شاہد نذیر
سینئر رکن
- شمولیت
- فروری 17، 2011
- پیغامات
- 2,013
- ری ایکشن اسکور
- 6,264
- پوائنٹ
- 437
اف ! یہ خواہشات
انسان کی بھی عجیب و غریب خواہشات ہوتی ہیں۔لیکن خواہشات جو بھی ہوں اس انسان کے کردار اور اس کی شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ایک عورت کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ دلہن بنے لیکن یہ خواہش کوئی قابل اعتراض خواہش نہیں کیونکہ عورت کی فطرت اور اس کے جذبات اس خواہش کا تقاضہ کرتے ہیں۔ لیکن جب ایک مرد دلہن بننے کی خواہش کرنے لگے تو یہ غیرفطری خواہش اس کی ہم جنس پرستی کا پول کھولنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔
کچھ مغربی ممالک اور انڈیا میں ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت اب کہیں جا کر حاصل ہوئی ہے۔جبکہ یہی خواہش ہم جنس پرست دیوبندی اکابرین اپنے دلوں ہی میں لئے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ خلوت میں تو یقیناًدیوبندی اکابرین نے اپنے یہ شوق خوب پورے کئے لیکن جلوت میں وہ اس خواہش کا کھل کر اظہار نہ کرپائے لیکن اظہار بھی مشکل ہے، کچھ کہہ بھی نہیں سکتے، مجبور ہیں اف اللہ! چپ رہ بھی نہیں سکتے کے مصداق اشاروں کنایوں میں اپنی دیرینہ خواہشات کا اظہار ضرور فرماگئے۔
ملاحظہ فرمائیں:
جوش محبت کا عجیب اظہار
ایک بار عشق کے جوش میں حضرت والا سے بہت جھجھکتے اور شرماتے ہوئے دبی زبان سے عرض کیاکہ حضرت ایک بہت ہی بے ہودہ خیال دل میں باربار آتا ہے جس کو ظاہر کرتے ہوئے بھی نہایت شرم دامن گیر ہوتی ہے اور جراء ت نہیں پڑتی۔ حضرت والا اس وقت نماز کے لئے اپنی سہ دری سے اٹھ کر مسجد کے اندر تشریف لے جارہے تھے فرمایا کہیے کہیے احقر نے غایت شرم سے سر جھکائے ہوئے عرض کیا کہ میرے دل میں باربار یہ خیال آتا ہے کہ میں عورت ہوتا حضور کے نکاح میں۔اس اظہار محبت پر حضرت والا غایت درجے مسرور ہوئے، بے اختیار ہنسنے لگے اور یہ فرماتے ہوئے مسجد کے اندر تشریف لے گئے ۔ یہ آپ کی محبت ہے ثواب ملے گا۔ ثواب ملے گا ۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ (اشرف السوانح صفحہ ۶۴)
انااللہ وانا علیہ راجعون! اندازہ کریں کہ دیوبندی اکابرین شرم و حیا ، عقل سلیم اور شریعت سے کیسے کورے ہیں کہ سائل کو خود یہ احساس ہے کہ یہ غیر فطری خیال جواس کے دل میں بار بار آتا ہے بے ہودہ ہے لیکن اس کے باوجود بھی ایسے بے ہودہ اور شرمنا ک خیال پر اشرف علی تھانوی صاحب اسے ثواب کی بشارت سنا رہے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ اشرف علی تھانوی صاحب بھی جانتے تھے کہ ان کے اکابر اغلام بازی کی بد عادت میں مبتلا تھے اس لئے وہ سائل کو کیسے یہ کہتے کہ تمہارے دل میں پیدا ہونے والی خواہش غیر فطری اور غلط ہے! ان اکابر پرستوں کے پاس اپنے اکابرین کے ہر غلط فعل کے دفاع کے علاوہ کوئی چارہ بھی تو نہیں۔ یہ بیچارے تو مجبور ہیں۔گلے میں اکابر پرستی کا جو ڈھول پڑا ہے اسے تو بجانا ہی پڑے گا۔
نوٹ: واقعے کو تحریر کرتے ہوئے کمال چالاکی سے کام لینے کی کوشش کی گئی ہے ۔ واقعہ میں لکھا ہے : ایک بہت ہی بے ہودہ خیال دل میں باربار آتا ہے۔ حالانکہ واقعہ کو پڑھنے سے پتا چلتا ہے کہ سائل کے دل میں باربار پیدا ہونے والا یہ خیال نہیں بلکہ اس کی خواہش ہے۔ خواہش کی جگہ خیال کا لفظ استعمال کرکے واقعے کی بے ہودگی کو کم کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔
ایک اور بے حیا واقعہ ملاحظہ فرمائیں:
ایک بار ارشاد فرمایا میں نے ایک بار خواب دیکھا تھاکہ مولوی محمد قاسم صاحب عروس کی صورت میں ہیں اور میر ا ان سے نکاح ہوا ہے سو جس طرح زن وشوہرمیں ایک کو دوسرے سے فائدہ پہنچتا ہے اسی طرح مجھے ان سے او ر انہیں مجھ سے فائدہ پہنچا ہے۔ (تذکرۃ الرشید صفحہ ۲۸۹)
سوچنے والی بات یہ ہے کہ کبھی نارمل مرد تو اس طرح کے خواب نہیں دیکھتا کہ اسکی دلہن عورت کے بجائے مرد ہو۔ اور اگر کبھی دیکھ بھی لے تو اسے بیان نہیں کرتا۔ لیکن دیوبندی اکابرین بھی عجیب مخلوق ہیں کہ دن دھاڑے لوگوں کے سامنے بھی ایک دوسرے کے اوپر لیٹ جاتے ہیں اور خواب میں بھی یہی کچھ دیکھتے ہیں۔ بلی کو خواب میں چھیچڑے ہی نظر آتے ہیں کے مصداق عام زندگی میں بھی اکابرین دیوبند لڑکوں سے منہ کالا کرواتے ہیں اور خواب میں بھی لڑکے انہیں اپنی دلہن بنے نظر آتے ہیں۔ مذکورہ بالا واقعہ میں زن و شوہر کی طرح دویوبندی مولویوں کا ایک دوسرے کو فیض پہنچنے کا اقرار بھی خواب میں ہونے والی پوری کاروائی کا حال سنا رہا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ میاں اور بیوی ایک دوسرے کو کیسے فیض پہنچاتے ہیں؟! آخر دیوبندیوں کا مذہب کے نام پر اپنے اکابرین کے ان سیاہ کرتوتوں کا تذکرہ کیا معنی رکھتا ہے؟؟؟!!! وہ ان حیاسوز اور شرمناک واقعات سے اپنی عوام کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟!
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔