راجاصاحب عادت سے مجبور ہیں۔ورنہ انس نضر صاحب کے حنفیوں کے دورہ حدیث پر طنز پر ایک جوابی مراسلہ میراتھا۔ ابھی بات ہم دونوں کے درمیان چل رہی تھی کہ راجا صاحب دیگ سے زیادہ چمچہ گرم کے مصداق ایک گرماگرم مراسلہ لے کر آگئے۔ جب اسی گرمی کے ساتھ ان کو جواب دیاگیاتوان کے ہوش ٹھنڈے ہوئے اورکافی عرصہ تک ہمارے مہربان نے میرے مراسلوں پر جوابی ردعمل دینے سے گریز کیا۔لیکن اب لگتاہے کہ اثرختم ہونے لگاہے اورانہوں نے پھر سے چھیڑخانی شروع کررکھی ہے۔"اہل حدیث:نئے تناظر میں" والے تھریڈ میں تومیں نے طرح دے دی ۔کیوں کہ ویسے بھی ہرانسان کو سدھرنے کا ایک موقع ضرور دیناچاہئے ۔لیکن ان کی رفتاربے ڈھنگی وہی ہے جوپہلے تھی تومناسب ہے کہ ان کو ایک اورمزید "ڈوز"دیاجائے کیونکہ جن کے قلب ونظرگندے ہوچکے ہوں اورگندی نالیوں کے قریب رین بسیراہونے سے خوشبواوربدبو کی تمیز ختم ہوگئی ہو ۔ان پرکم پاور کی دوائیں اثربھی نہیں کرتیں۔
مجھے پہلے سے ہی لگتاتھاکہ کچھ نیم خواندوں کی نگاہیں اس پر ضروراٹکیں گی کہ
اول من یظھر ھذا فھو راجا
کسی چیز کا قابل شرم جھھک اورغلط ہونا اس وقت تک معلوم ہوتاہے جب تک کہ اسے یہ نہ بتادیاجائے کہ اس کی صحیح اصل موجود ہے اورجب تک یہ معلوم نہ ہو تب تک وہ اسے انتہائی غلط سمجھتارہتاہے ۔
صحابہ کرام نے ایک بار حضور پاک کی خدمت میں عرض کیاکہ اے اللہ کے رسول ہمیں وسوسہ آتاہے اور وہ ایساوسوسہ ہے کہ ہمیں کوئلہ بن جانامنظورہے بہ نسبت اس کے کہ اس کااظہار کریں۔اس پر حضور نے فرمایاکہ وہ توصریح ایمان ہے یعنی یہ جذبہ اورداعیہ کہ کوئلہ بن جانامنظورہے لیکن اس کا اظہارگوارانہیں۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنِّي أُحَدِّثُ نَفْسِي بِالشَّيْءِ لأَنْ أَكُونَ حُمَمَةً أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَتَكَلَّمَ بِهِ، قَالَ شُعْبَةُ:
قَالَ أَحَدُهُمَا: «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي رَدَّ أَمْرَهُ إِلَى الْوَسْوَسَةِ» ، وَقَالَ الآخَرُ: " الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَقْدِرْ مِنْكُمْ إِلا عَلَى الْوَسْوَاسِ
اس کی تفصیل ایک دوسرے حدیث میں ہے کہ
سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ عَثَّامٍ، يَقُولُ: أَتَيْتُ سُعَيْرَ بْنَ الْخِمْسِ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ حَدِيثِ الْوَسْوَسَةِ، فَلَمْ يُحَدِّثْنِي، فَأَدْبَرْتُ أَبْكِي، ثُمَّ لَقِيَنِي، فَقَالَ لِي: تَعَالَ.حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ يَجِدُ الشَّيْءَ لَوْ خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ، فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ كَانَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يَتَكَلَّمَ بِهِ؟ قَالَ: «ذَلِكَ مَحْضُ، أَوْ صَرِيحُ الإِيمَانِ» .
توخواجہ عزیزالحسن کوخود بھی اس کاخیال تھاکہ ان کاجوخیال ہے وہ بے ہودہ ہے ۔غلط ہے اسی وجہ سے ان کو شرم بھی دامنگیر تھی۔اوراس کو بیان کرنے سے جھجکتے تھے لیکن جب ایک مرتبہ "جوش عشق "میں یہ بات زبان سے نکل ہی گئی تو پھر مولانا اشرف علی تھانوی نے اصل پر نگاہ رکھتے ہوئے کہ یہ محض محبت کااظہار ہے اورمحبت کا داعیہ محض دینی ہے اس میں کوئی دنیوی مفاد اورربط نہیں ہے تو ثواب کی بشارت سنائی ۔اس کے بعد ہی ان کی جھجک ختم ہوگئی اوراس واقعہ کو انہوں نے کتاب میں درج بھی کیا۔
راجا صاحب کی علمی لیاقت ملاحظہ فرمائیں۔
شاہد نذیر صاحب نے پہلامراسلہ لکھ کرکیاثابت کرناچاہاہے ؟کہ مولانا شرف علی تھانوی نے ثواب کی بشارت سناکر غلطی کی یاپھر وہ کچھ اوران واقعات سے کشید کرناچاہ رہے ہیں۔اگرشاہد نذیر کا مطمح نظرصرف اسی قدرہوتاکہ مولانااشرف علی تھانوی کوثواب کی بات نہیں کہنی چاہئے تھی بلکہ اس کو غلط قراردیناچاہئے تھاتومیں خود اس موضوع میں دخل درمعقولات دینے کی ضرورت نہ سمجھتاکہ چلو ظاہری اعتبار سے شاہد نذیر جس نتیجے پر پہنچے ہیں اس کی بھی ایک وجہ ہے۔لیکن انہوں نے جس طرح اپنے گندے افکار کااظہار کیااس کے بعد ہی خیال ہواکہ اس واقعہ کی حقیقت واضح کی جائے۔
راجا صاحب!آپ سے گزارش ہے کہ اگرپورے مراسلات پڑھنے کا موقع نہ ہوتوگندی نالی کے مزے لیں لیکن دوسروں کا وقت ضائع نہ کریں۔
راجاصاحب کوایک مزید تکلیف ہے کہ
ایک ڈھکوسلہ
راجا صاحب کے پاس چونکہ خواب والے واقعہ پر کہنے کیلئے کچھ بھی نہیں تھااوراس کا حوصلہ بھی نہیں تھاکہ وہ اس کااعتراف کرتے کہ صاحب تھریڈ نے جوخواب پر اعتراض کیاہے وہ حدیث کی مخالفت ہے لیکن بجائے اعتراف اورسکوت کے یہ مغالطہ دیناضروری سمجھا۔
راجا صاحب سے ہمیں امید ہے کہ ان کو یہ تحریرازحد پسند آئی ہوگی اگران کی فرمائش رہی توہم مزید ان کی طبعیت خوش کریں گے۔
اس بات سے ہمیں کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن اس وضاحت کے ساتھ کہ پاکستان آپ کا وطن ہے کراچی ہوسکتاہے کہ آپ کا گھر ہو اور کسی گندی نالے کے قریب آنجناب کے روزوشب بھی گزررہے ہوں ۔یہ اوربات ہے کہ اس کے اعتراف کی ہمت نہ ہوتی ہو سبکی کے خوف سے۔بہرحال آپ کے پیش کردہ اقتباس کے بین السطور سے بہت کچھ معلوم ہورہاہے اورآپ نے بتادیاہے یہ بہت اچھاکیاہے۔آپ کے ماضی اورحالیہ مراسلات سے یہی توقع تھی کہ آنجناب کا رین بسیراکسی ایسی ہی جگہ پر ہوگااورایسی ہی جگہ آپ کا بچپن گزراہوگا ۔"کراچی میں رہتے ہوئے تو بآسانی ملاحظہ کی جا سکتی ہے کہ جو لوگ گندی آبادیوں، نالوں کے پاس رہتے ہیں۔ وہ اس کے ایسے عادی ہو جاتے ہیں کہ جہاں سے عام لوگ ناک پر رومال رکھے بغیر گزرنے کا تصور نہیں کر سکتے اور سانس سینے میں روک کر گزرتے ہیں، وہاں وہ ان کی پوری نسلیں بغیر کسی بدبو کے احساس کے زندگی بسر کرتی ہیں"
اندھوں کی طرح کیالکھناضروری ہے میں نے خود کہاہے کہ عزیز الحسن مجذوب صاحب سے اپنے مافی الضمیر کے اظہار میں تعبیر کی غلطی ہوئی ہے۔اگر فقط قریب رہنے کی خواہش کا ذکر کرنا ہی مقصود تھا، تو اس کے لئے بہت بہتر الفاظ و انداز موجود ہیں۔ کیا خیال ہے جمشید صاحب، اگر آپ کسی استاد کی قربت کے خواہشمند ہوں تو اسے یہ کہیں گے کہ میں تمہاری بیوی بننا چاہتا ہوں؟ اور اس پر فخر محسوس کیا کریں گے؟
۔لہذا اس واقعہ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہی کہاجائے گاکہ شدت عشق ومحبت میں خواجہ عزیز الحسن نے اپنی خواہش کی تعبیر میں غلطی کی۔
مجھے پہلے سے ہی لگتاتھاکہ کچھ نیم خواندوں کی نگاہیں اس پر ضروراٹکیں گی کہ
لیکن یہ نہیں معلو تھاکہجھجھکتے اور شرماتے ہوئے دبی زبان سے عرض کیاکہ حضرت ایک بہت ہی بے ہودہ خیال دل میں باربار آتا ہے جس کو ظاہر کرتے ہوئے بھی نہایت شرم دامن گیر ہوتی ہے اور جراء ت نہیں پڑتی
اول من یظھر ھذا فھو راجا
کسی چیز کا قابل شرم جھھک اورغلط ہونا اس وقت تک معلوم ہوتاہے جب تک کہ اسے یہ نہ بتادیاجائے کہ اس کی صحیح اصل موجود ہے اورجب تک یہ معلوم نہ ہو تب تک وہ اسے انتہائی غلط سمجھتارہتاہے ۔
صحابہ کرام نے ایک بار حضور پاک کی خدمت میں عرض کیاکہ اے اللہ کے رسول ہمیں وسوسہ آتاہے اور وہ ایساوسوسہ ہے کہ ہمیں کوئلہ بن جانامنظورہے بہ نسبت اس کے کہ اس کااظہار کریں۔اس پر حضور نے فرمایاکہ وہ توصریح ایمان ہے یعنی یہ جذبہ اورداعیہ کہ کوئلہ بن جانامنظورہے لیکن اس کا اظہارگوارانہیں۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنِّي أُحَدِّثُ نَفْسِي بِالشَّيْءِ لأَنْ أَكُونَ حُمَمَةً أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَتَكَلَّمَ بِهِ، قَالَ شُعْبَةُ:
قَالَ أَحَدُهُمَا: «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي رَدَّ أَمْرَهُ إِلَى الْوَسْوَسَةِ» ، وَقَالَ الآخَرُ: " الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَقْدِرْ مِنْكُمْ إِلا عَلَى الْوَسْوَاسِ
اس کی تفصیل ایک دوسرے حدیث میں ہے کہ
سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ عَثَّامٍ، يَقُولُ: أَتَيْتُ سُعَيْرَ بْنَ الْخِمْسِ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ حَدِيثِ الْوَسْوَسَةِ، فَلَمْ يُحَدِّثْنِي، فَأَدْبَرْتُ أَبْكِي، ثُمَّ لَقِيَنِي، فَقَالَ لِي: تَعَالَ.حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ يَجِدُ الشَّيْءَ لَوْ خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ، فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ كَانَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يَتَكَلَّمَ بِهِ؟ قَالَ: «ذَلِكَ مَحْضُ، أَوْ صَرِيحُ الإِيمَانِ» .
توخواجہ عزیزالحسن کوخود بھی اس کاخیال تھاکہ ان کاجوخیال ہے وہ بے ہودہ ہے ۔غلط ہے اسی وجہ سے ان کو شرم بھی دامنگیر تھی۔اوراس کو بیان کرنے سے جھجکتے تھے لیکن جب ایک مرتبہ "جوش عشق "میں یہ بات زبان سے نکل ہی گئی تو پھر مولانا اشرف علی تھانوی نے اصل پر نگاہ رکھتے ہوئے کہ یہ محض محبت کااظہار ہے اورمحبت کا داعیہ محض دینی ہے اس میں کوئی دنیوی مفاد اورربط نہیں ہے تو ثواب کی بشارت سنائی ۔اس کے بعد ہی ان کی جھجک ختم ہوگئی اوراس واقعہ کو انہوں نے کتاب میں درج بھی کیا۔
راجا صاحب کی علمی لیاقت ملاحظہ فرمائیں۔
ان بے چارے کو اشرف السوانح جو مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کی سیرت اورسوانح پر ہے۔مذہبی کتاب نظرآتی ہے۔بہت پہلے ایک مزید غیرمقلد سے اسی موضوع پر بات کرنے کا الغزالی فورم پر اتفاق ہوا تو وہ جاہل تواشرف السوانح نامی اس کتاب کو ہی مولانا اشرف علی تھانوی کی تصنیف بتارہاتھا۔ اب جن لوگوں کی لیاقت یہیں پر ختم ہوجائے کہ کتاب کا مصنف کون ہے یہ معلوم نہ ہو کتاب کس موضوع پر یہ معلوم نہ ہو اس کے باوجود شوق اعتراض فزوں اورفراواں ہوتوایسے افراد کی دماغی حالت کا اندازہ ہی صرف کیاجاسکتاہے۔یہ حضرات تعصب اور مسلک پرستی کی لال عینک اتار کر ملاحظہ کرتے، تو ایسے واقعات اور ان کو مذہبی کتب میں جگہ دینے کے خیال سے ہی ابکائی آ جاتی۔
جب آپ نے موضوع کو مکمل طورپر پڑھاہی نہیں ہے توپھر مراسلے کس شوق میں لکھتے ہیں گندی نالی کے قریب رہنے سے دماغ خراب ہوگیاہے اس لئے، یاکوئی دوسری بات ہے؟اصل سوال یہ نہیں کہ اللہ کے لئے محبت رکھنے پر ثواب کی بشارت ہے یا نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ بے ہودہ، قابل شرم بات کہ ایک مرد کو دوسرے مرد کی بیوی بننے کا بار بار خیال آتا ہے۔ اور وہ اس پر شرمندہ بھی ہے۔ اسے بے ہودہ بھی مانتا ہے۔ اور دوسرا شخص بجائے اس کے کہ اس شیطانی خیال پر اسے لاحول ولا قوۃ پڑھنے کو کہے اور استغفار کرنے کو کہے۔ یا یوں کہے کہ یہ شیطان کے راستہ پر پہلا قدم رکھنے کے مترادف ہے۔ اور اسے سختی سے خود سے دور کرے کہ کہیں شیطان اس پر غلبہ نہ پا لے۔ اگر اسے ثواب کی بشارت سنانے لگ جائے تو اس پر ہمارا اعتراض کرنا بھی آپ کو گوارا نہیں؟
شاہد نذیر صاحب نے پہلامراسلہ لکھ کرکیاثابت کرناچاہاہے ؟کہ مولانا شرف علی تھانوی نے ثواب کی بشارت سناکر غلطی کی یاپھر وہ کچھ اوران واقعات سے کشید کرناچاہ رہے ہیں۔اگرشاہد نذیر کا مطمح نظرصرف اسی قدرہوتاکہ مولانااشرف علی تھانوی کوثواب کی بات نہیں کہنی چاہئے تھی بلکہ اس کو غلط قراردیناچاہئے تھاتومیں خود اس موضوع میں دخل درمعقولات دینے کی ضرورت نہ سمجھتاکہ چلو ظاہری اعتبار سے شاہد نذیر جس نتیجے پر پہنچے ہیں اس کی بھی ایک وجہ ہے۔لیکن انہوں نے جس طرح اپنے گندے افکار کااظہار کیااس کے بعد ہی خیال ہواکہ اس واقعہ کی حقیقت واضح کی جائے۔
راجا صاحب!آپ سے گزارش ہے کہ اگرپورے مراسلات پڑھنے کا موقع نہ ہوتوگندی نالی کے مزے لیں لیکن دوسروں کا وقت ضائع نہ کریں۔
راجاصاحب کوایک مزید تکلیف ہے کہ
یہی لوگ یہ کہنے سےبھی نہیں ہچکتے کہ حنفیوں کی تحریراحادیث سے خالی ہوتی ہے اورجب احادیث ذکی جائے توبھی مروڑ اٹھناشروع ہوجاتاہے یہ تو حاسدوں کی صفت ہوتی ہے کہ اسے کسی کل چین نہیں پڑتی ۔ اگراپنے پاس کوئی نعمت نہیں ہے توبھی آہیں بھررہاہے اوراگردوسرے کے پاس وہ نعمت ہے تومزیدزورسے آہیں بھرتاہے۔راجاصاحب حاسدوں والی صفت کااظہار کیوں کررہے ہیں اگلے مراسلے میں ضرور بتائیں۔یکن برا ہو اس عصبیت کا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسی پاکباز ہستیوں کو ایسی غلیظ بحث میں گھسیٹ لاتے ہیں
ایک ڈھکوسلہ
راجا صاحب کے پاس چونکہ خواب والے واقعہ پر کہنے کیلئے کچھ بھی نہیں تھااوراس کا حوصلہ بھی نہیں تھاکہ وہ اس کااعتراف کرتے کہ صاحب تھریڈ نے جوخواب پر اعتراض کیاہے وہ حدیث کی مخالفت ہے لیکن بجائے اعتراف اورسکوت کے یہ مغالطہ دیناضروری سمجھا۔
یہ کوئی اسی وقت لکھتاہے جب لکھنے کیلئے بندے کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔یہ توہوسکتاہے کہ کوئی طویل نہ لکھ سکے تومختصرااظہارخیال کردے لیکن ایساشخص کہ گندلی نالی کی وجہ سے جس کا طبعیت اورفکر ہی گندی ہوچکی ہو وہ محض یہ کہہ کررہ جائے توسمجھ جائیے کہ اس کے پاس کہنے کیلئے ہاں اورنہیں دونوں میں کچھ بھی نہیں ہے۔دوسرے واقعہ کو بھی پہلے پر ہی قیاس فرما لیجئے۔ ہمارے پاس جمشید صاحب کی طرح اتنا وقت نہیں اور نہ ایسی غلیظ باتوں اور ان کے دفاع کرنے والوں پر بے جا تبصرہ کرنے کی ہمت ہے۔
راجا صاحب سے ہمیں امید ہے کہ ان کو یہ تحریرازحد پسند آئی ہوگی اگران کی فرمائش رہی توہم مزید ان کی طبعیت خوش کریں گے۔