• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کہاں ہے؟ عرش پر،آسمان پر یا۔۔۔۔؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک جگہ ارشاد فرمایا:
مگر وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے خواہ وہ کہیں بھی ہوں۔ (الحديد:٤)
... مگر وہ ساتھ ہی ہوتا ہے جہاں بھی وہ ہوں...(المجادلة:٧)
... شرماتے ہیں لوگوں سے اور نہیں شرماتے اللہ سے اور وہ ان کے ساتھ ہے جب کہ مشورہ کرتے ہیں رات کو اس بات کا جس سے اللہ راضی نہیں اور جو کچھ وہ کرتے ہیں سب اللہ کے قابو میں ہے.(النساء:١٠٨)


...اور اللہ (وحدہ لاشریک) ہی کے لئے ہے مشرق بھی، اور مغرب بھی، سو تم جدھر بھی رخ کرو گے وہاں اللہ کی ذات (اقدس و اعلیٰ) کو پاؤ گے، بیشک اللہ بڑی وسعت والا، نہایت ہی علم والا ہے،(البقرہ:١١٥)

اور وہی اللہ ہے آسمانوں میں اور زمین میں، جانتا ہے تمہارا چھپا اور کھلا اور جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو. (الانعام :٣)
... جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں (البقرہ:١٨٦)
... بیشک میرا رب قریب اور دعاؤں کا قبول کرنے والا ہے۔(ھود:١١)
... وہ بڑا ہی سننے والا اور بہت ہی قریب ہے.(سبا: ٥٠)
... اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں.(ق:١٦)

اور دوسری جگہ فرمایا:
وہ بڑا مہربان عرش پر قائم ہوا (طه:٥)
اللہ ہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو چیزیں ان دونوں میں ہیں سب کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔(السجده:٤، الحديد:٤)


فرقان (حق و باطل میں فرق کرنے والے قرآن) میں ہی اس کا الہی فیصلہ:

نہیں ہے اس کی طرح کا سا کوئی (الشورى:١١)

وہی ہے جس نے اتاری تجھ پر کتاب اس میں بعض آیتیں ہیں محکم (یعنی ان کے معنی واضح ہیں) وہ اصل ہیں کتاب کی اور دوسری ہیں مشابہ (یعنی جن کے معنیٰ معلوم یا معیّن نہیں) سو جن کے دلوں میں کجی ہےوہ پیروی کر تے ہیں متشابہات کی گمراہی پھیلا نے کی غرض سے اور مطلب معلوم کرنے کی وجہ سے اور ان کا مطلب کوئی نہیں جانتا سوا اللہ کے اور مضبوط علم والے کہتے ہیں ہم اس پر یقین لائے سب ہمارے رب کی طرف سے اتری ہیں اور سمجھانے سے وہی سمجھتے ہیں جن کو عقل ہے.(آل عمران : ٧)

کیسے منکر ہو سکتا ہے وہ جو الله کو آسمان/عرش میں ((بھی)) مانے؟ ارے نادان! الله تو "نور" ہے آسمان اور ((زمین)) کا.[القرآن{24:35}]

موسیٰ سے طورسینا کے فرش پر ہم کلامی جس نے مقرر کی [القرآن{7:143}]، اسی نے معراج میں عرش کی جانب بلاکر محمد کی شان بلند کی.




***************************************
۔ قرآن کریم میں ہے: "الرَّحْمَنُ عَلٰی الْعَرْشِ اسْتَوَی" کہ اللہ عرش پر مستوی ہے؛ لیکن استواء کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں ہے،
مشہور اصولی اور مفسر قرآن علامہ نسفی جو مسلکا حنفی ہیں انھوں نے بھی صراحتاً ایسی ہی بات نقل کی ہے: "المذہب قول علی الاستواء غیر مجہول، والتکییف غیر معقول وا لإیمان بہ واجب والسوٴال عنہ بدعة؛ لأنہ کان ولا مکان فہو علی ما کان قبل خلق المکان لم یتغیر عما کان"

(تفسیر مدارک: ۲/۲۹۰، سورہٴ طٰہ



قرآن کریم میں استویٰعَلٰی الْعَرْشِ کا جہاں بھی ذکر ہوا ہے اس کے ساتھ زمین و آسمان اور نظام شمسی کے تخلیق کا ذکر بھی ضرور کیا گیا ہے، اسی لئے شیخ ابو طاہر القزوینی رح کی تحقیق کے مطابق : خدائی تخلیقی و تکونی سلسلہ کے عرش پر ختم ہونے کا معنی ظاہر کرتا ہے.

الحدیث : امام ابو حنیفہ رح روایت کرتے ہیں عَطَاء رح سے کہ نبی کے کی صحابہ نے ان سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت عبدالله بن رواحہ کی ایک باندی تھی جو ان کی بکریوں کی حفاظت و دیکھ بھال کیا کرتی تھی. انہیں نے اسے ایک خاص بکری پر توجہ دینے کا حکم دے رکھا تھا، چناچہ وہ بندی اس بکری کا زیادہ خیال رکھتی تھی، جس کی وجہ سے وہ بکری خوب صحت مند ہوگی.

ایک دیں وہ بندی دوسری بکریوں کی دیکھ بھال میں مشغول تھی کہ اچانک ایک بھیڑیا آیا اور اسی بکری کو اچک کر لے گیا اور اسے مار ڈالا، جب حضرت عبدالله گھر واپس آۓ تو بکری کو نہ پایا (بندی سے پوچھا) اس نے سارا واقعہ سنا دیا، انہوں نے غصہ میں آکر اس کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ماردیا، بعد میں انھیں اس پر ندامت ہوئی، اور انہوں نے رسول الله
سے اس واقعہ کا ذکر کیا، نبی کو یہ بات بہت گراں گزری، آپ نے فرمایا: تم نے ایک مومن عورت کے چہرے پر مارا؟ انہوں نے کہا: یہ تو حبشن ہے، اس "ایمان" سے متعلق کچھ نہیں پتہ (وہ مومنہ نہیں ہے).
نبی نے انھیں بلوایا اور اس سے پوچھا کہ: الله کہاں ہے؟ اس نے کہا: آسمان میں. پھر پوچھا کہ: میں کون ہوں؟ اس نے کہا کہ: الله کے پیغمبر. رسول الله نے فرمایا: یہ مومنہ ہے اس لئے تم اسے آزاد کردو. چناچہ انہوں نے اسے آزاد کردیا.

توضیح: اس حدیث پاک میں ظاہری ایمان کے لئے زبانی اقرار ، رسالت سے پہلے توحید کا ثبوت، زمینی خداؤں (بتوں) کا انکار آسمانی حقیقی واحد معبود سے کرانا مقصود تھا ، ورنہ الله تعالیٰ کی ذات و تجلیات تو ہر جگہ ہے ، آسمان میں بھی ہے ، اوپر عرش پر بھی ہے ، ہمارے ساتھ بھی ہے بلکہ ہماری شہہ رگ سے بھی قریب ہے.

١) الله تعالیٰ عرش پر ہے یا آسمان پر؟؟؟
٢) کیا عرش و آسمان میں فرق نہیں ؟؟؟
٣) کیا عرش ساتوں آسمانوں سے اوپر نہیں ؟؟؟


حدثنا عبد بن حميد وغير واحد المعنى واحد قالوا حدثنا يونس بن محمد حدثنا شيبان بن عبد الرحمن عن قتادة قال حدث الحسن عن أبي هريرةقال بينما نبي الله صلى الله عليه وسلم جالس وأصحابه إذ أتى عليهم سحاب فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم هل تدرون ما هذا فقالوا الله ورسوله أعلم قال هذا العنان هذه روايا الأرض يسوقه الله تبارك وتعالى إلى قوم لا يشكرونه ولا يدعونه قال هل تدرون ما فوقكم قالوا الله ورسوله أعلم قال فإنها الرقيع سقف محفوظ وموج مكفوف ثم قال هل تدرون كم بينكم وبينها قالوا الله ورسوله أعلم قال بينكم وبينها مسيرة خمس مائة سنة ثم قال هل تدرون ما فوق ذلك قالوا الله ورسوله أعلم قال فإن فوق ذلك سماءين ما بينهما مسيرة خمس مائة سنة حتى عد سبع سماوات ما بين كل سماءين كما بين السماء والأرض ثم قال هل تدرون ما فوق ذلك قالوا الله ورسوله أعلم قال فإن فوق ذلك العرش وبينه وبين السماء بعد ما بين السماءين ثم قال هل تدرون ما الذي تحتكم قالوا الله ورسوله أعلم قال فإنها الأرض ثم قال هل تدرون ما الذي تحت ذلك قالوا الله ورسوله أعلم قال فإن تحتها أرضا أخرى بينهما مسيرة خمس مائة سنة حتى عد سبع أرضين بين كل أرضين مسيرة خمس مائة سنة ثم قال والذي نفس محمد بيده لو أنكم دليتم رجلا بحبل إلى الأرض السفلى لهبط على الله ثم قرأ هو الأول والآخر والظاهر والباطن وهو بكل شيء عليم.
[سنن الترمذي » كتاب تفسير القرآن » باب ومن سورة الحديد » رقم الحديث: 3298]

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیٹھے ہوئے تھے کہ بادل آگئے۔ نبی اکرم نے پوچھا جانتے ہو یہ کیا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول اچھی طرح جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ بادل زمین کو سیراب کرنے والے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ان لوگوں کی طرف ہانکتے ہیں جو اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور اسے پکارتے نہیں۔ پھر آپ نے پوچھا جانتے ہو تمہارے اوپر کیا ہے۔ عرض کیا اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ رقیع یعنی اونچی چھت ہے جس سے حفاظت کی گئی۔ اور یہ موج کی طرح ہے جو بغیر ستون کے ہے۔ پھر پوچھا کیا جاتے ہو کہ تمہارے اور اس کے درمیان کتنا فاصلہ ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول زیادہ جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا تمہارے اس کے درمیان پانچ سو برس کی مسافت ہے۔ پھر آپ نے پوچھا کیا جانتے ہو اس کے اوپر کیا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا اس سے اوپر دو آسمان ہیں جنکے درمیان پانچ سو برس کا فاصلہ ہے۔ پھر آپ نے اسی طرح سات آسمان گنوائے اور بتایا ہر دو آسمانوں کے درمان آسمان و زمین کے درمیان کے فاصلے کے برابر فاصلہ ہے۔ پھر آپ نے پوچھا کہ کیا جانتے ہو کہ اس کے اوپر کیا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا اس کے اوپر عرش ہے اور وہ آسمان سے اتنا دور ہے جتنا زمین سے آسمان۔ پھر آپ نے پوچھا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ تمہارے نیچے کیا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتا ہیں آپ نے فرمایا یہ زمین ہے۔ پھر آپ نے پوچھا کیا تمہیں معلوم ہے اس کے نیچے کیا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا اس کے نیچے دوسری زمین ہے پہلی زمین اور دوسری زمین کے درمیان پانچ سو برس کی مسافت ہے۔ پھر پوچھا آپ نے سات زمینیں گنوائیں اور بتایا کہ ہر دو کے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہے۔ پھر آپ نے فرمایا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے اگر تم لوگ نیچے زمین کی طرف رسی پھینکو گے تو وہ اللہ تک پہنچے گی اور پھر یہ آیت پڑہی ہو (هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ - الحدید : 3) (وہی ہے سب سے پہلا اور سب سے پچھلا اور باہر اور اندر اور وہ سب کچھ جانتا ہے۔)
[جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1246, قرآن کی تفسیر کا بیان : سورت حدید کی تفسیر]
تخريج الحديث:
1) الراوي: أبو هريرة المحدث: ابن العربي - المصدر: عارضة الأحوذي - الصفحة أو الرقم: 6/356
2) الراوي: أبو هريرة المحدث:
الجورقاني - المصدر: الأباطيل والمناكير - الصفحة أو الرقم: 1/205
3) الجامع لأحكام القرآن » سورة البقرة » قوله تعالى هو الذي خلق لكم ما في الأرض جميعا ثم استوى إلى السماء فسواهن سبع سماوات وهو بكل شيء عليم » الجزء الأول » ص: 247


حَدَّثَنَا ابْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، قَالَ : ثنا ابْنُ ثَوْرٍ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ : الْتَقَى أَرْبَعَةٌ مِنَ الْمَلائِكَةِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ : مِنْ أَيْنَ جِئْتَ ؟ قَالَ أَحَدُهُمْ : أَرْسَلَنِي رَبِّي مِنَ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ ، وَتَرَكْتُهُ ثَمَّ . وقَالَ الآخَرُ : أَرْسَلَنِي رَبِّي مِنَ الأَرْضِ السَّابِعَةِ وَتَرَكْتُهُ ثَمَّ . وقَالَ الآخَرُ : أَرْسَلَنِي رَبِّي مِنَ الْمَشْرِقِ وَتَرَكْتُهُ ثَمَّ . وقَالَ الآخَرُ : أَرْسَلَنِي رَبِّي مِنَ الْمَغْرِبِ وَتَرَكْتُهُ ثَمَّ .
[جامع البيان عن تأويل آي القرآن » تفسير سورة الطَّلاقِرقم الحديث: 31949]
[تفسير القرآن لعبد الرزاق الصنعاني » سُورَةِ الطَّلاقِرقم الحديث: 3155]
[تفسير ابن كثير » تفسير سورة الحديد؛ ص: 8 ]


ترجمہ : امام ابن جریر آیت (وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنّ .... 65-الطلاق:12) کی تفسیر میں حضرت قتادہ کا قول لائے ہیں کہ آسمان و زمین کے درمیان چار فرشتوں کی ملاقات ہوئی۔ آپس میں پوچھا کہ تم کہاں سے آ رہے ہو؟ تو ایک نے کہا ساتویں آسمان سے مجھے اللہ عزوجل نے بھیجا ہے اور میں نے اللہ کو وہیں چھوڑا ہے۔ دوسرے نے کہا ساتویں زمین سے مجھے اللہ نے بھیجا تھا اور اللہ وہیں تھا، تیسرے نے کہا میرے رب نے مجھے مشرق سے بھیجا ہے جہاں وہ تھا چوتھے نے کہا مجھے مغرب سے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اور میں اسے وہیں چھوڑ کر آ رہا ہوں۔


(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ : كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَجْهَرُونَ بِالتَّكْبِيرِ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَيُّهَا النَّاسُ ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ إِنَّكُمْ لَيْسَ تَدْعُونَ أَصَمَّ ، وَلَا غَائِبًا إِنَّكُمْ تَدْعُونَ سَمِيعًا قَرِيبًا وَهُوَ مَعَكُمْ ، قَالَ : وَأَنَا خَلْفَهُ وَأَنَا أَقُولُ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ " ، فَقَالَ : يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ : " أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَنْزٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ ؟ " ، فَقُلْتُ : بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ : " قُلْ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ " ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ جَمِيعًا ، عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ ، عَنْ عَاصِمٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ .[صحيح مسلم » كِتَاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَار ... » بَاب اسْتِحْبَابِ خَفْضِ الصَّوْتِ بِالذِّكْرِ ...رقم الحديث: 4879]
ترجمہ : حضرت ابوموسی سے روایت ہے کہ ہم ایک سفر میں نبی کے ساتھ تھے صحابہ نے بلند آواز سے اَللّٰهُ أَکْبَرُ کہنا شروع کردیا تو نبی نے فرمایا اے لوگوں اپنی جانوں پر ترس کرو تم کسی غائب یا بہرے کو نہیں پکار رہے ہو بلکہ تم سننے والے اور قریب والے کو پکار رہے ہو اور وہ تمہارے ساتھ ہے اور میں اس وقت آپ کے پیچھے کھڑا لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ پڑھ رہا تھا تو آپ نے فرمایا اے عبداللہ بن قیس کیا تمہیں جنت کے خزانوں میں سے خزانہ نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول آپ نے فرمایا لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ کہو۔
تخريج الحديث
م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1أربعوا على أنفسكم إنكم لا تدعون أصم ولا غائبا إنكم تدعون سميعا قريبا ألا أدلك على كلمة من كنز الجنة قلت بلى قال لا حول ولا قوة إلا باللهعبد الله بن قيسالسنن الكبرى للنسائي73747632النسائي303
2
اربعوا على أنفسكم إنكم لا تدعون أصما ولا غائبا إنما تدعون سميعا قريبا وهو معكم ألا أدلك على كلمة من كنز الجنة قلت بلى يا رسول الله فداك أبي وأمي قال لا حول ولا قوة إلا باللهعبد الله بن قيسالسنن الكبرى للبيهقي27672 : 184البيهقي458
3
أربعوا على أنفسكم فإنكم لا تدعون أصم ولا غائبا ولكنكم تدعون سميعا قريباعبد الله بن قيسمسند أبي يعلى الموصلي72017252أبو يعلى الموصلي307
4
أربعوا على أنفسكم فإنكم لا تدعون أصم ولا غائبا ولكن تدعون سميعا قريباعبد الله بن قيسمسند الروياني542543محمد بن هارون الروياني307
5
أربعوا على أنفسكم فإنكم لا تدعون أصم ولا غائبا إنكم تدعون سميعا قريبا إنه معكم ألا أدلك على كلمة من كنز الجنةعبد الله بن قيسمسند عبد بن حميد550542عبد بن حميد249
6
اربعوا على أنفسكم ليس تدعون أصم ولا غائبا إنكم تدعون سميعا قريبا وهو معكمعبد الله بن قيسمصنف ابن أبي شيبة82748541ابن ابي شيبة235
7
أربعوا على أنفسكم إنكم لا تدعون أصم ولا غائبا وإنما تدعون سميعا قريبا قال ودعاني وكنت قريبا منه فقال يا عبد الله بن قيس ألا أدلك على كلمة من كنوز الجنة فقلت بلى قال لا حول ولا قوة إلا باللهعبد الله بن قيسمشيخة ابن الجوزي37---ابن الجوزي597
8
إنكم لستم تدعون أصم ولا غائبا وإنما تدعون سميعا قريبا ألا أدلك على كنز من كنوز الجنة لا حول ولا قوة إلا باللهعبد الله بن قيسالفوائد الشهير بالغيلانيات لأبي بكر الشافعي143156أبو بكر الشافعي354
9
إنكم لستم تدعون أصم ولا غائبا وإنما تدعون سميعا قريبا ألا أدلك على كنز من كنوز الجنة لا حول ولا قوة إلا باللهعبد الله بن قيسالأمالي الخميسية للشجري803---يحيى بن الحسين الشجري الجرجاني499
10
اربعوا على أنفسكم فإنكم لا تدعون أصم ولا غائبا ولكنكم تدعون سميعا قريباعبد الله بن قيسالسنة لابن أبي عاصم501618ابن أبي عاصم287
11
إنكم لا تدعون أصم ولا غائبا إنما تدعون سميعا قريباعبد الله بن قيسالتوحيد لابن خزيمة5757ابن خزيمة311
12
إنكم لا تدعون أصم ولا غائبا إنما تدعون سميعا قريباعبد الله بن قيسالتوحيد لابن منده274275محمد بن إسحاق بن منده395
13
أربعوا على أنفسكم إنكم لا تدعون أصم ولا غائبا إنكم تدعون سميعا قريبا وهو معكمعبد الله بن قيسالتوحيد لابن منده303304محمد بن إسحاق بن منده395
14
أربعوا على أنفسكم فإنكم لا تدعون أصم ولا غائبا ولكنكم تدعون سميعا قريباعبد الله بن قيسالتوحيد لابن منده387388محمد بن إسحاق بن منده395
15
أربعوا على أنفسكم فإنكم لا تدعون أصم ولا غائبا إنما تدعون سميعا قريباعبد الله بن قيسالتوحيد لابن منده389390محمد بن إسحاق بن منده395
16
اربعوا على أنفسكم إنكم لستم تدعون أصم ولا غائبا إنكم تدعون سميعا قريبا وهو معكمعبد الله بن قيسشرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة للالكائي542685هبة الله اللالكائي418
17
اربعوا على أنفسكم فإنكم لا تدعون أصم ولا غائبا ولكنكم تدعون سميعا قريباعبد الله بن قيسالأسماء والصفات للبيهقي387382البيهقي458
18
أربعوا على أنفسكم فإنكم لا تدعون أصم ولا غائبا ولكنكم تدعون سميعا قريباعبد الله بن قيسالتوحيد لله عز وجل لعبد الغني بن عبد الواحد المقدسي33---عبد الغني بن عبد الواحد المقدسي600
19
إنكم لا تدعون أصم ولا غائبا إنما تدعون سميعا قريباعبد الله بن قيسالحجة في بيان المحجة وشرح عقيدة أهل السنة 232---قوام السنة الأصبهاني535
20
أربعوا على أنفسكم إنكم لا تدعون أصم ولا غائبا إنكم تدعون سميعا قريبا وهو معكمعبد الله بن قيسالحجة في بيان المحجة وشرح عقيدة أهل السنة 245---قوام السنة الأصبهاني535
21
أربعوا على أنفسكم فإنكم لا تدعون أصم ولا غائبا إنما تدعون سميعا قريباعبد الله بن قيسالحجة في بيان المحجة وشرح عقيدة أهل السنة 2325---قوام السنة الأصبهاني535
22
اربعوا على أنفسكم إنكم لا تدعون أصم ولا غائبا إنكم تدعون سميعا قريبا وهو معكم ألا أدلك على كلمة من كنز الجنةعبد الله بن قيسشرح السنة12681283الحسين بن مسعود البغوي516
23
اربعوا على أنفسكم إنكم لا تدعون أصم ولا غائبا إنكم تدعون سميعا قريبا ألا أدلك على كلمة من كنز الجنة قلت بلى قال لا حول ولا قوة إلا باللهعبد الله بن قيسمشكل الآثار للطحاوي50995787الطحاوي321
24
اربعوا على أنفسكم إنكم لا تدعون أصم ولا غائبا إنكم تدعون سميعا قريبا به معكمعبد الله بن قيسجامع البيان عن تأويل آي القرآن1360210 : 248ابن جرير الطبري310
25
اربعوا على أنفسكم إنكم لا تدعون أصم ولا غائبا إنكم تدعون سميعا قريبا وهو معكمعبد الله بن قيسمعالم التنزيل تفسير البغوي8585الحسين بن مسعود البغوي516
26
أربعوا على أنفسكم إنكم لا تدعون أصم ولا غائبا إنكم تدعون سميعا قريبا ألا أدلك على كلمة من كنز الجنة قلت بلى قال قل لا حول ولا قوة إلا باللهعبد الله بن قيسأحكام القرآن الكريم للطحاوي362470الطحاوي321
27
لستم تدعون أصم ولا غائبا إنما تدعون سميعا قريبا فاربعوا على أنفسكم ألا أعلمك كلمة من كنوز الجنة لاحول ولا قوة إلا باللهعبد الله بن قيسحلية الأولياء لأبي نعيم1214812163أبو نعيم الأصبهاني430
28
اربعوا على أنفسكم إنكم ليس تدعون أصم ولا غائبا إنكم تدعون سميعا قريبا وهو معكمعبد الله بن قيسالدعاء لمحمد بن فضيل الضبي166161محمد بن فضيل الضبي195
29
إنكم لا تدعون أصم ولا غائبا إنما تدعون سميعا قريبا والذي تدعونه أقرب إلى أحدكم من عنق راحلة أحدكمعبد الله بن قيسالدعوات الكبير للبيهقي252250البيهقي458
30
أربعوا على أنفسكم فإنكم لا تدعون أصم ولا غائبا تدعون سميعا قريبا ألا أدلك على كنز من كنوز الجنة قال قلت بلى يا رسول الله قال قل لا حول ولا قوة إلا باللهعبد الله بن قيسصفوة التصوف688---أبو زرعة طاهر بن محمد المقدسي566
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75

(حديث قدسي) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ مَيْمُونٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ : يَا ابْنَ آدَمَ ، مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي ، قَالَ يَا رَبِّ : كَيْفَ أَعُودُكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ؟ قَالَ : أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْهُ ؟ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَنِي عِنْدَهُ ؟ يَا ابْنَ آدَمَ ، اسْتَطْعَمْتُكَ فَلَمْ تُطْعِمْنِي ، قَالَ يَا رَبِّ : وَكَيْفَ أُطْعِمُكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ؟ قَالَ : أَمَا عَلِمْتَ أَنَّهُ اسْتَطْعَمَكَ عَبْدِي فُلَانٌ ؟ فَلَمْ تُطْعِمْهُ ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ أَطْعَمْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي ؟ يَا ابْنَ آدَمَ ، اسْتَسْقَيْتُكَ فَلَمْ تَسْقِنِي ، قَالَ يَا رَبِّ : كَيْفَ أَسْقِيكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ؟ قَالَ : اسْتَسْقَاكَ عَبْدِي فُلَانٌ ، فَلَمْ تَسْقِهِ ، أَمَا إِنَّكَ لَوْ سَقَيْتَهُ وَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي ؟ " .
[صحيح مسلم » كِتَاب الْبِرِّ ، وَالصِّلَةِ ، وَالْآدَابِ » بَاب فَضْلِ عِيَادَةِ الْمَرِيضِ ... رقم الحديث: 4667]
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا اللہ عزوجل قیامت کے دن فرمائے گا اے ابن آدم میں بیمار ہوا اور تو نے میری عیادت نہیں کی وہ کہے گا اے پروردگار میں تیری عیادت کیسے کرتا حالانکہ تو تو رب العالیمن ہے اللہ فرمائے گا کیا تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تو نے اس کی عیادت نہیں کی کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو تو مجھے اس کے پاس پاتا. اے ابن آدم میں نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا وہ کہے گا اے پروردگار میں آپ کو کیسے کھانا کھلاتا اور حالانکہ تو تو رب العالمین ہے تو اللہ فرمائے گا کیا تو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا لیکن تو نے اس کو کھانا نہیں کھلایا تھا کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کو کھانا کھلاتا تو تو مجھے اس کے پاس پاتا. اے ابن آدم میں نے تجھ سے پانی مانگا لیکن تو نے مجھے پانی نہیں پلایا وہ کہے گا اے پروردگار میں تجھے کیسے پانی پلاتا حالانکہ تو تو رب العالمین ہے اللہ فرمائے گا میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تونے اس کو پانی نہیں پلایا تھا اگر تو اسے پانی پلاتا تو تو اسے میرے پاس پاتا۔
تخريج الحديث
م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1مرضت فلم تعدني قال يا رب كيف أعودك وأنت رب العالمين قال أما علمت أن عبدي فلانا مرض فلم تعده أما علمت أنك لو عدته لوجدتني عنده استطعمتك فلم تطعمني قال يا رب وكيف أطعمك وأنت رب العالمين قال أما علمت أنه استطعمك عبدي فلان فلم تطعمه أما علمت أنك لو أطعمته لوجعبد الرحمن بن صخرصحيح مسلم46672572مسلم بن الحجاج261
2
مرضت فلم يعدني ابن آدم ظمئت فلم يسقني ابن آدم فقلت أتمرض يا رب قال يمرض العبد من عبادي ممن في الأرض فلا يعاد فلو عاده كان ما يعوده لي ويظمأ في الأرض فلا يسقى فلو سقي كان ما سقاه ليعبد الرحمن بن صخرمسند أحمد بن حنبل90338989أحمد بن حنبل241
3
مرضت فلم تعدني فيقول يا رب وكيف أعودك وأنت رب العالمين فيقول أما علمت أن عبدي فلانا مرض فلم تعده أما علمت أنك لو عدته لوجدتني استسقيتك فلم تسقني فيقول يا رب كيف أسقيك وأنت رب العالمين فيقول أما علمت أنك لو سقيته لوجدت ذلك عندي استطعمتك فلم تطعمني فيقول ياعبد الرحمن بن صخرصحيح ابن حبان271269أبو حاتم بن حبان354
4
مرضت فلم تعدني فيقول يا رب كيف أعودك وأنت رب العالمين فيقول أما علمت أن عبدي فلانا مرض فلم تعده أما علمت أنك لو عدته لوجدتني استسقيتك فلم تسقني فيقول يا رب كيف أسقيك وأنت رب العالمين فيقول أما علمت أن عبدي فلانا استسقاك فلم تسقه أما علمت أنك لو سقيته لوجدعبد الرحمن بن صخرصحيح ابن حبان955944أبو حاتم بن حبان354
5
استطعمتك فلم تطعمني قال فيقول يا رب وكيف استطعمتني ولم أطعمك وأنت رب العالمين قال أما علمت أن عبدي فلانا استطعمك فلم تطعمه أما علمت أنك لو أطعمته لوجدت ذلك عندي يا ابن آدم استسقيتك فلم تسقني فيقول يا رب وكيف أسقيك وأنت رب العالمين فيقول إن عبدي فلانا استسعبد الرحمن بن صخرصحيح ابن حبان752516 : 366أبو حاتم بن حبان354
6
استطعمتك فلم تطعمني قال فيقول يا رب وكيف استطعمتني ولم أطعمك وأنت رب العالمين فقال أما علمت أن عبدي فلانا استطعمك فلم تطعمه أما علمت أنك لو أطعمته لوجدت ذلك عندي يا ابن آدم استسقيتك فلم تسقني فقال يا رب وكيف أسقيك وأنت رب العالمين فقال أما علمت أن عبدي فلعبد الرحمن بن صخرمسند إسحاق بن راهويه2528إسحاق بن راهويه238
7
يقول الله يوم القيامة استطعمك عبدي فلم تطعمه ولو أطعمته أطعمتك واستسقاك عبدي فلم تسقه ولو سقيته سقيتكعبد الرحمن بن صخرالمعجم الأوسط للطبراني61285979سليمان بن أحمد الطبراني360
8
مرضت فلم يعدني عبادي ظمئت فلم يسقني عبادي قال أنت يا رب قال نعم يمرض عبدي المؤمن ولو عيد عيد لي ويعطش عبدي في الصحراء فلو سقي سقي ليعبد الرحمن بن صخرالمعجم الأوسط للطبراني89518722سليمان بن أحمد الطبراني360
9
مرضت فلم تعدني فيقول يا رب كيف أعودك وأنت رب العالمين فيقول أما أما علمت أن عبدي فلانا مرض فلم تعده أما علمت أنك لو عدته لوجدتني عنده استسقيتك فلم تسقني فيقول أي رب وكيف أسقيك وأنت رب العالمين فيقول أما علمت أن عبدي فلانا استسقاك فلم تسقه أما علمتعبد الرحمن بن صخرالأسماء والصفات للبيهقي481473البيهقي458
10
مرضت فلم تعدني قال أي رب كيف أعودك وأنت رب العالمين فيقول أما علمت أن عبدي فلانا مرض فلم تعده أما علمت أنك لو عدته وجدتني عنده استطعمتك فلم تطعمني فيقول أي رب وكيف أطعمك وأنت رب العالمين قال يقول أما علمت أن عبدي فلانا جاءك يستطعمك فلم تطعمه أما علمت أنكعبد الرحمن بن صخرشعب الإيمان للبيهقي85889182البيهقي458
11
مرضت فلم تعدني قال يا رب كيف أعودك وأنت رب العزة فيقول أما علمت أن عبدي فلانا مرض فلم تعده ولو عدته لوجدتني عنده ويقول يا ابن آدم استطعمتك فلم تطعمني فيقول يا رب كيف أطعمك وأنت رب العزة فيقول أما علمت أن عبدي فلانا جاءك يستطعمك فلم تطعمه أما علمت أنك لو أعبد الرحمن بن صخرالتوحيد لله عز وجل لعبد الغني بن عبد الواحد المقدسي88---عبد الغني بن عبد الواحد المقدسي600
12
استطعمتك فلم تطعمني قال فيقول يا رب وكيف استطعمتني ولم أطعمك وأنت رب العالمين قال أما علمت أن عبدي فلانا استطعمك فلم تطعمه أما علمت أنك لو كنت أطعمته لوجدت ذلك عندي ابن آدم استسقيتك فلم تسقني فقال يا رب وكيف أسقيك وأنت رب العالمين فيقول إن عبدي فلانا استسعبد الرحمن بن صخرالأدب المفرد للبخاري515517محمد بن إسماعيل البخاري256
13
مرضت فلم تعدني قال يا رب كيف أعودك وأنت رب العزة فيقول أما علمت أن عبدي فلانا مرض فلم تعده ولو عدته لوجدتني عنده استطعمتك فلم تطعمني فيقول كيف أطعمك وأنت رب العزة فيقول أما علمت أن عبدي فلانا استطعمك فلم تطعمه أما علمت أنك لو أطعمته لوجدت ذلك عندي استسقيتعبد الرحمن بن صخرمكارم الأخلاق للطبراني171170سليمان بن أحمد الطبراني360

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ الْحَسَنِ ، قَالا : ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ بْنُ يَعْقُوبَ ، ثنا يَزِيدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الصَّمَدِ الدِّمَشْقِيُّ ، ثنانُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُهَاجِرٍ ، أَخِي عَمْرِو بْنِ مُهَاجِرٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ رُوَيْمٍ اللَّخْمِيِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ إِيمَانِ الْمَرْءِ : أَنْ يَعْلَمَ أَنَّ اللَّهَ مَعَهُ حَيْثُ كَانَ " .
[شعب الإيمان للبيهقي » الْحَادِي عَشَرَ مِنْ شُعَبِ الإِيمَانِ وَهُوَ بَابٌ ...، رقم الحديث: 711(740 ؛
الحكم: إسناده حسن رجاله ثقات عدا نعيم بن حماد الخزاعي وهو صدوق يخطئ كثيرا]

ترجمہ : حضرت عبادہ بن الصامت نے فرمایا ، (کہ) فرمایا رسول الله نے : (کہ) بیشک افضل ایمان انسان کا یہ ہے کہ وہ جان لے (کہ) بیشک الله اس کے ساتھ ہے، جہاں بھی وہ ہو؛

[تفسیر ابن کثیر (مترجم) : 5/317]

تخريج الحديث
م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1أفضل الإيمان أن تعلم أن الله معك حيث كنتعبادة بن الصامتمسند الشاميين للطبراني524535سليمان بن أحمد الطبراني360
2
أفضل الإيمان أن تعلم أن الله معك حيثما كنتعبادة بن الصامتمسند الشاميين للطبراني13951416سليمان بن أحمد الطبراني360
3
أفضل الإيمان أن تعلم أن الله معك حيثما كنتعبادة بن الصامتالمعجم الأوسط للطبراني90278796سليمان بن أحمد الطبراني360
4
أفضل الإيمان بأن تعلم أن الله معك حيث كنتعبادة بن الصامتجزء فيه ما انتقى ابن مردويه على أبي القاسم الطبراني لابن مردويه156160أحمد بن موسى ابن مردويه410
5
أفضل إيمان المرء أن يعلم أن الله معه حيث كانعبادة بن الصامتالأربعون الصغرى للبيهقي22---البيهقي458
6
أفضل الإيمان بأن تعلم أن الله معك حيث كنتعبادة بن الصامتجزء أبي القاسم الطبراني157---سليمان بن أحمد الطبراني360
7
أفضل إيمان المرء أن يعلم أن الله معه حيث كانعبادة بن الصامتشرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة للالكائي13611686هبة الله اللالكائي418
8
أفضل إيمان المرء أن يعلم أن الله معه حيث كانعبادة بن الصامتالأسماء والصفات للبيهقي892907البيهقي458
9
أفضل إيمان المرء أن يعلم أن الله معه حيث كانعبادة بن الصامتشعب الإيمان للبيهقي711740البيهقي458
10
أفضل الإيمان أن تعلم أن الله معك حيث كنتعبادة بن الصامتحلية الأولياء لأبي نعيم81858192أبو نعيم الأصبهاني430
11
أفضل إيمان المرء أن يعلم أن الله معه حيث كانعبادة بن الصامتالكني والأسماء للدولابي23911533أبو بشر الدولابي310
12
أفضل إيمان المرء أن يعلم أن الله معه حيث كانعبادة بن الصامتبحر الفوائد المسمى بمعاني الأخيار للكلاباذي210209محمد بن إسحاق الكلاباذي384
13
أفضل إيمان المرء أن يعلم أن الله معه حيث كانعبادة بن الصامتالآداب للبيهقي8131143البيهقي458




حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْعَلاءِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَالِمٍ الأَشْعَرِيُّ ، عَنْ مُحَمَّدٍ الزُّبَيْدِيِّ، قَالَ : حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ جَابِرٍ ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، حَدَّثَهُ , أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُعَاوِيَةَ الْغَاضِرِيَّ حَدَّثَهُمْ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " ثَلاثٌ مَنْ فَعَلَهُنَّ فَقَدْ طَعِمَ طَعْمَ الإِيمَانِ : مَنْ عَبَدَ اللَّهَ وَحْدَهُ فَإِنَّهُ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ ، وَأَعْطَى زَكَاةَ مَالِهِ طَيِّبَةً بِهَا نَفْسُهُ فِي كُلِّ عَامٍ ، وَلَمْ يُعْطِ الَهَرِمَةَ ، وَلا الدَّرِنَةَ ، وَلا الشَّرِطَ اللَّئِيمَةَ ، وَالْمَرِيضَةَ ، وَلَكِنْ مِنْ أَوْسَطِ أَمْوَالِكُمْ فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَسْأَلْكُمْ خَيْرَهُ ، وَلَمْ يَأْمُرْكُمْ بِشَرِّهِ ، وَزَكَّى نَفْسَهُ " . فَقَالَ رَجُلٌ : مَا تَزْكِيَةُ الْمَرْءِ نَفْسَهُ ؟ قَالَ : " أَنْ يَعْلَمَ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ مَعَهُ حَيْثُ كَانَ " .[التاريخ الكبير للبخاري » باب الميم » باب الواحد ... رقم الحديث: 895]
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح رجاله ثقات رجال مسلم غير عبد الله بن سالم وهو ثقة [
السلسلة الصحيحة
- (
الألباني
): 3/38]
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جس نے تین کام کر لئے اس نے ایمان کا مزہ اٹھا لیا۔ ایک اللہ کی عبادت کی اور اپنے مال کی زکوٰۃ ہنسی خوشی راضی رضامندی سے ادا کی۔ جانور اگر زکوٰۃ میں دینے ہیں تو بوڑھے بیکار دبلے پتلے اور بیمار نہ دے بلکہ درمیانہ راہ اللہ میں دیا اور اپنے نفس کو پاک کیا۔ اس پر ایک شخص نے سوال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نفس کو پاک کرنے کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا اس بات کوجان لے (دل میں محسوس کرے اور یقین و عقیدہ رکھے) کہ ہر جگہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہے۔ (تفسیر ابن کثیر: سورة الحديد: آية 6)
تخريج الحديث
م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1ثلاث من فعلهن فقد طعم طعم الإيمان من عبد الله وحده وأنه لا إله إلا الله أعطى زكاة ماله طيبة بها نفسه رافدة عليه كل عام ولا يعطي الهرمة ولا الدرنة ولا المريضة ولا الشرط اللئيمة ولكن من وسط أموالكم فإن الله لم يسألكم خيره ولم يأمركم بشرهعبد الله بن معاويةسنن أبي داود13521582أبو داود السجستاني275
2
ثلاث من فعلهن فقد طعم طعم الإيمان من عبد الله وحده فإنه لا إله إلا الله أعطى زكاة ماله طيبة بها نفسه رافدة عليه في كل عام ولم يعط الهرمة ولا الدرنة ولا الشرط اللائمة ولا المريضة ولكن من أوسط أموالكم فإن الله لم يسألكم خيره ولم يأمركم بشره زكى عبد نفسه فقاعبد الله بن معاويةالسنن الكبرى للبيهقي67164 : 95البيهقي458
3
ثلاث من فعلهن فقد طعم الإيمان من عبد الله وحده وأنه لا إله إلا الله أعطى زكاة ماله طيبة بها نفسه في كل عام ولم يعط الهرمة ولا الدرنة ولا الشرط اللئيمة ولا المريضة ولكن من أوسط أموالكم فإن الله لم يسألكم خيره ولم يأمركم بشره زكى عن نفسه فقال رجل وما تزكيةعبد الله بن معاويةمسند الشاميين للطبراني18541870سليمان بن أحمد الطبراني360
4
ثلاث من فعلهن فقد ذاق طعم الإيمان من عبد الله وحده بأنه لا إله إلا هو أعطى زكاة ماله طيبة بها نفسه في كل عام ولم يعط الهرمة ولا الدرنة ولا المريضة ولكن من أوسط أموالكم فإن الله لم يسألكم خيرها ولم يأمركم بشرها زكى نفسه فقال رجل وما تزكية النفس فقال أن يعلعبد الله بن معاويةالمعجم الصغير للطبراني556201سليمان بن أحمد الطبراني360
5
ثلاث من فعلهن فقد بلغ طعم الإيمان من عبد الله وحده فإنه لا إله إلا هو إعطاء زكاة ماله طيبة بها نفسه ولم يعط الهرمة ولا المريضة ولا البسرة زكى نفسه فقال رجل وما زكى المرء نفسه يا رسول الله قال يعلم أن الله معه حيث كانعبد الله بن معاويةمعجم الصحابة لابن قانع864973ابن قانع البغدادي351
6
ثلاث من فعلهن فقد طعم الإيمان من عبد الله وحده وأعطى زكاة ماله طيبة نفسه رافدة عليه كل عام ولم يعط الهرمة ولا الدرنة ولا المريضة ولا الشرط اللئيمةعبد الله بن معاويةغريب الحديث للخطابي4121 : 505الخطابي البستي388
7
ثلاث من فعلهن فقد طعم طعم الإيمان من عبد الله وحده فإنه لا إله إلا الله أعطى زكاة ماله طيبة بها نفسه زائدة عليه في كل عام ولم يعط الهرمة ولا الرديئة ولا الشرط اللئيمة ولا المريضة ولكن من أوسط ما لكم فإن الله لم يسألكم خيره ولم يأمركم بشره وزكى عبد نفسه فقعبد الله بن معاويةشعب الإيمان للبيهقي30253297البيهقي458
8
ثلاثة من فعلهن فقد طعم طعم الإيمان من عبد الله وحده وأنه لا إله إلا هو أعطى زكاة ماله طيبة بها نفسهعبد الله بن معاويةالطبقات الكبرى لابن سعد94087 : 200محمد بن سعد الزهري230
9
ثلاث من فعلهن فقد طعم طعم الإيمان من عبد الله وحده فإنه لا إله إلا الله أعطى زكاة ماله طيبة بها نفسه في كل عام ولم يعط الهرمة ولا الدرنة ولا الشرط اللئيمة والمريضة ولكن من أوسط أموالكم فإن الله لم يسألكم خيره ولم يأمركم بشره زكى نفسه فقال رجل ما تزكية المعبد الله بن معاويةالتاريخ الكبير للبخاري8956124محمد بن إسماعيل البخاري256
10
ثلاث من فعلهن فقد طعم طعم الإيمان من عبد الله وحده فإنه لا إله إلا الله أعطى زكاة ماله طيبة بها نفسه رافدة عليه في كل عام ولم يعط الهرمة ولا الدرنة ولا المريضة ولا الشرط اللئيمة ولكن من أوسط أموالكم فإن الله لم يسألكم خيره ولم يأمركم بشره زكى عبد نفسه فقاعبد الله بن معاويةالمعرفة والتاريخ ليعقوب بن سفيان921 : 112يعقوب بن سفيان277
11
ثلاث من فعلهن فقد طعم طعم الإيمان من عبد الله وحده بأنه لا إله إلا الله أدى زكاة ماله طيبة بها نفسه رافدة عليه في كل عام ولم يعط الهرمة ولا الذرقة ولا الشرطة ولا الهيمة ولا المريضة ولكن من أوسط أموالكم إن الله لم يسألكم خيره ولم يأمركم بشره زكى عبد نفسه فعبد الله بن معاويةالآحاد والمثاني لابن أبي عاصم9651062ابن أبي عاصم287
12
ثلاث من فعلهن فقد طعم طعم الإيمان من عبد الله وحده فإنه لا إله إلا الله أعطى زكاة ماله طيبة بها نفسه في كل عام ولم يعط الهرمة ولا الدرنة ولا الشرطة اللئيمة ولا المريضة ولكن من أوسط أموالكم فإن الله لم يسألكم خيره ولم يأمركم بشره زكى عن نفسه فقال رجل ما تزعبد الله بن معاويةمعرفة الصحابة لأبي نعيم41414545أبو نعيم الأصبهاني430
13
ثلاث من فعلهن فقد طعم طعم الإيمان من عبد الله وحده فإنه لا إله إلا الله وأعطى زكاة ماله طيبة بها نفسه في كل عام ولم يعط الهرمة ولا الدرنة ولا الشرط اللئيمة ولا المريضة ولكن من أوسط أموالكم فإن الله لم يسألكم خيره ولم يأمركم بشره وزكى عن نفسه فقال رجل ما تعبد الله بن معاويةتهذيب الكمال للمزي1756---يوسف المزي742
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
سائنس کی حدود:
﴿ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاء فَسَوَّاہُنَّ سَبْعَ سَمَٰوَات﴾
تفسیر
آیت کریمہ میں لفظ”ثم“ ترتیب اور تقدیم وتاخیر ظاہر کرنے کے لیے نہیں آیا، بلکہ صرف فرق زمانی ظاہر کرنے کے لیے آیا ہے ۔ (تفسیر بیضاوی، البقرة تحت آیة رقم:29)

”اسْتَوَی“ کے صلے میں جب ”إلی“ استعمال ہو تو اس کا معنی قصد اور توجہ ہوتا ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر، البقرة تحت آیة رقم:29)

لہٰذا آیت کریمہ کا معنی ہوا کہ الله تعالیٰ نے آسمان کی تخلیق کا قصد فرمایا۔ ( تفسیر المدارک، البقرة تحت آیة، رقم:29)

آسمان سے کیا مراد ہے؟
اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ ”السَّمَاء“ کا لفظ قرآن کریم میں مختلف معانی کے لیے استعمال ہوا ہے، مثلاً چھت کے لیے﴿ فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَی السَّمَاء﴾ (الحج:15) یعنی إلی سقف البیت․

بادلوں کے معنی میں﴿وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً﴾ (المؤمنون:18)

یعنی من السحاب․ ( الوجوہ والنظائر لکتاب الله العزیز، باب السین، ص:272، بیروت)

لیکن آیت کریمہ ﴿فَسَوَّاہُنَّ سَبْعَ سَمَٰوَات﴾میں سات آسمانوں سے کیا مراد ہے؟ آسمان کوئی وجود رکھتا ہے یا صرف خلا کا نام آسمان ہے؟ آسمان کے بارے میں کتنی آرا ہیں؟ اور ان کی علمی اور شرعی حیثیت کیا ہے ؟ یہاں اسی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

پہلی رائے: کائنات کے حقائق کو صرف سائنس کی نظر سے دیکھنے والے سائنس دان او ران کے ہم نواؤں کی رائے یہ ہے کہ آسمان اسی خلا کا نام ہے جو تاحد نظر پھیلا ہوا ہے، اس طبقے کے مفسر سرسید اسی رائے کو درست قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔

” اس مقام پر سماء کے لفظ سے وہ وسعت مراد ہے جو ہر شخص اپنے سر کے اوپر دیکھتا ہے ، پس آیت کے معنی یہ ہیں کہ خدا اس وسعت کی طرف متوجہ ہوا جو انسان کے سر پر بلند دکھائی دیتی ہے اور ٹھیک اس کو سات بلندیاں کر دیں ۔ “( تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، البقرہ تحت آیة رقم:29)

اس رائے پہ اشکال ہوا کہ اس وسعت پر سات کے عدد کا اطلاق کس ضرورت کے پیش نظر ہوا ؟ سر سید اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
”اس زمانے کے لوگ جو بلحاظ سبع سیارات یہ سمجھتے تھے کہ آسماں سات ہیں ، انہیں لوگوں کے خیال کے مطابق سات کے لفظ کا اطلاق ہوا ہے۔“ (تفسیر القرآن، سرسید احمد خان: البقرہ تحت آیة رقم:29)

دوسری رائے: یہ ہے کہ آسمان سے اجرام علویہ ( ستارے کواکب) مراد ہیں، اس تفسیر پر بھی اشکال ہوا کہ اجرام علویہ ( ستارے وغیرہ) کی تعداد تو اس قدر زیادہ ہے کہ انہیں شمار میں نہیں لایا جاسکتا ، پھر قرآن کریم میں﴿فَسَوَّاہُنَّ سَبْعَ سَمَٰوَات﴾ فرماکر انہیں سات کے عدد کے اند ر کیوں محدود کر دیا ؟ اس کا جواب دیا گیا کہ سات کا عدد تحدید کے لیے نہیں،بلکہ ستاروں کی کثرت ظاہر کرنے کے لیے لایا گیا ہے ، جس طرح قرآن کریم میں ایک مقام پر سات سمندروں سے کثرت سمندر مراد لیے گئے ہیں ۔ ﴿وَلَوْ أَنَّمَا فِیْ الْأَرْضِ مِن شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ یَمُدُّہُ مِن بَعْدِہِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمَاتُ اللَّہِ﴾․ (لقمان:27)

ترجمہ: ”او راگر جتنے درخت ہیں زمین میں قلم ہوں اور سمندر ہو اس کی سیاہی، اس کے پیچھے ہوں سات سمندر، نہ تمام ہوں باتیں الله کی۔“

تیسری رائے: علمائے ہیئت اور حکمائے یونان کی ہے کہ افلاک کی تعداد نو ہے یونانی حکمت کی کتابیں جب عربی میں ترجمہ ہو کر آئیں تو علمائے ہیئت نے نہ صرف انہیں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا، بلکہ اسلامی علوم اور یونانی حکمت میں موافقت پیدا کرنے کی غرض سے یہ دعوی بھی کر ڈلا کہ آسمان کی تعداد نو ہے ، چناں چہ ہماری حکمت کی کتابوں ( شرح چغمینی وغیرہ) میں یہ قول ایک مسلم دعوی کے طور پر مذکور ہے، سات آسمان تو وہی جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے باقی دو عرش اور کرسی ہیں ، جنہیں آسمان قرارا دے کر آسمان کی تعداد نو کر دی گئی ، علمائے ہیئت آسمان او رافلاک کو ایک ہی چیز شمار کرتے ہیں۔

اس رائے پر بھی اشکال ہوا کہ قرآن کریم میں تو آسمانوں کی تعداد سات بتائی گئی ہے پھر آسمان نو کیسے ہوئے ؟ علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی رحمہ الله نے اس کا جواب دیا کہ گو قرآن کریم میں سات کے عدد کو خصوصیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ، لیکن اس سے زائد عدد کی نفی کہاں ثابت ہوئی؟

پہلی رائے پر ایک نظر: سائنس صرف اس چیز کو تسلیم کرتی ہے جو مشاہدات، تجربات اور عقلی دلائل سے اپنا وجود منواسکے، سائنسی عقائد میں ایمان بالغیب کی حیثیت ایک لطیفے سے زیادہ نہیں(اس کی تفصیلی بحث مقدمے میں دیکھیے) اور اسلام نے جس آسماں کا تصور دیا ہے وہ تاحال مشاہدے میں نہیں آیا اس لیے سائنس دانوں نے خلاء ہی کو آسمان قرار دیا ہے ۔

لیکن سوال یہ ہے کہ سائنس کے ظنی فنون کو وحی الہٰی میں دخل اندازی کرنے کا حق کس نے دیا ہے ؟ سائنس کی محدود معلومات ومشاہدات کا عالم تو یہ ہے کہ خود ان کے بیان کے مطابق ”ان کی نظر دیوقامت عظیم ترین دور بینوں کے ذریعے بھی صرف دس کھرب میل نوری سال کے فاصلے تک پہنچ سکی ہے ۔“ (خلاصہ تفسیر القرآن، باب اول:101/1)

اور اجرام فلکی اس سے بھی آگے ہیں او رساتوں آسمان تو ان سے بھی بلند وبالا ہیں ، اگر سائنس اپنی تمام تر ٹیکنالوجی کے باوجود آسمان کا مشاہدہ نہ کر سکی تو اس میں قصور اور عاجزی سائنس کی ہے ؟ یا وحی کی ؟

البتہ جو لوگ وحی پر ایمان ویقین ہی نہ رکھتے ہوں ان سے اس بات پر گفتگو کرنا بے سود ہے۔

دوسری رائے پر ایک نظر: آسمان سے اجرام فلکیہ (سیارے) مراد لینا دو وجہ سے درست نہیں۔
1...قرآن کریم نے اجرام فلکیہ کو پہلے آسماں کی زینت قرار دیا ہے ﴿ وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَاء الدُّنْیَا بِمَصَابِیْح﴾․ (الملک:5)
ترجمہ:” اور ہم نے رونق دی سب سے ورلے آسماں کو چراغوں سے۔“
2...﴿إِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاء الدُّنْیَا بِزِیْنَةٍ الْکَوَاکِب﴾․ (الصف:6)
ترجمہ:” ہم نے رونق دی ( سب سے) ورلے آسماں کو ایک رونق جوتارے ہیں۔“

ان آیات سے معلوم ہوا کہ اجرام فلکیہ (ستارے وغیرہ) اور آسماں دو جدا جدا چیزیں ہیں، انہیں ایک قرار دینا درست نہیں۔اجرام فلکیہ لاتعداد اور بے شمار ہیں اور آسمانوں کے بارے میں قرآن کریم کا فیصلہ ہے کہ وہ سات ہیں﴿ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاء فَسَوَّاہُنَّ سَبْعَ سَمَٰوَات﴾․
”پھر قصد کیا آسماں کی طرف، سو ٹھیک کر دیا ان کو سات آسمان“

﴿فَقَضَاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِیْ یَوْمَیْْن﴾․(فصلت:12)
”پھر کر دیے وہ سات آسمان دو دن میں ۔“

﴿اللَّہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَہُن﴾․ (الطلاق:12)
ترجمہ:”الله وہ ہے جس نے بنائے سات آسمان او رزمینیں بھی اتنی ہیں۔“

﴿الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقاً﴾․(الملک:3)
ترجمہ: ”جس نے بنائے سات آسماں تہ پر تہ۔“

مذکورہ آیات میں جس قدر تکرار او راہتمام کے ساتھ آسمانوں کی تعداد بیان کی گئی ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہاں عدد بیان کرنے کا مقصد آسمانوں کی محدود تعداد کااظہار ہے ، نیز اہل زبان نے بھی یہی مطلب سمجھا، لہٰذا صرف ایک عقلی احتمال کی بنا پر ”عدد“ کو کثرت آسمان کی دلیل بنانا کس طرح درست ہو گا؟

تیسری رائے پر ایک نظر: تیسری رائے ان علمائے ہئیت کی تھی جو یونانی حکمت سے حدر درجہ متاثر تھے، فلسفہ اور شریعت کے کلام میں موافقت پیدا کرنے کے لیے انہوں نے آسمان اورافلاک کو ایک ہی چیز شمارکرکے آسمانوں کی تعداد نو قرار دی، چناں چہ علامہ آلوسی رحمہ الله ﴿وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَاء الدُّنْیَا بِمَصَابِیْح﴾ (الملک:5) کی تفسیر میں علمائے ہئیت کے اس موقف پر نکتہ چینی کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

”وکون السماء، ھی الفلک، خلاف المعروف عن السلف، وانما ھو قول قالہ من أراد الجمع بین کلام الفلاسفة الأولی وکلام الشریعة، فشاع فی ما بین الاسلام، واعتقدہ من اعتقدہ․“ (روح المعانی، الملک، تحت آیة رقم:5)
ترجمہ:” آسماں کو ہی فلک قرار دینا سلفِ صالحین کے معروف مسلک کے خلاف ہے ، یہ قول درحقیقت ان لوگوں کا ہے جنہوں نے متقدمین فلاسفہ اور شریعت کے کلام میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی، پھر یہی قول اہل اسلام میں پھیل گیا او رجس نے چاہا اسے عقیدہ کے طور پر اختیار کر لیا۔“

اب ذیل میں فلک کا مفہوم ذکر کیا جاتا ہے، جو آسمان کے مفہوم سے قطعی طور پر مختلف ہے۔

فلک کا مفہوم آسمان سے مختلف ہے۔
اصطلاح شریعت میں فلک ستاروں کے مدار کو کہتے ہیں، چناں چہ علامہ راغب اصفہانی رحمہ الله لکھتے ہیں
”الفلک مجری الکواکب وتسمیتہ بذلک لکونہ کالفلک“․ ( مفردات القرآن للراغب، فلک: ص:432)

” فلک سے ستاروں کا مدار مراد ہے اور فلک کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہ کشتی کی طرح گول ہے۔“

علامہ فخر الدین رازی رحمہ الله﴿وکل فی فلک یسبحون﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ”الفلک فی کلام العرب کل شئيء دائرة، جمعہ أفلاک، واختلف العقلاء فیہ فقال بعضہم: الفلک لیس بجسم، وانما ھو مدار النجوم، وھو قول ضحاک“ ․ (التفسیر الکبیر، الانبیاء تحت آیة رقم:33)

اہل عرب کے محاورے میں ہر گول چیز کو فلک کہتے ہیں، اس کی جمع افلاک ہے ، فلاسفہ کا اس میں اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں کہفلک کوئی جسم نہیں رکھتا، درحقیقت یہ ستاروں کے مدار کو کہتے ہیں اور یہی ضحاک کا قول ہے۔ تفسیر کبیر کی مذکورہ عبارت سے معلوم ہوا کہ فلک ستاروں کا مدار ہے ۔

کمالین حاشیہ جلالین میں ہے۔
”… ان الفلک غیر السماء، قال الجمہور: الفلک موج مکفوف تحت السماء تجری فیہ الشمس والقمر والنجوم․“ (کمالین حاشیہ جلالین، الانبیاء، الأیة 33، حاشیہ:13)

فلک آسمان کے علاوہ ایک چیز ہے، جمہور علماء فرماتے ہیں کہ فلک آسمان کے نیچے ایک ٹھہری ہوئی موج کا نام ہے، جس میں سورج اور چاند ستارے تیرتے رہتے ہیں۔

مذکورہ عبارت سے صاف معلوم ہوا کہ فلک او رآسمان دو جدا جدا چیزیں ہیں ، نیز فلک آسمان کے نیچے ہے اور ستاروں کا مدار ہے ۔

حاشیہ کمالین میں علامہ عسقلانی رحمہ الله نے صاف لفظوں میں فرمایا:” السمٰوت السبع عند اہل الشرع غیر الأفلاک․“ (کمالین حاشیہ جلالین، الانبیاء، الایة 33، حاشیہ:13)

یعنی اہل شرع کے نزدیک سات آسمانوں سے افلاک مراد نہیں ہیں۔

علامہ آلوسی رحمہ الله ﴿إِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاء الدُّنْیَا بِزِیْنَةٍ الْکَوَاکِب﴾ کی تفسیر میں فلک اور آسمان کی بحث کرتے ہوئے ان لوگوں کو خطاوار اور سلف صالحین کے موقف کا مخالف گردانا ہے جو آسمان اور فلک کو ایک ہی چیز شمار کرتے ہیں ، چناں چہ لکھتے ہیں۔

” وقد اخطئوا فی ذلک، وخالفوا سلف الأمة فیہ، فالفلک غیر السماء“․ (روح المعانی، الصف، تحت آیة رقم:6)

” یہ آسمان اور فلک کوایک ہی چیز سمجھنے والے سر اسر غلط فہمی کا شکار ہیں او ران کا موقف سلف صالحین کے موقف سے میل نہیں کھاتا، فلک اور آسمان جدا جدا چیزیں ہیں۔“

مذکورہ بالا دلائل سے معلوم ہوا علمائے ہیئت کا موقف کہ آسمان اور فلک ایک ہی چیز ہے ا وران کی تعداد نو ہے ، غلط فہمی پر مبنی ہے ۔ علامہ آلوسی رحمہ الله تعالی نے ایسے لوگوں پر بہترین الفاظ میں تبصرہ کیا ہے ۔

”ان من تصدی لتطبیق الآیات والاخبار علی ما قالہ الفلاسفة مطلقاً فقد تصدی لأمر لایکاد یتم لہ، والله تعالیٰ ورسولہ أحق بالاتباع․“ (روح المعانی، الملک، تحت آیة رقم:5)

”آیات واحادیث اور فلاسفہ کے اقوال میں موافقت پیدا کرنے والا شخص کبھی اپنے مقصد میں بامراد نہیں ہوسکتا، اتباع کے لائق تو صرف الله تعالیٰ اور اس کے رسول ہی ہیں۔“

آسمان کا اسلامی تصور
آسمانوں کے اسلامی تصور کو اجاگر کرتے ہوئے علامہ عبدالحق حقانی دہلوی رحمہ الله لکھتے ہیں:
”الہامی کتابوں بالخصوص قرآن مجید سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آسمان کوئی مجسم چیز ہے، جو قیامت کو پھٹ جائے گی، عام ہے کہ وہ کوئی جسم اور کسی قسم کا ہو، قال الله تعالی: ﴿إذا السماء انفطرت﴾ وقال: ﴿إذا السماء کشطت…﴾ کیوں کہ اگر آسمان فضا یا بُعد موہوم کا نام ہے، جیسا کہ بعض مقلدین یورپ کا قول ہے تو وہ ایک عدمی چیز ہے ، اس کا پھٹنا او راس کے چھلکوں یعنی طبقات کا اکھڑنا اور ا س کو پیدا کرنا او ربنانا جس طرح کہ زمین او راس کی چیزیں بنائیں یا اس کی کھڑکیاں کھلنا جس کا توراة میں ذکر ہے اوراس کو سقف محفوظ ( چھت) کہنا چہ معنی دارد؟۔ “( تفسیر حقانی، البقرہ: تحت آیة رقم:29)

خلاصہ کلام یہ ہے:
فلک اور آسمان دو مختلف چیزیں ہیں۔
فلک ، شمس وقمر اور سیاروں کا مدار ہے۔
فلک سے آسمان مراد لینا سلف صالحین کے معروف مسلک کے خلاف ہے ۔

سیاروں کے مدار فلک کو آسمان قرار دینے کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یعنی فلک قمر کو آسمان اول ، فلک عطارد کو آسمان دوم، فلک زہراء کو آسمان سوم، فلک شمس کو آسمان چہارم ، فلک مریخ کو آسمان پنجم، فلک مشتری کو آسمان ششم اور فلک زحل کو آسمان ہفتم، فلک الثوابت کو آسمان ہشتم (عرش الہی) فلک الأفلاک کو آسمان نہم ( کرسی) قرار دینا شرعاً شدید ترین غلطی ہے ، کیوں کہ ساتوں آسمان تمام سیاروں، ستاروں او راجرام فلکی کے اوپر واقع ہیں۔

آسمانوں کی تعداد سات ہے۔

صفات متشابہات کی بحث:
﴿ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاء﴾ کے ذیل میں بعض علماء نے صفات متشابہات کی بحث چھیڑی ہے، اس مناسبت سے اہل سنت والجماعت کا عقیدہ اختصار کے ساتھ نقل کیا جا رہا ہے، اس موضوع پر تفصیلی مباحث اور سلف صالحین کا تفصیلی موقف جاننے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ کریں۔”القول التمام بإثبات التفویض مذھباً للسّلف الکرام“ مؤلف سیف بن علی․

﴿ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش﴾․
اہل سنت والجماعت کا اجتماعی اور اتفاقی عقیدہ ہے کہ ذات باری تعالیٰ زمان ومکان کی حدود سے اور سمت وجہت کی قیود سے پاک اور منزّہ ہے (ولا محدود ولا معدود، ولا یوصف بالماھیة ولا بالکیفیة، ولا یتمکن فی مکان (إذا لم یکن فی مکان لم یکن فی جھة، لاعلو ولاسفل ولا غیرھما) ولا یجری علیہ زمان، العقائد النسفیة، ص:43، مع شرح التفتازانی)

وہ عرش کا محتاج ہے نہ فرش کا، عرش وکرسی کے وجود میں آنے سے پہلے وہ جس شان میں تھا اب بھی اسی شان میں ہے ۔

البتہ جہاں تک بحث قرآن وحدیث کے ان الفاظ کے متعلق ہے جو الله تعالیٰ کے لیے عرش پر قرار پکڑنے:﴿ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش﴾․ (الاعراف، آیت:54)اور چہرہ:﴿وَیَبْقَی وَجْہُ رَبِّک﴾․ (الرحمن، آیت:27)ہاتھ:﴿ یَدُ اللَّہِ فَوْقَ أَیْْدِیْہِمْ﴾․ (الفتح، آیت:10)آنکھ: ﴿وَلِتُصْنَعَ عَلَی عَیْْنِی﴾․ (طہ، آیت:39)پنڈلی:﴿یَوْمَ یُکْشَفُ عَن سَاق﴾․(القلم:42) وغیرہ ہونے پر دلالت کناں ہیں ، تو انہیں اسلاف نے صفات متشابہات قرار دے دیا ہے۔ کیوں کہ اگر انہیں حقیقی معنی پر محمول کیا جائے تو تجسیم وتشبیہ کی راہیں کھلتی ہیں اور اگر صرف تنزیہ وتجرید کے تقاضے ملحوظ رکھے جائیں تو انکارِ صفات کے پہلو نکلتے ہیں۔

فرقہ مجسمہ اور مشبہہ نے تو ان صفات کے حقیقی معنی مراد لے کر تجسیم وتشبیہ کی تمام منزلیں طے کر ڈالیں اور برملا یہ دعویٰ کر دیا کہ الله تعالیٰ بھی اس طرح ہاتھ ، پاؤں رکھتے ہیں جس طرح ایک مخلوق رکھتی ہے۔ (شرح المقاصد، المقصد الخامس، 37/3)

اور آسمان وزمین کی تخلیق کے بعد اسی طرح عرش پر بیٹھے ہیں، جس طرح ایک بادشاہ ملکی امور کی انجام دہی کے بعد تختِ شاہی پر فروکش ہوتا ہے۔

دوسری طرف تنزیہ وتجرید کے علم بردار معتزلہ، معطلہ جہمیہ نے مذکورہ صفات کو توحید باری تعالیٰ کے منافی قرار دے کر انہیں مجازی معنی پر محمول کیا اورپھر اسی کو حرف آخر اور حتمی بھی قرار دیا ہے۔ ( التمہید لابن عبدالبر،145/7)

افراط وتفریط کی اس کش مکش میں اہل سنت والجماعت ہی ایسا گروہ تھا جو اعتدال کی راہ پر گام زن رہا اور سلف صالحین کے نقش قدم پہ چل کر تعبیر وتشریح کے اس پیچیدہ مقام سے باسلامت گزر گیا۔

اہل سنت والجماعت کا مسلک
متقدمین سلف صالحین کا موقف: متقدمین سلفِ صالحین کا مسلک یہ ہے کہ جو صفات متشابہات قرآن وحدیث او راجماع امت سے ثابت ہیں ان کے متعلق بس اتنا ہی جان لینا کافی ہے کہ :

جو لفظ صفت باری پر دلالت کناں ہے اس کی نسبت الله تعالیٰ کی طرف ثابت ہے۔

اس لفظ سے اس کا ظاہری اور حقیقی معنی ہر گز مراد نہیں ۔

نیز ذات بار ی مخلوق کی مشابہات سے پاک ہے۔ (” نؤمن بأن الاستواء ثابت لہ تعالی( بمعنی یلیق بہ ھو سبحانہ اعلم بہ) کماجری علیہ السلف رضوان الله تعالیٰ علیہم فی المتشابہ من التنزیہ عمالا یلیق بجلال الله تعالیٰ مع تفویض علم معناہ إلیہ سبحانہ․“ المسایرہ شرح المسامرہ لابن الہمام، ص:45)․

” وانما یسلک فی ھذا المقام مذھب السلف الصالح، الأوزاعي والثوری واللیث بن سعد والشافعی وأحمد بن حنبل واسحاق بن راھویہ وغیرہم من أئمة المسلمین، قدیماً وحدیثاً، وھو إمرار،کما جاء ت من غیر تکییف ولا تشبیہ ولا تعطیل، والظاہر المتبادر إلی اذھان المشبھین منفی عن الله، فإن الله لا یشبہہ شيء من خلقہ․“ ( تفسیر ابن کثیر، الاعراف، تحت آیت: رقم:54)

یہ اہل سنت کا مسلمہ موقف ہے جس پر چندد لائل پیش خدمت ہیں۔

امام مالک رحمہ الله تعالیٰ کی مجلس میں ایک شخص نے ﴿الرحمن عَلَی الْعَرْش اسْتَوَی﴾ کی تلاوت کرکے یہی سوال اٹھایا کہ الله تعالیٰ کا استوا کیسا ہے ؟ امام مالک رحمہ الله تعالیٰ نے ایک لمحہ سوچ کر ارشاد فرمایا یہ استوا ایسا ہی ہے جیسا الله تعالیٰ نے آیت کریمہ میں اپنے بارے میں بیان فرما دیا ہے ۔ الرحمن ( یعنی صرف صفت استوی کی نسبت باری تعالیٰ کے لیے ثابت ہے) اس کی کوئی کیفیت نہیں ( کیوں کہ یہ جسم کی خصوصیت ہے) اس لیے یہاں کیفیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ (”فقال: (الرحمن علی العرش استوی، کما وصف بہ نفسہ․ ولا یقال کیف، وکیف عنہ مرفوع․“(الدرالمنثور، لابن الجوزی، الاعراف، تحت آیة رقم:54) (ھکذا فی کتاب الاسماء والصفات للإمام البیہقی، ص:408)

امام مالک رحمہ الله تعالیٰ نے اپنے جواب میں اہل سنت والجماعت کے موقف کی ترجمانی فرمائی ہے کہ استوی بار ی تعالیٰ کی متشابہہ المعنی صفت ہے، لہٰذا صفت استویٰ کی نسبت باری تعالیٰ کے لیے ثابت کرکے اس کے معنی ومراد پر لب کشائی سے گریز کرنا چاہیے ۔ یہی وجہ ہے اہل سنت استوی کی تشریح مایلیق بہ ( ایسا استوی جو اس کے شایان شان ہے) سے کر دیتے ہیں۔

امام ترمذی رحمہ الله اپنی سنن میں صفات متشابہات کے متعلق جمہور اہل سنت کا مسلک بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ان صفات پر صدق دل سے ایمان لاکر اس کی کوئی تفسیر نہ کی جائے، بلکہ ایسا وہم بھی نہ لایا جائے جس سے تجسیم وتشبیہ کا اشارہ نکلتا ہو ، ائمہ اہل سنت سفیان الثوری، مالک بن انس، عبدالله بن المبارک وغیرہ سب کا یہی مسلک ہے ۔ (”والمذھب فی ھذا عند اھل العلم من الأئمة مثل سفیان الثوری ومالک ابن انس، وابن المبارک، وابن عینیة ووکیع وغیرہ… وھذا الذی اختارہ أھل الحدیث أن تروی ھذہ الأشیاء کما جاء ت ویؤمن بھا، ولا تفسر، ولا تتوھم، ولا یقال کیف…“․ (”سنن الترمذی، تحت حدیث، رقم:2557: مزید کتاب التفسیر سورہ المائدہ، رقم الحدیث:3045، باب ماجاء فی خلود)

قرآن وحدیث میں بارہا ید (ہاتھ) کا لفظ الله تعالیٰ کے لیے استعمال ہوا ہے، جس پر علامہ ابن حجر رحمہ الله نے فرمایا کہ اس (ید) سے وہ ہاتھ ہر گز مراد نہیں جس کا ذکر ہوتے ہی ہمارے دل ودماغ میں ایک جسمانی عضو کا تصور دوڑنے لگتا ہے ، بلکہ یہ ایک صفت باری تعالیٰ ہے ( جس کی نسبت باری تعالیٰ کے لیے ثابت ہے ) لہٰذا اس صفت پر ایمان لا کر توقف اختیار کرنا چاہیے۔ کیوں کہ یہی اہل سنت والجماعت کا مسلک ہے ۔ (”ولیس الید عندنا الجارحة، إنما ھی صفة جاء بہ التوقیف، فنحن نطلقھا علی ماجاء ت، ولا نکیفھا، وھذا مذھب أھل السنة والجماعة․“ (فتح الباری لابن حجر، تحت حدیث رقم باب قول الله تعالیٰ: (تعرج الملٰئکة والروح إلیہ) رقم الحدیث:6993) امرارھا علی ماجاء ت مفوضا معناہ إلی الله تعالی… قال الطیبی: ھذا ھو المذھب المعتمد، وبہ یقول السلف الصالح․“ ( فتح الباری لابن حجر باب قول الله تعالیٰ ولتصنع علی عینی، رقم الحدیث:6972)

دیکھیے علامہ ابن حجر رحمہ الله تعالیٰ نے صفات متشابہات کے متعلق واضح فرما دیا ہے کہ یہ متشابہہ المعنی صفت ہے ، لہٰذا اس کی تلاوت پر اکتفا کرکے اس کے معنی ومراد کے درپے نہیں ہونا چاہیے۔

علامہ بیہقی رحمہ الله تعالیٰ نے امام محمد بن الحسن الشیبانی رحمہ الله اور سفیان بن عینیہ رحمہ الله کا یہ قول نقل کیا ہے کہ :” کسی شخص کے لیے یہ روا نہیں کہ صفاتِ متشابہات کی تفسیر عربی یا عجمی زبان میں کرتا پھرے ۔ ان الفاظ کو پڑھ کر ان سے گزر جانا ہی بس ان کی تفسیر ہے۔“ ( ”ما وصف الله تبارک وتعالیٰ بنفسہ فی کتابہ فقرأتہ تفسیرہ، لیس لأحد أن یفسرہ بالعربیة ولابالفارسیة․“(کتاب الأسماء والصفات للبیہقی مع الھامش، ص:314)

علامہ بیہقی رحمہ الله فرماتے ہیں:متقدمین سلف صالحین استواء اوراسی جیسی تمام صفاتِ متشابہات کی کوئی تفسیر نہیں کرتے تھے۔“ ( ”فأما الاستواء فالمتقدمون من اصحابنا کانوا لایفسرونہ، ویتکلمون فیہ کنحو مذھبہم فی أمثال ذلک․“ (کتاب الأسماء والصفات للبیہقی، ص:407)

مذکورہ بالا دلائل سے متقدمین سلف صالحین کا موقف روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گیا کہ یہ صفات متشابہہ المعنی ہیں ، ان کے ظاہری معنی مراد لینا کسی طرح درست نہیں۔

متقدمین کے مسلک پر کچھ شہبات
پہلا شبہ: اگر صفات متشابہات ، استوی ، ید، وجہ وغیرہ کے ظاہری معنی اس لیے مراد نہیں لیے جاسکتے کہ اس سے جسمانیت کے پہلو سامنے آتے ہیں تو پھر محکم صفات علم ، قدرت ، حیات وغیرہ کا تصور بھی تو جسمانیت کے بغیر نہیں ہو سکتا، انہیں بھی متشابہات قرار دیا جائے۔

جواب… اس شبہ کی یہ بنیاد ہی غلط ہے کہ محکم صفات ، علم، قدرت ، حیات کا تصور جسم کے بغیر نہیں ہو سکتا، کیوں کہ ان صفات کا اطلاق جب باری تعالیٰ پر کیا جاتا ہے تو اس کی اولین دلالت جسم پر نہیں ہوتی، بلکہ ان الفاظ کے کانوں میں پڑتے ہی جو معانی اخذ ہوتے ہیں اس میں تنزیہ وتجرید کے تقاضے پوری طرح جلوہ گر ہوتے ہیں اور دل ودماغ کے کسی گوشے میں جسم کا تصور نہیں ابھرتا، برخلاف صفاتِ متشابہات ، استواء ِید، وجہ، کے کہ ان الفاظ کی اولین دلالت ہی جسمانیت پر ہوتی ہے ۔ ان کے ظاہری معنی مراد لینے کے بعد جسمانی لوازم کو وہم وخیال سے دور نہیں رکھا جاسکتا، لہٰذا اگر متشابہات اور محکمات میں یہ فرق ملحوظ رکھاجائے تو اشکال پیدا ہی نہ ہو ۔

دوسرا شبہ: اگر متشابہات کے معنی مراد کا علم صرف الله تبارک وتعالیٰ کو ہے تو پھر ان کو قرآن کریم میں ذکر کرنے کیا فائدہ ہے ؟

جواب : اگرچہ ہمیں صفات متشابہات کے معنی ومراد کا علم نہیں، لیکن ان پر ایمان لانا بھی باعث نجات اور ثواب ہے ، علاوہ ازیں اس کی تلاوت کے بھی معنوی فوائد اوربرکات ہیں ،اگرچہ ان تک ہماری رسائی نہیں ہے۔

متاخرین اہل سنت والجماعت کا موقف
متأخرین سلف صالحین کا مسلک یہ ہے کہ صفات متشابہات کے ایسے مجازی معنی بیان کیے جاسکتے ہیں جو الله تبارک وتعالیٰ کے شایان شان ہوں، بشرطے کہ:
اس لفظ کے اندر مجازی معنی مراد لینے کی گنجائش ہو۔
نیز اس مجازی معنی کو احتمال تفسیر کے درجے میں رکھا جائے، انہیں قطعی اوریقینی نہ کہا جائے۔

لہٰذا ”ید“ سے قدرت ، ”وجہ“ سے ذات اور استوا سے استیلا (غلبہ) مراد لیا جاسکتا ہے ۔ ( المسایرہ فی العقائد المنجیة فی الأخرة، ص:47,44)

تاویل کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
چوں کہ متاخرین کے زمانے میں کئی فرقہائے باطلہ رواج پذیر ہو کر امت مسلمہ کی وحدت فکر کو پارہ پارہ کرنے میں مصروف کار تھے ، جن میں سر فہرست مجسمہ او رمشبہہ ایسے فرقے تھے جو صفات متشابہات کے ظاہری الفاظ کا سہارا لے کر الله تعالیٰ کے لیے مخلوق کی طرح ہاتھ ، پاؤں، چہرہ، پنڈلی وغیرہ ثابت کرتے تھے۔

متاخرین سلف صالحین نے جب دیکھا کہ یہ فرقہائے باطلہ عوام کی ذہنی سطح سے غلط فائدہ اٹھا کر انہیں گم راہی کی طرف دھکیل رہے ہیں تو انہوں نے تاویل کا مسلک اختیارکرکے تمام متشابہات کے مناسب ، سادہ عام فہم معانی بیان کیے، مثلاً کہا ید سے ہاتھ نہیں قدرت مراد ہے، وجہ سے چہرہ نہیں بلکہ ذات مراد ہے، استوی سے استقرار وجلوس نہیں بلکہ استیلا اور غلبہ مراد ہے، تاکہ سادہ لوح مسلمانوں کومجسمہ اور مشبہہ کے گم راہ کن خیالات سے بچایا جاسکے۔

مسلکِ تاویل کی بنیاد کی وہ آیت کریمہ ہے جو متشابہات کے متعلق وارد ہے ﴿وَمَا یَعْلَمُ تَأْوِیْلَہُ إِلاَّ اللّہُ وَالرَّاسِخُونَ فِیْ الْعِلْمِ یَقُولُونَ آمَنَّا﴾․ (آل عمران:7)

اس آیت کریمہ کی ایک قرأت میںإ لا الله پر وقف نہیں ہے، اس صورت میں ﴿الراسخون فی العلم﴾ کا لفظ الله پر عطف ہو گا اور آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ متشابہات کی تاویل کا علم الله کو او رعلمائے راسخین کو ہے ۔ متاخرین نے اسی قرأت پر اپنے مسلک کی بنیاد رکھی ہے۔ ( المسامرہ مع شرحہ المسایرہ ص:45، بیروت)

متاخرین کے مسلک پر کچھ شبہات او ران کا ازالہ
پہلاشبہ: امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ الله نے فقہ اکبر میں تصریح فرمائی ہے کہ ”ید“ سے قدرت یا نعمت مراد لینا جائز نہیں، کیوں کہ اس طرح تاویل کرنے سے صفت باری تعالیٰ کاابطال لازم آتا ہے۔ (فماذکرہ الله تعالیٰ فی القرآن من ذکر الوجہ، والید، والنفس فہو لہ صفات بلاکیف ولایقال: إن یدہ قدرتہ أو نعمتہ، لأن فیہ ابطال الصفة وھو قول اھل القدر والا عتزال․“ (الفقہ الأکبر مع شرحہ للملا علی القاری، ص:67)

دیکھیے امام صاحب تو تاویل کے مسلک کو ناجائز قرار دے رہے ہیں ، لیکن ان کے مقلدین اسی مسلک کو حرزِ جان بنائے ہوئے ہیں، یہ امام صاحب کے مسلک سے انحراف نہیں ہے؟

جواب: اگر فقہ اکبر کی مکمل عبارت پڑھ لی جاتی تو اشکال پیدا نہ ہوتا، کیوں کہ امام صاحب نے صفات متشابہات میں اس تاویل کو ناجائز فرمایا ہے جسے قطعیت کے درجے پر فائز کر دیا گیا ہو ، جس کے نتیجے میں صفات کے اصل کلمات بے معنی ہو کر رہ جائیں ، چوں کہ ایسی تاویل معتزلہ وغیرہ کرتے ہیں ، اس لیے امام صاحب نے ان کی تردید فرمائی ہے ، اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ اس عبارت کے متصل بعد ہی امام صاحب نے فرمایا ”وھو قول اھل القدر والاعتزال“ یعنی صفات میں تاویل کرکے اسے قطعی سمجھنا معتزلہ اور قدریہ کا مسلک ہے ۔

جہاں تک اہل سنت والجماعت کی بات ہے وہ جب کسی لفظ کی تاویل کرتے ہیں تو اس سے ایسے معنی مراد لیتے ہیں۔
جس کا وہ لفظ احتمال بھی رکھتا ہو ۔
لفظ کے اصل معنی کی نفی بھی نہ ہوتی ہو ۔
اور وہ تفسیر ظن اور احتمال کے درجے میں ہو۔
مثلاً آیت کریمہ﴿وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُون﴾ کا معنی یہ ہے کہ جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ لیکن صوفیا اس کی تفسیر عمومی معنی میں کرتے ہیں ”جو ہم نے ان کومال وعلم دیا ہے “ یہاں علم مراد لینے سے مال کی نفی نہیں ہوتی، اسی طرح ید سے قدرت ونعمت اور وجہ سے ذات مراد لینے سے بھی لفظ کے اصل معنی ہاتھ اور چہرے کی نفی نہیں ہوتی۔ اہل سنت والجماعت اور فرقہائے باطلہ میں یہی بنیادی فرق ہے، چناں چہ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ الله تعالی فرماتے ہیں:

” اعتراض ہوتا ہے کہ جس طرح گروہ اشاعرہ، ماترید یہ تاویلات کرتے ہیں ، معتزلہ او رجہمیہ بھی تاویلات کرتے ہیں ان میں او ران میں کیا فرق ہے ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں کی تلاویلات میں فرق یہ ہے کہ اشاعرہ ماتریدیہ تاویلات پر جزم نہیں کرتے، برخلاف معتزلہ وغیرہ کے کہ وہ تلاویلات کرتے ہیں او رکہتے ہیں بس یہاں یہی معنی مراد ہیں ۔(معارف مدنیہ ، ص:47)

دوسرا شبہ: علامہ تفتازانی رحمہ الله تعالی، شرح عقائد نسفیہ میں لکھتے ہیں کہ صفات باری تعالی کے متعلق اشاعرہ اور ماتریدیہ کا موقف یہ ہے کہ ہر ہر صفت اپنے معنی ومراد کے اعتبار سے دوسری صفت کے مقابلے میں ایک جداگانہ حیثیت رکھتی ہے، کسی بھی صورت میں دو صفات کوہم معنی اور مترادف نہیں قرار دیا جاسکتا۔ (ولہ صفات لما ثبت من أنہ تعالیٰ عالم، قادر، حي إلی غیر ذلک، ومعلوم أن کلا من ذلک یدل علی معنی زائد علی مفہوم الواجب، ولیس الکل الفاظ مترادفة“․ (شرح العقائد النسفیة للتفتازنی، ص:48)

لہٰذا مذکورہ موقف کی روشنی میں ید اور استویٰ کو ایک معنی زائدہ پر دلالت کناں ہونا چاہیے، انہیں نعمت وقدرت یا استیلاء وغلبہ کے ہم معنی قرار دینا خود تمہارے اپنے موقف کی رو سے بھی درست نہیں ہے۔

جواب : پہلی بات تو یہ ہے کہ تمیزِ صفات کا مذکورہ موقف محکم صفات ( علم قدرت ، سمع، بصر) کے متعلق ہے نہ کہ صفات متشابہات کے متعلق ، علامہ تفتازانی رحمہ الله تعالیٰ نے بھی محکم صفات کے ضمن میں اس موقف پر روشنی ڈالی ہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ اشاعرہ اور ماتریدیہ جب صفات متشابہات ، ید اور استویٰ سے نعمت اور استیلا وغلبہ مراد لیتے ہیں تو اسے معنی مجاز قرار دیتے ہیں، نہ کہ مترادفات اور مجازی معنی کا استعمال تو عرف اور لغت سے ثابت ہے ۔

چناں چہ ایک شاعر ”استویٰ“ کو بطور مجاز غلبے سے تعبیر کرتے ہوئے کہتا ہے #
قد استوی بشر علی العراق
(المسامرة، ص:46)

تحقیق بشر عراق پر غالب آگیا ہے ( بشر ایک شخص کا نام ہے) ۔

اسی طرح ید سے بطور مجاز نعمت مراد لیتے ہوئے ایک شاعر نے کہا ہے #
إلیک یديَّ منک الأیادی تمدّھا
( ”إلیک یدی منک الأیادی تمدھا، قال شارحہ: المراد بالید ھنا الجارحة، والأیادی جمع ید بمعنی النعمة فالمعنی الأیادي الفائضة من حضرتک حملتنی علی مد یدی الیک فی طلب المسئول وبغیة المأمول․“(شرح کتاب الفقہ الأکبر، ص:67)

”تیری نعمتوں کا فیض ہی مجھے تمہاری طرف ہاتھ پھیلانے پر مجبورکرتا ہے ، مذکورہ شعر میں ”الأیادی“ سے نعمتیں مراد ہیں اگر ان صفاتِ متشابہات کو مجازی معنوں پر محمول نہ کیا جائے، بلکہ وہ ظاہری معنی مراد لیے جائیں جسے آپ زائد معنی سے تعبیر کر رہے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ کھلی ہوئی تجسیم پر دلالت کناں ہیں، اس لیے اہل سنت والجماعة نے اس تعبیر سے گریز فرمایا ہے۔

تیسرا شبہ: کیا تاویل کرنا بدعت ہے؟
غیر مقلدین اور نام نہاد سلفیوں کا صفات باری تعالیٰ کے متعلق کیا عقیدہ ہے ؟ اس پر تفصیلی گفت گو تو چند صفحات آگے آرہی ہے ۔ لیکن یہاں سردست ان کے اس اعتراض کا جواب دینا مقصود ہے جس کی آڑ میں یہ اہل سنت والجماعت کو اپنی تحریر وتقریر پر جا بجا مطعون کرتے ہیں ، ان کا دعوی یہ ہے کہ صفات متشابہات کی تاویل کرنا بدعت اور ناجائز ہے، چوں کہ اشاعرہ․ (واضح رہے کہ اشاعرہ کا اطلاق بطور اصطلاح اہل سنت والجماعت کے دونوں گروہ اشاعرہ اور ماتریدیہ پر ہوتا ہے ، واصطلح المتأخرون علی تسمیة الفریقین بالأشاعرة تغلیبا․ ( النبراس، ص:22، امدادیہ ملتان) نے اپنے مسلک کی بنیاد تاویل پر رکھی ہے، لہٰذا ان کے بدعتی اور گم راہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ (”القول بالمجاز قول مبتدع․“ (الصواعق المرسلة ص:233، بیروت) ”وطریقی التفویض والتاویل فی باب الصفات مسلکان باطلان․“ (حاشیة علی فتح الباری زھیر شاویش، کتاب التوحید، باب قول النبی : لاشخص اغیر من الله: 493/13)

جواب: غیر مقلدین کا مذکورہ اشکال چند وجوہ سے درست نہیں ہے ۔

متاخرین سلف صالحین کے مسلک تاویل کی بنیاد وہ آیت کریمہ ہے جو متشابہات کے متعلق وارد ہے ﴿وَمَا یَعْلَمُ تَأْوِیْلَہُ إِلاَّ اللّہُ وَالرَّاسِخُونَ فِیْ الْعِلْمِ﴾․ (آل عمران:7)

اس آیت کریمہ کی ایک قرأت میں ﴿إلا الله﴾ پر وقف نہیں ہے ۔ اس صورت میں ﴿الراسخون فی العلم﴾ کا لفظ الله پر عطف ہوگا اور آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ متشابہات کی تاویل کا علم الله کو او رعلمائے راسخین کو ہے۔ (المسامرہ مع شرحہ المسایرہ، ص:45، بیروت) متاخرین نے اسی قرأت پر اپنے مسلک کی بنیاد رکھی ہے جب ایک چیز کا شرعی جواز موجود ہو تو اسے بدعت کیسے کہا جاسکتا ہے؟

نیز متشابہات کی تاویل صحابہ کرام، تابعین، سلف صالحین سے بھیمنقول ہے ، کیا ان مبارک ہستیوں سے بدعت کی توقع کی جاسکتی ہے ؟ ذیل میں ان کی تلاویلات کی ایک جھلک آپ بھی دیکھ لیجیے ۔

رئیس المفسرین حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما سے سند صحیح کے ساتھ منقول ہے کہ انہوں نے ﴿یوم یکشف عن ساق﴾ میں ”ساق“ کی تاویل ”شدت“ سے فرمائی ۔ (” وأما الساق فجاء عن ابن عباس فی قولہ تعالیٰ: ﴿یوم یکشف عن ساق﴾ : قال عن شدة الأمر․ (فتح الباری، باب: قول الله تعالیٰ: وجوہ یومئذٍ ناضرة إلی ربھا ناظرة․ الحدیث الثالث رقم:7436) تفسیر ابن جریر الطبری، القلم، تحت آیة رقم:42)

بلکہ آپ تو مقطعات کی بھی تاویل فرمایا کرتے تھے۔ ( العرف الشذي، 496/1، بیروت)

علامہ ابن جریری طبری رحمہ الله ﴿یوم یکشف عن ساق﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم اور تابعین رحمہم الله کی ایک جماعت نے ساق کی تاویل ”شدت امر“ سے کی ہے۔(تفسیر ابن جریر الطبری، القلم، تحت آیة رقم:42)

حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما حضرت قتادہ ، حضرت مجاہد حضرت سفیان ثوری رحمہم ا الله نے آیت کریمہ: ﴿والسماء بنینا ھا بأید وإنا لموسعون﴾ میں ”بأید“ کی تاویل قوت سے فرمائی ہے ۔ (تفسیر ابن حبریر الطبری، القلم، تحت آیة رقم:47)

حضرت امام مالک رحمہ الله تعالیٰ سے اس حدیث کے متعلق دریافت کیاگیا جس میں نزول الہی کا ذکر ان الفاظ میں ہے کہ الله تعالیٰ رات کو دنیا کے قریبی آسماں پر نزول فرماتے ہیں ، آپ نے فرمایا اس سے امر اور حکم مراد ہے کہ حکم الہی نازل ہوتا ہے۔ دیکھیے! امام مالک رحمہ الله تعالیٰ نے نزول الہی کی تاویل نزول حکم الہی سے فرمائی۔ ”قال حدثنا مطرف عن مالک بن انس أنہ سئل عن الحدیث ”إن الله ینزل فی اللیل إلی سماء الدنیا“ فقال مالک: یتنزل أمرہ․“ (التمہید لابن عبدالبر، 143/7)

امام احمد بن حنبل رحمہ الله تعالیٰ کے بھتیجے سے مروی ہے کہ امام صاحب نے ﴿وجاء ربک﴾ (اور آیا آپ کا رب) کی تاویل وجاء ثوابہ ( اور آیا رب کا ثواب ) سے فرمایا ۔

امام بیہقی رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس سند پر کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے ۔ (”رواہ البیہقی عن الحاکم عن ابی عمر بن السماک عن احمد بن حنبل ان احمد بن حنبل تأول قول الله تعالیٰ:﴿ وجاء ربک﴾: أنہ وجاء ثوابہ․ “ … ھذا سند لاغبار علیہ․“ (البدایة والنہایة،327/10)

حقیقت یہ ہے کہ قرآن وحدیث میں متعدد ایسے مقامات ہیں جہاں الفاظ کی ظاہری دلالت سے قطع نظر کرکے مجاز واستعارے کی آڑ لی جاتی ہے اور چاروناچار تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جب تک اس اندازِ بیان کی توجیہ مجاز کی روشنی میں نہ کی جائے تو افہام وتفہیم کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے۔ مثلاً قرآنِ کریم میں ہے ﴿کُلُّ شَیْْء ٍ ہَالِکٌ إِلَّا وَجْہَہُ﴾․ (القصص، آیت:88)

ترجمہ: ہر چیز کو فنا ہے مگر اس کا منھ ( ذات) ۔اگر یہاں وجہ منھ کی تاویل ذات سے نہ کی جائے تو پھر آیت کریمہ کا صاف صاف مطلب یہ ہو گا الله تعالیٰ کے ید ، قدم، ساق ( جنہیں غیر مقلدین الله کے عضو تسلیم کرتے ہیں) فنا اور زوال پذیر ہو جائیں گے ، صرف باری تعالیٰ کا چہرہ ہی قائم ودائم رہے گا۔ چناں چہ اس مقام پر خود غیر مقلدین تاویل وتعبیر کی ضرورت سے بے نیاز نہ رہ سکے او ران کے لیے وجہ کی تاویل ذات سے کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ رہا ۔ ( تفسیر جونا گڑھی ، القصص، تحت آیہ رقم:88)

اسی طرح قرآن کریم میں آیت کریمہ ہے ﴿قَدْ مَکَرَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ فَأَتَی اللّہُ﴾․ (النحل:26)

البتہ دغا بازی کرچکے ہیں جو تھے ان سے پہلے، پھر پہنچا حکم الله کا میں فأتی الله کی تاویل فأتی عذاب الله (الله کا عذاب آیا) سے کرتے ہیں ۔ (تفسیر جونا گڑھی ، النحل ،تحت آیہ رقم:26)

قرآن وحدیث میں کتنے ہی ایسے مقامات ہیں جہاں غیر مقلدین نے تاویل واستعارے سے بلاجھجک کام لیا ہے۔ اگر تاویل بدعت ہے تو اس جرم میں آپ بھی برابر کے شریک ہیں، پھر اشاعرہ پر ہی الزام تراشی کیوں؟

خلاصہ یہ ہے کہ : متقدمین کے نزدیک یہ صفات ، ید، وجہ ، استوی متشابہہ المعنی ہیں۔صفات متشابہات کے لغوی معنی تحت اللفظ کیے جاسکتے ہیں، لیکن ان کی تشریح اور وضاحت معروف فی الخلق سے نہیں کرسکتے، اگر ان صفات کو معروف معانی کے ساتھ الله تعالیٰ کے لیے ثابت کریں تو اس سے تجسیم لازم آتی ہے اور کیفیت کی جہالت سے ہم تجسیم سے نہیں نکل سکتے۔ متاخرین نے اہل بدعت کے بڑھتے ہوئے فروغ کی روک تھام کے لیے مسلک تایل اختیار کیا او رتمام متشابہات کی مناسب تاویلات کیں او ران تلاویلات کا شرعی جواز موجود ہے۔ متاخرین سلف صالحین سے ﴿اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش﴾ کی کئی تاویلیں منقول ہیں، تاہم مشہور تاویل یہ ہے۔

اسْتَوَی سے غلبہ وقبضہ مراد ہے اورالعرش تخت کو کہتے ہیں۔ اور﴿اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش﴾الله تبارک وتعالیٰ کے کائنات پرمکمل قبضہ وقدرت اور اس کے حاکمانہ تصرف سے تعبیر ہے کہ کائنات کی کوئی چیز او رکوئی گوشہ اس کے قبضہ قدرت اور تصرفات سے باہر نہیں۔(تفسیر رازی، الاعراف، تحت آیہ رقم:54۔مزید تاویلات کے لیے دیکھیے: تفسیر فخر الدین رازی، تفسیر روح المعانی، اللباب فی علوم الکتاب، الاعراف تحت آیہ رقم:54)

اہل سنت والجماعت اشاعرہ اور ماترید یہ کے مجموعے کا نام ہے۔ ( ”وھؤلاء الحنفیة والشافعیة والمالکیة وفضلاء الحنابلة ولله الحمد فی العقائد ید واحدة کلھم علی رأي أھل السنة والجماعة، یدینون الله تعالیٰ بطریق شیخ السنة أبی الحسن الأشعریی رحمہ الله تعالی․“ ( معید النعم ومبید النِقم للسبکی، ص:62) ””اذا أطلق أھل السنة والجماعة فالمراد بھم الأشاعرة والماتریدیة․“ (اتحاف السادة المتقین شرح احیاء علوم الدین للغزالی:8/2، بیروت)

امت کے اس عظیم حصے کو او ران سے وابستہ محدثین کرام، فقہائے عظام کو بدعتی اور گم راہ کہنے والا شخص خود گم راہ اور بدعتی ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش اور غیر مقلدین کا ناقابل فہم مسلک
غیر مقلدین کا موقف یہ ہے کہ ﴿اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش﴾ اپنے حقیقی معنوں پر محمول ہے ، یعنی الله تعالیٰ”پھر بیٹھا تخت پر“ اور عرش الله تعالیٰ کامکان ہے اور الله تعالیٰ جہت بلندی سے متصف ہے ۔(وھو في جہة الفوق، ومکان العرش۔(نزل الأبرار، کتاب الایمان، ص:3،لاہور)

اسی طرح یَدْ ، وجہ، ساق، سے الله تعالیٰ کے اعضا وجوارح مراد ہیں، تاہم ان کی کیفیت مجہول ہے۔ (”ولہ وجہ، وعین، وید، وکف، وقبضة، واصابع، وساعد، وذراع، وجنب، وحقو، وقدم، ورجل، وساق، وکیف کما تلیق بذاتہ“․(نزل الابرار من فقہ النبی المختار، کتاب الإیمان، ص:3، لاہور)

اگر غیر مقلدین کے مذکورہ موقف ومسلک کو درست قرار دیا جائے تو ذات بار ی تعالیٰ کے لیے ”جسم“ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں رہتا، کیوں کہ باری تعالیٰ کے لیے مکان وجہت اور اعضائے جارحہ (منھ، ہاتھ، پنڈلی) ثابت کرتے ہی جسمانیت کے تمام پہلو غیر شعوری طور پر پیدا ہو جاتے ہیں یا پھر یہ مسئلہ مبہم اور ناقابل فہم بن جاتا ہے۔

اس لیے کہ جب آپ الله تعالیٰ کے لیے ، چہرہ، ہاتھ، پنڈلی وغیرہ کے اثبات پر زور دیتے ہیں تو اس کے جو معنی انسانی ذہن میں متبادر ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ اس کی ذات نہ صرف جسم رکھتی ہے، بلکہ اعضا وجوارح سے بھی متصف ہے، لیکن پھر جب آپ کہتے ہیں ان اعضاءِ جوارحہ کی کیفیت مجہول ہے، اس کا ہاتھ ہمارے ہاتھ کی مانند نہیں، اس کا چہرہ ہمارے چہرے کی طرح نہیں تو پھر فیصلہ کن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نفی کا اطلاق کس سے متعلق ہے؟

کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ:
وہ چہرے، ہاتھ، پنڈلی وغیرہ کے مدلولات ہی سے متصف نہیں؟یا یہ کہ وہ ایک نوع کے اعضائے جارحہ تو رکھتا ہے، مگر یہ اعضائے جارحہ تمام ذی اعضا حیوانات سے مختلف ہیں؟

اگر پہلی صورت صحیح ہے تو اس کا مطلب یہ ہے آپ الفاظ کے ہیر پھیر میں سرگرداں او رکسی نتیجے تک پہنچنے سے قاصر ہیں، کیوں کہ ایک چیز ثابت کرکے پھر اس کی نفی کر دینے سے کوئی واضح مفہوم سامنے نہیں آتا۔

اگر وہ دوسری صورت صحیح ہے تو پھر ”جسمانیت“ سے دامن بچانا محال ہے ،اس لیے کہ آپ کی نفی کا اطلاق صرف ہیئت، شکل اور نوعیت پر ہوا ہے، جس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ الله تعالیٰ کے لیے ید، وجہ، استوی علی العرش کے جسمانی مدلول تو ثابت ہیں، لیکن ہمارے ہاتھ ، چہرے کے مقابلے میں بے نظیر ہیں ۔

غیر مقلدین کے مسلک کی مذکورہ کیفیت دیکھ کر ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ان کا مسلک اہل سنت سے جدا اور ناقابل فہم ہے۔ (استوی علی العرش، وھذا الأصل معقود لبیان أنہ تعالیٰ غیر مستقر علی مکان کما قدمہ صریحاً فی ترجمة اصول الرکن الأول، ونبہ علیہ مصانا بالجواب عن تمسک القائلین بالجھة والمکان، فإن الکرامیة یثبتون جہة العلو من غیر استقرار علی العرش، والحشویة، وھم المجسمة، یصر حون بالاستقرار علی العرش وتمسکو بظواہرھا منھا قولہ تعالیٰ: ﴿الرحمن علی العرش استوی﴾․ (المسامرة شرح المسایرہ ، الأصل الثامن:ص،44، بیروت)

علامہ قرطبی رحمہ الله تعالیٰ نے کیا خوب فرمایا ( صفات متشابہات) میں تاؤیل سے پہلوتہی اختیار کرکے الفاظ کے ظاہری معنی کے درپے ہوجانے کا مطلب تو یہ ہوا کہ قرآن کریم کی آیات تضاد بیانی کا شکار ہیں۔ (وقد جمع فی ھذہ الأیة بین ”استوی العرش“ وبین ”ھو معکم“ ، والأخذ بالظاھر من تناقض، فدل علی انہ لا بدمن التاویل، والإعراض عن التاویل اعتراف بالتناقض)․ (احکام القرآن اللقرطبی) کیوں کہ صفات متشابہات کے ظاہری معنی مراد لینے سے قرآن کی کئی آیات تضاد و تناقض کا شکار ہوتی نظر آتی ہیں مثلاً:﴿ ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش﴾․ (اعراف:54) اور ﴿وَہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہِ﴾․ (الأنعام:18) کا ظاہری معنی یہ ہوا کہ الله تعالیٰ حسی طور پر عرش پر بیٹھے ہیں اور جہت فوق میں ہیں۔ لیکن مندرجہ ذیل آیتوں کے ظاہری معنی سے معلوم ہوتا ہے کہ الله تعالیٰ کی ذات گرامی عرش پر نہیں، بلکہ اپنے بندوں کے ساتھ ہے۔ ﴿وَقَالَ اللّہُ إِنِّیْ مَعَکُمْ﴾․ (المائدہ:11)﴿وَہُوَ مَعَکُمْ أَیْْنَ مَا کُنتُمْ﴾․(الحدید:4) ﴿إِنَّنِیْ مَعَکُمَا أَسْمَعُ وَأَرَی﴾․(طہ:46) ﴿أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّہَ یَعْلَمُ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الْأَرْضِ مَا یَکُونُ مِن نَّجْوَی ثَلَاثَةٍ إِلَّا ہُوَ رَابِعُہُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا ہُوَ سَادِسُہُمْ وَلَا أَدْنَی مِن ذَلِکَ وَلَا أَکْثَرَ إِلَّا ہُوَ مَعَہُمْ أَیْْنَ مَا کَانُوا﴾․(المجادلہ:7)

اگر تاویل بدعت ہے تو پھر اس تعارض اور تناقض کا کیا حل؟

غیر مقلدین کا امام مالک رحمہ الله کے قول سے غلط استدلال
غیر مقلدین کا کہنا ہے کہ امام مالک رحمہ الله صفات متشابہات کو حقیقی معنوں پر محمول کرکے اس کی کیفیت مجہول قرار دیتے تھے ، چناں چہ ایک بار ان سے جب ”استویٰ“ کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے واضح الفاظ میں فرمایا”الاستواء غیر مجہول“ یعنی لفظ ”استویٰ“ کی دلالت اپنے معنی ومراد (استقرار) پر واضح ہے۔ یعنی الله تعالیٰ عرش پر مستقِر ہیں البتہ اس استقرار کی کیفیت مجہول ہے۔ (الاستواء غیر مجہول، والکیف غیر معقول، والایمان بہ واجب، والسئوال عنہ بدعة“․ روح المعانی، الاعراف، تحت آیة رقم:54)

علامہ آلوسی رحمہ الله تعالیٰ نے اس فریب استدلال سے پردہ چاک کرتے ہوئے فرمایا کہ:

” الاستواء غیر مجہول“ کا مطلب یہ ہے الله تعالیٰ کی صفت استوا (قرآن وحدیث) میں مذکور ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ اس کا معنی ومراد ”استقرار“ معلوم ہے۔ ( لیس نصاً فی ھذ المذھب لاحتمال أن یکون المراد من قولہ : غیر مجہول، انہ ثابت معلوم الثبوت لا أن معناہ وھو الاستقرار غیر مجہول۔“ (روح المعانی، الاعراف، تحت آیة رقم:54)

نیز امام مالک رحمہ الله تعالیٰ کا استوا کے متعلق صحیح قول وہ ہے جو سند صحیح کے ساتھ علامہ ابن حجر رحمہ الله نے فتح الباری․ (واخرج البیہقی بسند جید عن عبدالله بن وھب، قال: کنا عند مالک، فدخل رجل فقال: یا أبا عبدالله ﴿الرحمن علی العرش استوی﴾ کیف استوی؟ فاطرق مالک فأخذتہ الرحضاء ثم رفع راسہ، فقال: الرحمن علی العرش استوی، کما وصف بہ نفسہ، ولایقال کیف وکیف عنہ مرفوع․فتح الباری لابن حجر، باب وکان عرشہ علی الماء:494/20) اور علامہ بیہقی رحمہ الله تعالیٰ نے کتاب الاسماء والصفات․(کتاب الاسماء والصفات للبیہقی، ص:408) میں نقل کیا ہے کہ ” الله تعالیٰ عرش پر ایسا ہی مستوی ہے جیسے خود آیت کریمہ میں بیان فرمایا ہے ﴿الرحمن علی العرش استوی﴾ یعنی صرف صفت استوی کی نسبت باری تعالیٰ کے لیے ثابت کرکے اسے متشابہہ المعنی قرار دیا۔

لہٰذا امام مالک رحمہ الله کے ایک معروف اور مستند قول کو نظر انداز کرکے ایک غیر معروف اور مبہم قول سے اپنے مطلب کا مفہوم اخذ کرنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔

اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ ا لله تعالیٰ کی ذات مبارکہ جسم سے اور جسم کی تمام خصوصیات زمان ومکان اور حدود وجہت سے پاک اور منزہ ہے، لہٰذا ذات باری تعالیٰ کے حق میں کوئی لفظ بھی استعمال نہ کیا جائے جو جسم اور خاصہ جسم پر دلالت کرتا ہو، مثلاً لفظ ”أین“ عربی میں مکان کے لیے استعمال ہوتا ہے اور مکان جسم کا خاصہ ہے، لہٰذا ذات باری کے متعلق لفظ ”أین“ سے استفسار جائز نہیں ( مثلا این الله ؟ الله کہاں ہے؟)۔ چناں چہ علامہ ابن حجر رحمہ الله ایک مقام پر لکھتے ہیں۔

” الله تعالیٰ کی حکمتوں پر کیوں اور کیسے کا سوال اٹھانا ایسے ہی عبث ہے جیسے الله کے وجود پر کہاں اور کیسے کا سوال ۔“ (فلا یتوجہ علی حکمہ لم ولا کیف کما لا یتوجہ علیہ فی وجودہ أین وحیث) ․( فتح الباری لابن حجر:441/1)

لیکن غیر مقلدین اور نام نہاد سلفیوں کے نزدیک ”عرش“ باری تعالیٰ کا مکان اور فوق باری تعالیٰ کی جہت ہے ، دلیل مانگنے پر فوراً مسلم شریف کی حدیث پیش کر دیتے ہیں ، جس میں آپ نے ایک باندی سے پوچھا ”أین الله؟“ (الله کہاں ہے؟) جواب میں باندی نے کہا فی السماء (آسمان میں ہے)۔ ( قلت یا رسول الله أفلا أعتقہا قال: ائتنی بھا، فأتیتہ بھا، فقال لہا: این الله؟ قالت: فی السماء․( صحیح مسلم باب تحریم السلام فی الصلاة، رقم الحدیث:1227)

غیر مقلدین اس حدیث سے یوں استدلال کرتے ہیں کہ آپ کا ”أین“ سے الله کی ذات کے متعلق سوال فرمانا مکان الہی کے ثبوت پر واضح دلیل ہے ، پھر باندی کے جواب فی السماء پر خاموش رہنا بلکہ اسے مومنہ قرار دے کر آزاد کر ادینا اس بات کی دلیل ہے کہ باندی کا جواب درست تھا کہ الله تعالیٰ فی السماء یعنی جہت فوق میں ہے ۔ مذکورہ حدیث کی چھان بین کرنے پر معلوم ہوا کہ غیر مقلدین نے جس حدیث کو بنیاد بنا کر اپنے عقیدے کی عمارت کھڑی کی ہے اس کو محدثین نے معلول اور شاذ قرار دیا ہے۔

1... چناں چہ امام بیہقی رحمہ الله تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ حدیث مضطرب ہے۔ ( کتاب الاسماء والصفات للبہیقی، ص:422)
2... حافظ ابن حجر رحمہ الله تعالیٰ اس کے اضطراب کی نشان دہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں ”وفی اللفظ مخالفة کثیرة“ کہ متن حدیث کے لفظ میں بکثرت اختلاف پایا جاتا ہے۔ ( التلخیص الحبیر:443/3)
3... امام بزار رحمہ الله نے بھی اس حدیث کے اضطراب پر نشان دہی کرتے ہوئے یہی فرمایا کہ اس حدیث کو مختلف الفاظ کے ساتھ روایت کیا گیا ہے ۔ ( کشف الأستار:14/1)
4... علامہ زاہد الکوثری رحمہ الله تعالیٰ نے بھی اس حدیث پر اضطراب کا حکم لگایا ہے ۔ ( ھامش الأسما والصفات:344)
5... نیز حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر کتنے لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے، لیکن کسی سے بھی ”أین“ کا سوال منقول نہیں ہے، یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس سوال کا ایمان کی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ فقط باندی کا امتحان لینا مقصود تھا کہ مشرک ہے یا موحدہ؟( شرح السیوطی علی مسلم:217/2، رقم الحدیث:537)

خلاصہ یہ کہ ایک معلول اور شاذ روایت سے عقیدے کا استنباط نہیں کیا جاسکتا اور ایسی شاذ روایت کو بنیاد بنا کرا شاعرہ کو گم راہ اور بدعتی کہنا تو سراسر جہالت ہے یا تعصب۔ بالفرض اگر اس روایت کو صحیح تسلیم کر لیا تو پھر ”أین“ کا سوال ذات باری تعالی کے مکان کے لیے نہیں، بلکہ منزلت اور مرتبہ کے لیے ہوگا، یعنی ہمارے الله کا مرتبہ کیا ہے ؟ یا یہ کہ الله تعالیٰ کے احکام و أوامر کا مکان کون سا ہے؟ (کذا فی شر ح النووی علی مسلم،298/2، رقم الحدیث:836)

خلاصہ یہ کہ غیر مقلدین اور سلفی حضرات کا موقف افراط و تفریط کا شکار ہے، چناں چہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله ایک مقام پر لکھتے ہیں :

” آج کل بعض لوگ جن پر ظاہریت غالب ہے، جب متشابہات کی تفسیر کرتے ہیں تو درجہ اجمال میں تو مسلک سلف پر رہتے ہیں، مگر چار غلطیاں کرتے ہیں ۔
1... ایک یہ کہ تفسیر ظنی کی قطعیت کے مدعی ہو جاتے ہیں۔ ( چناں چہ مسلک تفویض کو باطل قرار دیتے ہیں۔)
2... دوسری غلطی یہ ہے کہ جب تفصیل کرتے ہیں تو عنوانات موہمہ تکییف وتجسیم اختیا رکرتے ہیں ۔ ( جسے کہ عرش کو الله تعالیٰ کا مکان اور ”فوق“ کو جہت قرار دینا اور ید وجہ سے اعضائے جوارح مراد لینا۔)
3... تیسری غلطی یہ کہ مسلک تأویل کو علی الاطلاق باطل کہہ کر ہزاروں اہل حق کی تضلیل کرتے ہیں، حالاں کہ اہل حق کے پاس ان کے مسلک کی صحت کے لیے احادیث بھی بنا ہیں اور قواعد شرعیہ بھی۔
4... چوتھی غلطی یہ کہ تفسیر بالاستقرار کو تو سلف کے مسلک پر سمجھتے ہیں اور دوسری تفاسیر لغویہ کو تاویل خلف سمجھتے ہیں ، حالاں کہ سب کا مساوی ہونا اوپر ظاہر ہو چکا ہے۔(امداد الفتاوی:111/6)

صفات متشابہات اور فرقہ مجسمہ کا موقف
فرقہ مجسمہ کے نزدیک الله تعالیٰ کی ذات مبارکہ جسمانیت سے متصف ہے۔

مجسمہ کی عقلی دلیل
فرقہ مجسمہ کی عقلی دلیل تو یہ ہے کہ جب بھی دو موجود فرض کیے جائیں تو وہ د وحال سے خالی نہیں ہوسکتے یا تو دونوں باہم متصل او رملے ہوئے ہوں گے، اس اتصال اور ملاپ کی بھی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ دونوں کے حدود واطراف آ پس میں ملتے ہوں یا یہ کہ دونوں آپس میں تداخل اور حلول کیے ہوئے ہوں۔

یا دونوں ایک دوسرے سے منفصل اور جدا ہوں گے اور جہت میں ایک دوسرے کے مخالف سمت میں ہوں گے، اب ہمارے سامنے دو موجود ہیں، ایک عالم ،دوسرا ذات باری تعالیٰ ،ان دونوں میں مذکورہ بالا دو احتمال ہیں، پہلا احتمال اس لیے باطل ہے کہ الله تعالیٰ نہ عالم میں حلول کیے ہوئے ہیں، نہ عالم الله تعالیٰ میں حلول کیے ہوئے ہے، کیوں کہ حال او رمحل ہمیشہ ایک دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں اور الله تعالیٰ کی ذات کسی چیز کا احتیاج نہیں رکھتی لہٰذا دوسری صورت ہی متعین ہے کہ الله تعالیٰ عالم سے منفصلاور جدا ہے او راس کی جہتِ مخالف میں ہے اور جو چیز جہت میں ہوتی ہے وہ متحیز ہوتی ہے او رمتحیز جسم ہوتا ہے، لہٰذا الله تعالیٰ جسم ہے۔

مجسمہ کی عقلی دلیل کا جواب
ذات بار ی تعالیٰ جسم کے عیب سے پاک ہے، کیوں کہ جسم ایسی چیزوں کے مجموعے کا نام ہے جو حدوث اور فنا کا تقاضا کرتی ہیں مثلاً ہیئت، مقدار، اجتماع وافتراق۔

باقی آپ نے جو دلیل اور حکم بیان کیا ہے وہ ان دو موجودات کے متعلق ہے جو حسی ہوں ، الله تبارک وتعالی کا وجود غیر محسوس ہے ، اس پر محسوس والا حکم لگانا وہمی ہونے کی دلیل ہے، عقل ودانش کی دنیا میں اس کی کوئی اہمیت نہیں، اہل علم اسے قیاس الغائب علی الشاھد سے تعبیر کرتے ہیں۔(شرح العقائد النسفیة للتفتازانی، ص:46,45)

مجسمہ کی نقلی دلیل اور اس کا جواب
مجسمہ نقلی دلائل میں قرآن وحدیث کی وہ نصوص پیش کرتے ہیں جن کے ظاہری الفاظ باری تعالیٰ کے لیے جسمیت اور جہت وغیرہ پر دلالت کرتے ہیں۔ مثلاً: ﴿وَجَاء رَبُّکَ﴾․ (الفجر:22) ( اور آیا تیرا رب)۔ ﴿الرَّحْمَنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَی﴾․(طہ:5)(وہ بڑا مہربان عرش پر قائم ہوا)۔ ﴿یَدُ اللَّہِ فَوْقَ أَیْدِیْہِمْ﴾․(الفتح:10)( الله کا ہاتھ ہے اوپر ان کے ہاتھ کے)۔

جواب… واضح رہے کہ جب باری تعالیٰ کے جسم اور جہت وغیرہ سے پاک ہونے پر دلائل عقلیہ قائم ہوں تو پھر قاعدہ یہ ہے اگر کسی نص کے ظاہری الفاظ کسی ایسی چیز پر دلالت کریں جو خلاف عقل ہے تو اس نص کے ظاہری معنی مراد نہیں ہوں گے ، بلکہ ایسی نصوص متشابہات کہلاتی ہیں اورمتشابہات کے متعلق اہل سنت والجماعت کا موقف گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے۔

===============================
اہل سنت والجماعت كا موقف: چند باتیں ذہن میں رکھیں الله تعالی زمان سے پاک ہیں دن مہینہ سال نہیں تھے الله تھا, الله تعالی مجسمہ سے پاک ہیں انسان اور جنات نہیں تھے الله تھا, الله تعالی مكان سے پاک ہیں دنیا اور عرش نہیں تھے الله تھا, الله تعالی رخ سے پاک ہیں شمال مشرق جنوب مغرب نہیں تھے الله تھا!! حضرت ملا علی قارى رحمت الله عليہ حنفى مقلد متوفى 1014ھ شرح فقہ الاكبر میں لکھتے ہیں شيخ الامام ابن السلام نے اپنی کتاب "حل الرموز" میں بيان كيا کہ امام ابو حنيفہ كا قول كے كوئى يہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ اللہ تعالی آسمانوں میں ہیں يا زمین پرتو وہ کافر بن جاتا ہے اس قول سے امام كا مطلب ہے اس طرح کہنا اس لفظ کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ للہ ایک جگہ ہے اور جو اس طرح کہتا ہے الله كو ایک طرف ہونے كا رخ يا جگہ مقرر كرتا ہے. نیچے حاشیہ میں لکھتے ہیں سيخ ابو الليث سمرقندى حنفى مقلد متوفى 333ھ نےلکھا ہے اس عبارت سے اللہ تعالی كو ایک رخ يا جگہ دیا جاتا ہے اور ايسا کہنا كفر ہے. مزید تفصیلات کے لئے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں
Mulla Ali Qari hanafi (d. 1014AH) writes in Sharah Fiqh ul Akbar that The Shaykh, Imam Ibn 'Abdi s-Salam, in his book Hallou r-Roumouz reports that Imam Abu Hanifah, may Allah have mercy on him, said:"Whoever says: I do not know if Allah ta'ala is in heaven or on earth became a disbeliever, because this word gives the illusion that Allah (Al-Haqq) have a place and one that gives the illusion that Allah has a place is an assimilationist " There is no doubt that Ibn 'Abdi s-Salam is one of the most illustrious scholars and those who are the most reliable. There is therefore a need to build on what has been reported. Footnote: Shaykh Abu’l-Layth al-Samarqandi hanafi (d. 333AH) writes regarding same quote that saying like this gives a direction to Allah ta'ala which is kufr.



فرقہ مجسمہ اور مشبہہ یہ کہتے ہیں کہ عرش ایک قسم کا تخت ہے اور الله تعالی اس پر مستوی ہے یعنی اس پر مستقر اور متمکن ہے اور فرشتے اس عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور "الرحمن علی العرش استوی" ترجمہ : بڑی رحمت والا عرش پر مستوی ہے [سورۂ طہ آیت 5 پارہ 16] کے ظاہر لفظ سے استدلال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ استواء علی العرش سے عرش پر بیٹھنا مراد ہے.



اور بعض (فرقہ جھمیہ) کہتے ہیں کہ الله تعالی ہر مکان میں (بالذات) موجود ہے اور ہر جگہ میں موجود ہے اور الله تعالی کے اس قول سے حجت پکڑتے ہیں:



"مایکون من نجوی ثلاثة الا ھو رابعهم" [سورۃ المجادلۃ آیت 7 پارہ 28]

ترجمہ : کوئی سرگوشی تین آدمیوں کی ایسی نہیں ہوئی جس میں چوتھا وہ (الله) نہ ہو.


اور حق تعالی کے اس قول سے "ونحن اقرب الیه من حبل الورید" [سورۂ ق آیت 16 پارہ 26]
ترجمہ : ہم انسان کی رگ گردن سے زیادہ قریب ہے.


اور "ونحن اقرب الیه منکم ولکن لاتبصرون" [سورہ الواقعہ آیت 75 پارہ 27]
ترجمہ : اور ہم اس شخص کے تم سے بھی زیادہ نزدیک ہوتے ہیں لیکن تم سمجھتے نہیں.


اور "وھو الذی فی السمآء اله وفی الارض اله" [سورۂ الزخرف آیت 84 پارہ25] ترجمہ : اور وہی ذات ہے جو آسمان میں بھی قابل عبادت ہے اور زمین میں بھی قابل عبادت ہے - سے دلیل لاتے ہیں.



امام ابن کثیر ، اس آیت قرآنی : اور وہی اللہ ہے آسمانوں میں اور زمین میں، جانتا ہے تمہارا چھپا اور کھلا اور جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو [سورہ الانعام :٤] کی تفسیر میں لکھتے ہیں : اس میں مفسرین کے کئی ایک اقوال ہیں لیکن کسی کا بھی وہ مطلب نہیں جو جہمیہ لے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات سے ہر جگہ ہے ، نعوذ باللہ. اللہ کی برتر و بالا ذات اس سے بالکل پاک ہے، آیت کا بالکل صحیح مطلب یہ ہے کہ آسمانوں میں بھی اسی کی ذات کی عبادت کی جاتی ہے اور زمینوں میں بھی ، اسی کی الوہیت وہاں بھی ہے اور یہاں بھی ، اوپر والے اور نیچے والے سب اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں ، سب کی اسی سے امیدیں وابستہ ہیں اور سب کے دل اسی سے لرز رہے ہیں جن و انس سب اسی کی الوہیت اور بادشاہی مانتے ہیں جیسے اور آیت میں ہے آیت (وَهُوَ الَّذِيْ فِي السَّمَاۗءِ اِلٰهٌ وَّفِي الْاَرْضِ اِلٰهٌ ۭ وَهُوَ الْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ) 43۔ الزخرف:84) یعنی وہی آسمانوں میں معبود برحق ہے اور وہی زمین میں معبود برحق ہے ، یعنی آسمانوں میں جو ہیں، سب کا معبود وہی ہے اور اسی طرح زمین والوں کا بھی سب کا معبود وہی ہے ، اب اس آیت کا اور جملہ آیت (يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْنَ) 6۔ الانعام:3) خبر ہو جائے گا یا حال سمجھا جائے گا اور یہ بھی قول ہے کہ اللہ وہ ہے جو آسمانوں کی سب چیزوں کو اس زمین کی سب چیزوں کو چاہے وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ ، جانتا ہے ۔ پس یعلم متعلق ہو گا فی السموات وفی الارض کا اور تقدیر آیت یوں ہو جائے گی آیت (وھو اللہ یعلم سر کم و جھر کم فی السموات وفی الارض و یعلم ما تکسبون) ایک قول یہ بھی ہے کہ آیت (وھو اللہ فی السموات) پر وقف تام ہے اور پھر جملہ مستانفہ کے طور پر خبر ہے کہ آیت (وفی الارض یعلم سر کم و جھر کم) امام ابن جریر اسی تیسرے قول کو پسند کرتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے تمہارے کل اعمال سے خیر و شر سے وہ واقف ، ہے ۔[تفسیر ابن کثیر : سورہ الانعام ، آیت # ١]


اہل سنت کہتے ہیں کہ قران کریم میں اس قسم کی جس قدر آیتیں وارد ہوئی ہیں ان سے حق شانہ کے کمال علو اور رفعت شان کو اور اس کا احاطۂ علم و قدرت کو بیان کرنا مقصود ہے کہ الله تعالی کا علم اور قدرت تمام کائنات کو محیط ہے جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں آیا ہے "قلب المؤمن بین اصبعین من اصابع الرحمن" ترجمہ : مؤمن کا دل خدا کی دو انگلیوں کے درمیان ہے سو اس سے بالاجماع متعارف اور ظاہری اور حسی معنی مراد نہیں بلکہ اس سے قدرت علی التقلیب بیان کرنا ہے کہ "قلب" خدا کے اختیار میں ہے جدھر چاہے پھیردے - اور حدیث میں حجر اسور کے متعلق یہ آیا ہے "انه یمین الله فی الارض" کہ حجر اسود زمین الله کا دایاں ہاتھ ہے تو یہاں بھی بالاتفاق ظاہری معنی مراد نہیں ، بلکہ معنی مجازی مراد ہیں کہ حجر اسود کو بوسہ دینا گویا کہ الله سے مصافحہ کرنا اور اس کے دست قدرت کو بوسہ دینا ہے - جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے "ان الذین یبایعونك انما یبایعون الله" [سورۂ الفتح آیت 15 پارہ 26] ترجمہ : کہ جو لوگ نبی کریم
کے دست مبارک پر بیعت کرتے ہیں گویا کہ وہ الله سے بیعت کرتے ہیں ، یہاں بھیبالاتفاق معنی مجازی مراد ہیں [معاذ الله] یہ مطلب نہیں کہ خدا اور رسول دونوں ایک دوسرے کا عین ہیں - اسی طرح سمجھو کہ استواء علی العرش سے ظاہری اور حسی معنی مراد نہیں کہ الله تعالی عرش پر بیٹھا ہوا ہے بلکہ اس سے الله کی علو شان اور رفعت مرتبہ کا بتلانا ہے - کما قال تعالی "رفیع الدرجات ذوالعرش" [سورۂ المومن آیت 15 پارہ 24] ترجمہ : وہ رفیع الدرجات ہے وہ عرش کا مالک ہے


اور اسی طرح جس حدیث میں یہ آیا ہے کہ الله تعالی ہر شب آسمانی دنیا پر نزول فرماتا ہے سو [معاذ الله] اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا کوئی جسم ہے کہ عرش سے اتر کر آسمانی دنیا پر آتا ہے بلکہ اس خاص وقت میں اس کی رحمت کا نزول یا کسی رحمت کے فرشتے کا آسمانی دنیا پر اترنا مراد ہے اور الله تعالی کا بندہ سے قرب اور بعد باعتبار مسافت کے مراد نہیں بلکہ قرب عزت و کرامت اور بعد ذلت و اہانت مراد ہے - مطیع اور فرمانبردار بندہ الله سے بلا کیفیت اور بلا کی مسافت کے قریب ہے اور نافرمان بندہ بلا کیفیت اور بلا مسافت کے الله سے بعید ہے.


اہل سنت و جماعت کا عقیدہ ہے کہ الله تعالی مکان اور جہت اور سمت سے پاک اور منزہ ہے - اس لئے کہ جو چیز کسی مکان میں ہوتی ہے تو وہ محدود ہوتی ہے اور مقداری ہوتی ہے اور مکین مقدار میں اور مسافت میں ، اور مساحت میں مکان سے کم ہوتا ہے اور الله تعالی مقدار سے اور مساحت سے اور مسافت سے اور کمی اور زیادتی سے منزہ ہے اور جو چیز سمت اور جہت میں ہوتی ہے تو وہ اس سمت اور جہت میں محصور اور محدود ہوتی ہے اور الله تعالی اس سے بھی منزہ ہے - مکان اور زمان اور جہت اور سمت سب الله تعالی کی مخلوق ہے ازل میں صرف الله تعالی تھا اور اس کے سوا کوئی شے نہ تھی - نہ مکان اور نہ زمان اور نہ عرش اور کرسی اور نہ زمین اور آسمان اس نے اپنی قدرت سے عرش اور کرسی اور زمیں و آسمان کو پیدا کیا وہ خداوند قدوس ان چیزوں کے پیدا کرنے کے بعد اسی شان سے ہے کہ جس شان سے وہ مکان اور زمان اور زمین و آسمان کے پیدا کرنے سے پہلے تھا - ہم اہل سنت ایمان لائے اس بات پر کہ بلا کسی تشبیہ اور تمثیل کے اور بلا کسی کمیت اور کیفیت کے اور بلا کسی مسافت اور مساحت کے رحمن کا "استواء" عرش پر حق ہے جس معنی کا الله تعالی نے ارادہ فرمایا ہے اور جو اس کی شان کے لائق ہے جس کا علم الله ہی کو ہے [معاذ الله] یہ مطلب نہیں کہ جیسے بادشاہ تخت پر بیٹھتا ہے ، ایسا ہی الله تعالی بھی عرش پر بیٹھا ہوا ہے اور عرش پر مستقر اور متمکن ہے اس لئے کہ تمکن اور استقرار شان حادث اور ممکن کی ہے - مکان مکین کو محیط ہوتا ہے اور عرش تو ایک جسم عظیم نورانی ہے جو الله کا مخلوق ہے اس کی کیا مجال کہ خداوند ذوالجلال کو اٹھاسکے [معاذ الله] ، عرش خدا تعالی کو اٹھائے ہوئے نہیں بلکہ الله کا لطف اور قدرت عرش کو اٹھائے ہوئے اور تھامے ہوئے ہے.



استواء علی العرش کے ذکر سے خداوند ذوالجلال کی علو شان اور بے مثال رفعت کو بیان کرنا ہے ، اور "وھو الذی فی السمآء اله وفی الارض اله" سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ آسمان و زمیں میں سب جگہ اسی کی عبادت کی جاتی ہے اور وہی آسمان و زمیں میں متصرف ہے اور سب جگہ اسی کا حکم چلتا ہے - آسمان و زمین اس کی عبادت اور تصرف کا اور اس کی حکمرانی کا ظرف ہے معبود کا ظرف نہیں ، اور [معاذ الله] یہ مطلب نہیں کہ عرش یا آسمان الله تعالی کا مکان ہے جس میں خدا تعالی رہتا ہے.


مجسمہ اور مشبہ نے ان آیات کا یہ مطلب سمجھا کہ عرش عظیم یا آسمان و زمین الله کا مکان اور جائے قرار ہے اور یہ نہ دیکھا کہ سارا قرآن تنزیہ اور تقدیس سے بھرا پڑا ہے کہ الله مخلوق کی مشابہت سے پاک ہے اور تمام انبیاء نے اپنی اپنی امتوں کو ایمان تنزیہی کی دعوت دی ہے ایمان تشبیہی اور تمثیلی کی دعوت نہیں دی. [عقائد اسلام حصہ دوم صفحہ نمبر 375 تا 385؛ از : حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمه الله]


===============================
ﷲ ہر جگہ موجود ہے

نمبر {01} سبوحیت و قدوسیت

حق تعالی جل شانہ تمام نقائص اور عیوب سے اور حدوث کے نشانوں سے اورمخلوقات کے مشابہت سے اور مماثلت سے پاک اور منزہ ہے اور وہ خداوند بے مثل و مانند ہے جوہر اور عرض ‎ہونے سے مبرا اور صورت اور شکل و جسم اورجسمانیت سے معرا ہے اور جواہر اور اجسام اور اعراض کی صفات اور لوازم سےمبرا ہے [‏‎لیس کمثله شئ وهو السميع البصير] - [سبحان ربك‎ رب العزۃ ‎عما یصفون] اور اصطلاح میں اس کا نام سبوحیت و قدوسیت ہے اور بالفاط دیگر تسبیح و تقدیس ہے.


نمبر {02} وہ بے مثل اور بے چون و چگون ہے


نمبر {۰۱} وہ بے مثل اور بے چون و چگون ہے کوئی شي اس کے مثل اور برابرنہیں "لیس کمثله شئ" اور کوئی چیز خدا تعالی کے ہمسر نہیں [لم یکن له کفوا احد] - [ھل تعلم له سمیا] اس لئے کہ خدا قدیم اور ازلی ہے تو ممکن اور حادث کے مشابہ کیسے ہوسکتا ہے - اگر بالفرض خدا کا مخلوق کے مشابہ ہونا جائز ہو تو پھر مخلوق کے احکام کا خالق پر جاری ہونا بھی ممکن ہوگا - الغرض نہ خدا مخلوق کے مشابہ ہے اور نہ مخلوق خدا کے مشابہ ہے یہ ناممکن ہے کہ قدیم کی کوئی صفت حادث میں اور حادث کی کوئی صفت قدیم میں پائی جائے اس لئے الله تعالی ہر قسم کے تغیر و تبدل سے پاک ہے - اس لئے کہ تغیر و تبدل ممکن کی صفت اور خاصیت ہے.


نمبر {۰۲} الله تعالی نہ جسم ہے اور نہ جوہر ہے اور نہ عرض ہے - وہ ان سبچیزوں سے پاک اور منزہ ہے


نمبر {03} خدا تعالی جسم نہیں

نمبر {۰۱} جسم تو اس لئے نہیں کہ جسم بہت سے اجزاء سے مرکب ہوتا ہے اورجو مرکب ہوتا ہے اس کی تحلیل اور تفریق اور تقسیم بھی ممکن ہوتی ہے - اورترکیب و تحلیل اور تفریق و تقسیم الله تعالی کی بارگاہ سے بہت دور ہے.


نمبر {۰۲} نیز ترکیب و تحلیل اور تفریق و تقسیم حدوث کے لوازم میں سے ہے جو قدم اور ازلیت کے منافی ہے.



نمبر {۰۳} نیز جسم طویل اور عریض اور عمیق ہوتا ہوتا ہے اور الله تعالی طول و عرض اور عمق سے پاک اور منزہ ہے.


نمبر {۰۴} نیز جو چیز اجزاء سے مل کر بنتی ہے اول تو وہ اپنی ترکیب میں اجزاء کی محتاج ہوتی ہے اور احتیاج اور خدائی کا جمع ہونا عقلا محال ہے - اور پھر مرکب اپنی بقاء میں اجزاء کا محتاج ہوتا ہے اور الله احتیاج سے منزہ ہے.


نمبر {۰۵} نیز اجزاء کا وجود ، مرکب اور مجموعہ کے وجود سے مقدم ہوتا ہےاور مجموعہ مرکب موخر ہوتا ہے- پس اگر [معاذالله] خدا تعالی کو جسم مرکب مانا جائے تو خدا تعالی کا اپنی اجزاء ترکیبیہ سے مؤخر ہونا لازم آئے گا
جو اس کی ازلیت اور اولیت اور قدم کے منافی ہے.


نمبر {۰۶} نیز اگر صانع عالم کا جسم ہونا ممکن ہو تو شمن و قمر کا خدا ہونا بھی ممکن ہوگا اور جیسے نصاری حضرت مسیح کے جسم کو خدا اور معبود مانتے ہیں اور بندہ اپنے اوتاروں کو خدا کہتے ہیں تو پھر یہ بھی جائز اور ممکن ہونا اور کرامیہ کہتے ہیں کہ حق تعالی جسم ہے مگر دیگر اجسام کی طرح نہیں اور اہل سنت کے نزدیک حق تعالی پر جسم کا اطلاق درست نہیں.


نمبر {04} خدا کے لئے باپ اور بیٹا ہونا محال اور ناممکن ہے


جب یہ ثابت ہوگیا کہ خدا تعالی کا جسم ہونا ناممکن اور محال ہے تو ثابت ہوگیا کہ خدا نہ کسی کا باپ ہوسکتا ہے اور نہ بیٹا ہوسکتا ہے کیونکہ توالد اور تناسل خاصہ جسمانیت کا ہے اور الله تعالی جسمانیت سے پاک اور منزہ ہے نیز توالد اور تناسل محتاجگی کی دلیل ہے - جیسے اولاد اپنے پیدا ہونے میں ماں باپ کی محتاج ہے - ایسے ہی ماں باپ اپنی خدمت گزاری میں اور نسل کے باقی رہنے میں اولاد کے محتاج ہیں اور الله تعالی احتیاج سے منزہ ہے نیز اولاد ماں باپ کی ہم جنس ہوا کرتی ہے سو اگر کوئی خدا کا بیٹا ہوگا تو خدا کی وحدانیت ختم ہوجائے گی جو ابھی دلائل سے ثابت ہوچکی ہے.


نمبر {05} خدا تعالی عرض نہیں


نمبر {۰۱} اور خدا تعالی کا عرض ہونا اس لئے محال ہے کہ عرض وہ شئے ہے کہجو قائم بالغیر ہو اور اپنے وجود میں دوسرے کی محتاج ہو اور دوسرے کے سہارے سے موجود ہو اور یہ بات خدا تعالی کے لئے ناممکن ہے اس لئے الله تعالی تو قیوم ہے تمام کائنات کے وجود کو قائم رکھنے والا اور ان کی ہستی کو تھامنے والا ہے تمام عالم اسی کے سہارے سے قائم ہے اس لئے اس کو کسی سہارے کی ضرورت نہیں - سہارے کی ضرورت تو محتاج کو ہوتی ہے - اور وہ صمد ہے یعنی وہ سب سے بے نیاز ہے اور سب اسی کے محتاج ہیں.


نمبر {۰۲} نیز حق تعالی غنی مطلق ہے کسی امر میں کسی چیز کا محتاج نہیں اور عرض اپنے وجود میں محل کا محتاج ہوتا ہے.


نمبر {۰۳} نیز عرض کا وجود پائیدار نہیں ہوتا اور الله تعالی تو واجب البقاء اور دائم الوجود اور مستحیل العدم ہے ہے جیسا کہ کلام پاک میں ہے [کل من علیها فان ، ویبقی وجه ربك ذوالجلال والاکرام] - {سورۃ الرحمن : آیت نمبر 26 تا 27 پارہ 27]‏‎


نمبر {۰۴} نیز اعراض ہر وقت بدلتے رہتے ہیں اور حق تعالی کی ذات و صفات میں تغیر و تبدل کو کہیں راہ نہیں.


نمبر {06} الله تعالی جوہر نہیں

نمبر {۰۱} اور الله تعالی جوہر اس لئے نہیں ہوسکتا کہ جوہر کے معنی اصل شئے کے ہیں یعنی جو کسی چیز کی اصل ہو اور جواہر فردہ ان اجزاء لطیفہ کو کہتے ہیں جن سے جسم مرکب ہو اور وہ اجزاء جسم کی اصل ہوں اور ظاہر ہے کہ یہ بات الله تعالی کے لئے محال ہے کہ وہ کسی جسم وغیرہ کا جوہر اور اصل اور جز بنے.


نمبر {۰۲} نیز جواہر اس چیز کو کہتے ہیں کہ جس پر حرکت اور سکون وارد اورطاری ہوسکے اورلون اور طعم یعنی رنگت اور مزہ کے ساتھ موصوف ہو اور یہسب چیزیں حادث ہیں اور جواہر کے لوازم ہیں اور ظاہر ہے کہ جو چیز حوادث سے خالی نہ ہوسکتی ہو وہ بھی ضرور حادث ہوگی تو جب یہ حوادث جوہر کے لئے لازم ہوں گے تو لامحالہ جوہر بھی حادث ہوگا پس معلوم ہوا کہ الله تعالی جوہر نہیں ہوسکتا اس لئے کہ وہ حوادث اور تغیرات سے پاک اور منزہ ہے.


نمبر {07} خدا تعالی کے لئے کوئی صورت اور شکل نہیں


نمبر {۰۱} نیز الله تعالی کے لئے کوئی صورت اور شکل نہیں - اس لئے کہ صورت اور شکل تو جسم کی ہوتی ہے اور الله تعالی تو صورتوں اور شکلوں کا خالق ہے -"ھو الله خالق الباری المصور".


نمبر {۰۲} نیز صورتیں اور شکلیں حادث میں بدلتی رہتی ہیں.


نمبر {۰۳} نیز جس چیز کے لئے صورت اور شکل ہوتی ہے وہ محدود اور متناہیہوتی ہے ، اور الله تعالی میں کوئی تغیر و تبدل نہیں اور خدا کے لئے کوئی حد اور نہایت نہیں.


نمبر {08} خدا تعالی کے لئے کوئی مکان اور زمان اور جہت اور سمت نہیں


نیز حق تعالی کے لئے نہ کوئی مکان ہے اور نہ کوئی زمان ہے اور نہ اس کے لئے کوئی سمت اور جہت ہے کیونکہ وہ غیر محدود ہے اور مکان اور جہت محدود کے لئے ہوتے ہیں اور مکان اور زمان مکین کو احاطہ کئے ہوئے اور گھیرے ہوئے ہوتے ہیں - اور الله تعالی ہی سب کو محیط ہے - زمین و زمان اور کون و مکان سے اسی کے مخلوق ہیں اور اس کے احاطہ قدرت میں ہیں ، "کان الله ‎ولم یکن شیء غیرہ"یعنی ازل میں صرف خدا تعالی تھا اور اس کے سوا اور کوئی چیز نہ تھی - اسی نے اپنی قدرت سے زمین اور مکین اور مکان کو پیدا کیا جس طرح وہ مکان اور زمان کے پیدا کرنے سے پہلے بغیر مکان اور بغیر جہت کے تھا اب بھی اسی شان سے ہے جس شان سے وہ پہلے تھا "ھو الآن کما کان"‎ نیز جہات امور اضافیہ اور نسبیہ میں سے ہیں مثلآ فوق اور تحت اور یمین اور شمال یے سب چیزیں حادث ہیں نسبت کے بدلنے سے ان میں تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے - ایک شئے کسی اعتبار سے فوق ہے اور کسی کے اعتبار سے تحت ہے پس یہ کیسے ممکن ہے کہ حق تعالی ازل میں کسی جہت یا سمت کے ساتھ مخصوص ہو - جہت اور سمت حادث کے لئے ہوتی ہے ازلی کے لئے نہیں ہوتی پس ثابت ہوا کہ الله تعالی کے لئے نہ کوئی مکان ہے اور نہ کوئی جہت ہے اور نہ کوئی سمت ہے مکان اور جہت اور سمت تو محدود اور متناہی کے لئے ہوتی ہے اور الله تعالی کے لئے نہ کوئی حد ہے اور نہ کوئی نہایت ہے.


ایں جہاں محدود آں خود بیحد است


اس کی ہستی سمت اور جہت اور مکان اور زمان کی حدود اور قیود سے پاک ہےلہذا خدا تعالی کے متعلق یہ سوال نہیں ہوسکتا کہ وہ کہاں ہے اور کب سے ہے اس لئے کہ وہ مکان اور زمان سب سے سابق اور مقدم ہے - مکان اور زمان سب اسی کی مخلوق ہے ، وہ تو لامکان اور لازمان ہے - اس کی ہستی مکان اور زمان پر موقوف نہیں بلکہ زمان اور مکان کی ہستی اس کے ارادہ پر موقوف ہے - مشبہ اور مجسمہ یہ کہتے ہیں کہ الله تعالی کے لئے جہت ہے اور جہت فوق میں ہے اور الله تعالی عرش پر متمکن ہے "سبحانه وتعالی عما یصفون".


نمبر {09} صفات متشابہات جیسے استواء علی العرش وغیرہ کی تحقیق


علماء اہل سنت والجماعت یہ کہتے ہیں کہ براہین قطعیہ اور دلائل عقلیہ و نقلیہ سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ الله تعالی مخلوق کی مشابہت اور مماثلت سے اور کمیت اور کیفیت اور مکان اور جہت سے پاک اور منزہ ہے لہذا جن آیات اور احادیث میں حق جل شانہ کی ہستی کو آسمان یا عرش کی طرف منسوب کیا ہے ان کا یہ مطلب نہیں کہ آسمان اور عرش الله کا مکان اور مستقر ہے بلکہ ان سے الله جل شانہ کی شان رفعت اور علو اور عظمت اور کبریائی کو بیان کرنا مقصود ہے اس لئے کہ مخلوقات میں سب سے بلند عرش عظیم ہے - ورنہ عرش سے لے کر فرش تک سارا عالم اس کے سامنے ایک ذرہ بے مقدار ہے وہ اس ذرہ میں کیسے سماسکتا ہے - سب اسی کی مخلوق ہے اور مخلوق اور حادث کی کیا مجال کہ خالق قدیم کا مکان اور جائے قرار بن سکے.


پر تو حسنت نہ گنجد در زمین و آسمان


در حریم سینہ حیرانم کہ چوں جاکردہ


خدا تعالی اس سے منزہ ہے کہ وہ عرش پر یا کسی جسم پر متمکن اور مستقر ہو جس طرح بادشاہ کو یہ کہا جاسکتا ہے کہ بادشاہ تخت پر بیٹھا ہوا ہے - خدا تعالی کی نسبت ایسا کہنا جائز نہیں اس لئے کہ خدا تعالی کوئی مقداری نہیں کیونکہ کسی جسم پر وہی چیز متمکن ہوسکتی ہے کہ جو ذی مقدار ہو اور اس سے بڑی ہو یا چھوٹی ہو یا اس کے برابر ہو اور یہ کمی بیشی بارگاہ خداوندی میں محال ہے - عقلآ یہ ممکن نہیں کہ کوئی جسم مخلوق جیسے مثلآ عرش کہ وہ اپنے خالق کو اپنے اوپر اٹھاسکے اور پھر فرشتے اس جسم کو [عرش کو] اپنے کاندھوں پر اٹھائیں کما قال تعالی"ویحمل عرش ربك فوقهم يومئذ ثمانية" ترجمہ "اور آپ کے پروردگا کے عرش کو اس روز آٹھ فرشتے اٹھائے ہوں گے" سورۃ الحاقہ : آیت 17 پارہ 19.


عقلآ یہ بات محال ہے کہ کوئی مخلوق فرشتہ ہو یا جسم ہو وہ اپنے خالق کو اپنے کاندھوں پر اٹھاسکے - خالق کی قدرت کو تھامے ہوئے ہے- مخلوق میں قدرت نہیں کہ وہ خالق کو اٹھاسکے اور تھام سکے اور جن آیات میں الله تعالی کی شان علو اور فوقیت کا ذکر آیا ہے ان سے علو مرتبہ اور فوقیت قہر و غلبہ مراد ہے اور مکانی فوقیت مراد نہیں ، کما قال تعالی "وھو القاھر فوق عبادہ" - "وھو العلی الکبیر" "وله المثل الاعلی اور جیسے "‎وفوق کل ذی علم علیم" اور انا فوقھم قاھرون" میں فوقیت مرتبہ اور فوقیت قہر اور غلبہ مراد ہے - اور جن آیات اور احادیث میں الله تعالی کے قرب اور بعد کا ذکر آیا ہے - اس سے مسافت کے اعتبار سے قرب اور بعد مراد نہیں ، بلکہ معنوی قرب اور بعد مراد ہے اور نزول خداوندی سے نزول رحمت یا خدا تعالی کا بندوں کی طرف متوجہ ہونا مراد ہے ،[معاذ الله] خدا کا بلندی سے پستی کی طرف اترنا مراد نہیں اور دعاء کے وقت آسمان کی طرف ہاتھ اٹھانا اس لئے نہیں کہ آسمان ، الله تعالی کا مکان ہے بلکہ اس لئے ہے کہ آسمان قبلہ دعاء ہے جیسا کہ خانہ کعبہ قبلہ نماز ہے - خانہ کعبہ کو جو بیت الله کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ الله تعالی کی عبادت کا گھر ہے اور [معاذ الله] یہ مطلب نہیں کہ خانہ کعبہ الله تعالی کا مکان ہے اور اس کے رہنے کی جگہ ہے - سمت قبلہ عابدین کی عبادت کے لئے مقرر کی گئی - [معاذالله] معبود کی سمت نہیں پس جیسے کعبہ نماز کا قبلہ ہے ویسے ہی آسمان دعاء کا قبلہ ہے اور دونوں صورتوں میں الله تعالی اس سے منزہ ہے کہ وہ خانہ کعبہ کے اندر یا آسمان کے اندر متمکن ہو ، خلاصہ کلام یہ کہ ان اوصاف کو اوصاف تسبیحی کہتے ہیں اور اوصاف تنزیہی اور اوصاف جلال بھیکہتے ہیں اور علم و قدرت اور سمیع و بصر جیسے اوصاف کو اوصاف تحمیدی اوراوصاف جمال کہتے ہیں.



نمبر {10} کیا عرش خدا سے بڑا ہے؟

رئیس المناظرین ، متکلم اسلام ، وکیل احناف ، ترجمان اہلسنت حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی صاحب رحمه الله نے فرمایا کہ میں مکہ سے مدینہ جا رہا تھا ۔ راستہ میں غیرمقلدین شرارتیں کر رہے تھے ، بس میں بیٹھے ہوئے ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے کہ روضہ پاک کی زیارت کی نیت نہ کرنا مسجد نبوی کی نیت کرنا ۔ حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی صاحب رحمه الله نے فرمایا : یہ آپ کو گمراہ کررہے ہیں آپ روضہ پاک کی ہی نیت کریں مسجد میں تو جانا ہی جانا ہے ۔ وہ حضرات مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی صاحب رحمه الله کی طرف دیکھنے لگے ۔ حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی صاحب رحمه الله نے فرمایا کہ لوگ مکہ سے مدینہ کیوں جاتے ہیں ایک لاکھ کا ثواب چھوڑ کر پچاس ہزار کا ثواب لینے کے لئے؟ یہ کوئی عقل مندی تو نہیں کہ اعلیٰ کو چھوڑ کر ادنیٰ کو حاصل کیا جائے وہ بھی اتنا لمبا سفر کرکے اور اتنے پیسے لگا کر ، یہ اتنا نقصان کیوں کرتے ہیں؟ معلوم ہوا کہ وہاں کوئی ایسی چیز ضرور ہے جو بیت الله میں بھی نہیں ہے ، جس کی شان بیت الله سے بھی بڑھ کر ہے ۔ ہمارا یہی عقیدہ ہے کہ وہ خاک پاک جو جسد اطہر سے مس کر رہی ہے وہ درجہ میں عرش اعظم اور بیت الله دونوں سے بڑھ کر ہے ۔ حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی صاحب رحمه الله نے فرمایا :کوئی یہ نہ سمجھے کہ خدا سے مصطفی کے مکان کو بلند کردیا ہے اس لئے کہ خدا لامکان ہے ، اگر خدا کا مکان ہوتا تو ہم اسے مصطفیٰ کے مکان سے اعلیٰ سمجھتے ، لیکن چونکہ خدا لامکان ہے اس لئے جتنے مکان والے ہیں ان میں سب سے زیادہ شان مصطفی کے مکان کی ہے ۔ ایک غیرمقلد جلدی سے بولا "الرحمٰن علی العرش استویٰ" الله کا بھی مکان ہے عرش اعظم - حضرت محمد امین صفدر اوکاڑوی صاحب رحمه الله نے جواب ميں فرمایا : آپ کو مکان ، مکین کا معنی بھی آتا ہے؟ مکان ہمیشہ مکین سے بڑا ہوتا ہے اسی لئے تو آدمی اس کے اندر بیٹھتا ہے ۔ کیا عرش خدا تعالیٰ سے بڑا ہے اور وہ خدا کو گھیرے ہوئے ہے؟ غیرمقلد نے کہا : بے شک عرش بڑا ہے ۔ حضرت نے جواب میں فرمایا : پھر تو نماز کے شروع میں ’’الله اکبر‘‘ کیوں کہتا ہے ’’العرش اکبر‘‘ کیوں نہیں کہتا؟ جب تو الله اکبر سے نماز شروع کرتا ہے پھر تو بڑا بے ایمان ہے کہ تجھے الله سے بھی بڑی چیز مل گئی ہے پھر بھی تو الله اکبر ہی کہتا ہے ۔ وہ شرمندہ ہو کر خاموش ہو گیا.

[علمی معرکے اور مجلسی لطیفے: صفحہ نمبر 82 ‎تا 83،
از : حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمه اللہ]
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
غیرمقلدین حضرات اللہ کے ہر جگہ نہ ہونے پر اجماع امت کہتے ہے،
تو جناب غیرمقلدین کی خدمت میں گزارش ہے کہ:
بھائی ہمارے ہاں عقائد میں اجماع کے منکر کو تو کافر کہتے ہیں تمہارے ہاں عقائد میں اجماع کے منکر کو کیا کہتے ہیں؟؟؟؟
اگر تمہارے ہاں بھی عقائد میں اجماع کے منکر کو کافر کہتے ہیں۔ تو جناب تمہارے گھر کے اجماع کا انکار تمہارے گھر کےتقریبا دس علماء کر چکے ہیں، جن میں شیخ الاسلام، شیخ الکل بھی شامل ہیں، تو کیا خیال ہے یہ سارے علماء کافر نہ ہوگئے ہونگے۔
Gm=Allah kahan Fatawa Sanaiya 1.jpg
Gm=Allah kahan Fatawa Sanaiya 1.jpg
Gm=Allah kahan Fatawa Ulamay_Hadees.jpg
 

اٹیچمنٹس

شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
فتاوی ثنائیہ کی تو تاویلیں کرنے کی بہت کوشش کی گئی، اگرچہ وہ کسی کام نہ آئیں، لیکن تفسیر ثنائی میں جو عقیدہ بیان ہوا ہے اس میں تو کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے
Gm=Allah kahan.jpg
Gm=Allah Kahan he.jpg

 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
صفات باری تعالٰی سے متعلق عربی حوالہ کا مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب کے قالم سے مترجم اقتباس ملاحظہ فرمایئے:۔ ”خدا کی جن صفات کو سلف صالحین نے ظاہر پر جاری رکھا ہے جیسی کہ قرآن و حدیث میں آئی ہیں۔ ان میں سے ایک صفت استواء ہے۔ کتاب و سنت کی دلیلیں اس میں بہت ہیں۔ جیسا ہم استواء اور اس جہت میں ہونے کے متعلق کہتے ہیں اسی طرح ہم آیات معیت وھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَمَا کُنْتُمٌ وغیرہ میں کہتے ہیں۔ یعنی ہم ایسی آیات میں وہی کہتے ہیں جیسا قرآن میں آیا ہے کہ اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے ہم اس کی تاویل میں تکلیف نہیں کرتے جیسا کہ ہمارے غیر کرتے ہیں کہ اس سے مراد علم ہے کیونکہ یہ ایک تاویل ہے جو مذاہب خلف کے مخالف ہے۔ اور صحابہ و تابعین اور تبع تابعین کے بھی بالکل خلاف ہے۔ جب تو سلامتی کے راستہ پر پہنچ گیا۔ جس کا ہم نے ذکر کیا ہے تو اس سے آگے نہ گزر“۔(رسالہ التحف فی مذاہب السلف ص۴۳) مولانا ثناء اللہ غیرمقلد مذکورہ حوالہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”اس عبارت کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ امام شوکانی نہ تو استواء کی تاویل کرتے ہیں اور نہ معیت خداوندی کی تاویل کے قائل ہیں بلکہ ہر قسم کی تاویل پر صحابہ اور سلف صالحین کے مذاہب کے خلاف بتاتے ہیں، یعنی ان کے نزدیک ھو معکم کی تاویل علم کے ساتھ کرنے والے مذاہب سلف کے ایسے ہی مخالف ہیں جیسا وہ لوگ جو استواء علی العرش کی تاویل کرتے ہیں“۔(مظالم روپڑی ص۱۳) نواب صدیق حسن خان صاحب (م ۱۸۹۰) جن کے متعلق مولانا ثناہ اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں کہ: ”ہندوستان کے نامور سلفی اہل حدیث مصنف میں سے مولانا نواب صدیق حسن صاحب بھوپالی مشہور ترین ہیں۔(مظالم روپڑی ص۱۳) نواب صاحب موصوف کا اس مسئلہ میں مولانا ثناء اللہ امرتسری غیرمقلد کے قلم سے ایک مترجم اقتباس ملاحظہ فرمایئے: ”ہمارے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ استواء علی العرش اور اللہ کا آسمان پر ہونا اور مخلوق سے بائن ہونا اور اس کا قرب اور معیت اور جو بھی صفات آئی ہیں کیفیت بتانے اور علم و قدرت کےساتھ تاویل کرنے کے بغیر ظاہر پر جا ری ہیں۔ کیونکہ تاویل کرنے کی کوئی دلیل شرعی وارد نہیں ہوئی“۔(کتاب الجوائز والصلات ص۲۶۲) مولانا امرتسری صاحب اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”میں کہتا ہوں کہ یہ عبارت قاضی شوکانی کی عبارت سے بھی واضح تر ہے۔ مطلب اس کا وہی ہے کہ خدا تعالٰی جیسا کہ عرش پر ہے ویسا ہی زمین پر ہے ۔ رہا یہ امر کہ کیسے ہے۔ سو یہ سوال کیفیت سے ہے جو حوالہ بخدا ہے۔(مظالم روپڑی ص۱۳) اسی طرح مولانا امرتسری نے جماعت غیرمقلدین کے وکیل اعظم مولانا محمد حسین بٹالوی صاحب (جنہوں نے انگریز یہ اہلحدیث نام آلارٹ کروایا) کی تائید سے علامہ محمد بن علی شوکانی سے بھی یہی عقیدہ نقل کیا ہے۔(مظالم روپڑی ص۱۲) خود مولانا امرتسری غیرمقلدین اپنا عقیدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ”میں خدا کی صفت قرب معیت کو اور اللہ تعالٰی کا آسمانوں اور زمینوں میں ہونا بلا تاویل یقین کرتا ہوں “۔ (مظالم روپڑی ص۱۱) اب جس عقیدہ کو یہ اکابرین غیرمقلدین حق کہہ کر اس پر جمے ہوئے ہیں اور کو سلف صالحین کا مسلک قرار دے رہے ہیں، غیرمقلدین اس عقیدہ کو باطل باور کرکے علمائے دیوبند کو اس کا الزام
شکوے ہمارے سارے غلط بھی سہی مگر لو تم ہی اب بتاؤ کس کا قصور تھا
Allah Kahan=Sadiq Syalkoti.jpg
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
277
پوائنٹ
71
بہت اچھا کام ہے ویسے میں نے یہ آج دیکھا ہے
لیں جناب چند دانے چکھیں
ابن حجر حیثمی مکی صوفی ہیں ان کی رائے حجت نہیں جو قول انہوں نے ذکر کیا ہے اس کی سند بیان فرما دیں ائمہ تک
نسفی کو اپنے پاس رکھیں متکلمین کو احناف بھی گمراہ ہی کہتے ہیں
لونڈی نے جو جواب دیا تو جناب کی اطلاع کیلئے عرض ہے الی السماء کے الفاظ ہیں حدیث میں اور الی جہت کیلئے آتا ہے اور فی بمعنی علی بھی استعمال ہوتا ہے
ترمذی کی جو روایت پیش کی ہے اسلام ویب سے تو کیا ہی اچھا ہوتا مکمل ذکر کر دیتے
قال أبو عيسى هذا حديث غريب من هذا الوجه قال ويروى عن أيوب ويونس بن عبيد وعلي بن زيد قالوا لم يسمع الحسن من أبي هريرة
یہ لیں لنک بھی تسلی کیجئے http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?idfrom=3220&idto=3220&bk_no=2&ID=1889
اور یہ جو تخریج میں لکھا ہے اس کا کیا مطلب ہے ؟؟؟
2) الراوي: أبو هريرة المحدث:
الجورقاني
- المصدر:
الأباطيل والمناكير
- الصفحة أو الرقم: 1/205​
یہ تو بریلویوں کی موضوعات شریف والی کہانی بن گئی ہے
امید ہے آپ جواب دینا پسند فرمائیں گے
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top