اخت ولید
سینئر رکن
- شمولیت
- اگست 26، 2013
- پیغامات
- 1,792
- ری ایکشن اسکور
- 1,297
- پوائنٹ
- 326
’’آج کی دنیا ہمیں حقوق کا سبق پڑھاتی ہے۔یہ بہت بڑی غلطی ہے۔حالانکہ ہماری دنیا فرائض کی دنیا ہے۔ہمیں اللہ کے حضور حقوق کا نہیں فرائض کا جواب دینا ہے۔لہذا ساری زندگی غم، فرائض کا کھانا پڑے گا۔اللہ کے حضور عورت کھڑی کی جائے گی تو وہ شوہر،ساس،نند،دیورانی،جٹھانی کے رونے رونا شروع کرے گی۔اللہ تعالٰی اسے یہی کہیں گے نا کہ بی بی۔ ۔ تسلی رکھو۔یہ سب باری باری آ کر اپنا حساب چکائیں گے۔تم اپنی کہو۔ ۔ ۔ تم نے ان سب کے ضمن میں کیا کیا؟اس وقت حقوق کی ماری خاتون بھونچکی رہ جائے گی کہ ساری زندگی حقوق کے غم میں گزار دی۔یہاں تو سوال ہی دوسرا ہے۔بہتر ہے یہ بات آج سمجھ لی جائے۔فکر اپنے پرچے،اپنے سوالوں اپنے فرائض کی،کی جائے۔جیسے کمرۂ امتحان میں بچہ اس بات اک متحمل نہیں ہو سکتا کہ وہ ساتھ بیٹھے بچے کا پرچہ دیکھنے میں سارا وقت گزار دے اور واویلا کرتا رہے۔ ۔ ۔ٹیچر۔ ۔۔۔ دیکھیں۔یہ غلط جواب دے رہا ہے۔اس نے یہ سوال بھی غلط کر دیا،وہ بھی۔ ۔ ایسا بچہ دیوانہ ہی ہو گا۔اسے کہا جائے گا’’چپ کر کے اپنا پرچہ حل کرو‘‘ورنہ وقت گزر جائے گا اور تم فیل ہو جاؤ گے۔پھر یہ بھی کبھی نہ ہو گا کہ ساتھ والا بچہ سوال غلط کر دے تو یہ حضرت بھی پرچہ پھاڑ کر کمرۂ امتحان سے نکل جائیں۔لیکن عملی زندگی میں ہمارا رویہ یہی ہے۔ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر غللط جواب لکھنے کا مقابلہ جاری وساری رہتا ہے۔لہذا ہر فرد کے ہاتھ میں اس کے فرائض کی فہرست ہونی چاہیے۔آج کی دنیا میں ہر فرد نے اپنے حقوق کی فہرست تھام رکھی ہے اور نعرہ زن ہے۔عورت کے حقوق۔مزدوروں کے حقوق،بچوں کے حقوق،کسانوں کے حقوق۔ ۔ غرض حقوق کی لا منتہا گردان ہے۔حالانکہ اگر ہم آخرت پرایمان رکھتے ہیں تو ہر فرد کی کیفیت ہی کچھ اور ہوگی۔‘‘
عامرہ احسان کے کالم سے ایک اقتباس