب علم
مسلک: پیروکار علمائے احناف (کثر اللہ سوادہم)
ایک معتدل سوچ رکھنے والا مبتدی طالب علم کہا جا سکتا ہے۔
علمائے احناف کو فالو کرتا ہوں لیکن دیگر کو سراسر غلط نہیں کہتا اس لیے بعض جگہ احناف کے کسی مسئلہ کے خلاف بھی رائے رکھتا ہوں۔
محدث فورم کا آزادانہ بحث کا دعوی اچھا لگا۔ دیکھتے ہیں یہ کتنی آزاد فورم ہے۔ اللہ پاک برکت دے۔
فی الوقت وقت کی کمی کی وجہ سے فورم کا مکمل جائزہ نہیں لے سکتا۔ انشاء اللہ جلد۔


 

محمد شاہد

سینئر رکن
شمولیت
اگست 18، 2011
پیغامات
2,510
ری ایکشن اسکور
6,023
پوائنٹ
447
ﻓﻮﺭﻡ ﭘﺮ ﺧﻮﺵ ﺁﻣﺪﯾﺪ ﺑﮭﺎﺋﯽ۔
آپ نے اشماریہ کا معنی جانے بغیر ہی نام رکھ لیا ؟؟؟
حالانکہ اس کا معنی کچھ بھی ہوسکتا ہے.
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
جو مطلب آپ نے بتایا۔ وہ نہیں بنتا۔ اس کی تصحیح فرما لیں۔ انشاء کو اگر مصدر مان لیں تو اصل یہ ہے کہ اس کی اضافت فاعل کی طرف ہو جب کہ فاعل لفظوں میں موجود بھی نہیں ہے۔ اور عقلا بھی اللہ اسم جلالہ مفعول کے بجائے فاعل ہی بنتا ہے۔ مطلب ہوگا: اللہ کا پیدا کرنا۔
"اللہ کو پیدا کرنا" یہ صرف ایک احتمال ہے۔
جناب یہ بتائیں کہ کیا اس حدیث میں فاعل موجود ہے ؟ کیا فاعل کے ذکر کے بغیر مفعولی معنی نہیں ہو سکتا ؟اور آپ کی کی ترکیب کے مطابق یہاں مفعول کا ہونا ضروری ہے اور مفعول کا ذکر نہیں ہے اس حدیث پر غور کریں :​
سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ وَقِتَالُهُ کُفْرٌ.
اور دوسری بات یہ ہے کہ انشاء میں موجود ہمزہ پر آپ زبر پڈھ رہے ہیں جب کہ کوئی عامل بھی موجود نہیں ہے اور یاد رکھیں کہ یہ مستشرقین کی شرارت ہے جو مسلمانوں مین عام کی جا رہی ہے اور مسلمان اس بات سے غافل ہیں اور یہ سارا معاملہ اسلام سے دشمنی اور تعصب کی وجہ سے ہے وگرنہ یہ لفظ پہلے اپنی اصلی شکل میں ہی موجود ہے جناب مفتی نعمان حنفی صاحب لکھتے ہیں :​
ان شرطیہ کو فعل کے ساتھ ملا کر عرب و عجم میں کہیں بھی نہیں لکھا جاتا تھا۔ قرآن و احادیث اور عربی زبان میں تحریر (14) سو سالہ کتابوں میں الگ الگ ہی لکھا گیا ہے۔ لیکن اب عرب و عجم میں یہ ان شرطیہ کو شاء فعل کے ساتھ ملا کر لکھنے کی خطا بہت عام ہو گئی ہے۔ عرب ممالک کی ویب سائٹ اور غیر محتاط طرز کتابت کا یہ عنصر عجم میں خصوصا پاکستان و ہندستان میں بہت پھیل گیا ہے۔ درست رسم الخط ان شاء اللہ ہی ہے۔ انشاء اللہ لکھنا ہرگز ہرگز درست نہیں ہے۔ ایسا لکھنے سے اجتناب کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے کیونکہ اس طرز کتابت سے جو معنی بنتے ہیں وہ کفر ہیں۔​
وہ مزید لکھتے ہیں:​
ہم ان شرطیہ کو جب شاء فعل سے ملا کر لکھیں گے تو معنی کفر کی طرف چلے جائیں گے اور ان شاء اللہ کہنے کا مقصد فوت ہو جائے گا بجائے مشیئت و ارادے کہ اس کا معنی کچھ اس طرح ہوجائے گا۔ انشاء اللہ ای کاننا نقول اننا اوجدنا اللہ (العیاذ باللہ) یعنی ہم نے اللہ کو ایجاد کیا پیدا کیا۔ ان شاء کا معنی مشیئت الہی اور ارادہ ہے جب کہ انشاء کا معنی پیدا کرنا ایجاد کرنا ہے۔ ان کو شاء کہ ساتھ ملا کر لکھنے میں اتنے سخت قبیح معنی بنتے ہیں لہذا اس طرز کتابت سے اجتناب تمام مسلمانوں پر لازم ہے​
اس طرح عرب لوگوں نے بھی اس کا یہی معنی مراد لیا ہے :​

فإن لفظ: (إن شاء) في الاستثناء بكلمة: (إن شاء الله) يختلف عن لفظ (إنشاء) في الصورة والمعنى.​
أما الصورة، فإن الأول منهما عبارة عن كلمتين: أداة الشرط (إن)، وفعل الشرط (شاء). والثاني منهما كلمة واحدة.
أما المعنى، فإن الأول منهما يؤتى به لتعليق أمر ما على مشيئة الله تعالى، والثاني منهما معناه الخلق كما ذكر السائل، فتبين بهذا أن الصحيح كتابتها (إن شاء الله)، وأنه من الخطأ الفادح كتابتها كلمة واحدة (إنشاء الله) فليتنبه.

فمن هذا لو كتبنا (إنشاء الله) يعني: اننا نقول والعياذ بالله إننا أوْجَدْنا الله تعالى شأنه عز وجل، وهذا غير صحيح كما عرفنا..
لہذا آپ اپنے معنی پر غور و فکر کریں
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
بھائی یہ صرف نک نیم یا قلمی نام ہے۔ اشتیاق احمد کے ایک ناول سے ماخوذ ہے۔ اس لیے معنی مجھے بھی نہیں معلوم۔
انٹرنیٹ پر ہر جگہ یہی نام استعمال کرتا ہوں۔
ویسے اب یہ سوال بہت عام ہو گیا ہے اس لیے سوچ رہا ہوں کہ اپنا اصلی نام ڈیسکرپشن میں لکھ دیا کروں ہر جگہ پر۔

ہاہاہاہا۔۔۔
نام کے ساتھ ساتھ بات بھی خوب کی۔۔۔۔۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
جناب یہ بتائیں کہ کیا اس حدیث میں فاعل موجود ہے ؟ کیا فاعل کے ذکر کے بغیر مفعولی معنی نہیں ہو سکتا ؟اور آپ کی کی ترکیب کے مطابق یہاں مفعول کا ہونا ضروری ہے اور مفعول کا ذکر نہیں ہے اس حدیث پر غور کریں :​
سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ وَقِتَالُهُ کُفْرٌ.
اور دوسری بات یہ ہے کہ انشاء میں موجود ہمزہ پر آپ زبر پڈھ رہے ہیں جب کہ کوئی عامل بھی موجود نہیں ہے اور یاد رکھیں کہ یہ مستشرقین کی شرارت ہے جو مسلمانوں مین عام کی جا رہی ہے اور مسلمان اس بات سے غافل ہیں اور یہ سارا معاملہ اسلام سے دشمنی اور تعصب کی وجہ سے ہے وگرنہ یہ لفظ پہلے اپنی اصلی شکل میں ہی موجود ہے جناب مفتی نعمان حنفی صاحب لکھتے ہیں :​
ان شرطیہ کو فعل کے ساتھ ملا کر عرب و عجم میں کہیں بھی نہیں لکھا جاتا تھا۔ قرآن و احادیث اور عربی زبان میں تحریر (14) سو سالہ کتابوں میں الگ الگ ہی لکھا گیا ہے۔ لیکن اب عرب و عجم میں یہ ان شرطیہ کو شاء فعل کے ساتھ ملا کر لکھنے کی خطا بہت عام ہو گئی ہے۔ عرب ممالک کی ویب سائٹ اور غیر محتاط طرز کتابت کا یہ عنصر عجم میں خصوصا پاکستان و ہندستان میں بہت پھیل گیا ہے۔ درست رسم الخط ان شاء اللہ ہی ہے۔ انشاء اللہ لکھنا ہرگز ہرگز درست نہیں ہے۔ ایسا لکھنے سے اجتناب کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے کیونکہ اس طرز کتابت سے جو معنی بنتے ہیں وہ کفر ہیں۔​
وہ مزید لکھتے ہیں:​
ہم ان شرطیہ کو جب شاء فعل سے ملا کر لکھیں گے تو معنی کفر کی طرف چلے جائیں گے اور ان شاء اللہ کہنے کا مقصد فوت ہو جائے گا بجائے مشیئت و ارادے کہ اس کا معنی کچھ اس طرح ہوجائے گا۔ انشاء اللہ ای کاننا نقول اننا اوجدنا اللہ (العیاذ باللہ) یعنی ہم نے اللہ کو ایجاد کیا پیدا کیا۔ ان شاء کا معنی مشیئت الہی اور ارادہ ہے جب کہ انشاء کا معنی پیدا کرنا ایجاد کرنا ہے۔ ان کو شاء کہ ساتھ ملا کر لکھنے میں اتنے سخت قبیح معنی بنتے ہیں لہذا اس طرز کتابت سے اجتناب تمام مسلمانوں پر لازم ہے​
اس طرح عرب لوگوں نے بھی اس کا یہی معنی مراد لیا ہے :​

فإن لفظ: (إن شاء) في الاستثناء بكلمة: (إن شاء الله) يختلف عن لفظ (إنشاء) في الصورة والمعنى.​
أما الصورة، فإن الأول منهما عبارة عن كلمتين: أداة الشرط (إن)، وفعل الشرط (شاء). والثاني منهما كلمة واحدة.
أما المعنى، فإن الأول منهما يؤتى به لتعليق أمر ما على مشيئة الله تعالى، والثاني منهما معناه الخلق كما ذكر السائل، فتبين بهذا أن الصحيح كتابتها (إن شاء الله)، وأنه من الخطأ الفادح كتابتها كلمة واحدة (إنشاء الله) فليتنبه.

فمن هذا لو كتبنا (إنشاء الله) يعني: اننا نقول والعياذ بالله إننا أوْجَدْنا الله تعالى شأنه عز وجل، وهذا غير صحيح كما عرفنا..
لہذا آپ اپنے معنی پر غور و فکر کریں

اس مدلل جواب پر اللہ پاک آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
لیکن۔۔۔۔
حدیث مبارکہ میں دونوں احتمال ہیں۔
اول یہ کہ یہ فاعل ہی ہو اور مفعول محذوف ہو قرینہ عقلیہ کی وجہ سے۔ جیسا کہ ترمذی کی حدیث میں مفعول مذکور ہے۔

قتال المسلم أخاه كفر، وسبابه فسوق
ترمذی 5۔21، شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر
دوم یہ کہ یہ مفعول ہو اور فاعل عقلی قرینہ کی بنا پر محذوف ہو کیوں کہ ہر سننے والا فاعل فورا اخذ کرلے گا۔ لیکن اس کی بنسبت انشاءاللہ میں عقلی طور پر فاعل اللہ اسم جلالہ بنتا ہے کیوں کہ انشاء (ایجاد) اسی کا فعل ہے۔ اور اگر مفعول مانیں تو فاعل پھر دماغ میں کیا آئے گا؟؟؟ کچھ بھی نہیں۔ فعل معروف میں میں نے ایسا استعمال آج تک نہیں دیکھا۔
(متکلم کی ضمیر نہ لفظوں میں موجود ہے نہ نیت میں اور نہ ہی عام مستعمل ہے۔ میں نہیں جانتا کہ مفتی صاحب نے یہ کیوں اختیار کی ہے۔ واللہ اعلم)
درست رسم الخط ان شاء اللہ ہی ہے لیکن کلمہ کفر کے بارے میں مفتی صاحب کی اپنی رائے ہے یہ۔ میں چوں کہ اپنی بات پر دلیل بھی رکھتا ہوں (جو پیش کر دی) اس لیے اس رائے سے اتفاق نہیں رکھتا۔
آخر جب کفر کے بارے میں فقہاء کرام کا ضابطہ یہ ہے کہ ننانوے احتمالاتِ کفر کو رد اور ایک احتمالِ اسلام کو قبول کیا جائے گا تو پھر اسے کلمہ کفر کیوں کہا جائے؟ جب کہ یقین ہو کہ اس لفظ سے قائل کا کفریہ احتمال کا عقیدہ بھی نہیں ہے۔
البتہ چوں کہ احتمال موجود ہے کفر کا اس لیے انتہائی احتیاط ہی مناسب ہے۔
واللہ اعلم۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
ﻓﻮﺭﻡ ﭘﺮ ﺧﻮﺵ ﺁﻣﺪﯾﺪ ﺑﮭﺎﺋﯽ۔
آپ نے اشماریہ کا معنی جانے بغیر ہی نام رکھ لیا ؟؟؟
حالانکہ اس کا معنی کچھ بھی ہوسکتا ہے.

شاہد بھائی یہ شاید "ماریہ" اور "اش" کا مرکب ہے۔
ویسے مکمل مہمل ہے۔ میں جب نیا نیا نیٹ استعمال کر رہا تھا تو ایک جگہ اکاؤنٹ بناتے وقت نام پہلے سے موجود ہونے کی تنبیہ لکھی آرہی تھی۔ میں اس وقت چھوٹا تھا اور اشتیاق احمد کے ناولز پڑھتا تھا۔ اس میں ایک مجرمہ کا نام تھا۔ میں نے تنگ آ کر یہی رکھ لیا۔ پھر بعد میں اتنا استعمال ہوا کہ ہر جگہ یہی لکھنے لگا۔ کسی اور کا ایسا نام نہیں ہوتا اس لیے مجھے اکاؤنٹ بنانے میں مسئلہ نہیں ہوتا۔
 
شمولیت
ستمبر 06، 2013
پیغامات
44
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
20
اھلا و سھلا

اشماریہ بھائی اگر اور جب آپ مناسب سمجھیں تو ان مسائل سے ہمیں بھی آگاہ کریں جن میں آپ حنفیہ کی اتباع یا تقلید نہیں کرتے- اور آپ کس مدرسے میں زیر تعلیم ہیں ؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اھلا و سھلا

اشماریہ بھائی اگر اور جب آپ مناسب سمجھیں تو ان مسائل سے ہمیں بھی آگاہ کریں جن میں آپ حنفیہ کی اتباع یا تقلید نہیں کرتے- اور آپ کس مدرسے میں زیر تعلیم ہیں ؟

میں جامعۃ الرشید میں زیر تعلیم ہوں۔
ایسی کوئی لسٹ تو موجود نہیں ہے بھائی۔ البتہ جہاں میں الگ رائے رکھتا ہوں کسی دلیل کی بنا پر تو اس کا اظہار کر دیتا ہوں۔ عموما ایسا کسی جزئی مسئلہ میں مفتیان کرام کے فتاوی کے بارے میں ہی ہوتا ہے جیسے آپ اوپر ان شاء اللہ کے لفظ میں دیکھ سکتے ہیں۔
میں اتنا تبحر علمی تو رکھتا نہیں کہ کسی مضبوط فقہی روایت کو یکسر رد کر دوں۔ البتہ ائمہ کی آراء میں سے جو مناسب سمجھتا ہوں اسے قبول کر لیتا ہوں۔ چاہے وہ ائمہ احناف کے ہوں یا ان کے علاوہ۔
اس کے علاوہ اپنے بعض اساتذہ کی تربیت کے موافق تطبیق کر لیتا ہوں مختلف آراء میں۔
مثال کے طور پر عورتوں کو مسجد جانے سے بالکلیہ منع کرنے کو میں درست نہیں سمجھتا اس زمانے میں۔ وہ علت جو عمر رض کے زمانے میں تھی وہ شاید اب باقی نہیں رہی۔ البتہ گھر میں نماز ادا کرنے کو بہتر سمجھتا ہوں لیکن گاہے گاہے مسجد آنا چاہیے۔ یہ ان کی تربیت کے لیے بہت اہم ہوگا۔ مکمل تحقیق ابھی اس مسئلہ میں نہیں ہے۔
اسی طرح نماز میں آمین بالجہر اور بالسر کے مسئلہ میں لازم کسی ایک کو بھی قرار نہیں دیتا اور یہ رائے رکھتا ہوں کہ اگر اس طرح کہی جائے کہ قریب والے سن لیں اور دور والوں کو آواز نہ آئے تو تمام احادیث پر عمل ہو جاتا ہے۔ لازم نہیں سمجھتا اور عمل بھی بالسر پر ہی ہے عموما۔
اسی طرح رفع یدین وغیرہ کے ترک کو اولی اور ادا کو جائز اور موافق حدیث سمجھتا ہوں۔ اور یہ رائے رکھتا ہوں کہ یہ بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت ہے لہذا کبھی کبھار ضرور کرنا چاہیے۔ یہ میرے اساتذہ کی بھی رائے ہے۔
البتہ اس سب کے باوجود کبھی کسی مسلک کے عالم کو بے وقوف نہیں سمجھتا جو صحیح احادیث کی موجودگی میں اس کے خلاف فتوی دے۔ اسی وجہ سے جب تحقیق کرنے بیٹھوں تو اکثر اوقات مضبوط دلائل مل جاتے ہیں۔
اسی لیے میرا یہ تجربہ ہے کہ احناف کے پاس اپنی بات کے لیے مضبوط دلائل ہوتے ہیں اگر چہ وہ عام لوگوں کو معلوم نہ ہوں۔ فقہ کی حقیقت دراصل ایک ہی بات کو دو مختلف طریقے سے سمجھنا ہے۔ ظاہر ہے ہر کسی پر وہی لازم ہوگا جسے وہ سمجھے گا۔ مسئلہ تب ہوتا ہے جب مخالف کو سراسر رد کر دیا جائے اور اپنے مذہب پر تعصب کے ساتھ جما جائے۔
اہل حدیث بھائیوں میں بہت سوں سے یہی شکایت مجھے رہی ہے اور مقلدین میں کثیر سے بھی۔
اگر آج کے دور کو اور صحابہ کے دور کو دیکھا جائے تو کافی فرق ملے گا۔
 
Top