دو قسم کی مکھیاں
كيا خوب كہا ہے کسی حکیم نے مکھی ہمیشہ غلاظت پر ہی بیٹھتی ہے
[SUP]دخل در خواہشات پر معذرت ۔
اس مثال پر میں کافی دنوں سے شش و پنج میں مبتلا ہوں ۔
اب محمد یعقوب صاحب نے یہ بات کی ہے امید ہے اس پر مزید روشنی ڈالیں گے ۔
یہ مثال کئی لوگوں سے میں نے بھی سنی ہے لیکن مسئلہ یہ کہ مکھی صرف غلاظت پر نہیں کھانے والے چیزوں مثلا روٹی وغیرہ ، مٹھائی وغیرہ پر بھی بیٹھتی پائی گئی ہے ۔
یا تو ہو سکتا ہے کہ مکھی کی کوئی خاص قسم ہوگی جو صرف گندی چیزوں کو ہی پسند کرتی ہے ۔
کوئی اور بھائی بھی اس بات کی وضاحت کر سکتا ہے تو شکریہ کا موقعہ دیں ۔[/SUP]
السلام علیکم
محترم برادر، آپ اس پر جاننا چاہتے ہیں تو آپ کے سوال کا جواب پیش خدمت ھے۔
دو قسم کی مکھیاں
[SUP]مبشر نذیر[/SUP]
شہد انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ انسان ہر دور میں اسے دوا، غذا اور ذائقے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ شہد جس طرح انسانوں کو ملتا ہے وہ بھی ایک بڑی دلچسپ و عجیب بات ہے۔ شہد فطرت کی دیگر نعمتوں کے برعکس قدرتی طور پر دستیاب نہیں ہوتا بلکہ ایک خاص قسم کی مکھی کی ذہانت، صلاحیت اور محنت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ عمل اتنا غیر معمولی ہے کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر یہ بیان کیا ہے کہ
وَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ
اور دیکھو، تمہارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کر دی
(النحل١٦: آیت ٦٨)
اس عمل میں شہد کی مکھی فطرت کے دسترخوان سے ان گنت پھولوں کا رس چوستی ہے اور پھر اسے شہد میں تبدیل کر کے انسانوں کے لیے فراہم کرتی ہے۔
شہد کی مکھی کے برعکس گھروں وغیرہ میں پائی جانے والی ایک دوسری مکھی بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔ یہ مکھی عام طور پر گندی اور غلیظ چیزوں پر بیٹھتی ہے اور وہیں سے مختلف جراثیم انسانوں کے کھانے پینے کی اشیا میں منتقل کردیتی ہے۔ یوں یہ انسانوں کو شہد کے بجائے بیماری کا تحفہ دیتی ہے۔
مکھیوں کی ان دو اقسام کی طرح انسانوں کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں۔
ایک انسان وہ ہوتے ہیں
جو شہد کی مکھی کی طرح پھولوں اور ان کے رس میں دلچسپی لیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو انسانوں سے حسن ظن رکھتے ہیں۔ ان کے متعلق برا گمان کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ محض ظن و گمان کی بنیاد پر لوگوں کے متعلق رائے دینے سے پرہیز کرتے ہیں۔
اس کے برعکس دوسرے قسم کے لوگ گندگی کی مکھی بننا پسند کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو انسانوں سے ہمیشہ بدگمانی کرتے ہیں۔ وہ چن چن کر اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہر بات کے منفی پہلو تلاش کرتے ہیں۔ وہ بلاتحقیق رائے قائم کرتے اور بلا ثبوت الزام دھرتے ہیں۔ ان کی دلچسپی انسانوں کے نقائص، عیوب، کمزوریوں اور خامیوں تک رہتی ہے۔ یہ کبھی انہیں نہ ملیں تو بدگمانی کر کے انہیں دریافت کرلیتے ہیں اور پھر اطمینان سے ہر جگہ پھیلاتے ہیں۔
پہلی قسم کے لوگ اپنے حسن ظن کی وجہ سے معاشرے کو حسن نظر اور حسن عمل کا شہد دیتے ہیں۔
مگر دوسری قسم کے لوگ معاشرے کو صرف اور صرف بیماریاں دیتے ہیں۔ معاشرے میں الزام، بہتان، غیبت، تضحیک اور انسانوں کے تمسخر و تذلیل کی بیماریاں ان کی بد گمانی ہی سے جنم لیتی ہیں۔
ہر انسان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دیکھے کہ آیا اس نے زندگی شہد کی مکھی کے اصول پر گزاری ہے یا گندگی کی مکھی کی طرح وہ غلاظتوں کا اسیر بن کر رہ گیا ہے۔
[SUP](مصنف: ریحان احمد یوسفی)[/SUP]