• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصول تفسیر-ابن تیمیہ رحمہ اللہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بے نتیجہ تفصیلات
بے فائدہ اور بےدلیل علم کی مثال، اصحاب کہف کے حالت میں اختلاف ہے، یا اس بارے میں اختلاف کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مارنے کے لئے گائے کے کس عضو کا استعمال کیا تھا، یا یہ کہ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کتنی لمبی چوڑی تھی؟ اس کی لکڑی کس درخت کی تھی؟ یا اس لڑکے کا کیا نام تھا جسے خضر علیہ السلام نے قتل کر ڈالا تھا؟ ظاہر ہے اس قسم کے معاملات کا علم، نقل ہی کے ذریعے ہو سکتا ہے، عقل کے ذریعہ نہیں ہو سکتا۔ اب جس معاملے کے بارے میں نبی ﷺ سے نقل صحیح موجود ہے تو وہ معلوم ہے، جیسے یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے رفیق سفر کا نام خضر علیہ السلام تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اسرائیلیات:
لیکن جس بارے میں کوئی صحیح نقل موجود نہیں، بلکہ اس کے علم کاذریعہ اہل کتاب ہیں، جیسے کعب احبار، وہب اور محمد بن اسحاق وغیرہ کی منقولات ، جو اہلِ کتاب سے روایت کرتے ہیں، تو جب تک صحت پر قطعی دلیل موجود نہ ہو اسی منقولات کی نہ تصدیق جائز ہے نہ تکذیب، کیونکہ صحیح بخاری [1]کی حدیث ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ''جب اہلِ کتاب تم سے کچھ بیان کریں، تو ان کی نہ تصدیق کرو نہ تکذیب ۔ ہوسکتا ہے کہ وہ حق بیان کررہے ہوں اور تم نادانستہ تکذیب کرجاؤ، یا باطل بیان کررہے ہوں اور تم بے جانے تصدیق کر بیٹھو''۔
یہی حال اس قسم کی منقولات کاہے ، جو بعض تابعین سے مروی ہیں۔ اگرچہ تابعی یہ تصریح بھی نہ کرے کہ اس کاذریعہ معلومات اہل کتاب ہیں، اور جب تابعین ایسے امور میں باہم اختلاف کریں تو ایک تابعی کاقول ، دوسرے تابعی پر حجت نہیں ہوتا ، لیکن اس بارے میں اگر کوئی بات صحیح روایت کے ساتھ کسی صحابی سے منقول ہو، تو تابعین کے مقابلے میں اس پر دل کو زیادہ اطمینان ہوگا، کیونکہ ممکن ہے صحابی نے وہ بات نبی ﷺ سے سنی ہو، اور کیونکہ تابعی کا نقل کرنا، صحابی کے حزم و یقین کاہم پلہ نہیں ہوسکتا ، اور یہ معلوم ہے کہ صحابی کی نسبت یہ نہیں کہاجائے گاکہ اہل ِکتاب سے نقل کررہا ہے جب کہ اسے اہل کتاب کی تصدیق کرنے کی ممانعت ہوچکی ہے۔ غرض جس اختلاف کی حالت یہ ہوکہ اس میں قول کی صحت معلوم نہ ہو سکے، اور اس کی تفصیل بھی غیر مفید ہوتو اس کا اہتمام کرنا ویسا ہے جیسا ایسی حدیث کے پیچھے پڑنا جس کی صحت پر کوئی دلیل نہ ہو۔
رہیں پہلی قسم کی وہ منقولات، جن کی صحت معلوم کی جاسکتی ہے، توبحمد للہ ان کی کمی نہیں۔ یہاں یہ یادرہے کہ تفسیر ، حدیث اور مغازی میں ہماری نبی ﷺ اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کی طرف اگرچہ بہت کچھ منسوب ہے مگر نقل صحیح ہی اسے رد بھی کررہی ہے۔

[1] مشکوۃ ص ۲۸، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تفسیری منقولات اور ان کی حیثیت استناد:
حقیقت یہ ہے کہ دین میں جن منقولات کی ضرورت ہے، خدا نے ان کی صحت کے اور بطلان کے دلائل قائم کردیئے ہیں، اور معلوم ہے تفسیر میں بھی زیادہ تر منقولات ویسی ہی ہیں جیسی مغازی و ملاحم میں ہیں ، اس لئے امام احمد[1]  نے فرمادیا ہے کہ تین چیزیں ایسی ہیں ، جن کی اسناد نہیں، یعنی تفسیر ، ملاحم، اور مغازی ، کیونکہ ان میں اکثریت مرسل روایتوں کی ہے، جیسے عروہ بن الزبیر[2]،شعبی[3]،زہری[4] موسیٰ بن عقبہ[5] ابن اسحاق[6] اوران کے بعد جیسے یحییٰ بن سعید[7] اموی، ولید[8]مسلم[9]، واقدی[10] وغیرہ اصحاب مغازی کی روایتیں۔مغازی کا سب سے زیادہ ، اہل مدینہ کوہےپھر اہل شام کو، پھر اہل عراق کواہل مدینہ کو اس لئے کہ انہی سے مغازی کاتعلق رہا ہے، اہل شام کو اس لئے کہ وہ جنگ و جہاد میں سب سے زیادہ مشغول رہے ہیں، لہذا اس باب میں جو علم ان کو ہے، دوسروں کو نہیں، اسی لئے ابو اسحاق[11] فزاری کی کتابُ المغازی کی بڑی قدر کی گئی اور دوسرے علماء بلاد کے مقابلے میں اوزاعی[12]  کو اس صنف علم کاسب سے بڑا عالم قرار دیاگیا ہے۔
علم تفسیر میں اہل مکہ سب سے بڑھے ہوئے ہیں، کیونکہ وہ اصحابِ عبداللہ بن عباس؄ ہیں، جیسے مجاہد  عطاء بن[13] ابی رباح اور عکرمہ[14]مولیٰ ابن عباس ؄ طاووس[15]، ابو الشعثاء[16] سعید[17] بن جبیر وغیرہ۔
اسی طرح کوفے میں عبداللہ بن مسعود ؄ کو اصحاب کوتفسیر میں دوسروں پر فوقیت حاصل ہے۔ یہی حال مدینے میں زید بن اسلم جیسے بزرگوں کاہے۔ امام مالک  نے انہی زید بن اسلم[18]  سے تفسیر لی ہے، نیز ان کے بیٹے عبدالرحمٰن[19] نےاور عبداللہ بن وہب[20]  نے بھی۔



[1] حافظ ابن حجر  لسان المیزان (ص ۱۳ ج۱)میں امام احمد کا یہ قول نقل کرکے لکھتے ہیں ''چوتھی چیز فضائل و مناقب ہیں، اس کابھی اضافہ ہونا چاہیے۔ ضعیف و موضوع کے یہی چار میدان ہیں، کیونکہ عام طورپران گپوں کاماخذ واقدی، مقاتل، کلبی ہیں،ملاحم کی حدیثوں کادارومدار اکثر اسرائیلیات پرہے اور مناقب و فضائل کا سرچشمہ شیعہ اور ان کے جاہل مخالفین ہیں۔
[2] عروہ بن زبیر مشہور تابعی، حضرت عائشہ ؄ کے بھانجے وفات ۹۴ھ (تہذیب ص ۱۸۰۔۱۸۵ج۷)سیرت و مغازی کے پہلے مدون(کشف الظنون)
[3] عامر بن شراجیل شعبی کوفی، مغازی کے حافظ ، جلیل القدر تابعی، م ۱۰۹ھ(تہذیب صفحہ ۶۵۔۶۹ج۵)
[4] محمد بن مسلم بن شہاب زہری جلیل القدر تابعی ، متفقہ طورپر ثقہ ، وفات ۱۲۴ھ۔
[5] موسیٰ بن عقبہ الاسدی (وفات ۱۴۱ھ)امام زہری کے بہترین شاگرد ، ان کی تصنیف کردہ کتاب المغازی سب سے مستند مانی گئی ہے۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس سے بہت استفادہ کیاہے(تفصیلی حالات کے لئے تہذیب ص ۳۶۰۔۳۶۲ج۱۰)
[6] محمد بن اسحاق ، مغازی کے مشہور امام ، حدیث میں ثقہ ہاں '' عن'' سے روایت کریں تومدلس ہونے کی وجہ سے ان کی روایت قابلِ تحقیق ، وفات ۱۵۰ھ(تہذیب ص ۳۸۔۴۶ج۹)سیرت ابن ہشام انہی ابن اسحاق کی سیرت کی تلخیص ہے۔
[7] یحییٰ بن سعید الاموی ابو ایوب الحافظ ، صاحب مغازی وفات ۱۹۴ھ صدوق (تہذیب ص ۲۱۳جلد۱۱)
[8] ولید بن مسلم قرشی(وفات ۱۹۴ھ)شام کے مشہور محدث ، قوی الحافظہ ، ۷۰کے قریب تصنیفات ، جن میں ایک کتاب المغازی ہے(فہرست ابن ندیم ص ۱۵۹،تہذیب ص ۱۵۱۔۱۵۴جلد۱۱)
[9] جہاں تک میرا خیال ہے، اصل نسخہ(عربی)میں یہ ناسخ کی غلطی ہے، ولید بن مسلم چاہیئے ' ' بن'' کی بجائے '' واؤ'' غلطی سے لکھاگیا ہے۔ کیونکہ تلاش کرنے پر بھی مجھے '' مغازی'' میں مسلم نام کامصنف و مدون نہیں مل سکا ۔واللہ اعلم۔
[10] محمد بن عمر واقدی ، وفات ۲۰۷ھ مغازی کے دلچسپ عالم ،محدثین کے ہاں بوجہ بے سروپابیانی بدنام (تہذیب ص ۳۶۳۔۳۶۸جلد۹)
[11] ابراہیم بن محمد بن حارث ابو اسحاق الفزاری الکوفی (وفات ۱۸۶ھ)مغازی وسیرت میں بے نظیر تصنیف فرمائی ۔ سنت کے امام ، ثقہ شام میں بود و باش اختیار کرلی تھی۔ (تہذیب ص ۱۵۱۔۱۵۳جلد۱)
[12] عبدالرحمن بن عمر والا اوزاعی ۔ مشہور ثقہ امام ہیں۔ بعض کے خیال میں یہ نسلاً سندی تھے، شام میں رہ رہے تھے۔ وفات ۱۵۱۔۱۵۸ کے درمیان (تہذیب ص ۲۳۲۔۲۳۸جلد۶)آپ کے حالات میں ایک مستقل کتاب طبع ہوئی ہے۔ محاسن المساعی نام ، علامہ شکیب ارسلان کی تعلیقات کے ساتھ۔
[13] مشہور فقیہ تابعی وفات ۱۱۴ھ(تہذیب ص ۱۹۹۔۲۰۲جلد۷)
[14] عکرمہ بن عبداللہ ثقہ تابعی، وفات ۱۰۷ھ(تہذیب ص ۲۶۳۔۲۷۳جلد۷)
[15] طاؤوس بن کیسان ابو عبدالرحمن  فقیہ تابعی وفات ۱۰۶ھ۔
[16] ابو الشعثاء جابر بن زید ازدی مصری ،عبداللہ بن عباس ؄ کے خاص شاگرد ، تفسیر قرآن کے ماہر،وفات ۹۳۔۱۰۴ھ کے درمیان (تہذیب ص ۔۳۸جلد۲)
[17] سعید بن جبیر الکوفی ابو محمد بڑے بزرگ  اور صاحب علم تابعی ، ثقہ حجاج کے ہاتھوں ۹۵ھ میں مظلوم شہید ہوئے، (تہذیب ص ۱۱،۱۴جلد ۴)آپ ہی نے سب سے پہلے تفسیر میں کتاب تصنیف فرمائی،(تہذیب ص ۔۱۹۸جلد۷)
[18] زید بن اسلم ابو اسامۃ المدنی مولیٰ عمر ؄ مشہور تابعی، وفات ۱۳۶ھ(تہذیب صفحہ ۳۹۵جلد۳)
[19] عبدالرحمن بن زید بلحاظ روایت ضعیف ، (تہذیب ص ۱۷۷۔۱۷۹جلد۶)
[20] امام ابو محمد عبداللہ بن وہب القرشی ، امام مالک  کے مشہور شاگرد وفات ۱۹۹ھ الدیباج المذہب فی معرفۃ اعیان علماء المذہب(ابن فرحون)ص ۱۳۲۔۱۳۳)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
صحت روایت کامعیار
مرسل روایتیں اگر کئی طریقوں سے مروی ہوں اور انہیں گھڑنے کی سازش نہ کی گئی ہو، تو قطعاً صحیح ہیں، کیونکہ جوبات نقل کی جارہی ہے، یاتو اصل کے مطابق ہوگی، یعنی صحیح ہوگی، یا اصل کے خلاف ہوگی، یعنی جھوٹی ہوگی جسے راوی نے گھڑلیا ہو، یابیان کرنے میں اس سے نادانستہ غلطی ہوگئی ہو۔ جب یہ دونوں صورتیں نہ ہوں، جھوٹ بھی نہ بولا گیا ہو ، اور بھول چوک بھی نہ ہوئی ہو، تو راویت بلاشک صحیح ہوگی ۔
لہٰذا جب حدیث، دو یا زیادہ طریقوں سے مروی ہو اور یہ بھی معلوم ہو کہ راویوں نے اسے مل کر گھڑا نہیں ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی ظاہر ہو کہ اس قسم کے معاملے میں جھوٹ بولنے اور سازش کرنے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہو سکتی، تو مان لینا پڑے گا کہ روایت صحیح ہے۔
مثلاً ایک شخص واقعہ بیان کرتا ہے اور پیش آنے والے اقوال کا تذکرہ تفصیل سے کرتا ہے۔ پھر دوسرا شخص آتا ہے اور بعینہٖ انہی اقوال و افعال کو بیان کرتا ہے تو ایسی صورت میں یقین کر لینا ہو گا کہ واقعہ مجموعی طور پر ضرور پیش آیا ہے۔ یہ اس لئے کہ اگر دونوں راوی جان بوجھ کر یا غلطی سے جھوٹ بولے ہوتے، تو عام تجربہ و مشاہدہ بتاتا ہے کہ دو شخص ایک ہی تفصیل بیان نہیں کر سکتے، جب تک پہلے سے جھوٹ بولنے پر اتفاق نہ کرچکے ہوں۔
یہ تو ممکن ہے کہ دو شاعر ایک ہی شعر کہہ جائیں، ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی جھوٹ دو الگ الگ آدمی بول جاتے ہیں مگر عادتاً یہ نہیں ہوتا کہ ایک شاعر مختلف مضامین پر حاوی لمبا قصیدہ کہے اور دوسرا شاعر بھی انہی الفاظ و معانی کے ساتھ ویسا ہی طول طویل قصیدہ نظم کر دے اور اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے، تو ہر زبان کہہ اٹھے گی کہ اس دوسرے شاعر نے پہلے شاعر کا قصیدہ ہتھیا لیا ہے۔
اسی مثال پر حدیث کو قیاس کرنا چاہیئے۔ طویل حدیث، جس میں متعدد مضامین ہوں۔جب ایک راوی سے پہنچے، اور دوسرا راوی بھی بعینہٖ اسے روایت کرے تو ایسی صورت میں اس کے سوا اور کیا سمجھا جا سکتا ہے کہ یا تو دونوں راویوں نے مل کر حدیث گھڑ لی ہے یا ایک راوی نے دوسرے راوی سے سنی ہے یا پھر خود حدیث ہی صحیح ہے۔
انہی طریقوں سے اکثر ان منقولات کی صحت تسلیم کی جاتی ہے جو مختلف طریقوں سے پہنچتی ہیں، اگرچہ ان میں کی اکیلی روایت اپنے ارسال یا ضعف ناقل کے باعث کافی نہیں ہوتی، لیکن منقولات کے الفاظ اور دوسرے وقائق کی تحقیق کی یہ راہ نہیں ہے۔ اس کے لئے دوسرے ذرائع سے کام لیا جاتا ہے: (یہ قاعدہ قدر مشترک کی یقینی صحت کا ہے) مثلاً تواتر سے ثابت ہے کہ غزوہ بدر پیش آیا تھا، اور یہ کہ غزوہ بدر، غزوہ احد سے پہلے تھا۔ یہ بھی یقین سے معلوم ہے کہ حضرت حمزہ ؄ حضرت علی ؄ اور حضرت عبیداللہ ؄ لڑنے کے لئے عتبہ، شیبہ اور ولید کے مقابلے میں نکلے تھے۔ حضرت علی ؄ نے ولید کو قتل کر ڈالا تھا اور حضرت حمزہ ؄ کے ہاتھ سے ان کا حریف مارا گیا تھا، مگر اس بارے میں شک ہے کہ حضرت حمزہ ؄ کا حریف کون تھا، عتبہ تھا یہ شیبہ تھا؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ایک اصولی قاعدہ
مذکورہ بالا اصولی قاعدہ کو یاد رکھنا چاہیئے، کیونکہ حدیث، تفسیر، مغازی اور لوگوں کے افعال و اقوال سے متعلق منقولات کی صحت و عدم صحت کا فیصلہ کرنے میں اس سے مدد ملتی ہے۔ مثلاً نبی ﷺ سے ایک حدیث، دو طریقوں سے روایت ہوتی ہے اور ہم یہ بھی جانتے ہوتے ہیں کہ ایک راوی نے دوسرے راوی سے روایت نہیں لی ہے تو ایسی صورت میں اس روایت کے صحیح ہونے کا یقین ہو جاتا ہے۔ خصوصاً جب یہ بھی معلوم ہو کہ راوی ان لوگوں میں سے نہیں جو جان بوجھ کر کذب بیانی سے کام لیتے ہیں۔ البتہ انفراداً نادانستہ غلطی اور بھول چوک ضرور ممکن ہے (جس کی تلافی اجماعی روایت سے ہو جاتی ہے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
صحابہ رضی اللہ عنہم، تابعین رحمۃ اللہ علیہم قابلِ اعتماد ہیں
جو کوئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حالات سے واقف ہے، مثلا حضرت عبداللہ بن مسعود؄، حضرت ابی بن کعب ؄، حضرت عبداللہ بن عمر ؄، حضرت جابر بن عبداللہ ؄، حضرت ابو سعید خدری ؄، حضرت ابوہریرہ ؄ وغیرھم کے حالات سے باخبر ہے وہ یہ بھی یقن سے جانتا ہے کہ ان میں کوئی صحابی رسول اللہ ﷺ پر کذب عمد کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔ یعنی جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بول سکتا۔ یہ ان صحابیوں کا حال ہے، لیکن جو صحابی ان سے بلند درجے کے ہیں، ان پر تو اور بھی شک نہیں ہو سکتا۔ یہ معاملہ ایسا ہی ہے جیسے تمہیں اپنی ذات واقفیت اور طویل تجربے سے کسی شخص کے بارے میں یقین ہو جاتا ہے کہ وہ نہ چوری کر سکتا ہے، نہ قزاقی کے گناہ سے آلودہ ہو سکتا ہے، نہ جھوٹی گواہی دینا ہی اس سے ممکن ہے ۔
یہی حال مدینے، مکے، شام، بصرے کے تابعین کا ہے۔ جس کسی کو مثلاً ابوصالح[1] سمان، اعرج[2]  ، سلیمان[3] بن یسار زید بن اسلم وغیرہ کے حالات سے واقفیت ہے، یقین سے جانتا ہے کہ یہ لوگ جان بوجھ کر جھوٹے سے آلودہ نہیں ہوسکتے۔ پھر ان سے بلند پایہ تابعین کاکیاکہنا، جیسے محمد بن سیرین[4]  قاسم[5] بن محمد۔ سعید[6]  بن المسیب  عبیدہ [7]سلمانی  ، علقمہ[8]  اسود[9]  وغیرہ ۔


[1] ابو صالح ذکوان ، حضرت ابو ہریرہ ؄ کے مشہور ثقہ شاگرد ، وفات ۱۰۱ھ(تہذیب ص ۱۹ جلد ۳)
[2] عبدالرحمن بن ہرمز الاعرج  یہ بھی حضرت ابو ہریرہ ؄ کے مشاہیر تلامذہ سے ہیں۔ وفات ۱۱ ھ (تہذیب ص ۲۹۰ جلد۶)
[3] سلیمان بن یسار الہلالی المدنی تابعی ۔ ۹۳ھ سے ۱۰۹ھ کے درمیان وفات۔
[4] محمد بن سیرین انصاری  اپنے وقت کے امام حدیث وفقہ ، جلیل القدر تابعی ۔ وفات ۱۱۰ھ (تہذیب ص ۲۱۴۔۲۱۷جلد۹)
[5] قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق ؄۔ جلیل القدر تابعی۔ وفات ۱۰۶ھ(تہذیب ص ۳۳۳جلد۷)
[6] حضرت سعید بن المسیب  القرشی جلیل القدر تابعی، جید محدث و فقیہ وفات ۹۳ھ(ابن خلکان ص ۲۰۶جلد)
[7] عبیدہ  بن عمرو سلمانی الکوفی حضرت علی ؄ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؄ کے خاص شاگرد ، وفات ۷۰ھ(تہذیب ص ۸۴جلد۷)
[8] علقمہ بن قیس النخعی الکوفی، حضرت عبداللہ بن مسعود ؄ کے خاص تلمیذ ، وفات ۶۲۔۷۳ھ کے درمیان۔ (تہذیب ص ۲۷۶جلد۷)
[9] اسود  متعدد راوی ہیں۔ یہاں سےمراد شاید اسود بن ہلال المحاربی الکوفی ہوں۔ وفات ۸۴ھ(تہذیب ص ۳۴۲جلد۱)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اتفاقیہ غلطی صحت کے منافی نہیں:
یہ ضرور ہے کہ انفراداً غلطی کااحتمال ان سے بھی ہے۔ آدمی بھول چوک کاشکار ہوتاہی رہتا ہے، لیکن ایسے حافظ حدیث بھی ہیں کہ وہ غلطی اور نسیان سے بہت دور سمجھے گئے ہیں (یعنی ان کی بھول بہت ہی قلیل ہے)انہی میں شعبی زہری  عروہ  قتادہ[1] ثوری  جیسے مشاہیر بھی ہیں۔ زہری اور ثوری  تو اپنے اپنے زمانے میں بہت بڑے حافظ حدیث مانے جاتے تھے، اور لوگ تعجب سے کہاکرتے تھے کہ اس قدر کثرت سے حفظ حدیث و روایت پر بھی ابن شہاب زہری سے کبھی غلطی نہیں ہوتی۔

[1] قتادہ بن وعامہ السدوسی البصری مشہور تابعی۔ وفات ۱۱۷ھ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
طویل احادیث میں قدر مشترک کی صحت کافی ہے :
غرض جب کوئی طویل حدیث ، دومختلف طریقوں سے مروی ہو، اور راویوں کی اس میں سازش نہ ہو، تو وہ روایت نہ غلط ہوسکتی ہے نہ جھوٹی ، کیونکہ غلطی ، پورے لمبے قصے میں نہیں ہوسکتی۔ اس کے بعض حصوں ہی میں ہو سکتی ہے۔ تو اب اگر دو راوی بعینہ ایک ہی طولانی قصہ بیان کرتے ہیں، اور دونوں کابیان یکساں ہے، توسمجھ لینا چاہیئے کہ بیان و روایت نہ غلطی ہے نہ جھوٹ ہے، خصوصاً جب یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ ان راویوں نے جھوٹ بولنے پر اتفاق نہیں کیاہے۔
اس کی مثال وہ حدیث ہے جس میں بیان کیاگیا ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت جابر بن عبد اللہ ؄ سے اونٹ خریدا تھا۔ اس حدیث کے مختلف طریق پر غور کرنے سے صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ حدیث یقیناً صحیح ہے، گو اسکے حصے میں راویوں کا اختلاف ہوگیا ہے کہ حضرت جابر ؄ کو قیمت کتنی دی گئی تھی ، جیساکہ بخاری  نے اپنی صحیح میں اسے واضح کیاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
صحیحین کی صحت پراجماع ہے:
بخاری و مسلم میں جو حدیثیں موجود ہیں، ان کے بارے میں یقین[1] ہے کہ نبی ﷺ ہی کے فرمودات ہیں ، اور ان کی بڑی اکثریت اسی قبیل سے ہے جس کاہم تذکرہ کر رہے ہیں۔ اہل علم نے قبول و تصدیق کے ساتھ ان کا خیرمقدم کیاہے۔


[1] صحیحین کی حدیثوں کے متعلق مصنف علام منہاج السنہ (ص۱۱۳ جلد۴) میں فرماتے ہیں:
واھل الحدیث یعلمون صدق متون الصحیحین۔ من شرکھم فیھا علم ما علموہ ومن لم یشرکھم لم یعلم ذلک۔ ۱ھ
''اہل حدیث کو یقین ہے کہ صحیحین کے متون صحیح ہیں۔ ناآشنایانِ فن البتہ اس یقین سے محروم ہیں''۔
دوسرے مقام پر اس دعویٰ کو مدلل فرمایا ہے:
احادیث البخاری و مسلم رواھا غیرھما من العلماء و المحدثین من لا یحصی عددھم الا اللہ و لم ینفرد واحد منھما بحدیث بل ما من حدیث الا وقد رواہ قبل زمانہ و فی زمانہ و بعد زمانہ طوائف۔ الی قولہ۔ والمقصود ان احادیثھما نقدھا الائمۃ الجھابذۃ قبلھم و بعدھم و رواھا خلائق لا یحصی عددھم الا اللہ فلم ینفرد الا بروایۃ و لا بتصحیح واللہ سبحانہ و تعالیٰ ھو الحفیظ ھذا الدین کما قال تعالیٰ: ان نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون (الحجر) (منہاج السنۃ ص:۵۹ جلد۴)
''صحیح بخاری و صحیح مسلم کی احادیث صرف ان دونوں نے ہی روایت نہیں کی ہیں بلکہ بے شمار علماء و محدثین ان کے راوی اور ناقل ہیں، ان سے قبل کے لوگ بھی، ان کے اہل زمانہ بھی اور ان کے بعد میں آنے والے بھی''۔
''نہ صرف روایت ہی کیا ہے بلکہ ان کو خوب خوب جانچا، اچھی طرح پرکھا بھی، پھر یہ ناقدین بھی بڑے بڑے نقادانِ فن تھے۔ حاصل یوں سمجھئے کہ صحیحین کی روایات کے نہ بیان کرنے میں، یہ دونوں امام منفرد ہیں اور نہ ہی صحیح قرار دینے میں متفرد۔ اور ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ مشکوک (ضعیف) حدیثیں رواج پا جاتیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں قیامت تک کے لئے شریعت کو محفوظ رکھنے کا وعدہ فرمایا ہے''۔
حضرت شیخ الاسلام سے قبل ساتویں صدی ہجری کے جلیل القدر عالم علامہ ابوعمر و عثمان بن الصلاح (المتوفی:۶۴۳ھ) نے صحیحین کی احادیث کے متعلق یہی ارشاد فرمایا ہے۔ صحیحین کا ذکر کر کے لکھتے ہیں: وھذا القسم جمیعہ مقطوع بصحۃ (مقدمہ:۱۴) (صحیحین کی حدیثیں قطعاً رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہیں) حافظ ابن حجر عسقلانی  فرماتے ہیں: ''محققین کا مسلک یہی ہے جو ابن الصلاح کا ہے''۔ (سندی حاشیہ شرح نخبہ ص:۲۱) حافظ ابن کثیر  نے بھی اسی کو پسند فرمایا ہے۔ (الباعث الحثیث ص:۸) امام شوکانی  اپنی کتاب قطر الولی میں فرماتے ہیں:
اجمع اھل ھذا الشان ان احادیث الصحیحین او احدھما کلھا من المعلوم صدقہ المتلقی بالقبول المجمع علی ثبوتہ و عند ھذہ الا جماعات تندفع کل شبھۃ و یزول کل تشکیک
''فن حدیث والوں کا اس امر پر اجماع ہے کہ صحیح بخاری، صحیح مسلم کی متفقہ حدیثیں یا ان میں سے ایک کی حدیث یقیناً صحیح اور مفید علم ہیں۔ ایسے اتفاق کی موجودگی میں ہر قسم کا شک و شبہ دور ہو جاتا ہے''۔
(حاشیہ موائد العوائد ص ۲۳۹، از حضرت نواب سید محمد صدیق حسن خان رحمہ اللہ) اور ارشاد الفحول الی تحقیق الحق فی علم الاصول (ص:۴۷) میں فرماتے ہیں:
لا نزاع فی ان خبر الواحد اذاوقع الاجماع علی العمل بمقتضاہ فانہ یفید العلم لان الاجماع علیہ قد صیرہ من المعلوم صدقہ و من ھذا القسم احادیث صحیح البخاری و مسلم فان الامۃ تلقت ما فیھما بالقبول و من لم یعمل بالبعض من ذلک فقد اولہ و التاویل فرع القول۔
''اس میں کوئی نزاع ہی نہیں کہ خبر واحد پر عمل کرنے میں جب اجماع ہو جائے تو وہ یقینی قرار پاتی ہے۔ کیونکہ اجماعی حکم قطعی ہوتا ہے۔ صحیحین کی حدیثوں کا یہی مرتبہ ہے۔ اس لئے کہ علمائے اُمت نے ان کو قبولیت کا شرف بخشا ہے۔ اگر کسی نے ان کی حدیث پر عمل نہیں بھی کیا تو اس کی صحت میں شک کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی تاویل کی وجہ سے''۔
اس قسم کی تصریحات یمن کے ایک اہلِ حدیث محقق و نقاد علامہ محمد بن ابراہیم وزیر (المتوفی:۸۴۰) نے ''الروض الباسم فی الذب عن سنۃ ابی القاسم'' (ص۷۸جلد۱) میں فرمائی ہیں۔ اور یہی تحقیق حضرت نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ یحییٰ بن ابی بکر یمنی سے نقل کی ہے جو انہوں نے اپنی کتاب ''الریاض المستطابۃ فی جملۃ ممن روی فی الصحیحین من الصحابہ'' میں تحریر فرمائی ہے۔ (دیکھئے منہج الوصول ص:۳۱ة۳۲)
اس مسلک کی قوتِ دلیل نے بعض متکلمین اور مذاہب اربعہ کے محققین کو بھی اس امر پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ صحیحین کی احادیث کے قطعی یقینی ہونے کا اعتراف کریں، جیسا کہ مصنف علام  نے اپنےاگلے کلام میں ذکر فرما رہے ہیں، رہے اہل حدیث تو وہ سب کے سب اس پر متفق ہیں۔ و جمیع اھل الحدیث علی ما ذکرہ الشیخ ابو عمرو (الصواعق المرسلہ ص۷۴ جلد۲)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے حجۃ اللہ البالغہ میں کتب حدیث کو چند طبقات (درجے) پر تقسیم کرتے ہوئے صحیحین و موطا کو اعلیٰ درجے میں داخل کیا ہے، اور ان کی احادیث کے ایک حصے کو متواتر و مشہور اور دوسرے حصے کو قطعی صحیح فرمایا ہے۔ و ما کان الی حدفی الطبقۃ الاولی فان یصل الی حد التواتر و ما دون ذلک یصل الی الاستفاضۃ ثم الی الصحۃ القطعیۃ (حجۃ اللہ۔ ص:۱۳۳۔ جلد۱) اور صحیحین کے متعلق فرماتےہیں:
و اما الصحیحین فقد اتفق المحدثون علی ان جمیع ما فیھما من المتصل المرفوع صحیح بالقطع و انھما متواتران الی مصنفیھما و ان کل من یھون امرھما فھو مبتدع متبع غیر سبیل المؤمنین۱ھ۔ (ص۱۳۴ جلد۱)
یعنی صحیحین کی متصل و مرفوع حدیثوں کا اتفاق ہے کہ قطعی صحیح ہیں، ان کے مصنفین تک ان کی سندیں متواتر ہیں، جو کوئی ان کی اہمیت کم کرتا ہے، وہ بدعتی ہے اور مسلمانوں کے سوا دوسرے رستے پر گامزن ہے۔ محققین علماء کے ان ارشادات سے ان لیڈر قسم کے اہل علم اور ان کے متعقدین کی اس تحقیق کی حقیقت کھل جاتی ہے جس کے بل بوتے پر مزاج شناس رسول کا منصب اختیار فرماتے ہوئے وہ صحیح بخاری تک کی حدیثوں کو مشکوک (ضعیف) بنا کر رکھ دیتےہیں، (اور اسی بنا پر عبداللہ بن ابی کے جنازے والے صحیح بخاریک ی روایت کو ایک ضعیف روایت کی وجہ سے اپنے ماہنامہ ترجمان القرآن میں مسترد کر دیا گیا ہے) اور اس طرح صحیحین کی اہمیت کم کرنے کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اور لطف یہ ہے کہ اس کاروائی کا نام ''مسلک اعتدال'' رکھ دیا ہے، جبکہ حسب فرمان شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اسے ''مسلک ابتداع و اعتزال'' کہنا زیادہ مناسب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلطی پر اجماع ممکن ہے
اور معلوم ہے امت کااجتماع غلطی پر نہیں ہوسکتا ، حدیث اگر جھوٹی ہے، اور امت اسے قبول وتصدیق کی سند بخش رہی ہے ، تومطلب یہ ہوگاکہ امت نے ایک ایسی بات پر اجماع کر لیا ہے، جو فی نفسہ کذب و دروغ ہے۔ یہ اجماع غلطی پر ہوگا، حالانکہ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ امت غلطی پر اتفاق کرلے۔ اگر ہم اجماع کا علم ہونے سے پہلے کسی حدیث کے متعلق جائز سمجھتے ہیں کہ غلط ہوگی یاکذب محض ہوگی، تو ہمارا یہ سمجھنا ایسا ہی ہے کہ اجماع کا علم ہونے سے پہلے ہی کسی ایسے حکم کے بارے میں، جو ظاہراً یاقیاس ظنی سے ثابت ہے، جائز سمجھتے ہیں کہ حقیقت میں وہ حکم ویسا نہ ہو، جیسا ہم سمجھ رہے ہیں، لیکن جب اس حکم پر اجماع کاعلم ہوجاتا ہے ، توہم یقین کرلیتے ہیں کہ وہ حکم، ظاہر ہی میں نہیں، حقیقت میں بھی ثابت ہے۔
 
Top