- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
تفسیر ِسلف میں اختلاف کی کمیت و کیفیت
سلف کے مابین تفسیر میں اختلاف کم ہوا ہے۔ احکام میں تفسیر سے زیادہ اختلاف صحیح طور پر ان سے مروی ہے، تنوع کا ہے نہ کہ تضاد کا۔ اور یہ اختلاف دو قسم کا ہے:
ایک یہ کہ ایک بزرگ نے مطلب ظاہر کرنے کے لئے ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں، جو دوسرے شخص کے الفاظ سے مختلف ہیں اور مطلب کے اس حصے پر دلالت کرتے ہیں، جس پر دوسرے لفظ دلالت نہیں کرتے، مگر دونوں کے الفاظ کا مسمیٰ ایک ہی ہے۔ اس کی مثال ایسے اسماء کی ہے جو ایک ہی مسمیٰ کی مختلف صفات کو ظاہر کرتے ہیں جیسے: سیف، صارم، مہند تینوں نام تلوار ہی کے ہیں، مگر تلوار کی مختلف صنعتوں کا اظہار کرتے ہیں۔ یہی معاملہ اللہ کے اسمائے حسنیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے اسمائے محمودہ کا ہے کہ اسماء کا مسمیٰ ایک ہی ہے، اسمائے الٰہی میں سے جس اسم کے ساتھ چاہئے دعا کیجئے ایک ہی ذاتِ مقدس سے دعا ہو گی۔ ایک نام سے دُعا دوسرے نام سے دعا کے مخالف نہ ہو گی۔ اللہ فرماتا ہے:
قُلِ ادْعُوا اللہَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ اَیا مَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى(بنی اسرائیل:۱۱۰)
’’کہہ دو! (اے نبی ﷺ) اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر، جو کہہ کر پکارو گے تو اس کے بہت اچھے اچھے نام ہیں‘‘۔
اللہ کا ہر نام اس کی ذات پر بھی دلالت کرتا ہے اور اس کی کسی خاص صفت پر بھی۔ مثلاً علیم، ذاتِ الٰہی پر بھی دلالت کرتا ہے اور صفتِ علم پر بھی۔ اسی طرح قدیر کی دلالت، ذات اقدس پر بھی ہے اور قدرت پر بھی۔ اسی طرح رحیم ذات برتر کو بھی ظاہر کرتا ہے اور صفت رحمت کو بھی۔
مذہب ظاہری کے جن مدعیوں نے کہا ہے کہ اسمائے الٰہی صفات الٰہی پر دلالت نہیں کرتے تو ان کا یہ مسلک حقیقت میں باطنی فرقوں[1] قرامطہ وغیرہ کے اقوال کی قبیل سے ہے۔ جو کہتے ہیں کہ اللہ کو نہ حیی کہنا چاہئے اور نہ یہ کہنا چاہئے کہ حیی نہیں ہے۔ وہ اللہ سے دونوں نقیضوں کی نفی کرتے ہیں۔ انہیں تسلیم کرتے ہیں، مگر ضمیروں کی طرح محض علم قرار دیتے ہیں، اور ان سے ثابت ہونے والی صفات کے منکر ہیں۔
بنابریں مذہبِ ظاہری میں اپنے دعائے غلو کے باوجود جو لوگ یہاں وہی بات کہتے اور مانتے ہیں، جس کے قائل یہ قرامطہ باطنیہ ہیں تو اس بارے میں وہ بھی قرامطہ باطنیہ کے ہمنواؤ ہم مسلک بن جاتے ہیں[2]۔ مگر یہ موقعہ اس بحث کا نہیں۔ مقصود یہ کہنا ہے کہ اسمائے الٰہی میں سے ہر اسم، ذاتِ الٰہی پر بھی دلالت کرتا ہے اور صفت پر بھی جو اس سے سمجھی جاتی ہے نیز بطریق لزوم دوسرے اسم کی صفت پر بھی دلالت کرتا ہے۔
یہی حال نبی ﷺ کے اسمائے شریفہ کا ہے۔ مثلا: محمد(ﷺ)، احمد، ماحی، حاشر، عاقب اور یہی حال اسمائے قرآن کا ہے، مثلاً قرآن، فرقان، ہدیٰ، شفا، بیان، کتاب وغیرہ۔ اب اگر کہاجائے کہ مسمیٰ متعین ہونا چاہیے تو جواب میں ہر اسم کو استعمال کر سکتے ہیں۔اگر سائل اس اسم کے مسمیٰ سے واقف ہے۔
اسم کبھی علم ہوتا ہے اور کبھی صفت۔ مثلاً سائل سوال کرتا ہے کہ ارشادِ خداوندی ’’وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِی‘‘ میں کیا چیز ہے؟ تو ہم جواب دیں گے’’ذکر‘‘ قرآن ہے یا اللہ کی اُتاری ہوئی کتابیں ہیں یہ اس لئے کہ مصدر ہے اور اس کی اضافت کبھی فاعل ہوتی ہے اور کبھی مفعول کی طرف۔ مفعول کی طرف اضافت مراد لی جائے تو ذکر سے مراد وہ لفظ ہوں گے، جن کے ذریعہ آدمی خدا کو یاد کرتا ہے۔ جیسے یہ لفظ: سُبْحَانَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ وَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اللہُ اَکْبَرُ۔ اور فاعل کی طرف اضافت مانی جائے تو ذکر سے مراد خود خدا کی جانب سے ذکر ہو گا۔ اور یہ ذکر خدا کا کلام ہے۔ آیت: ’’وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِی‘‘ سے یہی مراد ہے کیونکہ اس سے قبل فرما چکا ہے:’’فَاِمَّا یاْتِینَّكُمْ مِّنِّی ہُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَای فَلَا یضِلُّ وَلَا یشْقٰی‘‘(طہ) اور معلوم ہے، خدا کی ہدایت، اس کا اتارا ہوا ذکر ہی ہے اور یہ اس لئے بھی کہ اس کے بعد ہی فرما دیا ہے: ’’قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیٓ اَعْمٰی وَقَدْ كُنْتُ بَصِیرًا قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیتَہَا‘‘ غرض کہ سائل کا مقصود یہ جاننا ہے کہ ذکر الٰہی، اللہ کا اتارا ہوا ذکر ہے یا بندے کی طرف سے اللہ کا ذکر ہے۔ تو اب اللہ کا ارشاد کہ میرا ذکر میری کتاب، میری ہدایت، تو ان سب اسماء کا مسمیٰ ایک ہی رہے گا لیکن اگر سائل کا مقصود وہ خاص صفت جاننا ہو، جو اس اسم کے ساتھ خاص ہے، مثلاً سائل جانتا ہے کہ القدوس (بہت پاک) السلام (سلامتی والا) المؤمن (امن دینے والا) سے مراد، اللہ تعالی کی ذات ہے، لیکن پوچھتا ہے کہ اللہ کے القدوس السلام المؤمن ہونے کے کیا معنی ہیں؟ تو مسمیٰ متعین کرنے سے زیادہ ہمیں کچھ کہنا ہو گا۔
[1] باطنيہ، اسماعيليہ قرامطہ وغيرہ مختلف ناموں سے شيعوں کا ايک غالی فرقہ مراد ہے بلکہ يوں کہنا چاہئے کہ شيعہ فرقہ کو بھي ان سے کچھ نسبت نہيں ہے۔ يہ تيسري صدي ہجري ميں عباسيوں کے دورِ حکومت کی پيدوار ہے۔ مجوسيت، يہوديت اور يونانی فلسفہ کی معجون مرکب ہے۔ تفصيل کےلئے ديکھئے: ‘‘ملل و النحل شہرستاني طبع جديد ص:۳۳۳۔ ج:۱
[2] غالباً يہ اشارہ حافظ ابن حزم (المتوفي ۴۵۶ھ) کی طرف ہے۔ کيونکہ مصنف علام کی رائے ميں مسئلہ صفات ميں ان کا مسلک صحت و صواب سے ہٹا ہوا ہے۔ منہاج السنہ (۲۵۱۔ ۲۵۲ ج:۱) ميں اس پر تفصيل سے ليکن معقول اور سنجيدہ رد کرتے ہوئے ان کي طرف سے عذر بھی بيان فرمايا ہے کہ:
سلف کے مابین تفسیر میں اختلاف کم ہوا ہے۔ احکام میں تفسیر سے زیادہ اختلاف صحیح طور پر ان سے مروی ہے، تنوع کا ہے نہ کہ تضاد کا۔ اور یہ اختلاف دو قسم کا ہے:
ایک یہ کہ ایک بزرگ نے مطلب ظاہر کرنے کے لئے ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں، جو دوسرے شخص کے الفاظ سے مختلف ہیں اور مطلب کے اس حصے پر دلالت کرتے ہیں، جس پر دوسرے لفظ دلالت نہیں کرتے، مگر دونوں کے الفاظ کا مسمیٰ ایک ہی ہے۔ اس کی مثال ایسے اسماء کی ہے جو ایک ہی مسمیٰ کی مختلف صفات کو ظاہر کرتے ہیں جیسے: سیف، صارم، مہند تینوں نام تلوار ہی کے ہیں، مگر تلوار کی مختلف صنعتوں کا اظہار کرتے ہیں۔ یہی معاملہ اللہ کے اسمائے حسنیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے اسمائے محمودہ کا ہے کہ اسماء کا مسمیٰ ایک ہی ہے، اسمائے الٰہی میں سے جس اسم کے ساتھ چاہئے دعا کیجئے ایک ہی ذاتِ مقدس سے دعا ہو گی۔ ایک نام سے دُعا دوسرے نام سے دعا کے مخالف نہ ہو گی۔ اللہ فرماتا ہے:
قُلِ ادْعُوا اللہَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ اَیا مَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى(بنی اسرائیل:۱۱۰)
’’کہہ دو! (اے نبی ﷺ) اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر، جو کہہ کر پکارو گے تو اس کے بہت اچھے اچھے نام ہیں‘‘۔
اللہ کا ہر نام اس کی ذات پر بھی دلالت کرتا ہے اور اس کی کسی خاص صفت پر بھی۔ مثلاً علیم، ذاتِ الٰہی پر بھی دلالت کرتا ہے اور صفتِ علم پر بھی۔ اسی طرح قدیر کی دلالت، ذات اقدس پر بھی ہے اور قدرت پر بھی۔ اسی طرح رحیم ذات برتر کو بھی ظاہر کرتا ہے اور صفت رحمت کو بھی۔
مذہب ظاہری کے جن مدعیوں نے کہا ہے کہ اسمائے الٰہی صفات الٰہی پر دلالت نہیں کرتے تو ان کا یہ مسلک حقیقت میں باطنی فرقوں[1] قرامطہ وغیرہ کے اقوال کی قبیل سے ہے۔ جو کہتے ہیں کہ اللہ کو نہ حیی کہنا چاہئے اور نہ یہ کہنا چاہئے کہ حیی نہیں ہے۔ وہ اللہ سے دونوں نقیضوں کی نفی کرتے ہیں۔ انہیں تسلیم کرتے ہیں، مگر ضمیروں کی طرح محض علم قرار دیتے ہیں، اور ان سے ثابت ہونے والی صفات کے منکر ہیں۔
بنابریں مذہبِ ظاہری میں اپنے دعائے غلو کے باوجود جو لوگ یہاں وہی بات کہتے اور مانتے ہیں، جس کے قائل یہ قرامطہ باطنیہ ہیں تو اس بارے میں وہ بھی قرامطہ باطنیہ کے ہمنواؤ ہم مسلک بن جاتے ہیں[2]۔ مگر یہ موقعہ اس بحث کا نہیں۔ مقصود یہ کہنا ہے کہ اسمائے الٰہی میں سے ہر اسم، ذاتِ الٰہی پر بھی دلالت کرتا ہے اور صفت پر بھی جو اس سے سمجھی جاتی ہے نیز بطریق لزوم دوسرے اسم کی صفت پر بھی دلالت کرتا ہے۔
یہی حال نبی ﷺ کے اسمائے شریفہ کا ہے۔ مثلا: محمد(ﷺ)، احمد، ماحی، حاشر، عاقب اور یہی حال اسمائے قرآن کا ہے، مثلاً قرآن، فرقان، ہدیٰ، شفا، بیان، کتاب وغیرہ۔ اب اگر کہاجائے کہ مسمیٰ متعین ہونا چاہیے تو جواب میں ہر اسم کو استعمال کر سکتے ہیں۔اگر سائل اس اسم کے مسمیٰ سے واقف ہے۔
اسم کبھی علم ہوتا ہے اور کبھی صفت۔ مثلاً سائل سوال کرتا ہے کہ ارشادِ خداوندی ’’وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِی‘‘ میں کیا چیز ہے؟ تو ہم جواب دیں گے’’ذکر‘‘ قرآن ہے یا اللہ کی اُتاری ہوئی کتابیں ہیں یہ اس لئے کہ مصدر ہے اور اس کی اضافت کبھی فاعل ہوتی ہے اور کبھی مفعول کی طرف۔ مفعول کی طرف اضافت مراد لی جائے تو ذکر سے مراد وہ لفظ ہوں گے، جن کے ذریعہ آدمی خدا کو یاد کرتا ہے۔ جیسے یہ لفظ: سُبْحَانَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ وَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اللہُ اَکْبَرُ۔ اور فاعل کی طرف اضافت مانی جائے تو ذکر سے مراد خود خدا کی جانب سے ذکر ہو گا۔ اور یہ ذکر خدا کا کلام ہے۔ آیت: ’’وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِی‘‘ سے یہی مراد ہے کیونکہ اس سے قبل فرما چکا ہے:’’فَاِمَّا یاْتِینَّكُمْ مِّنِّی ہُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَای فَلَا یضِلُّ وَلَا یشْقٰی‘‘(طہ) اور معلوم ہے، خدا کی ہدایت، اس کا اتارا ہوا ذکر ہی ہے اور یہ اس لئے بھی کہ اس کے بعد ہی فرما دیا ہے: ’’قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیٓ اَعْمٰی وَقَدْ كُنْتُ بَصِیرًا قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیتَہَا‘‘ غرض کہ سائل کا مقصود یہ جاننا ہے کہ ذکر الٰہی، اللہ کا اتارا ہوا ذکر ہے یا بندے کی طرف سے اللہ کا ذکر ہے۔ تو اب اللہ کا ارشاد کہ میرا ذکر میری کتاب، میری ہدایت، تو ان سب اسماء کا مسمیٰ ایک ہی رہے گا لیکن اگر سائل کا مقصود وہ خاص صفت جاننا ہو، جو اس اسم کے ساتھ خاص ہے، مثلاً سائل جانتا ہے کہ القدوس (بہت پاک) السلام (سلامتی والا) المؤمن (امن دینے والا) سے مراد، اللہ تعالی کی ذات ہے، لیکن پوچھتا ہے کہ اللہ کے القدوس السلام المؤمن ہونے کے کیا معنی ہیں؟ تو مسمیٰ متعین کرنے سے زیادہ ہمیں کچھ کہنا ہو گا۔
[1] باطنيہ، اسماعيليہ قرامطہ وغيرہ مختلف ناموں سے شيعوں کا ايک غالی فرقہ مراد ہے بلکہ يوں کہنا چاہئے کہ شيعہ فرقہ کو بھي ان سے کچھ نسبت نہيں ہے۔ يہ تيسري صدي ہجري ميں عباسيوں کے دورِ حکومت کی پيدوار ہے۔ مجوسيت، يہوديت اور يونانی فلسفہ کی معجون مرکب ہے۔ تفصيل کےلئے ديکھئے: ‘‘ملل و النحل شہرستاني طبع جديد ص:۳۳۳۔ ج:۱
[2] غالباً يہ اشارہ حافظ ابن حزم (المتوفي ۴۵۶ھ) کی طرف ہے۔ کيونکہ مصنف علام کی رائے ميں مسئلہ صفات ميں ان کا مسلک صحت و صواب سے ہٹا ہوا ہے۔ منہاج السنہ (۲۵۱۔ ۲۵۲ ج:۱) ميں اس پر تفصيل سے ليکن معقول اور سنجيدہ رد کرتے ہوئے ان کي طرف سے عذر بھی بيان فرمايا ہے کہ: