امام محمد علیہ الرحمہ پر محدثین کی جرحین ماقبل میں گزرچکی ہیں،اوران جرحوں کے مالہ وماعلیہ کے تعلق سے تفصیلات بھی آپ حضرات کے نظرنواز ہوچکیں،اب مناسب ہے کہ امام محمد ؒ کی تعدیل کے تعلق سے کچھ مزید باتیں عرض کی جائیں۔
زبیر علی زئی اپنے زیر بحث مضمون کے آخر میں لکھتے ہیں:
ان کے مقابلے میں کسی سے امام محمد بن الحسن مذکور کی توثیق صراحتا ًثابت نہیں ہے،امام ابن المدینی ،امام شافعی اوردیگر علماء سے مروی ایک ایسی روایت بھی ثابت نہیں ہے ،جس میں محمد بن الحسن کو ثقہ یا صدوق لکھاگیاہو۔
زبیر علی زئی نے اس میں کئی باتیں غلط کہی ہیں، شاید بے چارے بھول جاتے ہیں کہ پہلے کیا لکھ چکے ہیں اور اب کیالکھ رہے ہیں۔
زبیر علی زئی کے صراحتاًثقہ وصدوق کے تعلق سے اولاًکچھ عرض کروں،زبیر علی زئی نے متعدد مقام پر بالخصوص امام بخاری کی رفع الیدین کے رسالہ کے بنیادی راوی کی توثیق ضمنی توثیق سے ثابت کی ہے اور اس ضمنی توثیق کو قابل اعتبار اورمستند تسلیم کرتے ہوئے اس رسالہ کے راوی کومعتبر ماناہے؛لیکن یہاں پر وہ ہم سے صراحتا ًتوثیق کا مطالبہ کررہے ہیں،یہ بجائے خود دورنگی اورقابل مذمت عمل ہے،جب اپنی باری تھی تو رفع یدین کے اس راوی کے ایک سند پر حافظ ابن حجر نے حسن کہہ دیا،توان کے نزدیک نہ صرف روایت معتبر بلکہ مذکورہ راوی بھی مکمل طورسے قابل اعتبار واعتماد،لیکن امام محمد کے باب میں ہم سے مطالبہ ہے کہ صراحتا توثیق پیش کرو،ان کےمعتقدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ زبیر علی زئی کی اس دورنگی کی کوئی مناسب توجیہ کریں۔
امام محمد کی تعدیل کرنے والے درج ذیل حضرات ہیں۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ
امام شافعی رحمتہ اللہ نے امام محمد سے اپنی مایہ ناز کتاب جو ربیع کے واسطے سے مروی ہے،یعنی ’’الام‘‘میں بہت سی روایتیں ان سے نقل کی ہیں اوران کی احادیث سے فقہ کے باب میں استدلال کیاہے،کتاب الام کے مطالعہ کرنے والے شخص پر یہ بات مخفی نہیں ہوگی کہ امام محمد کی فقہی آراء پر وہ تنقید کرتے ہیں ،کہیں اختلاف کرتے ہیں ،کہیں تائید کرتے ہیں،اسی کے ساتھ وہ احادیث کے نقل وروایت مین مختلف روات پر تنقید کرتے ہیں کہ وہ قابل اعتماد ہے یانہیں ہے،لیکن انہوں نے کہیں بھی امام محمد بن الحسن کی ذات اورشخصیت پر اس حوالہ سے تنقید نہیں کی کہ وہ حدیث کے باب میں ضعیف یاغیرمعتبر ہیں،بلکہ وہ ان کی سند سے روایت نقل کرتے ہیں اوراس سے استدلال کرتے ہیں،اوران کا یہ استدلال کرنا ہی ان کی توثیق ہے اورامام شافعی حدیث کے باب میں امام محمد کو قابل اعتماد واعتبار سمجھتے ہیں ،یہ بات حافظ ذہبی نے بھی کہی ہے، چنانچہ وہ کہتے ہیں:
قلت: قد احتجّ بمحمدٍ أبو عبد الله الشّافعيّ.( تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام4/954)
وَأَمَّا الشَّافِعِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ، فَاحْتَجَّ بِمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ فِي الْحَدِيثِ(مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه1/93)
علاوہ ازیں امام شافعی فرماتے ہیں:
قُلْت أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ أَوْ غَيْرُهُ مِنْ أَهْلِ الصِّدْقِ فِي الْحَدِيثِ(الام3/225)
اس اقتباس میں دیکھاجاسکتاہے کہ امام شافعی کوامام محمد بن الحسن پر اعتماد وثقاہت میں کوئی شک نہیں ہے،لیکن جب یقین نہیں ہے کہ وہی تھے یاکوئی دوسرا،توفرماتے ہیں کہ دوسرا بھی جوکوئی تھاوہ حدیث میں سچاتھا،یہ اقتباس وضاحت سے بتارہاہے کہ امام شافعی امام محمد کو صادق فی الحدیث سمجھتے ہیں۔
علاوہ ازیں امام شافعی فرماتے ہیں:
حَدثنَا أَبُو إِسْحَاق النَّيْسَابُورِي الْمَعْرُوف بِالْبيعِ قَالَ ثَنَا مُحَمَّد بن يَعْقُوب الْأَصَم قَالَ ثَنَا الرّبيع بن سُلَيْمَان قَالَ كتب الشَّافِعِي إِلَى مُحَمَّد بن الْحسن وَقد طلب مِنْهُ كتبه لينسخها فأخرها عَنهُ فَكتب إِلَيْهِ
(قل لمن لم تَرَ عين من رَآهُ مثله ... وَمن كَأَن من رَآهُ قد رأى من قبله)
(الْعلم ينْهَى أَهله أَن يمنعوه أَهله ... لَعَلَّه يبذله لأَهله لَعَلَّه)
(اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ،ص127)
یہ سند صحیح ہے کیونکہ محمد بن یعقوب بن الاصم کی ثقاہت پر محدثین کا اجماع ہے،ربیع بن سلمان ثقہ ہیں،اورامام شافعی کی ذات محتاج تعارف نہیں،رہ گئے ابتدائی راوی ابواسحاق نیشاپوری جو بیع کے نام سے معروف ہیں، تویہ دوہی شخص ہیں ایک ابوعبداللہ الحاکم اور دوسرے امام بغوی ۔
امام صیمری کے اساتذہ کے طبقہ میں بیع کے نام سے یہی دوافراد مشہور ہیں،حاکم محمد بن یعقوب کے شاگرد ہیں،نیشاپور کے بھی ہیں اور صیمری کے استاد ہونے بھی میں کوئی استبعاد نہیں ہے،بس فرق یہ ہے کہ حاکم کی کنیت اب تک کی تلاش وتحقیق میں مجھے ہر جگہ ابوعبداللہ ہی ملی ہے،ابواسحاق کہیں نہیں ملی، یہ عین ممکن ہے کہ ان کی دوکنیت ہو ،ابوعبداللہ زیادہ مشہور ہو اورابواسحاق کم مشہور ہو،جیسے امام عیسی بن ابان کی کنیت ہرایک ترجمہ نگار نے ابوموسی ٰبیان کی ہے،لیکن حافظ ابن حجر نے لسان المیزان میں ابومحمد کنیت بیان کی ہے۔
دوسرے ابواسحاق جو بیع کے نام سے معروف ہیں، وہ مشہور امام حدیث امام بغوی ہیں، بغو کاایک شہر ہے جو ہرات اور مرو کے درمیان ہےاور نیشاپور بھی خراسان میں ہے،بلکہ وہ خراسان کا دارالسلطنت رہاہے، ایسے میں اگر کسی صوبہ کے شہر میں رہنے والے کی نسبت اس کے دارالسلطنت کی طرف شہرت کی وجہ سے کردی جائے تو کوئی غیر متوقع نہیں ہے۔خود محدثین بسااوقات تفنن کیلئے غیرمعروف نام ،کنیت وغیرہ ذکر کرتے ہیں،زمانی اعتبار سے بھی صیمری کے بغوی کے شاگرد ہونے میں کوئی استبعاد نہیں ہے۔
بہرحال بات چاہے یہ ہو ،یاپھر وہ ہو،یعنی وہ ابوعبداللہ الحاکم کے شاگرد ہوں،یاپھر بغوی کے ،جب دونوں ثقہ ہیں ،تو عدم تعیین سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اس میں دیکھاجاسکتاہے کہ امام شافعی نے امام محمد بن الحسن کی ثقاہت کیلئے انتہائی اعلیٰ الفاظ استعمال کئے ہیں،یعنی آنکھوں نے جس کا مثل نہیں دیکھا، حالانکہ امام شافعی اس سے قبل امام مالک ،سفیان بن عیینہ اور دیگر محدثین وفقہاءسے روبرو ہوچکے تھے، ان سے استفادہ کرچکے تھے۔
اس خبر کی مزید وثاقت کی دلیل یہ ہے کہ اس کو ابن عبدالبر نے بغیر سند کے لیکن جزم کے صیغہ کے ساتھ بیان کیاہے، دیکھئے(الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء مالك والشافعي وأبي حنيفة رضي الله عنهم،ص175)
امام شافعی سے صحیح سند سے مروی ہے:
حَدَّثَنِي الحسن بن محمد بن الحسن الخلال، قَالَ: أخبرنا علي بن عمرو الجريري، أن أبا القاسم علي بن محمد بن كاس النخعي، حدثهم قَالَ: حدثنا أحمد بن حماد بن سفيان، قَالَ: سمعت الربيع بن سليمان، قَالَ: سمعت الشافعي، يقول: ما رأيت أعقل من محمد بن الحسن.
(تاریخ بغداد2/651)
ویسےایک اقتباس مزید دیکھتے چلیں ،سلام بن مطیع کے ترجمہ میں معلمی کہتے ہیں:
سلام بن أبي مطيع. مرت الإشارة إلى روايته في ترجمة سعيد بن عامر. قال الأستاذ ص 109: «قال ابن حبان لا يجوز أن يحتج بما ينفرد به. وقال الحاكم: منسوب إلى الغفلة وسوء الحفظ» .
أقول هذا الرجل من رجال (الصحيحين) منسوب إلى العقل لا إلى الغفلة فكأن الحاكم صحف، قال أبو داود: «كان يقال هو أعقل أهل البصرة» وقال البزار: «كان من خيار الناس وعقلائهم» وقال أحمد وأبو داود: «ثقة» . وقال ابن عدي: «لم أر أحداً من المتقدمين نسبة إلى الضعف، وأكثر ما فيه أن روايته عن قتادة فيها أحاديث ليست بمحفوظة وهو مع ذلك كله لا بأس به» .
فكأن ابن حبان رأى بعض حديثه عن قتادة غريباً فأطلق، وروايته هنا هنا ليست عن قتادة، وإنما هي قصة جرت لأيوب شهدها سلام وليس ذلك من مظنة الغلط.(التنکیل)
سوال یہ ہے کہ کہ ابوداؤد اوربزار کاکلام جس میں ان کے عقل کی تعریف کی گئی ہے،اس میں ان کی توثیق ہے یانہیں، اگرتوثیق نہیں تھی توپھر معرض استدلال میں معلمی نے کیوں پیش کیا، حقیقت یہ ہے کہ اعقل الناس یامفہم وغیرہ یہ بھی توثیق کاہی کلام ہے ،کیونکہ کسی بھلکڑ کو یاجس کا حافظہ خراب ہو،اس کو اعقل الناس نہیں کہتے،ذہانت کے ساتھ اگر حافظہ نہ ہو،تووہ عقل مند شخص نہیں ہے،کتب جرح وتعدیل میں متعددروات کے بارے میں یہی جملہ ملتاہے کہ کان من اعقل الناس یااس سے ملتا،جلتا، علماء حدیث نے اس کو بھی ثقاہت میں ہی شمار کیاہے، مثلا امام شافعی ابن یونس المصری کو اعقل فرماتے ہیں، ابن مہدی یاابن قطان امام شافعی کو شاب مفہم بتاتے ہیں،یہ اوراس کاکلام بھی توثیق کا ہی کلام ہے، بس فرق یہ ہے کہ کسی میں صراحت ہے اورکسی میں نہیں ہے۔
اسی کے ساتھ یہ بھی دیکھئے:
حَدَّثَنِي الحسن بن محمد الخلال، قَالَ: أخبرنا علي بن عمرو الجريري، أن علي بن محمد النخعي حدثهم، قَالَ: أخبرنا أحمد بن حماد بن سفيان، قَالَ: سمعت المزني، يقول: سمعت الشافعي، يقول: أمن الناس علي في الفقه محمد بن الحسن.(تاریخ بغداد2/651)
اس کی بھی سند درست ہے،اوراس میں امام شافعی بتارہے ہیں کہ ان پر فقہ کے باب میں سب سے زیادہ احسان امام محمد بن الحسن کا ہے،اس میں امام شافعی نے اپنے تمام اساتذہ کے بالمقابل امام محمد بن الحسن کی علمی فضیلت کا اعتراف کیاہے۔
میراخیال ہے کہ اتنے شواہد یہ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ امام شافعی امام محمد بن الحسن کو روایت حدیث میں معتبر اور قابل اعتماد مانتے ہیں، اوریہ تو بعد کی بات ہے،ورنہ جس شخص نے بھی کتاب الام کا مطالعہ کیاہوگا، اس کا وجدان یہ خود گواہی دے گاکہ امام شافعی کا معاملہ امام محمد کے ساتھ کیاہے؟
زبیر علی زئی کی دفع الوقتی
آپ نے ماقبل میں تفصیل سے مطالعہ کیاکہ امام شافعی سے امام محمد کی ثقاہت میں ایک نہیں متعدد اقوال ہیں اورجس کی تائید حافظ ذہبی نے بھی کی ہے،اس کے بالمقابل ہمیں کسی متقدم عالم کا قول نہیں معلوم کہ جس نے امام شافعی کو امام محمد کے جارحین کے شمار کیاہو،لیکن یہ ’’سعادت ‘‘زبیر علی زئی نے بزور قلم حاصل کیاہے،کسی کا بخشاہوانہیں ہے(ابتسامہ)وہ امام شافعی کو بھی امام محمد کے جارحین میں شمار کرتے ہیں اوران کی دلیل یه ہے کہ امام شافعی نے امام محمد پر رد کیاہے:
امام شافعی ؒ نے اگرچہ محمد بن الحسن سے روایات لکھی ہیں؛لیکن اس پر رد بھی کیاہے،مثلادیکھئے مناقب الشافعی للبیہقی (۱؍۱۸۷،وسندہ صحیح)
علمی بے مائیگی کی یہ انتہاہے ،امام شافعی نے تو امام مالک پر بھی رد کیاہے اوربسااوقات وہ اس رد میں امام محمد بن الحسن کے رد سے بھی زیادہ سخت لہجہ اپناتے ہیں توکیااس کو بھی امام شافعی کی جانب سے امام مالک پر جرح سمجھاجائے گا، فقہی استنباط واجتہاد پر تنقید الگ شے ہے اورکسی پر روایت حدیث کے تعلق سے جرح الگ بات ہے ،لیکن ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں کہ جب ایک فرقہ کا ’’نامور محقق العصر‘‘ان دونوں باتوں میں بھی تمیز کرنے سے قاصر ہے ،اوراس سے زیادہ حیرت کی بات ہے کہ اس گروہ میں کیا کوئی’’ رجل رشید‘‘نہیں ہے جو اس کو اس غلطی پر متنبہ بھی کرسکتا،یاپھر احناف کی مخالفت میں سبھی لام بند ہیں۔
اگرفقہی استنباط واجتہادپر تنقید کوبھی جرح تسلیم کیاجائے توآئیے کچھ کتابوں کے نام ملاحظہ کرتے ہیں جس میں امام شافعی پر رد کیاگیاہے اور بسااوقات کتاب کا عنوان ہی ایساہے جس میں ان کو کتاب وسنت یانصوص کا مخالف ٹھہرایاگیاہے۔
إبراهيم بن حماد بن إسحاق: من نجار أخيه على مذهب مالك ويكنى أبا إسحاق وتوفي وله من الكتب كتاب الرد على الشافعي
الفهرست (ص: 248)
إِبْرَاهِيْمُ بنُ حَمَّادِ بنِ إِسْحَاقَ بنِ إِسْمَاعِيْلَ *
الإِمَامِ، حَافِظِ وَقتِهِ حَمَّاد بن زَيْدٍ، الأَزْدِيُّ
مَوْلاَهُمُ، البَصْرِيُّ، الإِمَامُ، الثَّبْتُ، شَيْخُ الإِسْلاَمِ، أَبُو إِسْحَاقَ العَابِدُ.
سَمِعَ: الحَسَنَ بنَ عَرَفَةَ، وَعَلِيَّ بنَ مُسْلِمٍ الطُّوْسِيّ، وَعَلِيّ بنَ حَرْبٍ، وَالزَّعْفَرَانِيَّ، وَعِدَّة.
حَدَّثَ عَنْهُ: الدَّارَقُطْنِيّ، وَابْنُ شَاهِيْنٍ، وَأَبُو طَاهِرٍ المُخَلِّصُ، وَآخَرُوْنَ.
قَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ: ثِقَةٌ جَبَل (1) .
(سير أعلام النبلاء ط الرسالة (15/ 35)
الرد على الشافعي:فيما يخالف فيه القرآن، لحسن بن أحمد المقري.
كشف الظنون عن أسامي الكتب والفنون (1/ 839)
الحسن بن أحمد بن الحسن العَطَّار، أبو العلاء الحافظ المقري الهَمَذَاني.
قال ابن السمعاني: حافظ متقن، ومقرئ فاضل، حسن السيرة، جميل الأثر، مرضيَّ الطريقة، سخيٌّ بما يملكه، يعرفُ الحديث والأدب والقراءات معرفةً حسنة.
وقال عبد القادر بن عبد الله الرهاوي: هو أشهر من أن يُعَرَّف، بل يَعْذُرُ وجود مثله في أعصار كثيرة على ما بلغنا من سير العلماء والمشايخ،
الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة (3/ 344)
كتاب: الرد على الشافعي فيما يخالف فيه القرآن.
للقاضي، أبي سعيد: حسن بن إسحاق المعري بن نبيل النيسابوري، الحنفي.المتوفى: سنة 348، ثمان وأربعين وثلاثمائة.
حسن بن إسحاق بن نبيل، أبو سعيد النيسابوري ثم المعري
قاضي معرة النعمان.
أصله من نيسابور. سمع بمصر من النسائي، والطحاوي، وسمع بحلب، والكوفة، والري.
ذكره ابن العديم، في " تاريخ حلب "، وقال: له كتاب " الرد على الشافعي فيما خالف فيه القرآن "، وكان يذهب إلى قول الإمام أبي حنيفة،
الطبقات السنية في تراجم الحنفية (ص: 222،)
القاضى بكار بن قتيبة بن اسد بن ابى بردعة البكراوى الثقفى أبو بكر البصري الحنفي نزيل القاهرة ولد سنة 182 وتوفى سنة 270 سبيعن ومائتين.صنف كتاب الرد على الشافعي.
كتاب الرد على الشافعي.
يَحْيَى بن عُمَر بن يوسف. أَبُو زكريا الكِنَانيُّ الأندلسيُّ الفقيه المالكيُّ. [الوفاة: 281 - 290 ه]قَالَ ابن الفَرَضيّ، رحل وَسَمِعَ بإفريقية مِنْ: سُحْنُون بن سَعِيد، وأبي زكريا الحُفْريّ، وعَوْن.
وبمصر مِنْ: يَحْيَى بن بُكَيْر، وابن رُمْح، وحَرْمَلَة،وَسَمِعَ [ص:851] مِنْ: أبي مصعب، يعني بالمدينة، وانصرف إلى القَيْرُوَان فاستوطنها.وَكَانَ فقيهًا حافظا للرأي، ثقة، ضابطًا لكُتُبه.سَمِعَ مِنْهُ مِن الأندلُسييّن: أَحْمَد بن خَالِد، وجماعة.
تاريخ الإسلام ت بشار (6/ 850)
یہ ایک مختصر فہرست ان اکابر علماءحضرات کی ہے جنہوں نے امام شافعی پر رد کیاہے،جو معمولی تلاش وجستجوسے میسر ہواہے،اس میں ایک نام چھوٹاجارہاہے، مناسب ہے کہ اس کو بھی شامل کرلیاجائے،یہ نام ہے محمد بن عبداللہ بن الحکم کا ،جنہوں نے امام شافعی کے رد میں کتاب لکھی ہے الرد على الشافعي فيما خالف فيه الكتاب والسنة الوافي بالوفيات (3/ 272)اس کےعلاوہ بھی دیگر علماء مالکیہ وحنفیہ وحنابلہ نےا مام شافعی کےا جتہادات واستنباطات کے رد میں کتابیں لکھی ہیں، یہ علماء کرام شروع سے ایک دوسرے پر اجتہادی آراء میں تنقید کرتے آرہے ہیں ،لیکن اس کو جرح تسلیم کرنایااس کو کسی کو ثقاہت کے منافی منانا(یعنی اگر کسی نے کسی کو ثقہ قراردیاہے تواس کے بعد اجتہادی مسئلہ پر اگراس نے اس پر تنقید کی تویہ اس کے سابقہ قول کے منافی ہوگیا)یہ سعادت بس زبیرعلی زئی کے ہی مقدر میں لکھی تھی تو کوئی دوسر اکیسے اس میں شریک ہوسکتاہے۔