• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرد الشیعہ الرافضہ ایمان ابو طالب

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ​
وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ
ایمان والا غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے​
سورہ بقرہ آیت 221 ، ترجمہ محمد جونا گڑھی​
یعنی مشرک جو ہے وہ انتہائی کم درجہ پر ہے وہ خیر پر نہیں​
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واسلم کا ارشاد ہے​
بعثت من خير قرون ابن آدم ، قرنا فقرنا ، حتى كنت من القرن الذي كنت فيه
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں (حضرت آدم سے لے کر) برابر آدمیوں کے بہتر قرنوں میں ہوتا آیا ہوں (یعنی شریف اور پاکیزہ نسلوں میں) یہاں تک کہ وہ قرن آیا جس میں میں پیدا ہوا۔​
صحیح بخاری ،کتاب المناقب ، حدیث نمبر : 3557 ،ترجمہ داؤد راز​
اب اس آیت مذکورہ اور حدیث پر غور و خوض کیا جائے ۔ آیت میں فرمایا گیا ہے کہ مشرک سے مومن غلام بہتر ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد سے پتہ چلا کہ میں خیر قرون سے ہوں۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ میں ایمان والوں کی پشت سے ہوں۔یہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ کافر نجس ہیں​
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا شجرہ نسب اس طرح بیان فرمایا ہے​
أَنا محمَّدُ بنُ عبدِ اللَّهِ بنِ عبدِ المطَّلبِ بنِ هاشمِ۔۔۔۔۔ الخ
یعنی حضرت عبدالمطلب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا ہیں اور خیر قرون میں شامل ہیں​
آئیں اب دیکھتے ہیں کہ جناب ابو طالب کے وفات سے پہلے آخری الفاظ کیا تھے​
قال أبو طالب آخر ما كلمهم : هو على ملة عبد المطلب
آخر ابوطالب کی آخری بات یہ تھی کہ وہ عبدالمطلب والی ملت پر ہیں۔​
صحیح بخاری ،کتاب الجنائز ، حدیث نمبر : 1360​
یعنی اپنی وفات سے پہلے آخری الفاظ جو جناب ابو طالب نے ادا کئے ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ خیرقرون والوں کی ملت پر ہیں یعنی ایمان دار ہیں​
والسلام​
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
وہ لوگ جنہوں نے دنیاوی زندگی کو اخروی زندگی کے بدلے خریدا پس ان سے عذاب کی تخفیف نہ کی جائے گی اور نہ ہی انکی مدد کی جائے گی
پہلے آپ نے اس آیت کو یہودیوں کے لئے خاص کردیا
میں نے خاص نہیں کیا تھا بلکہ کہا تھا کہ آپ نے ترجمہ کیا تھا کہ وہ لوگ جو دنیاوہ زندگی خریدتے ہیں جس سے ثابت ہوتا تھا کہ عذاب کم نہ کرنے کی علت دنیاوی زندگی کو خریدنا ہے حالانکہ اصل میں یہودیوں کی بات کی گئی ہے اور دنیاوی زندگی کو خریدنا انکی ایک صفت بتائی گئی ہے اور عذاب ان یہودیوں کے لئے ثابت کیا گیا ہے پس اس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ عذاب کم نہ کرنے کی علت دنیاوی زندگی خریدنا ہے
دوسرا اس کو عام سمجھنے کی صورت میں بھی میں نے جواب دے دیا تھا اور اسکی وضاحت محترم جواد بھائی نے بھی اچھی طرح کر دی ہے


اور اب
فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ
پس انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہ دے گی
سورہ مدثر آیت 48 ترجمہ محمد جوناگڑھی
(نوٹ : یاد رہے کہ ہم یہاں ابو طالب کے عذاب میں کمی والی روایت کا جائزہ لے رہیں)
اس آیت میں آپ نفع کا معنی یہ لے رہے ہیں کہ جہنم سے آزادی نہ کہ عذاب میں تخفیف لیکن صحیح بخاری کی حدیث میں بھی نفع کا ذکر ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ "آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا کو کوئی نفع پہنچایا " اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ نفع سے مراد تو جنت کا حصول اور جہنم سے آزادی ہے میں نے اپنے چچا کوئی نفع نہیں پہنچایا بلکہ نفع پنہچانے کے سوال پر فرمایا کہ " وہ صرف ٹخنوں تک آگ میں ہیں میں نہ ہوتا تو وہ دوزخ کے نچلے طبقہ میں ہوتے "
یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب جناب ابو طالب کو نفع پہنچانے کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ ہاں میں نے جناب ابو طالب کو نفع پہنچایا اور اس عذاب کے تخفیف کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نفع میں ہی شمار کیا

آپ کو کون سمجھائے کہ میں نے قرآن کے تحت نفع کا مفہوم قرآن سے ثابت کیا تھا اسکو رد کرنے کی ہمت تو نہیں ہوئی اور آپ نفع کا مفہوم حدیث میں جو آیا ہے اسکو بنیاد بنا رہے ہیں تو ذرا بتائیں کہ قرآن میں جب یہ آیت نازل ہوئی کہ الذین امنوا ولم یلبسوا ایمانھم بظلم تو صحابہ نے ظلم سے عام سمجھ میں آنے والا مفہوم مراد لیا تھا مگر قرآن کا مفہوم اور تھا اسی طرح حتی یتبنن لکم الخیط الابیض-- والی آیت میں صحابی کا مفہوم کچھ اور تھا مگر قرآن کا مفہوم اسکے اپنے پیرا گراف میں لیا جائے گا اگر وہاں نہ ہو تو پھر اگلی باری آئے گی


اس کے علاوہ صحیح مسلم کے الفاظ درجہ ذیل ہیں
عنِ العباسِ بنِ عبدِالمطلبِ ؛ أنه قال : يا رسولَ اللهِ ! هل نفعتَ أبا طالبٍ بشيءٍ، فإنهُ كان يحوطُكَ ويغضبُ لكَ ؟ قال نَعَمْ . هوَ في ضَحْضَاحٍ منْ نارٍ . ولولا أنا لكان في الدركِ الأسفلِ من النارِ .
اس حدیث میں جناب ابو طالب کو نفع پہنچانے کے سوال پر آپ کا یہ فرمانا کہ نَعَمْ یعنی ہاں اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک نفع پہنچانے سے مراد عذاب میں تخفیف بھی ہے ۔

یہاں بھی وہی پرانی حق کو باطل سے گڈ مڈ کرنے والی عادت دکھا گئے
ایک ہے سفارش کرنا اور ایک ہے وجہ بننا-تو ابوطالب کی سفارش تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہیں کر سکتے اس پر پہلے بھی بتایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طالب سے کہا کہ کلمہ پڑھ لیں تاکہ میں سفارش کے قابل ہوں جاؤں مگر انھوں نے کہا کہ میں آپکی آنکھیں ٹھنڈی اس معاملہ میں نہیں کر سکتا-پس اس سے واضح ثابت ہوتا ہے کہ آپ سفارش نہیں کریں گے
البتہ اس سے اسکا انکار نہیں آتا کہ اللہ تعالی ابو طالب کے کسی اچھے عمل سے اسکے عذاب میں تخفیف نہیں کر سکتا اور اس عمل کا تعلق محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے پس وہ کام بغیر سفارش کے ہوا اور ابو طالب کے عمل کی وجہ سے ہوا البتہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وجہ بنے فانی توفکون



اب آتے ہیں اگلے نقطے کی طرف کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
پس انہیں (یعنی کافروں کو)سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہ دے گی
سورہ مدثر آیت 48 ترجمہ محمد جوناگڑھی
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کافروں کو سفارش کرنے والے سفارش بھی فائدہ نہیں دے گی لیکن جناب ابو طالب کو سفارش کرنے والے کی سفارش فائدہ دے رہی ہے اہل سنت کی صحیح روایات کے مطابق اس لئے ثابت ہوا کہ جناب ابو طالب ایمان دار تھے
والسلام

ایک تو فائدہ کا مفہوم کا تعین بھی ثابت نہیں کر سکے اور دوسرا کون کہ رہا ہے کہ ابو طالب کو سفارش نے فائدہ دیا انکو تو انکے عمل نے فائدہ دیا اب تو لوگوں کو بات گڈ مڈ کر کے پیش کرنا چھوڑ دیں
بہرام
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ ایمان والا غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے​
یعنی مشرک جو ہے وہ انتہائی کم درجہ پر ہے وہ خیر پر نہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واسلم کا ارشاد ہے بعثت من خير قرون ابن آدم ، قرنا فقرنا ، حتى كنت من القرن الذي كنت فيه
میں (حضرت آدم سے لے کر) برابر آدمیوں کے بہتر قرنوں میں ہوتا آیا ہوں (یعنی شریف اور پاکیزہ نسلوں میں) یہاں تک کہ وہ قرن آیا جس میں میں پیدا ہوا۔​
صحیح بخاری ،کتاب المناقب ، حدیث نمبر : 3557 ،ترجمہ داؤد راز​
اب اس آیت مذکورہ اور حدیث پر غور و خوض(فیتبعون ما تشابہ کے تحت-عبدہ) کیا جائے ۔ آیت میں فرمایا گیا ہے کہ مشرک سے مومن غلام بہتر ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد سے پتہ چلا کہ میں خیر قرون سے ہوں۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ میں ایمان والوں کی پشت سے ہوں۔یہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ کافر نجس ہیں
یعنی حضرت عبدالمطلب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا ہیں اور خیر قرون میں شامل ہیں آئیں اب دیکھتے ہیں کہ جناب ابو طالب کے وفات سے پہلے آخری الفاظ کیا تھے​
قال أبو طالب آخر ما كلمهم : هو على ملة عبد المطلب
آخر ابوطالب کی آخری بات یہ تھی کہ وہ عبدالمطلب والی ملت پر ہیں۔​
صحیح بخاری ،کتاب الجنائز ، حدیث نمبر : 1360​
یعنی اپنی وفات سے پہلے آخری الفاظ جو جناب ابو طالب نے ادا کئے ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ خیرقرون والوں کی ملت پر ہیں یعنی ایمان دار ہیں​

ایک لطیفہ یاد آ گیا کہ کسی گاؤں میں ایک چالاک عورت کا دیندار بیٹا زید کافی جائداد چھوڑ کر مر گیا وہ عورت ساری جائداد ہتھانا چاہتی تھی زید کے بچے چونکہ دیندار تھے تو انکو کسی مولوی سے ہی قائل کرایا جا سکتا تھا پس وہ عورت اپنی طرح کے مولوی کے پاس گئی اور کہا کہ یہ مسئلہ ہے اس مولوی نے کہا کوئی مسئلہ ہی نہیں جو مرضی ثابت کرواؤ بس اگلا جاہل ہونا چاہئے- مولوی عورت کے ساتھ اولاد کے پاس گئی تو مولوی نے سورہ لھب پڑھی اور کچھ اس طرح ترجمہ کیا
ما اغنی عنہ (جو غنی ہوتے ہیں) مالہ (انکا مال) وما کسب (وہ ماں کا سب)
یعنی چونکہ اسکا بیٹا غنی تھا اسلئے اسکا مال سارا ماں کا ہے

میں یہ تو نہیں کہتا کہ آپ گرائمر سے کورے ہیں البتہ اپنی مرضی کی
چیز ہی نظر آتی ہے باقی دکھانی پڑتی ہے
ویسے تو قرآن و حدیث کے مفہوم اپنی مرضی سے طے نہ کرنے پر پچھلی پوصت میں بتا چکا ہوں جیسے ظلم کا معنی ہم کچھ اور سمجھتے ہیں مگر قرآن کے پیراگراف میں ظلم کو ظلم عظیم کے مترادف لیا گیا ہے پس قرآن کے الفاظ قطعی الدلالت نہیں یہ پہلے بھی بتا چکا ہوں
دوسرا گرائمر کی رو سے کچھ لفظوں میں ابہام ہوتا ہے جس کے لئے تمیز لائی جاتی ہے مثلا جب ہم کہیں کہ طاب علی تو ابہام ہے کہ علما او ابا او خلقا- اسی طرح اکثر، اشد، خیر(اخیر) میں بھی ابہام ہوتا ہے جسکے تعین کے لئے تمیز لائی جاتی ہے اب کبھی تو تمیز موجود ہوتی ہے جیسے ھو اشد منہ قوۃ و اکثر جمعا اور کبھی قرینہ ہونے کی وجہ سے محذوف بھی ہوتی ہے جیسے والفتنۃ اشد من القتل-
اب قرآن کی آیت ہے کہ یخشون الناس کخشیۃ اللہ او اشد خشیۃ اب اگر آخری خشیۃ جو اشد کی تمیز ہے اگر حذف بھی ہو تو پیچھے قرینہ موجود ہے جس سے اسکے مفہوم کا تعین کیا جا سکتا یے اسی طرح شیطان کی بات کہ انا خیر منہ خلقتنی من نار و خلقتنی من طین میں خیر کا کوئی اور مفہوم ہے

آپ کے خیر کا مفہوم پر اعتراض

اسی طرح اگر خیر سے مراد مسلمان لیتے ہیں تو پھر مسلمان کے پاس تو خیر آگئی پھر قرآن میں یہ کیوں کہا ہے کہ
وان تصدقوا خیر لکم- وان تصبروا خیر لکم وغیرہ یعنی جو صدقہ نہیں کرتا تو وہ خیر نہیں اور چونکہ خیر نہیں تو آپ کے تزدیک مسلمان نہیں فکیف تحکمون

ویسے عرض ہے کہ بخاری میں خالی ایک آپ والی حدیث نہیں بلکہ اور بھی کئی احادیث موجود ہیں مثلا


الله اصطفى كنانة من ولد إسماعيل، واصطفى قريشا من كنانة، واصطفى من قريش بني هاشم، واصطفاني من بني هاشم



دوسرا فتح الباری میں قرن کی وضاحت میں لکھا ہے القرن الطبقة من الناس المجتمَعين في عصر واحد
پس قرن میں آپکا تمام قبیلہ آئے گا جو عزت کے لحاظ سے اعلی ہے پس پورے قبیلے کو مسلمان کرنا پڑے گا جس میں ابراھیم کے باپ بھی آتے ہیں
جہاں تک کافر کے نجس ہونے کی بات ہے تو نجس اور خیر کا جب صحیح مفہوم لیں تو ان میں اختلاف نہیں مگر مزید ڈوز ضرورت پر یا ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق دی جائے گی
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425

اس آیت میں آپ نفع کا معنی یہ لے رہے ہیں کہ جہنم سے آزادی نہ کہ عذاب میں تخفیف


الذین امنوا ولم یلبسوا ایمانھم بظلم میں صحابہ نے عام ظلم سمجھا تھا مگر قرآن نے ان الشرک لظلم عظیم کے تحت ظلم سے مراد سب سے بڑا ظلم یعنی شرک لیا تھا
اسی طرح آپ نے نفع سے عام نفع مراد لیا مگر میں نے لہا کہ قرآن کی آیت فمن زحزح عن النار و ادخل الجنۃ فقد فاز کے تحت سب سے بڑا نفع یعنی جہنم سے چھٹکارا مراد ہے
اب بتائیں کس کی بات ٹھیک ہے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ​
وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ
ایمان والا غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے​
سورہ بقرہ آیت 221 ، ترجمہ محمد جونا گڑھی​
یعنی مشرک جو ہے وہ انتہائی کم درجہ پر ہے وہ خیر پر نہیں​
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واسلم کا ارشاد ہے​
بعثت من خير قرون ابن آدم ، قرنا فقرنا ، حتى كنت من القرن الذي كنت فيه
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں (حضرت آدم سے لے کر) برابر آدمیوں کے بہتر قرنوں میں ہوتا آیا ہوں (یعنی شریف اور پاکیزہ نسلوں میں) یہاں تک کہ وہ قرن آیا جس میں میں پیدا ہوا۔​
صحیح بخاری ،کتاب المناقب ، حدیث نمبر : 3557 ،ترجمہ داؤد راز​
اب اس آیت مذکورہ اور حدیث پر غور و خوض کیا جائے ۔ آیت میں فرمایا گیا ہے کہ مشرک سے مومن غلام بہتر ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد سے پتہ چلا کہ میں خیر قرون سے ہوں۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ میں ایمان والوں کی پشت سے ہوں۔یہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ کافر نجس ہیں​
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا شجرہ نسب اس طرح بیان فرمایا ہے​
أَنا محمَّدُ بنُ عبدِ اللَّهِ بنِ عبدِ المطَّلبِ بنِ هاشمِ۔۔۔۔۔ الخ

یعنی حضرت عبدالمطلب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا ہیں اور خیر قرون میں شامل ہیں​

آئیں اب دیکھتے ہیں کہ جناب ابو طالب کے وفات سے پہلے آخری الفاظ کیا تھے​
قال أبو طالب آخر ما كلمهم : هو على ملة عبد المطلب
آخر ابوطالب کی آخری بات یہ تھی کہ وہ عبدالمطلب والی ملت پر ہیں۔​
صحیح بخاری ،کتاب الجنائز ، حدیث نمبر : 1360​
یعنی اپنی وفات سے پہلے آخری الفاظ جو جناب ابو طالب نے ادا کئے ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ خیرقرون والوں کی ملت پر ہیں یعنی ایمان دار ہیں
والسلام​
ابو طالب کا بھائی ابو لہب بھی اسی نسل (یعنی خیر قرون) سے تھا لیکن الله نے اس کا نام لے کر اس پر لعنت بھیجی اور اس کو عذاب علیم کی خوشخبری دی (سوره لہب)- کیا وہ خیرقرون میں نہیں تھا؟؟؟ کیا وہ عبدِ المطَّلبِ بنِ هاشمِ کے مذہب پر نہیں تھا ؟؟؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
آخری بات جو جناب ابو طالب نے فرمائی وہ یہ تھی کہ
"میں عبد المطلب کے دین پر ہوں "
اب اگر آپ نے یہ ثابت کرنا ہے تو آپ کو ثابت کرنا پڑے گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا دین ابراھیمی پر نہ تھے اور دوسری بات یہ کہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ
وہ لوگ جنہوں نے دنیاوی زندگی کو اخروی زندگی کے بدلے خریدا پس ان سے عذاب کی تخفیف نہ کی جائے گی اور نہ ہی انکی مدد کی جائے گی

اور ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا ہے
عنِ العباسِ بنِ عبدِالمطلبِ ؛ أنه قال : يا رسولَ اللهِ ! هل نفعتَ أبا طالبٍ بشيءٍ، فإنهُ كان يحوطُكَ ويغضبُ لكَ ؟ قال نَعَمْ . هوَ في ضَحْضَاحٍ منْ نارٍ . ولولا أنا لكان في الدركِ الأسفلِ من النارِ .

الراوي: العباس بن عبدالمطلب المحدث: مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 209
خلاصة حكم المحدث: صحيح

اور ایسی طرح کی روایت صحیح بخاری میں بھی بیان ہوئی
یعنی اللہ تعالیٰ جناب ابو طالب کی مدد کرتے ہوئے ان کے عذاب میں تخفیف کردے گا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کی وجہ سے
کچھ تو دال میں کالا ہے
اگر دال میں کچھ کالا ہے تو اس کو باہر تو لے آؤ تا کہ سب کو پتہ چل جاے
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
یعنی حضرت عبدالمطلب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا ہیں اور خیر قرون میں شامل ہیں
آئیں اب دیکھتے ہیں کہ جناب ابو طالب کے وفات سے پہلے آخری الفاظ کیا تھے
قال أبو طالب آخر ما كلمهم : هو على ملة عبد المطلب
آخر ابوطالب کی آخری بات یہ تھی کہ وہ عبدالمطلب والی ملت پر ہیں۔
صحیح بخاری ،کتاب الجنائز ، حدیث نمبر : ١٣٦٠
یعنی اپنی وفات سے پہلے آخری الفاظ جو جناب ابو طالب نے ادا کئے ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ خیرقرون والوں کی ملت پر ہیں یعنی ایمان دار ہیں
والسلام
رسول الله صلی الله عليه وسلم لأبي طالب يا عم قل لا إله إلا الله کلمة أشهد لک بها عند الله فقال أبو جهل وعبد الله بن أبي أمية يا أبا طالب أترغب عن ملة عبد المطلب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطالب کو خطاب کر کے کہا اے میرے چچا جان آپ ( لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ) کہہ دیجئے میں اللہ کے نزدیک اس کلمہ کی شہادت دوں گا۔ ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ نے کہا اے ابوطالب کیا تم عبدالمطلب کے دین سے پھر جاوگے؟؟؟۔۔۔ (صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر ١٢٨٥)۔۔۔
اس طرح تو یہ ابوجہل اور عبداللہ بن اُمیہ بھی خیرقرون میں شامل ہیں۔۔۔
اور ان دونوں نے ہی ابوطالب سے پوچھا؟؟؟۔۔۔ یعنی یہ افراد بھی عبدالمطلب کے دین پر تھے۔۔۔
خیر علی بہرام اتنی ہی محنت اگر کسی مثبت کام میں لگا دیا کرو تو شاید تھوڑا نفع کما لو۔۔۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
ایک تو فائدہ کا مفہوم کا تعین بھی ثابت نہیں کر سکے اور دوسرا کون کہ رہا ہے کہ ابو طالب کو سفارش نے فائدہ دیا انکو تو انکے عمل نے فائدہ دیا اب تو لوگوں کو بات گڈ مڈ کر کے پیش کرنا چھوڑ دیں
بہرام
پہلی بات یہ کہ فائدہ یا نفع کی کی تشریح میری یا صحابہ کی نہیں بلکہ یہ تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے جو آپ کے لئے حجت ہے کیونکہ یہ صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں بیان ہوئی

وأبيض يستسقى الغمام بوجهه
ثمال اليتامى عصمۃ للأرامل

(ترجمہ) گورا رنگ ان کا، وہ حامی یتیموں، بیواؤں کے لوگ ان کے منہ کے صدقے سے پانی مانگتے ہیں۔
صحیح بخاری ، کتاب استسقاء ،حدیث نمبر : 1009
یہ اشعار جناب ابو طالب کے ہیں جو صحیح بخاری میں بیان ہوئے ان اشعار پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ کسی ایمان والے کے اشعار ہیں لیکن آج کے وہابی اس بات کے منکر ہیں تو سوال تو وہابیوں کے ایمان پر اٹھانا چاہئے نہ کہ جناب ابو طالب کے ایمان پر
دوسری بات یہ کہ کیا کافر کا نیک عمل اس کو آخرت میں فائدہ دے سکتا ہے ؟؟؟؟

اور وہ لوگ آپ ے غم میں نہ ڈال دیں جو کفر کی طرف دوڑتے ہیں وہ الله کا کچھ نہیں بگاڑیں گے الله ارادہ کرتا ہے کہ آخرت میں انہیں کوئی حصہ نہ دے اوران کے لیے بڑا عذاب ہے
آل عمران
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
ابو طالب کا بھائی ابو لہب بھی اسی نسل (یعنی خیر قرون) سے تھا لیکن الله نے اس کا نام لے کر اس پر لعنت بھیجی اور اس کو عذاب علیم کی خوشخبری دی (سوره لہب)- کیا وہ خیرقرون میں نہیں تھا؟؟؟ کیا وہ عبدِ المطَّلبِ بنِ هاشمِ کے مذہب پر نہیں تھا ؟؟؟
اس کے لئے آپ کو دلیل دینی پڑی گی کہ ابولہب نے بھی وہی الفاظ ادا کئے ہوں جو جناب ابوطالب نے ادا کئے اور پھر ابو لہب کا کفر دوسرے قرائن سے ثابت ہے اس لئے کوئی دلیل دینا عبث ہوگا
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
رسول الله صلی الله عليه وسلم لأبي طالب يا عم قل لا إله إلا الله کلمة أشهد لک بها عند الله فقال أبو جهل وعبد الله بن أبي أمية يا أبا طالب أترغب عن ملة عبد المطلب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطالب کو خطاب کر کے کہا اے میرے چچا جان آپ ( لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ) کہہ دیجئے میں اللہ کے نزدیک اس کلمہ کی شہادت دوں گا۔ ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ نے کہا اے ابوطالب کیا تم عبدالمطلب کے دین سے پھر جاوگے؟؟؟۔۔۔ (صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر ١٢٨٥)۔۔۔
اس طرح تو یہ ابوجہل اور عبداللہ بن اُمیہ بھی خیرقرون میں شامل ہیں۔۔۔
اور ان دونوں نے ہی ابوطالب سے پوچھا؟؟؟۔۔۔ یعنی یہ افراد بھی عبدالمطلب کے دین پر تھے۔۔۔
خیر علی بہرام اتنی ہی محنت اگر کسی مثبت کام میں لگا دیا کرو تو شاید تھوڑا نفع کما لو۔۔۔
نہیں ایسا نہیں بلکہ ابو جہل اور ابن امیہ کا کفر دوسرے کئی ناقبل تردید قرائن سے ثابت ہے اس لئے ان کے لئے ایسا گمان کرنا ہی غلط ہے
 
Top