ایک بار عشق کے جوش میں حضرت والا سے بہت جھجھکتے اور شرماتے ہوئے دبی زبان سے عرض کیاکہ حضرت ایک بہت ہی بے ہودہ خیال دل میں باربار آتا ہے جس کو ظاہر کرتے ہوئے بھی نہایت شرم دامن گیر ہوتی ہے اور جراء ت نہیں پڑتی۔ حضرت والا اس وقت نماز کے لئے اپنی سہ دری سے اٹھ کر مسجد کے اندر تشریف لے جارہے تھے فرمایا کہیے کہیے احقر نے غایت شرم سے سر جھکائے ہوئے عرض کیا کہ میرے دل میں باربار یہ خیال آتا ہے کہ میں عورت ہوتا حضور کے نکاح میں۔اس اظہار محبت پر حضرت والا غایت درجے مسرور ہوئے، بے اختیار ہنسنے لگے اور یہ فرماتے ہوئے مسجد کے اندر تشریف لے گئے ۔ یہ آپ کی محبت ہے ثواب ملے گا۔ ثواب ملے گا ۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ (اشرف السوانح صفحہ ۶۴)
نمبر2
ایک بار ارشاد فرمایا میں نے ایک بار خواب دیکھا تھاکہ مولوی محمد قاسم صاحب عروس کی صورت میں ہیں اور میر ا ان سے نکاح ہوا ہے سو جس طرح زن وشوہرمیں ایک کو دوسرے سے فائدہ پہنچتا ہے اسی طرح مجھے ان سے او ر انہیں مجھ سے فائدہ پہنچا ہے۔ (تذکرۃ الرشید صفحہ ۲۸۹)
عربی کا ایک پامال ساشعر ہے لیکن حقیقت پر مبنی ہے
وکم من عائب قولاصحیحا
وآفتہ من الفہم السقیم
یعنی سمجھتے غلط ہیں لیکن اپنی سمجھ کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے صحیح بات کو ہی غلط قراردے دیتے ہیں۔یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس کاسلسلہ بڑاقدیم ہے اوراس کےبارے میں تورسول پاک نے پیش گوئی بھی فرمائی ہے کہ قرب قیامت میں
اعجاب کل ذی رائ برایہ کا دوردورہ ہوگا۔
اس طرح کے واقعات پیش کرنے والے جیساکہ اس سے قبل طالب الرحمن نے الدیوبندیہ میں پیش کیاتھا۔ ایک اہم اصولی بات کو نظرانداز کردیتے ہیں۔
واقعات کی حیثیت محض واقعات کی ہے۔ وہ کسی قاعدے اورلزوم کی حیثیت نہیں رکھتے۔ کوئی اسے تسلیم کرے نہ کرے ۔نہ ہم کسی کو اس کاپابند بناتے ہیں کہ وہ ضرور ہی ان واقعات کو تسلیم کریں اورنہ ہی ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ واقعات سرے سے ہی غلط اوربے بنیاد ہیں۔اگرشاہد نذیر اورگڈمسلم یادیگر غیرمقلدین حضرات اس واقعہ کو سمجھنے کی ایماندارانہ کوشش کرتے تویہ بعید نہیں تھاکہ وہ یہ واقعہ صحیح طورپر نہ سمجھ سکتے۔
اشرف السوانح مولانا اشرف علی تھانوی کےحالات ووقعات پر مشتمل کتاب ہے۔ یہ کتاب خواجہ عزیز الحسن مجذوب کی ہے۔ اس پر مولانا اشرف علی تھانوی نے بھی نظرثانی فرمائی ہے۔خواجہ عزیز الحسن مجذوب صاحب کو مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ سے نہایت عقیدت تھی۔ ان کی عقیدت ومحبت کو ان کے اشعار کے مجموعہ کشکول مجذوب میں دیکھاجاسکتاہےیاپھراسی کتاب اشرف السوانح کا مزید مطالعہ کیاجاسکتاہے۔ اشرف السوانح اورکشکول مجذوب دونوں ہی اہل حق لائبریری پر دستیاب ہیں۔
اب جس کو جس سے محبت ہوتی ہے وہ یہ چاہتاہے کہ ہمیشہ اس کے قریب رہے۔ اس کے پاس رہے۔ اس کے چہرہ کو دیکھتارہے۔ اس سے بات کرتارہے۔غرض ایک نوعیت کا ربط وضبط قائم رہے۔ یہ اس کی خواہش ،ارمان آرزو اوردل کی تمناہوتی ہے۔
حضرت موسی سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے سوال کیاکہ اے موسی تمہارے داہنے ہاتھ میں کیاہے تو وہ کہہ سکتے تھے کہ لاٹھی ہے یہ کافی ہوتا لیکن محبوت سے بات اور وہ اتنامختصر بھلاکیسے ممکن ہے انہوں نے کہایہ میری لاٹھی ہے میں اس پر ٹیک لگاتاہے اوربکریوں کیلئے پتے جھارتاہوں اوراس کے علاوہ دیگر ضروریات بھی اس سے پوری کرتاہوں۔
حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم نے باری طے کرلیاتھاایک دن کاروبار میں لگاتے تھے اوردوسرادن حضور کی خدمت میں حاضری دیتے تھے۔
صحابہ کرام کے ایسے متعدد واقعات ہیں کہ انہوں نے حضورپاک کے مہرنبوت کو بوسہ دیا۔صلح حدیبیہ کے موقع پر کفار کے ایلچی حضرت سہل یاسہیل نے کفار سے جاکر جب صحابہ کرام کی حضور سے شیفتگی کا ذکر کیاتوکہاکہ وہ جب بات کرتے ہیں تو سب ہمہ تن متوجہ ہوکر سنتے ہیں جب وہ تھوک پھینکتے ہیں تولوگ اس کو اپنے ہاتھوں پر مل لیتے ہیں اوراس طرح کی باتیں بیان کیں۔
جب آپ نے یہ سمجھ لیاتویہ سمجھنامشکل نہیں ہوگاکہ کسی انسان سے سب سےز یادہ قریب اورسب سے زیادہ ساتھ کون رہتاہے اس کی شریک حیات،رفیق سفر اوربیوی ہی کسی انسان کے سب سے زیادہ قریب رہتی ہے لہذا اگرعزیز الحسن مجذوب علیہ الرحمہ نے بیوی بننے کی خواہش کی تواس کا داعیہ یہی رہاہوگاکہ بیوی کو سب سے زیادہ قریب رہنے کا موقع ملتاہے لہذا مجھ کوبھی سب سے زیادہ قریب رہنے کا اس طورپر موقع ملے گا۔
یہ بات توہوئی کہ عزیز الحسن صاحب نے یہ بات کیوں کہی۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس طرح کی بات انسان وفور شوق میں کہہ جاتاہے جو عام حالات میں نہیں کہہ پاتا۔خوشی اورغم کی شدت میں انسان سے اس طرح کی باتیں ہوجایاکرتی ہیں لیکن وہ چونکہ غیراختیاری ہوتی ہیں لہذااس پر کوئی نہ کوئی شرعی داروگیر ہے نہ ہی اہل علم واہل فہم اس کو براسمجھتے ہیں۔
ایک حدیث ہے اورمسلم شریف کی حدیث ہے۔
" لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ حِينَ يَتُوبُ إِلَيْهِ، مِنْ أَحَدِكُمْ كَانَ عَلَى رَاحِلَتِهِ بِأَرْضِ فَلَاةٍ، فَانْفَلَتَتْ مِنْهُ وَعَلَيْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ، فَأَيِسَ مِنْهَا، فَأَتَى شَجَرَةً، فَاضْطَجَعَ فِي ظِلِّهَا، قَدْ أَيِسَ مِنْ رَاحِلَتِهِ، فَبَيْنَا هُوَ كَذَلِكَ إِذَا هُوَ بِهَا، قَائِمَةً عِنْدَهُ، فَأَخَذَ بِخِطَامِهَا، ثُمَّ قَالَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ: اللهُمَّ أَنْتَ عَبْدِي وَأَنَا رَبُّكَ، أَخْطَأَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ "
اللہ بندے کی توبہ سے جب کوئی بندہ توبہ کرتاہے تواتناخوش ہوتاہے جیساکہ کوئی شخص اس وقت خوش ہوتاہے جب وہ کسی ویران جگہ میں ہو اوراس کا کھاناپیناجس سواری پر ہو وہ اس سے غائب ہوگیاہو اور وہ ایک درخت کے سائے میں مایوسی کی حالت میں لیٹاہو اہو کہ اچانک اسے اپنی سواری اورکھاناپیناسب کچھ مل جائے تو وہ خوشی سے بول اٹھتاہے کہ اے اللہ تومیرابندہ ہے اورمیں تیرارب ہوں ۔اتنی خوشی ہوتی ہے کہ بے اختیار کچھ سے کچھ بول جاتاہے)
اس حدیث میں دیکھاجاسکتاہے کہ بندہ اگرکوئی خوشی کی حالت میں
اللھم انت عبدی واناربک بول دے تواس کو خوشی کی زیادتی کی وجہ سے محض غلطی قراردیاجائے گانہ کہ اس پر کوئی شرعی حکم لگایاجائے گا۔ یہی بات خواجہ عزیز الحسن مجذوب کے واقعہ میں بھی ہے کہ انہوں نے
شدت شوق میں یہ بات کہہ دی۔اس کا قرینہ خود اس واقعہ میں ع
شق کے جوش کا لفظ ہے۔لہذا اس واقعہ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہی کہاجائے گاکہ شدت عشق ومحبت میں خواجہ عزیز الحسن نے اپنی خواہش کی تعبیر میں غلطی کی ۔جیساکہ شدت خوشی وفرحت میں حدیث میں مذکور شخص نے بولنے میں غلطی کی ۔
لیکن اس سے گندے مطلب کشید کرلیناگندے دماغوں کا کام ہے۔ اچھے لوگ غلط واقعہ سے بھی اچھاپہلو نکال لیتے ہیں اورغلط ذہن ومزاج کے لوگ اچھے واقعہ سے بھی غلط مطلب نکال لیتے ہیں۔جیساکہ مبارک عظیم آبادی نے اپنے بے مثال شعر میں کہاہے۔
یہ غم کدہ ہے اس میں مبارک خوشی کہاں
غم کو خوشی بناکوئی پہلو نکال کے
اب دوسراپہلو یہ رہ جاتاہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی نے ثواب کی بات کہی۔
تومولانا اشرف علی تھانوی اورعزیز الحسن میں تعلقات جو تھے کیاوہ کسی دنیاوی وجہ سے تھے۔ دونوں میں کسی قسم کا دنیوی لین دین تھا ۔نہیں اورقطعانہیں بلکہ دینی تعلق تھا انہوں نے اپنی اصلاح کیلئے مولانا اشرف علی تھانوی سے رجوع کیاتھا اورمولانا اشرف علی تھانوی اگراس محبت پر جو محض دینی ہے ثواب کی بشارت سناتے ہیں تواس میں غلط کیا۔ اللہ کیلئے محبت رکھنے کیلئے ثواب کی بشارتیں توخود حدیث میں موجود ہیں۔
ایک بار ارشاد فرمایا میں نے ایک بار خواب دیکھا تھاکہ مولوی محمد قاسم صاحب عروس کی صورت میں ہیں اور میر ا ان سے نکاح ہوا ہے سو جس طرح زن وشوہرمیں ایک کو دوسرے سے فائدہ پہنچتا ہے اسی طرح مجھے ان سے او ر انہیں مجھ سے فائدہ پہنچا ہے
اس واقعہ کو شاہد نذیر ٹھیک سے سمجھ نہیں سکے ہیں۔
واقعہ صرف یہیں تک ہے کہ
میں نے ایک بار خواب دیکھا تھاکہ مولوی محمد قاسم صاحب عروس کی صورت میں ہیں اور میر ا ان سے نکاح ہوا ہے
اس کے بعد جوکچھ مولانا رشید احمد گنگوہی نے فرمایاہے
سو جس طرح زن وشوہرمیں ایک کو دوسرے سے فائدہ پہنچتا ہے اسی طرح مجھے ان سے او ر انہیں مجھ سے فائدہ پہنچا ہے
وہ خواب کی تعبیر ہے خواب کا حصہ نہیں ہے اوراس پر لفظ
"ہے"دلیل ہے۔اگر وہ خواب کی ہی بات ہوتی توفرماتے ہیں
اسی طرح مجھے ان سے او ر انہیں مجھ سے فائدہ پہنچا۔یعنی بغیر
"ہے"کے
خواب میں ایک انسان کچھ دیکھتاہے اس کی تعبیر کچھ اورہوتی ہے کیااس کو بیان کرنا غلط ہوجائے گا۔ امام ابوحنیفہ نے خواب دیکھاکہ میں رسول پاک کی ہڈیاں جمع کررہاہوں۔حالانکہ خواب بہترنہ تھالیکن تعبیر بہت بہتر تھی۔ اسی طرح اگرتعبیر کی کتاب پڑھنے کا موقع ملے توپائیں گے کہ بہت سارے خواب انتہائی قبیح اوربرے ہوتے ہیں لیکن ان کی تعبیر بہت اچھی ہوتی ہے۔
خواب کی تعبیر پر ایک کتاب ہے۔
قواعد تفسیر الاحلام ۔اس کے مصنف حنبلی عالم ہیں۔ آپ کی زبان میں کہیں تو چونکہ وہ حنبلی ہیں لہذا اہل حدیث ہیں۔مصنف کانام ہے۔
أبو العباس، شهاب الدين، ابن نعمة النابلسي، أحمد بن عبد الرحمن بن عبد المنعم بن نعمة بن سلطان بن سرور الحنبلي (المتوفى: 697هـ)
وہ اس کتاب میں مختلف چیزوں کے دیکھنے کی تعبیر بیان کرتے ہیں۔
اگرکوئی انسان یہ دیکھتاہے کہ وہ اپنے پستان سے دودھ یاشہدپی رہاہے یاکھانے کی کوئی چیز کھارہاہے تو اگر خواب دیکھنے والا کنواراہے تواس کی شادی ہوگی اوراگرشادی شدہ ہے تواس کے اولاد ہوگی۔ 1/444
ایک انسان خواب دیکھتاہے کہ وہ کسی دوسرے کے سینے پر بیٹھاہے اوراس کے بیٹھنےسے دوسرے کو تکلیف نہیں ہورہی ہے تواس کی تعبیر یہ ہوگی کہ اس کو کوئی منصب اورعہدہ ملے گا۔446
اسی طرح اگرانسان اپناشرم گاہ خواب میں دیکھتاہے تواس کی مختلف صورتوں میں اس کی کیاکیاتعبیر ہوگی۔ وہ بھی مصنف نے بیان کردی ہے۔دیکھئے۔
فصل: ذكر الْإِنْسَان: دَال على ذكره، وجاهه، وَولده، وَزَوجته، وَمَاله، ومعايشه، وحياته. فَمن رأى ذكره قَائِما، أَو طَويلا، أَو مليحا، - وَلم يكن مكشوفا عِنْد من لَا يَلِيق بِهِ كشفه عِنْدهم -: دلّ على الرّفْعَة، والمنزلة، وَولد يرزقه، وللأعزب: زَوْجَة، وللمريض: عَافِيَة، وغنى للْفَقِير، وَفرج لمن هُوَ فِي شدَّة، لكَون إنتشاره لَا يكون إِلَّا عِنْد فرَاغ الخاطر. فَإِن شرب مِنْهُ مَا يدل على النكد: كَانَ مَكْرُوها، وَأما إِن أكله كُله: كَانَ كَأَكْل الثديين. وَأما إِن نبت عَلَيْهِ ذكر آخر لَا يمْنَع نَفعه، أَو طلع عَلَيْهِ زرع أَو شجر وَلم يؤذه، فَذَلِك: أَوْلَاد، وفوائد، ورزق. وَأما إِن أضره ذَلِك: صَار رديا. وَقطع الذّكر: يدل على عكس ذَلِك. وَأما إِن انْقَطع فِي فرج امْرَأَة: حملت، أَو أخذت ولد الْمَذْكُور، أَو مَاله. قَالَ المُصَنّف: وَاعْتبر الْحَوَادِث فِي الذّكر. كَمَا قَالَ لي إِنْسَان: رَأَيْت أَن ذكري حَدِيد وَهُوَ قَائِم وَلَا أقدر أجامع بِهِ، قلت: يَقع بِهِ فالج أَو يزمن لَك ولد. وَقَالَ آخر: رَأَيْت ذكري وَعَلِيهِ بناية، قلت: يَمُوت لَك من تبني عَلَيْهِ مَكَانا. وَقَالَ آخر: رايت أَن ذكري يشرب من دم حَيَوَان، قلت: أَنْت جامعت فِي الْحيض أَو وطِئت دَابَّة، قَالَ: صَحِيح. وَقَالَ آخر: رَأَيْت أنني أكلت ذكري، قلت: احتجت حَتَّى بِعْت نوفرة بركَة. وَمثله قَالَ آخر، قلت: بِعْت ولدك وأكلت ثمنه. وَقَالَ آخر: رَأَيْت أَن ذكري فِي يَدي وَأَنا أكنس بِهِ القنى ومجاري الْمِيَاه، قلت: أَنْت تداوي النَّاس بالحقن النافعة. وَمثله قَالَ آخر غير أَنه تلوث بالوسخ، قلت: أَنْت كثير النِّكَاح، وَرُبمَا يكون أَكْثَره حَرَامًا. وَقَالَ آخر: رَأَيْت أَن معي ذُكُورا عدَّة وَالنَّاس يفزعون مِنْهَا، قلت: أَنْت تلعب بالحيات. وَقَالَ لي مزارع: رَأَيْت ذكري قد قطع، قلت: تنكسر الحديدة الَّتِي تحرث بهَا. وَقَالَ آخر - وَكَانَ كَاتبا -: رَأَيْت أَن ذكري قد ضَاعَ، قلت: يعْدم لَك قلم عَزِيز. وَمثله قَالَ كَحال، قلت يعْدم لَك ميل. وَمثله قَالَ آخر - وَكَانَ نجارا -، قلت: يذهب لَك مثقب. وَمثله قَالَ آخر، قلت: يعْدم لَك مِفْتَاح. وَقَالَ لي فَقير: رَأَيْت ذكري قد رَاح، قلت: يذهب لَك سواك. وَمثله قَالَ جندي، قلت: يعْدم لَك رمح كنت تطعن بِهِ. وَمثله قَالَ آخر، قلتك يروح لَك دبوس، فَكَانَ كَذَلِك.
قَالَ المُصَنّف: وَاعْتبر النكد من الْعَانَة والشارب وَنَحْوهمَا. كَمَا قَالَ لي إِنْسَان: رَأَيْت أَن عانتي قد طَالَتْ كثيرا، قلت: / يَقع بَيْنك وَبَين زَوجتك نكد. وَمثله قَالَت امْرَأَة، قلت: تفارقين الزَّوْج. وَمثله قَالَت امْرَأَة زَانِيَة، قلت: ترزقين تَوْبَة.
میں نے دانستہ ترجمہ نہیں کیاہے۔ کسی سے ترجمہ کرکے پڑھ لیں اوراگرگڈ مسلم صاحب عربی جانتے ہیں توخود بھی پڑھ لیں اورسمجھیں کہ کبھی خواب براہوتاہے اورتعبیر اس کی اچھی ہوتی ہے۔
تواگرخواب میں مولانا رشید احمد گنگوہی نے مولانا قاسم صاحب کو عروس کی صورت میں دیکھااوران سے نکاح ہوااوراس کی تعبیر یہ بیان کی کہ ان سے مجھ کو اورمجھ کو ان سے فائدہ پہنچاہے تواس میں شرم اورشرمناک کیاچیز ہوگئی یہ تومجھے سمجھ میں نہیں آیا ۔
دوسری بات حدیث پاک میں آتاہے۔
مُرَّ عَلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِمَعْنَى عُثْمَانَ، قَالَ: أَوَ مَا تَذْكُرُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ، عَنِ الْمَجْنُونِ الْمَغْلُوبِ عَلَى عَقْلِهِ حَتَّى يَفِيقَ، وَعَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّى يَحْتَلِمَ» ، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَخَلَّى عَنْهَا
سنن ابودائود رقم 4401
آپ کو چونکہ اطمینان البانی کا نام سن کر ہی ہوگا لہذا بتادوں کہ البانی صاحب نے بھی اس حدیث کو صحیح کہاہے۔
حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ
تین آدمی مرفوع القلم ہیں ان پر دینی دنیاوی کسی قسم کا کوئی حکم نہیں لگایاجاسکتانہ ان پرکوئی داروگیر کیاجاسکتاہے۔
مجنوں سے جب تکہ اس کو عقل نہ آجائے ۔سونے والے سے جب تک کہ وہ جاگ نہ جائے اوربچے سے جب تک کہ وہ بالغ نہ ہوجائے۔
اب یہ واقعہ مولانا رشید احمد گنگوہی اورمولانا قاسم صاحب کا خواب ہے اوراس خواب کے واقعہ سے احناف کو مطعون کرنے کی کوشش حدیث کی مخالفت ہوگی یانہیں ہوگی وہ اپنے دل سے پوچھ کر جواب دے دیں۔حدیث توکہہ رہی ہے کہ سونے والامرفوع القلم ہے اورشاہد نذیرصاحب کی خواب کے واقعہ پر خواہشات بیدارہوجاتی ہیں۔
شاہد نذیر صاحب کا اپنی عقل کے مطابق (جتنی اورجیسی عقل ہوگی اعتراض بھی ویساہی ہوگا)اعتراض یہ ہے کہ یہ شرمناک واقعہ بیان کیوں کیااگرخواب دیکھابھی تھا توبیان نہیں کرتے اوراگربیان کربھی دیاتھاتواحناف اس کو اپنی کتابوں میں بیان نہیں کرتے۔
اولاتویہ واقعہ شرمناک ہے ہی نہیں اورجتناواقعہ ہے اورجتناتعبیر ہے دونوں کو گڈمڈ کرکے اس کو شرمناک بنادیناان کا کارنامہ ہے۔ ان کے کارنامے سے ہم کیوں شرمندگی محسوس کریں؟
ثانیابات اگرشرمناک ہوبھی تومحض شرم کی وجہ سے چھپادی جائے یہ کوئی ضروری نہیں ہے۔ بلکہ اس میں خیال رکھاجاتاہے کہ اس کو پڑھنے والے خود ہی عاقل وبالغ ہوں گے۔ حدیث شریف میں جب ایک عورت نے اپنے شوہر کے ذکر کو
ہدبۃ الثوب سے تشبیہ دی تواس حدیث کے بعض طرق میں اس کے شوہر کے جوالفاظ ذکر کئے گئے ہیں کیااس کا کھلم کھلابیان قابل شرمناک نہیں ہے۔کون ساوہ اہل حدیث ہے جواس حدیث کو اپنے گھر کی خواتین کے سامنے بیان کرتاہے اوراس کی تشریح کرتاہے؟توکسی چیز کا شرمناک ہوناالگ شے ہے اورکسی چیز کا قابل بیان ہوناالگ شے ہے۔ (کوئی صاحب اپنے تنگ دماغ میں یہ شک وشبہ نہ پال لیں کہ مولانارشید احمد گنگوہی کے ملفوظات کا حضورپاک کی حدیث سے تقابل کیاجارہاہے ایک جزئی تشبیہ مراد ہے اوربس )شاہد صاحب کا خیال ہے کہ یہ واقعہ ان کو نہ بیان کرناچاہئے لیکن مولانا رشید احمد گنگوہی کاخیال ہوسکتاہے کہ اس واقعہ اوراس کی تعبیر کو بیان کرکے سننے والوں کو خواب کی ایک تعبیر بتادی جائے کہ کبھی خواب کیساہوتاہے اوراس کی تعبیر کیسی ہوتی ہے۔ضروری نہیں کہ ہرشخص شاہد نذیر کے ہی انداز میں سوچے اورجوشاہد نذیر صاحب سونچیں وہی درست اوربہتربھی ہو۔
اب ایک آخری بات یہ رہ گئی ہے کہ مولانا رشید احمد نے جو تعبیر بتائی اس کو ذراواضح کیاجائے۔مولانارشید احمد صاحب کی تعبیر ہے۔
سو جس طرح زن وشوہرمیں ایک کو دوسرے سے فائدہ پہنچتا ہے اسی طرح مجھے ان سے او ر انہیں مجھ سے فائدہ پہنچا ہے
مردوعورت کو ایک دوسرے سے کیافائدہے پہنچتے ہیں
مرد کو اولاد ملتاہے۔اورعورت کو قوام اورسرپرست نصیب ہوتاہے۔
مولاناقاسم صاحب نے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی۔ طلبائے علوم دینیہ نے جوق درجوق اس کی جانب رجوع کیا۔ اورجوطلباء دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوتے تھے وہ ایک سال کا دورہ حدیث مولانارشید احمد گنگوہی کے پاس جاکر بھی کیاکرتے تھے۔عمومی حالت یہی تھی ۔اس طرح دارالعلوم دیوبند کے واسطہ اورمولاناقاسم صاحب کی وجہ سے مولانارشید احمد گنگوہی کو روحانی اولاد نصیب ہوئی۔(اگرچہ ان کے درس میں دارالعلوم دیوبند کے قیام سے قبل بھی طلباء حدیث رہتے تھے لیکن اس میں مزید اضافہ دارالعلوم دیوبند کی وجہ سے ہوا۔
دوسری طرف مولانارشید احمد گنگوہی دارالعلوم دیوبند کے سرپرست تھے ان کی ذات سے دیوبند کو بلاواسطہ اوربالواسطہ مولاناقاسم صاحب کو فیض پہنچا۔
اس وضاحت کے بعد امید ہے کہ کسی معقول شخص کو یہ دونوں واقعات شرمناک نہیں لگیں گے اوراگرپھربھی شرمناک لگیں تواس کو علاج کراناچاہئے کسی چیز کی ازحد زیادتی علاج کی متقاضی ہوتی ہے۔
والسلام