• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ اعلم یا اللہ و رسولہ اعلم؟؟؟

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ عالم الغیب صرف الله کی ذات ہے اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ "نبی صلی اللہ علیہ نے مخلوق کی ابتدء سے لے کر انتہا بلکہ اس سے بھی آگے جنت اور جہنم میں جانے تک کا سارا احوال بتادیا اب اس میں کون سی بات رہ گئی جو آپ کے علم میں نا ہو"

جب کہ الله قرآن میں تو فرما رہا ہے -



يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي ۖ لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ ۚ سوره الاعراف ١٨٧
قیامت کے متعلق تجھ سے پوچھتے ہیں کہ اس کی آمد کا کونسا وقت ہے کہہ دو اس کی خبر تو میرے رب ہی کے ہاں ہے وہی اس کے وقت پر ظاہر کر دکھائے گا



يَسْأَلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللَّهِ ۚ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُونُ قَرِيبًا سوره الاحزاب ٦٥
آپ سے لوگ قیامت کے متعلق پوچھتے ہیں کہہ دو اس کا علم تو صرف الله ہی کو ہے اور اپ کو کیا خبر کہ شاید قیامت قریب ہی ہو



قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ سوره النمل ٦٥
کہہ دے الله کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی بھی غیب کی بات نہیں جانتا اور انہیں اس کی بھی خبر نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے-



ان آیات سے تو ظاہر ہو رہا ہے کہ الله کے نبی سب کچھ نہیں جانتے ابتدء سے لے کر انتہا تک -

صحیح حدیث میں ہے جبریل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ قیامت کب قائم ہوگی ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا تھا : جس سے سوال کیا جارہا ہے وہ قیامت کے بارہ میں سائل سے زيادہ علم نہیں رکھتا- (یعنی مجھے بھی جبریل علیہ السلام سے اس بارے میں زیادہ علم نہیں) - صحیح مسلم حدیث نمبر ( 8 ) ۔

کیا قیامت کا علم ابتدء سے انتہا میں شامل نہیں ؟؟؟
اس سارے مواد سے صرف یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ آپ اپنی قرآن کے بعد اصح ترین کتاب کی تردید کررہے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب قول ہے جو اس طرح ہے
صحیح بخاری
کتاب بدء الخلق
باب: اور اللہ پاک نے فرمایا
حدیث نمبر : 3192
وروى عيسى،‏‏‏‏ عن رقبة،‏‏‏‏ عن قيس بن مسلم،‏‏‏‏ عن طارق بن شهاب،‏‏‏‏ قال سمعت عمر ـ رضى الله عنه ـ يقول قام فينا النبي صلى الله عليه وسلم مقاما،‏‏‏‏ فأخبرنا عن بدء الخلق حتى دخل أهل الجنة منازلهم،‏‏‏‏ وأهل النار منازلهم،‏‏‏‏ حفظ ذلك من حفظه،‏‏‏‏ ونسيه من نسيه‏.‏
اور عیسیٰ نے رقبہ سے روایت کیا ، انہوں نے قیس بن مسلم سے ، انھوں نے طارق بن شہاب سے ، انھوں نے بیان کیا کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا ، آپ نے کہا کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر ہمیں وعظ فرمایا اور ابتدائے خلق کے بارے میں ہمیں خبر دی۔ یہاں تک کہ جب جنت والے اپنی منزلوں میں داخل ہو جائیں گے اور جہنم والے اپنے ٹھکانوں کو پہنچ جائیں گے (وہاں تک ساری تفصیل کو آپ نے بیان فرمایا) جسے اس حدیث کو یاد رکھنا تھا اس نے یاد رکھا اور جسے بھولنا تھا وہ بھول گیا۔​
اس حدیث کے بریکیٹ میں داؤد راز صاحب فرماتے ہیں ساری تفصیل بیان فرمادی​
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اس سے قبل آپ بار بار یہ فرما رہے تھے:

۔۔۔۔۔۔۔




جب آپ کی بار بار فرمائش پر اس کی درست تشریح پیش کی گئی تو آپ اسے غیرمتعلق قرار دیتے ہیں۔ عجیب۔
یہ درست تشریح کس طرح ہوسکتی ہے سلونی کی اس تشریح کو کرنے والے کا نام بھی آپ نہیں جانتے سلونی کی درست تشریح تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سوالات کے جوابات عنایت فرماکر بیان کردی ہے جبکہ آپ مجہول علماء کے قول کو صحیح تشریح کہہ رہے ہیں

پہلے تو یہ فرمائیے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک ہی خطاب میں مخلوق کی ابتداء سے لے کر انتہاء اور جنت و جہنم میں جانے تک کا سارا احوال بتا دیا جائے؟ وہ نشست دو چار گھنٹوں کی تھی یا دو چار صدیوں کی؟
دوسری بات یہ فرمائیے کہ کیا اس خطاب کے بعد قرآن کی کوئی آیت نازل ہوئی؟ اگر نہیں، تو ثبوت درکار ہے۔ اور اگر ہاں، تو پھر اس آیت کی خبر بھی کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے سے اسی خطاب میں دے چکے تھے؟ اگر ہاں، تو آیت کے نزول کی کیا ضرورت رہی؟ اور اگر نہیں، تو آپ کی کلی ٹوٹ گئی کہ خطاب میں سب کچھ آ گیا تھا۔
پھر یہ فرمائیے کہ اگر واقعی مان بھی لیا جائے کہ ایک ہی خطاب میں از ابتدائے کائنات تا قیام قیامت سب احوال سنا دئے گئے، تو کیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جنہوں نے یہ سب احوال سن لئے، اعلم نہیں بن گئے؟ تو آپ فقط اللہ و رسولہ اعلم ہی کیوں کہتے ہیں؟

اس خطاب کی حقیقت فقط اتنی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فقط بڑے بڑے فتنوں سے خبردار کر دیا تھا۔ نا یہ کہ ریت کا کون سا ذرہ کہاں سے اڑ کر کہاں تک پہنچے گا، اس کی خبر اگر دے بھی دی جاتی تو عبث ہوتی، نعوذباللہ۔
پہلے میں یہ عرض کردوں کہ ایک ہی خطاب میں سارے احوال بیان کرنے کا علم مجھے آپ کی قرآن کے بعد اصح ترین کتاب صحیح بخاری کے مطالعہ سے حاصل ہوا اس لئے آپ کا اعتراض صحیح بخاری پر ہے

دوسری بات یہ کہ ایسی حدیث کے بریکیٹ میں داؤد راز صاحب کہتے ہیں کہ

" ابتدائے خلق کے بارے میں ہمیں خبر دی۔ یہاں تک کہ جب جنت والے اپنی منزلوں میں داخل ہو جائیں گے اور جہنم والے اپنے ٹھکانوں کو پہنچ جائیں گے (وہاں تک ساری تفصیل کو آپ نے بیان فرمایا)"

یہاں لفظ ساری تفصیل پر غور کیا جائے کہ داؤد راز صاحب مانتے ہیں کہ ابتداء خلق سے لے جنتی اور جہنمی کے اپنے ٹھکانے پر پہنچنے کی ساری تفصیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمادی

پھر یہ بات کہ یہ سارے احوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ سے بیان فرمادئے تو صحابہ بھی اعلم بن گئے تو اس کے لئے عرض ہے کہ جن صحابہ نے یہ ساری تفصیل سن کر یاد رکھی وہ بھی اعلم ہیں اور جو بھول گئے وہ نہیں یہ بات بھی اس حدیث میں ہی بیان ہوئی ہے کچھ اس طرح سے
جسے اس حدیث کو یاد رکھنا تھا اس نے یاد رکھا اور جسے بھولنا تھا وہ بھول گیا۔
یہ ہے اس خطاب کی حقیقت صحیح بخاری کے مطابق کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساری باتیں تفصیل سے بیان فرمادیں
یہ بات آپ جیسے صاحب علم سے پوشیدہ نہیں ہوگی کہ یہ حدیث صحابہ میں سے کس صحابی رسول نے یاد رکھی اور انھوں نے بھیسلوني کا نعرہ لگایا !!!
اسی کو عالم الغیب ہونا کہتے ہیں۔
یہ فرمائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخلوق کی ابتداء سے انتہا کا علم خود ہی ذاتی طور پر حاصل تھا یا بذریعہ وحی اللہ کے بتانے سے حاصل ہوا؟
اگر ذاتی طور پر حصول مانیں، تو یہ شرک ہے۔
اگر عطائی طور پر ان کا علم ہونا مانیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتانے سے صحابہ کو بھی یہ سب معلوم ہو گیا، لہٰذا ان کو بھی اعلم یا عالم الغیب کی فہرست میں شامل کر لیں۔
کیا صحابہ کا یہ قول کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذیادہ جانتے ہیں سے صحابہ کی مراد یہ ہوتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالم الغیب ہیں تو پھر تو آپ کا یہ اعتراض درست ہے کہ اس قول صحابہ سے میں یہ مراد لے رہا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالم الغیب ہیں
اور اگر صحابہ کی یہ مراد ہوتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ نے ہرچیز کا علم عطاء کیا اور جس کا اعتراف آپ بھی فرماچکے ہیں کہ اللہ کی مخلوق میں جس کو اللہ نے سب سے ذیادہ علم عطاء کیا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں تو پھر یہ آپ کی بدگمانی ہے
جہاں تک بات ہے صحابہ کو بھی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ باتیں بتادیں تھی وہ بھی اعلم ہوئے تو اس کے میں پہلے ہی عرض کرچکا کہ

جن صحابہ نے یہ ساری تفصیل سن کر یاد رکھی وہ بھی اعلم ہیں اور جو بھول گئے وہ نہیں یہ بات بھی اس حدیث میں ہی بیان ہوئی ہے کچھ اس طرح سے
جسے اس حدیث کو یاد رکھنا تھا اس نے یاد رکھا اور جسے بھولنا تھا وہ بھول گیا۔
یہ ہے اس خطاب کی حقیقت صحیح بخاری کے مطابق کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساری باتیں تفصیل سے بیان فرمادیں
یہ بات آپ جیسے صاحب علم سے پوشیدہ نہیں ہوگی کہ یہ حدیث صحابہ میں سے کس صحابی رسول نے یاد رکھی اور انھوں نے بھیسلوني کا نعرہ لگایا !!!
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
اتنی لمبی چوڑی تحریر کی کیا ضرورت تھی بہرام صاحب!۔
بس دو چیزوں کی تشریح اپنے سوچ کے مطابق کردیجئے۔۔۔
پہلی علم دوسری غیب۔۔۔
پھر آگے بڑھتے ہیں ان شاء اللہ۔۔۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اتنی لمبی چوڑی تحریر کی کیا ضرورت تھی بہرام صاحب!۔
بس دو چیزوں کی تشریح اپنے سوچ کے مطابق کردیجئے۔۔۔
پہلی علم دوسری غیب۔۔۔
پھر آگے بڑھتے ہیں ان شاء اللہ۔۔۔
یاد رہے اس دھاگہ کا موضوع ہے اللہ و رسولہ اعلم اور یہ صحابہ کا قول ہے جن کی آپ پرستش کی حد تک عزت کرتے ہیں
اور اگر میں علم اور غیب کی تشریح کربھی دوں تو آپ نے یہی کہنا ہے کہ موضوع میں رہیں
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
یاد رہے اس دھاگہ کا موضوع ہے اللہ و رسولہ اعلم اور یہ صحابہ کا قول ہے جن کی آپ پرستش کی حد تک عزت کرتے ہیں
اور اگر میں علم اور غیب کی تشریح کربھی دوں تو آپ نے یہی کہنا ہے کہ موضوع میں رہیں
پوچھی گئی بات پر یہ الزام نہیں لگایا جاتا۔۔۔
ہاں اگر راہ فرار چاہئے تو مان لیتے ہیں۔۔۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
پوچھی گئی بات پر یہ الزام نہیں لگایا جاتا۔۔۔
ہاں اگر راہ فرار چاہئے تو مان لیتے ہیں۔۔۔
کیا میں آپ کو یہ بات مثال دے کر سمجھاؤں کہ کس طرح آپ اپنے پوچھے گئے سوال پر جب جواب دیا جاتا ہے تو پھرآپ کا ردعمل کیا ہوتا ہے ؟؟؟؟
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
کیا میں آپ کو یہ بات مثال دے کر سمجھاؤں کہ کس طرح آپ اپنے پوچھے گئے سوال پر جب جواب دیا جاتا ہے تو پھرآپ کا ردعمل کیا ہوتا ہے ؟؟؟؟
ابتسامہ بہرام صاحب ایسا نہیں ہے۔۔۔ اگر میں نے جواب نہیں دیا کسی موضوع میں تو اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہیں کہ میں نے ضروری نہیں سمجھا ہوگا،،،،
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
ابتسامہ بہرام صاحب ایسا نہیں ہے۔۔۔ اگر میں نے جواب نہیں دیا کسی موضوع میں تو اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہیں کہ میں نے ضروری نہیں سمجھا ہوگا،،،،
لگتا ہے مثال دینی ہی پڑے گی تاکہ بات آپ کی سمجھ میں آجائے ۔۔۔۔
ایسی دھاگے کی میری پوسٹ پوسٹ نمبر 22 کے جواب میں آپ کا ارشاد گرامی
اتنی لمبی چوڑی تحریر کی کیا ضرورت تھی بہرام صاحب!۔
بس دو چیزوں کی تشریح اپنے سوچ کے مطابق کردیجئے۔۔۔
یعنی جب جواب دیا جاتا ہے تو فرماتے ہیں کہ اس کی ضرورت ہی نہیں تھی یہ ہے وہ ردعمل جو آپ لی طرف سے آتا ہے
یہ ہے ابتسامہ کا صحیح موقع
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اس سارے مواد سے صرف یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ آپ اپنی قرآن کے بعد اصح ترین کتاب کی تردید کررہے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب قول ہے جو اس طرح ہے
صحیح بخاری​
کتاب بدء الخلق​
باب: اور اللہ پاک نے فرمایا​
حدیث نمبر : 3192​
وروى عيسى،‏‏‏‏ عن رقبة،‏‏‏‏ عن قيس بن مسلم،‏‏‏‏ عن طارق بن شهاب،‏‏‏‏ قال سمعت عمر ـ رضى الله عنه ـ يقول قام فينا النبي صلى الله عليه وسلم مقاما،‏‏‏‏ فأخبرنا عن بدء الخلق حتى دخل أهل الجنة منازلهم،‏‏‏‏ وأهل النار منازلهم،‏‏‏‏ حفظ ذلك من حفظه،‏‏‏‏ ونسيه من نسيه‏.‏
اور عیسیٰ نے رقبہ سے روایت کیا ، انہوں نے قیس بن مسلم سے ، انھوں نے طارق بن شہاب سے ، انھوں نے بیان کیا کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا ، آپ نے کہا کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر ہمیں وعظ فرمایا اور ابتدائے خلق کے بارے میں ہمیں خبر دی۔ یہاں تک کہ جب جنت والے اپنی منزلوں میں داخل ہو جائیں گے اور جہنم والے اپنے ٹھکانوں کو پہنچ جائیں گے (وہاں تک ساری تفصیل کو آپ نے بیان فرمایا) جسے اس حدیث کو یاد رکھنا تھا اس نے یاد رکھا اور جسے بھولنا تھا وہ بھول گیا۔​
اس حدیث کے بریکیٹ میں داؤد راز صاحب فرماتے ہیں ساری تفصیل بیان فرمادی​

اس حدیث کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ الله نے اپنے نبی کو خلق بنی آدم کے واقعیات اور جنّت اور جہنم میں جو انسانوں کو ان کے ا عمال کے مطابق انجام پیش آ یں گے ان کی خبر دی- یعنی عمومی علم آتا کیا گیا -

ورنہ الله کے نبی نے مسلمانوں کو احد میں شکست کے بارے میں پہلے سے کیوں نہیں بتا دیا؟؟

بدر میں اگر فتح کا پہلے سے پتا تھا - تو اللہ سے اتنی گڑ گڑا کر دوعایں کیوں کیں ؟؟؟ اور صحابہ کرام نے اس پر اعترا ض کیوں نہیں کیا کہ جب آپ صل الله علیہ وسلم کو سب کچھ پتا ہے تو اتنی بے قراری کیوں ؟؟؟

واقعہ افک پر نبی کریم صل الله علیہ وسلم کا ایک مہینے تک پریشان رہنا اور حضرت عائشہ رضی الله عنہ سے متعلق صحابہ کرام سے مشوره کرنا ؟؟؟ کیا یہ علم ابتدء سے انتہا میں شامل نہیں تھا؟؟ - صحابہ کرام رضی الله عنہ نے یہ کیوں نہ کہا کہ جب آپ صل الله علیہ وسلم کو سب پتا ہے تو یہ پریشان ہونا کیوں اور مشوره کرنا کیسا ؟؟ اور حضرت عائشہ رضی الله عنہ کیوں ایک ماہ تک پریشان ہوئیں ؟؟؟ اور انہوں نے نبی کریم صل الله علیہ وسلم سے کیوں نہیں دریافت کیا کہ وہ اپنے علم کی بنیاد پر ان لوگوں کے نام بتائیں جنھوں نے ان پر تہمت لگائی تھی ؟؟؟

اور اس طرح کے اور بہت سے واقعیات ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں ہیں کہ الله کے نبی کو اگر بروقت علم ہوتا تو وہ اپنے لئے بہت سا فائدہ سمیٹ لیتے اور انھیں کوئی نقصان نہ ہوتا -


قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ سوره الاعراف ١٨٨
کہہ دو میں اپنی ذات کے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں مگرجو الله چاہے اور اگر میں غیب کی بات جان سکتا تو بہت کچھ بھلائیاں حاصل کر لیتا اور مجھے تکلیف نہ پہنچتی میں تو محض ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان دار ہیں-

 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اس حدیث کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ الله نے اپنے نبی کو خلق بنی آدم کے واقعیات اور جنّت اور جہنم میں جو انسانوں کو ان کے ا عمال کے مطابق انجام پیش آ یں گے ان کی خبر دی- یعنی عمومی علم آتا کیا گیا -
آتا کیا گیا نہیں بلکہ عطاء کیا گیا ہے ! درست فرمالیں
آپ یہ فرماتے ہو کہ یہ عموعی علم عطاء کیا گیا مگر داؤد راز صاحب فرماتے ہیں کہ ساری تفصیل کے ساتھ علم عطاء کیا گیا یہ ہے وہ تضاد جس کی نشاندہی میں پہلے بھی کرچکا ہوں لیکن لگتا ہے آپ میری پوسٹوں کو پڑھے بغیر ہی جوابات دیتے ہیں اس لئے عرض ہے کہ پہلے میری پوسٹوں کو بغور پڑھ لیں شکریہ

ورنہ الله کے نبی نے مسلمانوں کو احد میں شکست کے بارے میں پہلے سے کیوں نہیں بتا دیا؟؟

بدر میں اگر فتح کا پہلے سے پتا تھا - تو اللہ سے اتنی گڑ گڑا کر دوعایں کیوں کیں ؟؟؟ اور صحابہ کرام نے اس پر اعترا ض کیوں نہیں کیا کہ جب آپ صل الله علیہ وسلم کو سب کچھ پتا ہے تو اتنی بے قراری کیوں ؟؟؟
کیا غزوہ بدر سے متعلق وہ صحیح حدیث آپ کے ذہین میں نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے ہی بتادیا تھا اس جنگ میں فلاں کافر اس جگہ مارا جائے گا فلاں کافر اس جگہ مارا جائے گا اور جنگ کے بعد صحابہ بتاتے ہیں کہ جس کافر کے مارےجانے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو جگہ بتائی تھی وہ کافر وہیں مارا گیا
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جنگ سے پہلے اللہ کے حضور گڑگڑا کر دعا مانگنا امت کی تعلیم کے لئے بھی ہوسکتا ہے اس سے وہ معنی مراد نہیں لئے جاسکتے جو آپ لے رہیں ہیں کیونکہ یہ بات طے ہوچکی کہ صحابہ کا یہ کہنا کہ اللہ اور اس کے رسول ذیادہ جانتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات تک درست تھا اور یہ دونوں واقعات جن کی آپ نے نشاندہی کی ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ہی کے واقعات ہیں اس لئے ان واقعات سے آپ کا استدلال کرنا باطل ہوجاتا ہے


قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ سوره الاعراف ١٨٨
کہہ دو میں اپنی ذات کے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں مگرجو الله چاہے اور اگر میں غیب کی بات جان سکتا تو بہت کچھ بھلائیاں حاصل کر لیتا اور مجھے تکلیف نہ پہنچتی میں تو محض ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان دار ہیں-

اس آیات کریمہ میں صرف إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ پر غور کرلیا جائے تو آپ کی سمجھ میں اس آیت کا صحیح مفہوم آجائے گا
ایک چھوٹی سی مثال اس کے لئے کافی ہوگی
اِنَّاۤ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ۰۰۱
صحیح بخاری میں اس کی تفسیر
ترجمہ از داؤد راز
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، ان سے ابوالبشر نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے "کوثر" کے متعلق کہ وہ خیر کثیر ہے جو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی ہے۔ ابو بشر نے بیان کیا کہ میں نے سعید بن جبیر سے عرض کی، لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے جنت کی ایک نہر مراد ہے؟ سعید نے کہا کہ جنت کی نہر بھی اس خیر کثیر میں سے ایک ہے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دی ہے۔
حدیث نمبر: 4966
یہ ہے إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ کا صحیح مفہوم کہ خیر کثیر کہ جس میں نہر جنت بھی شامل ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطاء کردی گئی ہے اور خیر کثیر کو سمجھنے کے لئے اتنا ہی عرض کروں گا کہ جس خیر کو اللہ تعالیٰ کثیر کہے اس کی انتہا کیا ہوگی کیونکہ اللہ کی قلیل عطاء کو بھی ہم شمار نہیں کرسکتے ۔
غلط جملہ حذف۔ انتظامیہ!
 
Top