• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصل بریلوی مسلک (بریلوی مسلک بریلوی علماء کی نظر میں)

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
حضرت امیر معاویہ کے دل میں حضور اکرم ﷺ کا احترام

اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی تحریر فرماتے ہیں کہ ایک صحابی عابس بن ربیع کی شباہت کچھ کچھ سرکار ﷺ سے ملتی تھی ، جب وہ( دمشق ) تشریف لاتے حضرت امیر معاویہ تخت سے سروقد ہو جاتے (یعنی نبی کریم ﷺ سے کچھ مشابہت کے احترام میں کھڑے ہو جاتے ، ناقل ) ( الملفوظ ج3ص 42)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
آخری چہار شنبہ (بدھ ) ماہ صفر کو حضور ﷺ کےمرض میں شدت آئی تھی

مسئلہ :40، 41 علماء دین متین وارثان حضور سیدالمرسلین علیہ الصلوۃ والسلام کا مسائل ذیل میں کیا ارشاد ہے ؟ ماہ صفر کے آخری چہار شنبہ کی نسبت جو یہ مشہور ہے کہ سیدعالمﷺنے اس میں غسل صحت فرمایا ، اس بناء پر تمام ہندوستانی مسلمان اس دن کو روز عید سمجھتے ہیں اورغسل واظہار فرح و سرور کرتے ہیں ، شرح مطہرہ میں اس کی کوئی اصل ہے یا نہیں ؟ المستفتى ابو المساكين ضياء الدين متوكن پیلی بھیت
جواب : یہ محض بے اصل ہے ۔(عرفان شریعت ج2 ص 42-43)

مسئلہ : کیا فرماتے ہیں علماء دین اس امر میں کہ ما ہ صفر کے آخری چہار شنبہ (بدھ) کے متعلق ، عوم میں مشہور ہے کہ اس روز رسول کریم ﷺ نے مرض سے صحت پائی تھی ، بنابریں اس روز کھانا و شیرینی وغیرہ تقسیم کرتےہیں اور جنگل کی سیر کو جاتے ہیں ۔ علی ہذا القیاس ......

مختلف جگہوں میں مختلف معمولات ہیں کہیں اس روز کونجس و نامبارک جان کر پرانے برتن گلی میں توڑ ڈالتے ہیں اور تعویذ و چھلہ چاندی اس روز کی صحت بخشی جناب رسول اللہﷺ مریضوں کو استعمال کراتے ہیں وغیرہ ، یہ جملہ امور بربنائے صحت پانے رسول اللہ ﷺ عمل میں لائے جاتے ہیں لہٰذا اصل اس کی شرح میں ثابت ہے یا کہ نہیں ؟ اور فاعل اور عامل اس کابر بنائے ثبوت یا عدم مرتکب معصیت ہو گا یا قابل ملامت وتادیب ؟
جواب: آخری چہار شنبہ ( ماہ صفر کے آخری بدھ ، کی کو ئی اصل نہیں نہ اس دن صحت پائی ، حضورسیدنا عالم ﷺ کا کوئی ثبوت بلکہ مرض اقدس جس میں وفات مبارک ہوئی اس کی ابتداء اسی دن سے بتائی جاتی ہے ...... اخر اربعاء من تشھر یوم نحش مستمر

اور مروی ہوا کہ ابتلائے سیدنا ایوب علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام اسی دن تھی اور اسے نحس سمجھ کر مٹی کےبرتنوں کو توڑ دینا گناہ و اضاعت مال ہے ، بہر حال یہ سب باتیں بالکل بے اصل و بے معنی ہیں ۔ واللہ سبحان ، وتعالیٰ اعلم ( احکام شریعت ج2ص 193، 194از : مولانا احمد رضا خاں بریلوی )

(کیا حضور ﷺ کے مرض الوفات کی شدت کے دن خوشی منانے والےعاشق رسول ﷺ کہلانے کے حقدار ہیں ؟ ناقل)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
مزاروں پر جانے والی عورتوں پر کس کس کی لعنت ؟

عرض کیا حضور اجمیر شریف میں خواجہ صاحب کے مزار پر عورتوں کا جانا جائز ہے یا نہیں ؟
(1)ارشاد فرمایا...... یہ نہ پوچھو کہ عورتوں کا مزارات پر جانا جائز یا نہیں بلکہ یہ پوچھو کہ اس عورت پر کس قدر لعنت ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور کس قدر صاحب قبر کی طرف سے ، جس وقت گھر سے ارادہ کرتی ہے لعنت شروع ہو جاتی ہے اور جب تک گھر واپس آتی ہے ملائکہ لعنت کرتے رہتے ہیں ، سوائے روضتہ انورﷺ کے کسی مزار پرجانےکی اجازت نہیں (ملفوظات اعلیٰ حضرت بریلوی ج2ص 124)

(2) مسئلہ : 27بزرگوں کے مزار پر عرسوں میں یا اس کے علاوہ عورتیں جاتی ہیں ، وہاں بیٹھتی ہیں تو اس میں ان کا ٹھہرنا جائز ہے یا نہیں ؟
جواب : عورتوں کو مزارات اولیاء و مقابر عوام (عام قبرستان ) دونوں پر جانے کی ممانعت ہے ۔(احکام شریعت ج1ص 90)

(3)سوال : کیا عورتوں کا قبرستان کو جانا جائز ہے ؟
فرمایا : ایسی بات میں جائز و ناجائز نہیں پوچھتے ، یہ پوچھو کہ جائے گی تو اس پرکتنی لعنت ہو گی ؟ خبردار جب وہ جانے کا ارادہ کرتی ہے ، اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں اور جب گھر سے چلتی ہے ہے ، سب طرف سے شیطان اسے گھیر لیتے ہیں اور قبر پر آتی ہے ، میت کی روح لعنت کرتی ہے اور جب لپٹتی ہے ، اللہ کی لعنت کے ساتھ پھرتی ہے ۔ ( السفیہ الانیقہ فی فتاوی افریقہ رضویہ پریس بریلی ص 167ناشر ادارہ نعیمیہ رضویہ موچی گیٹ لاہور ، رسائل السنہ )

(4)اس طرح عرض ہے کہ عورتوں کا وہاں پر جاناحرام ہے ، ناچ رنگ حرام ہے ۔ ( جاء الحق ص288)
(عورتوں کےمزرات پر جانے میں دوبڑے دنیاوی نقصانات عام دیکھنے میں آتے ہیں کیونکہ جاہل والدین عقیدت میں اندھے ہو کر عورتون کو مزارات پر جانے سے نہیں روکتے فوراً اجازت دے دیتے ہیں ، وہاں پر ان کی عاشق سے ملاقات طے ہوتی ہے ، دوسرے آج کل سرکش جنات کے ٹھکانے یہ مزارات ہی ہیں ، وہاں جانے کے بعد انہیں جن چمٹ جاتے ہیں اور مطالبہ یہ کرتے ہیں کہ اسے مزار پر بار بار یا پھر جمعرات کو بھیجو ، ناقل)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
آلات موسیقی والی قوالی ، نعت اور عرس کا گناہ کس پر ؟

مسئلہ :29ربیع الآخر شریف 1320ھ ، بعالی خدمت امام اہل سنت مجددین و ملت معروض کہ میں آج جس وقت سے رخصت ہوا اور واسطے نماز مغرب کے مسجد میں گیا ، بعد نماز مغرب کے ایک میرے دوست نے کہا ، چلو ایک جگہ عرس ہے ، میں چلا گیا، وہاں جا کر کیا دیکھتا ہوں ، بہت سے لوگ جمع ہیں اورقوالی اس طریقہ سے ہورہی ہے کہ ایک ڈھول ، دو سارنگی بج رہی ہیں اور چند قوال پیران پیر دستگیر کی شان میں اشعار کہ رہے ہیں اور رسول اللہﷺ کی نعت کے اشعار او راولیاء اللہ کی شان میں اشعار گا رہے ہیں اور ڈھول سارنگیاں بج رہی ہیں ، یہ باجے شریعت میں قطعی حرام ہیں ، کیا اس فعل سے رسول اللہﷺ اور اولیاء اللہ خوش ہوتے ہوں گے ؟ اور یہ حاضرین جلسہ گناہ گار ہوئے یا نہیں ؟ اور ایسی قوالی جائز ہے یا نہیں ؟ اور جائز ہے تو کس طرح کی ؟
جواب : ایسی قوالی حرام ہے ، حاضرین سب گناہ گار ہیں اور ان سب کا گناہ ایسا عرس کرنے والوں اور قوالوں پر ہے اور قوالوں کا بھی گناہ اس عرس کرنے والے پر بغیر اس کے کہ عرس کرنے والے کے ماتھے قوالوں کا گناہ جانے سے قوالوں پر سے گناہ کی کچھ کمی آئے یا اس کے اور قوالوں کے ذمہ حاضرین کا وبال پڑنے سے حاضرین کے گناہ میں کچھ تخفیف نہیں بلکہ حاضرین میں ہر ایک پر اپنا پورا گناہ اور قواتوں پر اپنا گناہ الگ اور سب حاضرین کے برابر جدا اور ایسا عرس کرانے والے پر اپنا گناہ الگ اور قوالوں کے برابر جدا اور سب حاضرین کے برابر علیحدہ وجہ یہ ہے کہ حاضرین کو عرض کرنےوالے نے بلایا ، ان کے لیے اس گناہ کا سامان پھیلایا اور قوالوں نے انہیں سنایا اگر وہ سامان نہ کرتا ، یہ ڈھول سارنگی نہ سناتے تو حاضرین اس گناہ میں کیوں پڑتے ؟ اس لئے ان سب کا گناہ ان دونوں پر ہوا ، پھر قوالوں کے اس گناہ کاباعث وہ عرس کرنے والا ہوا ، وہ نہ کرتا ، نہ بلاتا تویہ کیونکر آتے ، بجاتے لہٰذا قوالوں کا بھ گناہ اس بلانے پر ہوا ۔
''ترجمہ عربی متن : جیسے کہا ہے فقہاء نے اس مسائل کے بارے میں جو طاقتور ، تندرست ہو کہ ایسا خیرات لینے والا اور ایسے کو دینے والا دونوں گناہ گار ہیں کیونکہ دینے والے اگر نہ دیں تو وہ بھی یہ گداگری کا مذموم کاروبار نہ کریں ، پس ان کی عطاء ان کی گداگری کا باعث بنی اور سب قواعد شریعہ جاننے والے پر ظاہر ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہی ہے ، توفیق ''

رسول اللہﷺ ارشاد فرماتے ہیں : ''ترجمہ عربی متن : '' جوکسی امر ہدایت کی طرف بلائے جتنے اس کی اتباع کرین ان سب کے برابر ثواب پائے اور ان کےثوابوں میں کچھ کمی نہ آئے اور جو کسی امر ضلالت کی طرف بلائے جتنے اس کے بتانے پر چلیں ان سب کے برابر اس پرگناہ ہو اور اس سے ان کے گناہوں میں کچھ تخفیف راہ نہ پائے ۔ '' ( رواہ الائمہ احمد ومسلم والاربعۃ عن ابی ھریرہ ر‎ )

باجوں کی حرمت میں احادیث کثیرہ وارد ہیں ، ازاں جملہ اجل واعلیٰ حدیث بخاری شریف ہے کہ حضور سیدعالم ﷺ فرماتے ہیں : ترجمہ عربی متن :ضرور میری امت میں وہ لوگ ہونے والے ہیں جو حلال ٹھہرائیں گے عورتوں کی شرمگاہ یعنی زنا اور ریشمی کپڑوں کو شراب اورباجوں کو ''
(ایضا احمد ابوداؤد ، ابن ماجہ )

بعض جہال ، بدمست یا نیم ملا ، شہوت پرست یا جھوٹے صوفی باد بدست کہ احادیث صحاح مرفوعہ محکمہ کے مقابل ضعیف قصے یا متحمل واقعے یا متشابہ پیش کرتے ہیں ، انہیں اتنی عقل نہیں یا قصداً بے عقل بنتے ہیں کہ صحیح کے سامنے ضعیف ، متعین کے سامنے متحمل ، محکم کے حضور متشابہ واجب اترک ہے پھر کہاں قول ، کیا حکات فعل ، پھر کجا محرم ،کجا مبیح ہر طرح یہی واجب العمل اسی کو ترجیح مگر ہوس پرستی کا علاج کسی کے پاس ہے ؟ کاش گناہ کرتے اور گناہ جانتے اقرار لاتے ، یہ ڈھٹائی اور بھی سخت ہے کہ ہوس بھی پالیں اور الزام بھی ٹالیں ، اپنے لئے حرام کو حلال بنالیں ، پھر اسی پر بس نہیں بلکہ معاذ اللہ اس کی تہمت محبوبان خدا، اکابر سلسلہ عالیہ چشت قدمت اسرار ہم کر سر دھرتے ہیں ، نہ خدا سے خوف ، نہ بندوں سے شرم کرتے ہیں حالانکہ خود حضور محبوب الہٰی سیدی و مولائی نظام الحق والدین سلطان الاولیاء رضی اللہ عنہ وعنہم وعنا ''بہم فوائد الفوائد '' شریف میں فرماتے ہیں '' مزامیر حرام است '' ( ترجمہ فارسی ،آلات موسیقی حرام ہیں )

مولانا فخر الدین زراوی خلیفہ حضورسیدنا محبوب الٰہی رضی اللہ عنہا نے حضور کے زمانہ مبارکہ میں خود حضور کےحکم احکم سے مسئلہ سماع میں رسالہ ''كشف التفناع عن اصول السماع'' تحریر فرمایا ، اس میں صاف صاف ارشاد فرمایا ، ترجمہ : ''ہمارے مشائخ کرام رضی اللہ عنہم کا سماع اس مزامیر (آلات موسیقی) کے بہتان سے بری ہے وہ صرف قوالی کی آواز ہے ، ان اشعار کے ساتھ جو کمال صنعت الٰہی سے خبر دیتے ہیں ''
اللہ انصاف اس امام جلیل خاندان عالی حیثیت کا یہ ارشاد مقبول ہوگا یا آج کل کے مدعیان خام کار کی تہمت بے بنیاد ، ظاہرۃ النساء ، لاحول ولاقوۃ الاباللہ العلیٰ العظیم
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
حلال سماع کی شرائط

سیدی مولانا محمد بن مبارک بن محمد علوی کرمانی مرید حضور پرنورشیخ فرید الحق والدین گنج شکر و حضور سیدنا محبوب الٰہی رضی اللہ عنہم کتاب مستطاب سید الاولیاء میں فرماتے ہیں :
ترجمہ فارسی: ''حضرت سلطان المشائخ قدس اللہ تعالیٰ سرہ العزیز فرماتے تھے کہ چند شرائط ہوں تو سماع مباح ہو گا ، کچھ شرطیں سنانے والے میں کچھ سننے والے میں ، کچھ اس کلام میں جو سنائی جائے ، کچھ آلہ سماع میں یعنی
(1)سنانے والا کامل مرد ہو
(2)چھوٹا لڑکا نہ ہو
(3)عورت نہ ہو
(4)سننے والا یاد خدا ء سے غافل نہ ہو
(5)جو کلام پڑھی جائے فحش نہ ہو
(6)تمسخرانہ انداز کی نہ ہو
(7)آلات سمع یعنی مز امیر جیسے سارنگی اور باب وغیرہ .... چاہیے کہ ان چیزوں سے کوئی موجود نہ اس طرح کا سماع حلال ہو گا ۔
مسلمانو! یہ فتویٰ ہے مرور سردار سلسلہ عالیہ چشت حضرت سلطان اولیاء رضی اللہ عنہ کا ، کیا اس کےبعد بھی مفتریوں کو منہ دکھانے کی گنجائش ہے ؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
موسیقی والے سماع کا سننا اور دھمال ڈالنا شرع میں ناجائز ہے

نیز سید الاولیاء شریف میں ہے ، ترجمہ فارسی: '' ایک آدمی نے حضرت شیخ المشائخ کی خدمت میں عرض کی کہ ان ایام میں بعض آستانہ دار درویشوں نے ایسے مجمع میں جہاں چنگ و رباب اور دیگر مزامیر تھے ، رقص کیا ( دھمال ڈالا) فرمایا انہوں نےاچھا کام نہیں کیا جو چیز شرع میں ناجائز ہے ، ناپسندیدہ ہے ، اس کے بعد ایک نے کہا : جب یہ جماعت اس مقام سے باہر آئی ،لوگوں نے ان سے کہا کہ تم نے یہ کیا کیا وہاں تو مزامیر (آلات موسیقی) تھے ، تم نے سماع کس طرح سنا اوررقص کیا ( دھمال ڈالا) انہوں نے جواب دیا ہم اس طرح سماع میں مستغرق تھے کہ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں ہوا کہ یہاں مزامیر ہیں یا نہیں ، سلطان المشائخ نےفرمایا :یہ جواب کچھ نہیں ، اس طرح تو تمام گناہوں کے متعلق کہ سکتے ہیں ''

مسلمانوں کیسا صاف ارشاد ہے کہ مزامیر (آلات موسیقی) ناجائز ہیں اور اس کاعذر کا کہ ہیمں استغراق کے باعث مزامیر کی خبر نہ ہوئی ، کیا مسکت جواب عطاء فرمایا کہ ایسا حیلہ ہرگناہ میں چل سکتا ہے شراب پینے اور کہ دے کہ شدت استغراق کے باعث ہمیں خبر نہ ہوئی کہ شراب ہے یاپانی ، زنا کرے اور کہ دے کہ غلبہ حال کے سبب ہمیں تمیز نہ ہوئی کہ جورو ہے یا بیگانہ ...... اس میں ہے......

ترجمہ فارسی: حضرت شیخ المشائخ نے فرمایا میں نے منع کر رکھا ہے کہ مزامیر اور دیگر محرمات درمیان میں نہ ہوں اور اس بات میں آپ نے بہت مبالغہ کیا ، یہاں تک فرمایا کہ اگر امام نمازمیں بھول جائے مرد تو سبحان اللہ کہ کر امام کو مطلع کرے اور عورت سبحان اللہ نہ کہے کیونکہ اس کواپنی آواز سنانا نہ چاہیے پس ایک ہاتھ کی ہتھیلی دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر نہ مارے کہ اس طرح یہ کھیل ہو گا بلکہ ہاتھ کی پشت دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر مارے جب یہ یہاں تک لہو ولعب کی چیزوں اور ان جیسی چیزوں سے پرہیز آئی ہے تو سماع بطریق اولیٰ منع ہیں ''

مسلمانو! جو ائمہ طریقت اس درجہ احتیاط فرمائیں کہ تالی کی صورت کو ممنوع بتائیں وہ اورمعاذاللہ مزامیر کی تہمت ، للہ انصاف ! کیسا ضبط بے ربط ہے ، اللہ تعالیٰ اتباع شیطان سے بچائے اور ان سچے محبوبان خدا کا سچا اتباع عطاء فرمائے ، آمین اله الحق آمين بجاههم عندك آمين والحمدلله رب العالمين ! کلام یہاں طویل ہے اور انصاف کو اسی قدر کافی ہے ۔ ( عبدہ ، المذنب احمد رضا عفی عنہ ، بحمدن المصطفی ﷺ)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
حضرت خواجہ قطب الدین بختیا کاکی کی اپنے مزار پر قوالی کرنے والوں پرلعنت

عرض: کیا روایت صحیح ہے کہ حضرت محبوب الٰہی قبرشریف میں ننگے سرکھڑے ہو کر گانے والوں پر لعنت فرما رہے تھے ۔
ارشاد : یہ واقعہ بختیار کاکی  کا ہے کہ آپ کے مزار شریف میں مجلس سماع میں قوالی ہورہی تھی ، اب تو لوگوں نے بہت اختراع کر لئے ہیں ،ناچ وغیرہ میں کراتے ہیں ، حالانکہ اس وقت بارگاہوں میں مزامیر بھی نہ تھے ، حضرت سید ابراہیم ایوبی جو ہمارے پیران سلسلہ میں سے ہیں ، باہر مجلس سماع کے تشریف فرماتھے ، ایک صاحب صالحین سے آپ کے پاس آئے اورگزارش کی ، مجلس میں تشریف لے چلیئے حضرت سید ابراہیم ایوبی  نے فرمایا تم جاننے والے ہو خواجہ اقدس میں حاضر ہواگر حضرت راضی ہوں ،میں ابھی چلتا ہوں ، انہوں نے مزار اقدس پر مراقبہ کیا ، دیکھا کہ حضور قبر شریف میں پریشان خاطر ہیں اور ان قوالوں کی طرف اشارہ کر کے فرماتے ہیں ''این بد بختاں وقت ماراپریشان کردہ اند'' وہ واپس آئے اور قبل اس کے کہ عرض کریں فرمایا :آپ نے دیکھا (ملفوظات مولانا احمد رضا خان بریلوی ج2ص 101)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
حیف صد حیف عرسوں کو میلے بنالیا گیا

حیف صد حیف کہ اس زمانہ میں عراس یعنی عرسوں کو میلہ بنا لیا گیا ہے ، رنڈیون کا ناچ ہوتا ہے ، ڈھولکی طبلہ کھڑکتا ہے ، ہامونیم بجتا ہے او رطرہ یہ کہ ان افعال کو جائز بلکہ قرب الی اللہ کا وسیلہ سمجھا جاتا ہے ، منع کرنےوالوں پرلعن طعن کی جاتی ہے ، عوام تو عوام اچھے خاصے پڑھے لکھے بلکہ سجادگان درگا ہ ان بلاؤں میں مبتلا نظر آتے ہیں سماع مع مزامیر (موسیقی ) کے سننے سے انہیں پرہیز نہیں بلکہ شوق ہوتا ہے حالانکہ مزامیر (موسیقی ) حرام قطعی ہیں ۔ ( عرفن ہدایت مصنفہ مولوی محمد عرفان رضوی مصدقہ مولانا مصطفی رضا قادری صاحبزادہ مولانا احمدرضا بریلوی 23جمادی الاولیٰ 1343ھ جس کو جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی سے چھپوایا)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
فتویٰ شیخ عبد القادر جیلانی 

ترجمہ : اگر موقع دعوت پر وہ چیزیں جو بمحبوب حکم خداوندی منع ہیں موجود ہوں مثلا ً ڈھول یا بانسری یا بربط و شہنائی وشربوک و شبابہ و رباب وباجا بجانے والے یا لونڈا ناچنے والا..... کیوں تحقیق یہ تمام حرام ہیں تو اس جگہ نہ بیٹھے اور اٹھ کر چلا آئے ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
حاصل کلام

(قارئین کرام ! آپ نے مطالعہ کر لیا کہ کلام اللہ شریف ، احادیث مبارکہ کے مطابق اور جن اولیاء اللہ کے مزارات پر یہ سب کچھ اہل سنت دشمن اہتمام کے ساتھ کرتے ہیں ان کے ارشادات عالیہ کی روشنی میں یہ تمام خرافات مثلاً عرس کے نام پر رنڈیوں کا ناچ ، ڈھول ڈھماکہ ، موسیقی کے ساتھ قوالیاں ، نعتیں پڑھنا ، بے ریش آدمیوں ، لونڈوں یا عورتوں سے نعتیں پڑھوانا ، دھمال وغیرہ قطعی حرام ہیں ، ان تقاریب کو منعقد کرانے والے شرکت کرنے والے ترغیب دینے والے ، بلانے والے اشتہار چھپوانے والے سب گنا ہ گار ہیں نہ کہ ثواب کےحقدار بلکہ یہ تمام اولیاء اللہ بھی ان کی حرکتوں سےبیزار ہیں ۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی کے والدین ، دادا پیر اور صاحبزادے سمیت سب نے ان خرافات کے خلاف قلمی جہاد کیا ، فتوے دئیے اور قوم کو ان منکرات سے روکنے کے لئے ان کی خوب خوب اشاعت کی ، موجودہ دور کے چند بریلوی علماء حق آج بھی اس کوشش کو جاری رکھے ہوئے ہیں ، عوام کو بھی ان کا ساتھ دینا چاہیے ، اہل سنت دشمن کی چالوں سے ہوشیار رہنا چاہیے ۔ ناقل)
 
Top