• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اف ! یہ خواہشات

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

ابومحمد بھائی آپ اعتراض پیش کریں مگر اس سیریل کا پہلے حصہ بنیں۔ دھاگہ جس پر بنایا گیا ھے اس سے میرا دور نزدیک تک کوئی تعلق نہیں، وہ مولانا مودودی، ناصر البانی اور زئی کے ساتھ تمام اھل حدیث اور تمام اھل علم جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتے ہیں سب قابل احترم ہیں، سب سے آسان کام ھے کسی پر منفی رائے دینا کیونکہ اس کے لئے الفاظوں کی ضرورت نہیں ہوتی جو دماغ میں آئے لکھ دو اسی طرح سب سے مشکل کام ھے مثبت رائے دینا اور جو ہر کوئی نہیں دے سکتا۔ میں نے دھاگہ پر اپنی رائے پیش کی اعتراض نہیں کیا، پھر ایک بھائی نے سوال پوچھا اس پر میں نے مفید معلومات کہیں سے نقل کی۔ صاحب تھریڈ نے مجھے مخاطب کر کے وہی الفاظ دہرائے جو اس کے دل و دماغ میں تھے، اس پر جواب دینا ضروری نہیں کیونکہ میں ہر ممبر کی خصوصیات جانتا ہوں۔ جس پر میں نے مجبوراً ایک مراسلہ لکھا مگر انتظامیہ کو شائد وہ اچھا نہیں لگا اور کسی سٹاف ممبر نے اسے ڈیلیٹ کر دیا جس پر مجھے کوئی اعتراض نہیں مگر آپکو سمجھانے کے لئے لکھ رہا ہوں۔ میری انگلی کے نیچے بہت میٹیریل موجود ھے مگر کسی ایک بندہ کی غلطی پر میں پوری اھل حدیث جماعت کو نشانہ پر نہیں رکھ سکتا۔ اس لئے جہاں تک ممکن ہو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ مگر اب نہیں کروں گا کیونکہ میں نے دیکھا ھے دوسرے فارم میں اور مجھے اندازہ ہوا ھے کہ مقابلہ بازی ہو رہی ھے اس لئے جو ممبران اس میں ملوث ہیں اس پر نقصان ہو گا۔ آپ میرے مراسلوں میں اعتراض کریں کسی معقول وجہ کے ساتھ اور پھر اسے سمجھنے کی بھی کوشش کریں ورنہ میرا اعتراض پر جواب دینے سے بہتر ھے کہ اسے وہیں چھوڑ دوں۔

اللہ حافظ

والسلام
 
شمولیت
اپریل 06، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
346
پوائنٹ
90
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرے جملہ سے اگر کسی محترم کو تکلیف پہونچی ہو تو میں معذرت خواہ ہوں میں نے تو حکماء کا ایک جملہ عرض کیا تھا کیونکہ میں سے اسکا صحیح مصداق یہاں کسی فرد واحد کو پایا چنانچہ بغیر نام ذکر کئے میں نے جملہ عرض کردیا ظاہر ہے علماء کرام کے کتابوں سے تمام ہیرے جواہرات کو مٹا کر صرف ایک مشتبہ بات کو سامنے لانا دل کی کمزوری کیطرف دلالت کررہا ہے سو میں نے کسی کا نام ذکر نہیں کیا مگر بات کہہ دی سو آپکو بھی معلوم ہوگیا ہوگا کہ وہ کونسی غیر محترم شخصیت ہیں جو اہل سنت والجماعت کے درمیان اتفاق ومحبت اور دینی الفت قائم نہیں ہونے دیتے یہ تو ایک مثال ہے جو آپ نے ملاحظہ کرلی اسطرح کی مثالیں ہر فرقہ میں موجود ہیں جو ہمیشہ دورسروں پر کیچڑ اچھال نے میں ہی مصروف نظر آتے ہیں۔ اور ایسے لوگوں کو میں بالکل پسند نہیں کرتا چاہے وہ امام اعظم ابو حنیفۃ رحمۃ اللہ علیہ پر اپنی زبان دراز کریں یا امام ابن تیمیۃ رحمۃ اللہ علیہ پر یا اور کسی بڑے عالم پر جنکی ثقاہت تمام علماء امت کے درمیان متفق علیہ ہو۔
چنانچہ آب حضرات بھی ایسے لوگوں سے براءت اختیار کرلیں تو مسلمانوں کا دوبارہ اتحاد واجتماع کوئی دور کی بات نہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ تمام محترم حضرات کو میری بات سے اتفاق ہوگا۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
ہم نے بھی اسی مثال کو آگے بڑھا یا ہے اور غلاظت اور بدبو کی جگہ خوشبو پھیلانے کی کوشش کی ہے مگر لگتا ہے خوشبو پر غلاظت غالب رہے گی
تو ہم نے بھی اسی لیے آپ کو موضوع پر واپس لانے کے لیے یہاں گفتگو کی ہے۔ جس کا آپ پر تو کوئی اثر نہیں ہوا لیکن کنعان صاحب بہت متاثر ہوئے اور بےوقوفی مت کرنا کے الفاظ بھی ان کی جانب سے سننے کو ملے۔ جس کی وضاحت بھی اچھی طرح/تسلی بخش پیش کردی گئی تھی۔ الحمدللہ
موصوف نے وضاحت پر تو کچھ نہیں کہا لیکن انتقام لینے کی حوس نے موصوف کو دوسرے فورم سے ایسی چیز اٹھانے پر مجبور کردیا ہے جو سرے سے لایعنی ہی تھی۔ اور قانوناً بھی اس طرح کی حرکت بری شمار ہوتی ہے۔ اگر توجہ دلانا ہی تھی تو پھر اُسی فورم پر ہی لکھتے اور مجھے پرسنل میسج کردیتے۔
چلیں خیر۔۔ہم تو ان الفاظ کے پڑھنے کے بعد اس لیے خاموش رہے کہ موصوف قواعد وضوابط کے ساتھ اصولوں کے خود بھی بہت پابند ہیں اور مشورے مشور بھی دیتے رہتے ہیں۔۔ شاید اس طرح کی حرکت بھی موصوف نے اپنے اصول وضوابط میں شامل کر رکھی ہوگی۔۔۔اس لیے اس وقت ہم نے خاموشی ہی اختیار کرلی تھی۔۔۔لیکن اب اس خاموشی کو توڑنے کی بھی ایک خاص وجہ سامنے ہے۔قارئین بھی پڑھ لیں۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
کچھ ممبران کو اپنا مراسلہ آخری دیکھنے کا شوق ہوتا ھے اس لئے جب تک وہ اس مقام پر نہیں پہنچے گا وہ جاری رہے گا اس لئے انہیں ان کا شوق پورا کرنے دیں۔ شکریہ!
اس لیے تو آپ ابھی تک کوشش کرتے آرہے ہیں۔۔ جس صف میں ہمیں شامل کررہے ہیں آپ بھی تو اسی صف کاحصہ ہیں۔ ۔۔ تو پھر نصحیت چہ معنی ؟
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
تو ہم نے بھی اسی لیے آپ کو موضوع پر واپس لانے کے لیے یہاں گفتگو کی ہے۔ جس کا آپ پر تو کوئی اثر نہیں ہوا لیکن کنعان صاحب بہت متاثر ہوئے اور بےوقوفی مت کرنا کے الفاظ بھی ان کی جانب سے سننے کو ملے۔ جس کی وضاحت بھی اچھی طرح/تسلی بخش پیش کردی گئی تھی۔ الحمدللہ
موصوف نے وضاحت پر تو کچھ نہیں کہا لیکن انتقام لینے کی حوس نے موصوف کو دوسرے فورم سے ایسی چیز اٹھانے پر مجبور کردیا ہے جو سرے سے لایعنی ہی تھی۔ اور قانوناً بھی اس طرح کی حرکت بری شمار ہوتی ہے۔ اگر توجہ دلانا ہی تھی تو پھر اُسی فورم پر ہی لکھتے اور مجھے پرسنل میسج کردیتے۔
چلیں خیر۔۔ہم تو ان الفاظ کے پڑھنے کے بعد اس لیے خاموش رہے کہ موصوف قواعد وضوابط کے ساتھ اصولوں کے خود بھی بہت پابند ہیں اور مشورے مشور بھی دیتے رہتے ہیں۔۔ شاید اس طرح کی حرکت بھی موصوف نے اپنے اصول وضوابط میں شامل کر رکھی ہوگی۔۔۔اس لیے اس وقت ہم نے خاموشی ہی اختیار کرلی تھی۔۔۔لیکن اب اس خاموشی کو توڑنے کی بھی ایک خاص وجہ سامنے ہے۔قارئین بھی پڑھ لیں۔
دیکھئے گڈ مسلم صاحب
ہمارے لیے لایعنی اور فضول باتوں میں الجھنے سے کوئی فائدہ نہیں نہ اخروی اور نہ دنیاوی اس طرح کے تھریڈ بنانا میں سمجھتا ہوں مذہبی نہیں مثبت نہیں منفی ہیں جس سے نہ قوم کو فائدہ اور نہ ہمیں فائدہ اتنا ضرور ہو رہا ہے کہ ہم میں دوریاں اور بڑھ رہی ہیں ۔ پھر دوبارہ عرض کررہا ہوں میری مراسلت’’ ابو محمد ‘‘ صاحب کے درمیان تھی میں نے ان کا اقتباس لیا اور انہوں نے میرا اقتباس لیا ۔ ’’ابومحمد صاحب ‘‘ ایک مثال دیکر دوسری مثال قائم کی کہ مراسلت کو منفی رخ نہیں دیا بلکہ مثبت رکھا یہ ہوتا ہے بات کرنے کا طریقہ اب ہمارے اندر اپنی علمی بے بضاعتی کی وجہ جواب دینے کی سکت نہیں تھی اس لیے بات کومزید آگے نہیں بڑھایا ۔ لیکن میری سمجھ سے یہ بات بلا تر ہے آخر ایسی کون سی بات ہے جو آپ ہمارا پیچھا کررہے ہیں اور بے محل اور بے موقع ہماری گرفت کررہے ہیں ۔ جس سے میں سوچنے مجبور ہوں شاید آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے یا کوئی انتقامی جذبہ آپ کو ایسا کرنے پر مجبور کر رہا ہے یہ اس لیے کہہ رہا ہوں مجھے آپ کی ان باتوں سے جن کا اظہار یہاں(#130) فرمایا ہے ہوتا ہے
اس کا جواب بھی میں وہیں دے رہا ہوں ملاحظہ فرمائیں
http://www.kitabosunnat.com/forum/حنفی-155/حنفیوں-کے-لیے-لمحہ-فکریہ-11915/index15.html
محترم یہ تھریڈ کوئی علمی تھریڈ نہیں ہے جس پر کوئی رائے ظاہر کی جائے ۔ ایک مثال ابومحمد صاحب نے دی دوسری ہم نے دی ۔ بس اس سے آگے ہمیں کوئی دل چسپی نہیں۔ اول تو اب میری کوشش یہ رہے گی میں بھی زیادہ دخل اندازی نہ کروں لیکن بھائی بشری تقاضا ہے بھول ہوہی جاتی ہے اب اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ اس بھول میں بُھسْ بھر دیا جائے۔ فقط والسلام
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
محترم یہ تھریڈ کوئی علمی تھریڈ نہیں ہے جس پر کوئی رائے ظاہر کی جائے۔
تو مفتی صاحب علمی بنانے میں کیا مشکل ہے۔؟ آپ پہلی پوسٹ میں موجود دو اقتباس کا سیدھا سادھا جواب دے دیں۔۔ کہ بیان خواہشات حقیقت پر مبنی ہیں۔۔ قارئین کے ساتھ ہم پر بھی حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی۔۔اور آئندہ کےلیے زندہ مثال بھی۔۔۔ کہ اپنے آپ کو نوکر صحابہ﷢ اور اہل السنۃ والجماعت کہنے والوں کے لیڈر حضرات کس طرح کی خواہشات رکھتے تھے؟
اقتباس دوبارہ پیش ہیں۔
ایک بار عشق کے جوش میں حضرت والا سے بہت جھجھکتے اور شرماتے ہوئے دبی زبان سے عرض کیاکہ حضرت ایک بہت ہی بے ہودہ خیال دل میں باربار آتا ہے جس کو ظاہر کرتے ہوئے بھی نہایت شرم دامن گیر ہوتی ہے اور جراء ت نہیں پڑتی۔ حضرت والا اس وقت نماز کے لئے اپنی سہ دری سے اٹھ کر مسجد کے اندر تشریف لے جارہے تھے فرمایا کہیے کہیے احقر نے غایت شرم سے سر جھکائے ہوئے عرض کیا کہ میرے دل میں باربار یہ خیال آتا ہے کہ میں عورت ہوتا حضور کے نکاح میں۔اس اظہار محبت پر حضرت والا غایت درجے مسرور ہوئے، بے اختیار ہنسنے لگے اور یہ فرماتے ہوئے مسجد کے اندر تشریف لے گئے ۔ یہ آپ کی محبت ہے ثواب ملے گا۔ ثواب ملے گا ۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ (اشرف السوانح صفحہ ۶۴)
ایک بار ارشاد فرمایا میں نے ایک بار خواب دیکھا تھاکہ مولوی محمد قاسم صاحب عروس کی صورت میں ہیں اور میر ا ان سے نکاح ہوا ہے سو جس طرح زن وشوہرمیں ایک کو دوسرے سے فائدہ پہنچتا ہے اسی طرح مجھے ان سے او ر انہیں مجھ سے فائدہ پہنچا ہے۔ (تذکرۃ الرشید صفحہ ۲۸۹)
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
ایک بار عشق کے جوش میں حضرت والا سے بہت جھجھکتے اور شرماتے ہوئے دبی زبان سے عرض کیاکہ حضرت ایک بہت ہی بے ہودہ خیال دل میں باربار آتا ہے جس کو ظاہر کرتے ہوئے بھی نہایت شرم دامن گیر ہوتی ہے اور جراء ت نہیں پڑتی۔ حضرت والا اس وقت نماز کے لئے اپنی سہ دری سے اٹھ کر مسجد کے اندر تشریف لے جارہے تھے فرمایا کہیے کہیے احقر نے غایت شرم سے سر جھکائے ہوئے عرض کیا کہ میرے دل میں باربار یہ خیال آتا ہے کہ میں عورت ہوتا حضور کے نکاح میں۔اس اظہار محبت پر حضرت والا غایت درجے مسرور ہوئے، بے اختیار ہنسنے لگے اور یہ فرماتے ہوئے مسجد کے اندر تشریف لے گئے ۔ یہ آپ کی محبت ہے ثواب ملے گا۔ ثواب ملے گا ۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ (اشرف السوانح صفحہ ۶۴)
نمبر2
ایک بار ارشاد فرمایا میں نے ایک بار خواب دیکھا تھاکہ مولوی محمد قاسم صاحب عروس کی صورت میں ہیں اور میر ا ان سے نکاح ہوا ہے سو جس طرح زن وشوہرمیں ایک کو دوسرے سے فائدہ پہنچتا ہے اسی طرح مجھے ان سے او ر انہیں مجھ سے فائدہ پہنچا ہے۔ (تذکرۃ الرشید صفحہ ۲۸۹)
عربی کا ایک پامال ساشعر ہے لیکن حقیقت پر مبنی ہے
وکم من عائب قولاصحیحا
وآفتہ من الفہم السقیم

یعنی سمجھتے غلط ہیں لیکن اپنی سمجھ کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے صحیح بات کو ہی غلط قراردے دیتے ہیں۔یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس کاسلسلہ بڑاقدیم ہے اوراس کےبارے میں تورسول پاک نے پیش گوئی بھی فرمائی ہے کہ قرب قیامت میں اعجاب کل ذی رائ برایہ کا دوردورہ ہوگا۔

اس طرح کے واقعات پیش کرنے والے جیساکہ اس سے قبل طالب الرحمن نے الدیوبندیہ میں پیش کیاتھا۔ ایک اہم اصولی بات کو نظرانداز کردیتے ہیں۔

واقعات کی حیثیت محض واقعات کی ہے۔ وہ کسی قاعدے اورلزوم کی حیثیت نہیں رکھتے۔ کوئی اسے تسلیم کرے نہ کرے ۔نہ ہم کسی کو اس کاپابند بناتے ہیں کہ وہ ضرور ہی ان واقعات کو تسلیم کریں اورنہ ہی ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ واقعات سرے سے ہی غلط اوربے بنیاد ہیں۔اگرشاہد نذیر اورگڈمسلم یادیگر غیرمقلدین حضرات اس واقعہ کو سمجھنے کی ایماندارانہ کوشش کرتے تویہ بعید نہیں تھاکہ وہ یہ واقعہ صحیح طورپر نہ سمجھ سکتے۔

اشرف السوانح مولانا اشرف علی تھانوی کےحالات ووقعات پر مشتمل کتاب ہے۔ یہ کتاب خواجہ عزیز الحسن مجذوب کی ہے۔ اس پر مولانا اشرف علی تھانوی نے بھی نظرثانی فرمائی ہے۔خواجہ عزیز الحسن مجذوب صاحب کو مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ سے نہایت عقیدت تھی۔ ان کی عقیدت ومحبت کو ان کے اشعار کے مجموعہ کشکول مجذوب میں دیکھاجاسکتاہےیاپھراسی کتاب اشرف السوانح کا مزید مطالعہ کیاجاسکتاہے۔ اشرف السوانح اورکشکول مجذوب دونوں ہی اہل حق لائبریری پر دستیاب ہیں۔

اب جس کو جس سے محبت ہوتی ہے وہ یہ چاہتاہے کہ ہمیشہ اس کے قریب رہے۔ اس کے پاس رہے۔ اس کے چہرہ کو دیکھتارہے۔ اس سے بات کرتارہے۔غرض ایک نوعیت کا ربط وضبط قائم رہے۔ یہ اس کی خواہش ،ارمان آرزو اوردل کی تمناہوتی ہے۔

حضرت موسی سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے سوال کیاکہ اے موسی تمہارے داہنے ہاتھ میں کیاہے تو وہ کہہ سکتے تھے کہ لاٹھی ہے یہ کافی ہوتا لیکن محبوت سے بات اور وہ اتنامختصر بھلاکیسے ممکن ہے انہوں نے کہایہ میری لاٹھی ہے میں اس پر ٹیک لگاتاہے اوربکریوں کیلئے پتے جھارتاہوں اوراس کے علاوہ دیگر ضروریات بھی اس سے پوری کرتاہوں۔

حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم نے باری طے کرلیاتھاایک دن کاروبار میں لگاتے تھے اوردوسرادن حضور کی خدمت میں حاضری دیتے تھے۔

صحابہ کرام کے ایسے متعدد واقعات ہیں کہ انہوں نے حضورپاک کے مہرنبوت کو بوسہ دیا۔صلح حدیبیہ کے موقع پر کفار کے ایلچی حضرت سہل یاسہیل نے کفار سے جاکر جب صحابہ کرام کی حضور سے شیفتگی کا ذکر کیاتوکہاکہ وہ جب بات کرتے ہیں تو سب ہمہ تن متوجہ ہوکر سنتے ہیں جب وہ تھوک پھینکتے ہیں تولوگ اس کو اپنے ہاتھوں پر مل لیتے ہیں اوراس طرح کی باتیں بیان کیں۔

جب آپ نے یہ سمجھ لیاتویہ سمجھنامشکل نہیں ہوگاکہ کسی انسان سے سب سےز یادہ قریب اورسب سے زیادہ ساتھ کون رہتاہے اس کی شریک حیات،رفیق سفر اوربیوی ہی کسی انسان کے سب سے زیادہ قریب رہتی ہے لہذا اگرعزیز الحسن مجذوب علیہ الرحمہ نے بیوی بننے کی خواہش کی تواس کا داعیہ یہی رہاہوگاکہ بیوی کو سب سے زیادہ قریب رہنے کا موقع ملتاہے لہذا مجھ کوبھی سب سے زیادہ قریب رہنے کا اس طورپر موقع ملے گا۔

یہ بات توہوئی کہ عزیز الحسن صاحب نے یہ بات کیوں کہی۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس طرح کی بات انسان وفور شوق میں کہہ جاتاہے جو عام حالات میں نہیں کہہ پاتا۔خوشی اورغم کی شدت میں انسان سے اس طرح کی باتیں ہوجایاکرتی ہیں لیکن وہ چونکہ غیراختیاری ہوتی ہیں لہذااس پر کوئی نہ کوئی شرعی داروگیر ہے نہ ہی اہل علم واہل فہم اس کو براسمجھتے ہیں۔

ایک حدیث ہے اورمسلم شریف کی حدیث ہے۔
" لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ حِينَ يَتُوبُ إِلَيْهِ، مِنْ أَحَدِكُمْ كَانَ عَلَى رَاحِلَتِهِ بِأَرْضِ فَلَاةٍ، فَانْفَلَتَتْ مِنْهُ وَعَلَيْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ، فَأَيِسَ مِنْهَا، فَأَتَى شَجَرَةً، فَاضْطَجَعَ فِي ظِلِّهَا، قَدْ أَيِسَ مِنْ رَاحِلَتِهِ، فَبَيْنَا هُوَ كَذَلِكَ إِذَا هُوَ بِهَا، قَائِمَةً عِنْدَهُ، فَأَخَذَ بِخِطَامِهَا، ثُمَّ قَالَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ: اللهُمَّ أَنْتَ عَبْدِي وَأَنَا رَبُّكَ، أَخْطَأَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ "
اللہ بندے کی توبہ سے جب کوئی بندہ توبہ کرتاہے تواتناخوش ہوتاہے جیساکہ کوئی شخص اس وقت خوش ہوتاہے جب وہ کسی ویران جگہ میں ہو اوراس کا کھاناپیناجس سواری پر ہو وہ اس سے غائب ہوگیاہو اور وہ ایک درخت کے سائے میں مایوسی کی حالت میں لیٹاہو اہو کہ اچانک اسے اپنی سواری اورکھاناپیناسب کچھ مل جائے تو وہ خوشی سے بول اٹھتاہے کہ اے اللہ تومیرابندہ ہے اورمیں تیرارب ہوں ۔اتنی خوشی ہوتی ہے کہ بے اختیار کچھ سے کچھ بول جاتاہے)
اس حدیث میں دیکھاجاسکتاہے کہ بندہ اگرکوئی خوشی کی حالت میں اللھم انت عبدی واناربک بول دے تواس کو خوشی کی زیادتی کی وجہ سے محض غلطی قراردیاجائے گانہ کہ اس پر کوئی شرعی حکم لگایاجائے گا۔ یہی بات خواجہ عزیز الحسن مجذوب کے واقعہ میں بھی ہے کہ انہوں نے شدت شوق میں یہ بات کہہ دی۔اس کا قرینہ خود اس واقعہ میں عشق کے جوش کا لفظ ہے۔لہذا اس واقعہ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہی کہاجائے گاکہ شدت عشق ومحبت میں خواجہ عزیز الحسن نے اپنی خواہش کی تعبیر میں غلطی کی ۔جیساکہ شدت خوشی وفرحت میں حدیث میں مذکور شخص نے بولنے میں غلطی کی ۔

لیکن اس سے گندے مطلب کشید کرلیناگندے دماغوں کا کام ہے۔ اچھے لوگ غلط واقعہ سے بھی اچھاپہلو نکال لیتے ہیں اورغلط ذہن ومزاج کے لوگ اچھے واقعہ سے بھی غلط مطلب نکال لیتے ہیں۔جیساکہ مبارک عظیم آبادی نے اپنے بے مثال شعر میں کہاہے۔

یہ غم کدہ ہے اس میں مبارک خوشی کہاں
غم کو خوشی بناکوئی پہلو نکال کے

اب دوسراپہلو یہ رہ جاتاہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی نے ثواب کی بات کہی۔

تومولانا اشرف علی تھانوی اورعزیز الحسن میں تعلقات جو تھے کیاوہ کسی دنیاوی وجہ سے تھے۔ دونوں میں کسی قسم کا دنیوی لین دین تھا ۔نہیں اورقطعانہیں بلکہ دینی تعلق تھا انہوں نے اپنی اصلاح کیلئے مولانا اشرف علی تھانوی سے رجوع کیاتھا اورمولانا اشرف علی تھانوی اگراس محبت پر جو محض دینی ہے ثواب کی بشارت سناتے ہیں تواس میں غلط کیا۔ اللہ کیلئے محبت رکھنے کیلئے ثواب کی بشارتیں توخود حدیث میں موجود ہیں۔

ایک بار ارشاد فرمایا میں نے ایک بار خواب دیکھا تھاکہ مولوی محمد قاسم صاحب عروس کی صورت میں ہیں اور میر ا ان سے نکاح ہوا ہے سو جس طرح زن وشوہرمیں ایک کو دوسرے سے فائدہ پہنچتا ہے اسی طرح مجھے ان سے او ر انہیں مجھ سے فائدہ پہنچا ہے
اس واقعہ کو شاہد نذیر ٹھیک سے سمجھ نہیں سکے ہیں۔
واقعہ صرف یہیں تک ہے کہ
میں نے ایک بار خواب دیکھا تھاکہ مولوی محمد قاسم صاحب عروس کی صورت میں ہیں اور میر ا ان سے نکاح ہوا ہے
اس کے بعد جوکچھ مولانا رشید احمد گنگوہی نے فرمایاہے
سو جس طرح زن وشوہرمیں ایک کو دوسرے سے فائدہ پہنچتا ہے اسی طرح مجھے ان سے او ر انہیں مجھ سے فائدہ پہنچا ہے
وہ خواب کی تعبیر ہے خواب کا حصہ نہیں ہے اوراس پر لفظ "ہے"دلیل ہے۔اگر وہ خواب کی ہی بات ہوتی توفرماتے ہیں
اسی طرح مجھے ان سے او ر انہیں مجھ سے فائدہ پہنچا۔یعنی بغیر "ہے"کے

خواب میں ایک انسان کچھ دیکھتاہے اس کی تعبیر کچھ اورہوتی ہے کیااس کو بیان کرنا غلط ہوجائے گا۔ امام ابوحنیفہ نے خواب دیکھاکہ میں رسول پاک کی ہڈیاں جمع کررہاہوں۔حالانکہ خواب بہترنہ تھالیکن تعبیر بہت بہتر تھی۔ اسی طرح اگرتعبیر کی کتاب پڑھنے کا موقع ملے توپائیں گے کہ بہت سارے خواب انتہائی قبیح اوربرے ہوتے ہیں لیکن ان کی تعبیر بہت اچھی ہوتی ہے۔
خواب کی تعبیر پر ایک کتاب ہے۔قواعد تفسیر الاحلام ۔اس کے مصنف حنبلی عالم ہیں۔ آپ کی زبان میں کہیں تو چونکہ وہ حنبلی ہیں لہذا اہل حدیث ہیں۔مصنف کانام ہے۔

أبو العباس، شهاب الدين، ابن نعمة النابلسي، أحمد بن عبد الرحمن بن عبد المنعم بن نعمة بن سلطان بن سرور الحنبلي (المتوفى: 697هـ)
وہ اس کتاب میں مختلف چیزوں کے دیکھنے کی تعبیر بیان کرتے ہیں۔
اگرکوئی انسان یہ دیکھتاہے کہ وہ اپنے پستان سے دودھ یاشہدپی رہاہے یاکھانے کی کوئی چیز کھارہاہے تو اگر خواب دیکھنے والا کنواراہے تواس کی شادی ہوگی اوراگرشادی شدہ ہے تواس کے اولاد ہوگی۔ 1/444
ایک انسان خواب دیکھتاہے کہ وہ کسی دوسرے کے سینے پر بیٹھاہے اوراس کے بیٹھنےسے دوسرے کو تکلیف نہیں ہورہی ہے تواس کی تعبیر یہ ہوگی کہ اس کو کوئی منصب اورعہدہ ملے گا۔446
اسی طرح اگرانسان اپناشرم گاہ خواب میں دیکھتاہے تواس کی مختلف صورتوں میں اس کی کیاکیاتعبیر ہوگی۔ وہ بھی مصنف نے بیان کردی ہے۔دیکھئے۔

فصل: ذكر الْإِنْسَان: دَال على ذكره، وجاهه، وَولده، وَزَوجته، وَمَاله، ومعايشه، وحياته. فَمن رأى ذكره قَائِما، أَو طَويلا، أَو مليحا، - وَلم يكن مكشوفا عِنْد من لَا يَلِيق بِهِ كشفه عِنْدهم -: دلّ على الرّفْعَة، والمنزلة، وَولد يرزقه، وللأعزب: زَوْجَة، وللمريض: عَافِيَة، وغنى للْفَقِير، وَفرج لمن هُوَ فِي شدَّة، لكَون إنتشاره لَا يكون إِلَّا عِنْد فرَاغ الخاطر. فَإِن شرب مِنْهُ مَا يدل على النكد: كَانَ مَكْرُوها، وَأما إِن أكله كُله: كَانَ كَأَكْل الثديين. وَأما إِن نبت عَلَيْهِ ذكر آخر لَا يمْنَع نَفعه، أَو طلع عَلَيْهِ زرع أَو شجر وَلم يؤذه، فَذَلِك: أَوْلَاد، وفوائد، ورزق. وَأما إِن أضره ذَلِك: صَار رديا. وَقطع الذّكر: يدل على عكس ذَلِك. وَأما إِن انْقَطع فِي فرج امْرَأَة: حملت، أَو أخذت ولد الْمَذْكُور، أَو مَاله. قَالَ المُصَنّف: وَاعْتبر الْحَوَادِث فِي الذّكر. كَمَا قَالَ لي إِنْسَان: رَأَيْت أَن ذكري حَدِيد وَهُوَ قَائِم وَلَا أقدر أجامع بِهِ، قلت: يَقع بِهِ فالج أَو يزمن لَك ولد. وَقَالَ آخر: رَأَيْت ذكري وَعَلِيهِ بناية، قلت: يَمُوت لَك من تبني عَلَيْهِ مَكَانا. وَقَالَ آخر: رايت أَن ذكري يشرب من دم حَيَوَان، قلت: أَنْت جامعت فِي الْحيض أَو وطِئت دَابَّة، قَالَ: صَحِيح. وَقَالَ آخر: رَأَيْت أنني أكلت ذكري، قلت: احتجت حَتَّى بِعْت نوفرة بركَة. وَمثله قَالَ آخر، قلت: بِعْت ولدك وأكلت ثمنه. وَقَالَ آخر: رَأَيْت أَن ذكري فِي يَدي وَأَنا أكنس بِهِ القنى ومجاري الْمِيَاه، قلت: أَنْت تداوي النَّاس بالحقن النافعة. وَمثله قَالَ آخر غير أَنه تلوث بالوسخ، قلت: أَنْت كثير النِّكَاح، وَرُبمَا يكون أَكْثَره حَرَامًا. وَقَالَ آخر: رَأَيْت أَن معي ذُكُورا عدَّة وَالنَّاس يفزعون مِنْهَا، قلت: أَنْت تلعب بالحيات. وَقَالَ لي مزارع: رَأَيْت ذكري قد قطع، قلت: تنكسر الحديدة الَّتِي تحرث بهَا. وَقَالَ آخر - وَكَانَ كَاتبا -: رَأَيْت أَن ذكري قد ضَاعَ، قلت: يعْدم لَك قلم عَزِيز. وَمثله قَالَ كَحال، قلت يعْدم لَك ميل. وَمثله قَالَ آخر - وَكَانَ نجارا -، قلت: يذهب لَك مثقب. وَمثله قَالَ آخر، قلت: يعْدم لَك مِفْتَاح. وَقَالَ لي فَقير: رَأَيْت ذكري قد رَاح، قلت: يذهب لَك سواك. وَمثله قَالَ جندي، قلت: يعْدم لَك رمح كنت تطعن بِهِ. وَمثله قَالَ آخر، قلتك يروح لَك دبوس، فَكَانَ كَذَلِك.
قَالَ المُصَنّف: وَاعْتبر النكد من الْعَانَة والشارب وَنَحْوهمَا. كَمَا قَالَ لي إِنْسَان: رَأَيْت أَن عانتي قد طَالَتْ كثيرا، قلت: / يَقع بَيْنك وَبَين زَوجتك نكد. وَمثله قَالَت امْرَأَة، قلت: تفارقين الزَّوْج. وَمثله قَالَت امْرَأَة زَانِيَة، قلت: ترزقين تَوْبَة.

میں نے دانستہ ترجمہ نہیں کیاہے۔ کسی سے ترجمہ کرکے پڑھ لیں اوراگرگڈ مسلم صاحب عربی جانتے ہیں توخود بھی پڑھ لیں اورسمجھیں کہ کبھی خواب براہوتاہے اورتعبیر اس کی اچھی ہوتی ہے۔
تواگرخواب میں مولانا رشید احمد گنگوہی نے مولانا قاسم صاحب کو عروس کی صورت میں دیکھااوران سے نکاح ہوااوراس کی تعبیر یہ بیان کی کہ ان سے مجھ کو اورمجھ کو ان سے فائدہ پہنچاہے تواس میں شرم اورشرمناک کیاچیز ہوگئی یہ تومجھے سمجھ میں نہیں آیا ۔

دوسری بات حدیث پاک میں آتاہے۔
مُرَّ عَلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِمَعْنَى عُثْمَانَ، قَالَ: أَوَ مَا تَذْكُرُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ، عَنِ الْمَجْنُونِ الْمَغْلُوبِ عَلَى عَقْلِهِ حَتَّى يَفِيقَ، وَعَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّى يَحْتَلِمَ» ، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَخَلَّى عَنْهَا
سنن ابودائود رقم 4401
آپ کو چونکہ اطمینان البانی کا نام سن کر ہی ہوگا لہذا بتادوں کہ البانی صاحب نے بھی اس حدیث کو صحیح کہاہے۔
حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ
تین آدمی مرفوع القلم ہیں ان پر دینی دنیاوی کسی قسم کا کوئی حکم نہیں لگایاجاسکتانہ ان پرکوئی داروگیر کیاجاسکتاہے۔
مجنوں سے جب تکہ اس کو عقل نہ آجائے ۔سونے والے سے جب تک کہ وہ جاگ نہ جائے اوربچے سے جب تک کہ وہ بالغ نہ ہوجائے۔
اب یہ واقعہ مولانا رشید احمد گنگوہی اورمولانا قاسم صاحب کا خواب ہے اوراس خواب کے واقعہ سے احناف کو مطعون کرنے کی کوشش حدیث کی مخالفت ہوگی یانہیں ہوگی وہ اپنے دل سے پوچھ کر جواب دے دیں۔حدیث توکہہ رہی ہے کہ سونے والامرفوع القلم ہے اورشاہد نذیرصاحب کی خواب کے واقعہ پر خواہشات بیدارہوجاتی ہیں۔

شاہد نذیر صاحب کا اپنی عقل کے مطابق (جتنی اورجیسی عقل ہوگی اعتراض بھی ویساہی ہوگا)اعتراض یہ ہے کہ یہ شرمناک واقعہ بیان کیوں کیااگرخواب دیکھابھی تھا توبیان نہیں کرتے اوراگربیان کربھی دیاتھاتواحناف اس کو اپنی کتابوں میں بیان نہیں کرتے۔

اولاتویہ واقعہ شرمناک ہے ہی نہیں اورجتناواقعہ ہے اورجتناتعبیر ہے دونوں کو گڈمڈ کرکے اس کو شرمناک بنادیناان کا کارنامہ ہے۔ ان کے کارنامے سے ہم کیوں شرمندگی محسوس کریں؟

ثانیابات اگرشرمناک ہوبھی تومحض شرم کی وجہ سے چھپادی جائے یہ کوئی ضروری نہیں ہے۔ بلکہ اس میں خیال رکھاجاتاہے کہ اس کو پڑھنے والے خود ہی عاقل وبالغ ہوں گے۔ حدیث شریف میں جب ایک عورت نے اپنے شوہر کے ذکر کو ہدبۃ الثوب سے تشبیہ دی تواس حدیث کے بعض طرق میں اس کے شوہر کے جوالفاظ ذکر کئے گئے ہیں کیااس کا کھلم کھلابیان قابل شرمناک نہیں ہے۔کون ساوہ اہل حدیث ہے جواس حدیث کو اپنے گھر کی خواتین کے سامنے بیان کرتاہے اوراس کی تشریح کرتاہے؟توکسی چیز کا شرمناک ہوناالگ شے ہے اورکسی چیز کا قابل بیان ہوناالگ شے ہے۔ (کوئی صاحب اپنے تنگ دماغ میں یہ شک وشبہ نہ پال لیں کہ مولانارشید احمد گنگوہی کے ملفوظات کا حضورپاک کی حدیث سے تقابل کیاجارہاہے ایک جزئی تشبیہ مراد ہے اوربس )شاہد صاحب کا خیال ہے کہ یہ واقعہ ان کو نہ بیان کرناچاہئے لیکن مولانا رشید احمد گنگوہی کاخیال ہوسکتاہے کہ اس واقعہ اوراس کی تعبیر کو بیان کرکے سننے والوں کو خواب کی ایک تعبیر بتادی جائے کہ کبھی خواب کیساہوتاہے اوراس کی تعبیر کیسی ہوتی ہے۔ضروری نہیں کہ ہرشخص شاہد نذیر کے ہی انداز میں سوچے اورجوشاہد نذیر صاحب سونچیں وہی درست اوربہتربھی ہو۔

اب ایک آخری بات یہ رہ گئی ہے کہ مولانا رشید احمد نے جو تعبیر بتائی اس کو ذراواضح کیاجائے۔مولانارشید احمد صاحب کی تعبیر ہے۔
سو جس طرح زن وشوہرمیں ایک کو دوسرے سے فائدہ پہنچتا ہے اسی طرح مجھے ان سے او ر انہیں مجھ سے فائدہ پہنچا ہے
مردوعورت کو ایک دوسرے سے کیافائدہے پہنچتے ہیں
مرد کو اولاد ملتاہے۔اورعورت کو قوام اورسرپرست نصیب ہوتاہے۔
مولاناقاسم صاحب نے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی۔ طلبائے علوم دینیہ نے جوق درجوق اس کی جانب رجوع کیا۔ اورجوطلباء دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوتے تھے وہ ایک سال کا دورہ حدیث مولانارشید احمد گنگوہی کے پاس جاکر بھی کیاکرتے تھے۔عمومی حالت یہی تھی ۔اس طرح دارالعلوم دیوبند کے واسطہ اورمولاناقاسم صاحب کی وجہ سے مولانارشید احمد گنگوہی کو روحانی اولاد نصیب ہوئی۔(اگرچہ ان کے درس میں دارالعلوم دیوبند کے قیام سے قبل بھی طلباء حدیث رہتے تھے لیکن اس میں مزید اضافہ دارالعلوم دیوبند کی وجہ سے ہوا۔

دوسری طرف مولانارشید احمد گنگوہی دارالعلوم دیوبند کے سرپرست تھے ان کی ذات سے دیوبند کو بلاواسطہ اوربالواسطہ مولاناقاسم صاحب کو فیض پہنچا۔

اس وضاحت کے بعد امید ہے کہ کسی معقول شخص کو یہ دونوں واقعات شرمناک نہیں لگیں گے اوراگرپھربھی شرمناک لگیں تواس کو علاج کراناچاہئے کسی چیز کی ازحد زیادتی علاج کی متقاضی ہوتی ہے۔
والسلام
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
اف۔۔۔۔واقعہ ملاحظہ کریں اور تاویلات کا انبار ملاحظہ کریں تو سخت حیرت ہوتی ہے کہ اس طرز کلام سے آخر کون سی ناحق بات ہوگی جسے حق ثابت نہیں کیا جا سکتا ہوگا۔

واقعہ 1 :
ایک بار عشق کے جوش میں حضرت والا سے بہت جھجھکتے اور شرماتے ہوئے دبی زبان سے عرض کیاکہ حضرت ایک بہت ہی بے ہودہ خیال دل میں باربار آتا ہے جس کو ظاہر کرتے ہوئے بھی نہایت شرم دامن گیر ہوتی ہے اور جراء ت نہیں پڑتی۔ حضرت والا اس وقت نماز کے لئے اپنی سہ دری سے اٹھ کر مسجد کے اندر تشریف لے جارہے تھے فرمایا کہیے کہیے احقر نے غایت شرم سے سر جھکائے ہوئے عرض کیا کہ میرے دل میں باربار یہ خیال آتا ہے کہ میں عورت ہوتا حضور کے نکاح میں۔اس اظہار محبت پر حضرت والا غایت درجے مسرور ہوئے، بے اختیار ہنسنے لگے اور یہ فرماتے ہوئے مسجد کے اندر تشریف لے گئے ۔ یہ آپ کی محبت ہے ثواب ملے گا۔ ثواب ملے گا ۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ (اشرف السوانح صفحہ ۶۴)
جمشید صاحب کی تاویلات:


کسی انسان سے سب سےز یادہ قریب اورسب سے زیادہ ساتھ کون رہتاہے اس کی شریک حیات،رفیق سفر اوربیوی ہی کسی انسان کے سب سے زیادہ قریب رہتی ہے لہذا اگرعزیز الحسن مجذوب علیہ الرحمہ نے بیوی بننے کی خواہش کی تواس کا داعیہ یہی رہاہوگاکہ بیوی کو سب سے زیادہ قریب رہنے کا موقع ملتاہے لہذا مجھ کوبھی سب سے زیادہ قریب رہنے کا اس طورپر موقع ملے گا۔

اگر فقط قریب رہنے کی خواہش کا ذکر کرنا ہی مقصود تھا، تو اس کے لئے بہت بہتر الفاظ و انداز موجود ہیں۔ کیا خیال ہے جمشید صاحب، اگر آپ کسی استاد کی قربت کے خواہشمند ہوں تو اسے یہ کہیں گے کہ میں تمہاری بیوی بننا چاہتا ہوں؟ اور اس پر فخر محسوس کیا کریں گے؟
"اس کا داعیہ یہی رہا ہوگا" کہہ کر آپ نے مصنف کے منہ میں جو اپنے الفاظ شامل کرنے کی کوشش کی ہے، وہ اس لئے فضول ہے کیونکہ داعیہ اگر اتنا ہی اعلیٰ و ارفع تھا تو واقعہ میں شرم، گھبراہٹ اور اپنے ان خیالات کو بے ہودہ قرار دینا چہ معنی دارد بھیا؟

دوسری بات یہ ہے کہ اس طرح کی بات انسان وفور شوق میں کہہ جاتاہے جو عام حالات میں نہیں کہہ پاتا۔خوشی اورغم کی شدت میں انسان سے اس طرح کی باتیں ہوجایاکرتی ہیں لیکن وہ چونکہ غیراختیاری ہوتی ہیں لہذااس پر کوئی نہ کوئی شرعی داروگیر ہے نہ ہی اہل علم واہل فہم اس کو براسمجھتے ہیں۔
بالکل ٹھیک، جو باتیں غیر اختیاری ہوں، ان پر کوئی پکڑ نہیں۔ لیکن جو باتیں "بار بار خیال" میں آتی ہوں، جنہیں پیش کرنے سے "گھبراہٹ"اور "غایت شرم"دامنگیر ہوتی ہو۔ اور بات کرتے وقت سر اٹھانا، نظریں ملانا مشکل ہو۔ اور پھر وہ باتیں پورے ارادہ و اختیار کے ساتھ گوش گزار کر دی جائیں اور مخاطب ان پر مہر تصدیق ثبت کر کے ثواب کی بشارت بھی سنائے۔ تو وہاں غیر اختیاری کا تذکرہ کرنا کیسی بے محل بات ہے۔


اس حدیث میں دیکھاجاسکتاہے کہ بندہ اگرکوئی خوشی کی حالت میں اللھم انت عبدی واناربک بول دے تواس کو خوشی کی زیادتی کی وجہ سے محض غلطی قراردیاجائے گانہ کہ اس پر کوئی شرعی حکم لگایاجائے گا۔ یہی بات خواجہ عزیز الحسن مجذوب کے واقعہ میں بھی ہے کہ انہوں نے شدت شوق میں یہ بات کہہ دی۔اس کا قرینہ خود اس واقعہ میں عشق کے جوش کا لفظ ہے۔لہذا اس واقعہ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہی کہاجائے گاکہ شدت عشق ومحبت میں خواجہ عزیز الحسن نے اپنی خواہش کی تعبیر میں غلطی کی ۔جیساکہ شدت خوشی وفرحت میں حدیث میں مذکور شخص نے بولنے میں غلطی کی ۔
بالکل بجا۔ خوشی کی زیادتی، غم کی مدہوشی، شراب کے نشے میں، سوتے ہوئے کوئی غلط بات زبان سے نکل جائے تو اسے محض غلطی قرار دیا جا سکتا ہے۔لیکن مجذوب صاحب کے واقعہ میں شدت شوق یا عشق کے جوش کے الفاظ سے اگر آپ یہ مراد لیں کہ انہوں نے اپنی خواہش کی تعبیر میں غلطی کی، تو یہ بجائے خود غلط ہے۔ کیونکہ مجذوب صاحب نے خوب سوچ سمجھ کر، بار بار آنے والے خیالات کو، خود بے ہودہ اور قابل شرم گردانتے ہوئے یہ بات کہی ہے۔ اگر شدت شوق سے عشق کے جوش میں کوئی غلط بات منہ سے نکل جائے تو اس سے قبل انسان شرمندہ نہیں ہوا کرتا کیونکہ وہ اسے درست سمجھ رہا ہوتا ہے۔

لیکن اس سے گندے مطلب کشید کرلیناگندے دماغوں کا کام ہے۔ اچھے لوگ غلط واقعہ سے بھی اچھاپہلو نکال لیتے ہیں اورغلط ذہن ومزاج کے لوگ اچھے واقعہ سے بھی غلط مطلب نکال لیتے ہیں۔جیساکہ مبارک عظیم آبادی نے اپنے بے مثال شعر میں کہاہے۔

یہ غم کدہ ہے اس میں مبارک خوشی کہاں
غم کو خوشی بناکوئی پہلو نکال کے
بہت خوب فرمایا۔
بس ذرا یہ ملاحظہ کرتے جائیں کہ سب سے پہلے اس قصے کو قابل شرم اور بے ہودہ کس نے کہا ہے؟
خود مجذوب صاحب نے۔ اب یا تو بقول جمشید صاحب وہ بھی گندے دماغ اور گندے خیالات کے حامل شخص تھے۔ اور یا پھر خود جمشید صاحب ہی کے دماغ میں ایسی سڑاند بسی ہے کہ جس بات کو خود مجذوب صاحب بے ہودہ اور گندا کہے بغیر نہیں رہ پا رہے، اسے ہی جمشید صاحب دودھ سے دھو کر پاک صاف کرنا چاہتے ہیں۔

یہ عام بات ہے اور کراچی میں رہتے ہوئے تو بآسانی ملاحظہ کی جا سکتی ہے کہ جو لوگ گندی آبادیوں، نالوں کے پاس رہتے ہیں۔ وہ اس کے ایسے عادی ہو جاتے ہیں کہ جہاں سے عام لوگ ناک پر رومال رکھے بغیر گزرنے کا تصور نہیں کر سکتے اور سانس سینے میں روک کر گزرتے ہیں، وہاں وہ ان کی پوری نسلیں بغیر کسی بدبو کے احساس کے زندگی بسر کرتی ہیں۔ جمشید صاحب کا حال بھی کچھ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ گندا دماغ اور گندی ذہنیت ہے تو خود کی، لیکن عرصہ سے اس سڑاند میں رہتے بستے، اس کے عادی ہو کر الزام اوروں پر دھرتے ہیں۔


اب دوسراپہلو یہ رہ جاتاہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی نے ثواب کی بات کہی۔

تومولانا اشرف علی تھانوی اورعزیز الحسن میں تعلقات جو تھے کیاوہ کسی دنیاوی وجہ سے تھے۔ دونوں میں کسی قسم کا دنیوی لین دین تھا ۔نہیں اورقطعانہیں بلکہ دینی تعلق تھا انہوں نے اپنی اصلاح کیلئے مولانا اشرف علی تھانوی سے رجوع کیاتھا اورمولانا اشرف علی تھانوی اگراس محبت پر جو محض دینی ہے ثواب کی بشارت سناتے ہیں تواس میں غلط کیا۔ اللہ کیلئے محبت رکھنے کیلئے ثواب کی بشارتیں توخود حدیث میں موجود ہیں۔
اصل سوال یہ نہیں کہ اللہ کے لئے محبت رکھنے پر ثواب کی بشارت ہے یا نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ بے ہودہ، قابل شرم بات کہ ایک مرد کو دوسرے مرد کی بیوی بننے کا بار بار خیال آتا ہے۔ اور وہ اس پر شرمندہ بھی ہے۔ اسے بے ہودہ بھی مانتا ہے۔ اور دوسرا شخص بجائے اس کے کہ اس شیطانی خیال پر اسے لاحول ولا قوۃ پڑھنے کو کہے اور استغفار کرنے کو کہے۔ یا یوں کہے کہ یہ شیطان کے راستہ پر پہلا قدم رکھنے کے مترادف ہے۔ اور اسے سختی سے خود سے دور کرے کہ کہیں شیطان اس پر غلبہ نہ پا لے۔ اگر اسے ثواب کی بشارت سنانے لگ جائے تو اس پر ہمارا اعتراض کرنا بھی آپ کو گوارا نہیں؟
اللہ کے لئے محبت رکھنے پر بے شک ثواب کی بشارت ہے، لیکن جب بات اللہ کے لئے محبت سے کہیں بہت نیچے، ایک مرد کا دوسرے مرد کی بیوی بننے کے خیال پر مبنی ہو تو وہاں ثواب کے بجائے استغفار کا ورد کرنا بنتا ہے۔


دوسرے واقعہ کو بھی پہلے پر ہی قیاس فرما لیجئے۔ ہمارے پاس جمشید صاحب کی طرح اتنا وقت نہیں اور نہ ایسی غلیظ باتوں اور ان کے دفاع کرنے والوں پر بے جا تبصرہ کرنے کی ہمت ہے۔ یہ حضرات تعصب اور مسلک پرستی کی لال عینک اتار کر ملاحظہ کرتے، تو ایسے واقعات اور ان کو مذہبی کتب میں جگہ دینے کے خیال سے ہی ابکائی آ جاتی اور ایسے لوگوں کے کردار پر تھوکتے۔ لیکن برا ہو اس عصبیت کا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسی پاکباز ہستیوں کو ایسی غلیظ بحث میں گھسیٹ لاتے ہیں اور وہاں سے موہوم، ادھر ادھر کی مبہم باتوں کو پکڑ کر ان پر اعتراض کرتے ہیں، تاکہ ہمارے بزرگوں پر سے اعتراض اٹھ جائے، چاہے اس سے ان نفوس قدسیہ کی توہین ہی لازم آئے۔ ہم تو ایسے خیال سے بھی اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔
 
شمولیت
اکتوبر 08، 2012
پیغامات
74
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
32
یعقوب صاحب غلاظت ہوتی ہے تو مکھی بیٹھتی ہے۔غلاظت نہ ہو تو مکھی بھی نہیں بیٹھتی۔ ان الفاظ کی صورت میں آپ نے یہ تو تسلیم کرلیا کہ آپ کے علماء کی کتب میں غلاظت ہے۔
غلاظت پر بیٹھنے والی مکھی اکثر دھوکا کھا کر مٹھائی پر بھی بیٹھ جاتی ہے۔
اس سے پہلے بھی بھائیوں نے مثال پیش کی میں بھی مزید اضافہ کرنا چاہتا ہوں۔
ایک بزرگ نے کسی کتے سے کہا تو بہت وفادار ہے پر تجھ میں تین خامیاں ہیں۔
تو دیوار پر پیشاب کرتا ہے۔
تو فقیر پر بھونکتا ہے۔
تورات میں بھونکتا ہے۔
کتے نے جواب دیا:
زمین پر اس لئے پیشاب نہیں کرتا کہ کہیں اللہ کا کوئی بندہ یہاں سجدہ نہ کردے۔
فقیر پہ اس لئے بھونکتا ہوں کہ وہ غیر سے مانگتا ہے اللہ سے نہیں۔
رات کو اس لئے بھونکتا ہوں کہ اے غفلت میں سونے والے اٹھو اور اپنے رب کو یاد کرو۔
تبصرہ کی ضرورت نہیں
دوسری مثال:
الیکشن میں ادارہ میرا کی والدہ کی شکست کے بعد میرا نے دھاندلی کا رونا رویا۔
میڈیا امند آیا ادکارہ کی وجہ سے نہیں میرا کی گلابی انگریزی کی وجہ سے۔
میرا نے کہا! اکاونٹنٹ صحیح نہیں ہوئی، اور افئیر الیکشن نہیں ہوئے۔
میڈیا نے لفظ اکاونٹنگ اور افئیر کو پکڑ لیا، لیکن میری نظر میں اس کی گلابی انگریزی کا کمال نہیں تھا بلکہ میڈیا میں خود کوIN رکھنے کے لئے جان بوجھ کر گلابی انگریزی بولتی ہے،
بہرحال میرا کے لفظ افئیر الیکشن پر غور کیا جائے تو سمجھنا آسان ہے کہ اس کی انگریزی کا قصور نہیں بلکہ وہ جس شعبہ سے منسلک ہے وہاں افئیر زیادہ چلتا ہے۔
یہ اس شعبہ کا کمال ہے کہ لفظ افئیر اس کے دل و دماغ پر حاوی ہوچکا ہے۔
سمجھنے والوں کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
غلاظت پر بیٹھنے والی مکھی اکثر دھوکا کھا کر مٹھائی پر بھی بیٹھ جاتی ہے۔
پہلی بات آپ کی بات سے یہ تو واضح ہوگیا ہے کہ مکھی اگر مٹھائی پر بیٹھتی ہے تو دھوکہ کھاکر۔۔۔ اس لیے اگر مقلد بھی کتاب وسنت پر عمل اگر کرتا ہے تو وہ بھی دھوکہ میں آگر۔۔۔ ورنہ مقلد مقلد کو ہی حجت مانتا ہوتا ہے۔۔۔
دوسری بات مکھی کا مٹھائی پر بیٹھنا بھی سبق دلانے کے طریق سے ہوتا ہے۔۔۔ یہ بتانے کےلیے کہ اگر تم لوگ مٹھائی کو بھی ڈھانپ کر یعنی اس کی حفاظت نہیں کرو گے تو پھر مکھیاں اس کو گندا کردیں گی۔۔۔ مٹھائی سے میری مراد کون لوگ ہیں اور مکھیوں سے میری مراد کون لوگ ہیں۔۔۔سیاق وسباق سے سمجھا جاسکتا ہے۔۔۔ ضروری نہیں ہوتا کہ ورڈ میں بیان بھی کیا جائے۔۔۔شکریہ ماں کی دعا صاحب
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top