آپ دوبارہ ادھر لکھ دیں جس پر آپ کو اعتراض ہے آپ کو ان شاءاللہ جواب مل جائیگا۔اورہاں آپ بھی اپنے اکابرین کے فتاوی جات پر نظرثانی کرلیں کیا اُن کے عقائد درست ہیں کہ نہیں،اُن کے بارے میں آپ کی تازہ تحقیق کیا کہتی ہے وہ بھی بتا دیجئے گا
@عبداللہ ابن آدم !
آپ کو پتہ ہے کہ آپ کس موضوع پر گفتگو کرنا چاہ رہے ہیں ۔؟
آپ نے کاپی پیسٹ کس موضوع پر کیا ہے؟
اسکین شدہ حوالے کس موضوع پر لگا رہے ہیں ۔؟
اور ان سب چیزوں کا آپ کے قائم کردہ عنوان سے کیا تعلق ہے ۔؟
کسی ایک نقطہ سے بحث شروع کر سکتے ہیں ۔؟
اور میری اس مضمون کا جواب بھی نہیں دیا
ہم کیوں ان پر شرک وکفر کے فتوے کیوں نہیں لگاتے اس کے لیے یہ مضمون پڑھ
مولانا جامی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب نفحات الانس من حضرات القدس فارسی کے صفحہ ۱۷ لغایت صفحہ ۲۰ میں بحوالہ ترجمۃ العوارف باب اول توحید کے چار مراتب لکھے ہیں۔ اصل عبارت نقل کر کے اس کا ترجمہ کرنے سے تو بات بہت طویل ہو جائے گی ۔ اس لیے کسی قدر توضیح کے ساتھ اُردو خلاصہ پر اکتفا کی جاتی ہے جس کو زیادہ تفصیل کا شوق ہو وہ اصل کتاب ملاحظہ کرے۔
اوّل توحید ایمانی
دوم: توحید علمی
سوم: توحید حالی
چہارم: توحید الٰہی
توحید ایمانی:
عوام کی توحید ہے یعنی کتاب وسنت کے مطابق خدا کو وحدہ لا شریک سمجھنا اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا، دل میں اس کا اعتقاد رکھنا اور زبان سے اقرار کرنا اور یہ توحید مجز صادق کی خبر کے تصدیق کرنے کا نتیجہ ہے اور ظاہری علم سے حاصل ہے اور صوفیاء کرام اس توحید میں عاممومنوں کے ساتھ شریک ہیں اور باقی قسموں میں ممتاز ہیں۔
توحید علمی:
باطنی علم سے حاصل ہوتی ہے جس کو علم الیقین کہتے ہیں ،اور وہ اس طرح ہوتی ہے کہ انسان کا یقین اس حد تک پہنچ جائے کہ موجود حقیقی اور موثر مطلق بجز خدا کسی کو نہ جانے، تمام ذات وصفات اور افعال کو خدا کی ذات ، صفات اور افعال کے سامنے ہیچ سمجھے، ہر ذات کو اس کی ذات کا اثر خیال کرے اور ہر صفت کو اس کی صفت کاپر تو جانے،مثلاً جہاں علم، قدرت، ارادہ، سننا دیکھنا پائے، ان سب کو خدا کے علم، قدرت، رادہ، سننے دیکھنے کے آثار سے سمجھے، اسی طرح باقی صفات وافعال کو خیال کرے گویا ظاہری اسباب کا پردہ درمیان نہ دیکھے، اور سب کچھ موثر حقیقی کی طرف سے سمجھے یہاں تک کہ ظاہری اسباب سے متاثر نہ ہو ، مگر چونکہ اس مرتبہ میں حجاب باقی رہتا ہے اس لیے اکثر اوقات نظر ظاہری اسباب کی طرف چلی جاتی ہے جو شرک خفی کی قسم ہے۔
توحید عالی:
یہ ہے کہ قریب قریب تمام حجابات درمیان سے اُٹھ جاتے ہیں اور موحد مشاہدہ جمال وجود واحد کا کرتا ہے جیسے ستاروں کا نور آفتاب کے نور میں غائب ہو جاتا ہے اسی قریب قریب تمام وجودات موحد کی نظر سے غائب ہوجاتے ہیں۔ یہاں تک کہ توحید کی صفت کو بھی اسی وجود واحدہ کی صفت دیکھتا ہے اور اپنے مشاہدہ کو بھی اسی وجود واحد کی صفت دیکھتا ہے، غرض اس کی نظر میں وحدت ہوتی ہے۔ دو ٹی کا وہاں دخل نہیں رہتا، اس طریق سے موحد کی ہستی بحر توحید کا ایک قطرہ ہو کر اس میں مضمحل ہو جاتی ہے اور الٰہی گھل مل جاتی ہے کہ وہاں انتشار نہیں رہتا، اسی بنا پر جنید بغدادی رحمہ اللہ ( سرتاج صوفیاء) نے کہا ہے:
’’التوحید معنی یضمحل فیہ الرسوم ویندرج فیہ العلوم یکون اللہ کما لم یزل‘‘
’’یعنی توحید ایک معنی ہے جس میں رسمی وجود حقیقی وجود گھل مل جاتے ہیں اور علوم اس میں مندرج ہو جاتے ہیں‘ گویا خدا ویسے کا ویسا ہے کوئی چیز پیدا ہی نہیں کی۔‘‘
یہ توحید مشاہدہ سے پیدا ہوتی ہے اور توحید علمی مراقبہ سے مراقبہ کی طرف سے توجہ ہٹا کر جمال محبوب کی انتظار ہے اور مشاہدہ محبوب کا دایدار ہے، توحید علمی میں اکثر لوازم بشر یہ باقی رہتے ہیں اور توحید عالی میں تھوڑے باقی رہتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ انسان دنیا میں ترتیب افعال اور تہذیب اقوال کے ساتھ مکلف ہے اور مکلف اسی صورت میں رہ سکتا ہے کہ اس کے ساتھ کچھ لوازم بشریہ رہیں جن کا اس کو مقابلہ کرنا پڑے اسی بناء پر ابو علی وقاق رحمہ اللہ نے کہا ہے:
التوحید غریم لا یقضی دینہ وغریب لا یؤدی حقہ‘‘
’’یعنی توحید ایسا قرض خواہ ہے کہ اس کا قرض پورا نہیں ہو سکتا او رایسا مسافر ہے کہ اس ( کی مہمانی) کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔‘‘
دنیا کی کبھی کبھی خالص حقیقت توحید جس میں یکبارگی آثار اور رسمی وجود گم ہو جاتے ہیں بجلی کی چمک کی طرح نمودار ہوتی ہے اور فی الفور بجھ جاتی ہے اور رسمی وجودات کا اثر وہ بارہ لوٹ آتا ہے او راس حالت میں شرک خفی کا نام نشان نہیں رہتا، انسان کے لیے توحید میں اس سے بڑھ کر اور کوئی مرتبہ ممکن نہیں۔
توحیدالٰہی:
یہ کہ خدا تعالیٰ خود اپنی ذات میں بغیر اس کے کہ دوسرا اس کی طرف وحدت کی نسبت کرے ازل میں ہمیشہ وحدت سے موصوف رہا چنانچہ حدیث میں ہے۔
’’ کان اللہ ولم یکن معہ شئی‘‘
’’یعنی خدا تعالیٰ تھا اور اس کے ساتھ کوئی دوسری شے نہ تھی ‘‘
اور اب بھی اسی طرح ہے اور ابدالا باد اسی طرح رہے گا چنانچہ قرآن مجید میں ہے:
(کل شئی ہالک الا وجہہ)
’’یعنی ہر شے ہلاکت والی ہے۔مگر خدا کی ذات ۔‘‘
اس آیت میں یہ نہیں کہا کہ ہر شئے ہلاک ہو جائے گی۔ بلکہ ہالک کہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت بھی ہلاکت والی ہے یعنی نیست او رفانی ہے اس کی مثال اس طرح ہے جیسے رسی جلا دی جائے تو اس کے بٹ بدستور نظر آتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ رسی قائم ہے ،حالانکہ حقیقت میں رسی فنا ہو چکی ہے او راس حالت کے مشاہدہ کیلیے قیامت کا حوالہ دینا یہ مجھ یوں کے لیے ہے ورنہ ارباب بصیرت اور اصحاب مشاہدہ جو زمان ومکان کے تنگ کوچہ س یگذر کر خلاصی پا گئے یہ وعدہ ان کے حق میں قیامت تک اُدھار نہیں بلکہ نقد ہے یعنی محجوبوں کے لیے جو مشاہدہ قیامت کو ہو گا۔ ارباب بصیرت کے لیے اس وقت ہو رہا ہے۔
یہ توحید الٰہی نقص وعیب سے بری ہے برخلاف توحید مخلوق کے وہ بوجہ نقص وجود کے ناقص ہے۔
یہ چار قسمیں توحید کی صوفیاء کے ہاں مشہور ہیں۔ اخیر کی دو وہی ہیں جن کے متعلق آپ نے سوال کیا ہے یعنی توحید حالی وحدۃ الشہود ہے اور توحید الٰہی وحدۃ الوجود ہے۔ یہ اصطلاحات زیادہ تر متاخرین صوفیاء( ابن عربی وغیرہ) کی کتب میں پائی جاتی ہیں۔ متقدمین کی کتب میں نہیں۔ ہاں مراد ان کی صحیح ہے، توحید ایمانی اور توحید علمی تو ظاہر ہے توحید حالی کا ذکر اس حدیث میں ہے:
’’ ان تعبداللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک‘‘
’’یعنی خدا کی اس طرح عبادت کر گویا کہ تواس کو دیکھ رہا ہے پس اگر تو نہ دیکھے تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ ‘‘
یہ حالت چونکہ اکثر طور پر ریاضیت اور مجاہدہ سے تعلق رکھتی ہے ، اس لیے یہ عقل سے سمجھنے کی شئے نہیں ہاں اس کی مثال عاشق ومعشوق سے دی جاتی ہے۔عاشق جس پر معشوق کا تخیل اتنا غالب ہوتا ہے کہ تمام اشیاء اس کی نظر میں کالعدم ہوتی ہیں‘ اگر دوسری شئے کا نقشہ اس کے سامنے آتا ہے تو محبوب کاخیال اس کے دیکھنے سے حجاب ہو جاتا ہے گویا ہر جگہ اس کو محبوب ہی محبوب نظر آتا ہے خاص کر خدا کی ذات سے کسی کو عشق ہو جائے تو چونکہ تمام اشیاء اس کے آثار اور صفات کا مظہرہیں اس لیے خدائی عاشق پر اس حالت کا زیادہ اثر ہوتا ہے یہاں تک کہ ہر شئے سے اس کو خدا نظر آتا ہے وہ شئی نظر نہیں آتی ہے جیسے شیشہ دیکھنے کے وقت چہرے پر نظر پڑتی ہے نہ کہ شیشہ پر۔
شیخ مخدوم علی ہجوری رحمہ اللہ معروف بہ داتا گنج بخش جن کا لاہور میں مزار مشہور ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب کشف المحجوب باب مشاہدہ میں صوفیاء کے اقوال اس قسم کے بہت لکھے ہیں جن کا خلاصہ یہی ہے جو بیان ہوا ہے کہ غلبۂ محبت اور کمال یقین کی وجہ سے ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ غیر خدا پر نظر ہی نہیں پڑتی، اسی طرح دوسرے بزرگوں نے اپنی تصانیف میں لکھا ہے مگر یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ خواص کی دو حالتیں ہیں جلوت اور خلوت جلوت لوگوں سے اختلاط اور میل جول کی حالت ہے۔ اور خلوت علیحدگی اور تنہائی کی حالت ہے جس میں ظاہر باطناً خدا کی طرف توجہ ہوتی ہے جلوت میں تبلیع کا کام ہوتا ہے اور خلوت میں نفس کی اصلاح اور دل کی صفائی ہوتی ہے ۔قرآن مجید میں سورۃ مزمل کے شروع میں ان دونوں حالتوں کا بیان ہے چنانچہ ارشاد ہے:
(اِِنَّ نَاشِءَۃَ الَّیْلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّاَقْوَمُ قِیْلًا o اِِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبْحًا طَوِیْلًا )
’’یعنی رات کا قیام نفس کے لتاڑنے کے لیے سخت ہے اور زبان کو بہت درست رکھنے والا ہے، بے شک تجھے دین میں طویل شغل ہے۔‘‘
ان دونوں آیتوں میں ان دونوں حالتوں کا ذکر ہے جن کی یہ دونوں حالتیں قائم ہیں ان کی تو ریس ہی نہیں اول نمبر ان میں انبیاء علیہم السلام کا ہے پھر درجہ بدرجہ ان کے جانشنیوں کا ہے ، جو لوگ ساری عمر خلوت میں گذارتے ہیں اگرچہ ان کی حالت مشاہدہ زیادہ ہوتی ہے مگر چونکہ یہ چیز صرف ان کی ذات سے تعلق رکھتی ہے اس میں متعدی فائدہ نہیں اس لیے وہ علماء ربانیین کا مقابلہ نہیں کر سکتے اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے چودہویں رات کے چاند کی ستاروں پر اور دوسری حدیث میں ہے جیسی میری تمہارے ادنیٰ پر (مشکوٰۃ کتاب العلم فصل ۲)
پس انسان کوچاہیے کہ توحید حالی حاصل کرتے ہوئے افضل مرتبہ ہاتھ سے نہ دے، جو محض گوشۂ نشینی کو بڑا کمال سمجھے ہوئے ہیں اور اپنی عمر اسی میں گذار دیتے ہیں وہ علمائے ربانی کی نسبت بڑے خسارہ میں ہیں اگرچہ ذاتی طور پر ان کی طبیعت کو اطمینان وسکون زیادہ ہو اور ذوق عبادت اور حلاوت ذکر میں خواہ کتنے بڑھے ہوئے ہوں، مگر علمائے ربانی کا متعدی فائدہ اس سے بڑھ جاتا ہے، کیونکہ شیطان کا اصل مقابلہ کرنے والی یہی( علمائے ربانی) کی جماعت ہے ،عابد ریاضت اور مجاہدہ سے صرف اپنی خواہشات کو دباتا ہے اور یہ جماعت ہزاروں کی اصلاح کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’ہزار عابد سے شیطان اتنا نہیں ڈرتا جتنا ایک عالم سے (ڈرتا ہے۔) (مشکوٰۃ: کتاب العلم، فصل ۲)
خدا ہمیں بھی ربانی علماء سے کرے اور انہی کے زمرہ میں اٹھائے۔ آمین!
اب رہی توحید الٰہی سوا اس کے متعلق بہت دنیا بہکی ہوئی ہے ، بعض تواس کا مطلب ہمہ اوست سمجھتے ہیں یعنی ہر شئے عین خدا ہے ، جیسے برف اور پان بظاہر دو معلوم ہوتے ہی مگر حقیقت ایک ہے اسی طرح خدا اور دیگر موجودات وحدت حقیقی کا عکس ہیں جیسے ایک شخص کے اردگرد کئی شیشے رکھ دئیے جائیں تو سب میں اس کا عکس پڑتا ہے، ایسے ہی خدا اصل ہے اور باقی اشیاء اس کا عکس ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ کلی جزی کی مثال ہے جیسے انسان اور زد عمر بکر ہیں حقیقت سب کی خدا ہے اور یہ تعینات حوادث ہیں، غرض دنیا عجیب گھور کھد ہندے میں پڑی ہوئی ہے کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ۔
صحیح راستہ اس میں یہ ہے کہ اگر اسکا مطلب یہ سمجھا جائے کہ سوا خدا کے کوئی شئے حقیقۃ موجود نہیں اور یہ جو کچھ نظر آرہا ہے یہ محض توہمات ہیں جیسے سو فسطائیہ فرقہ کہتا ہے کہ آگ کی گرمی اور پانی کی برددت وہمی اور خیالی چیز ہے تو یہ سراسر گمراہی ہے ۔ اور اگر اس کایہ مطلب ہے کہ یہ موجودات انسانی ایجادات کی طرح نہیں کہ انسان کے فنا ہونے کے بعد بھی باقی رہتی ہیں بلکہ یہ ان کا وجود خدا کے سہارے پر ہے اگر ادھر سے قطع تعلق فرض کیا جائے تو ان کا کوئی وجود نہیں، تو یہ مطلب صحیح ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے بجلی کا کرنٹ (برقی رو) قمقموں کے لیے ہے۔ گویا حقیقت میں اس وقت بھی ہر شئے فانی ہے مگر ایک علمی رنگ میں اس کوسمجھنا ہے اور ایک حقیقت کا سامنے آنا ہے علمی رنگ میں تو سمجھنے والے بہت ہیں مگر حقیقت کا اس طرح سامنے آنا جیسے آنکھوں سے کوئی شئے دیکھی جاتی ہے یہ خاص ارباب بصیرت کا حصہ ہے گویا قیامت والی فنا اس وقت ان کے سامنے ہے پس یہ آیت کریمہ(کل شئی ہالک الا ربہہ) ان کے حق میں نقد ہے نہ ادھار۔
نوٹ! ابن عبری، رومی اور جامی رحمہم اللہ وغیرہ کے کلمات اس توحید میں مشتبہ ہیں اس لیے بعض لوگ ان کے حق میں اچھا اعتقاد رکھتے ہیں بعض برا۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ وغیرہ ابن عربی رحمہ اللہ سے بہت بدظن ہیں۔ اسی طرح رومی، اور جامی کو کئی علماء برا کہتے ہیں مگر میرا خیال ہے کہ جب ان کا کلام متحمل ہے جیسے جامی کا کلام اوپر نقل ہو چکا ہے اور وہ درحقیقت ابن عربی کا ہے کیونکہ ابن عربی کی کتاب عوارف المعارف سے ماخوذ ہے تو پھر ان کے حق میں سوء ظنی ٹھیک نہیں اسی طرح رومی کا خیال کر لینا چاہئے ،غرض حتی الوسع فتویٰ میں احتیاط چاہئے جب تک پوری تسلی نہ ہو فتویٰ نہ لگانا چاہئے خاص کر جب وہ گذ چکے اور ان کا معاملہ خدا کے سپرد ہو چکا تو اب کرید کی کیا ضرورت؟ بلکہ صرف اس آیت پر کفایت کرنی چاہئے:
(تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ لَہَا مَا کَسَبَتْ وَ لَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ وَ لَا تُسْءَلُوْنَ عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْن)
مولانا نواب صاحب بھوپال مرحوم تکثار میں علامہ شوکانی سے نقل کرتے ہیں۔ کہ میں نے چالیس سال تک شیخ کی تکفیر کی۔ آذخر میری رائے غلط معلوم ہوئی۔ تو میں نے رجوع کیا۔ نواب صاحبمرحوم شیخ ممدوح کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اور مولانا نزیر حسین المعروف حضرت میاں صاحب دہلوی شیخ ممدوح کوشیخ اکبر لکھتے ہیں۔ (معیار الحق ص128)
حضرت مجدد سہرہندی بھی شیخ موصوف کو مقربان الٰہی سے لکھتے ہیں۔ بڑی وجہ آپ کی مخالفت کی مسئلہ وحدۃ الوجود ہے۔ سو دراصل اس کی تفسیرپر مدار ہے۔ جیسی اس کی تفسیر کی جائے ویسا ہی اس کا اثر ہوگا۔ خاکسار کے نزدیک اس کی صحیح تفسیر بھی ہوسکتی ہے۔ جس کا زکر کبھی کبھی اہل حدیث میں کیا گیا ہے۔ دوسری وجہ خفگی کی ایمان فرعون ہے۔ مگرشیخ کا قولسند درجہ'' فتوحات''اس خفگی کا ازالہ کرتا ہے۔ شیخ موصوف نے فتوحات میں فرعو ن کو مدعی الوہیت لکھ کر ابدی جہنمی لکھا ہے۔ اورکسی مقام پر اس کے خلاف ملتا ہے۔ تو وہ متروک ہے یا مول۔ اس لئے خاکسار کی ناقص رائے۔ میں بھی شیخ ممدوح قابل عزت لوگوں میں ہیں۔ (26 محرم 40 ہجری)