• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ اعلم یا اللہ و رسولہ اعلم؟؟؟

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
جہاں تک بات ہے اس عقیدے کی کہ
اللہ اعلم یا اللہ ورسولہ اعلم

تو یہ عقیدہ صحابہ کو عقیدہ ہے جس کی دلیل میں آپ کی قرآن کے بعد اصح ترین کتاب سے پیش کرچکا لیکن اس کے جواب میں اب تک صرف نری عقلی دلیل ہی پیش کی گئی ہے منکر حدیث کی طرح اور جن واقعات کی طرف آپ اشارہ فرمارہیں ہیں وہ تمام واقعات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ہی کے واقعات ہیں اگر بلفرض محال یہ مان بھی لیا جائے کہ صحابہ کا یہ عقیدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات تک ہی محدود تھا تو پھر ان تمام قصوں سے جو دلیل آپ قائم کرنا چاہتے ہیں وہ دلیل تو کوئی ذی شعور نہیں مانے گا ۔
اللہ و رسولہ اعلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس وقت کہا کرتے تھے جب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی سوال پوچھیں یا عموماً جہاں شریعت کی باتوں کا ذکر ہو۔ اب شریعت کے احکامات، ان کی درست توضیح و تشریح تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے تھے، اس میں بھلا کیا شک۔
معاملات کی جہاں تک بات ہے تو خود اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ حکم دیا کہ:
وَشَاوِہُمْ فِیْ الْاَمْرِ (آل عمران:۱۵۹)
''لوگوں سے مسائل میں مشورہ کر لیا کیجئے''
زیر بحث مسئلے پر درج ذیل حدیث ہمارے مؤقف کی بھرپور تائید بھی کرتی ہے:

قَدِمَ نَبِیُّ اللّٰہِ الْمَدِیْنَةَ وَھُمْ یَأْبُرُوْنَ النَّخْلَ یَقُوْلُوْنَ یُلَقِّحُوْنَ النَّخْلَ فَقَالَ: ((مَا تَصْنَعُوْنَ؟)) قَالُوْا کُنَّا نَصْنَعُہُ قَالَ: ((لَعَلَّکُمْ لَوْ لَمْ تَفْعَلُوْا کَانَ خَیْرًا)) فَتَرَکُوْہُ فَنَفَضَتْ ]أَوْ فَنَقَصَتْ[ قَالَ فَذَکَرُوْا ذٰلِکَ لَہ فَقَالَ: ((اِنَّمَا أَنَا بَشَر ِذَا أَمَرْتُکُمْ بِشَیْئٍ مِنْ دِیْنِکُمْ فَخُذُوْا بِہ وَذَا أَمَرْتُکُمْ بِشَیْئٍ مِنْ رَأْیٍ فَاِنَّمَا أَنَا بَشَر)) سُنن ابن ماجہ /حدیث /2564کتاب الرھون/باب15
''اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کھجور کی پیوند کاری کرتے تھے اور وہ کہتے تھے اس طرح فصل زیادہ ہوتی ہے ۔ آپ نے ان سے دریافت فرمایا: ''تم یہ کیا کرتے ہو؟'' انہوں نے کہا: ہم عرصہ درازسے ایسا ہی کرتے چلے آئے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''شاید کہ تم ایسا نہ کرو تو بہتر ہو''۔ چنانچہ صحابہ نے اگلی فصل میں ایسا نہ کیا جس سے پھل کم ہو گیا۔صحابہ نے آپ سے اس بات کا تذکرہ کیاتو آپ نے ارشاد فرمایا: ''سوائے اس کے نہیں کہ میں تو ایک انسان ہوں۔جب میں تمہیں تمہارے دین سے متعلق کوئی حکم دوں تو تم اسے مضبوطی سے پکڑ لو اور جب میں تمہیں اپنی ذاتی رائے سے کوئی حکم جاری کروں تو میں بھی ایک انسان ہوں''۔
اور درج ذیل حدیث بھی:

((اِنَّکُمْ تَخْتَصِمُوْنَ ِلَیَّ وَلَعَلَّ بَعْضَکُمْ اَلْحَنُ بِحُجَّتِہ مِنْ بَعْضٍ فَمَنْ قَضَیْتُ لَہ بِحَقِّ أَخِیْہِ شَیْئًا بِقَوْلِہ فَنَّمَا أَقْطَعُ لَہ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ فَلَا یَأْخُذْھَا))
''تم میں سے بعض لوگ میرے پاس اپنے جھگڑے لے کر آتے ہیں' اور شاید تم میں سے کوئی ایک زیادہ'چرب زبان واقع ہو ۔پس اگر میں کسی ایک شخص کو اس کی چرب زبانی کی وجہ سے اس کے بھائی کے حق میں سے دے دوں ' تو ایسے شخص کو میں آگ کا ایک ٹکڑاکاٹ کر دے رہا ہوں'پس وہ اس کونہ لے''۔
لہٰذا آیات و احادیث مجموعی طور پر سامنے رکھیں تو یہ دلائل ہمارے مؤقف کی تائید کرتے ہیں کہ:
1۔ اللہ و رسولہ اعلم کہنا فقط شرعی معاملات کے ساتھ خاص تھا۔ آج بھی مثلاً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلاں آیت کی تشریح اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جائے تو وہی تشریح قبول کی جائے گی کیونکہ وہ اعلم ہیں۔
2۔ اللہ و رسولہ اعلم کہنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں درست تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بذریعہ وحی رہنمائی کی جاتی تھی۔ لہٰذا عام دنیاوی معاملات میں بھی جن کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو علم نہیں ہوتا تھا، آسمانوں سے خبر کر دی جاتی تھی۔ جیسے کہ منافقین کے بارے میں بتا دیا گیا یا فتوحات کی خبریں دے دی گئیں وغیرہم۔
3۔ دنیاوی معاملات میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے بھی یہی ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگی معاملات وغیرہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ کیا کرتے تھے۔
4۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر معاملے میں اعلم تھے اور اب وفات کے بعد بھی جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے اس کے ذرے ذرے کا علم بھی ان کو ہے۔ یہ ان کو عالم الغیب قرار دینا ہے۔ جو کہ فقط اللہ کی صفت ہے۔
5۔ بعض علوم ایسے ہیں جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دئے ہی نہیں گئے۔ مثلاً شعر کا علم۔ وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ۔ تو کیا آپ تسلیم کرتے ہیں کہ بعض معاملات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعلم ہیں اور بعض میں نہیں؟
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
1۔ اللہ و رسولہ اعلم کہنا فقط شرعی معاملات کے ساتھ خاص تھا۔ آج بھی مثلاً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلاں آیت کی تشریح اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جائے تو وہی تشریح قبول کی جائے گی کیونکہ وہ اعلم ہیں۔
آپ کہاں مانتے ہو رسول اللہ کی تشریح آیت تطہیر کے بارے میں
یہ صرف زبانی دعوے ہیں جب کہ حقائق اس کے برعکس ہیں

2۔ اللہ و رسولہ اعلم کہنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں درست تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بذریعہ وحی رہنمائی کی جاتی تھی۔ لہٰذا عام دنیاوی معاملات میں بھی جن کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو علم نہیں ہوتا تھا، آسمانوں سے خبر کر دی جاتی تھی۔ جیسے کہ منافقین کے بارے میں بتا دیا گیا یا فتوحات کی خبریں دے دی گئیں وغیرہم۔
؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
3۔ دنیاوی معاملات میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے بھی یہی ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگی معاملات وغیرہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ کیا کرتے تھے۔
ابھی آپ نے کہا کہ " لہٰذا عام دنیاوی معاملات میں بھی جن کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو علم نہیں ہوتا تھا، آسمانوں سے خبر کر دی جاتی تھی۔"

یہ مشورہ کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نرم مزاجی کی دلیل ہے نہ کہ بے خبر ہونے کی
4۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر معاملے میں اعلم تھے اور اب وفات کے بعد بھی جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے اس کے ذرے ذرے کا علم بھی ان کو ہے۔ یہ ان کو عالم الغیب قرار دینا ہے۔ جو کہ فقط اللہ کی صفت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر معاملے میں اعلم ہیں اس کی دلیل قرآن کے بعد اصح ترین کتاب سے
دعویٰ سَلُوْنِي کوئی اعلم ہی کرسکتا ہے جس کو دینی اور دنیاوی دونوں معاملات کی مکمل معلومات ہو کیونکہ اس دعویٰ سَلُوْنِيکے جواب میں جو باتیں پوچھی گئیں وہ دنیاوی بھی تھی اور دینی بھی
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 7294
اور جو پاک ہستی اپنے ایک مختصرخطبہ میں مخلوقات کی ابتدا سے لے کر جنتیوں کے جنت میں داخل ہو جانے اور دوزخیوں کے دوزخ میں داخل ہو جانے تک کا ہمیں سب کچھ بتا دیں ان سے کیا بات پوشیدہ ہے ؟
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3192
ایسی پاک ہستی نے تو یہ بھی بتادیا کہ لوح محفوظ پر لکھا ہے کہ " جب اللہ تعالیٰ مخلوق کو پیدا کر چکا تو اپنی کتاب (لوح محفوظ) میں، جو اس کے پاس عرش پر موجود ہے، اس نے لکھا کہ میری رحمت میرے غصہ پر غالب ہے۔"
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3194
پھر بھی اس پاک ہستی کو آپ اعلم مانے سے انکار کرتے ہیں تعجب ہے

5۔ بعض علوم ایسے ہیں جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دئے ہی نہیں گئے۔ مثلاً شعر کا علم۔ وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ۔ تو کیا آپ تسلیم کرتے ہیں کہ بعض معاملات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعلم ہیں اور بعض میں نہیں؟
اور اس کی وجہ بھی اللہ تعالیٰ نے بیان فرمادی ہے اگر بصرت ہے تو اس بات کو سمجھوں
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
آپ کہاں مانتے ہو رسول اللہ کی تشریح آیت تطہیر کے بارے میں
یہ صرف زبانی دعوے ہیں جب کہ حقائق اس کے برعکس ہیں
عجیب بات ہے یہی بات ہم اہل تشیع کے تحریف قرآن والے عقیدہ کے بارے میں کہتے ہیں تو آپ دلائل کا جواب نہ دے سکتے ہوئے بھی نہیں مانتے۔
آپ بدگمانی نہ کریں۔ آیت تطہیر پر الگ دھاگا کھولیں اور اس میں فقط آیت تطہیر کی ہی بات کر لیں۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ زبانی دعوے نہیں، اہل سنت ہی الحمدللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں۔


ابھی آپ نے کہا کہ " لہٰذا عام دنیاوی معاملات میں بھی جن کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو علم نہیں ہوتا تھا، آسمانوں سے خبر کر دی جاتی تھی۔"

یہ مشورہ کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نرم مزاجی کی دلیل ہے نہ کہ بے خبر ہونے کی
نرم مزاجی کی وجہ سے مشورہ کرنا، قرآن کی کون سی آیت یا حدیث میں ہے؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر معاملے میں اعلم ہیں اس کی دلیل قرآن کے بعد اصح ترین کتاب سے
اللہ کے بعد پوری کائنات میں سب سے زیادہ علم بے شک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا گیا تھا۔ لیکن اللہ ہی نے بذریعہ قرآن ہمیں بتایا ہے کہ وہ بہرحال عالم الغیب نہیں تھے۔ قیامت کی نشانیاں بتانا، یا فتنوں سے متعلق آگاہی دینا تو ان کا شرعی منصب تھا۔ لہٰذا آپ کے پیش کردہ حوالہ جات آپ کے مؤقف کے حق میں بے سود ہیں۔ عالم الغیب کے تعلق سے آپ سے دوسرے دھاگے میں بات چل رہی ہے وہیں چلنے دیں۔


اور اس کی وجہ بھی اللہ تعالیٰ نے بیان فرمادی ہے اگر بصرت ہے تو اس بات کو سمجھوں
جی بالکل۔ اور ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ دنیا میں کئی ایسے کالے علوم پائے جاتے ہیں، کہ جن کا جاننا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہے اور نہ جاننا ہی ان کی بزرگی اور شرف کی علامت ہے۔ لہٰذا آپ کی کلی یہاں ٹوٹ جاتی ہے ، وجہ جو بھی ہو، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہرحال ہر معاملے میں عالم الغیب نہیں تھے۔
یہاں ہمارا کام ختم ہوا۔ ہم نے اپنے مؤقف کی وضاحت دلائل کے ساتھ کر دی کہ ہم کیوں فقط اللہ اعلم کہتے ہیں۔ آپ کے پاس فضول بحث برائے بحث کے لئے بہت وقت ہے ۔ ہمیں فقط اتوار وغیرہ کا دن ہی ملتا ہے۔ لہٰذا تھوڑے کو بہت جانئے اور اپنی توانائی اہل تشیع کیلئے تحریف قرآن کے عقیدہ سے برات کے اثبات میں لگائیں، تو زیادہ بہتر رہے گا۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
عجیب بات ہے یہی بات ہم اہل تشیع کے تحریف قرآن والے عقیدہ کے بارے میں کہتے ہیں تو آپ دلائل کا جواب نہ دے سکتے ہوئے بھی نہیں مانتے۔
آپ بدگمانی نہ کریں۔ آیت تطہیر پر الگ دھاگا کھولیں اور اس میں فقط آیت تطہیر کی ہی بات کر لیں۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ زبانی دعوے نہیں، اہل سنت ہی الحمدللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں۔
http://forum.mohaddis.com/threads/آیت-تطہیر-اور-اہل-تشیع-انتظامیہ.13981/

اس دھاگہ میں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آیت تطہیر کی تفسیر سے متفق نہیں لنک پر جاکر خود ہی ملاحظہ فرمالیں یہ بد گمانی نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آیت تطہیر کی تفسیر کو غیر متفق ریٹ کیا ہے اب اگر آپ بدل دیں تو وہ دوسری بات ہے

نرم مزاجی کی وجہ سے مشورہ کرنا، قرآن کی کون سی آیت یا حدیث میں ہے؟
تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لئے نرم دل ہوئے اور اگر تند مزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہاری گرد سے پریشان ہو جاتے تو تم انہیں معاف فرماؤ اور ان کی شفاعت کرو اور کاموں میں ان سے مشورہ لو اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کر لو تو اللہ پر بھروسہ کرو بے شک توکل والے اللہ کو پیارے ہیں
آل عمران : 159
( مترجم : امام احمد رضا بریلوی )
اللہ کے بعد پوری کائنات میں سب سے زیادہ علم بے شک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا گیا تھا۔ لیکن اللہ ہی نے بذریعہ قرآن ہمیں بتایا ہے کہ وہ بہرحال عالم الغیب نہیں تھے۔ قیامت کی نشانیاں بتانا، یا فتنوں سے متعلق آگاہی دینا تو ان کا شرعی منصب تھا۔ لہٰذا آپ کے پیش کردہ حوالہ جات آپ کے مؤقف کے حق میں بے سود ہیں۔ عالم الغیب کے تعلق سے آپ سے دوسرے دھاگے میں بات چل رہی ہے وہیں چلنے دیں۔
ہم اس دھاگہ میں اس قول اصحابہ پر بات کررہے ہیں کہ اللہ اعلم یا اللہ ورسولہ اعلم اللہاللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں نا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عالم الغیب ہونے پر اور اس کو غلط جملہ کہہ کرآپ نے میری پوسٹ سے حذف کردیا تھا اور الحمدللہ آپ نے اس بات کا اعترف فرمالیا کہ " اللہ کے بعد پوری کائنات میں سب سے زیادہ علم بے شک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا گیا تھا"
اس قاعدے سے قول اصحابہ کوئی غلط جملہ نہیں کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابتداء خلق سے لیکر جنتیوں کے جنت اور دوزخیوں کے دوزخ میں جانے تک کا تمام احوال صحابہ کو بتادیا تھا اس لئے وہ یہ کہتے تھے کہ

اللہ ورسولہ اعلم اللہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں

اس لئے یہ مسئلہ حل ہوچکا
جی بالکل۔ اور ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ دنیا میں کئی ایسے کالے علوم پائے جاتے ہیں، کہ جن کا جاننا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہے اور نہ جاننا ہی ان کی بزرگی اور شرف کی علامت ہے۔ لہٰذا آپ کی کلی یہاں ٹوٹ جاتی ہے ، وجہ جو بھی ہو، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہرحال ہر معاملے میں عالم الغیب نہیں تھے۔
یہاں ہمارا کام ختم ہوا۔ ہم نے اپنے مؤقف کی وضاحت دلائل کے ساتھ کر دی کہ ہم کیوں فقط اللہ اعلم کہتے ہیں۔ آپ کے پاس فضول بحث برائے بحث کے لئے بہت وقت ہے ۔ ہمیں فقط اتوار وغیرہ کا دن ہی ملتا ہے۔ لہٰذا تھوڑے کو بہت جانئے اور اپنی توانائی اہل تشیع کیلئے تحریف قرآن کے عقیدہ سے برات کے اثبات میں لگائیں، تو زیادہ بہتر رہے گا۔
صحیح احادیث کے مقابلے پر نری عقلی دلیل سے کام نہیں چلتا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان سَلُوْنِي کا مطلب ہی یہی بنتا ہے کہ جو چاہو پوچھوں اس میں ہر معاملہ آجاتا ہے اللہ نے ہر معاملے کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطاء فرمایا ہے

پھر یاد دلادوں کہ ہم یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عالم الغیب ہونے پر بات نہیں کررہے ہیں
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
ذرا اس حدیث مبارکہ پر بھی توجہ فرمالیں اس سے کئی باتیں معلوم ہوجائیں گی
حَدَّثَنَا ‏ ‏يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ‏ ‏قَالَ حَدَّثَنَا ‏ ‏اللَّيْثُ ‏ ‏عَنْ ‏ ‏عُقَيْلٍ ‏ ‏عَنْ ‏ ‏ابْنِ شِهَابٍ ‏ ‏عَنْ ‏ ‏عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ‏ ‏عَنْ ‏ ‏عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ ‏ ‏أَنَّهَا قَالَتْ ‏ ‏أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ ‏ ‏صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‏ ‏مِنْ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ فَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ ‏ ‏فَلَقِ ‏ ‏الصُّبْحِ ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلَاءُ وَكَانَ يَخْلُو ‏ ‏بِغَارِ حِرَاءٍ ‏ ‏فَيَتَحَنَّثُ ‏ ‏فِيهِ ‏ ‏وَهُوَ التَّعَبُّدُ ‏ ‏اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ ‏ ‏قَبْلَ أَنْ ‏ ‏يَنْزِعَ ‏ ‏إِلَى أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى ‏ ‏خَدِيجَةَ ‏ ‏فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا حَتَّى جَاءَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي ‏ ‏غَارِ حِرَاءٍ ‏ ‏فَجَاءَهُ ‏ ‏الْمَلَكُ ‏ ‏فَقَالَ ‏ ‏اقْرَأْ قَالَ مَا أَنَا بِقَارِئٍ قَالَ فَأَخَذَنِي ‏ ‏فَغَطَّنِي ‏ ‏حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ ‏ ‏أَرْسَلَنِي ‏ ‏فَقَالَ اقْرَأْ قُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي ‏ ‏فَغَطَّنِي ‏ ‏الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ ‏ ‏أَرْسَلَنِي ‏ ‏فَقَالَ اقْرَأْ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي ‏ ‏فَغَطَّنِي ‏ ‏الثَّالِثَةَ ثُمَّ ‏ ‏أَرْسَلَنِي ‏ ‏فَقَالَ اقراء: الیٰ اٰخرہ
ایک استاذ طالب علم سے کہتا ہے :
’’کیا تمہیں اس بارے میں کچھ معلوم ہے؟‘‘
طالب علم جواب دیتاہے: ’’جی نہیں آپ ہی بہتر جانتے ہیں‘‘
استاذکا انتقال ہوجاتا ہے : تو کیا اب بھی وہ طالب علم یہی کہے گا،
کہ:’’میرے استاذہی بہتر جانتے ہیں‘‘ یا یہ کہے گا میرے استاذ بہتر جانتے تھے!
بیشک اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کیوں کہ وہ ہمیشہ سے ہےاور ہمیشہ رہیگا،باقی ہر ایک کو فنا ہے جو چیز ختم ہوجاتی ہے اس کو باقی یا حیات نہیں کہتے
واللہ اعلم بالصواب
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
السلام علیکم
ذرا اس حدیث مبارکہ پر بھی توجہ فرمالیں اس سے کئی باتیں معلوم ہوجائیں گی
حَدَّثَنَا ‏ ‏يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ‏ ‏قَالَ حَدَّثَنَا ‏ ‏اللَّيْثُ ‏ ‏عَنْ ‏ ‏عُقَيْلٍ ‏ ‏عَنْ ‏ ‏ابْنِ شِهَابٍ ‏ ‏عَنْ ‏ ‏عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ‏ ‏عَنْ ‏ ‏عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ ‏ ‏أَنَّهَا قَالَتْ ‏ ‏أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ ‏ ‏صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‏ ‏مِنْ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ فَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ ‏ ‏فَلَقِ ‏ ‏الصُّبْحِ ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلَاءُ وَكَانَ يَخْلُو ‏ ‏بِغَارِ حِرَاءٍ ‏ ‏فَيَتَحَنَّثُ ‏ ‏فِيهِ ‏ ‏وَهُوَ التَّعَبُّدُ ‏ ‏اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ ‏ ‏قَبْلَ أَنْ ‏ ‏يَنْزِعَ ‏ ‏إِلَى أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى ‏ ‏خَدِيجَةَ ‏ ‏فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا حَتَّى جَاءَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي ‏ ‏غَارِ حِرَاءٍ ‏ ‏فَجَاءَهُ ‏ ‏الْمَلَكُ ‏ ‏فَقَالَ ‏ ‏اقْرَأْ قَالَ مَا أَنَا بِقَارِئٍ قَالَ فَأَخَذَنِي ‏ ‏فَغَطَّنِي ‏ ‏حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ ‏ ‏أَرْسَلَنِي ‏ ‏فَقَالَ اقْرَأْ قُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي ‏ ‏فَغَطَّنِي ‏ ‏الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ ‏ ‏أَرْسَلَنِي ‏ ‏فَقَالَ اقْرَأْ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي ‏ ‏فَغَطَّنِي ‏ ‏الثَّالِثَةَ ثُمَّ ‏ ‏أَرْسَلَنِي ‏ ‏فَقَالَ اقراء: الیٰ اٰخرہ
ایک استاذ طالب علم سے کہتا ہے :
’’کیا تمہیں اس بارے میں کچھ معلوم ہے؟‘‘
طالب علم جواب دیتاہے: ’’جی نہیں آپ ہی بہتر جانتے ہیں‘‘
استاذکا انتقال ہوجاتا ہے : تو کیا اب بھی وہ طالب علم یہی کہے گا،
کہ:’’میرے استاذہی بہتر جانتے ہیں‘‘ یا یہ کہے گا میرے استاذ بہتر جانتے تھے!
بیشک اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کیوں کہ وہ ہمیشہ سے ہےاور ہمیشہ رہیگا،باقی ہر ایک کو فنا ہے جو چیز ختم ہوجاتی ہے اس کو باقی یا حیات نہیں کہتے
واللہ اعلم بالصواب
میں اس طرح کی دلیل کو پہلے بھی نری عقلی دلیل کہہ چکا ہوں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان سَلُوْنِي کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں
آپ کی پیش کردہ حدیث حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں بلکہ یہ قول امی عائشہ کا ہے اور اس قول میں علت یہ ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کی ابتداء ہوئی اس وقت امی عائشہ غالبا پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان سَلُوْنِيکو ہی ایک بار پھر پیش کرتا ہوں آپ غور کریں
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
میں اس طرح کی دلیل کو پہلے بھی نری عقلی دلیل کہہ چکا ہوں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان سَلُوْنِي کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں
آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا "سلونی"کہ مجھ سے سوال کرو،اظہار ناراضگی کی وجہ سے تھا ۔۔۔۔۔کیوں کہ لوگوں نے دور ازکار اور لایعنی سوالات کرنے شروع کردیئے تھے اس لئے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے بطور ناراضگی کے یہ فرمایا۔۔۔۔چناچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت میں اس کی تصریح موجود ہے کہ:

''قال سئل رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم عن اشیاءکرھھا فلما اکثر و اعلیہ المساءلة غضب وقال سلونی (الحدیث)(بخاری ج2 ص1083) (مسلم ج 2ص264)
"یعنی آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ایسی اشیاءکے بارے میں سوال کیا گیا جن کو آپ پسند نہیں فرماتے تھے جب لوگوں کے سوالات بڑھ گئے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے طیش میں آکر فرمایا پوچھو مجھ سے الخ"
جب بعض لوگوں نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی منشاءکو نہ سمجھا اور سوالات شروع کردئیے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی ان کے جوابات آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو بتلائے جاتے رہے ۔چناچہ امام نووی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ:

''قال العلماءھٰذا القول منہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم محمول علیٰ انہ اوحی الیہ والا فلا یعلم کل مایساءل عنہ من المغیبات الا باعلام اللہ تعالیٰ قال القاضی وظاھر الحدیث ان قولہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سلونی انما کان غضبا کما فی الروایة الاخریٰ سئل النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم عن اشیاءکرھھا فلما اکثر علیہ غضب ثم قال للناس سلونی وکان اختیارہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ترک تلک المسائل لکن وافقھم فی جوابھا لانہ لایمکن رد السوال لما راءمن حرصھم علیھا واللہ اعلم " بلفظہ (شرح مسلم ج 2 ص263)
"حضرات علماءکرام کا کہنا ہے کہ یہ قول جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا س بات پر محمول ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو اس کی وحی ہوئی تھی ورنہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو تمام مغیبات کا جن کے بارے میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے سوالات ہوتے تھے کوئی علم نہ تھا ہاں مگر جتنا اللہ تعالیٰ چاہتا تھا اطلاع دے دیتا تھا ۔حضرت قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حدیث کے ظاہری الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا سلونی فرمانا اظہار ناراضگی پر مبنی تھا کیوں کہ دوسری روایت میں موجود ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے جب بکثرت ایسی چیزی پوچھی گئیں جن کو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم پسند نہیں کرتے تھے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے غصہ میں آکر لوگوں سے فرمایا مجھ سے پوچھو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم صرف اسی امر کو پسند کرتے تھے کہ یہ سوالات نہ ہوں لیکن جب لوگوں نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے پوچھنا شروع کیا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ان کو جواب دینے میں (نظر با خلاق کریمہ )موافقت کی کیوں کہ لوگ جب پوچھنے میں حریص واقع ہوئے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے ممکن نہ تھا کہ ان کو بے نیل مرام واپس کردیتے"

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ وغیرہ جلیل القدر صحابی جو صحیح معنی میں مزاج شناسِ رسول تھے ،انہوں نے اس موقع پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا گہرا احساس کرتے ہوئے فرمایا:
فبرک عمر رضی اللہ عنہ علیٰ رکبتیہ فقال رضینا باللہ ربا وبالاسلام دینا وبمحمد رسولا قال فکست رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم حین قال عمر رضی اللہ عنہ ذٰلک الخ (بخاری ج 2 ص1083)(مسلم ج 2ص263)
دوزانو ہوکر بیٹھ گئے اور یہ فرمایا کہ "ہم اللہ تعالیٰ پر راضی ہیں جو ہمارا رب ہے اور اسلام پر راضی ہیں جو ہمارا دین ہے اور حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر راضی ہیں جو ہمارے رسول ہیں ،جب آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ سنا تو پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے سکوت اختیار فرمایا "

ان جملہ صحیح روایت سے معلوم ہوا کہ جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا "سلونی "فرمانا اس امر پر مبنی نہیں تھا کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو کلی علم غیب تھا اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم اس کا اظہار لوگوں پر کرنا چاہتے تھے بلکہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے لایعنی اور بے کار سوالات کا دروازہ بند کرنے کے لئے ناراضگی کے طور پر یہ ارشاد فرمایا تھا۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا "سلونی"کہ مجھ سے سوال کرو،اظہار ناراضگی کی وجہ سے تھا ۔۔۔۔۔کیوں کہ لوگوں نے دور ازکار اور لایعنی سوالات کرنے شروع کردیئے تھے اس لئے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے بطور ناراضگی کے یہ فرمایا۔۔۔۔چناچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت میں اس کی تصریح موجود ہے کہ:



جب بعض لوگوں نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی منشاءکو نہ سمجھا اور سوالات شروع کردئیے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی ان کے جوابات آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو بتلائے جاتے رہے ۔چناچہ امام نووی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ:

''قال العلماءھٰذا القول منہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم محمول علیٰ انہ اوحی الیہ والا فلا یعلم کل مایساءل عنہ من المغیبات الا باعلام اللہ تعالیٰ قال القاضی وظاھر الحدیث ان قولہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سلونی انما کان غضبا کما فی الروایة الاخریٰ سئل النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم عن اشیاءکرھھا فلما اکثر علیہ غضب ثم قال للناس سلونی وکان اختیارہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ترک تلک المسائل لکن وافقھم فی جوابھا لانہ لایمکن رد السوال لما راءمن حرصھم علیھا واللہ اعلم " بلفظہ (شرح مسلم ج 2 ص263)
"حضرات علماءکرام کا کہنا ہے کہ یہ قول جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا س بات پر محمول ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو اس کی وحی ہوئی تھی ورنہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو تمام مغیبات کا جن کے بارے میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے سوالات ہوتے تھے کوئی علم نہ تھا ہاں مگر جتنا اللہ تعالیٰ چاہتا تھا اطلاع دے دیتا تھا ۔حضرت قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حدیث کے ظاہری الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا سلونی فرمانا اظہار ناراضگی پر مبنی تھا کیوں کہ دوسری روایت میں موجود ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے جب بکثرت ایسی چیزی پوچھی گئیں جن کو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم پسند نہیں کرتے تھے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے غصہ میں آکر لوگوں سے فرمایا مجھ سے پوچھو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم صرف اسی امر کو پسند کرتے تھے کہ یہ سوالات نہ ہوں لیکن جب لوگوں نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے پوچھنا شروع کیا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ان کو جواب دینے میں (نظر با خلاق کریمہ )موافقت کی کیوں کہ لوگ جب پوچھنے میں حریص واقع ہوئے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے ممکن نہ تھا کہ ان کو بے نیل مرام واپس کردیتے"

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ وغیرہ جلیل القدر صحابی جو صحیح معنی میں مزاج شناسِ رسول تھے ،انہوں نے اس موقع پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا گہرا احساس کرتے ہوئے فرمایا:
فبرک عمر رضی اللہ عنہ علیٰ رکبتیہ فقال رضینا باللہ ربا وبالاسلام دینا وبمحمد رسولا قال فکست رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم حین قال عمر رضی اللہ عنہ ذٰلک الخ (بخاری ج 2 ص1083)(مسلم ج 2ص263)
دوزانو ہوکر بیٹھ گئے اور یہ فرمایا کہ "ہم اللہ تعالیٰ پر راضی ہیں جو ہمارا رب ہے اور اسلام پر راضی ہیں جو ہمارا دین ہے اور حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر راضی ہیں جو ہمارے رسول ہیں ،جب آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ سنا تو پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے سکوت اختیار فرمایا "

ان جملہ صحیح روایت سے معلوم ہوا کہ جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا "سلونی "فرمانا اس امر پر مبنی نہیں تھا کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو کلی علم غیب تھا اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم اس کا اظہار لوگوں پر کرنا چاہتے تھے بلکہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے لایعنی اور بے کار سوالات کا دروازہ بند کرنے کے لئے ناراضگی کے طور پر یہ ارشاد فرمایا تھا۔
غیر متعلق جواب ایک بار پھر یاد دلادوں کہ ہم یہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذیادہ جانتے ہیں پر بات کررہے ہیں نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلی علم غیب پراس پر ایک الگ دھاگہ میں بات ہورہی ہے اور یہ جو آپ نے سلونی کی تشریح پیش کی ہے یہ آپ کےمجہول اماموں کے قول تو ہوسکتے ہیں کیونکہ اس میں ان کے نام تک درج نہیں کہ کن علماء کا قول ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان نہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان یہ ہے کہ آپ نے اپنے ایک خطاب میں مخلوق کی ابتدء سے لے کر انتہا بلکہ اس سے بھی آگے جنت اور جہنم میں جانے تک کا سارا احوال بتادیا اب اس میں کون سی بات رہ گئی جو آپ کے علم میں نہ ہو ایسی وجہ سے صحابہ یہ کہتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
غیر متعلق جواب ایک بار پھر یاد دلادوں کہ ہم یہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذیادہ جانتے ہیں پر بات کررہے ہیں نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلی علم غیب پراس پر ایک الگ دھاگہ میں بات ہورہی ہے اور یہ جو آپ نے سلونی کی تشریح پیش کی ہے یہ آپ کےمجہول اماموں کے قول تو ہوسکتے ہیں کیونکہ اس میں ان کے نام تک درج نہیں کہ کن علماء کا قول ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان نہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان یہ ہے کہ آپ نے اپنے ایک خطاب میں مخلوق کی ابتدء سے لے کر انتہا بلکہ اس سے بھی آگے جنت اور جہنم میں جانے تک کا سارا احوال بتادیا اب اس میں کون سی بات رہ گئی جو آپ کے علم میں نہ ہو ایسی وجہ سے صحابہ یہ کہتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں
ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ عالم الغیب صرف الله کی ذات ہے اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ "نبی صلی اللہ علیہ نے مخلوق کی ابتدء سے لے کر انتہا بلکہ اس سے بھی آگے جنت اور جہنم میں جانے تک کا سارا احوال بتادیا اب اس میں کون سی بات رہ گئی جو آپ کے علم میں نا ہو"

جب کہ الله قرآن میں تو فرما رہا ہے -



يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي ۖ لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ ۚ سوره الاعراف ١٨٧
قیامت کے متعلق تجھ سے پوچھتے ہیں کہ اس کی آمد کا کونسا وقت ہے کہہ دو اس کی خبر تو میرے رب ہی کے ہاں ہے وہی اس کے وقت پر ظاہر کر دکھائے گا



يَسْأَلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللَّهِ ۚ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُونُ قَرِيبًا سوره الاحزاب ٦٥
آپ سے لوگ قیامت کے متعلق پوچھتے ہیں کہہ دو اس کا علم تو صرف الله ہی کو ہے اور اپ کو کیا خبر کہ شاید قیامت قریب ہی ہو



قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ سوره النمل ٦٥
کہہ دے الله کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی بھی غیب کی بات نہیں جانتا اور انہیں اس کی بھی خبر نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے-



ان آیات سے تو ظاہر ہو رہا ہے کہ الله کے نبی سب کچھ نہیں جانتے ابتدء سے لے کر انتہا تک -

صحیح حدیث میں ہے جبریل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ قیامت کب قائم ہوگی ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا تھا : جس سے سوال کیا جارہا ہے وہ قیامت کے بارہ میں سائل سے زيادہ علم نہیں رکھتا- (یعنی مجھے بھی جبریل علیہ السلام سے اس بارے میں زیادہ علم نہیں) - صحیح مسلم حدیث نمبر ( 8 ) ۔

کیا قیامت کا علم ابتدء سے انتہا میں شامل نہیں ؟؟؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
غیر متعلق جواب ایک بار پھر یاد دلادوں کہ ہم یہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذیادہ جانتے ہیں پر بات کررہے ہیں نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلی علم غیب پراس پر ایک الگ دھاگہ میں بات ہورہی ہے اور یہ جو آپ نے سلونی کی تشریح پیش کی ہے یہ آپ کےمجہول اماموں کے قول تو ہوسکتے ہیں کیونکہ اس میں ان کے نام تک درج نہیں کہ کن علماء کا قول ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان نہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان یہ ہے کہ آپ نے اپنے ایک خطاب میں مخلوق کی ابتدء سے لے کر انتہا بلکہ اس سے بھی آگے جنت اور جہنم میں جانے تک کا سارا احوال بتادیا اب اس میں کون سی بات رہ گئی جو آپ کے علم میں نہ ہو ایسی وجہ سے صحابہ یہ کہتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں
اس سے قبل آپ بار بار یہ فرما رہے تھے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان سَلُوْنِي کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔
اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان سَلُوْنِيکو ہی ایک بار پھر پیش کرتا ہوں آپ غور کریں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان سَلُوْنِي کا مطلب ہی یہی بنتا ہے کہ جو چاہو پوچھوں اس میں ہر معاملہ آجاتا ہے اللہ نے ہر معاملے کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطاء فرمایا ہے
جب آپ کی بار بار فرمائش پر اس کی درست تشریح پیش کی گئی تو آپ اسے غیرمتعلق قرار دیتے ہیں۔ عجیب۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان یہ ہے کہ آپ نے اپنے ایک خطاب میں مخلوق کی ابتدء سے لے کر انتہا بلکہ اس سے بھی آگے جنت اور جہنم میں جانے تک کا سارا احوال بتادیا اب اس میں کون سی بات رہ گئی جو آپ کے علم میں نہ ہو ایسی وجہ سے صحابہ یہ کہتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں
پہلے تو یہ فرمائیے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک ہی خطاب میں مخلوق کی ابتداء سے لے کر انتہاء اور جنت و جہنم میں جانے تک کا سارا احوال بتا دیا جائے؟ وہ نشست دو چار گھنٹوں کی تھی یا دو چار صدیوں کی؟
دوسری بات یہ فرمائیے کہ کیا اس خطاب کے بعد قرآن کی کوئی آیت نازل ہوئی؟ اگر نہیں، تو ثبوت درکار ہے۔ اور اگر ہاں، تو پھر اس آیت کی خبر بھی کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے سے اسی خطاب میں دے چکے تھے؟ اگر ہاں، تو آیت کے نزول کی کیا ضرورت رہی؟ اور اگر نہیں، تو آپ کی کلی ٹوٹ گئی کہ خطاب میں سب کچھ آ گیا تھا۔
پھر یہ فرمائیے کہ اگر واقعی مان بھی لیا جائے کہ ایک ہی خطاب میں از ابتدائے کائنات تا قیام قیامت سب احوال سنا دئے گئے، تو کیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جنہوں نے یہ سب احوال سن لئے، اعلم نہیں بن گئے؟ تو آپ فقط اللہ و رسولہ اعلم ہی کیوں کہتے ہیں؟

اس خطاب کی حقیقت فقط اتنی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فقط بڑے بڑے فتنوں سے خبردار کر دیا تھا۔ نا یہ کہ ریت کا کون سا ذرہ کہاں سے اڑ کر کہاں تک پہنچے گا، اس کی خبر اگر دے بھی دی جاتی تو عبث ہوتی، نعوذباللہ۔

رہا آپ کا بار بار یہ گردان کرنا کہ:
ہم یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عالم الغیب ہونے پر بات نہیں کررہے ہیں
ہرگز قابل التفات نہیں۔ کیونکہ آپ فقط نام ہی لینے سے گریز کر رہے ہیں، عقیدہ ان کے عالم الغیب ہونے کا ہی پیش فرما رہے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی حیات میں اور شریعت کے معاملات میں اعلم ہونا اور بات ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں۔
لیکن ان کی وفات کے بعد ہونے والی ہر ہر دنیاوی جزئیاتی بات سے ان کا باخبر ہونا، کالے علوم کا، شعر کا عالم ہونا علیحدہ بات ہے۔ اسی سے ہمیں اختلاف ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان یہ ہے کہ آپ نے اپنے ایک خطاب میں مخلوق کی ابتدء سے لے کر انتہا بلکہ اس سے بھی آگے جنت اور جہنم میں جانے تک کا سارا احوال بتادیا اب اس میں کون سی بات رہ گئی جو آپ کے علم میں نہ ہو ایسی وجہ سے صحابہ یہ کہتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں
اسی کو عالم الغیب ہونا کہتے ہیں۔
یہ فرمائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخلوق کی ابتداء سے انتہا کا علم خود ہی ذاتی طور پر حاصل تھا یا بذریعہ وحی اللہ کے بتانے سے حاصل ہوا؟
اگر ذاتی طور پر حصول مانیں، تو یہ شرک ہے۔
اگر عطائی طور پر ان کا علم ہونا مانیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتانے سے صحابہ کو بھی یہ سب معلوم ہو گیا، لہٰذا ان کو بھی اعلم یا عالم الغیب کی فہرست میں شامل کر لیں۔
 
Top