آلات موسیقی والی قوالی ، نعت اور عرس کا گناہ کس پر ؟
مسئلہ :29ربیع الآخر شریف 1320ھ ، بعالی خدمت امام اہل سنت مجددین و ملت معروض کہ میں آج جس وقت سے رخصت ہوا اور واسطے نماز مغرب کے مسجد میں گیا ، بعد نماز مغرب کے ایک میرے دوست نے کہا ، چلو ایک جگہ عرس ہے ، میں چلا گیا، وہاں جا کر کیا دیکھتا ہوں ، بہت سے لوگ جمع ہیں اورقوالی اس طریقہ سے ہورہی ہے کہ ایک ڈھول ، دو سارنگی بج رہی ہیں اور چند قوال پیران پیر دستگیر کی شان میں اشعار کہ رہے ہیں اور رسول اللہﷺ کی نعت کے اشعار او راولیاء اللہ کی شان میں اشعار گا رہے ہیں اور ڈھول سارنگیاں بج رہی ہیں ، یہ باجے شریعت میں قطعی حرام ہیں ، کیا اس فعل سے رسول اللہﷺ اور اولیاء اللہ خوش ہوتے ہوں گے ؟ اور یہ حاضرین جلسہ گناہ گار ہوئے یا نہیں ؟ اور ایسی قوالی جائز ہے یا نہیں ؟ اور جائز ہے تو کس طرح کی ؟
جواب : ایسی قوالی حرام ہے ، حاضرین سب گناہ گار ہیں اور ان سب کا گناہ ایسا عرس کرنے والوں اور قوالوں پر ہے اور قوالوں کا بھی گناہ اس عرس کرنے والے پر بغیر اس کے کہ عرس کرنے والے کے ماتھے قوالوں کا گناہ جانے سے قوالوں پر سے گناہ کی کچھ کمی آئے یا اس کے اور قوالوں کے ذمہ حاضرین کا وبال پڑنے سے حاضرین کے گناہ میں کچھ تخفیف نہیں بلکہ حاضرین میں ہر ایک پر اپنا پورا گناہ اور قواتوں پر اپنا گناہ الگ اور سب حاضرین کے برابر جدا اور ایسا عرس کرانے والے پر اپنا گناہ الگ اور قوالوں کے برابر جدا اور سب حاضرین کے برابر علیحدہ وجہ یہ ہے کہ حاضرین کو عرض کرنےوالے نے بلایا ، ان کے لیے اس گناہ کا سامان پھیلایا اور قوالوں نے انہیں سنایا اگر وہ سامان نہ کرتا ، یہ ڈھول سارنگی نہ سناتے تو حاضرین اس گناہ میں کیوں پڑتے ؟ اس لئے ان سب کا گناہ ان دونوں پر ہوا ، پھر قوالوں کے اس گناہ کاباعث وہ عرس کرنے والا ہوا ، وہ نہ کرتا ، نہ بلاتا تویہ کیونکر آتے ، بجاتے لہٰذا قوالوں کا بھ گناہ اس بلانے پر ہوا ۔
''ترجمہ عربی متن : جیسے کہا ہے فقہاء نے اس مسائل کے بارے میں جو طاقتور ، تندرست ہو کہ ایسا خیرات لینے والا اور ایسے کو دینے والا دونوں گناہ گار ہیں کیونکہ دینے والے اگر نہ دیں تو وہ بھی یہ گداگری کا مذموم کاروبار نہ کریں ، پس ان کی عطاء ان کی گداگری کا باعث بنی اور سب قواعد شریعہ جاننے والے پر ظاہر ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہی ہے ، توفیق ''
رسول اللہﷺ ارشاد فرماتے ہیں : ''ترجمہ عربی متن : '' جوکسی امر ہدایت کی طرف بلائے جتنے اس کی اتباع کرین ان سب کے برابر ثواب پائے اور ان کےثوابوں میں کچھ کمی نہ آئے اور جو کسی امر ضلالت کی طرف بلائے جتنے اس کے بتانے پر چلیں ان سب کے برابر اس پرگناہ ہو اور اس سے ان کے گناہوں میں کچھ تخفیف راہ نہ پائے ۔ '' ( رواہ الائمہ احمد ومسلم والاربعۃ عن ابی ھریرہ ر )
باجوں کی حرمت میں احادیث کثیرہ وارد ہیں ، ازاں جملہ اجل واعلیٰ حدیث بخاری شریف ہے کہ حضور سیدعالم ﷺ فرماتے ہیں : ترجمہ عربی متن :ضرور میری امت میں وہ لوگ ہونے والے ہیں جو حلال ٹھہرائیں گے عورتوں کی شرمگاہ یعنی زنا اور ریشمی کپڑوں کو شراب اورباجوں کو ''
(ایضا احمد ابوداؤد ، ابن ماجہ )
بعض جہال ، بدمست یا نیم ملا ، شہوت پرست یا جھوٹے صوفی باد بدست کہ احادیث صحاح مرفوعہ محکمہ کے مقابل ضعیف قصے یا متحمل واقعے یا متشابہ پیش کرتے ہیں ، انہیں اتنی عقل نہیں یا قصداً بے عقل بنتے ہیں کہ صحیح کے سامنے ضعیف ، متعین کے سامنے متحمل ، محکم کے حضور متشابہ واجب اترک ہے پھر کہاں قول ، کیا حکات فعل ، پھر کجا محرم ،کجا مبیح ہر طرح یہی واجب العمل اسی کو ترجیح مگر ہوس پرستی کا علاج کسی کے پاس ہے ؟ کاش گناہ کرتے اور گناہ جانتے اقرار لاتے ، یہ ڈھٹائی اور بھی سخت ہے کہ ہوس بھی پالیں اور الزام بھی ٹالیں ، اپنے لئے حرام کو حلال بنالیں ، پھر اسی پر بس نہیں بلکہ معاذ اللہ اس کی تہمت محبوبان خدا، اکابر سلسلہ عالیہ چشت قدمت اسرار ہم کر سر دھرتے ہیں ، نہ خدا سے خوف ، نہ بندوں سے شرم کرتے ہیں حالانکہ خود حضور محبوب الہٰی سیدی و مولائی نظام الحق والدین سلطان الاولیاء رضی اللہ عنہ وعنہم وعنا ''بہم فوائد الفوائد '' شریف میں فرماتے ہیں '' مزامیر حرام است '' ( ترجمہ فارسی ،آلات موسیقی حرام ہیں )
مولانا فخر الدین زراوی خلیفہ حضورسیدنا محبوب الٰہی رضی اللہ عنہا نے حضور کے زمانہ مبارکہ میں خود حضور کےحکم احکم سے مسئلہ سماع میں رسالہ ''كشف التفناع عن اصول السماع'' تحریر فرمایا ، اس میں صاف صاف ارشاد فرمایا ، ترجمہ : ''ہمارے مشائخ کرام رضی اللہ عنہم کا سماع اس مزامیر (آلات موسیقی) کے بہتان سے بری ہے وہ صرف قوالی کی آواز ہے ، ان اشعار کے ساتھ جو کمال صنعت الٰہی سے خبر دیتے ہیں ''
اللہ انصاف اس امام جلیل خاندان عالی حیثیت کا یہ ارشاد مقبول ہوگا یا آج کل کے مدعیان خام کار کی تہمت بے بنیاد ، ظاہرۃ النساء ، لاحول ولاقوۃ الاباللہ العلیٰ العظیم