• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کہاں ہے؟ ( اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فرامین)

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
بلاتاویل وبلا تکییف اللہ پاک رب العالمین کا عرش معلی سے آسمان دنیا پر اترنا برحق ہے۔ جس طرح اس کا عرش عظیم پر مستوی ہونا برحق ہے۔ اہل الحدیث کا ازاول تا آخر یہی عقیدہ ہے۔ قرآن مجید کی سات آیات میں اللہ کا عرش پر مستوی ہونا بیان کیا گیا ہے۔ چونکہ آسمان بھی سات ہی ہیں لہذا ان ساتوں کے اوپر عرش عظیم اور اس پر اللہ کا استواءاسی لیے سات آیات میں مذکور ہوا۔
  • پہلی آیت سورۃ اعراف میں ہے اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَوٰتِ وَالاَرضَ فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ ( الاعراف: 54 ) تمہارا رب وہ ہے جس نے چھ ایام میں آسمان اور زمین کو پیدا کیا، پھر وہ عرش پر مستوی ہوا۔
  • دوسری آیت سورۃ یونس کی ہے اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ فِی سَتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ یُدَ بِّرُالاَمرَ ( یونس:3 ) بے شک تمہارا رب وہ ہے جس نے چھ دنوں میں زمین آسمان کو بنایا اور پھر وہ عرش پر قائم ہوا۔
  • تیسری آیت سورۃ رعد میں ہے اَللّٰہُ الَّذِی رَفَعَ السَّمٰوٰت بِغَیرِ عَمَدٍ تَرَونَھَاثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ ( الرعد: 2 ) اللہ وہ ہے جس نے بغیر ستونوں کے اونچے آسمان بنائے جن کو تم دیکھ رہے ہو پھر وہ عرش پر قائم ہوا۔
  • چوتھی آیت سورۃ طہ میں ہے تَنزِیلاً مِّمَّن خَلَقَ الاَرضَ وَالسَّمٰوٰتِ العُلٰی اَلرَّحمٰنُ عَلَی العَرشِ استَوٰی ( طہ:19,20 ) یعنی اس قرآن کا نازل کرنا اس کا کام ہے جس نے زمین آسمان کو پیدا کیا پھر وہ رحمن عرش کے اوپر مستوی ہوا۔
  • پانچویں آیت سورہ فرقان میں ہے اَلَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ وَمَا بَینَھُمَا فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ ( الفرقان: 59 ) وہ اللہ جس نے زمین آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے سب کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر وہ عرش پر قائم ہوا۔
  • چھٹی آیت سورۃ سجدہ میں ہے۔ اَللّٰہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ وَمَا بَینَھُمَا فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ ( السجدہ:4 ) اللہ وہ ہے جس نے زمین آسمان کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دنوں میں بنایا وہ پھر عرش پر قائم ہوا۔
  • ساتویں آیت سورہ حدید میں ہے۔ ھُوَالَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ یَعلَمُ مَا یَلِجُ فِی الاَرضِ وَمَا یَخرُجُ مِنھَا وَمَا یَنزِلُ مِنَ السَّمَائِ وَمَا یَعرُجُ فِیھَا وَھُوَ مَعَکُم اَینَ مَا کُنتُم وَاللّٰہُ بِمَا تَعمَلُونَ بَصِیر ( الحدید:4 ) یعنی اللہ وہ ذات پاک ہے جس نے چھ دنوں میں زمین آسمانوں کو بنا یا وہ پھر عرش پر قائم ہوا ان سب چیزوں کو جانتاہے جو زمین میں داخل ہوتی ہیں اور جو کچھ اس سے باہر نکلتی ہیں اور جو چیزیں آسمان سے اترتی ہیں اور جو کچھ آسمان کی طرف چڑھتی ہیں وہ سب سے واقف ہے اور وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں بھی ہو اور اللہ پاک تمہارے سارے کاموں کو دیکھنے والا ہے۔
جزاک اللہ خیرا
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اور دیگر مقام پر جو ذکر ہے مثلا شا رگ سے قریب ہونا ،زماں ومکاں سے پاک ہونا،اور بندے کے قریب و دور ہونا وغیرہ اس پر آپ کا کیا موقف ہے ،اگر ہو سکے تو اس مسلئے پر کسی کتاب کا لنک دے دے
فرمانِ باری ہے:
﴿ هُوَ الَّذى خَلَقَ السَّمـٰوٰتِ وَالأَر‌ضَ فى سِتَّةِ أَيّامٍ ثُمَّ استَوىٰ عَلَى العَر‌شِ ۚ يَعلَمُ ما يَلِجُ فِى الأَر‌ضِ وَما يَخرُ‌جُ مِنها وَما يَنزِلُ مِنَ السَّماءِ وَما يَعرُ‌جُ فيها ۖ وَهُوَ مَعَكُم أَينَ ما كُنتُم ۚ وَاللَّـهُ بِما تَعمَلونَ بَصيرٌ‌ ٤ ﴾ ۔۔۔ سورة الحديد
وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہو گیا۔ وه (خوب) جانتا ہےاس چیز کو جو زمین میں جائے اور جو اس سے نکلے اور جو آسمان سے نیچے آئے اور جو کچھ چڑھ کر اس میں جائے، اور جہاں کہیں تم ہو وه تمہارے ساتھ ہے اور جو تم کر رہے ہو اللہ دیکھ رہا ہے (4)
ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ بذاتہٖ عرش پر مستوی ہیں اور وہ اپنے علم کے اعتبار سے ہمارے ساتھ ہیں ہم جہاں بھی ہوں۔

نیز فرمایا:
﴿ أَلَم تَرَ‌ أَنَّ اللَّـهَ يَعلَمُ ما فِى السَّمـٰوٰتِ وَما فِى الأَر‌ضِ ۖ ما يَكونُ مِن نَجوىٰ ثَلـٰثَةٍ إِلّا هُوَ ر‌ابِعُهُم وَلا خَمسَةٍ إِلّا هُوَ سادِسُهُم وَلا أَدنىٰ مِن ذٰلِكَ وَلا أَكثَرَ‌ إِلّا هُوَ مَعَهُم أَينَ ما كانوا ۖ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِما عَمِلوا يَومَ القِيـٰمَةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ بِكُلِّ شَىءٍ عَليمٌ ٧ ﴾ ۔۔۔ سورة المجادلة
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ آسمانوں کی اور زمین کی ہر چیز سے واقف ہے۔ تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر اللہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ پانچ کی مگر ان کا چھٹا وه ہوتا ہے اور نہ اس سے کم کی اور نہ زیاده کی مگر وه ساتھ ہی ہوتا ہے جہاں بھی وه ہوں، پھر قیامت کے دن انہیں ان کے اعمال سے آگاه کرے گا بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے (7)
ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا ہمارے ساتھ قرب اور معیت علم کے اعتبار سے ہے۔

قال أبو عمر الطلمنكي المالكي (ت. 429 هـ) في كتابه "الوصول إلى معرفة الأصول": «أجمع المسلمون من أهل السنة على أن معنى قوله: {وهو معكم أينما كنتم} ونحو ذلك من القرآن: أنه علمه، وأن الله تعالى فوق السموات بذاته، مستو على عرشه كيف شاء.» ([14])
تمام اہل سنت والجماعت کا اس پر اجماع ہے کہ فرمانِ باری ﴿ وهو معكم أينما كنتم ﴾ اور اس جیسی دیگر آیات کریمہ سے مراد اللہ کا علم ہے اور اللہ سبحانہ تعالیٰ بذاتہٖ آسمانوں سے اوپر، اپنے عرش کریم پر مستوی ہیں جیسے ان کی شان کو لائق ہے۔

کچھ مزید اقوال ملاحظہ فرمائیں:
قال الإمام الشافعي: وأعلَمَ عباده -مع ما أقام عليهم من الحجة: بأن ليس كمثله أحد في شيء. - : أن عِلمه بالسرائر والعلانية واحدٌ. فقال: {وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ ما تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إلَيْهِ من حَبْلِ الْوَرِيدِ} وقال عز وجل {يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وما تُخْفِي الصُّدُورُ}» (9)

وقال نعيم بن حماد (ت. 228 هـ) في قوله تعالى {وهو معكم}: «أنه لا يخفى عليه خافية بعلمه، ألا ترى قوله {ما يكون من نجوى ثلاثة إلا هو رابعهم} الآية، أراد: أنه لا يخفى عليه خافية.» (10)

وقال عثمان الدارمي (280 هـ) في ردّه على احتجاج الجهمية بقوله تعالى {ما يكون من نجوى ثلاثة إلا هو رابعهم} : «قلنا هذه الآية لنا عليكم لا لكم. إنما يعني أنه حاضر كل نجوى ومع كل أحد من فوق العرش بعلمه، لأن علمه بهم محيط، وبصره فيهم نافذ، لا يحجبه شيء عن علمه وبصره، ولا يتوارون منه بشيء، وهو بكماله فوق العرش بائن من خلقه يعلم السر وأخفى) (11)

وقال حرب بن إسماعيل الكرماني (ت. 280 هـ) في مسائله: «وهو على العرش فوق السماء السابعة، ودونه حجب من نار ونور وظلمة، وما هو أعلم به. فإذا احتج مبتدع أو مخالف بقول الله - عز وجل-: {وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ} [ق: 16]، وبقوله - تعالى-: {مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا} [ المجادلة:7 ] ،ونحو هذا من متشابه القرآن؛ فقل إنما يعني بذلك العلم؛ لأن الله - عز وجل- على العرش فوق السماء السابعة العليا، يعلم ذلك كله وهو بائن من خلقه، لا يخلو من علمه مكان.» (12)

قال ابن جرير الطبري (310 هـ) : «{وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَمَا كُنْتُمْ} يقول: وهو شاهد لكم أيها الناس أينما كنتم يَعْلَمُكم، ويعلم أعمالكم، ومتقلبكم ومثواكم، وهو على عرشه فوق سمواته السبع.» (13)

قال ابن أبي زيد القيرواني (ت. 386 هـ) في مقدمة رسالته المشهورة: «وأنه فوق عرشه المجيد بذاته وهو في كل مكان بعلمه، خلق الإنسان ويعلم ما توسوس به نفسه وهو أقرب إليه من حبل الوريد {وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلا رَطْبٍ وَلا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ}»

وقال الحسين البغوي (510 هـ) : «{وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ} أعلم به، {مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ} لأن أبعاضه وأجزاءه يحجب بعضها بعضًا، ولا يحجب علم الله شيء.» (15)

قال ابن حجر العسقلاني (ت. 852 هـ) : (قوله ”الله ثالثهما“ أي: معاونهما وناصرهما، وإلا فهو مع كل اثنين بعلمه كما قال {ما يكون من نجوى ثلاثة إلا هو رابعهم ولا خمسة إلا هو سادسهم} الآية) (16)
 

qureshi

رکن
شمولیت
جنوری 08، 2012
پیغامات
235
ری ایکشن اسکور
392
پوائنٹ
88
حافظ صاحب ایک تو آپ عربی عبارت کا اردو تر جمعہ پیش کرے ،دوسری ایک اور بات سمجھا دے کہ
کیا اللہ کی ذات اور صفات علیحدہ علیحدہ ہیں یا جہاں صفت ہے وہاں ذات بھی ہے۔
وهو معكم أينما كنتم ﴾ اور اس جیسی دیگر آیات کریمہ سے مراد اللہ کا علم ہے
تو آپ اس میں اور استوٰی میں کیسے فرق کرتے ہیں جبکہ ایت میں تو واضح لکھا ہوا ہے کہ استوی بھی ہے اور ہر جگہ ساتھ ہونا بھی ہے۔
یہ علم اور ذات باری دونوں علیحدہ علیحدہ کیسے ہوئے ہیں وضاحت فرمائیں
(نوٹ جیسا کی آپ جانتے ہیں کہ خاکسار مقابلہ باز نہیں ہے لہذا صرف سیکھنے کیلئے عرض کر رہا ہوں۔
 

ابوحبان

مبتدی
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
15
ری ایکشن اسکور
74
پوائنٹ
0
جی انس صاحب بالآخر آپ نے کچھ لکھنے کے لئے دوبارہ مجبور کر ہی لیا ، آپ داد کے مستحق ہو، اس مشارکہ میں درخواست ہے کہ اور آگےکوئی مقلد نہ لکھے اگر کوئی بات کرنی ہو تو مجھ سے سکائپ پر ہی رابطہ کریں آئی ڈی پیش خدمت ہے :
alnoor.quranic
 

ابوحبان

مبتدی
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
15
ری ایکشن اسکور
74
پوائنٹ
0
ارسلان صاحب کی تھریڈ کی ابتداء ہی شروع کرتے ہیں جناب نے استواء علی العرش کے تین قسم کے معنی کئے ہیں (١) قائم ہونا (٢) جلوہ گر ہونا (٣) قرار پکڑنا(٤)مستوی ہونا(٥) جاٹھرنا
سوال نمبر ١ : کیا یہ سب ایک ہی معنی کے مختلف تعبیریں ہیں؟
اس سوال کا جواب ہوجائے تو پھر دوسرے کانمبر آئیگا برائے کوئی حنفی بھائی مشارکت نہ کریں۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
محمد ارسلان بھائی جان کی پہلی پوسٹ میں سات آیات میں ثم استویٰ علی العرش کا جن الفاظ میں معنی کیا گیا ہے وہ ذیل میں بیان ہے۔
آیت1۔ پھرعرش پر قرار پکڑا
آیت2۔ پھر عرش پر قائم ہوا
آیت3۔ پھر عرش پر قائم ہوا
آیت4۔ جو عرش پر جلوہ گر ہے
آیت5۔ پھر عرش پر قائم ہوا
آیت6۔ پھر عرش پر قائم ہوا
آیت7۔ پھر عرش پر جا ٹھہرا
اس پر ابو حبان بھائی نے کچھ یوں بیان دیا ہے
جناب نے استواء علی العرش کے تین قسم کے معنی کئے ہیں (١) قائم ہونا (٢) جلوہ گر ہونا (٣) قرار پکڑنا(٤)مستوی ہونا(٥) جاٹھرنا
اب ہم ابو حبان بھائی سے پوچھتے ہیں کہ وہ ان لفاظی کو حقیقی اختلاف پر محمول کس وجہ سے کررہے ہیں؟ کیونکہ ان کے اس سوال سے
کیا یہ سب ایک ہی معنی کے مختلف تعبیریں ہیں؟
یہی معلوم ہورہا ہے۔ اگر وہ اس لفاظی اختلاف کو حقیقی اختلاف پر محمول نہیں کررہے تب بھی وضاحت کردیں تاکہ اس لفظی چکر سے باہر نکل کر اصل مسئلہ پر ہی بحث ہو۔

اور پھر ان باتوں سے پہلے ابن جوزی بھائی وغیرہ سے بھی کہا گیا تھا کہ وہ اپنا موقف دو ٹوک یہاں لکھیں لیکن آخر تک وہ نہیں لکھ سکے اور ابو حبان بھائی سے بھی گزارش ہے کہ وہ اس بارے اپنا عقیدہ تحریر کریں۔ کہ ان کا اس بارے کیا عقیدہ وموقف ہے۔جزاکم اللہ خیرا
 

ابوحبان

مبتدی
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
15
ری ایکشن اسکور
74
پوائنٹ
0
گڈ صاحب : آپ اس کو لفاظی قرار دیتے ہیں تو بالفاظ دیگر آپ ان تمام الفاظ کو ایک ہی معنی میں لے رہے ہیں ؟ جواب مرحمت فرمائیں:
اور آپ بالکل بے فکر رہے میں اپناموقف بھی لکھوں گا لیکن پہلے آپ کے موقف کے حقیت وبطلان کا پتہ تو چلے !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
صرف موضوع سے متعلق ہی بحث ہونا چاہیئے۔ اور موضوع آپ کو معلوم ہے کہ اللہ کہاں ہے کے نام سے موسوم ہے ۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
میں ان کو ایک ہی معنی میں لے رہا ہوں یا مختلف معنوں میں۔ محترم بھائی یہ بھی بتا دیا جائے گا لیکن پہلے جو آپ سے ماقبل پوسٹ میں پوچھا ہے اسی کا جواب دیں اور پھر
لیکن پہلے آپ کے موقف کے حقیت وبطلان کا پتہ تو چلے !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
صرف موضوع سے متعلق ہی بحث ہونا چاہیئے۔ اور موضوع آپ کو معلوم ہے کہ اللہ کہاں ہے کے نام سے موسوم ہے ۔
اس بارے ہمارا موقف کیا ہے وہ پہلے سے ہی موجود ہے اگر نہیں پتہ تو ایک بار دوبارہ اس تھریڈ کو ری نظر کرلیں لیکن آپ لوگوں کی طرف سے ابھی تک کوئی موقف پیش نہیں کیا گیا اس لیے پہلے بھی گزارش کی تھی اور دوبارہ بھی گزارش کی جاتی ہے کہ آپ اس بارے اپنا موقف پیش فرمائیں کہ اللہ کہاں ہے ؟ بعد میں حقیقت وبطلان کی باتیں بھی ہوتی رہیں گی۔ اور اس موقف پر پیش دلائل پر نظر بھی۔ ان شاءاللہ
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
سوال نمبر ١ : کیا یہ سب ایک ہی معنی کے مختلف تعبیریں ہیں؟
یونیورسٹی میں ہمارے ایک پروفیسر تھے جو اس قسم کے سوالات سے حاصل شدہ نتائج کے بارے ایک خوبصورت مثال پیش کرتے تھے کہ بڑھئی جب میز بناتا ہے تو خام لکڑی کو تراش کر ایک تو میز نکالتا ہے اور دوسرا اس میں برادہ حاصل ہوتا ہے۔ مقصود تو اصلا میز ہوتا ہے لیکن برادہ ساتھ میں مفت حاصل ہو جاتا ہے۔ اب علوم عالیہ یعنی کتاب و سنت کی خدمت کے لیے علوم آلیہ یعنی لغت و منطق، بلاغت و اصول کی تدوین کا دور شروع ہوا تو جہاں یہ علوم مدون ہوئے وہاں کتابوں میں کچھ برادہ بھی اکھٹا ہو گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں نے اس برادے کو اصل بنا لیا اور علوم آلیہ نے علوم عالیہ کی جگہ لے لی۔ یہ بھی منطق کا کمال ہے کہ لوگوں کو سوالات میں ایسا الجھاو کہ اصل مبحث برادے میں گم ہو جائے۔ بھائی سوالات کی بجائے اصل بحث پر آئیں کہ اللہ تعالی کہاں موجود ہیں؟ اور جہاں ہیں، وہاں ہونے کی شرعی دلیل کیا ہے؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
ارسلان صاحب کی تھریڈ کی ابتداء ہی شروع کرتے ہیں جناب نے استواء علی العرش کے تین قسم کے معنی کئے ہیں (١) قائم ہونا (٢) جلوہ گر ہونا (٣) قرار پکڑنا(٤)مستوی ہونا(٥) جاٹھرنا
سوال نمبر ١ : کیا یہ سب ایک ہی معنی کے مختلف تعبیریں ہیں؟
اس سوال کا جواب ہوجائے تو پھر دوسرے کانمبر آئیگا برائے کوئی حنفی بھائی مشارکت نہ کریں۔
حیرت کی بات ہے کہ

ارسلان بھائی نے اپنی پوسٹ میں دلائل سے ثابت کیا کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہیں، جیسے ان کی ذات کو لائق ہے۔ ان کا موقف بالکل واضح ہے۔ ان تمام تعبیرات کا ایک ہی نتیجہ ہے کہ عرش پر ہیں، جیسے ان کی ذات کو لائق ہے۔

آپ نے اس سلسلے میں ان کی طرف سے دلیل کے طور پر پیش کی گئی آیات کے مختلف ترجموں کی تعبیرات کے پانچ معنی اس طرح پیش کیے جیسے ان میں تضاد ہو؟؟؟ آپ اس تضاد کو واضح کر دیں۔

اور گڈ مسلم بھائی کے مطالبے کے مطابق اپنا موقف بھی واضح کردیں کہ کیا آپ اللہ تعالیٰ کی صفت علو اور استواء علی العرش کے منکر ہیں؟؟؟
 
Top