اسلام اعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اگر آپ لوگ اجازت دیں میں یہ کتاب ٹائیب کر کے یہاں پوسٹ کر سکتا ہوں
اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔۔ یقینا ایک اچھا کام ہے ۔۔
خرم شہزاد بھائی کی کتاب کا مارکیٹ سے ملنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔
کیونکہ یہ کتاب اگر چہ مطبوع ہے لیکن جہاں تک مجھے یاد پڑہتا ہے یہ کتاب کسی مکتبہ وغیرہ کی جانب سے نہیں چھاپی گئی ۔۔ بلکہ اس کتاب کو چھپوانے میں شاید ان کی اپنی ذاتی کوشش و کاوش کا ہاتھ ہے۔۔
مجھے کچھ عرصہ خرم بھائی سے تبادلہ خیالات کا موقعہ ملا ہے ۔۔ انہوں نے یہ کتاب اس وقت مجھے دی تھی ۔۔
کئی دفعہ میرے ذہن میں آیا کہ ان کے حوالے سے کچھ باتیں قلمبند کروں لیکن کسی خاص وجہ سے نہ لکھ سکا ۔۔ اب چونکہ بات چل نکلی ہے تو کچھ باتیں لکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔
ابومحمد خرم شہزاد حفظہ اللہ ماشاء اللہ نہایت محنتی آدمی ہیں ۔۔ دن کو بطور مینیجر کام کرتے ہیں اور رات کو اپنا ذوق تالیف و تحقیق پورا کرتے ہیں ۔۔ زبیر علی زئی صاحب اور مبشر احمد ربانی صاحب اور دیگر علماء سے مسائل میں رہنمائی بھی لیتے رہتے ہیں ۔۔
رمضان سے کچھ دیر پہلے ان کی دو کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہیں ، جو انہوں نے مجھے بھیجیں تھیں اللہ ان کو جزائے خیر دے وہ کتابیں میں سعودیہ ساتھ لے کر آیا ہوں ، ان کا مختصر تعارف کچھ یوں ہے :
١۔
الصحيفة في الأحاديث الضعيفة من سلسلة الأحاديث الصحيحة للألباني
اس کتاب پر زبیر علی زئی صاحب اور مبشر احمد ربانی صاحب نے نظر ثانی کی ہے ۔ مکتبہ اسلامیہ لاہور والوں نے چھاپی ہے ۔
اس کتاب میں جیساکہ نام سے ظاہر ہے ، شیخ البانی رحمہ اللہ کے سلسلۃ صحیحہ سے کچھ احادیث کو ضعیف ثابت کیا گیا ہے ۔ اور بنیاد وہی مسئلہ ہے جو آج کل مشہور ہے کہ حسن لغیرہ حجت ہے کہ نہیں ؟
زبیر علی زئی حفظہ اللہ اس کتاب پر تقدیم میں ایک جگہ لکھتے ہیں :
ہمارے دوست جناب ابو محمد خرم شہزاد صاحب نے اپنی استطاعت کے مطابق شیخ البانی رحمہ اللہ کی کتاب سلسلہ صحیحہ کا مطالعہ کیا تو کئی روایات کو تحقیق کے بعد ضعیف پایا ، جن میں سے پچاس روایتیں اس مجموعہ میں پیش خدمت ہیں ۔ راویوں پر کلام وغیرہ میں ان سے بعض مقامات پر اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ الصحیفہ فی الأحادیث الضعیفہ میں مذکور تمام روایات اپنے تمام شواہد و متابعات کے ساتھ ضعیف ہی ہیں اور انہیں صحیح یا حسن قرار دینا غلط ہے ۔ ( ص٨ )
آخر میں لکھتے ہیں :
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ خرم شہزاد کو سلف صالحین کے فہم کے مطابق کتاب وسنت و اجماع و آثار کی دعوت پھیلانے اور اس پر ہمیشہ عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ ( ص ٩ )
استاد محترم مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ نے بھی اس کتاب کے لیے مقدمہ لکھا ہے وہ حسن لغیرہ کے متعلق اور شیخ البانی کے تعارف کے حوالے سے کچھ باتیں کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
زیر نظر کتاب ان کی ( شیخ البانی ) سلسلہ صحیحہ پر ایک نظر ہے ، مؤلف اگرچہ علماء کی صف کے آدمی نہیں ہیں لیکن علمی ذوق نے انہیں اس دہلیز پر پہنچایا ہے کہ انہوں نے سلسلہ صحیحہ میں سے بعض روایات کی نشاندہی کی جو ان کی نظر میں صحیح نہیں ہیں ۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ جن روایات کا چناؤ انہوں نے کیا ہے اور رواۃ پر کلام کیا ہے یہ بھی شیخ البانی رحمہ اللہ کی کاوش کا حصہ ہیں ۔کیونکہ ان اسانید اور ان کی علل ارو رجال پر کلام خود شیخ البانی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے اور انہیں شیخ نے تعدد طرق کی بنا پر صحیحہ میں درج کیا ہے جو کہ ان کا مشہور ضابطہ ہے ، اور روایات کی صحت و ضعف میں میں اہل علم میں اختلاف ہو جانا کوئی امر بعید نہیں ہے ۔ ہر کوئی أپنی کوشش و محنت کا ثمرہ پالیتا ہے بشرطیکہ اس کے عمل میں اخلاص موجود ہو ، شہرت و ناموری اور نمود و نمائش کو دخل نہ ہو ۔ خرم شہزاد بھائی علم حدیث کا بڑا ذوق رکھتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح جستجو میں لگے رہتے ہیں اور علمی مواد جمع کرتے رہتے ہیں ، اللہ تعالی ان کی بصیرت و آگہی میں اضافہ کرے اور انہیں کسی ماہر استاذ کے پاس بیٹھ کر حصول علم کا صحیح موقعہ فراہم کرے ۔ آمین ۔ (ص ١١، ١٢ )
انہوں نے کتاب کے شروع میں بذات خود بھی مقدمہ تحریر کیا ہے جس میں اپنا تعارف اور مختلف مسالک کے سفر کے حوالے سے کچھ باتیں ، اسی طرح انہوں نے اس کتاب کی تألیف کا سبب بھی بیان کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ :
انہوں نے اقبال کیلانی صاحب کا کتب کا سیٹ خریدا تھا اس میں زیادہ تر احکام میں علامہ البانی پر اعتماد کیا گیا ہے ۔۔ وہ کہتے ہیں بعض احادیث کے احکام پر نظر گزری تو دل مطمئن نہ ہوا ، لہذا انہوں نے تحقیق کی تو وہ روایات البانی رحمہ اللہ کی تحقیق کے خلاف ضعیف ثابت ہوئیں ۔
ایک جگہ پر لکھتے ہیں :
بیشک شیخ البانی رحمہ اللہ اس دور کے بہت بڑے عالم دین ، محقق اور محدث العصر تھے لیکن چونکہ وہ بھی انسان تھے لہذا بشری تقاضوں کی وجہ سے ان سے غلطیاں ہوئیں ہیں ۔۔ ( ص ١٧ )
پھر اس کے بعد علامہ البانی رحمہ اللہ کے تراجعات کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
بہر حال میں سمجھتا ہوں کہ محترم علمائے کرام کا یہ فرض ہے کہ شیخ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق کے علاوہ خود بھی ہر حدیث کی تحقیق کرکے پھر عوام الناس میں بیان کریں کیونکہ کتاب و سنت میں اور ہمارے سلف صالحین نے بغیر تحقیق کے حدیث رسول بیان کرنےکی مذمت کی ہے ۔(ص ١٧ )
پھر آگے چند صفحات میں اس حوالے سے احادیث اور اقوال علماء پیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
راقم الحروف نے حدیث کی تحقیق و تخریج کا علم محدثین کی کتب اور اپنے استاد محترم شیخ الحدیث ، محدث العصر حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ سے سیکھا ہے ، یعنی استاد محترم کی تصنیف کردہ کتابوں کا مطالعہ کرکے اور خطوط کے ذریعے اور بذریعہ فون اور ملاقات کرکے ، اللہ تعالی ان کے علم میں ، عمر میں اور رزق میں برکت عطا فرمائے اور انہیں دشمنوں کی شرارتوں سے محفو ظ فرمائے ارو مزید دین کی خدمت کرنےکی توفیق عطا فرمائے ( آمین )
اہل علم سے گزارش ہے کہ وہ اس کتاب پر تنقیدی نگاہ ڈالیں تاکہ اس میں جو غلطیاں اور خامیاں ہوں تو ان شاء اللہ اسے دوسے ایڈیشن میں درست کردیا جائے ، دعا ہے کہ اللہ تعالی اس کتاب کو شرف قبولیت سے نوازے اور میرے لیے آخرت میں نجات کا ذریعہ بنائے ۔ ( آمین ) (ص ٢٢ )
٢۔ دوسری کتاب ان کی ’’ نماز وتر کا مسنون طریقہ ‘‘ ہے جس کو ادارہ صبح روشن والوں نے شائع کیا ہے ۔۔ جس میں انہوں نے یہ موقف پیش کیا ہے کہ ایک سلام کے ساتھ تین وتر پڑہنا سنت رسول سے ثابت نہیں بلکہ اس میں وارد احادیث ضعیف ہیں ۔ اسی طرح وتر کے عدم وجوب اور دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے ۔۔۔۔ اس کے بارے میں کچھ تفصیل ان شاء اللہ پھر کسی دن پیش کروں گا ۔۔