یعقوب صاحب
آپ کو تو غلاظت سے محبت ہے ۔
مثال کے طور پر تذکرۃ الخلیل میں مولانا الیاس تبلیغی صاحب کی دادی کے ڈائیریا والے کپڑوں سے خوشبو آتی تھی ۔
اگر کوئی شادی شدہ ھے تو وہ اپنی اہلیہ سے یہ سیکھ سکتا ھے کہ وہ اس کی اولاد کو جب پال پوس رہی ھوتی ھے تو اسے اس کی غلاظت صاف کرنے میں کبھی چہرہ پر بل آیا یا کبھی بدبو آئی۔ اور اگر کوئی طالب علم کنوارہ ھے تو وہ اپنی والدہ سے پوچھ سکتا ھے کہ اس کی پیدائش کے بعد جب اسی کی والدہ اس کی غلاظتیں اٹھاتی تھی تو کیا اسے اس سے کریت آتی تھی، وہ بڑے خوش نصیب ہیں جو اپنی والدہ یا دادی کے بڑھاپا میں ان کی خدمت کرتے اور جب وہ عمر کے اس حصہ میں پہنچ جائیں کہ جب اعضاء کام کرنا چھوڑ جائیں تو اس وقت ان کی اہلیہ جو بیٹی بن کر اس کی والدہ یا دادی کی خدمت کریں ایسی صورت میں انہیں بھی کبھی بدبو نہیں آتی اور اس کا اجرء اللہ کے پاس ھے جو انہیں زندگی میں بھی ملتا ھے اور آخرت میں بھی ملے گا۔ جس طرح دادی اور ماں کو اس کی پرورش کے دوران اس کی غلاظتیں اٹھانے میں خوشبو آتی ھے اسی طرح فرمانبردار اولاد ہو ان کے بڑھاپے میں ان کی خدمت کرتے وقت ان سے خوشبوئیں آتی ہیں۔
دور کی کڑیوں پر بلا تبصرہ ............. ابتسامہ
السلام علیکم
جن کو زندگی عطا ہو گی ان کے والدین اور ان سب نے بوڑھے ہونا ھے، وہ والدین خوش نصیب ہیں جن کی اولاد فرمانبرار ھے اس پر تمسخر نہیں اڑاؤ بلکہ سبق سیکھو۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ
٢:٢
قَالَ لَهُ صَاحِبُهُ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَكَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلاً
١٨:٣٧
وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ
٣١:١٤
اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں [SUP](نیکی کا)[/SUP] تاکیدی حکم فرمایا، جسے اس کی ماں تکلیف پر تکلیف کی حالت میں [SUP](اپنے پیٹ میں)[/SUP] برداشت کرتی رہی اور جس کا دودھ چھوٹنا بھی دو سال میں ہے [SUP](اسے یہ حکم دیا)[/SUP] کہ تو میرا [SUP](بھی)[/SUP] شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی۔ [SUP](تجھے)[/SUP] میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے
وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ
٤٦:١٥
اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کاحکم فرمایا۔ اس کی ماں نے اس کو تکلیف سے [SUP](پیٹ میں)[/SUP] اٹھائے رکھا اور اسے تکلیف کے ساتھ جنا، اور اس کا [SUP](پیٹ میں)[/SUP] اٹھانا اور اس کا دودھ چھڑانا [SUP](یعنی زمانۂ حمل و رضاعت)[/SUP] تیس ماہ [SUP](پر مشتمل)[/SUP] ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جاتا ہے اور [SUP](پھر)[/SUP] چالیس سال [SUP](کی پختہ عمر)[/SUP] کو پہنچتا ہے، تو کہتا ہے: اے میرے رب: مجھے توفیق دے کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر فرمایا ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک اعمال کروں جن سے تو راضی ہو اور میرے لئے میری اولاد میں نیکی اور خیر رکھ دے۔ بیشک میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں یقیناً فرمانبرداروں میں سے ہوں
وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًا
١٧:٢٣
اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم ﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو