• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اف ! یہ خواہشات

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
راجاصاحب عادت سے مجبور ہیں۔ورنہ انس نضر صاحب کے حنفیوں کے دورہ حدیث پر طنز پر ایک جوابی مراسلہ میراتھا۔ ابھی بات ہم دونوں کے درمیان چل رہی تھی کہ راجا صاحب دیگ سے زیادہ چمچہ گرم کے مصداق ایک گرماگرم مراسلہ لے کر آگئے۔ جب اسی گرمی کے ساتھ ان کو جواب دیاگیاتوان کے ہوش ٹھنڈے ہوئے اورکافی عرصہ تک ہمارے مہربان نے میرے مراسلوں پر جوابی ردعمل دینے سے گریز کیا۔لیکن اب لگتاہے کہ اثرختم ہونے لگاہے اورانہوں نے پھر سے چھیڑخانی شروع کررکھی ہے۔"اہل حدیث:نئے تناظر میں" والے تھریڈ میں تومیں نے طرح دے دی ۔کیوں کہ ویسے بھی ہرانسان کو سدھرنے کا ایک موقع ضرور دیناچاہئے ۔لیکن ان کی رفتاربے ڈھنگی وہی ہے جوپہلے تھی تومناسب ہے کہ ان کو ایک اورمزید "ڈوز"دیاجائے کیونکہ جن کے قلب ونظرگندے ہوچکے ہوں اورگندی نالیوں کے قریب رین بسیراہونے سے خوشبواوربدبو کی تمیز ختم ہوگئی ہو ۔ان پرکم پاور کی دوائیں اثربھی نہیں کرتیں۔


"کراچی میں رہتے ہوئے تو بآسانی ملاحظہ کی جا سکتی ہے کہ جو لوگ گندی آبادیوں، نالوں کے پاس رہتے ہیں۔ وہ اس کے ایسے عادی ہو جاتے ہیں کہ جہاں سے عام لوگ ناک پر رومال رکھے بغیر گزرنے کا تصور نہیں کر سکتے اور سانس سینے میں روک کر گزرتے ہیں، وہاں وہ ان کی پوری نسلیں بغیر کسی بدبو کے احساس کے زندگی بسر کرتی ہیں"
اس بات سے ہمیں کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن اس وضاحت کے ساتھ کہ پاکستان آپ کا وطن ہے کراچی ہوسکتاہے کہ آپ کا گھر ہو اور کسی گندی نالے کے قریب آنجناب کے روزوشب بھی گزررہے ہوں ۔یہ اوربات ہے کہ اس کے اعتراف کی ہمت نہ ہوتی ہو سبکی کے خوف سے۔بہرحال آپ کے پیش کردہ اقتباس کے بین السطور سے بہت کچھ معلوم ہورہاہے اورآپ نے بتادیاہے یہ بہت اچھاکیاہے۔آپ کے ماضی اورحالیہ مراسلات سے یہی توقع تھی کہ آنجناب کا رین بسیراکسی ایسی ہی جگہ پر ہوگااورایسی ہی جگہ آپ کا بچپن گزراہوگا ۔

اگر فقط قریب رہنے کی خواہش کا ذکر کرنا ہی مقصود تھا، تو اس کے لئے بہت بہتر الفاظ و انداز موجود ہیں۔ کیا خیال ہے جمشید صاحب، اگر آپ کسی استاد کی قربت کے خواہشمند ہوں تو اسے یہ کہیں گے کہ میں تمہاری بیوی بننا چاہتا ہوں؟ اور اس پر فخر محسوس کیا کریں گے؟
اندھوں کی طرح کیالکھناضروری ہے میں نے خود کہاہے کہ عزیز الحسن مجذوب صاحب سے اپنے مافی الضمیر کے اظہار میں تعبیر کی غلطی ہوئی ہے۔

۔لہذا اس واقعہ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہی کہاجائے گاکہ شدت عشق ومحبت میں خواجہ عزیز الحسن نے اپنی خواہش کی تعبیر میں غلطی کی۔

مجھے پہلے سے ہی لگتاتھاکہ کچھ نیم خواندوں کی نگاہیں اس پر ضروراٹکیں گی کہ
جھجھکتے اور شرماتے ہوئے دبی زبان سے عرض کیاکہ حضرت ایک بہت ہی بے ہودہ خیال دل میں باربار آتا ہے جس کو ظاہر کرتے ہوئے بھی نہایت شرم دامن گیر ہوتی ہے اور جراء ت نہیں پڑتی
لیکن یہ نہیں معلو تھاکہ
اول من یظھر ھذا فھو راجا

کسی چیز کا قابل شرم جھھک اورغلط ہونا اس وقت تک معلوم ہوتاہے جب تک کہ اسے یہ نہ بتادیاجائے کہ اس کی صحیح اصل موجود ہے اورجب تک یہ معلوم نہ ہو تب تک وہ اسے انتہائی غلط سمجھتارہتاہے ۔

صحابہ کرام نے ایک بار حضور پاک کی خدمت میں عرض کیاکہ اے اللہ کے رسول ہمیں وسوسہ آتاہے اور وہ ایساوسوسہ ہے کہ ہمیں کوئلہ بن جانامنظورہے بہ نسبت اس کے کہ اس کااظہار کریں۔اس پر حضور نے فرمایاکہ وہ توصریح ایمان ہے یعنی یہ جذبہ اورداعیہ کہ کوئلہ بن جانامنظورہے لیکن اس کا اظہارگوارانہیں۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنِّي أُحَدِّثُ نَفْسِي بِالشَّيْءِ لأَنْ أَكُونَ حُمَمَةً أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَتَكَلَّمَ بِهِ، قَالَ شُعْبَةُ:
قَالَ أَحَدُهُمَا: «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي رَدَّ أَمْرَهُ إِلَى الْوَسْوَسَةِ» ، وَقَالَ الآخَرُ: " الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَقْدِرْ مِنْكُمْ إِلا عَلَى الْوَسْوَاسِ
اس کی تفصیل ایک دوسرے حدیث میں ہے کہ
سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ عَثَّامٍ، يَقُولُ: أَتَيْتُ سُعَيْرَ بْنَ الْخِمْسِ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ حَدِيثِ الْوَسْوَسَةِ، فَلَمْ يُحَدِّثْنِي، فَأَدْبَرْتُ أَبْكِي، ثُمَّ لَقِيَنِي، فَقَالَ لِي: تَعَالَ.حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ يَجِدُ الشَّيْءَ لَوْ خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ، فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ كَانَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يَتَكَلَّمَ بِهِ؟ قَالَ: «ذَلِكَ مَحْضُ، أَوْ صَرِيحُ الإِيمَانِ» .

توخواجہ عزیزالحسن کوخود بھی اس کاخیال تھاکہ ان کاجوخیال ہے وہ بے ہودہ ہے ۔غلط ہے اسی وجہ سے ان کو شرم بھی دامنگیر تھی۔اوراس کو بیان کرنے سے جھجکتے تھے لیکن جب ایک مرتبہ "جوش عشق "میں یہ بات زبان سے نکل ہی گئی تو پھر مولانا اشرف علی تھانوی نے اصل پر نگاہ رکھتے ہوئے کہ یہ محض محبت کااظہار ہے اورمحبت کا داعیہ محض دینی ہے اس میں کوئی دنیوی مفاد اورربط نہیں ہے تو ثواب کی بشارت سنائی ۔اس کے بعد ہی ان کی جھجک ختم ہوگئی اوراس واقعہ کو انہوں نے کتاب میں درج بھی کیا۔

راجا صاحب کی علمی لیاقت ملاحظہ فرمائیں۔
یہ حضرات تعصب اور مسلک پرستی کی لال عینک اتار کر ملاحظہ کرتے، تو ایسے واقعات اور ان کو مذہبی کتب میں جگہ دینے کے خیال سے ہی ابکائی آ جاتی۔
ان بے چارے کو اشرف السوانح جو مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کی سیرت اورسوانح پر ہے۔مذہبی کتاب نظرآتی ہے۔بہت پہلے ایک مزید غیرمقلد سے اسی موضوع پر بات کرنے کا الغزالی فورم پر اتفاق ہوا تو وہ جاہل تواشرف السوانح نامی اس کتاب کو ہی مولانا اشرف علی تھانوی کی تصنیف بتارہاتھا۔ اب جن لوگوں کی لیاقت یہیں پر ختم ہوجائے کہ کتاب کا مصنف کون ہے یہ معلوم نہ ہو کتاب کس موضوع پر یہ معلوم نہ ہو اس کے باوجود شوق اعتراض فزوں اورفراواں ہوتوایسے افراد کی دماغی حالت کا اندازہ ہی صرف کیاجاسکتاہے۔

اصل سوال یہ نہیں کہ اللہ کے لئے محبت رکھنے پر ثواب کی بشارت ہے یا نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ بے ہودہ، قابل شرم بات کہ ایک مرد کو دوسرے مرد کی بیوی بننے کا بار بار خیال آتا ہے۔ اور وہ اس پر شرمندہ بھی ہے۔ اسے بے ہودہ بھی مانتا ہے۔ اور دوسرا شخص بجائے اس کے کہ اس شیطانی خیال پر اسے لاحول ولا قوۃ پڑھنے کو کہے اور استغفار کرنے کو کہے۔ یا یوں کہے کہ یہ شیطان کے راستہ پر پہلا قدم رکھنے کے مترادف ہے۔ اور اسے سختی سے خود سے دور کرے کہ کہیں شیطان اس پر غلبہ نہ پا لے۔ اگر اسے ثواب کی بشارت سنانے لگ جائے تو اس پر ہمارا اعتراض کرنا بھی آپ کو گوارا نہیں؟
جب آپ نے موضوع کو مکمل طورپر پڑھاہی نہیں ہے توپھر مراسلے کس شوق میں لکھتے ہیں گندی نالی کے قریب رہنے سے دماغ خراب ہوگیاہے اس لئے، یاکوئی دوسری بات ہے؟
شاہد نذیر صاحب نے پہلامراسلہ لکھ کرکیاثابت کرناچاہاہے ؟کہ مولانا شرف علی تھانوی نے ثواب کی بشارت سناکر غلطی کی یاپھر وہ کچھ اوران واقعات سے کشید کرناچاہ رہے ہیں۔اگرشاہد نذیر کا مطمح نظرصرف اسی قدرہوتاکہ مولانااشرف علی تھانوی کوثواب کی بات نہیں کہنی چاہئے تھی بلکہ اس کو غلط قراردیناچاہئے تھاتومیں خود اس موضوع میں دخل درمعقولات دینے کی ضرورت نہ سمجھتاکہ چلو ظاہری اعتبار سے شاہد نذیر جس نتیجے پر پہنچے ہیں اس کی بھی ایک وجہ ہے۔لیکن انہوں نے جس طرح اپنے گندے افکار کااظہار کیااس کے بعد ہی خیال ہواکہ اس واقعہ کی حقیقت واضح کی جائے۔

راجا صاحب!آپ سے گزارش ہے کہ اگرپورے مراسلات پڑھنے کا موقع نہ ہوتوگندی نالی کے مزے لیں لیکن دوسروں کا وقت ضائع نہ کریں۔

راجاصاحب کوایک مزید تکلیف ہے کہ
یکن برا ہو اس عصبیت کا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسی پاکباز ہستیوں کو ایسی غلیظ بحث میں گھسیٹ لاتے ہیں
یہی لوگ یہ کہنے سےبھی نہیں ہچکتے کہ حنفیوں کی تحریراحادیث سے خالی ہوتی ہے اورجب احادیث ذکی جائے توبھی مروڑ اٹھناشروع ہوجاتاہے یہ تو حاسدوں کی صفت ہوتی ہے کہ اسے کسی کل چین نہیں پڑتی ۔ اگراپنے پاس کوئی نعمت نہیں ہے توبھی آہیں بھررہاہے اوراگردوسرے کے پاس وہ نعمت ہے تومزیدزورسے آہیں بھرتاہے۔راجاصاحب حاسدوں والی صفت کااظہار کیوں کررہے ہیں اگلے مراسلے میں ضرور بتائیں۔

ایک ڈھکوسلہ
راجا صاحب کے پاس چونکہ خواب والے واقعہ پر کہنے کیلئے کچھ بھی نہیں تھااوراس کا حوصلہ بھی نہیں تھاکہ وہ اس کااعتراف کرتے کہ صاحب تھریڈ نے جوخواب پر اعتراض کیاہے وہ حدیث کی مخالفت ہے لیکن بجائے اعتراف اورسکوت کے یہ مغالطہ دیناضروری سمجھا۔

دوسرے واقعہ کو بھی پہلے پر ہی قیاس فرما لیجئے۔ ہمارے پاس جمشید صاحب کی طرح اتنا وقت نہیں اور نہ ایسی غلیظ باتوں اور ان کے دفاع کرنے والوں پر بے جا تبصرہ کرنے کی ہمت ہے۔
یہ کوئی اسی وقت لکھتاہے جب لکھنے کیلئے بندے کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔یہ توہوسکتاہے کہ کوئی طویل نہ لکھ سکے تومختصرااظہارخیال کردے لیکن ایساشخص کہ گندلی نالی کی وجہ سے جس کا طبعیت اورفکر ہی گندی ہوچکی ہو وہ محض یہ کہہ کررہ جائے توسمجھ جائیے کہ اس کے پاس کہنے کیلئے ہاں اورنہیں دونوں میں کچھ بھی نہیں ہے۔

راجا صاحب سے ہمیں امید ہے کہ ان کو یہ تحریرازحد پسند آئی ہوگی اگران کی فرمائش رہی توہم مزید ان کی طبعیت خوش کریں گے۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
راجاصاحب عادت سے مجبور ہیں۔ورنہ انس نضر صاحب کے حنفیوں کے دورہ حدیث پر طنز پر ایک جوابی مراسلہ میراتھا۔ ابھی بات ہم دونوں کے درمیان چل رہی تھی کہ راجا صاحب دیگ سے زیادہ چمچہ گرم کے مصداق ایک گرماگرم مراسلہ لے کر آگئے۔ جب اسی گرمی کے ساتھ ان کو جواب دیاگیاتوان کے ہوش ٹھنڈے ہوئے اورکافی عرصہ تک ہمارے مہربان نے میرے مراسلوں پر جوابی ردعمل دینے سے گریز کیا۔لیکن اب لگتاہے کہ اثرختم ہونے لگاہے اورانہوں نے پھر سے چھیڑخانی شروع کررکھی ہے۔"اہل حدیث:نئے تناظر میں" والے تھریڈ میں تومیں نے طرح دے دی ۔کیوں کہ ویسے بھی ہرانسان کو سدھرنے کا ایک موقع ضرور دیناچاہئے ۔لیکن ان کی رفتاربے ڈھنگی وہی ہے جوپہلے تھی تومناسب ہے کہ ان کو ایک اورمزید "ڈوز"دیاجائے کیونکہ جن کے قلب ونظرگندے ہوچکے ہوں اورگندی نالیوں کے قریب رین بسیراہونے سے خوشبواوربدبو کی تمیز ختم ہوگئی ہو ۔ان پرکم پاور کی دوائیں اثربھی نہیں کرتیں
اور جمشید صاحب اپنی گندی ذہنیت سے مجبور ہیں۔ خدا گواہ ہے آپ کی فورم آمد سے قبل یا براہ راست آپ سے گفتگو سے قبل میں نے کسی سے فورم کی حد تک اس لب و لہجہ میں بات نہیں کی، اب بھی نہیں کرتا۔ لیکن آپ ایک خبیث قسم کی عادت میں مبتلا ہیں کہ "ادب" کے پیرائے میں نہ تو محدثین پر تبرا پڑھنے سے باز آتے ہیں، نہ علمائے کرام کا احترام کرتے ہیں، نہ کسی کے مسلک کو بخشتے ہیں، نہ کسی کے بزرگوں کو۔ کوئی شخص آپ سے اختلاف کی حماقت کر لے، تو وہ آپ کے بدبودار جملوں کی باڑھ میں آ جاتا ہے۔ بس آپ ہماری طرح کھل کر نہیں بولتے، لپیٹ کر کہتے ہیں۔ فورم پر آپ سے مخاطب ہونے والے کسی شخص کی عزت محفوظ نہیں۔ ۔ ہم آپ کی ہی لپیٹی گئی باتوں کو کھل کر آپ کے سامنے بیان کرتے ہیں تو آپ کی جانب سے کوڑا جلنے جیسی بو آنی شروع ہو جاتی ہے۔

باقی آپ کی خصلت ایسی ہے کہ آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہونے نہیں دیتی اور دوسروں پر کیچڑ اچھالنے سے تلذذ بھی فراہم کرتی ہے۔ ہم جہاں تک کوشش کر سکتے ہیں، آپ کو آپ کے ہی انداز میں سمجھانے کی ، وہ کرتے ہیں۔ لیکن آپ کی ہر بکواس کا جواب دینا ضروری خیال نہیں کرتے، اس کو آپ اپنی کامیابی سمجھتے ہیں تو خوشی سے بغلیں بجاتے رہیں۔ گندی ذہنیت اور فطرت کے خبث پنے میں ہم بھلا کہاں آپ کے مقابل آنے کی جرات کر سکتے ہیں۔

اس بات سے ہمیں کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن اس وضاحت کے ساتھ کہ پاکستان آپ کا وطن ہے کراچی ہوسکتاہے کہ آپ کا گھر ہو اور کسی گندی نالے کے قریب آنجناب کے روزوشب بھی گزررہے ہوں ۔یہ اوربات ہے کہ اس کے اعتراف کی ہمت نہ ہوتی ہو سبکی کے خوف سے۔بہرحال آپ کے پیش کردہ اقتباس کے بین السطور سے بہت کچھ معلوم ہورہاہے اورآپ نے بتادیاہے یہ بہت اچھاکیاہے۔آپ کے ماضی اورحالیہ مراسلات سے یہی توقع تھی کہ آنجناب کا رین بسیراکسی ایسی ہی جگہ پر ہوگااورایسی ہی جگہ آپ کا بچپن گزراہوگا ۔
اگر میرا بسیرا کسی گندے نالے کے قریب ہو بھی تو یہ حسی گندہ پن، اس تعفن اور گھن سے لاکھ درجہ بہتر ہے جو آپ کی بدبودار اور غلیظ تحریروں اور جملوں سے عیاں ہوتا ہے۔بالکل جیسے باطنی صفائی، ظاہری صفائی سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔ اور انڈیا کون سا یورپ ہے۔ آپ خود بھی شاید کسی چیتھڑے اخبار کے غلیظ ٹوائلٹ کے پاس بیٹھ کر ادارت فرماتے ہوں گے، جہاں بہت پہلے کبھی پبلک کے روزانہ گند کا تعفن آپ کے دماغ کو ماؤف کرتا رہا ہوگا ۔ اور اب تو آپ خیر سے ظاہری و باطنی گندگی کو محسوس کرنے جیسی چیز سے بہت عرصہ قبل چھٹکارا پا چکے ہوں گے، اس بوڑھی عورت کی طرح، جو کسی ڈاکٹر کے پاس گئی اور کہا کہ مجھے گیس ہے لیکن اللہ کا شکر ہے میری گیس میں نہ بدبو ہے اور نہ آواز ہی آتی ہے، پھر بھی آپ علاج کریں کہ یہ مسئلہ ہی ختم ہو جائے۔ ڈاکٹر نے دوا دے دی۔ اگلے ہفتے خاتون شکایت لے کر حاضر ہو گئیں کہ یہ کیسی دوا دے ڈالی، آپ کی دوا سے تو الٹا بدبو پیدا ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر نے کہا گڈ۔ آپ کی ناک ٹھیک ہو گئی ہے اب آپ کے کان کا علاج کرنا ہے۔ ابتسامہ۔

اب یا تو اپنی جہالت کو انجوائے کرتے رہیں اور یہی روش قائم رکھ کر اپنی عزت کا جنازہ نکلواتے رہیں یا پھر ناک و کان کا علاج کروائیں اور یوں اپنا مذاق نہ اڑوائیں۔

اندھوں کی طرح کیالکھناضروری ہے میں نے خود کہاہے کہ عزیز الحسن مجذوب صاحب سے اپنے مافی الضمیر کے اظہار میں تعبیر کی غلطی ہوئی ہے۔
اور ایمنیشیا کے مریض کی طرح بے سوچے سمجھے جواب دینا کیا ضروری ہے۔ یہ بھی تو بتائیے کہ مجذوب صاحب آپ کو خواب میں آکر بتا گئے کہ مجھ سے مافی الضمیر کے اظہار میں تعبیر کی غلطی ہوئی؟ یا آپ کو کشف و الہام کا بھی دعویٰ ہے۔ اور پھر یہ "تعبیر کی غلطی" کی پخ بھی خوب ہی لگائی۔ واقعہ کا سیاق و سباق دیکھیں اور اپنا شوقِ خجالت ملاحظہ فرمائیں۔ مجذوب صاحب نے واضح طور پر اپنے استاد کی بیوی بننے کی خواہش ظاہر کی اور استاد جی نے واضح طور پر ثواب کی بشارت سنا ڈالی۔ دونوں کے منہ میں اپنا منہ ڈال کر ایک کی جانب تعبیر کی غلطی اور دوسرے کی جانب اندر تک دیکھ لینے کی صفت منسوب کر کے، آپ اپنی کم سے کم دو حسوں کے مردہ ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔


توخواجہ عزیزالحسن کوخود بھی اس کاخیال تھاکہ ان کاجوخیال ہے وہ بے ہودہ ہے ۔غلط ہے اسی وجہ سے ان کو شرم بھی دامنگیر تھی۔اوراس کو بیان کرنے سے جھجکتے تھے لیکن جب ایک مرتبہ "جوش عشق "میں یہ بات زبان سے نکل ہی گئی تو پھر مولانا اشرف علی تھانوی نے اصل پر نگاہ رکھتے ہوئے کہ یہ محض محبت کااظہار ہے اورمحبت کا داعیہ محض دینی ہے اس میں کوئی دنیوی مفاد اورربط نہیں ہے تو ثواب کی بشارت سنائی ۔اس کے بعد ہی ان کی جھجک ختم ہوگئی اوراس واقعہ کو انہوں نے کتاب میں درج بھی کیا۔
اس پرکاری کو ہم کیا کہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب خواجہ صاحب کو خود بھی اپنے خیال کے بے ہودہ ہونے کا احساس تھا، شرم بھی دامنگیر تھی، بیان کرنے سے جھجکتے بھی تھے۔ اور ہر عاقل شخص جو اس بات کو سنے گا، اس کا حال یہی ہوگا (اگر وہ جمشید نہ ہو تو)۔ تو اگر اس ظاہری بے ہودگی میں کچھ باطنی پاکیزگی تھی، جسے تھانوی صاحب نے ملاحظہ فرما لیا تھا، تو انہوں نے اپنے شاگرد کو سمجھایا کیوں نہیں؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ شرم اور بے ہودگی والا معاملہ تو صاف ہے، لیکن جواباً اگر تھانوی صاحب نے ثواب کی بشارت ظاہری حال کے مطابق نہیں سنائی تھی، تو باطنی حال کی وضاحت کرنا کیوں ضروری نہ سمجھی؟ اور فقط ثواب کی بشارت سنانے سے مجذوب صاحب کو فوراً معلوم ہو گیا کہ میں تو ویسے ہی شرما رہا تھا، کسی مرد کی بیوی بننے کا خیال آئے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ بہت پاکیزہ خیال ہے اور اس پر ثواب ملے گا۔ اور یہ بھی آپ نے خوب کہی کہ "یہ محض محبت کا اظہار ہے اور محبت کا داعیہ محض دینی ہے اس میں کوئی دنیوی مفاد اور ربط نہیں ہے" ۔۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب چیزیں آپ نے کہاں سے اخذ کر ڈالیں؟ خود سے سوچ کر واقعہ میں شامل کر دیں؟ یا "یوں ہوا ہوگا"، "یوں سوچا ہوگا"، "یوں کہا ہوگا" آپ کے دلائل ہیں؟

باقی اس غلیظ، گھناؤنے اور گندے واقعے کی بحث میں صحابہ کرام کی بات کرنا ہمارے لئے تو شدید تکلیف کا باعث ہے۔ آپ کی غیرت جانے کیسے گوارا کرتی ہے۔ آپ کے پیش کردہ واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی شیطانی وسوسہ کے اظہار سے گریزاں ہونا اچھی چیز ہے۔ اگر اسے مان لیں، تو مجذوب صاحب کو اپنے شیطانی وسوسہ کا اظہار تھانوی صاحب سے نہیں کرنا چاہئے تھا، اور اس کی جگہ کوئلہ بن جانا منظور کر لینا تھا۔ لیکن نہ صرف یہ کہ انہوں نے یہ گندا خیال ان تک منتقل کیا۔ بلکہ استاد صاحب نے بھی کسی قسم کی وضاحت اور صفائی دئے بغیر اس گندگی کو براہ راست گلے لگاتے ہوئے ثواب کی نوید بھی سنا دی۔اور پھر کسی نے مزید ثواب کے حصول کے لئے سوانح میں بھی درج کر دیا تاکہ اس ثواب کی خوب تشہیر ہو سکے اور دیوبندیوں کے گھر گھر میں یہ مرد کے مرد کی دلہن بننے جیسے پاکیزہ خیالات کا ثواب جاریہ پہنچ جائے۔

جمشید صاحب، آپ کی حال ہی میں شادی ہوئی ہے۔ یہ بتائیے کہ آپ کا بیٹا ہو، اور جوان ہونے پر ، آپ جیسے علمی قد کاٹھ والی شخصیت جو کہ باپ بھی ہو کی شدید محبت میں مبتلا ہو کر، یہ کہہ ڈالے کہ مجھے بے ہودہ خیال آتا ہے کہ میں اپنے باپ کی بیوی ہوں۔ تو آپ فقط یہ کہیں گے کہ "بیٹا ، ثواب ملے گا، ثواب ملے گا"۔ یا یہ کہیں گے کہ بیٹا تم اگر دینی محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر بھی ایسی بات کر رہے ہو تو ظاہر کے لحاظ سے یہ درست نہیں۔ تمہیں اپنے مافی الضمیر کے اظہار کی تعبیر میں درستی کرنی چاہئے۔ لوگوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے، چاہے جذبہ کیسا ہی نیک ہو، ظاہری الفاظ ایسے گرے ہوئے اور گھناؤنے نہیں ہونے چاہئیں۔ کہ جن سے فقط ایک ہی مطلب نکلتا ہو اور وہ بے ہودہ اور شرمناک ہو۔ ہمت دکھائیے گا اور چوائس کیجئے گا کہ آپ کیا جواب منتخب کریں گے۔ دونوں واقعات یکساں ہیں۔ آپ پر منطبق اس لئے کیا، کہ شاید آپ اس سچوئیشن کو ذہن میں سوچیں، تو کہیں گھناؤنے پن، شرم یا خجالت کا کچھ احساس آپ کے مردہ ضمیر سے پیدا ہو، تو آپ کو ہمارا اعتراض کرنا سمجھ آ سکے۔

راجا صاحب کی علمی لیاقت ملاحظہ فرمائیں۔

ان بے چارے کو اشرف السوانح جو مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کی سیرت اورسوانح پر ہے۔مذہبی کتاب نظرآتی ہے۔بہت پہلے ایک مزید غیرمقلد سے اسی موضوع پر بات کرنے کا الغزالی فورم پر اتفاق ہوا تو وہ جاہل تواشرف السوانح نامی اس کتاب کو ہی مولانا اشرف علی تھانوی کی تصنیف بتارہاتھا۔ اب جن لوگوں کی لیاقت یہیں پر ختم ہوجائے کہ کتاب کا مصنف کون ہے یہ معلوم نہ ہو کتاب کس موضوع پر یہ معلوم نہ ہو اس کے باوجود شوق اعتراض فزوں اورفراواں ہوتوایسے افراد کی دماغی حالت کا اندازہ ہی صرف کیاجاسکتاہے۔
ارے بھئی، فکر نہ کریں، ہمیں تو اپنی علمی لیاقت کا کوئی دعویٰ نہیں۔ لیکن آپ کو کیا ہوا کہ جوش جذبات میں اپنے علمی مقام کا خیال کئے بغیر ایسی بات کہہ دی۔پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے ایک عمومی بات کی تھی، نا کہ خاص اس واقعہ کی بات کی۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ ایک مذہبی شخصیت کی سیرت اور سوانح پر جو کتاب لکھی جائے گی، کیا اسے مذہب سے جوڑنا غلط ہے؟ آپ ہی بتا دیجئے کہ کسی عالم کی سیرت پر کتاب لکھنے کا مقصد کیا ہوتا ہے؟

جب آپ نے موضوع کو مکمل طورپر پڑھاہی نہیں ہے توپھر مراسلے کس شوق میں لکھتے ہیں گندی نالی کے قریب رہنے سے دماغ خراب ہوگیاہے اس لئے، یاکوئی دوسری بات ہے؟
آپ جیسے علمی تکبر اور انا پرستی میں مبتلا حضرات کا یہ عام وطیرہ ہوتا ہے کہ ذلت کی پستی میں تو خود گرے ہوتے ہیں، لیکن الٹی کھوپڑی ، الٹ بتاتی ہے تو جو اول فول آئے لکھتے جاتے ہیں، تاکہ اصل بات کہیں دور رہ جائے اور دوسروں پر کیچڑ اچھال کر اپنی رذیل خصلت کی تسکین کا سامان بھی ہو جائے۔

شاہد نذیر صاحب نے پہلامراسلہ لکھ کرکیاثابت کرناچاہاہے ؟کہ مولانا شرف علی تھانوی نے ثواب کی بشارت سناکر غلطی کی یاپھر وہ کچھ اوران واقعات سے کشید کرناچاہ رہے ہیں۔اگرشاہد نذیر کا مطمح نظرصرف اسی قدرہوتاکہ مولانااشرف علی تھانوی کوثواب کی بات نہیں کہنی چاہئے تھی بلکہ اس کو غلط قراردیناچاہئے تھاتومیں خود اس موضوع میں دخل درمعقولات دینے کی ضرورت نہ سمجھتاکہ چلو ظاہری اعتبار سے شاہد نذیر جس نتیجے پر پہنچے ہیں اس کی بھی ایک وجہ ہے۔لیکن انہوں نے جس طرح اپنے گندے افکار کااظہار کیااس کے بعد ہی خیال ہواکہ اس واقعہ کی حقیقت واضح کی جائے۔
شاہد نذیر میں غیرت تھی تو اس نے یہ لکھا۔ اور اسی لئے "ایک وجہ سے" آپ کو وہ ٹھیک بھی لگتا ہے۔ آپ میں غیرت کا فقدان تھا، لہٰذا آپ نے اس گندے اور غلیظ واقعہ کی توجیہہ کی سوچی۔ گندگی کی نسبت آپ ہی کی جانب ہوتی ہے جناب۔ ہماری جانب یہ نسبت کریں گے تو پہلے مجذوب صاحب کی جانب کیجئے گا کیونکہ ظاہر سے گندگی اور غلاظت پہلے انہوں نے ہی کشید کی۔ اور مجذوب صاحب کے اندر شاید کوئی غیرت کی اور شرم کی رمق تھی، اسی لئے انہیں اس خیال کا بے ہودہ ہونا معلوم ہوا۔ حضرت تھانوی صاحب اور آپ میں وہ رمق بھی نہیں کہ اصل خیال اور اس کے اظہار کی گندگی پر تو دو حرف بھیجتے۔ لیکن ، اگر آپ کے بقول تھانوی صاحب نے باطنی پاکی دیکھ بھی لی تھی، نہ تو انہیں ہی ظاہری گندگی کو دھونے کا خیال آیا، اور آپ جناب تو ویسے ہی تعفن اور سڑاند میں ایسے لتھڑے بسرے ہیں کہ آپ کو تو پورا واقعہ ہی شبنم، دودھ ، بلکہ شاید زم زم سے دھلا ہوا محسوس ہوتا ہے۔


راجا صاحب!آپ سے گزارش ہے کہ اگرپورے مراسلات پڑھنے کا موقع نہ ہوتوگندی نالی کے مزے لیں لیکن دوسروں کا وقت ضائع نہ کریں۔
جب تک آپ سے مخاطب رہتا ہوں گندی نالی کے سامنے کھڑا ہی محسوس کرتا ہوں۔ مزا تو نہیں آتا، لیکن دوسروں پر آپ کی جانب سے غلاظت اور کیچڑ جاتے دیکھتا ہوں، تو سوچتا ہوں خود برا بن جاؤں بہتر ہے۔

راجاصاحب کوایک مزید تکلیف ہے کہ
لیکن برا ہو اس عصبیت کا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسی پاکباز ہستیوں کو ایسی غلیظ بحث میں گھسیٹ لاتے ہیں
یہی لوگ یہ کہنے سےبھی نہیں ہچکتے کہ حنفیوں کی تحریراحادیث سے خالی ہوتی ہے اورجب احادیث ذکی جائے توبھی مروڑ اٹھناشروع ہوجاتاہے یہ تو حاسدوں کی صفت ہوتی ہے کہ اسے کسی کل چین نہیں پڑتی ۔ اگراپنے پاس کوئی نعمت نہیں ہے توبھی آہیں بھررہاہے اوراگردوسرے کے پاس وہ نعمت ہے تومزیدزورسے آہیں بھرتاہے۔راجاصاحب حاسدوں والی صفت کااظہار کیوں کررہے ہیں اگلے مراسلے میں ضرور بتائیں۔
یہ تکلیف فقط مجھے نہیں۔ باہر نکلیں اور پوچھیں ہر غیرت مند مسلمان کو یہ تکلیف ہوگی۔
جہاں دینی مسائل کی بات ہو، شریعت کے احکامات میں اختلاف ہو، وہاں تو احادیث ہی مانگی جائیں گی، اور وہاں آپ قصے کہانیوں، اماموں کی داستانوں سے مزین کر کے جاہل عوام کو جاہل ہی رکھنے کا کام کرتے ہیں۔
اور جہاں اپنے علماء کے صریح گھناؤنے واقعات کی پردہ پوشی درکار ہو تو وہاں صحابہ کرام کے واقعات سے بعید از فہم معنی مراد لے کر، اپنے علماءکی غلطیوں کی پردہ پوشی کے لئے ان پاکباز ہستیوں کو "استعمال" کرنا کس غیرت مند مسلمان کو گوارا ہے؟ آپ کی اجازت ہو تو فورم پر ہی نیا دھاگا شروع کر کے پوچھ لوں؟ آپ اپنے الغزالی فورم پر ہی پولنگ کروا لیجئے۔ آپ کو خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ اس میدان میں آپ ہی ہیں جو حسد اور بغض کے اٹھنے والے مروڑوں سے خباثت کے جلاب میں مبتلا ہیں۔


ایک ڈھکوسلہ


راجا صاحب کے پاس چونکہ خواب والے واقعہ پر کہنے کیلئے کچھ بھی نہیں تھااوراس کا حوصلہ بھی نہیں تھاکہ وہ اس کااعتراف کرتے کہ صاحب تھریڈ نے جوخواب پر اعتراض کیاہے وہ حدیث کی مخالفت ہے لیکن بجائے اعتراف اورسکوت کے یہ مغالطہ دیناضروری سمجھا۔

یہ کوئی اسی وقت لکھتاہے جب لکھنے کیلئے بندے کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔یہ توہوسکتاہے کہ کوئی طویل نہ لکھ سکے تومختصرااظہارخیال کردے لیکن ایساشخص کہ گندلی نالی کی وجہ سے جس کا طبعیت اورفکر ہی گندی ہوچکی ہو وہ محض یہ کہہ کررہ جائے توسمجھ جائیے کہ اس کے پاس کہنے کیلئے ہاں اورنہیں دونوں میں کچھ بھی نہیں ہے۔
اور جو گالیاں کھا کھا کے بے مزہ نہ ہوتا ہو، اسے بھی کسی ایک آدھ جگہ بغیر کچھ کہے چھوڑ دیا جائے تو فطری نجاست تنگ کرتی ہے کہ کچھ تو سننے کو ملے۔ آپ کو ان غلیظ واقعات کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے کا اتنا ہی شوق ہے، تو آئیے اس واقعہ میں بھی آپ کو بتائیں کہ جسے آپ دودھ سمجھ کر نوش فرما رہے ہیں، اس میں پیشاب کی کتنی مقدار موجود ہے۔

واقعہ 2:
ایک بار ارشاد فرمایا میں نے ایک بار خواب دیکھا تھاکہ مولوی محمد قاسم صاحب عروس کی صورت میں ہیں اور میر ا ان سے نکاح ہوا ہے سو جس طرح زن وشوہرمیں ایک کو دوسرے سے فائدہ پہنچتا ہے اسی طرح مجھے ان سے او ر انہیں مجھ سے فائدہ پہنچا ہے
جمشید صاحب کی باطل تاویلات یہ ہیں کہ یہاں تک کا حصہ تو خواب ہے:

ایک بار ارشاد فرمایا میں نے ایک بار خواب دیکھا تھاکہ مولوی محمد قاسم صاحب عروس کی صورت میں ہیں اور میر ا ان سے نکاح ہوا ہے
اور اس کے بعد کا حصہ تعبیر ہے:
سو جس طرح زن وشوہرمیں ایک کو دوسرے سے فائدہ پہنچتا ہے اسی طرح مجھے ان سے او ر انہیں مجھ سے فائدہ پہنچا ہے
پھر فرماتے ہیں کہ خواب کچھ ہوتا ہے تعبیر کچھ ہوتی ہے۔ مثالیں بھی ذکر کیں۔ اور خلاصہ یہ نکالا کہ:

کبھی خواب براہوتاہے اورتعبیر اس کی اچھی ہوتی ہے۔
تواگرخواب میں مولانا رشید احمد گنگوہی نے مولانا قاسم صاحب کو عروس کی صورت میں دیکھااوران سے نکاح ہوااوراس کی تعبیر یہ بیان کی کہ ان سے مجھ کو اورمجھ کو ان سے فائدہ پہنچاہے تواس میں شرم اورشرمناک کیاچیز ہوگئی یہ تومجھے سمجھ میں نہیں آیا ۔
تین آدمی مرفوع القلم ہیں ان پر دینی دنیاوی کسی قسم کا کوئی حکم نہیں لگایاجاسکتانہ ان پرکوئی داروگیر کیاجاسکتاہے۔
مجنوں سے جب تکہ اس کو عقل نہ آجائے ۔سونے والے سے جب تک کہ وہ جاگ نہ جائے اوربچے سے جب تک کہ وہ بالغ نہ ہوجائے۔
اب یہ واقعہ مولانا رشید احمد گنگوہی اورمولانا قاسم صاحب کا خواب ہے اوراس خواب کے واقعہ سے احناف کو مطعون کرنے کی کوشش حدیث کی مخالفت ہوگی یانہیں ہوگی وہ اپنے دل سے پوچھ کر جواب دے دیں۔حدیث توکہہ رہی ہے کہ سونے والامرفوع القلم ہے اورشاہد نذیرصاحب کی خواب کے واقعہ پر خواہشات بیدارہوجاتی ہیں۔
خواب پر اعتراض کرنا درست نہیں۔ یہ مجھے اعتراف ہے۔ کیونکہ خواب اور خیال پر گرفت نہیں۔ ایسے لوگ مرفوع القلم ہیں۔ درست۔

لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر بے ہودہ خواب کو بیان بھی کیا جائے۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ اسے بیان کرنے والے یا سننے والے اسے جیتے جاگتے، سوچتے، ہوش و حواس میں کتابوں میں جگہ دیتے پھریں اور پھر بھی وہ مرفوع القلم رہیں۔
کچھ مثالیں جمشید صاحب نے دیں۔ ایک مثال میری جانب سے بھی:

ایک شخص خواب میں خود کو کسی شریف خاتون سے زنا کرتے دیکھتا ہے۔اٹھنے کے بعد، ہر ایک کو یہ خواب پوری باریکیوں اور جزئیات کے ساتھ سناتا ہے۔ اور پھر اپنی یا خاتون کی سوانح حیات میں اسے لکھواتا ہے۔
یہ درست ہے کہ اس کا یہ خواب دیکھنا اس کی مرضی سے نہ تھا، لہٰذا وہاں تک وہ مرفوع القلم تھا۔
لیکن ایسے بے ہودہ خواب کو دوسروں کو ہوش و حواس میں سنانا اور پھر اس کو کتاب میں جزئیات کے ساتھ رقم کروا دینے کے بعد بھی وہ مرفوع القلم رہے گا؟؟؟
حاشا و کلا۔ ہرگز نہیں۔ بلکہ ایک بے ہودہ بات کے پھیلانے، ایک خاتون کی شرافت کو داغدار کرنے، بے حیائی کے فروغ کا اس کو گناہ ہوگا۔

یہی صورتحال اس واقعہ میں بھی ہے۔
مولانا قاسم صاحب کو عروس کی صورت میں خواب میں دیکھا، یہاں تک وہ مرفوع القلم رہے۔ ہمیں بھی اعتراض نہیں۔
لیکن اس بے ہودگی کو خود تک رکھتے۔ کیا ضرور کہ اسے دوسروں کو بتاتے پھریں اور کتاب میں لکھ کر آنے والی نسلوں کو پریشان چھوڑ جائیں کہ یہ بزرگوں نے کیسے کیسے خواب دیکھ رکھے تھے کہ مرد، مرد کی دلہن بنتا ہے اور ایسے خواب کے اظہار اور تشہیر پر کوئی شرم دامنگیر نہیں ہوتی، نہ حیا متھے لگتی ہے اور نہ غیرت کو جوش آتا ہے۔ بلکہ بے غیرتی کے ساتھ اس کی تشہیر ایسے کرتے ہیں، جیسے کوئی بہت ہی اعلیٰ و ارفع اور عظیم مقصد ہو جسے پورا کرنا کوئی شرعی فریضہ ہے اور جس کا دفاع مسلک بچانے کے لئے لازم و ضروری۔

اور بالا سوال کا جواب بھی خیر سے جمشید صاحب نے دینے کی کوشش کی ہے۔ گلکاریاں ملاحظہ کریں:
اولاتویہ واقعہ شرمناک ہے ہی نہیں اورجتناواقعہ ہے اورجتناتعبیر ہے دونوں کو گڈمڈ کرکے اس کو شرمناک بنادیناان کا کارنامہ ہے۔ ان کے کارنامے سے ہم کیوں شرمندگی محسوس کریں؟

ثانیابات اگرشرمناک ہوبھی تومحض شرم کی وجہ سے چھپادی جائے یہ کوئی ضروری نہیں ہے۔ بلکہ اس میں خیال رکھاجاتاہے کہ اس کو پڑھنے والے خود ہی عاقل وبالغ ہوں گے۔ حدیث شریف میں جب ایک عورت نے اپنے شوہر کے ذکر کو ہدبۃ الثوب سے تشبیہ دی تواس حدیث کے بعض طرق میں اس کے شوہر کے جوالفاظ ذکر کئے گئے ہیں کیااس کا کھلم کھلابیان قابل شرمناک نہیں ہے۔کون ساوہ اہل حدیث ہے جواس حدیث کو اپنے گھر کی خواتین کے سامنے بیان کرتاہے اوراس کی تشریح کرتاہے؟توکسی چیز کا شرمناک ہوناالگ شے ہے اورکسی چیز کا قابل بیان ہوناالگ شے ہے۔ (کوئی صاحب اپنے تنگ دماغ میں یہ شک وشبہ نہ پال لیں کہ مولانارشید احمد گنگوہی کے ملفوظات کا حضورپاک کی حدیث سے تقابل کیاجارہاہے ایک جزئی تشبیہ مراد ہے اوربس )شاہد صاحب کا خیال ہے کہ یہ واقعہ ان کو نہ بیان کرناچاہئے لیکن مولانا رشید احمد گنگوہی کاخیال ہوسکتاہے کہ اس واقعہ اوراس کی تعبیر کو بیان کرکے سننے والوں کو خواب کی ایک تعبیر بتادی جائے کہ کبھی خواب کیساہوتاہے اوراس کی تعبیر کیسی ہوتی ہے۔ضروری نہیں کہ ہرشخص شاہد نذیر کے ہی انداز میں سوچے اورجوشاہد نذیر صاحب سونچیں وہی درست اوربہتربھی ہو۔
گویا ایک مرد خواب دیکھتا ہے کہ وہ دوسرے مرد کے نکاح میں ہے۔ یعنی پتہ نہیں، اس کی بیوی بن کر حجلہ عروسی میں بیٹھا ہے۔ یا معلوم نہیں، نکاح نامے پر فقط دستخط کر رہا ہے، یا پھر ستاروں سے آگے جہاں اور ہیں، کے مصداق اپنی نامعلوم غیرآسودہ خواہشات کو خواب میں پورا ہوتے دیکھ رہا ہے۔

اور بقول جمشید صاحب، مرد کا مرد کے نکاح میں جانے کا خواب دیکھنا تو کوئی شرم کی بات نہیں۔ ان کا جس ملک سے تعلق ہے، سنا ہے وہاں گے پریڈز ہوتی ہیں۔ کیا معلوم خفیہ طور پر شریک ہوتے ہوں یا فقط ٹی وی پر دیکھ کر ہی داد دیتے ہوں۔ لہٰذا شرم کی کیا بات بھلا۔
اور چلو کسی کے ہزار گھسنے، سنانے اور کوسنے سے غیرت کا کوئی بلبلا پھٹ ہی پڑے، تو اگلا جواب یہ کہ شرمناک ہو بھی تو ، شرمناک ہونا علیحدہ بات ہے، قابل بیان ہونا علیحدہ بات ہے۔ چہ خوب۔
اور اس غلیظ واقعہ کی دلیل؟ حدیث۔ اور پھر کہتے ہیں کہ ہم غیرت بھی نہ کھائیں۔
اب پتہ نہیں حدیث کی صحت کیسی ہے اور جن بعض طرق کی جمشید صاحب بات کرتے ہیں، ان کی اپنی حیثیت کیا ہے۔ کفایت اللہ بھائی بہتر بتا سکتے ہیں۔اور پھر اس سے وہ بات ثابت ہوتی بھی ہے کہ نہیں، جو ہمارے بیچ زیر بحث ہے۔
لیکن ایسی باتیں دلیل کے طور پر پیش کرنی ہوں، تو پھر جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک کافر کو لات کے بارے میں گالی دی، اس کو دلیل بنا کر ویسی ہی گالی اگر ہم جمشید صاحب کو دے ڈالیں اور جب وہ جواب میں گرجیں، تو ہم دلیل میں پیش کریں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھی ایسے ہی الفاظ ثابت ہیں؟ تو کیا ان کے نزدیک یہ درست عمل ہوگا؟ ہرگز نہیں۔ اپنے لئے وہ کبھی اسے پسند نہیں کریں گے۔ لیکن کیا کریں کہ تعصب اور مسلک پرستی کی سڑاند کچھ ایسی ان کے اندر رچ بس گئی ہے کہ قرون اولیٰ کی پاکباز ہستیاں لپیٹ میں آئیں تو آئیں، یہ نہیں ماننا کہ ہمارے علماء کا یہ خواب بیان کرنا غلطی تھا۔

چلئے۔ یہ تو ہوئی خواب کی بات۔ اب آتے ہیں تعبیر کی جانب۔ بقول جمشید صاحب، واقعہ کا یہ حصہ تعبیر بتلاتا ہے:
سو جس طرح زن وشوہرمیں ایک کو دوسرے سے فائدہ پہنچتا ہے اسی طرح مجھے ان سے او ر انہیں مجھ سے فائدہ پہنچا ہے
اب ذرا تصور کیجئے۔ خواب یہ ہے کہ گنگوہی صاحب، خواجہ صاحب کو خواب میں اپنا دلہا دیکھتے ہیں۔
اور تعبیر کتنی شفاف ہے کہ جیسے بیوی اور شوہر کو ایک دوسرے سے فائدہ پہنچتا ہے، ایسے ہی ہمیں ایک دوسرے سے فائدہ ہوا۔
اس کے بعد ایک لفظ تشریح میں نہ ہم کہیں نہ آپ۔ اور اسے نام وغیرہ کے بغیر کسی عام مجلس میں پیش کر دیں، چاہے وہ دیوبندی حضرات ہی کی ہو۔ اور ان سے رائے لے لیں کہ یہ بے ہودگی ہے یا نہیں۔

ہمارے نزدیک تو جیسا بے ہودہ خواب، ویسی ہی یہ بےہودہ تعبیر۔ لیکن جمشید صاحب کو نہ شرمناک بات نظر آتی ہے اور اس کا بیان ہی ناقابل بیان معلوم ہوتا ہے۔ اسے ان کی بے غیرتی پر محمول کریں گے تو ان کو گالی محسوس ہوگی، لہٰذا ہم اسے ان کے مردہ ضمیر کا نتیجہ تسلیم کر لیتے ہیں۔

اس تعبیر کی تشریح بھی جمشید صاحب کی زبانی ملاحظہ ہو:


سو جس طرح زن وشوہرمیں ایک کو دوسرے سے فائدہ پہنچتا ہے اسی طرح مجھے ان سے او ر انہیں مجھ سے فائدہ پہنچا ہے
مردوعورت کو ایک دوسرے سے کیافائدہے پہنچتے ہیں
مرد کو اولاد ملتاہے۔اورعورت کو قوام اورسرپرست نصیب ہوتاہے۔
مولاناقاسم صاحب نے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی۔ طلبائے علوم دینیہ نے جوق درجوق اس کی جانب رجوع کیا۔ اورجوطلباء دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوتے تھے وہ ایک سال کا دورہ حدیث مولانارشید احمد گنگوہی کے پاس جاکر بھی کیاکرتے تھے۔عمومی حالت یہی تھی ۔اس طرح دارالعلوم دیوبند کے واسطہ اورمولاناقاسم صاحب کی وجہ سے مولانارشید احمد گنگوہی کو روحانی اولاد نصیب ہوئی۔(اگرچہ ان کے درس میں دارالعلوم دیوبند کے قیام سے قبل بھی طلباء حدیث رہتے تھے لیکن اس میں مزید اضافہ دارالعلوم دیوبند کی وجہ سے ہوا۔

دوسری طرف مولانارشید احمد گنگوہی دارالعلوم دیوبند کے سرپرست تھے ان کی ذات سے دیوبند کو بلاواسطہ اوربالواسطہ مولاناقاسم صاحب کو فیض پہنچا۔
اب ہم اسے جمشید صاحب کا فطری اندھا پن نہ کہیں تو کیا کہیں۔ہم ان سے اب یہ بحث شروع کریں کہ جی طلباء دارالعلوم دیوبند سے فارغ بھی ہو جاتے تھے اور وہ بھی دورہ حدیث کئے بغیر؟ یا یہ کہیں کہ اولاد فقط مرد کو ملتی ہے اور عورت کو نہیں ملتی؟ یا یہ کہیں کہ گنگوہی صاحب کو تو دارالعلوم دیوبند کا سرپرست (گویا شوہر) اور قاسم صاحب کے واسطہ سے روحانی اولاد کا ملنا ثابت کرتے ہیں، لیکن یہ نہیں بتاتے کہ قاسم صاحب کو حضرت گنگوہی صاحب سے کیا فیض پہنچا؟ اور جب دونوں ہی دارالعلوم دیوبند سے منسلک تھے تو روحانی اولاد کے حصول کی نسبت فقط قاسم صاحب کی جانب کرنا، چہ معنی دارد۔
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!

ہمیں بھی ضرورت نہیں کہ زن و شوہر سے ایک دوسرے کو فائدہ پہنچنے والی بات سے ضرور ان کے جسمانی تعلقات ہی مراد لئے جائیں۔ لیکن خدارا ایسی غلیظ باتوں کو عوام کے سامنے تو نہ لائیں۔ اس میں ایسا کیا ضروری سبق ہے کہ اس کا سنایا جانا کوئی شرعی مسئلہ بن گیا ہے۔ ہمیں اصل اعتراض ان قصوں میں فحاشی، یاوہ گوئی اور بے ہودگی کی تشہیر پر ہے۔ ایک مرد دوسرے مرد کو خواب میں دلہن دیکھے اور پھر اس کی تشہیر کرے، لاحول ولا قوۃ۔ کہاں وہ غیرت، جو تنہائی میں بھی ایسی بے باک گفتگو سے عار دلاتی ہے اور کہاں یہ ذلالت کہ ایسے قصے سر بازار اچھالے جاتے ہیں اور پھر کچھ سرپھرے، کوڑھ مغز، گندی ذہنیت اور غلیظ سوچ رکھنے والے، ایسے قصوں کے ناجائز دفاع پر اترتے ہیں تو ذرا ادھر سے ذرا ادھر سے قصہ جوڑتے ہیں، کوئی بات یہاں اس کے منہ میں ڈال اور کوئی وہاں تروڑ مروڑ کر، کھجا کھجا کر خون کر ڈالتے ہیں، لیکن یہ اعتراف نہیں کرتے کہ ایسے قصوں کا بیان نہ کرنا ہی بہتر تھا۔ علماء کی غلطی کا اعتراف تو گویا مسلک کی خودکشی ہے۔

راجا صاحب سے ہمیں امید ہے کہ ان کو یہ تحریرازحد پسند آئی ہوگی اگران کی فرمائش رہی توہم مزید ان کی طبعیت خوش کریں گے۔
ہمیں تو خو ہے کہ جو کہئے بجا کہئے
لہٰذا یہ پوسٹ آپ کو سمجھانے کے لئے ہے کہ ہم بجا کہنا جانتے ہیں تو بجانا بھی جانتے ہیں۔ آپ پر منحصر ہے۔ دوسروں کی عزت کریں اور اپنی کروائیں۔ یا پھر دوسروں پر کیچڑ اچھالیں اور خود بھی تماشائی بن کر اپنی عزت کا جنازہ نکلتے دیکھیں۔
ہمیں پہلی صورت پسند ہے۔ اور معافی مانگنے کو بھی تیار ہوں بلکہ اس پوسٹ سمیت گزشتہ پوسٹس میں بھی جو آپ کے تعلق سے غلط باتیں کی ہیں، مجھے کوئی ان پر فخر نہیں، ان میں ترمیم بھی کرنے کو تیار ہوں۔۔ لیکن آپ بھی دوسروں کی عزت کریں بات تب ہے۔ علمی اختلاف تک خود کو محدود رکھیں تو آپ انٹرنیٹ کی دنیا میں میری پسندیدہ دیوبندی شخصیت ہیں۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

معذرت کے ساتھ کسی الجھنے والے دھاگہ میں جب موضوع ہاتھ سے نکل جائے اور نوبت ذاتیات پر آ جائے کہ کوئی مفید بات کہنے کو نہیں بچی تو حد 3 مرتبہ رپورٹنگ کے بعد دو فریقین میں سے کسی ایک فریق کو صبر کا دامن ہاتھ میں تھام کر اسے چھوڑ دینا ہی دونوں کے لئے بہتر ہوتا ھے۔

والسلام
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
جمشیدصاحب کا شمار ان بے انصاف لوگوں میں ہوتا ہے جو غیروں کی قابل تاؤیل اور جائز تاؤیل کی متحمل عبارتوں پر بھی اعتراضات کے پہاڑ کھڑے کردیتے ہیں اور اپنی صریح اور صاف عبارتوں پر جن میں ہیر پھیر کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی باطل،فاسد اور مردود تاؤیلات کے انبار لگا دیتے ہیں۔ تمام اہل باطل حضرات کی طرح جمشید صاحب بھی دیانت اور امانت سے کوسوں دور ہیں۔

جمشید صاحب نے حسب عادت ہمارے مضمون کے اعتراضات پڑھے اور سمجھے بغیر ہی ان کا غیر تسلی بخش جواب دینے کی کوشش کی ہے۔اعتراض سمجھنے کی توفیق تو انہیں اس لئے حاصل نہیں کہ آنکھوں کے آگے اندھی تقلید کی پٹی بندھی ہے اس لئے پڑھتے کچھ ہیں سمجھتے کچھ ہیں۔ اور اگر بالاتفاق کچھ سمجھ میں بھی آجائے تو انجان اس لئے بن جاتے ہیں کہ پھر بددیانتی ،کذب اور مغالطوں کے ذریعے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر دفاع مذہب کا فریضہ کیسے انجام دیں گے؟ ہم نے تواپنے مضمون میں یہ حقیقت بیان کرنے کی کوشش کی تھی کہ کسی بھی انسان کی خواہشات اس کے کردارکا آئینہ دار ہوتی ہیں۔اگراکابرین دیوبند کومرد ہوکر عورت بننے کی خواہش اور مردوں کے عشق میں مبتلا ہونے کا شوق ہے تو یہ بے سبب ہر گز نہیں بلکہ انکی ہم جنس پرستی کی عادت کے باعث ہے۔ورنہ ایک عام مردکے دل میں عورت ودلہن بننے جیسے بیمار خیالات اور شرمناک خواہشات جنم نہیں لیتیں بلکہ مخنث اور خواجہ سراؤں کے دل ان خیالات سے مچلتے رہتے ہیں۔ اب ہیجڑوں اور اکابرین دیوبند میں کونسا باہمی رشتہ ہے کہ دونوں کی خواہشات اور خیالات ایک جیسے ہیں، سمجھنا مشکل نہیں۔لیجئے ایسا ہی ایک اور دیوبندی واقعہ ملاحظہ فرمائیں جو انکے ہم جنس پرست ہونے کی نقاب کشائی کررہا ہے: فرمایا راؤ عبداللہ اپنے پیر حاجی عبدالکریم کو خاوند سے تعبیر کرتے تھے ۔یہ راؤ عبداللہ صاحب مغرب کی نماز پڑھتے ہوئے اپنے بیٹے امیر علی کو پکارنے لگے امیر علی امیر علی میرے خاوند نے آج مجھ کو دکھایا ہے حاجی صاحب کو مسجد میں بند کرکے قفل لگادیا ہے اور مولوی رشید صاحب کو کتاب دے کر درس کے لئے کہہ دیا ہے۔(امداد المشتاق، صفحہ 128)

کوئی بھی صاحب شرم اور صاحب عقل اپنے بیٹے کے سامنے کسی دوسرے مرد کو اپنا خاوند کہتے ہوئے شرمائے گا لیکن دیوبندیوں کی تربیت ہی اس نہج پر ہوئی ہے کہ انہیں یہ غیر فطری رشتے بھی فطری لگتے ہیں اوریہ نامعقول خواہشات بھی صحیح محسوس ہوتی ہیں۔جمشید صاحب کی ساری وکالت جو انہوں نے اکابرین دیوبند کی ناجائز خواہشات کے سلسلے میں کی ہیں بوگس اور بودی ہیں کیونکہ خیرالقرون سے کوئی ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کی جاسکتی جس میں کسی مرد نے دوسرے مرد سے دینی اور برادرانہ محبت کے لئے دیوبندیوں کی طرح زنانہ اور فحش طریقہ اظہاراپنا یا ہو۔نارمل مردوں میں تو یہ طریقہ کار نہیں پایا جاتا البتہ تیسری جنس میں یہ نازیبا طریقہ اظہار ضرور موجود ہے۔

اس طرح کے واقعات پیش کرنے والے جیساکہ اس سے قبل طالب الرحمن نے الدیوبندیہ میں پیش کیاتھا۔ ایک اہم اصولی بات کو نظرانداز کردیتے ہیں۔واقعات کی حیثیت محض واقعات کی ہے۔ وہ کسی قاعدے اورلزوم کی حیثیت نہیں رکھتے۔ کوئی اسے تسلیم کرے نہ کرے ۔نہ ہم کسی کو اس کاپابند بناتے ہیں کہ وہ ضرور ہی ان واقعات کو تسلیم کریں اورنہ ہی ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ واقعات سرے سے ہی غلط اوربے بنیاد ہیں۔اگرشاہد نذیر اورگڈمسلم یادیگر غیرمقلدین حضرات اس واقعہ کو سمجھنے کی ایماندارانہ کوشش کرتے تویہ بعید نہیں تھاکہ وہ یہ واقعہ صحیح طورپر نہ سمجھ سکتے۔
جمشید صاحب ہمیشہ کی طرح سفید جھوٹ بول رہے ہیں کہ یہ محض واقعات ہیں اور یہ قاعدے کی حیثیت نہیں رکھتے ۔اصل بات تو یہ ہے کہ دیوبندیوں کے اس طرح کے جنسی بے راہ روی پھیلانے والے واقعات کی حیثیت محض واقعات کی نہیں ہے کہ جنھیں یونہی نظر انداز کردیا جائے بلکہ یہ خصوصی طور پر ان دیوبندی عوام کی دینی تربیت کی خاطر انہوں نے اپنی کتابوں میں لکھے ہیں جنھیں دیوبندی بزرگوں کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع نہیں ملا۔ دیکھئے حیاسوز واقعات سے پر کتاب ارواح ثلاثہ کے مقدمہ میں ظہور الحسن دیوبندی کتاب کا مقصد یہ بتاتے ہیں کہ بہت سے لوگ جو دنیاوی زندگی میں بہت مصروف ہوتے ہیں اور بزرگوں کے پاس نہیں بیٹھ سکتے اور فیض صحبت نہیں اٹھا سکتے خصوصاً ان لوگوں کے لئے اکابرین دیوبند کی ان حکایات اور واقعات کو جمع کیا گیا ہے تاکہ وہ بھی ان واقعات کو پڑھکر بزرگوں کی صحبت کا فیض اٹھا سکیں کیونکہ ان کے لئے کتابوں کا مطالعہ ہی صحبت نیک کا قائم مقام ہے۔

یہ دیوبندی بیان اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے کافی ہے دیوبندی کتابوں میں دیوبندی اکابرین کے بے ہودہ کردار پر مبنی حیا سوزواقعات اسلام اور دین کے نام پر قلمبند کئے گئے ہیں۔ایسی صورت میں تو اہل اسلام اور اہل ایمان کا فریضہ ہے کہ ان دیوبندی واقعات کی تشہیر کرکے عام مسلمانوں کو انکے شرسے متنبہ کیا جائے۔اور اسلام کی صورت مسخ کرنے پر مطلع کیا جائے۔

اکابرین دیوبند کے اس طرح کے واقعات سے مریدین اوردیوبندی عوام کی کس قسم کی تربیت ہوتی ہے اور وہ اس کا کیا اثر لیتے ہیں اس کا اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لاتعدادتقلیدی مولوی مدرسوں اور مساجد میں لڑکوں سے منہ کالا کرواتے ہوئے پکڑے گئے ہیں۔

جمشید صاحب نے سب سے بڑی جرات اور بے حیائی یہ کی ہے کہ اپنے علماء کے نفس پرستی اور جنسی خواہشات پر مبنی واقعات کو صحیح ثابت کرنے کے لئے احادیث مبارکہ کاسہارا لیا ہے ۔مجھے دیوبندیوں پر سخت حیرت ہے کہ وہ اپنے اکابرین اور مذہب کا دفاع کرتے ہوئے یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ وہ مسلمان ہونے کے دعویداربھی ہیں۔بس اندھادھند اپنے باطل مذہب اور باطل پرست اکابرین کا دفاع کئے چلے جاتے ہیں چاہے انہیں قرآن پر اعتراض کرنا پڑے یا حدیث پر کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ احادیث کا مذاق اڑانا پڑجائے یا قرآن کی آیت یا حدیث گھڑنے کی نوبت پیش آجائے سب کچھ کر گزرتے ہیں۔ اب ایسے بے دین لوگوں سے اخلاقیات اور شریعت کے ادب و احترام کی توقع رکھنا ہی عبث ہے۔بہرحال جمشید صاحب نے جتنی بھی احادیث پیش کی ہیں وہ جائز محبت سے متعلق ہیں جیسا کہ احادیث کے متن ہی سے ظاہر و باہر ہے جبکہ دیوبندی واقعات خاص قسم کی ناجائز اور جنسی محبت کا پتا دیتے ہیں۔ اس لئے کوئی روایت بھی جمشید صاحب کے لئے مفید مطلب نہیں جمشید صاحب کو چاہیے کہ ایسی واضح اور صحیح روایات پیش کریں جس میں کسی رجل نے کسی رجل سے اظہار محبت کے لئے اس کی بیوی بننے کی خواہش کی ہویا کسی مرد کو اپنا خاوند قرار دیا ہو یا آپسی تعلقات اور محبت کے لئے بیوی اور شوہر کے باہمی تعلقات کی مثال پیش کی ہو۔

جمشید صاحب نے صحیح مسلم کی ایک روایت سے بھی باطل استدلال کیا ہے حالانکہ وہ انتہائی درجے کی حیرت اور خوشی سے متعلق ہے جس میں انسان کو اپنی زبان پر قابو نہیں رہتا اور وہ نہیں جانتا کہ اپنی زبان سے کیا کچھ کہہ گیاہے۔ جبکہ پیش کئے گئے تمام دیوبندی واقعات میں ایسی کوئی کیفیت مذکور نہیں بلکہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ دیوبندیوں نے ایسی نامعقول خواہشات کا اظہارہوش و حواس میں رہتے ہوئے انتہائی نارمل انداز میں کیا ہے۔جمشید صاحب کا یہ کہنا بھی مردود ہے کہ خواجہ صاحب نے اپنی خواہش کی تعبیر میں غلطی کی کیونکہ اگر یہ غلطی ہوتی تو خواجہ صاحب کے پیر و مرشد اشرف علی تھانوی صاحب ضرور اس جانب توجہ دلاتے لیکن انکا اس ناپاک خواہش کے اظہار پر خوش ہونا اور ثواب کی بشارت سنانا ظاہر کرتا ہے کہ یہ غلطی نہیں تھی۔

لیکن اس سے گندے مطلب کشید کرلیناگندے دماغوں کا کام ہے۔ اچھے لوگ غلط واقعہ سے بھی اچھاپہلو نکال لیتے ہیں
جمشید صاحب کے ناپاک ذہن اور نجاست بھری ذہنیت کا اندازہ کریں کہ موصوف احادیث سے غلط مطلب کشید کررہے ہیں اور اپنے اکابرین کے غلط واقعات میں اچھے پہلو تلاش کررہے ہیں۔

اس وضاحت کے بعد امید ہے کہ کسی معقول شخص کو یہ دونوں واقعات شرمناک نہیں لگیں گے اوراگرپھربھی شرمناک لگیں تواس کو علاج کراناچاہئے کسی چیز کی ازحد زیادتی علاج کی متقاضی ہوتی ہے۔والسلام
معقول شخص کو تو یہ واقعات آپکی باطل وضاحت سے پہلے بھی شرمناک محسوس ہورہے تھے اور آپکی فاسد اور مردود تاویلات کے بعد میں انکی شرمناکی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ہاں البتہ دیوبندیوں کو اس طرح کے واقعات شرمناک نہیں لگتے کیونکہ انکی شرمناکی محسوس کرنے کے لئے انکے اندر حیا ہی موجود نہیں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم!

فارمیٹنگ میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ پچھلی پوسٹ دیکھی جاسکتی ہے۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
میرے خیال میں اشرف السوانح کے ایک واقعہ کے لحاظ سے دونوں فریقوں نے اپنے اپنے موقف کی وضاحت کردی ہے ۔ اب بات چوں کہ ذاتیات پر چلی گئی ہے تومیری انتظامیہ سے گذارش ہے یہ موضوع مقفل کردیا جائے
جزاکم اللہ خیرا
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
میں تلمیذ بھائی کی بات سے متفق ہوں اس سے پہلے کہ جانبیں کی بات مزید تلخ ہوجائے انتظامیہ مناسب فیصلہ لے سکتی ہے
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اور جمشید صاحب اپنی گندی ذہنیت سے مجبور ہیں۔ خدا گواہ ہے آپ کی فورم آمد سے قبل یا براہ راست آپ سے گفتگو سے قبل میں نے کسی سے فورم کی حد تک اس لب و لہجہ میں بات نہیں کی، اب بھی نہیں کرتا۔ لیکن آپ ایک خبیث قسم کی عادت میں مبتلا ہیں کہ "ادب" کے پیرائے میں نہ تو محدثین پر تبرا پڑھنے سے باز آتے ہیں، نہ علمائے کرام کا احترام کرتے ہیں، نہ کسی کے مسلک کو بخشتے ہیں، نہ کسی کے بزرگوں کو۔ کوئی شخص آپ سے اختلاف کی حماقت کر لے، تو وہ آپ کے بدبودار جملوں کی باڑھ میں آ جاتا ہے۔ بس آپ ہماری طرح کھل کر نہیں بولتے، لپیٹ کر کہتے ہیں۔ فورم پر آپ سے مخاطب ہونے والے کسی شخص کی عزت محفوظ نہیں۔ ۔ ہم آپ کی ہی لپیٹی گئی باتوں کو کھل کر آپ کے سامنے بیان کرتے ہیں تو آپ کی جانب سے کوڑا جلنے جیسی بو آنی شروع ہو جاتی ہے۔
اب اس خداگواہ میں کتناسچ اورکتناجھوٹ ہے وہ خود ہی معلوم ہے۔ خصوصاانس نضر صاحب کے ایک جوابی مراسلہ پر جس طرح کا ردعمل ظاہر کیاتھا۔بلاکسی وجہ کے وہ صاف اورصریحاثبوت ہے کہ یہ آپ کی خمیر فطرت طبعیت اورطینت ہے۔ اوراس کو خداگواہ کے پردے اورپیرائے میں چھپایاجارہاہے۔میرااصول صاف اورسیدھاہے کہ جیسے کو تیسا۔
یہ جلنااورجلاناغیرمقلدین کی فطرت ہے۔ ماضی میں آپ کے آباء واجداد حنفیوں سے جلاکرتے تھے آج آپ جلاکرتے ہیں اورکل آپ کی ذریت جلاکرے گی۔انشاء اللہ۔ویسے بھی ہاتھی چلتارہتاہے اورکتے بھونکتے رہتے ہیں۔
باقی آپ کی خصلت ایسی ہے کہ آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہونے نہیں دیتی اور دوسروں پر کیچڑ اچھالنے سے تلذذ بھی فراہم کرتی ہے۔ ہم جہاں تک کوشش کر سکتے ہیں، آپ کو آپ کے ہی انداز میں سمجھانے کی ، وہ کرتے ہیں۔ لیکن آپ کی ہر بکواس کا جواب دینا ضروری خیال نہیں کرتے، اس کو آپ اپنی کامیابی سمجھتے ہیں تو خوشی سے بغلیں بجاتے رہیں۔ گندی ذہنیت اور فطرت کے خبث پنے میں ہم بھلا کہاں آپ کے مقابل آنے کی جرات کر سکتے ہیں۔
آپ کو اپناخبث باطن کیوں دکھائی نہیں پڑتا۔ دوسرے کی آنکھوں کاتنکانظرضرور آتاہے لیکن اپنی آنکھوں کاشہتیر دیکھنے سے کیوں چوک جاتے ہیں۔ذراحالیہ تھریڈ کی ہی بات کرلی جائے کہ حالیہ تھریڈ میں شاہد نذیر صاحب کے مراسلہ پر میں نے ایک رد لکھا۔اس میں آپ جو طرز بیان اختیار کیا۔وہ میرے کن جملوں کاردعمل تھا۔ میری کون سی بات اس میں ایسی تھی جو براہ راست کسی کو مخاطب کرکے اورنام لے کر کہی گئی تھی اس کے بالمقابل اپنے پہلے مراسلے پر نگاہ ڈالیں ۔براہ راست میرانام لے کر اورمجھ کو مخاطب کرکے جودشنام طرازی کی گئی ہے وہ آپ کو دکھائی نہیں دیتا۔اوران سب حرکات شنیعہ وفجیرہ کے باوجود"خداگواہ"کی جھوٹی قسمیں کھائی جاتی ہیں۔
اگر میرا بسیرا کسی گندے نالے کے قریب ہو بھی تو یہ حسی گندہ پن، اس تعفن اور گھن سے لاکھ درجہ بہتر ہے جو آپ کی بدبودار اور غلیظ تحریروں اور جملوں سے عیاں ہوتا ہے۔بالکل جیسے باطنی صفائی، ظاہری صفائی سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔ اور انڈیا کون سا یورپ ہے۔ آپ خود بھی شاید کسی چیتھڑے اخبار کے غلیظ ٹوائلٹ کے پاس بیٹھ کر ادارت فرماتے ہوں گے، جہاں بہت پہلے کبھی پبلک کے روزانہ گند کا تعفن آپ کے دماغ کو ماؤف کرتا رہا ہوگا ۔ اور اب تو آپ خیر سے ظاہری و باطنی گندگی کو محسوس کرنے جیسی چیز سے بہت عرصہ قبل چھٹکارا پا چکے ہوں گے، اس بوڑھی عورت کی طرح، جو کسی ڈاکٹر کے پاس گئی اور کہا کہ مجھے گیس ہے لیکن اللہ کا شکر ہے میری گیس میں نہ بدبو ہے اور نہ آواز ہی آتی ہے، پھر بھی آپ علاج کریں کہ یہ مسئلہ ہی ختم ہو جائے۔ ڈاکٹر نے دوا دے دی۔ اگلے ہفتے خاتون شکایت لے کر حاضر ہو گئیں کہ یہ کیسی دوا دے ڈالی، آپ کی دوا سے تو الٹا بدبو پیدا ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر نے کہا گڈ۔ آپ کی ناک ٹھیک ہو گئی ہے اب آپ کے کان کا علاج کرنا ہے۔ ابتسامہ۔
ہماری دعاہے کہ خداآپ کو کراچی میں کسی ایسے ہی ڈاکٹرسے ملاقات کرادے جو آپ کی بصارت اوربصیرت کے اندھے پن کو دور کرسکے اورآپ کو اپناخبث باطن اچھی طرح دکھائی پڑسکے ورنہ ورنہ آپ تازندگی یہی مشغلہ اپناتے رہیں گے کہ دوسروں کے مراسلے پر اعتراض کرتے رہیں گے اپنے بیان کردہ واقعہ یالطیفہ میں اس بوڑھی عورت کے مماثل۔انڈیایوروپ نہیں ہے لیکن بات اگرتقابل کی آئے تو پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سب جانتے ہیں کہ کون ساملک کیساہے؟
چیتھڑے اخبار غلیط ٹوائلٹ وغیرہ کے جملے آپ کے ذہنی گندگی کی اچھی مثالیں ہیں۔
عضدالدولہ نے ایک مرتبہ ایک عربی شعر کہاجس میں چاند کو سونے چاندی سے بھری کشتی سے تشبیہ دی گئی تھی اس پر اس کے دربار کا ممتاز شاعر بول اٹھاکہ یہ تشبیہ عضدالدولہ کو ہی سوجھ سکتی تھی کیوں کہ اسی کے پاس اس قدردولت ہے کہ وہ اس قسم کی تشبیہ بیان کرسکے ورنہ غریب شاعر جس کے پاس تاعمر افلاس کی فراوانی ہو وہ اس قسم کی تشبیہ کیسے سوچ سکتاہے۔
آپ نے " کسی چیتھڑے اخبار کے غلیظ ٹوائلٹ، پبلک کے روزانہ گند کا تعفن جیسے جملے لکھ کر اپنی اچھی نقاب کشائی کی ہے۔یہ سب باتیں آپ ہی کو سوجھ سکتی ہیں دماغ میں آسکتی تھیں اورکیوں نہ آتیں ایک عمر کی قربت اوریکجائی تھی۔ چلئے مبارک ہو اورہم توآپ کے حق میں زدفزد کی بھی دعاکرتے ہیں کہ آپ کو یہی پسند ہے تویہی سہی۔
اب یا تو اپنی جہالت کو انجوائے کرتے رہیں اور یہی روش قائم رکھ کر اپنی عزت کا جنازہ نکلواتے رہیں یا پھر ناک و کان کا علاج کروائیں اور یوں اپنا مذاق نہ اڑوائیں۔
اپنی جہالت کو انجوائے غیرمقلدین کرتے ہیں ہم تو دعاکرتے ہیں کہ رب زدنی علما۔جہاں تک عزت کاجنازہ کی بات ہے تو العزۃ للہ ولرسولہ اورانہی کے واسطہ سے تمام مسلمانوں کو بقدرتوفیق ملتی ہے۔ورنہ بھنگی شریف ،عزت دار سے کہتاپھرے کہ میں تمہاری عزت نہیں کرتا میں تمہیں ایساویساسمجھتاہوں تواس پر سوائے ہنسے کے اورکیاکہاجاسکتاہے۔
اور ایمنیشیا کے مریض کی طرح بے سوچے سمجھے جواب دینا کیا ضروری ہے۔ یہ بھی تو بتائیے کہ مجذوب صاحب آپ کو خواب میں آکر بتا گئے کہ مجھ سے مافی الضمیر کے اظہار میں تعبیر کی غلطی ہوئی؟ یا آپ کو کشف و الہام کا بھی دعویٰ ہے۔ اور پھر یہ "تعبیر کی غلطی" کی پخ بھی خوب ہی لگائی۔ واقعہ کا سیاق و سباق دیکھیں اور اپنا شوقِ خجالت ملاحظہ فرمائیں۔ مجذوب صاحب نے واضح طور پر اپنے استاد کی بیوی بننے کی خواہش ظاہر کی اور استاد جی نے واضح طور پر ثواب کی بشارت سنا ڈالی۔ دونوں کے منہ میں اپنا منہ ڈال کر ایک کی جانب تعبیر کی غلطی اور دوسرے کی جانب اندر تک دیکھ لینے کی صفت منسوب کر کے، آپ اپنی کم سے کم دو حسوں کے مردہ ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔
آپ کے بزرگوں کی جوکتابیں تاویلات سے بھری پڑی ہیں وہ ان کے بزرگ آکرخواب میں بتاگئے تھے۔اورآپ حضرات چونکہ کشف وکرامات کے قائل نہیں لہذا شیطان نے ہی ان کو آکر خواب میں بتایاتھاکہ اس جملہ کی یہ تاویل ہوتی ہے۔فلاں جملہ سے فلاں معنی مراد ہے۔تاویل کی ہی وہاں جاتی ہے جہاں ظاہری معنی مراد نہیں ہوتے۔ورنہ پھر پوری دنیاظاہری ہوتی اورہرسوآپ کے قریبی بھائیوں ظاہریوں کا دور دورہ ہوتا۔
ایک مثال ملاحظہ کریں۔ کوئی گوندلوی صاحب ان کی الاصلاح نامی ایک کتاب ہے اس میں انہوں نے اہل الرائے اوراہل حدیث کے بارے میں کہاہے کہ دونوں میں اصولی طورپر کوئی فرق نہیں ہے۔ اس پر الاصلاح کے مقدمہ نگار کوئی عبدالجبار صاحب فریوائی ہیں انہوں نے اہل الرائے کی تین قسم کرکے بتایاکہ پہلی قسم کے بارے میں گوندلوی صاحب نے یہ بات کہی ہے۔ ان کو گوندلوی صاحب نے خواب میں آکر بتایاتھاکہ میری مراد تین قسموں میں سے پہلی قسم ہے۔ یاان کے شیطان نے ان کو یہ بات سجھائی تھی یاصرف تاویل غیرمقلدین کیلئے روا اورجائزہے کہ جہاں چاہیں جیسے چاہیں جوچاہیں تاویل کریں لیکن کوئی دوسراتاویل کرے تواس کو خواب میں آکر بتانے سے تعبیر کریں۔

اس کے بعد تین پیراگراف میں انہوں نے جوکچھ کہاہے وہ صرف یہ بتاتاہے کہ بے چارے مالیخولیاکے شکار ہیں۔کتابوں میں کتنی ہی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کو محض ذکر کیاجاتاہے اس کے بہتر سے بہترمعنی ڈھونڈے جاتے ہیں تاوقیتکہ کوئی بہترمحمل حسن ظن کا نکل سکے۔ ایک کتاب ہے "کرامات اہل حدیث"جن غیرمقلد بزرگ کی کرامتیں اس میں بیان کی گئی ہیں اس میں سے ایک کرامت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ ان کے ایک مرید کو کسی لڑکی سے بہت محبت تھی۔ وہ بے چین رہاکرتے تھے۔انہوں نے اپنے غیرمقلد پیر سے درخواست کی کہ کسی طرح وہ ان سے ملوادیں۔ انہوں نے عہد وپیمان لے لیاکہ اس لڑکی سے کچھ نہیں کروگے اورپھر اپنے زورتسخیر سے لڑکی کو گھر سے اٹھاکر مرید کے سامنے پہنچادیا۔
اس واقعہ کا ہم بہتر سے بہترمحمل تلاش کریں گے جس سے صاحب واقعہ پر کوئی حرف نہ آئے اور واقعہ کی توجیہہ بھی ہوجائے ورنہ راجا اورشاہد نذیر صاحب کی زبان میں اگراس واقعہ کو بیان کیاجائے توکہاجائے گاکہ مذکورہ غیرمقلد پیر صاحب لڑکیوں کے سپلائر تھے ۔مریدین کی خواہش پر ان کو لڑکیاں سپلائی کیاکرتے تھے۔(واضح رہے کہ یہ بات میری نہیں ہے میں ان کو اورتمام بزرگان دین کو اس طرح کی باتوں اورالفاظ سے بری سمجھتاہوں)

یہی کچھ بات یہاں اس واقعہ میں بھی ہے اس کی بہتر سے بہترتوجیہہ کی جائے گی نہ کہ صاحب واقعہ کو مطعون کیاجائے گا۔اوریہیں سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ میں توایک واقعہ سے اچھے معنی کشید کرنے کی کوشش کررہاہوں اورراجاصاحب غلط اورفحش معنی پر مصر ہیں توکس کا ذہن وفکر فحش کی جانب ہے اندازہ لگانامشکل نہیں ہے لیکن اس کے باوجود وہ غیرت کی دہائی دیتے چلے جاتے ہیں ۔

ارے بھئی، فکر نہ کریں، ہمیں تو اپنی علمی لیاقت کا کوئی دعویٰ نہیں۔ لیکن آپ کو کیا ہوا کہ جوش جذبات میں اپنے علمی مقام کا خیال کئے بغیر ایسی بات کہہ دی۔پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے ایک عمومی بات کی تھی، نا کہ خاص اس واقعہ کی بات کی۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ ایک مذہبی شخصیت کی سیرت اور سوانح پر جو کتاب لکھی جائے گی، کیا اسے مذہب سے جوڑنا غلط ہے؟ آپ ہی بتا دیجئے کہ کسی عالم کی سیرت پر کتاب لکھنے کا مقصد کیا ہوتا ہے؟
مزید جہالت کانمونہ پیش کیاہے راجانے۔گویا ان کی بزرگوں کی سیرت اورسوانح پر جتنی بھی کتابیں لکھی گئی ہیں سب کی سب مذہبی کتاب ہیں۔ اورکسی عالم کی سیرت پر لکھنے کا مقصد مذہبی کتاب ہوتاہے ۔اناللہ واناالیہ راجعون
گرہمیں باشد مکتب وملا
کارطفلاں تمام خواہدشد

آپ جیسے علمی تکبر اور انا پرستی میں مبتلا حضرات کا یہ عام وطیرہ ہوتا ہے کہ ذلت کی پستی میں تو خود گرے ہوتے ہیں، لیکن الٹی کھوپڑی ، الٹ بتاتی ہے تو جو اول فول آئے لکھتے جاتے ہیں، تاکہ اصل بات کہیں دور رہ جائے اور دوسروں پر کیچڑ اچھال کر اپنی رذیل خصلت کی تسکین کا سامان بھی ہو جائے۔
کوئی بھی صاحب یہ دیکھ سکتے ہیں کہ اس طرح کے مراسلہ کی ابتداء کس نے کی۔ اورکون ہے جو نام کاراجابن کر اپنی ذلیل فطرت کو چھپاناچاہتاہے۔اور موقعہ بے موقعہ اپنی ذلیل فطرت کو آشکاراکرتارہتاہے۔ میرے لئے تواب آپ اورآپ کی فطرت کشف ومکشوف ہیں۔ چاہے آپ کتنی بھی مرتبہ "خداگواہ"کی گردان کرتے رہاکریں۔

شاہد نذیر میں غیرت تھی تو اس نے یہ لکھا۔ اور اسی لئے "ایک وجہ سے" آپ کو وہ ٹھیک بھی لگتا ہے۔ آپ میں غیرت کا فقدان تھا، لہٰذا آپ نے اس گندے اور غلیظ واقعہ کی توجیہہ کی سوچی۔ گندگی کی نسبت آپ ہی کی جانب ہوتی ہے جناب۔ ہماری جانب یہ نسبت کریں گے تو پہلے مجذوب صاحب کی جانب کیجئے گا کیونکہ ظاہر سے گندگی اور غلاظت پہلے انہوں نے ہی کشید کی۔ اور مجذوب صاحب کے اندر شاید کوئی غیرت کی اور شرم کی رمق تھی، اسی لئے انہیں اس خیال کا بے ہودہ ہونا معلوم ہوا۔ حضرت تھانوی صاحب اور آپ میں وہ رمق بھی نہیں کہ اصل خیال اور اس کے اظہار کی گندگی پر تو دو حرف بھیجتے۔ لیکن ، اگر آپ کے بقول تھانوی صاحب نے باطنی پاکی دیکھ بھی لی تھی، نہ تو انہیں ہی ظاہری گندگی کو دھونے کا خیال آیا، اور آپ جناب تو ویسے ہی تعفن اور سڑاند میں ایسے لتھڑے بسرے ہیں کہ آپ کو تو پورا واقعہ ہی شبنم، دودھ ، بلکہ شاید زم زم سے دھلا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
یعنی غیرت کا پیمانہ راجا صاحب کے نزدیک یہ ہوا کہ صاحب کرامات اہل حدیث یعنی عبدالمجید سوہدری جنہوں نے لڑکیوں کی سپلائی والا واقعہ لکھاہے بے غیرت ہیں اوران میں غیرت کا فقدان تھا۔اسی طرح مذکورہ غیرمقلد پیر صاحب بھی بے غیرت ان کے مرید بھی بے غیرت۔ غیرمقلدوں کا عجیب المیہ ہے ایک توان کے یہاں کوئی بزرگ ہوتانہیں ۔میاں نذیر حسین صاحب کو بھی بیعت وارادت کیلئے اپنی بھتیجے کو مولانا فضل رحمان گنج مرادآبادی کے پاس بھیجناپڑاتھا اوراگرکوئی ہوتابھی ہے تو وہ شاہد نذیر اورراجاکی زبان میں لڑکیوں کی سپلائی کرتاہے۔میں پہلے ہی بیان کرچکاہوں کہ حضرت تھانوی نے اصل محبت کے داعیہ پر نگاہ رکھتے ہوئے کہ اس محبت کا داعیہ دینی ہے دنیاوی نہیں ہے ثواب کی بشارت سنائی۔کیونکہ
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
ہاں شاہد نذیر اورراجاجیسے نادان ضرور الجھ جاتے ہیں۔
ویسے "تعفن اور سڑاند میں ایسے لتھڑے بسرے"کاجملہ اپنی چشم دید معلومات بلکہ خود پربیتی واردات کا انکشاف کیاہے ۔جزاک اللہ خیرا

جب تک آپ سے مخاطب رہتا ہوں گندی نالی کے سامنے کھڑا ہی محسوس کرتا ہوں۔ مزا تو نہیں آتا، لیکن دوسروں پر آپ کی جانب سے غلاظت اور کیچڑ جاتے دیکھتا ہوں، تو سوچتا ہوں خود برا بن جاؤں بہتر ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ یہ توآپ کی طبعیت ثانیہ بن چکی ہے اورآپ چھیڑ چھیڑ کر بار بار اسی کے مزلے لیناچاہتے ہیں۔ورنہ کہیں بھی ایسانہیں ہے کہ میں نے پہلے پہل آنجناب کو مخاطب کیاہو اوریہی ایک ثبوت کافی ہے کہ آنجناب کس طبیعت اورقماش کے آدمی ہیں اورآدمی لکھنے میں بھی مجھ کو خاصاتکلف سے کام لیناپڑاہے۔

ایک شخص خواب میں خود کو کسی شریف خاتون سے زنا کرتے دیکھتا ہے۔اٹھنے کے بعد، ہر ایک کو یہ خواب پوری باریکیوں اور جزئیات کے ساتھ سناتا ہے۔ اور پھر اپنی یا خاتون کی سوانح حیات میں اسے لکھواتا ہے۔یہ درست ہے کہ اس کا یہ خواب دیکھنا اس کی مرضی سے نہ تھا، لہٰذا وہاں تک وہ مرفوع القلم تھا۔لیکن ایسے بے ہودہ خواب کو دوسروں کو ہوش و حواس میں سنانا اور پھر اس کو کتاب میں جزئیات کے ساتھ رقم کروا دینے کے بعد بھی وہ مرفوع القلم رہے گا؟؟؟حاشا و کلا۔ ہرگز نہیں۔ بلکہ ایک بے ہودہ بات کے پھیلانے، ایک خاتون کی شرافت کو داغدار کرنے، بے حیائی کے فروغ کا اس کو گناہ ہوگا۔
آپ کی جہالت کا ہم کتناروناروئیں۔ جس کتاب کا حوالہ دیاتھاوہ حنبلی عالم انہوں نے ہرجگہ بلکہ حوالہ میں بھی کچھ لوگوں کے واقعات بیان کئے ہیں کہ انہوں نے ایساخواب دیکھااورمیں نے ان کو ایسی تعبیر بتائی۔ لیکن آنکھ کے اندھے کو کیانظرآئے گا۔ میرادیاہوااتناطویل اقتباس بھی اندھے پن کی نذر ہوگیااس کے باوجود شوق مراسلت فزوں ہے اورجوابی مراسلہ پر جوابی مراسلہ لکھے جارہے ہیں۔
مجھے توحیرت ہے کہ دنیا میں ایسے بھی لوگ بستے ہیں اس کا اعتراف ہے کہ واقعہ خواب کا ہے۔ اس کا بھی اعتراف ہے کہ خواب براہوتاہے تعبیر اچھی ہوتی ہے۔لیکن بس صرف ضد یہی ہے کہ کتاب میں کیوں بیان کیاگیا۔کیایہ چیز پہلی مرتبہ بیان کی گئی ہے۔کون سے تعبیر خواب کی کتاب ہے جس میں اس طرح کے واقعات بیان نہیں کئے گئے ہیں لیکن جہالت کی انتہایہ ہے کہ کتاب میں کیوں بیان کیاگیا۔درمنثور نامی تفسیرجوجلال الدین سیوطی کی ہے اس میں حضرت یوسف کے وھمم بہ میں جوکچھ بیان کیاگیاہے کبھی اس کو پڑھاہے۔ دیگر مفسرین کہاں تک پہنچ جاتے ہیں کبھی نظرسے گزری ہے لیکن اندھوں کی طرح فرماناضروری ہے کہ کتاب میں کیوں بیان کیاگیا۔

لیکن اس بے ہودگی کو خود تک رکھتے۔ کیا ضرور کہ اسے دوسروں کو بتاتے پھریں اور کتاب میں لکھ کر آنے والی نسلوں کو پریشان چھوڑ جائیں کہ یہ بزرگوں نے کیسے کیسے خواب دیکھ رکھے تھے کہ مرد، مرد کی دلہن بنتا ہے اور ایسے خواب کے اظہار اور تشہیر پر کوئی شرم دامنگیر نہیں ہوتی، نہ حیا متھے لگتی ہے اور نہ غیرت کو جوش آتا ہے۔ بلکہ بے غیرتی کے ساتھ اس کی تشہیر ایسے کرتے ہیں، جیسے کوئی بہت ہی اعلیٰ و ارفع اور عظیم مقصد ہو جسے پورا کرنا کوئی شرعی فریضہ ہے اور جس کا دفاع مسلک بچانے کے لئے لازم و ضروری۔
یہ بلاتبصرہ نذر قارئین ہے تاکہ مراسلہ نگار کی جہالت پر ماتم کیاجاسکے۔ویسے کبھی آپ کے نہایت معتبر غیر مقلدعالم نے اورثناء اللہ امرتسری صاحب کے حریف وفریق نے آیت کی تفسیر کرتے ہوئے شرمگاہ عورت اوراس کے متعلقات پر جس تفصیل سے بحث کی ہے کبھی وہ نگاہ سے گزری ہے آپ کے بزرگ کو تویقیناشرم نہیں آئی ہوگی بے غیرتی اوربے شرمی سے ہی انہوں نے یہ سب نقل کیاہوگا۔

گویا ایک مرد خواب دیکھتا ہے کہ وہ دوسرے مرد کے نکاح میں ہے۔ یعنی پتہ نہیں، اس کی بیوی بن کر حجلہ عروسی میں بیٹھا ہے۔ یا معلوم نہیں، نکاح نامے پر فقط دستخط کر رہا ہے، یا پھر ستاروں سے آگے جہاں اور ہیں، کے مصداق اپنی نامعلوم غیرآسودہ خواہشات کو خواب میں پورا ہوتے دیکھ رہا ہے۔
میں غلط نہیں کہتاہوں بے چارے غیرمقلدین کی سمجھ دانی ہی یہیں تک محدود ہے۔ بہت ساری باتیں ہوتی ہیں کہ اس میں اجمال سے کام لیاجاتاہے تفصیل سے بات نہیں کی جاتی۔ مثلااللہ ہرچیز کا خالق ہے اس پر ہم ایمان اورعقیدہ رکھتے ہیں اب راجا کی طرح کا کوئی بدزبان اورفحش گو شخص کہنے لگے اللہ خنزیر کابھی خالق ہے اللہ کتے کابھی خالق ہے اورپلید سے پلید تر جانور اوردنیا کی چیزوں کے بارے میں سوال کرنے لگے توسوائے اس کی عقل پر ماتم کرنے کے کوئی اورکیاکرسکتاہے۔

ویسےبھی جب بات صرف نکاح ہونے کی حد تک ہے اوریہ عرف عام میں ایجاب وقبول کو کہتے ہیں ۔تواس سے آگے ذہن کو دوڑانا ذہنی کچڑے پن کی نشانی ہے لیکن یہ چیز گیس والی بڑھیا کی طرح راجا صاحب کو سمجھ میں نہیں آتی وہ میری ہی تحریروں میں گندگی ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں۔

لیکن ایسی باتیں دلیل کے طور پر پیش کرنی ہوں، تو پھر جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک کافر کو لات کے بارے میں گالی دی، اس کو دلیل بنا کر ویسی ہی گالی اگر ہم جمشید صاحب کو دے ڈالیں اور جب وہ جواب میں گرجیں، تو ہم دلیل میں پیش کریں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھی ایسے ہی الفاظ ثابت ہیں؟ تو کیا ان کے نزدیک یہ درست عمل ہوگا؟ ہرگز نہیں۔ اپنے لئے وہ کبھی اسے پسند نہیں کریں گے۔ لیکن کیا کریں کہ تعصب اور مسلک پرستی کی سڑاند کچھ ایسی ان کے اندر رچ بس گئی ہے کہ قرون اولیٰ کی پاکباز ہستیاں لپیٹ میں آئیں تو آئیں، یہ نہیں ماننا کہ ہمارے علماء کا یہ خواب بیان کرنا غلطی تھا۔
آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جملہ پیش کیا لیکن حسب عادت جو غیرمقلدین کی نشانی ہے اس کو صحیح طورپر سمجھ نہ سکے ۔یہ بھی میری ہی دلیل ہے نہ کہ آپ کی۔ حضور کی واضح ترین اخلاق میں سے یہ بھی آپ نہ فحش گو تھے اورنہ ہی فحش باتوں کو سنناگواراتھا جیساکہ شمائل ترمذی میں ہے۔
حضور کی سب سے زیادہ اتباع حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کرتے تھے۔ اس کا تقاضاتویہی تھاکہ حضرت ابوبکر سے یہ بات صادرنہ ہوتی لیکن بعض للہ کے تقاضے کے تحت انہوں نے ایسی بات کہہ دی اس کے علاوہ ان کی پوری زندگی میں کہیں ایسانہیں ملتاکہ انہوں نے ایسی بات کہہ دی ہو۔ اس کو اگرہم یہ کہیں کہ کفار سے خداواسطے دشمنی کے تحت بے اختیارانہ یہ جملے صادر ہوگئے توکیایہ کوئی غلط تاویل ہوگی۔بلکہ صحیح تاویل ہوگی۔
اوراسی جذبہ بے اختیارانہ کی بات ہم شروع سے ہی کرتے چلے آرہے ہیں۔لیکن بقول غالب
یارب نہ وہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات
دے اوردل ان کوجہ نہ دے مجھ کو زباں اور
اب ذرا تصور کیجئے۔ خواب یہ ہے کہ گنگوہی صاحب، خواجہ صاحب کو خواب میں اپنا دلہا دیکھتے ہیں۔اور تعبیر کتنی شفاف ہے کہ جیسے بیوی اور شوہر کو ایک دوسرے سے فائدہ پہنچتا ہے، ایسے ہی ہمیں ایک دوسرے سے فائدہ ہوا۔اس کے بعد ایک لفظ تشریح میں نہ ہم کہیں نہ آپ۔ اور اسے نام وغیرہ کے بغیر کسی عام مجلس میں پیش کر دیں، چاہے وہ دیوبندی حضرات ہی کی ہو۔ اور ان سے رائے لے لیں کہ یہ بے ہودگی ہے یا نہیں۔
ہمیں بھی آپ سے پورااتفاق ہے۔
آپ ایساکیجئے کہ اسی واقعہ کی تعریب کرکے اس کو ملتقی اہل الحدیث پر پیش کردیجئے۔ دیکھیں وہ لوگ کیاکہتے ہیں ہاں کچھ برصغیر کے ہی غیرمقلدین کچھ کہیں توکہیں ورنہ اتنی عقل عرب کے سلفیوں میں بہرحال موجود ہے کہ وہ خواب اوربیداری میں تمیز کرتے ہیں برصغیر کے غیرمقلدین کی طرح بالکل ہی گئے گزرے نہیں ہیں۔

اب ہم اسے جمشید صاحب کا فطری اندھا پن نہ کہیں تو کیا کہیں۔ہم ان سے اب یہ بحث شروع کریں کہ جی طلباء دارالعلوم دیوبند سے فارغ بھی ہو جاتے تھے اور وہ بھی دورہ حدیث کئے بغیر؟ یا یہ کہیں کہ اولاد فقط مرد کو ملتی ہے اور عورت کو نہیں ملتی؟ یا یہ کہیں کہ گنگوہی صاحب کو تو دارالعلوم دیوبند کا سرپرست (گویا شوہر) اور قاسم صاحب کے واسطہ سے روحانی اولاد کا ملنا ثابت کرتے ہیں، لیکن یہ نہیں بتاتے کہ قاسم صاحب کو حضرت گنگوہی صاحب سے کیا فیض پہنچا؟ اور جب دونوں ہی دارالعلوم دیوبند سے منسلک تھے تو روحانی اولاد کے حصول کی نسبت فقط قاسم صاحب کی جانب کرنا، چہ معنی دارد۔
میں نے کئی مرتبہ راجاصاحب کے اندھے پن کاذکر کیاہے جب وہ جوابی مراسلہ لکھتے ہیں تویہ نہیں دیکھتے کہ سامنے والے نے کیالکھاہے پہلے اس کو پڑھیں پھر سمجھیں پھر کچھ لکھیں۔ بس تائو میں آکر یاگندی نالی کے قریب رہنے کی وجہ سے کسی دیگر عارضہ کی وجہ سے فورالکھناشروع کردیتے ہیں۔
ہم ان سے اب یہ بحث شروع کریں کہ جی طلباء دارالعلوم دیوبند سے فارغ بھی ہو جاتے تھے اور وہ بھی دورہ حدیث کئے بغیر
ورجوطلباء دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوتے تھے وہ ایک سال کا دورہ حدیث مولانارشید احمد گنگوہی کے پاس جاکر بھی کیاکرتے تھے۔عمومی حالت یہی تھی

یہ بھی کا لفظ جس کا واضح معنی یہ ہے کہ دورہ حدیث دارالعلوم دیوبند میں بھی ہوتاہے اوراس کے بعد مزید حصول برکت کیلئے طلبہ وہاں جاکر بھی اجازت حدیث حاصل کرتے تھے لیکن اس طرح کی واضح اردو سمجھنے سے بھی جس کی لیاقت جواب دے دے اس سے آدمی کیابات کرے اورکیابحث کرے۔

ہمیں بھی ضرورت نہیں کہ زن و شوہر سے ایک دوسرے کو فائدہ پہنچنے والی بات سے ضرور ان کے جسمانی تعلقات ہی مراد لئے جائیں۔ لیکن خدارا ایسی غلیظ باتوں کو عوام کے سامنے تو نہ لائیں۔ اس میں ایسا کیا ضروری سبق ہے کہ اس کا سنایا جانا کوئی شرعی مسئلہ بن گیا ہے۔ ہمیں اصل اعتراض ان قصوں میں فحاشی، یاوہ گوئی اور بے ہودگی کی تشہیر پر ہے۔ ایک مرد دوسرے مرد کو خواب میں دلہن دیکھے اور پھر اس کی تشہیر کرے، لاحول ولا قوۃ۔ کہاں وہ غیرت، جو تنہائی میں بھی ایسی بے باک گفتگو سے عار دلاتی ہے اور کہاں یہ ذلالت کہ ایسے قصے سر بازار اچھالے جاتے ہیں اور پھر کچھ سرپھرے، کوڑھ مغز، گندی ذہنیت اور غلیظ سوچ رکھنے والے، ایسے قصوں کے ناجائز دفاع پر اترتے ہیں تو ذرا ادھر سے ذرا ادھر سے قصہ جوڑتے ہیں، کوئی بات یہاں اس کے منہ میں ڈال اور کوئی وہاں تروڑ مروڑ کر، کھجا کھجا کر خون کر ڈالتے ہیں، لیکن یہ اعتراف نہیں کرتے کہ ایسے قصوں کا بیان نہ کرنا ہی بہتر تھا۔ علماء کی غلطی کا اعتراف تو گویا مسلک کی خودکشی ہے۔

راجاصاحب جوکچھ دراز نفسی اس پیراگراف میں فرمائی ہے وہ قطعانہ فرماتے ۔اگرجان لیتے ہیں کہ این گناہے است کہ درشہر شمانیز کنند اوریہ بھی نہیں کہ ایسااوراس طرح کا واقعہ پہلی مرتبہ کسی سیرت کی کتاب میں لکھاگیاہے۔ اس سے پہلے لوگ باگ نجانے کیاکیاچیز لکھ چکے ہیں۔
راجا صاحب نے میرے کسی چیزکے شرمناک ہونے اورقابل بیان ہونے پر بھی کچھ فرمایاتھا۔ چونکہ ان چیزوں کے سمجھنے لیاقت نہیں رکھتے لہذا کوشش کرکے ان کو سمجھادیتاہوں۔ ایک چیز ہے کسی چیز کا شرمناک ہوناجس کی طرف میں نے حدیث ام سلیم اورہدبۃ الثوب والی حدیث میں اشارہ کیاہے۔ ان دونوں حدیث میں باوجود اس کے کہ شرم کی باتیں موجود ہیں لیکن فوائد کی وجہ سے اس کو بیان کیاگیا۔ یہ اس کی مثال ہوئی کہ ایک چیز بظاہر شرمناک ہے لیکن دوسرے فوائد کی وجہ سے اوراصل حقیقت کے اعتبار سے کہ اس میں شرم کی کوئی بات نہیں قابل بیان ہے۔
کوئی چیز ناقابل بیان اس وقت ہوتی ہے جب اس کے ذکر میں نہ کوئی فائدہ ہو اورنہ ہی وہ بیان کرنے کے لائق ہو ۔پھر کون سی چیز قابل بیان ہے اورکون سی چیز ناقابل بیان ہے اس میں مختلف اذہان کی مختلف رائیں ہواکرتی ہیں۔ اب غیرمقلدین کی کتابوں میں بہت ساری باتیں ایسی ہیں جس کو ہم سمجھتے ہیں کہ اس کو بیان نہیں کرناچاہئےلیکن غیرمقلدین علماء کی اپنی سمجھ ہے کہ اس کو بیان کرناچاہئے ۔اپنے مزاج اورمرضی کو دوسرے پرتھوپناوہ بھی عدم تقلید کا قائل ہوکر ۔تعجب کی بات ہے۔

ہمیں تو خو ہے کہ جو کہئے بجا کہئےلہٰذا یہ پوسٹ آپ کو سمجھانے کے لئے ہے کہ ہم بجا کہنا جانتے ہیں تو بجانا بھی جانتے ہیں۔ آپ پر منحصر ہے۔ دوسروں کی عزت کریں اور اپنی کروائیں۔ یا پھر دوسروں پر کیچڑ اچھالیں اور خود بھی تماشائی بن کر اپنی عزت کا جنازہ نکلتے دیکھیں۔ہمیں پہلی صورت پسند ہے۔ اور معافی مانگنے کو بھی تیار ہوں بلکہ اس پوسٹ سمیت گزشتہ پوسٹس میں بھی جو آپ کے تعلق سے غلط باتیں کی ہیں، مجھے کوئی ان پر فخر نہیں، ان میں ترمیم بھی کرنے کو تیار ہوں۔۔ لیکن آپ بھی دوسروں کی عزت کریں بات تب ہے۔ علمی اختلاف تک خود کو محدود رکھیں تو آپ انٹرنیٹ کی دنیا میں میری پسندیدہ دیوبندی شخصیت ہیں۔
آپ نے بجانے کی بھی بات کی ہے سمجھ میں آگیا کہ آپ کی اصل کہاں سے ملتی ہے۔جہاں تک دوسروں کی عزت کی دہائی ہے توفرمائیے گااورمنتظمین سے بھی خواہش ہے کہ وہ بھی اس پر غورکریں کہ انس نظر صاحب کی پوسٹ پر میرے جوابی مراسلہ میں کون سی بات قابل گرفت تھی جس پر آپ نے تبرابازی شروع کی۔ اوراس تھریڈ کے میرے پہلے مراسلہ میں وہ کون سی غلط باتیں تھیں جس پر آپ نے گندی نالی سمیت دوسری باتیں عرض کیں۔
اگرکوئی دماغی مسئلہ ہے توپاکستان میں بھی اس کے معالج اورعلاج خانے موجود ہوں گے اس کا بہترعلاج کروائیں لیکن ایک چیزیعنی دریدہ دہنی خود شروع کریں اورپھر ناصح بن کر دوسروں کو نصیحت کریں یہ نہایت کمینہ پن ہے۔اگرنصیحت کی مقدار اتنی ہی زیادہ ہے تواس تھریڈ میں میرے پہلے مراسلے کے تعلق سے بتادیتے کہ فلاں فلاں الفاظ جوآپ نے استعمال کئے ہیں وہ غلط ہیں۔
ہمیں پہلی صورت پسند ہے۔ اور معافی مانگنے کو بھی تیار ہوں بلکہ اس پوسٹ سمیت گزشتہ پوسٹس میں بھی جو آپ کے تعلق سے غلط باتیں کی ہیں، مجھے کوئی ان پر فخر نہیں، ان میں ترمیم بھی کرنے کو تیار ہوں۔۔ لیکن آپ بھی دوسروں کی عزت کریں بات تب ہے۔ علمی اختلاف تک خود کو محدود رکھیں تو آپ انٹرنیٹ کی دنیا میں میری پسندیدہ دیوبندی شخصیت ہیں۔
اوریہ جوکچھ آپ نے فرمایاہے میں اسے صرف مناقفت سے تعبیر کرتاہوں کہ ایک انسان اپنے دل کی پوری بھڑاس نکال لے اورپھر کچھ خوبصورت باتیں لکھ دے ۔ خداکاشکر ہے کہ آپ کی طرح منافقانہ طبعیت نہیں پائی ہے جیسااندر سے ہوں ویساہی باہر سے ہوں خواہ کسی کو اچھالگے یابرالگے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
طرفین نے اپنے اپنے دل کی بھڑاس نکال لی ہے۔ موضوع سے ہٹ جانے کی بنا پر دھاگا مقفل کیا جا رہا ہے۔
پہلے مقفل نہ کرنے کی وجہ فقط یہ تھی کہ جمشید صاحب کو اپنی بات کہنے کا موقع مل جائے ورنہ انہیں اعتراض ہوتا۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top