محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
اللہ تعالیٰ نے کسی بھی انسان کو کسی امام کی تقلید کا حکم نہیں دیا اور نہ ہی قیامت والے دن اس بارے میں کوئی سوال ہوگا۔ سوال صرف رسولوں سے متعلق ہوگا کہ:1۔ اللہ تعالی نے ہمیں کہاں پر "غیر مقلد" یا اگر آپ کو برا لگے "اہل حدیث" بننے پر مجبور کیا ہے؟؟؟
مَاذَا أَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِیْنَ
(القصص:٦٠)
تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا؟
یہی منہج اہل حدیث ہے۔
لیکن اس کا یہ معنیٰ نہیں کہ علماء اورائمہ کرام کا کوئی مقام نہیں۔ بلکہ علماء ہی وہ عظیم ہستیاں ہیں جنہوں نے قرآن وحدیث ہم تک پہنچایا اور ہمیں سمجھایا ہے لہٰذا ہم انکے مشکور اور انکے لیے دُعاگو ہیں البتہ اگر اُنکی کوئی بات کسی قرآنی آیت یا حدیث نبوی کے خلاف ہو تو پھر ہم انکی یہ بات ماننے کے مکلف نہیں کیونکہ ہمارا پہلا رشتہ اللہ اور اسکے رسول سے ہے اور باقی رشتے اسی ذریعے سے ہیں، اسی کی خاطر ہیں۔ ہماری غیر مشروط وفاداری صف اللہ اور اسکے رسولﷺ سے ہے اور بس!یہی ہمارا منہج ہے اوریہی تمام صحابہ] تابعین اورائمہ اربعہ کا منہج تھا۔
تقلید ﷲ تعالیٰ کی حاکمیت کو چیلنج ہے۔
دین اسلام ﷲ تعالیٰ کا نازل کردہ دین ہے جس کے ذریعے ﷲ تعالیٰ اپنی شرعی حاکمیت کو قائم کرنا چاہتا ہے لہٰذا جو لوگ کسی اور کی بات کو دین کا درجہ دیتے اور بلا تحقیق اسکی بات کو مان لیتے ہیں وہ دراصل ﷲ تعالیٰ کی حاکمیت کو چیلنج کررہے ہیں ﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
وَلَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہ اَحَداً (الکہف :٢٦)
ﷲ تعالیٰ اپنی حاکمیت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔
جبکہ دوسری جگہ عیسائیوں کے متعلق ارشاد فرمایا:
اِتَّخُذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَہُمْ اَرْبَاباً مِّنْ دُوْنِ ﷲِ ( التوبہ :٣١)
(انہوں نے اپنے علماء اور بزرگوں کو ﷲ کے علاوہ اپنا رب بنالیا)
أما نہم لم یکونوا یعبدونہم، ولکنہم کانوا ذااحلّوا لہم شیئاً استحلوہ، وذا حرموا علیہم شیئاً ٔ حرّموہ ]
(آگاہ ہوجاؤ! بے شک وہ لوگ انکی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن جب وہ انکے لیے کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دیتے تو یہ (مقلدین) اُنکی بات کو (بلاتحقیق) مان لیا کرتے تھے)
ہماری اصل دلیل اس منہج کے حوالے سے صرف کتاب وسنت ہی ہے جسکا تذکرہ بطور مثال ہم کر چکے ہیں اور اس سلسلے میں ہمیں کسی اور کا قول ذکر کرنا لازم نہیں بلکہ قلم تذبذب کا شکار ہے کہ کیا ﷲ اور اسکے رسول ﷺ کی بات کو ماننے کیلئے ہمیں اماموں سے پوچھنے کی ضرورت ہے؟
لیکن کیونکہ جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ علماء کے اقوال قرآن وسنت کو سمجھنے کیلئے معاون ہوتے ہیں لہٰذا قرآن و سنت سے ثابت شدہ اس منہج کے حوالے سے ہم ائمہ اربعہ۔ کے اقوال پیش کرتے ہیں تاکہ مقلدین پر یہ بات واضح ہوجائے کہ وہ تقلید کے ذریعے ائمہ کی نہیں بلکہ دراصل شیطان کی پیروی کر رہے ہیں اور ہم ان ائمہ کا احترام اور ان سے محبت بھی اسی لیے کرتے ہیں کہ انہوں نے لوگوں کو ﷲ اور اسکے رسولﷺ کی طرف بلایا ہے۔ بالفرض اگر ان میں سے کوئی یہ دعویٰ کرتا کہ میری اطاعت تم پر واجب ہے اگرچہ قرآن و سنت کے خلاف کیوں نہ ہو۔ تو اس کا احترام تو درکنار اسکی مذمت ہم پر واجب ہوجاتی اور اُسے امام اور عالم کہنا تو دور کی بات اسے مسلمان کہنا بھی جائز نہ ہوتا جیسا کہ امام شوکانی اپنی کتاب ''القول المفید'' میں فرماتے ہیں:
(القول المفید فی دلة الاجتہاد والتقلید ص ٢٥)
اسی طرح امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
(مختصر الفتاوی المصریہ ، ص: ٤٢)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ جہاں سے حق مل جائے اُسے قبول کرلینا چاہیے جس امام کا قول دلیل کی بنیاد پر ہو اُس کی بات مان لی جائے اور اگر کوئی ایسا نہیں کرتا بلکہ ایک ہی کو پکڑ لیتا ہے کہ صحیح کہے تب بھی، غلط کہے تب بھی اُسی کی بات ماننی ہے ابن تیمیہرحمہ اللہ کے نزدیک وہ جاہل، گمرا ہ اور واجب القتل ہے۔ اسی بات کو آپکے ذہن کے قریب کرنے کیلئے میں ایک مثال دونگا کہ مثلاً قرآن مجید ﷲ کا دین ہے لہٰذا ﷲ تعالیٰ نے اسکی حفاظت کا بندوبست کیا ہے اسی طرح حدیث ہے یہ بھی سند کے ساتھ ہم تک پہنچی ہے اب اگر کوئی قرآن مجید میں ایک حرف کا اضافہ کردے یا ایک حرف کی کمی کردے تو آپ اس کے بارے میں کیا کہیں گے؟یا قرآن مجید کی ایک آیت کو ماننے سے انکار کردے؟
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِیْلِ لَأَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ
(الحآقہ :٤٤،٤٥،٤٦)
اگرچہ آپ ﷺ نے ایسا کرنا نہیں تھا لیکن آپ کی امت کو سبق دیا گیا کہ محتاط رہیں اب بھی اگر کوئی اپنے امام کے قول کو دین سمجھتا ہے تو کیا وہ دین میں اضافہ نہیں کر رہا جبکہ دین پہلے ہی مکمل ہے۔؟