- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,397
- پوائنٹ
- 891
روحوں کی واپسی ممکن ہی نہیں
اصل بات یہ ہے کہ وفات کے بعد تمام انسانوں کی روحیں جس دنیا میں چلی جاتی ہیں وہ قطعاً غیر مادی، اور ہماری اس دنیا سے یکسر مختلف ہے۔ اُس دنیا کے اسباب و قوانین اِس دنیا کے اسباب و قوانین سے بالکل جداا ور مختلف ہیں۔ نہ اِس دنیا کی کوئی مخلوق اُس دنیا کے معاملات میں کوئی مداخلت کر سکتی ہے اور نہ اُس دنیا کی کوئی مخلوق اِس دنیا کے معاملات پر اپنا کوئی اثر ڈال سکتی ہے۔ وفات کے ساتھ ہی بندہ کا مادی دنیا سے تعلق ختم ہو جاتا ہے اور اس کی ’’آخرت‘‘ شروع ہو جاتی ہے۔ اس لئے اس دوسری دنیا کو ’’دنیائے آخرت‘‘ یا ’’اُخروی دنیا‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔
قبر میں بھی بندہ کی رُوح کا اس کے جسم کے ساتھ جو تعلق ہوتا ہے وہ اُخروی دنیا کے قوانین کے مطابق ہی ہوتا ہے، نہ کہ ہماری اس مادی دنیا کے قوانین کے مطابق۔ اسی لئے اس تعلق کے باوجود مردہ، مردہ ہی رہتا ہے، زندہ نہیں ہو جاتا۔ نہ ہمیں اُس کے حال کی کچھ خبر ہوتی ہے کہ اُس پر کیا گزر رہی ہے اور نہ اُسے ہمارے حالات کا کچھ پتہ ہوتا ہے (سوائے اس کے کہ اللہ خود ہی اپنی قدرت سے کچھ اُس کے علم میں لے آئے۔ البتہ خود اُس کے پاس جاننے کی کچھ طاقت نہیں ہوتی)۔ ورنہ اگر روحوں کا اِس دنیا میں آنا اور اِس میں تصرفات کرنا ممکن ہوتا تو وہ اپنے اصل جسموں میں لوٹ کر پہلے کی طرح زندہ انسانوں کے روپ میں واپس آتیں۔ لیکن یہ تمام انسانوں کا متفقہ مشاہدہ ہے کہ کوئی انسان مرنے کے بعد زندہ نہیں ہوتا چاہے وہ نیک ہو یا بد۔ ورنہ آج دنیا میں قبرستان ہی نہ ہوتے۔
چنانچہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کو ان کی زندگیوں میں غیبی اختیارات اور قدرتوں کا حامل ماننا جس قدر غلط ہے اس سے کہیں زیادہ غلط اور خطرناک ان کو وفات کے بعد انہی اختیارات کا مالک سمجھنا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ وفات کے بعد تمام انسانوں کی روحیں جس دنیا میں چلی جاتی ہیں وہ قطعاً غیر مادی، اور ہماری اس دنیا سے یکسر مختلف ہے۔ اُس دنیا کے اسباب و قوانین اِس دنیا کے اسباب و قوانین سے بالکل جداا ور مختلف ہیں۔ نہ اِس دنیا کی کوئی مخلوق اُس دنیا کے معاملات میں کوئی مداخلت کر سکتی ہے اور نہ اُس دنیا کی کوئی مخلوق اِس دنیا کے معاملات پر اپنا کوئی اثر ڈال سکتی ہے۔ وفات کے ساتھ ہی بندہ کا مادی دنیا سے تعلق ختم ہو جاتا ہے اور اس کی ’’آخرت‘‘ شروع ہو جاتی ہے۔ اس لئے اس دوسری دنیا کو ’’دنیائے آخرت‘‘ یا ’’اُخروی دنیا‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔
قبر میں بھی بندہ کی رُوح کا اس کے جسم کے ساتھ جو تعلق ہوتا ہے وہ اُخروی دنیا کے قوانین کے مطابق ہی ہوتا ہے، نہ کہ ہماری اس مادی دنیا کے قوانین کے مطابق۔ اسی لئے اس تعلق کے باوجود مردہ، مردہ ہی رہتا ہے، زندہ نہیں ہو جاتا۔ نہ ہمیں اُس کے حال کی کچھ خبر ہوتی ہے کہ اُس پر کیا گزر رہی ہے اور نہ اُسے ہمارے حالات کا کچھ پتہ ہوتا ہے (سوائے اس کے کہ اللہ خود ہی اپنی قدرت سے کچھ اُس کے علم میں لے آئے۔ البتہ خود اُس کے پاس جاننے کی کچھ طاقت نہیں ہوتی)۔ ورنہ اگر روحوں کا اِس دنیا میں آنا اور اِس میں تصرفات کرنا ممکن ہوتا تو وہ اپنے اصل جسموں میں لوٹ کر پہلے کی طرح زندہ انسانوں کے روپ میں واپس آتیں۔ لیکن یہ تمام انسانوں کا متفقہ مشاہدہ ہے کہ کوئی انسان مرنے کے بعد زندہ نہیں ہوتا چاہے وہ نیک ہو یا بد۔ ورنہ آج دنیا میں قبرستان ہی نہ ہوتے۔
چنانچہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کو ان کی زندگیوں میں غیبی اختیارات اور قدرتوں کا حامل ماننا جس قدر غلط ہے اس سے کہیں زیادہ غلط اور خطرناک ان کو وفات کے بعد انہی اختیارات کا مالک سمجھنا ہے۔