محدث فتویٰ
اللہ تعالی کا عرش پر مستوی ہونا
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 02 June 2012 02:17 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
فضیلۃ الشیخ! آپ نے اللہ تعالیٰ کے اپنے عرش پر مستوی ہونے کے بارے میں بیان فرمایا ہے کہ اس سے عرش پر وہ علو خاص مراد ہے جو اللہ تعالیٰ کے جلال وعظمت کے شایان شان ہے۔ ازراہ کرم اس کی کچھ اور مزید وضاحت فرما دیں۔؟
--------------------------------------------------------------------------------
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہم نے جو یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر مستوی ہے تو یہ عرش پر اس طرح کے علو خاص سے تعبیر ہے جو اللہ تعالیٰ کی عظمت وجلال کے شایان شان ہے۔ اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ یہ ایک ایسا علو ہے جو عرش ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ یہ اس طرح کا علو عام نہیں جو ساری مخلوقات کے لیے ہو، اس لیے ہمارا یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ وہ مخلوقات پر مستوی ہے یا وہ آسمان پر مستوی ہے یا وہ زمین پر مستوی ہے، حالانکہ وہ اپنی ان ساری مخلوقات سے بلند و بالا ہے۔ لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ عرش سے بلند ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ عرش پر مستوی ہے۔ استواء مطلق علو کی نسبت خاص ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عرش پر استوائ، اس کی ان فعلی صفات میں سے ہے جو اس کی مشیت کے ساتھ متعلق ہیں، جب کہ علو اس کی ان ذاتی صفات میں سے ہے جو اس سے الگ نہیں ہوسکتیں ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی حدیث نزول کی شرح میں اسی طرح صراحت فرمائی ہے، جس طرح ہم نے بیان کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: ’’اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ چھ دنوں میں آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے بعد عرش پر مستوی ہوا، تو کیا اس سے پہلے وہ عرش پر مستوی نہ تھا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ استواء سے مراد علو خاص ہے۔ ہر وہ شخص جو کسی چیز پر مستوی ہو، وہ اس سے بلند بھی ہے لیکن ہر وہ شخص جو کسی چیز سے بلند ہو، وہ اس پر مستوی نہیں ہوتا، لہٰذا ہر وہ چیز جو کسی دوسری چیز سے عالی ہو اس کے لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اس پر مستوی ہے یا اسے اس پر استواء حاصل ہوگیا ہے لیکن ہر وہ چیز جوکسی چیز پر مستوی ہوگی، اسے اس پر علو بھی حاصل ہوگا۔‘‘مجموع الفتاوی: ۵/۵۲۲ جمع وترتیب، ابن قاسم۔
ہمارا بھی اس وقت بالکل یہی مقصود ہے۔
ہم نے جو یہ کہا کہ ’’جس طرح اس کے جلال وعظمت کے شایان شان ہے‘‘ تو اس سے مراد یہ ہے کہ جس طرح اس کی دیگر تمام صفات اس کی ذات پاک کے جلال وعظمت کے شایان شان ہیں، عرش پر اس کا استواء بھی اسی طرح ہے جس طرح اس کی ذات پاک کے لائق ہے۔ وہ مخلوقات کے استواء کی طرح نہیں ہے کیونکہ صفات اپنے موصوف کے تابع ہوتی ہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات دیگر ذوات کی طرح نہیں ہے، بعینہٖ اس کی صفات بھی مخلوقات کی صفات کی طرح نہیں ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لَيۡسَ كَمِثۡلِهِۦ شَيۡءٞۖ وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلۡبَصِيرُ﴾--الشوري:11
’’اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘
اس جیسی کوئی چیز نہیں نہ ذات میں، نہ صفات میں۔ اسی وجہ سے امام مالک رحمہ اللہ سے جب استواء کی کیفیت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’استواء غیر مجہول ہے، لیکن عقل اس کی کیفیت کو سمجھنے سے قاصر ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کے لیے یہی میزان ہے کہ وہ اس کے لیے اسی طرح ثابت ہیں جس طرح اس نے اپنی ذات پاک کے لیے ان کا اثبات فرمایا ہے اور کسی تحریف، تعطیل، تکییف یا تمثیل کے بغیر وہ اسی طرح ہیں جس طرح اس کی ذات پاک کے شایان شان ہیں۔
اس تفصیل سے ہماری اس بات کا فائدہ بھی معلوم ہو جاتا ہے جو ہم نے یہ کہی تھی کہ عرش پر استواء سے مراد ایک ایسا علو خاص ہے جو عرش ہی کے ساتھ مخصوص ہے، کیونکہ علو عام تو اللہ تعالیٰ کے لیے آسمان اور زمین کی تخلیق سے قبل، تخلیق کے وقت اور تخلیق کے بعد بھی ثابت ہے، اور وہ تو سمع و بصر اور قدرت و قوت جیسی ذاتی اور لازمی صفات کی طرح ہے لیکن ان کے برعکس استواء سے مراد علو خاص ہے۔
وباللہ التوفیق
فتاویٰ ارکان اسلام >عقائد کے مسائل >محدث فتویٰ
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/925/86/
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوپر کی عبارت جس فتوی کا ترجمہ اس کی اصل پیش ذیل ہے ؛