• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصول تفسیر-ابن تیمیہ رحمہ اللہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تفسیر ِسلف میں اختلاف کی کمیت و کیفیت
سلف کے مابین تفسیر میں اختلاف کم ہوا ہے۔ احکام میں تفسیر سے زیادہ اختلاف صحیح طور پر ان سے مروی ہے، تنوع کا ہے نہ کہ تضاد کا۔ اور یہ اختلاف دو قسم کا ہے:
ایک یہ کہ ایک بزرگ نے مطلب ظاہر کرنے کے لئے ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں، جو دوسرے شخص کے الفاظ سے مختلف ہیں اور مطلب کے اس حصے پر دلالت کرتے ہیں، جس پر دوسرے لفظ دلالت نہیں کرتے، مگر دونوں کے الفاظ کا مسمیٰ ایک ہی ہے۔ اس کی مثال ایسے اسماء کی ہے جو ایک ہی مسمیٰ کی مختلف صفات کو ظاہر کرتے ہیں جیسے: سیف، صارم، مہند تینوں نام تلوار ہی کے ہیں، مگر تلوار کی مختلف صنعتوں کا اظہار کرتے ہیں۔ یہی معاملہ اللہ کے اسمائے حسنیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے اسمائے محمودہ کا ہے کہ اسماء کا مسمیٰ ایک ہی ہے، اسمائے الٰہی میں سے جس اسم کے ساتھ چاہئے دعا کیجئے ایک ہی ذاتِ مقدس سے دعا ہو گی۔ ایک نام سے دُعا دوسرے نام سے دعا کے مخالف نہ ہو گی۔ اللہ فرماتا ہے:
قُلِ ادْعُوا اللہَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ اَیا مَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى(بنی اسرائیل:۱۱۰)
’’کہہ دو! (اے نبی ﷺ) اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر، جو کہہ کر پکارو گے تو اس کے بہت اچھے اچھے نام ہیں‘‘۔
اللہ کا ہر نام اس کی ذات پر بھی دلالت کرتا ہے اور اس کی کسی خاص صفت پر بھی۔ مثلاً علیم، ذاتِ الٰہی پر بھی دلالت کرتا ہے اور صفتِ علم پر بھی۔ اسی طرح قدیر کی دلالت، ذات اقدس پر بھی ہے اور قدرت پر بھی۔ اسی طرح رحیم ذات برتر کو بھی ظاہر کرتا ہے اور صفت رحمت کو بھی۔
مذہب ظاہری کے جن مدعیوں نے کہا ہے کہ اسمائے الٰہی صفات الٰہی پر دلالت نہیں کرتے تو ان کا یہ مسلک حقیقت میں باطنی فرقوں[1] قرامطہ وغیرہ کے اقوال کی قبیل سے ہے۔ جو کہتے ہیں کہ اللہ کو نہ حیی کہنا چاہئے اور نہ یہ کہنا چاہئے کہ حیی نہیں ہے۔ وہ اللہ سے دونوں نقیضوں کی نفی کرتے ہیں۔ انہیں تسلیم کرتے ہیں، مگر ضمیروں کی طرح محض علم قرار دیتے ہیں، اور ان سے ثابت ہونے والی صفات کے منکر ہیں۔
بنابریں مذہبِ ظاہری میں اپنے دعائے غلو کے باوجود جو لوگ یہاں وہی بات کہتے اور مانتے ہیں، جس کے قائل یہ قرامطہ باطنیہ ہیں تو اس بارے میں وہ بھی قرامطہ باطنیہ کے ہمنواؤ ہم مسلک بن جاتے ہیں[2]۔ مگر یہ موقعہ اس بحث کا نہیں۔ مقصود یہ کہنا ہے کہ اسمائے الٰہی میں سے ہر اسم، ذاتِ الٰہی پر بھی دلالت کرتا ہے اور صفت پر بھی جو اس سے سمجھی جاتی ہے نیز بطریق لزوم دوسرے اسم کی صفت پر بھی دلالت کرتا ہے۔
یہی حال نبی ﷺ کے اسمائے شریفہ کا ہے۔ مثلا: محمد(ﷺ)، احمد، ماحی، حاشر، عاقب اور یہی حال اسمائے قرآن کا ہے، مثلاً قرآن، فرقان، ہدیٰ، شفا، بیان، کتاب وغیرہ۔ اب اگر کہاجائے کہ مسمیٰ متعین ہونا چاہیے تو جواب میں ہر اسم کو استعمال کر سکتے ہیں۔اگر سائل اس اسم کے مسمیٰ سے واقف ہے۔
اسم کبھی علم ہوتا ہے اور کبھی صفت۔ مثلاً سائل سوال کرتا ہے کہ ارشادِ خداوندی ’’وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِی‘‘ میں کیا چیز ہے؟ تو ہم جواب دیں گے’’ذکر‘‘ قرآن ہے یا اللہ کی اُتاری ہوئی کتابیں ہیں یہ اس لئے کہ مصدر ہے اور اس کی اضافت کبھی فاعل ہوتی ہے اور کبھی مفعول کی طرف۔ مفعول کی طرف اضافت مراد لی جائے تو ذکر سے مراد وہ لفظ ہوں گے، جن کے ذریعہ آدمی خدا کو یاد کرتا ہے۔ جیسے یہ لفظ: سُبْحَانَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ وَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اللہُ اَکْبَرُ۔ اور فاعل کی طرف اضافت مانی جائے تو ذکر سے مراد خود خدا کی جانب سے ذکر ہو گا۔ اور یہ ذکر خدا کا کلام ہے۔ آیت: ’’وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِی‘‘ سے یہی مراد ہے کیونکہ اس سے قبل فرما چکا ہے:’’فَاِمَّا یاْتِینَّكُمْ مِّنِّی ہُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَای فَلَا یضِلُّ وَلَا یشْقٰی‘‘(طہ) اور معلوم ہے، خدا کی ہدایت، اس کا اتارا ہوا ذکر ہی ہے اور یہ اس لئے بھی کہ اس کے بعد ہی فرما دیا ہے: ’’قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیٓ اَعْمٰی وَقَدْ كُنْتُ بَصِیرًا قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیتَہَا‘‘ غرض کہ سائل کا مقصود یہ جاننا ہے کہ ذکر الٰہی، اللہ کا اتارا ہوا ذکر ہے یا بندے کی طرف سے اللہ کا ذکر ہے۔ تو اب اللہ کا ارشاد کہ میرا ذکر میری کتاب، میری ہدایت، تو ان سب اسماء کا مسمیٰ ایک ہی رہے گا لیکن اگر سائل کا مقصود وہ خاص صفت جاننا ہو، جو اس اسم کے ساتھ خاص ہے، مثلاً سائل جانتا ہے کہ القدوس (بہت پاک) السلام (سلامتی والا) المؤمن (امن دینے والا) سے مراد، اللہ تعالی کی ذات ہے، لیکن پوچھتا ہے کہ اللہ کے القدوس السلام المؤمن ہونے کے کیا معنی ہیں؟ تو مسمیٰ متعین کرنے سے زیادہ ہمیں کچھ کہنا ہو گا۔


[1] باطنيہ، اسماعيليہ قرامطہ وغيرہ مختلف ناموں سے شيعوں کا ايک غالی فرقہ مراد ہے بلکہ يوں کہنا چاہئے کہ شيعہ فرقہ کو بھي ان سے کچھ نسبت نہيں ہے۔ يہ تيسري صدي ہجري ميں عباسيوں کے دورِ حکومت کی پيدوار ہے۔ مجوسيت، يہوديت اور يونانی فلسفہ کی معجون مرکب ہے۔ تفصيل کےلئے ديکھئے: ‘‘ملل و النحل شہرستاني طبع جديد ص:۳۳۳۔ ج:۱

[2] غالباً يہ اشارہ حافظ ابن حزم (المتوفي ۴۵۶ھ) کی طرف ہے۔ کيونکہ مصنف علام کی رائے ميں مسئلہ صفات ميں ان کا مسلک صحت و صواب سے ہٹا ہوا ہے۔ منہاج السنہ (۲۵۱۔ ۲۵۲ ج:۱) ميں اس پر تفصيل سے ليکن معقول اور سنجيدہ رد کرتے ہوئے ان کي طرف سے عذر بھی بيان فرمايا ہے کہ:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فانہ من نفاۃ الصفات مع تعظیمہ للحدیث والسنۃ و الامام احمد و غلطہ فی ذلک بسبب انہ اخذ شیئا من اقوال الفلاسفۃ و المعتزلۃ عن بعض شیوخہ و لم یتفق من بین لہ خطاھم۔ (ابن حزم) ''صفات باری کی نفی کرنے والوں سے ہيں، حالانکہ حديث و سنت اور امام احمد وغيرہ کی بڑی عظمت بيان کرتے ہيں، ان کي اس غلطی کا باعث يہ ہے کہ اپنے بعض اساتذہ سے يونانی فلاسفہ اور معتزلہ کے اقوال ان کو ملنے، جن سے وہ متاثر ہو گئے، اور ان کي خرابياں ان پر واضح نہ ہو سکيں۔ موقع کی مناسبت سے راقم عرض کرتا ہے کہ فلسفہ يونانی اور اس کے شاگردوں (معتزلہ) سے (مسئلہ صفات الٰہي وغيرہ ميں) صرف حافظ ابن حزم ہی متاثر نہيں ہيں بلکہ دوسرے متاخرين بھي ہيں۔ ان ميں بعض ايسے فضلاء بھی ہيں کہ تفسير و حديث ميں خدمات گراں قدر اور شاندار ہيں، ليکن ان نصوصِ صريحہ ميں جن ميں صفات باری تعالی وغيرہ کا ذکر ہے، تاويلات کا ارتکاب کرتے ہيں، بلکہ بعض وقت صحيح بخاری کی مسلمہ امت صحيح حديث کی صحت ميں تشکيک پيدا کرنا شروع کر ديتے ہيں۔ مثال ميں امام رازی اور امام غزالی کا نام پيش کيا جا سکتا ہے اور کچھ ايسی ہی کيفيت ہمارے زمانے کے بعض مفسرين کی ہے۔ ديکھئے مصر کے علامہ محمد عبدہ اور ان کے شاگر علامہ رشيد رضا کی مصر ميں ان کی اصلاحی اور سياسی مساعی بڑی قابل قدر ہيں اور آخر الذکر تو سلفيت کے بھي شيدا معلوم ہوتے ہيں، ليکن فلسفہ جديدہ اور اس کے شاگردوں (مستشرقين وغيرھم) سے شديد طور پر متاثر ہيں۔ اور افسوس کہ ان کي تفسير ''المنار'' کافی حد تک مفيد ہونے کے باوجود صحابہ و تابعين و ائمہ سلف کے مسلک سے ناآشناؤں کے لئے مضر بھی ہے۔ مسئلہ حياتِ مسيح، احاديثِ دجال پر تنقيد، سود کی بحث ''طير ابابيل'' کی تفسير وغيرہ ان اُمور ميں فلسفہ حاضرہ سے شعوری يا غيرشعوری تاثر کی وجہ سے ان کے قلم سے حق کے خلاف سرزد ہو گيا ہے۔ عفا اللہ عنا و عنہم۔ اور يہ بات واقعہ کے سراسر خلاف ہے (جيسا کہ بعض حضرات کا خيال ہے) کہ تفسير ''المنار''، امام ابن جرير  اور شيخ الاسلام ابن تيميہ  کے طرزِ تفسير پر ہے۔
اسی قسم کے خدشہ کا اظہار مصر ہی کے ايک اہل حديث عالم علامہ محمد منير دمشقی  نے بھي فرمايا ہے جو علامہ محمد عبدہ کے مدرسہ فکر سے تعلق رکھتے ہيں اور دونوں (استاذ، شاگرد) کے مداح بھی ہيں۔ تفسير مذکور کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہيں: فتح لغیرہ بابا واسعا من ملحدی زماننا فی ذلک و ھذا لسنن الغیر المشروعۃ (انموذج من الاعمال الخيريۃ ص:۳۰۲) (ہمارے زمانے کے ملحدين کے لئے اس تفسير نے (تاويل و تحريف کا دروازہ کھول ديا ہے اور يہ نامناسب طريقہ ہے) پھر اس کي چند مثاليں ذکر کر کے لکھتے ہيں کہ يہاں استقصاء مقصود نہيں اس کے لئے کئي جلدوں کي ضرورت ہے۔
بل اردت بیان ما عن بخاطری من سنین و رایتہ خلاف الصواب مع الکباب اھل ھذا العصر علیہ بدون تمیز بین غثہ و سمینہ فکل قول یوخذ منہ و یرد الاقول صاحب الشریعۃ (انموذ ص:۳۰۴)
''بلکہ مقصد ان چند باتوں کي نشان دہی ہے جو کئی سال سے غلط ہونے کی وجہ سے کھٹک رہے تھے، باوجود يکہ لوگ اس پر گرے پڑتے ہيں اور غلط صحيح ميں کچھ امتياز نہيں کرتے اور ياد رہے آنحضرت ﷺ کے سوا ہر شخص کا قول قابل رَدّ و قبول ہے''۔
علامہ محمد منير دمشقی نے اس تبصرے ميں يہ بھي واضح فرما ديا کہ کيوں ان کو ايسے تبصرے کی ضرورت پڑی۔ حقيقت يہ ہے کہ مصر وغيرہ (اور اب پاکستان ميں بعض کج رو لوگ اپنا الحاد پھيلانے کے لئے ايسی ہی تفسيروں کا سہارا ڈھونڈتے ہيں، اور بہت سے سادہ لوح اسی ''تحقيق'' سے دھوکے کا شکار ہو جاتے ہيں جس ميں ميٹھے اور غير محسوس زہر کي آميزش ہوتي ہے۔
اور يہ صورت کچھ اب ہی سامنے نہيں آرہی ہے بلکہ نويں صدی ميں بعض زيدی معتزلہ نے جب حديث و اہل حديث کے خلاف طوفان بپا کيا تو يہی طريقہ انہوں نے بھي اختيار کيا تھا۔ چنانچہ اس کے جواب ميں اس وقت کے ايک محقق اہل حديث بزرگ علامہ محمد بن ابراہيم الوزير (متوفي ۸۴۰ھ) کو لکھنا پڑا کہ تاويلات کا يہ پلندا جو بعض اہل حديث ميں بھي پايا جاتا ہے، فمن فیض علومکم ھذا التی افتخرتم بممارستھا (يہ سب تمہارے (معتزلہ) ہی علوم کے ''فيض'' کا اثر ہے جن پر تم پھولے نہيں سماتے)
بعدہ فرمايا: ومن بقی منھم علی ما کان علیہ السلف الصالح سلم من جمیع ما حدث من التعمق فی الانظارا (الروض الباسم فی الذب عن سنۃ ابی القاسم ص:۹۔ ج:۲) (اور جو اہل حديث سلف صالح کے طريق پر کاربند ہے وہ اس قسم کی موشگافيوں کی بدعات سے الگ تھلگ رہے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
صراطِ مستقیم کی تفسیر
اس کی ایک اور مثال سنو۔ صراط مستقیم کی تفسیر میں بعض سلف نے فرمایا کہ وہ قرآن ہے۔ یہ قول نبی ﷺ کے اس ارشاد کی پیروی میں ہے، جو ترمذی اور ابونعیم میں متعدد طرق سے مروی حدیث علی میں موجود ہے کہ فرمایا: قرآن، حبل اللہ المتین ہے۔ ذکر حکیم ہے اور وہی صراط مستقیم ہے[1]۔ یہ تفسیر بعض سلف کی ہے۔ لیکن بعض دوسرے بزرگانِ سلف کا قول ہے کہ صراطِ مستقیم اسلام ہے۔ اور یہ قول نواس بن سمعان ؄ کی اس حدیث کے تتبع میں ہے جو سنن ترمذی وغیرہ میں آئی ہے۔ جس میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ ’’اللہ نے صراطِ مستقیم کی یہ مثال دی ہے کہ صراط کے دونوں طرف دو دیواریں ہیں اور دیواروں میں کھلے ہوئے دروازے ہیں، اور دروازوں پر پردے چھٹے ہوئے ہیں۔ ایک منادی، صراط کے اوپر سے پکار رہا ہے اور دوسرا منادی، صراط کے سرے پر سے پکار رہا ہے۔ ’’فرمایا‘‘ تو صراط مستقیم اسلام ہے اور دیواریں حدودِ الٰہی ہیں اور کھلے ہوئے دروازے، محارمِ الٰہی ہیں۔ اور صراط کے سرے کا منادی، کتاب اللہ ہے۔ اور صراط پر کا منادی، قلب مومن میں واعظ الٰہی (ضمیر) ہے[2]‘‘۔
دیکھو، صراط مستقیم کی یہ دونوں تفسیریں ظاہر میں مختلف معلوم ہوتی ہیں، لیکن حقیقت میں مختلف نہیں بلکہ متفق ہیں، ایک ہیں، کیونکہ دین اسلام اتباعِ قرآن ہی کا دوسرا نام ہے، لیکن ہوا یہ کہ ہر مفسر نے ایسے وصف کی طرف اشارہ کیا، جو دوسرے کے وصف سے الگ تھا۔ پھر لفظ صراط، تیسرے وصف کی طرف بھی رہنمائی کرتا ہے۔
اسی طرح صراط مستقیم کی تفسیر، سنت و جماعت سے طریق عبودیت سے طاعت اللہ و الرسول وغیرہ سے بھی کی گئی ہے۔ مگر یہ سب لفظ ایک ہی ذات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ان مفسروں میں کوئی اختلاف نہیں۔ ہر ایک نے کسی ایک صفت کو بیان کیا ہے۔


[1] مشکوٰۃ صفحہ ۱۸۶۔ باب فضائل القرآن۔

[2] مشکوٰۃ صفحہ۳۱۔ باب الاعتصام بالکتاب و السنۃ بحوالہ مسند احمد و بیہقی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اختلاف کی ایک اور نوعیت
اختلاف کی دوسری قسم یہ ہے کہ ہر مفسر اسم عام کی کسی ایک نوع کا مثال کے طور پر تذکرہ کر دیتا ہے تاکہ سامع کا ذہن پوری نوع کی طرف منتقل ہو جائے اور یہ مقصد نہیں ہوتا کہ اس نوع کی جامع مانع تعریف کی جائے مثلا ایک عربی زبان سے ناوقف عجمی آدمی سوال کرتا ہے کہ خبز کیا ہے؟ اور جواب میں ایک روٹی دکھا کر بتا دیا جاتا ہے کہ خبز یہ ہے۔ ظاہر ہے اس طرح اشارہ، روٹی کی پوری نوع کی طرف ہوتا ہے۔ نہ کہ ہاتھ میں اٹھائی ہوئی ایک روٹی کی طرف۔
بعض اور الفاظ کی تفسیر اور مختلف اقوال میں تطابق
اس کی مثال اس آیت کریمہ کی تفسیر سے سمجھ میں آجائے گی:
ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِینَ اصْطَفَینَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ وَمِنْہُمْ مُّقْتَصِدٌ وَمِنْہُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَــیرٰتِ (فاطر:۳۲)
’’پھر ہم نے وارث کئے کتاب کے وہ لوگ جن کو چن لیا ہم نے اپنے بندوں سے، پھر کوئی ان سے برا کرتا ہے اپنی جان کا اور کوئی ان سے ہے بیچ کی راہ پر، اور کوئی ان میں آگے بڑھ گیا ہے نیکیوں میں‘‘۔
اب ظاہر ہے کہ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ میں واجبات کا ضائع کرنے والا اور محرمات کا مرتکب بھی داخل ہے۔ اسی طرح مقتصد کے مفہوم میں واجبات کا پابند اور منہیات سے مجتنب بھی داخل ہے۔ اسی طرح سابق میں وہ بھی داخل ہے جس نے سبقت کر کے واجبات کے ساتھ حسنات کے ذریعہ بھی قرب الٰہی حاصل کی ہے۔
اب مفسر، حسنات و طاعات میں سے کسی ایک نوع کا ذکر کر دیتا ہے مثلاً کہتا ہے: سابق وہ ہے جو اول وقت میں نماز ادا کرتا ہے اور مقتصد وہ ہے جو اثنائے وقت میں نماز پڑھتا ہے اور ظالم لنفسہ وہ ہے جو صلاۃ عصر میں آفتاب کے اصفرار تک تاخیر کر دیتا ہے۔
یا مثلاً مفسر کہتا ہے کہ خود اللہ تعالی نے سورہ بقرہ کے آخر میں بتا دیا ہے کہ سابق، مقتصد، اور ظالم کون لوگ ہیں، چنانچہ وہاں صدقہ دینے والے کو محسن، سود خوار کو ظالم اور بیع و شراء میں ٹھیک رہنے والے کو عادل قرار دیا ہے۔ مالی معاملات میں آدمی یا تو محسن ہے، یا عادل، یا ظالم۔ جو شخص واجبات کے ساتھ مستحبات بھی بجالاتا ہے، سابق محسن ہے۔ سود کھانے والا یا زکوٰۃ روک لینے والا ظالم ہے۔ اور مقتصد وہ ہے جو فرض زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور سود نہیں کھاتا۔
غرض کہ اس قسم کی تفسیروں میں کسی ایک نوع کا تذکرہ کر دیا گیا ہے جو آیت کے عموم میں داخل ہے، اور عرض یہ ہے کہ سامع سمجھ جائے کہ آیت کے مفہوم میں یہ بات بھی داخل ہے اور اس کے تذکرے سے اس کے اشباہ و نطائر کی طرف اس کا ذہن منتقل ہو جائے اور یہ ٹھیک بھی ہے کیونکہ مثال سے جو تعریف کی جاتی ہے، وہ ’’حد مطابق‘‘ سے زیادہ آسان ہوتی ہے اور جلد سمجھ میں آجاتی ہے۔ عقل سلیم، مثال سے نوع کو جان جاتی ہے جیسے ایک روٹی کی طرف اشارہ، روٹی کی پوری نوع بتا دیتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
شانِ[1] نزول سے متعلق بعض مسائل:
اسی طریقے پر سلف اپنی تفسیروں میں اکثرکہتے ہیں کہ فلاں آیت، فلاں شخص یا فلاں معاملے میں نازل ہوئی ہے، جیسا کہ کتب تفسیر میں اسبابِ نزول کابیان ہوتا ہے۔ مثلاً سلف نے کہا ہے کہ آیت ظہار، ثابت بن قیس بن شماس کی عورت کے بارے میں نازل ہوئی ، اور آیتِ لعان، عویمر عجلانی ؄ یاہلال ؄ بن امیہ ؄ کے بارے میں اتری ، اور آیت کلالہ، جابر بن عبداللہ ؄ کے حق میں نازل ہوئی ، اور یہ کہ آیت ’’ وَاَنِ احْكُمْ بَینَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ[2]‘‘ (المائدۃ:۷۔۴۹)یہودی قبیلوں ، بنی قریظہ اور بنی نضیر کے بارے میں نازل ہوئی ، اور آیت ’’وَمَنْ یوَلِّہِمْ یوْمَىِٕذٍ دُبُرَہٗٓ‘‘ [3](الانفال ۲:۱۶)غزوہ بدر کے سلسلے میں اتری، اور آیت ’’شھادۃ بینکم اذا حضرت احدکم الموت[4]‘‘ تمیم داری اور عدی بن زید کے معاملے میں اتری، اور حضرت ابوایوب ؄ کا یہ قول کہ آیت ’’وَلَا تُلْقُوْا بِاَیدِیكُمْ اِلَى التَّہْلُكَۃِ‘‘ (البقرہ:۲۴: ۱۹۵) ہم انصار کے متعلق نازل ہوئی ۔

[1] یعنی ایک یا چند آیات کے نازل ہونے کا پس منظر

[2] ’’ اور فیصلہ کیجئے ان کے درمیان اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ ‘‘

[3] اور جوکوئی اس دن اپنی پیٹھ پھیر لے۔’’ پوری آیہ شریفہ اس طرح ہے:وَمَنْ یوَلِّہِمْ یوْمَىِٕذٍ دُبُرَہٗٓ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیزًا اِلٰی فِئَۃٍ فَقَدْ بَاۗءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ وَمَاْوٰىہُ جَہَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیرُ

[4] تمہاری آپس کی گواہی جب تم میں سے کسی کو موت آرہی ہو ‘‘۔ اس قصے کی تفصیل ترمذی اور تفسیر ابن کثیر وغیرہ میں ہے۔ لیکن وہاں عدی بن زید کی بجائے عدی بن بداء ہے ۔ واللہ اعلم ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اس قسم کے اقوال بکثرت ہیں کہ سلف کہہ دیتے ہیں کہ فلاں آیت مشرکین مکہ کے حق میں نازل ہوئی یا اہل کتاب یہودو نصاریٰ کے متعلق یا مومنین کے کسی خاص گروہ کے بارے میں ، تو ان اقوال سے ان کا مقصود یہ نہیں ہوتا کہ ان آیتوں کے احکام انہی اشخاص سے مخصوص ہیں اور دوسرے سے ان کا تعلق نہیں، اس قسم کی بات کوئی مسلمان بلکہ کوئی ہوش مند بھی نہیں کہہ سکتا۔
اس بارے میں تو اختلاف ہوا ہے کہ آیت میں سبب کی بنا پر جو لفظ عام استعمال ہوا ہے، وہ اسی سبب کے ساتھ خاص ہے یانہیں ، لیکن علمائے اسلام میں سے کسی نے بھی نہیں کہا کہ کتاب و سنت کے عمومات ، متعین اشخاص ہی کے ساتھ خاص ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسے عمومات ، متعین اشخاص کے اشباہ و امثال کے ساتھ خاص ہیں ، یعنی ان کاحکم ایسے تمام لوگوں کو گھیرے ہوئے ہے، جو ان اشخاص کے مشابہ ہوں۔
جس آیت کاسبب نزول معلوم و متعین ہے، اگر وہ امر یانہی کی آیت ہے، تو ا س کاحکم یقیناً ان سب لوگوں پر جاری ہوگا جوشخص متعین سے ملتے جلتے ہوں۔اسی طرح اگر آیت میں مدح یاذم کی بناپر کوئی خبر دی گئی ہے، تو وہ بھی اس شخص کے مشابہ تمام لوگوں کے حق میں عام ہے۔
سبب نزول کاعلم آیت کے سمجھنے میں مدد دیتا ہے، کیونکہ سبب معلوم ہوجانے سے مسبب بھی معلوم ہوجاتا ہے۔ اسی بناء پر فقہا کازیادہ صحیح قول یہی ہے کہ جب قسم کھانے والے کی نیت معلوم ہوسکے ، تو دیکھنا چاہیئے کہ قسم کھانے کی تحریک کس سبب سے ہوئی۔
اور جب سلف کہتے ہیں کہ یہ آیت ،فلاں معاملے میں نازل ہوئی ہے، تو ان کی غرض کبھی یہ ہوتی ہے کہ آیت کاسبب نزول یہ ہے، اور کبھی مقصد یہ ظاہر کرنا ہوتاہے کہ وہ معاملہ اس آیت کے حکم میں داخلی ہے، اگرچہ خود وہ معاملہ، سبب نزول نہ بھی ہو۔
علمائے محدثین کااختلاف ہے کہ جب صحابی کہے کہ آیت فلاں بارے میں نازل ہوئی ہے، تو اس کایہ قول ، حدیث مسند قرار دیاجائے یامحض صحابی کی تفسیر ، جو حدیث مسند نہیں سمجھی جاتی؟ امام بخاری  نے ایسے قول کو حدیث مسند مانا ہے ، مگر دوسرے محدثین ایسا نہیں کرتے۔ اکثر کتب مسانید ، مثلاً مسند احمد وغیرہ اسی اصطلاح کے مطابق ہیں، لیکن جب صحابی ، سبب بیان کرکے کہتا ہے کہ آیت اس وجہ سے نازل ہوئی ہے، تو ایسے قول کو تمام محدث ، حدیث مسند ہی مانتے ہیں۔
پھر یہ بھی یاد رہے کہ سلف میں سے ایک شخص جب کہتا ہے کہ آیت اس بارے میں نازل ہوئی ہے، او ر دوسرا شخص کسی اور بارے میں نزول بتاتا ہے، تو ا س سے لازم نہیں ہوتا کہ دونوں میں اختلاف ہے ، جب کہ آیت کے مفہوم میں دونوں قول داخل ہوں۔ اسی طرح جب ایک صحابی ایک سبب نزول بتاتا ہے اوردوسرا صحابی ، دوسرا سبب بیان کرتا ہے ، تواسے بھی اختلاف پر محمول نہیں کرنا چاہیئے ، کیونکہ ممکن ہے آیت دومرتبہ نازل ہوئی ہو، ایک دفعہ ایک سبب پر دوسری دفعہ دوسرے سبب پر۔
تنوعِ تفسیر کی ان دونوں قسموں کو جن کاہم نے تذکرہ کیاہے اور جوسلف امت کی تفسیروں میں اکثر ملتی ہیں، اختلاف سمجھ لیاگیا ہے، حالانکہ ان میں اختلاف نہیں ہے۔ محض تنوع ہے، جو کبھی اسماء و صفات کے تنوع کی وجہ سے ہوتا ہے ، اورکبھی اس لئے پیش آتا ہے کہ مسمیٰ کی تمام تفسیر نہیں ذکر ہوئی ، بعض ہی انواع و اقسام کاتذکرہ کیاجاتا ہے، جیسا کہ تمثیلات کامعاملہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اختلاف کی چند اور مثالیں:
سلف کی تفسیر میں ایک اور بھی ایسا اختلاف ملتاہے، جوخود لفظ کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے، اور یہ اس طرح کہ لفظ کے معنی ایک سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کی دو صورتیں ہیں:
ایک صورت یہ ہے کہ لغت میں لفظ ایک سے زیادہ معانی کے لئے مشترک ہے، جیسے لفظ قسورہ کہ اس کے معنی تیر انداز کے بھی ہیں اور شیر کے بھی، یالفظ عسعس کہ رات کی آمد کوبھی کہتےہیں اوررات کے خاتمے کو بھی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اصل میں تولفظ کے معنی متعین ہیں، مگر اس سے مراد، معنی کی کوئی ایک نوع یا ایک شخص بتایا جائے، جیسے اس آیت میں ضمیروں کامعاملہ ہے۔ ’’ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى فَكَانَ قَابَ قَوْسَینِ اَوْ اَدْنٰى‘‘(النجم) اور جیسے اس آیت کے لفظ ’’ وَالْفَجْرِ وَلَیالٍ عَشْرٍوَّالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ‘‘ (الفجر)وغیرہ توایسی صورت میں کبھی وہ سب معانی ہوسکتے ہیں جو سلف صالحین نے بیان کئے ہیں اور کبھی ایسا نہیں ہوتا۔ سب معانی کامراد لینا اس لئے جائز ہوتا ہے کہ ممکن ہے آیت دومرتبہ نازل ہوئی ہو:ایک مرتبہ اس مراد کے لئے اور دوسری مرتبہ اس مراد کے لئے اور یااس لئے کہ لفظ مشترک ہے اور اس کے سب معانی مراد ہوسکتے ہیں، جیساکہ اکثر فقہائے مالکیہ و شافعیہ و حنبلیہ اوربہت سے علمائے کلام نے جائز رکھا ہے، اور یاپھر ایسا ہوتا ہے کہ لفظ کے معنی مقرر ہوتے ہیں اور وہ عام ہوتا ہے۔ جب تک اس کی تخصیص کاکوئی موجب موجود نہ ہو۔ اس صورت میں اگر سلف کے دونوں قول، صحیح روایت سے پہنچیں تواسے مذکورہ بالا دوسری قسم میں شمار کرناچاہیئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ترادف و تضمن:
تفسیر میں سلف کے ایسے اقوال بھی موجود ہیں کہ انہوں نے اپنا اپنا مطلب قریب المعنی الفاظ میں ادا کیا ہے۔ نہ کہ مترادف الفاظ میں، یاد رہے کہ لغت میں مترادف لفظ بہت ہی کم ہیں اور قرآن میں یاتو معدوم ہیں یانہایت نادر ہیں ، چنانچہ قرآن میں ایک ہی مطلب کے لئے ایسے دولفظ مشکل سے ملیں گے ، جو بالکل ہم معنی ہوں۔ البتہ قریب المعنی لفظ ملیں گے ، اور یہ بھی ایک وجہ اعجاز قرآن کی ہے۔
اسےمثال سے سمجھو۔ فرمایا ''یوْمَ تَمُوْرُ السَّمَاۗءُ مَوْرًا '' (الطور)اب اگر تفسیر میں کہا جائے کہ مور کے معنی ہیں، حرکت تویہ لفظ کی تقریبی تفسیر ہوگی، کیونکہ مور کے معنی محض حرکت نہیں بلکہ سبک تیز حرکت کومور کہتے ہیں۔ اسی طرح یہ کہنا کہ وحی کے معنی آگاہ کرناہیں، یایہ کہنا کہ اوحینا الیک کے معنی ہیں ہم نے تجھ پر نازل کیا۔'' وَقَضَینَآ اِلٰى بَنِیٓ اِسْرَاۗءِیلَ'' (بنی اسرائیل)کے معنی ہیں ''ہم نے بنی اسرائیل کو آگاہ کیاتویہ بھی تقریبی تفسیر ہی ہوگی۔ نہ بعینہ لفظی کیونکہ وحی کے معنی محض آگاہ کرنانہیں بلکہ ایسی آگاہی کوکہتے ہیں جو مخفی طورپر بسرعت دی جائے۔ اسی طرح لفظ قضاء کے معنی بھی محض آگاہ کرنانہیں بلکہ اس لفظ میں نازل کرنے اور وحی کرنے کے معنی بھی داخل ہیں۔
عربوں کا دستور ہے کہ فعل میں معنی فعل شامل کردیتے ہیں، اور دونوں سے یکساں برتاؤ کرتے ہیں۔ یہی دیکھ کر بعضوں نے غلطی سے سمجھ لیا کہ حروف بھی آپس میں ایک دوسرے کے قائم مقام ہوجاتے ہیں، جیسا کہ انہوں نے آیت '' لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ اِلٰى نِعَاجِہٖ'' (ص:۲:۲۳)میں اور آیت '' مَنْ اَنْصَارِیٓ اِلَى اللہِ'' (الصف)میں ''الی'' کو ''مع'' کاقائم مقام سمجھ لیاہے، حالانکہ یہ ان کی غلطی ہے۔ اور تحقیق وہی ہے جو بصرے کے نحویوں نے کہا ہے کہ فعل میں فعل کے معنی متضمن کر دیئے جاتے ہیں۔ بنابریں پہلی آیت میں لفظ سوال کے معنی میں یہ بھی شامل ہے کہ اس شخص کی بکریوں کو اپنی بکریوں میں ملالینا اسی طرح آیت '' وَاِنْ كَادُوْا لَیفْتِنُوْنَكَ عَنِ الَّذِیٓ اَوْحَینَآ اِلَیكَ'' (بنی اسرائیل:۷:۷۳) میں یہ مفہوم بھی داخل ہے کہ تمہیں گمراہ کردیتے اور روک دیتے۔ اسی طرح '' وَنَــصَرْنٰہُ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِینَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا'' (الانبیاء :۷۷) میں نجات دینے اور بچانے کے معنی بھی شامل ہیں۔ اسی طرح '' عَینًا یشْرَبُ بِہَا عِبَادُ اللہِ''۔ (الدھر) میں سیراب ہونابھی داخل ہے اس قسم کی مثالیں بکثرت ہیں۔
اسی طرح لاریب کی تفسیر ، لاشک سے کرنا تقریبی تفسیر ہے کیوں کہ ریب اور شک بالکل ہم معنی لفظ نہیں ہیں۔ ریب کے مفہوم میں اضطراب و حرکت بھی داخل ہیں۔ چنانچہ حدیث[1] میں آیا ہے: ''دَعْ مَایْرِیْبُکَ اِلَی مَالَا یُرِیْبُک''۔ جس طرح لفظ یقین میں سکون و طمانت کا مفہوم داخل ہے۔ اسی طرح لفظ ریب میں اضطراب و حرکت کا مفہوم داخل ہے۔ پس یقین کی ضد ریب ہے۔ رہ گیا لفظ شک، تو کہا گیا ہے کہ اس کے معنی ریب کو بھی مستلزم ہیں۔ مگر خود یہ لفظ ریب کے پورے معنی پر دلالت نہیں کرتا۔
اسی طرح ذالک الکتاب کی تفسیر میں کہنا کہ ''یہ قرآن'' تو یہ تفسیر بھی تقریبی ہو گی، کیونکہ مشار الیہ اگرچہ واحد ہے مگر حاضر کی طرف اشارے کا معاملہ غائب اور دور کی طرف اشارے سے مختلف ہوتا ہے۔ پھر کتاب کے معنی ہیں، وہ چیز جو لکھی ہوئی ہو، جمع کی ہوئی ہو، مگر قرآن کے معنی ہیں، جو چیز جو پڑھی جائے۔
غرض اس طرح کے فرق، قرآن میں موجود ہیں، اور اس بارے میں سلف کی عبارتوں کا جمع کرنا بہت مفید ہے۔ کیونکہ ایک دو عبارتوں کے مقابلے میں ان کا مجموعہ مفہوم کو کہیں زیادہ واضح کر دیتا ہے۔
[1] مشکوٰۃ: صفحہ۲۴۳۔ باب الکسب و طلب الحلال بحوالہ ترمذی، نسائی، دارمی، مسند احمد۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سلف میں تفسیری اختلاف ہے لیکن معمولی
لیکن اس تفصیل کا مطلب یہ نہیں کہ سلف میں سرے سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ بےشک ان میں خفیف اختلاف پایا جاتا ہے، جیسا کہ ہم احکام میں دیکھتے ہیں، مگر ضروری احکام، سب لوگوں کو معلوم ہیں، بلکہ تواتر سے معلوم ہیں اور ان میں کوئی اختلاف نہیں، جیسے نماز کی تعداد رکعات، اوقات، رکوع، خود نمازوں کے اوقات، زکوٰۃ اور نصاب زکوٰۃ کے احکام، رمضان کے روزے، حج میں طواف، وقوف، رمی الجمار وغیرہ۔
اور صحابہ رضی اللہ عنہم میں جو اختلاف نانا، دادا، بھائیوں اور ''مشترکہ[1]'' وغیرہ کے بارے میں ہوا ہے، تو اس سے فرائض (میراث) کے اکثر و بیشتر مسائل میں کوئی شک و اضطراب پیدا نہیں ہوتا، بلکہ عام طور پر جن مسائل کی زیادہ ضرورت رہتی ہے، جیسے والدین، اولاد، بھائی، بہن، بیوی تو ان کے حصول کی نسبت اللہ کی طرف سے تین مفصل آیتیں اتری ہوئی موجود ہیں۔ پہلی آیت میں اصول و فرعی رشتوں کا ذکر ہے۔ دوسری آیت میں شوہر، بیوی اور ماں کے بیٹے وغیرہ کا ذکر ہے۔ اور تیسری میں حاشیے والے رشتے مذکور ہوئےہیں۔ جیسے چچا اور ماموں، دادا اور میت کے بھائیوں کا اجتماع شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ اسلام میں نبی ﷺ کی وفات کے بعد ہی ایسا واقعہ پیش آیا تھا۔
اور اختلاف کبھی اس وجہ سے بھی پیش آجاتا ہے کہ دلیل ظاہر نہیں ہوتا، پوشیدہ ہوتی ہے اور اس کی طرف ذہن منتقل نہیں ہو پاتا۔ یا اس کا سبب عدم سماع ہوتا ہے۔ یعنی صحابی نے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد سنا نہیں ہوتا اور کبھی خود نص کے سمجھنے میں غلطی ہو جاتی ہے اور کبھی یہ ہوتا ہے کہ صحابی کے خیال میں کوئی راجح معارض موجود ہوتا ہے لیکن یہاں تفصیلات میں نہیں جانا ہے۔ چند اصولی اُمور کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔

[1] یہ مسئلہ میراث کی ایک صورت ہے یعنی جب میت عورت ہو اور اس کے وارث ہوں خاوند، ماں، اخیافی بھائی، سگےبھائی، اس صورت میں بعض صحابہ کے نزدیک ثلث مال میں اخیافی اور سگے بھائی برابر کے شریک ہوں گے۔ اس بنا پر اس کا عنوان ''مشترکہ'' ہوا۔ اور اکثر کے ہاں یہ ثلث، اخیافی بہن بھائیوں کو ملے گا۔ سگے محروم رہیں گے (مغنی۔ ص:۱۹ة۲۰ جلد۷)۔ حافظ ابن قیم  نے اعلام الموقعین میں اس مسئلہ پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ ملاحظہ ہو صفحہ۳۰۹۔۱۲۔ جلد۱ (ع۔ح)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
متاخر مفسرین کے اختلاف کی نوعیت
پھر تفسیر میں اختلاف دو قسم کا ہے۔ نقل پر مبنی ہے یا نقل کے بغیر اس کا علم حاصل ہو سکتا ہے۔ یہ اس لئے کہ علم کے دو ہی سرچشمے ہیں صحیح روایت، یا یقینی استدلال۔ اب روایت و نقل معصوم پیغمبر سے ہو گی یا غیر معصوم شخص سے، جس سے بھی ہو، وہ روایت یا تو ایسی ہو گی کہ اس کی صحت و ضعف معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ موجود ہو گا، یا موجود نہ ہو گا۔ آخری قسم کی روایت کہ جس کی صحت و ضعف کچھ نہ معلوم ہو سکے، بےفائدہ ہے۔ اور اس پر گفتگو کرنا فعل عبث ہے لیکن جس علم کی مسلمانوں کو ضرورت ہے، وہ اس قسم کا نہیں ہے، بلکہ اللہ کی طرف سے حق پر دلیل قائم ہو چکی ہے اور اس کی معرفت انسانی امکان میں آچکی ہے۔
 
Top