• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

النصر الربانی فی ترجمہ محمد بن الحسن الشیبانی

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
زبیر علی لسان المیزان کے حوالہ سے ناقل ہے :
شروع میں محمد بن الحسن جہم کے مذہب پر چلتاتھا
اس جملہ کا واضح مفہوم مخالف یہی ہے کہ آخر میں وہ جہم کے مذہب پر نہیں رہے، لیکن یہاں پر زبیر علی زئی کو یہ مفہوم مخالف مراد لینایاد نہیں رہاجیساکہ اس نے قویافی مالک میں لیاتھاکہ صرف امام مالک سے روایت میں قوی ہیں،اورنہ ہی زبیر علی زئی یہ یاد رہاکہ وہ بریکٹ میں اس کی کچھ مزید وضاحت کریں۔

ہمیں نہیں معلوم کہ جہمیت کا الزام کن دلائل کی بنیاد پر امام احمد نے لگایاہے،ہمارے سامنے امام طحاوی کی کتاب عقیدۃ الطحاوی ہے جس میں ائمہ احناف امام ابوحنیفہ ،امام ابویوسف اورامام محمد کا عقیدہ بیان کیاگیاہے،اس میں اہل سنت کے اجماعی عقیدہ کا بیان ہے،اس سے کچھ بھی انحراف نہیں، بس صرف ایک جگہ وہی لفظی اختلاف ہے کہ اعمال جزوایمان ہیں یانہیں،اس کے بعد اب چاہے کوئی بھی ائمہ احناف کے عقائد کے تعلق سے کچھ بھی کہے، اس کی بات مسموع نہیں ہوگی ،کیونکہ یہ کتاب ائمہ احناف کے عقائد میں ایک مضبوط دستاویز ہے اور ابتداسے اہل علم اس کی شرح وتوضیح کرتے چلے آرہے ہیں،بسااوقات ایسابھی ہوتاہے کہ انسان مخالف کی بات پر پوری توجہ نہیں دیتا اور اپنے خیال میں کچھ ایساسمجھ لیتاہے کہ فلاں نے غلط بات کہی ہے، جیسے امام ذہلی نے امام بخاری پرخلق قرآن کے عقیدہ کا الزام لگایا،اگرہمارے پاس امام بخاری کے اپنے الفاظ نہ ہوتے تو ہمارے سامنے کتنی مشکل ہوتی،چونکہ امام احمد بن حنبل سے جہمیت کامحض الزام منقول ہے، اس کی دلیل یاکس بنیادوہ ان کو جہمی قراردے رہے ہیں،اس بارے میں مکمل خاموشی ہے ،لہذا مبہم کسی کے عقیدہ کے بارے میں مبہم جرح قطعاًقابل اعتماد نہیں ،بالخصوص جب کہ ایک مشہور معروف اور باسند کتاب میں امام محمد کا عقیدہ اس سے الگ بتایاگیاہو۔

زبیر علی لسان المیزان کے حوالہ سے ناقل ہے :
:
وقال حنبل بن إسحاق عن أحمد كان أبو يوسف مضعفا في الحديث وأما محمد بن الحسن وشيخه فكانا مخالفين للأثر
اوراس کا ترجمہ یہ کرتاہے:
حنبل بن اسحاق نے(امام)احمد(بن حنبل)سے نقل کیاکہ:ابویوسف (تو)حدیث میں ضعیف تھامگر محمد بن الحسن اوراس کا استاد (اس کے ساتھ)حدیث وآثار کے مخالف تھے۔


ہم نے بیشتر غیرمقلدوں (بشمول ان کے اکابرعلماء)کو شکایت کرتے ہوئے پایاہے کہ دائرۃ المعارف کی کتابوں میں احناف نے جان بوجھ کر خیانت اورتصحیف وتحریف کی ہے،تعجب ہے کہ اسی دائرۃ المعارف حیدرآباد سے شائع شدہ کتاب لسان المیزان میں غلط چھپےلفظ’’مضعفا‘‘کی بنیاد پر لکھ دیاکہ ابویوسف توحدیث میں ضعیف تھا،اس میں غیرمقلدوں کی نگاہ اس جانب نہیں گئی کہ دیگر کتابوں میں تحقیق کریں کہ صحیح لفظ کیاہےمضعفاًہے یامنصفاًہے،رفع یدین اور تحت السرۃ میں بال کی کھال نکال کر اور کئی مخطوطہ میں تحت السرۃ کی وضاحت ہونے کے باوجود اس کو تحریف کہیں لیکن دائرۃ المعارف میں اگر غلطی سے منصفاًکے بجائے مضعفاًچھپ گیا تو وہ علم وتحقیق کا شاہکار اور اس کے آگے تحقیق کا راستہ بندہوجائے۔

حالانکہ ایک معمولی طالب علم بھی اگراس جملے کی صحت پر تھوڑا وقت خرچ کرتاتواس پر واضح ہوجاتاکہ یہاں پر مضعفاًغلط ہے اورمنصفاًصحیح ہےاوراس کی وجہ یہ ہے کہ امام احمد بن حنبل کے واسطہ سے ہی یہ جملہ مختلف اورمتعدد کتابوں میں منقول ہے،لیکن ہرجگہ منصفاًہی نقل ہواہے۔

رجال اور سوانح کی جن کتابوں میں منصفاًنقل ہواہے،اس کی ایک سرسری فہرست دیکھئے تاریخ بغداد ۱۶؍۳۷۲،کتور بشارعواد،تاریخ بغداد ۱۴؍۲۶۱،تحقیق مصطفی عبدالقادر عطا،تاریخ الاسلام للذہبی۴؍۹۵۴،سیر اعلام النبلاء۷؍۴۷۰،مناقب الامام ابی حنیفۃ وصاحبیہ للذہبی ص:۶۴،رفع الاصر عن قضاۃ مصر۱؍۴۶۹،لسان المیزان ۷؍۶۰،تحقیق شیخ عبدالفتاح ابوغدہ،مغانی الاخیار فی شرح معانی الآثار،۳؍۵۴۱،طبقات الحفاظ للسیوطی۱؍۱۶۱،موسوعۃ اقوال الامام احمد ؒ۳؍۲۵۳،۴؍۱۹،۴؍۱۶۵،الجامع لعلوم الامام احمدؒ۱۹؍۵۶۰،طبقات علماء الحدیث لابن عبدالھادی۱؍۴۴۲)

ان تمام کتابوں میں مضعفاکے بجائے منصفانقل ہواہے،لیکن زبیر علی زئی ہیں کہ ماننے کو تیار نہیں،اوردائرۃ المعارف سے چھپے کتاب پر ایمان بالغیب لانے کو تیار ،لیکن اس کو چھوڑ کر کسی اور بحث میں دائرۃ المعارف کوتحریف وتصحیف کا ملزم گرداننے میں ذرا بھی باک نہیں ۔

موصوف کاشترغمزہ ملاحظہ ہو،وہ یہاں النصرالربانی میں فرماتے ہیں:

تاریخ بغداد میں غلطی سے ’’مضعفا‘‘کے بجائے ’’منصفاً‘‘چھپ گیاہے
جب کہ موصوف امام ابویوسف پر لکھے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
تنبیہ:امام احمد کا ایک قول ہے وکان منصفافی الحدیث
اور وہ (ابویوسف)حدیث میں منصف(درمیانہ )تھا(تاریخ بغداد ۱۴؍۲۶۰ وسندہ صحیح)آگے مزید گلفشانی کرتے ہوئے کہتے ہیں :
یعنی وہ روایت حدیث میں آدھے راستہ پر تھا،ایک دوسری روایت میں ہے کہ وکان ابویوسف متصفا فی الحدیث(تاریخ بغداد ۲؍۱۷۹،وسندہ صحیح) حافظ ابن حجر نے اسے کان ابویوسف مضعفافی الحدیث کے الفاظ سے نقل کیاہے(لسان المیزان ۵؍۱۲۲)

سوال یہ ہے کہ وہ بات کہ جس کا سارے فسانے میں کہیں ذکر نہ تھا یعنی
مضعفاکا ذکر متقدمین کی کتابوں میں کہیں بھی موجود نہیں،اس کا ذکر ابن حجر کے یہاں کیسے آگیا، پھر وہی ابن حجر رفع الاصر میں منصفا نقل کرتے ہیں ،اور بجائے اس کے کہ مضعفا کو تصحیف قراردیاجائے، موصوف نے تاریخ بغداد کو ہی سابقہ ارشاد میں غلط ٹھہرادیاتھااوردوسرے مقام پر یہ تو مان لیاکہ تاریخ بغداد میں منصفا اورمتصفاکے الفاظ ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ دائرۃ المعارف سے شائع مضعفاکے الفاظ سے بھی چمٹے رہنا ضروری سمجھ رکھاہے۔کوئی غیرمقلد اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اور خدا کو گواہ بناکر کہے کہ اگر ائمہ احناف کی تعریف میں کوئی بات کسی ایک کتاب میں ہوتی اور اسی کی نقل دیگر کتابوں میں اس کے برخلاف ہوتی توکیا زبیر علی زئی اسے ٹھنڈے پیٹ برداشت کرلیتا،یاپھر تحریف اور تصحیف کااعلان بالجہر کرچکاہوتا۔

دوسری بات یہ عرض کرنی ہے کہ زبیر علی زئی بسااوقات فرماتے ہیں کہ اوثق اور اقدم کی بات معتبر ہوگی چنانچہ جبحافظ سیوطی نے امام ابوحنیفہ کی صحابہ کرام کی رویت کیلئے دارقطنی کا حمزہ سہمی کے ذریعہ یہ قول نقل کیا:

لم یلق ابوحنیفۃ احدا من الصحابۃ الاانہ رأی انساًبعینہ ولم یسمع منہ (تبییض الصحیفۃ ۱۳)

اس پرزبیر علی زئی نے سوالات السہمی اورتاریخ بغداد سے امام دارقطنی کا قول نقل کیاکہ نہ رویت ثابت ہے اورنہ روایت ثابت ہے،اوراس قول کو محرف قراردیتے ہوئے لکھا:
یہ تحریف شدہ متن اصل مستند کتابوں کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے مردود ہے (الحدیث ۱۷؍۱۹)
سوال یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کے صحابہ کرام کی رویت کا معاملہ پیش آیاتو متقدم کتاب کو اصل قراردے کر متاخر کتاب کا محرف قراردیاگیالیکن جب معاملہ مضعفااورمنصفاکا ہوا تویہ سارااصول طاق پر دھرارہ گیا اور تاریخ بغداد میں ہی غلطی سے منصفا چھپ گیا،اس غیرمقلدانہ اور سلفیانہ تحقیق اور ایمانداری پر کیوں نہ قربان جایاجائے،اس علمی خیانت کے باوجود یہ حضرات اتنے زور وشور سے دوسروں کو بے ایمانی کے طعنے دیتے ہیں کہ اسے دیکھ کر وہی مثل یادآجاتی ہے کہ چورمچائے شور ۔

واضح رہے کہ دارقطنی کا یہ قول کہ رویت ثابت ہے اور روایت ثابت نہیں ،ابن عراق کنانی نے حافظ ابن حجر سے بھی نقل کیاہے جیساکہ تنزیہ الشریعۃ میں موجود ہے ۔
وَقَالَ الْحَافِظ ابْن حجر فِي اللِّسَان: وَقد وَقع لنا هَذَا الحَدِيث من وَجه آخر أخرجه ابْن النجار وَهُوَ بَاطِل أَيْضا فَذكره، ثمَّ قَالَ: وَقَالَ حَمْزَة السَّهْمِي: سَمِعت الدَّارَقُطْنِيّ يَقُول: لم يلق أَبُو حنيفَة أحدا من الصَّحَابَة، إِنَّمَا رأى أنسا بِعَيْنِه وَلم يسمع مِنْهُ.
(تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة1/272)
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ تین حفاظ حدیث نے دارقطنی سے یہی نقل کیاہے کہ امام ابوحنیفہ کی حضرت انس سے رویت ثابت ہے روایت ثابت نہیں ہے ؛لیکن اس کے باوجود یہ قول محرف ہے کیونکہ ابن جوزی اور سوالات سہمی میں اس کے برخلاف ہے ،جب کہ مضعفا کا قول تاریخ بغداد کے محض دائرۃ المعارف والے نسخہ میں ہے ،جب کہ لسان المیزان کی ہی دیگر اشاعتوں مین اس کو منصفاًلکھاگیاہے اور تاریخ بغداد ومابعد کی تمام کتابوں میں منصفاہی ہے،اس کے باوجود یہ قول محرف نہیں ہے۔
ایسے برخود غلط لوگ جب علم دین کی پیشوائی کریں گے تو ان کے شاگرد اورعقیدت کیش دین وایمان پر جوبھی نشترنہ چلائیں وہ کم ہے۔


إذا كان ربُّ البيت بالطبل ضارباً
فلا تلُمِ الأطفالَ فيه على الرقص.
نوٹ :واضح رہے کہ موجودہ لسان المیزان کے نسخوں میں دارقطنی کا قول محض عدم ملاقات تک ہے رویت کی بات اس میں نہیں ہے۔
وقال حمزة السهمي: سمعت الدارقطني يقول: لم يلق أبو حنيفة أحدا من الصحابة.(۱؍۶۱۶)

ممکن ہے کہ ابن عراق کنانی کے پاس لسان المیزان کا جو نسخہ ہو ،اس میں پوری بات ہو۔

ترجمہ کی گلفشانی:
زبیر علی زئی نے واقع میں عربی سے ارد وترجمہ میں اجتہادواستنباط کی دنیا آباد کی ہے،ہرقدم پر ان کا ترجمہ نظروفکر کو اپنی جانب متوجہ کرتاہے اور نئے نئے جلوے دکھاتاہے،اب یہی دیکھئے کہ
منصفا فی الحدیث کا انہوں نے کتنا شاندار ترجمہ کیاہے۔
اور وہ (ابویوسف)حدیث میں منصف(درمیانہ )تھا(تاریخ بغداد ۱۴؍۲۶۰ وسندہ صحیح)یعنی وہ روایت حدیث میں آدھے راستہ پر تھا۔
یہ اتنا شاندار ترجمہ ہے کہ ان کے عقیدت مندوں کو اپنے گھر میں فریم کراکر رکھ لیناچاہئے،چونکہ ہم عربی لغت میں اجتہاد کے منصب پر فائز نہیں ہیں ،یہ مقام تو صرف زبیر علی زئی جیسے لوگوں کو ہی حاصل ہے ،کہ وہ اپنی خداد طبعیت سے نکتہ آفرینی کرتے ہوئے عربی الفاظ کے نت نئے معنی تراشتے رہتے ہیں،جن کا عربوں اوراہل زبان حضرات کو بھی خیال تک نہیں گزرتا،کاش کوئی غیرمقلد طالب علم ہمت کرکے ان کی عربی دانی اور عربی الفاظ میں نئے معانی کےا جتہاد پر پی ایچ ڈی یادکتوراہ کرےتاکہ عربوں کے سامنے زبیر علی زئی کی خدمات نمایاں ہوکر سامنے آسکیں ،یہ ہمت خضرحیات صاحب بھی کرسکتے ہیں(ابتسامہ)


ہم نے کتابوں میں تلاش کیاتو ہمیں کہیں منصفا فی البحث کا جملہ ملا،کہیں منصفا فی العلم کا،کہیں منصفا فی المذاکرۃ کا ،کہیں منصفا فی الرعیۃ کا وغیرہ ذلک،اب اگر زبیر علی زئی والا ترجمہ کیاجائے تو پھر اہل زبان اگر غش کھاکرنہ گریں توکیاکریں ۔
تیراپتہ نہ پائیں تو ناچار کیاکریں
مُنصفاکا ترجمہ درمیان اور آدھے راستہ میں کرنے کی غلطی کی وجہ یہ ہے کہ زبیر علی زئی نے کہیں کسی عربی لغت میں جو بغیر اعراب کے ہوگی اس میں شاید دیکھ لیاہوگاکہ منصف کا ترجمہ نصف طریق کاہے ،جب کہ وہ تھوڑی تلاش اور تحقیق کرتے –جس تحقیق کا ان کو دعویٰ ہے-تومعلوم ہوتاکہ جس لفظ کا ترجمہ نصف طریق ہے وہ مصنف م کے پیش کے ساتھ نہیں بلکہ منصف م کے زبر کے ساتھ ہے۔

الْمَخْرَفُ: الْبُستانُ. والْمَخْرَفُ: الْطَّريقُ. ومَزْحَفُ الْحَيَّةِ: مَدَبُّها. والْمَنْصَفُ: نِصْفُ الْطَّريقِ
(مجعم دیوان الادب1/282)
مزید دیکھئے
والنَّصفة: الْخُدّام، واحدهم ناصِف. والمَنْصفُ من الطَّرِيق وَمن النَّهار وَمن كل شَيْء وسَطُه.
(تہذیب اللغۃ12/143)
وَمِنْهُ الْحَدِيثُ «حَتَّى إِذَا كَانَ بِالْمَنْصَفِ» أَيِ الْمَوْضِعِ الوَسَط بَيْنَ الموضِعين.
(النهاية في غريب الحديث والأثر5/66)
کیااب بھی زبیر علی زئی کی عربی زبان وادب کی کم مائیگی کسی مزید دلیل کی محتاج ہے۔فبای حدیث بعدہ یومنون
 
Last edited:

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
خالفت حدیث کےا لزام کی حقیقت
امام احمد بن حنبلؓ فرماتے ہیں:

فأما أبو حنيفة ومحمد بن الحسن فكانا مخالفين للأثر
اس کا مفاد یہ ہے کہ امام احمد بن حنبل امام محمد پر حدیث کی مخالفت کا الزام لگارہے ہیں، اس کے جواب میں ہم کئی نکات پر مختصراًگفتگو کریں گے۔
امام احمد بن حنبل کی زندگی کئی ادوار پر مشتمل ہے،ایک دور وہ تھا جب وہ ائمہ احناف سے بڑے خوشگوار تعلق رکھتے تھے، چنانچہ خود ہی اعتراف کرتے ہیں کہ جب میں نے علم حدیث کی تحصیل کی توابتداء کی تومیرے پہلے استاذ امام ابویوسف تھے،دوسرے مقام پر اعتراف کرتے ہیں کہ میں نے فقہ کے باریک مسائل امام محمد بن الحسن کی کتابوں سے سیکھے،تیسری جگہ اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے امام ابویوسف اور امام محمد سے جو تحریری طورپر استفادہ کیاہے وہ تین اچھے خاصےجھولوں کے برابر ہے۔(یہ ساری روایتیں تاریخ بغداد میں ہیں اور سند بھی ان سب سب کی ٹھیک ٹھاک ہے۔)
خلق قرآن کے مسئلہ کے بعد ان کی رائے میں بہت زیادہ تبدیلی آگئی ،نہ صرف ائمہ احناف کی جانب سےوہ کبیدہ خاطر ہوئے ،بلکہ جان کے خوف سے جن لوگوں نے خلق قرآن کااقرار کیاتھامثلاًعلی بن المدینی اور یحیی بن معین وغیرہ ان جیسے جبال علم حدیث تک سے روایت ترک کردی تھی،حالانکہ اسلام کا یہ موٹا قاعدہ سبھی جانتے ہیں کہ جان کے خوف سےکلمہ کفر کا ارتکاب جائز ہے،اس کے بعد ان کی یہ شدت دن بدن بڑھتی گئی ،حتی کہ وہ تصنیف وتالیف تک کو دین مخالف اقدام سمجھنے لگے تھے ،اورایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتے تھے جن کا مشغلہ تصنیف وتالیف کا ہو۔
ائمہ احناف یااہل الرائے سے ان کی کبیدہ خاطری کاہی یہ نمونہ ہے کہ وہ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ امام ابویوسف صدوق ہیں ؛لیکن اس کے باوجود ان سے روایت حدیث کے روادار نہیں ہوتے،یہ ان کی کبیدہ خاطری ہی ہے کہ وہ ثقاہت وعدم ثقاہت کی بابت کچھ کہے بغیر یہ فیصلہ سنادیتے ہیں کہ جو کوئی اہل الرائے میں سے ہو اس سے روایت مت کرو ،حالانکہ اہل الرائے میں سے ہونا کوئی جرح نہیں ہے،امام احمد بن حنبل کی اسی کبیدہ خاطری کو امام عبدالبر نے ذرا واضح انداز میں بیان کیاہےکہ اہل الرائے کے بارے میں ان کی رائے بری تھی اوروہ ان سے کسی بھی حال میں راضی ہونے والے نہیں تھے۔

وکان احمد بن حنبل رحمہ اللہ سیئ الرائی فی ابی حنیفۃ ،یذمہ ولایرضی عن شیئ من مذھبہ (الانتقاء،ص179)
امام محمد ائمہ مسلمین میں سے ہیں، اس کا اعتراف ابن تیمیہ نے متعدد مرتبہ کیاہے اوریہ بھی کہاہے کہ ائمہ مسلمین کے بارے میں یہ گمان کہ وہ جان بوجھ کر حدیث کی مخالفت کرتے ہیں یا تو نراگمان ہے یاپھر نفس پرستی کی بنیاد پر یہ بات کہی گئی ہے۔
بسااوقات فہم حدیث میں بھی اختلاف نمودار ہوتاہے،امام احمد بن حنبل کا یہ قول کہ احادیث وآثار کی مخالفت کرتے تھے،اس کی تشریح حافظ ذہبی یہ کرتے ہیں کہ قرآن کے عمومات کے مقابلہ میں احادیث (آحاد)کوترک کردیاکرتے تھے۔
موطاامام محمد اورالحجۃ علی اہل المدینۃ کا مطالعہ کرنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ امام محمد احادیث وآثار کو کتنی اہمیت اورتوجہ دیتے ہیں ،بسااوقات کسی بحث میں وہ فرماتے ہیں کہ قیاس کا تقاضایہ تھاکہ لیکن ہم نے اثر کی وجہ سے اس قیاس کو چھوڑدیاہے،بسااوقات اہل مدینہ پر تنقید کرتے ہیں کہ وہ اثر کے ہوتے ہوئے قیاس کی بنیاد پر کوئی رائے اختیار کررہے ہیں۔پہلے میرا ارادہ تھاکہ اس بحث کو خاصا طویل کروں ،لیکن طوالت مخل بھی ہے اورممل بھی،اسی لئے میں ایک ربط دے کر بات ختم کرتاہوں، جس میں فہم حدیث میں اختلاف کے سلسلہ میں اصولی باتیں کی گئی ہیں ۔

علاوہ ازیں بعض دیگر علماء وفقہاء جیسے امام مالک وغیرہ پر بھی حدیث کی مخالفت کا الزام عائد ہواہے،لیکن اکثر وبیشتر یہ حدیث کی مخالفت نہیں بلکہ حدیث کے سلسلہ میں نقطۂ نظرکااختلاف ہواکرتاہے۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
پہلے میرا ارادہ تھاکہ مخالفت حدیث کی ایک مفصل اورجامع بحث کروں ،لیکن طوالت چونکہ مخل بھی ہوتی ہے اورممل بھی،لہذا اس سے گریز کرتے ہوئے کچھ اہم باتوں کی جانب محض اشارہ ہی کردیا،اگرموقع ملاتوانشاء اللہ اس موضع پرایک مفصل اورجامع مقالہ جلد ہی پیش کیاجائے گا،جس میں فہم حدیث میں اختلاف کے اسباب ووجوہ پر تفصیل سے بحث ہوگی۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
امام محمد پر کذب کی جرح اور اس کا جائزہ

امام محمد بن الحسن کے سلسلے میں بعض افراد کا گمان یہ ہے کہ بعض محدثین نے ان پر کذب کی جرح کی ہے،مناسب ہے کہ ہم اس کا تفصیلی جائزہ لیں اوربتائیں یہ جرح کہاں تک صحیح ہے۔

یہ بات دھیان میں رکھنے کی ہے کہ کسی قائل کا کوئی بات الگ بات ہے اوراس بات کا صحیح ہونا دوسری بات ہے،جیسے قرآن پاک میں گمراہ افراد کے اقوال نقل ہوئے ہیں ،یہ بات تو درست ہے کہ اس قول کا قائل فلاں شخص ہے اوراس میں کوئی شک نہیں ،مگر وہ قول بھی نفس الامر میں درست ہے، اس کا قائل کوئی مسلمان نہیں ہوگا۔ مثلا نمرود اورفرعون نے خدائی کا دعویٰ کیا،ہرمسلمان جانتاہے اورایمان رکھتاہے کہ نمرود اورفرعون نے خدائی کا دعویٰ کیا ،لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی جانتااورمانتاہے کہ ان کی بات کفر کی سب سے خسیس اورگھٹیا بات ہے(مجھے ڈر ہے کہ کہیں بعض افرادیہ نہ سمجھنے لگیں کہ میں محدثین کرام کا تقابل ان گمراہوں سے کررہاہوں)اسلام میں آئیے تو صحابہ کرام میں سے بعض نے بعض پر کذب کا الزام لگایاہے،جیسے عبادہ بن صامت ؓ نے ابوسلمہ انصاری پر کذب کی بات کہی،حضرت ابن عباس نے بھی ایک صحابی کے سلسلے میں یہی بات کہی،اس کے علاوہ مزید متعدد صحابہ کے بارے میں ایسی بات ملتی ہے ،اس سے نیچے آئیں تو اکابرتابعین نے ایک دوسرے پر شدید جرح کی ہے، اما م مالک نے توابن اسحاق کو دجال من الدجاجلۃ کی انوکھی عربی ترکیب سے نوازدیا،حضرت سعید بن المیسب عکرمہ کی مثال دیتے ہوئے ایک شخص کو کہتے ہیں تم مجھ پر اس طرح جھوٹ نہ بولوجیساکہ عکرمہ حضرت ابن عباس پر جھوٹ بولتے ہیں۔
یہ اور اس طرح کی تمام مثالیں محض یہ بتانے کیلئے ہیں کہ کسی قول کا قائل ہونا اوراس قائل تک اس قول کی سند صحیح ہونا الگ مسئلہ ہے اوراس قول کا نفس الامر میں درست ہونا دوسری بات ہے،لہذا اگر کسی نے امام محمد پر کذب کی جرح کی بھی ہے تو اس کی سند صحیح ہونی الگ بات ہے اوراس قول کا درست ہونا علیحدہ مسئلہ ہے،بعض لوگ ان دونوں کو آپس میں خلط ملط کردیتے ہیں۔
زبیر علی زئی نے لسان المیزان کے حوالہ سے اورعقیلی کے واسطہ سے امام ابن معین کا قول نقل کیاہے ۔

وذكره العقيلي في الضعفاء وقال: حدثنا أحمد بن محمد بن صدقة سمعت العباس الدوري يقول: سمعت يحيى بن مَعِين يقول: جهمي كذاب.(لسان المیزان7/60)
میں نے سابق میں بھی یہ بات کہی ہے اور اب پھر دوہرارہاہوں کہ زبیر علی زئی تحقیق کا نام ضرور لیتے ہیں، لیکن تحقیق سے ان کادور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے،اسی بحث میں دیکھئے،لسان المیزان کے حوالہ سے اور عقیلی کے واسطہ سے ابن معین م کا قول نقل کرتے ہیں،ابن معین سے اس قول کے راوی محمد بن عباس ہیں، لسان المیزان کے شاملہ والے نسخہ میں اس کو عباس بن محمد الدوری لکھاگیاہے،لیکن ہمارے پاس مکتبہ شاملہ کے الضعفاء الکبیر والے نسخہ میں اس کو عباس بن محمد بصری لکھاگیاہے، جب ہم نے الضعفاء الکبیر سے رجوع کیا تو وہاں مزید ابتری پائی کہ الضعفاء الکبیر جوقلعجی کی تحقیق سے شائع ہواہے،اس میں عباس بن محمد البصری ہے،دوسرا مازن بن محمد السرساوی کی تحقیق سے شائع شدہ الضعفاء الکبیر میں الدوری ہے،جب ہم نے تاریخ بغداد کی جانب رجوع کیاتو وہاں انہوں نے ابن معین کے واسطہ سے بہت سی روایتیں نقل کی ہیں ،لیکن یہ عباس الدوری کی روایت منقول نہیں ہے، اسی طرح ہم نے الکامل فی ضعفاء الرجال کی جانب رجوع کیا توپایاکہ وہاں بھی امام محمد کے بارے میں ابن معین کا قول عباس الدوری کے واسطہ سے منقول نہیں ہے، آخر میں ہم نے عباس الدوری کی اپنی تصنیف تاریخ ابن معین بروایۃ الدوری کی جانب رجوع کیاتوپتہ چلاکہ وہاں بھی کذب والی جرح منقول نہیں ہے۔

اس طرح سے یہ نقل تھوڑی مشتبہ ہوجاتی ہےاورمزید تحقیق کی ضرورت باقی رہتی ہے کیونکہ جہاں ایک جانب لسان المیزان میں الدوری کالفظ بتاتاہے کہ یہاں عباس بن محمد سے الدوری ہی مراد ہوناچاہئے، وہیں تاریخ ابن معین بروایۃ الدوری میں اس روایت کی عدم موجودگی بڑا سوالیہ نشان بناتی ہے۔

اب تک سوال یہ رہ جاتاہے کہ یہ عباس بن محمد البصری کون ہیں اورکیا ان سے یحیی بن معین کا سماع ممکن ہے توہمیں پتہ چلاکہ ممکن نہیں ہے کیونکہ ابن معین کی پیدائش 158ہجری اور وفات 233ہجری میں ہوئی ہے،جب کہ عباس بن محمد البصری کاانتقال 306میں ہوا ہے ،اگرہم مان کر چلیں کہ جس وقت انہوں نے یحیی بن معین سے یہ بات سنی ،اس وقت ان کی عمر پچیس برس کی ہوگی تواس الحاظ سے ان کی عمر سوسال سے بھی زائد کی ہوتی ہے جو عادتاًنہیں ہوتی ،امکان سماع کو اگرچھوڑ دیاجائے تو پھر یہ صاحب ثقہ ہیں اور ابن یونس مصری اور دیگر نے ان کی تعریف کی ہے۔

اس سند میں ایک پیچ اوربھی ہے،کہ عباس بن محمد سے روایت کرنے والے احمد بن محمد بن صدقہ ہیں ،لیکن اس طبقہ میں احمد بن محمد بن صدقہ نام کے دوراوی ہیں ،ایک تو
أحمد بن محمد بن عبد الله بن صدقة أبو بكر الحافظ البغداذي ہیں اوردوسرے احمد بن محمد بن صدقہ ہیں،اگریہ کہاجائے کہ موخرالذکر کے بارے میں مسلمہ بن قاسم نے صراحت کی ہے کہ عقیلی ان سے روایت کرتے ہیں تواسی کے ساتھ یہ بھی واضح رہناچاہئے کہ ان کی توثیق بھی صرف مسلمہ بن قاسم سے ہی مروی ہے اورمسلمہ بن قاسم کو زبیر علی زئی ضعیف مانتے ہیں۔(دیکھئے : الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة2/42)
نوٹ:واضح رہے کہ الفرائد على مجمع الزوائد «ترجمة الرواة الذين لم يعرفهم الحافظ الهيثمي کے مولف نے امام ہیثمی کے احمد بن محمد بن صدقہ کو نہ جاننے پر احمد بن محمد بن عبداللہ بن صدقہ کاذکرکرکے بتایاہے کہ یہ فلاں راوی ہیں،اوراس کا ذکر فلاں فلاں کتابوں میں ہے اورفلاں فلاں نے اس کی تصدیق کی ہے، جب کہ یہ واضح رہے کہ حافظ قاسم بن قطلوبغا نے ان دونوں کو الگ الگ قراردیاہے توجب تککسی متقدم حافظ حدیث کے قول سےیہ ثابت نہ ہو کہ دونوں شخصیتں الگ الگ ہیں ،تب تک دونوں کو ایک تسلیم نہیں کیاجاسکتا۔
اب اس سند میں دوپیج ہیں، اولاًاحمد بن محمد بن صدقہ کی توثیق تلاش کی جائے،مسلمہ بن قاسم کے علاوہ سے،اوردوسرے یہ کہ احمد بن محمد بن صدقہ جن سے روایت کررہے ہیں، وہ کون ہیں،عباس بن محمد بصری ہیں یادوری ہیں۔اگر بصری ہیں تو ان کا سماع ابن معین سے ثبوت کا محتاج ہے،اوراگر دوری ہیں تو تاریخ ابن معین بروایۃ الدوری میں کذب کے جرح کاکوئی نام ونشان نہیں ہے،نہ صرف یہ بلکہ تاریخ ابن معین کے متعدد روات جیسے ابن محرز،دارمی، ابن ابی مریم ،دوری وغیرہ میں سے کسی نے بھی ابن معین سےامام محمد بن الحسن پر کذب کی جرح نقل نہیں کی ہے۔
ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ابن معین سے محمد بن الحسن نام کےدورایوں پر کذب کی جرح منقول ہے ایک محمد بن الحسن بن ابویزید ہیں اوردوسرے محمد بن الحسن بن زبالہ ہیں،کہیں ایساتونہیں کہ غلط فہمی سے یاکسی اوروجہ سے یہ جرح محمدبن الحسن الشیبانی پر منتقل ہوگئی ہواورتصنیف وتالیف کی دنیا میں اس طرح کی غلطی نئی نہیں ہے۔
تیسراپہلو یہ ہے کہ ابن ابی حاتم کی الجرح والتعدیل ہو یاپھر ابن عدی کی الکامل فی ضعفاء الرجال ،کذب کی جرح ان دونوں نے بھی نقل نہیں کی ہے، اگر کذب کی جرح واقعتاًابن معین سے ثابت ہوتی تویہ دونوں امام محمد کے ہمدرد نہیں ہیں،کہ جنہوں نے ازراہ محبت کذب کی جرح نقل نہ کی ہو۔

امام محمد پر کذب کی ایک جرح اسد بن عمرو نے کی ہے، لیکن اس جرح کو خود زبیر علی زئی نے ضعیف قراردیاہے ،اورخود اسد بن عمرو ضعیف راوی ہیں لہذا ان کی جرح معتبر نہیں ہے۔

امام محمد پر کذب کی ایک جرح احمد بن حنبل کی ہے، ہم نے امام احمد بن حنبل کے تعلق سے کتب رجال وتراجم میں چھان بین کی تو پتہ چلاکہ ان سے کذب کی براہ راست کوئی جرح منقول نہیں ہے بلکہ یہ دارقطنی کا قول ہے کہ ابن معین نے اور احمد بن حنبل نے ان پر کذب کی جرح کی ہے لیکن وہ میرے نزدیک ترک کے مستحق نہیں ہیں۔

أَخْبَرَنَا أحمد بن محمد بن غالب، قَالَ: سألت أبا الحسن الدارقطني، عن محمد بن الحسن صاحب أبي حنيفة، فقال: قَالَ يحيى بن معين كذاب، وَقَالَ فيه أحمد، يعني ابن حنبل، نحو هذا.قَالَ أبو الحسن: وعندي لا يستحق الترك.(تاریخ بغداد2/561)
احمد بن حنبل اور دارقطنی کے مابین بہت فاصلہ ہے ،اوریہ قول بغیر سند کے مروی ہے،ہمیں نہیں معلوم کہ دارقطنی تک امام احمد بن حنبل کایہ قول کس واسطے اورذریعہ سے پہنچا ،لہذا اس قول پر اعتماد نہیں کیاجاسکتا۔
 
Last edited:

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
عموم قرآن،خبر واحد اوراحناف کا موقف
ماقبل میں امام احمد بن حنبل کا یہ قول مذکور ہواہے:
وقال حنبل: سمعتُ أحمد بن حنبل يقول: كان أبو يوسف منصفًا في الحديث، وأما محمد فكان مخالفًا للأثر، يعني يخالف الأحاديث، ويأخذ بعموم القرآن.(
اوراس کی تشریح ذہبی کے حوالہ سے بیان کی گئی ہے کہ وہ عموم قرآن پر عمل کرتے تھے اور حدیث کو ترک کردیتے تھے(تاریخ الاسلام 4/956)
حافظ ذہبی کا یہ جملہ جہاں مخالفت حدیث کی توضیح کررہاہے ،وہیں ایک غلط فہمی بھی پیداکررہاہے،امام احمد کے اس الزام کا جواب کہ امام ابوحنیفہ اورامام محمد ’’اثر‘‘کے مخالف تھے،ذہبی نے یہ کہہ کردیاکہ وہ عموم قرآن کو لیتے تھے اور حدیث کو ترک کردیتے تھے،یہ احناف کے موقف کی پوری وضاحت نہیں ہے۔

احناف کا اصول یہ ہے کہ وہ عموم قرآن کو مقدم ضرور رکھتے ہیں لیکن خبر واحد کو بالکلیہ نظرانداز نہیں کرتے ،بلکہ اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں ،جتنی کہ دیگرائمہ کرام دیتے ہیں، مناسب ہے کہ یہاں پر اس کی کچھ وضاحت کردی جائے تاکہ کسی غلط فہمی کی گنجائش نہ رہے۔

احناف کاموقف یہ ہے کہ قرآن کا عموم مقدم رہےگااورخبرواحد کو اس کی تابعیت میں قبول کیاجائے گا،حدیث کو رد یانظرانداز نہیں کیاجائے گااورنہ ہی خبر واحد کو قرآن کے جتنی اہمیت دی جائے گی،مثلاقرآن میں حکم آیاہے ،وارکعوا ،رکوع کرو،آیت کریمہ سے رکوع کا فرض ہونا ثابت ہوا، ایک حدیث میں منقول ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نے ایک شخص کو جلدی جلدی نماز پڑھتے دیکھاتواسے نماز لوٹانے کا حکم دیا،اوراس کی نماز متعدد باردوہرائی گئی،آخر میں اللہ کے رسول نے اس کو تعدیل ارکان کی تعلیم دی کہ نماز کا ہررکن اطمینان سے اداہوناچاہئے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَدَخَلَ رَجُلٌ فَصَلَّى، ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَدَّ عليه السلام، وَقَالَ: "ارْجِعْ فَصَلِّ، فَإِنَّك لَمْ تُصَلِّ"، حَتَّى فَعَلَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مِرَارٍ، فَقَالَ الرَّجُلُ: وَاَلَّذِي بَعَثَك بِالْحَقِّ مَا أُحْسِنُ غَيْرَ هَذَا، فَعَلِّمْنِي، قَالَ: "إذَا قُمْت إلَى الصَّلَاةِ فَكَبِّرْ، ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ مَعَك مِنْ الْقُرْآنِ، ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَعْتَدِلَ قَائِمًا، ثُمَّ اُسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ اجْلِسْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا، ثُمَّ افْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلَاتِك كُلِّهَا"،(نصب الرایۃ1/378)

اس حدیث کی بناء پر بعض ائمہ کی رائے یہ ہے کہ نماز میں تعدیل ارکان بھی فرض ہے،جب کہ احنا ف کا موقف یہ ہے کہ رکوع نص قرآنی کی بنیاد پر فرض ہے اور رکوع جو نماز کا ایک رکن ہے اس میں تعدیل ارکان خبر واحد کی بنیاد پر واجب ہوگی ،کیاخبر واحد کی بنیاد پر کسی چیز کو واجب قراردینا حدیث کی مخالفت ہے یاحدیث پر عمل ہے؟اوریہی حال ہرچیز ہے،اسی بات کو اصول فقہ میں اس طرح بیان کیاگیاہے کہ خبر واحد کی بنیاد پر نص قرآنی پر اضافہ نسخ ہے اور خبر واحد سے نسخ جائز نہیں (مفہوم )واضح رہناچاہئے کہ احناف جس چیز کو نسخ سے تعبیر کررہے ہیں وہ حکم میں برابری کا درجہ ہے۔یعنی قرآن نے رکوع کرنا فرض قراردیا،رکوع کا مفہوم صرف جھکنے کے ہیں،اس میں تعدیل ارکان کو بھی اگر فرض قراردیاجائے تو اصول فقہ کے ماہرین کی زبان میں یہ محض جھکنے کے مفہوم پر اضافہ ہے اور یہ خبر واحد سے جائز نہیں ،یعنی قرآن کےع موم میں تخصیص یاتو نص قرآنی یاخبر متواتر یاخبر مشہور کی بناء پر ہوگا، خبر واحد سے عموم قرآن کی تخصیص درجہ فرضیت میں نہیں ہوگی، درجہ وجوب ،سنت،مستحب اورمندوب میں ہوسکتی ہے،خبر واحد سے عموم قرآن میں فرض کے درجہ میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی ،ہاں خبر واحد سے ثابت ہونے والے امر کو واجب قراردیاجاسکتاہے،مندوب قراردیاجاسکتاہے، مستحب قراردیاجاسکتاہے،یااس کے بالکل مخالف مکروہ تحریمی،تنزیہی وغیرذلک قراردیاجاسکتاہے۔

اس معاملے کی بہترین تشریح علامہ کشمیری رحمتہ اللہ علیہ نے کی ہے، لہذا ان کی یہ عبارت پیش نظررہے تواس معاملہ کو سمجھنا مزید آسان ہوجائے گا،علامہ انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں:

ان النص اذا جاء ساکتا عن شیء وجاء الخبر یثبتہ فھل تجوز تلک الزیادۃ وتزاد بہ علی القاطع ،فماذکرہ ساداتناالعظام رحمھہم اللہ تعالیٰ انہا لاتجوز لانہافی معنی النسخ وھو لایجوز من خبرالواحد ومن اجل تلک المقالٰۃ شنع علیھم بعض المحدثین ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔فانہم فہمواان امامنا الھمام لایبالی بخبرالنبی صلی اللہ علیہ وسلم مبالاۃ ولایہم بالاعمال ھما وھذاکماتری یبنی علی صورۃ التعبر فقط ،۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔فلذا غیرت عنوانہم من السلب الی الایجاب وکم من مواضع فعلت فیمامثل صنیعی،فی ھذاالمقام غیرت العنوان وبقیت المسالۃ علی حالھا فانی اجد کثیرا من اعتراضاتھم علینا من ھذاالقبیل فاذا غیرالعنوان اندفعت وطاحت وھذاکماقیل :والحق قد یعتریہ سوء تعبیر،وبعض الاعتراضات تبنی علی سوء الفہم وفرط التعصب، وھذاایضا من باب:
کم من عائب قولاصحیحا
وآفتہ من الفہم السقیم
فاقول مغیراکلامہم ان خبرالواحد تجوز منہ الزیادۃ لکن فی مرتبہ النقل فلایزاد بہ علی القاطع رکنا اوشرطا فماثبت من القاطع یکون رکنااوشرطاًوماثبت من الخبر یکون واجبا اورمستحبا حسب اقتضاء المقام ولیس ھذا من باب التغیرفی المسالۃ بل من باب التصرف فی التعبیر،فان الزیادۃ عندھم فی مرتبۃ الرکنیۃ والشرطیۃ ھی التی تسمی زیادۃ اصطلاحا وامامافی مرتبۃ الوجوب والاستحباب ،فلایسمونھازیادۃ فحینئذ معنی قولھم لاتجوزالزیادۃ ای فی مرتبۃ الرکنیۃ والشرطیہ ۔(مقدمہ فیض الباری جلد اول)


علامہ انورشاہ کشمیری کے کلام سے یہ بات واضح ہوگئی کہ احناف عموم قرآن کی وجہ سے خبر واحد کو مطلقارد نہیں کردیاکرتے ہیں بلکہ خبر واحد کی بناء پر حکم شرعی کا اثبات ہوتاہے ،خواہ وجوب کی سطح پر ہو، سنت کی سطح پر ہو، مندوب ومستحب کی سطح پر ہو، یانفس اباحت کی سطح پر ہو،اورحدیث پر عمل کرنے کیلئے ضروری نہیں ہے کہ اس سے ثابت ہونے والے حکم شرعی کو فرض قراردیاجائے،وجوب اورسنت اوراس سے نیچے کی سطح پر بھی عمل کرنا حدیث پر ہی عمل کرنا کہلائے گا۔

یہاں پر ایک اوربات کی جانب دھیان دلانا ضروری ہے کہ حدیث پر عمل کرنے میں ہرامام کا نقطہ نظرجدا ہوتا ہے،کسی امام کے نزدیک صحت سند کو ترجیح ہوتی ہے کہ جس حدیث کی سند سب سے زیادہ صحیح ہوگی، اس پرعمل کیاجائے گا، کسی کے یہاں عمل اہل مدینہ سے مطابقت شرط ہے،اگرخبرواحد عمل اہل مدینہ کے مطابق ہو تو عمل کیاجائے گا، ورنہ نہیں ،کسی کے نزدیک مختلف احادیث میں کوئی وجہ ترجیح نہیں، جس پر عمل کرلیاجائے، کافی ہے،بشرطیکہ وہ حدیث ثابت ہو،امام ابوحنیفہ کے نزدیک ان احادیث کو ترجیح ہوتی ہے ،جس میں کسی قاعدہ کلیہ کا بیان ملتاہو،حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی حدیث پر عمل کے بارے میں احناف کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اورامام اعظم نے اورآپ کے تابعین نے جو امر اختیار کیاہے وہ نہایت صاف ظاہر ہے اوربیان اس امر کا یہ ہے کہ جب ہم نے تحقیق کی توشریعت میں دوقسم کے احکام پائے ،ایک قسم قواعد کلیہ ہے اور وہ جامع ومانع ہے مثلاہمارا یہ قول ہے کہ’ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے گناہ میں ماخوذ نہ ہوگا‘اوریہ قول ہے کہ’ غنم بسبب غرم کے ہیں‘ اوریہ قول ہے کہ ’خراج بسبب ضمان کے ہے ‘اوریہ قول ہے کہ ’عتاق یعنی آزاد کرنا فسخ نہیں ہوسکتا‘ اوریہ قول ہے کہ ’بیع کامل ہوتاہے ایجاب وقبول سے‘ اوریہ قول ہے کہ’ گواہ مدعی کیلئے ہے اورقسم منکر پر ہوتی ہے‘ اورایسے ہی اوربھی بے شمار اقوال ہیں۔
اورایک قسم احکام کی وہ جو حوادث جزئیہ اوراسباب مختصہ میں وارد ہوا،گویا اس قسم کا حکم بمنزلہ استثناکے ہے، ان کلیات سے جو احکام کی قسم اول ہے اورجس کا ذکر ابھی اوپر ہواہے تومجتہد پر واجب ہے کہ ان کلیات کو محفوظ رکھے اورجو امور ان کلیات کے خلاف ہوں، ان کو ترک کرے،اس واسطے کے شریعت حقیقت میں عبارت اسی کلیات سے ہے اورجواحکام اس کلیات کے خلاف ہیں کہ اس کے اسباب اورمختصات ہمارے نزدیک یقینی طورپر ثابت نہیں ،وہ قابل اعتبار نہیں اورمثال اس کی یہ ہے کہ یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ جب بیع میں کوئی شرط فاسد ہوتو وہ بیع باطل ہوجاتی ہے اورحضرت جابرؓ کے حال میں جو وارد ہواہے کہ انہوں نے اونٹ فروخت کیا اور شرط کرلی کہ یہ اونٹ ہمارے مصر ف میں مدینہ منورہ تک رہے گا تویہ قصہ شخصیہ جزئیہ معارض واسطے قاعدہ کلیہ مذکورہ کے نہ ہوگا اورایساہی حدیث’ مصراۃ‘ اس قاعدہ کلیہ کے معارض نہ ہوگی جوقاعدہ کلیہ قطعی طورپر شروع میں ثابت ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ غنم بسب غرم کے ہے ،اورایسے ہی اوربھی مسائل ہیں اوراس سے لازم آتاہے کہ بہت سے ایسی احادیث پر عمل نہیں ہوتا جن میں ایسے امور جزئیہ کا ذکر ہے جو حنفی مذہب کے کسی قاعدہ کلیہ کے خلاف ہیں لیکن علماء حنفیہ اس کا خیال نہیں کرتے ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔ اوریہی کوشش رہتی ہے کہ تاامکان جزئیات ان کلیات میں مندرج رہیں۔(فتاوی عزیزی ، صفحہ ۴۳۰،مطبع:سعید ایچ ایم کمپنی،پاکستان،سنہ اشاعت:۱۴۰۸ھ)
مختلف احادیث میں ترجیح کسے ہوگی اوراس کا معیار کیاہوگا، یہ ہرامام نے اپنے فکر ونظر سے اخذ کیاہے، اس سلسلے میں کسی کے پاس وحی قرآنی اورارشاد رسول نہیں ہے، لہذا کسی کو یہ حق بھی نہیں ہے کہ وہ اپنے مقررکردہ اصول کو قرآن وحدیث کا درجہ دے اوردوسروں پر مخالفت حدیث کاالزام عائد کرےاورجولوگ مجتہدین کرام پر مخالفت حدیث کاالزام لگاتے ہیں ان کے بارے میں حافظ ابن عبدالبر لکھتے ہیں:
هَذَا تَحَامُلٌ وَجَهْلٌ وَاغْتِيَابٌ وَأَذًي لِلْعُلَمَاءِ؛ لِأَنَّهُ إِذَا كَانَ لَهُ فِي النَّازِلَةِ كِتَابٌ مَنْصُوصٌ وَأَثَرٌ ثَابِتٌ لَمْ يَكُنْ لِأَحَدٍ أَنْ يَقُولَ بِغَيْرِ ذَلِكَ فَيُخَالِفُ النَّصَ وَالنَّصُّ مَالَا يَحْتَمِلُهُ التَّأْوِيلُ وَمَا احْتَمِلَهُ التَّأْوِيلُ عَلَى الْأُصُولِ وَاللِّسَانِ الْعَرَبِيِّ كَانَ صَاحِبُهُ مَعْذُورًا((جامع بیان العلم وفضلہ،۲/895)
یہ سب جہالت، شخصیت پر حملہ ،غیبت اورعلماء کو تکلیف پہنچاناہے،کیونکہ کسی بھی مسئلہ میں جب قرآن پاک یاحدیث رسول میں کوئی حکم موجود ہوتوکوئی بھی اس حکم کی مخالف نہیں کرتا اورنص اس کو کہتے ہیں جس میں تاویل کی کوئی گنجائش نہ ہو اور جس میں تاویل کی اصول فقہ ،عربی زبان کے قواعد کے مطابق گنجائش ہو تو پھر ایساتاویل کرنے والا(اگرچہ غلطی پر ہو )معذور ہوگا۔
اورابن تیمیہ لکھتے ہیں:
ومن ظن بابی حنیفۃاوغیرہ من أئمۃالمسلمین أنھم یتعمدون مخالفۃ الحدیث الصحیح لقیاس أو غیرہ ،فقد أخطا علیھم ،وتکلم إما بظن وإما بھوی۔(مجموع الفتاویٰ:۲۰؍۳۰۴)
اورجس کسی نے بھی ابوحنیفہ یادیگر ائمہ مسلمین کے بارے میں یہ گمان کیاہے کہ وہ جان بوجھ کر قیاس یادیگر امور کی وجہ سے حدیث صحیح کی مخالفت کرتے ہیں تواس نے ان کے بارے میں غلطی کی،اوراس کی یہ بات یاتو نراگمان ہے یاپھر خواہش پرستی ۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اس کے بعد توثیق کرنے والوں کی بھی لسٹ پیش کرنا مت بھولیے گا۔ جزاک اللہ خیرا۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
امام محمد بن الحسن اور دارقطنی

امام محمد بن الحسن پر امام دارقطنی کی جرحوں میں خاصا تفاوت اورفرق پایاجاتاہے،لہذا ذیل میں اس پر تھوڑی تفصیل سے گفتگو کی جاتی ہے،امام دارقطنی سے امام محمد پر منقول جرحین حسب ذیل ہیں:
محمد بن الحسن الشيباني، أبو عبد الله.
• قال البَرْقانِيّ: سألت الدَّارَقُطْنِيّ عن محمد بن الحسن صاحب أبي حنيفة، فقال: قال يحيى بن معين كذاب، وقال فيه أحمد، يعني ابن حنبل نحو هذا.
قال أبو الحسن الدَّارَقُطْنِيّ: وعندي لا يستحق الترك. (468) .
وقال سألت الدَّارَقُطْنِيّ عن أبي يوسف صاحب أبي حنيفة، فقال: هو أقوى من محمد بن الحسن. (567) .
• وقال السُّلَمِيُّ: قال الدَّارَقُطْنِيّ: أبو يوسف، ومحمد بن الحسن، في حديثهما ضعف. (302) .

(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله 2/567)
اس میں دیکھاجاسکتاہے کہ امام محمد بن الحسن پر دارقطنی نے صاف اور واضح لفظوں میں کہیں بھی ضعیف نہیں کہاہے،فی حدیثھما ضعف کا مطلب راوی کا ضعیف ہونا نہیں ہے، جیسے کسی راوی کے تعلق سے اگریہ کہیں فی حدیثہ نکارۃ تواس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ راوی منکرالحدیث ہے،کیونکہ منکرالحدیث ہونا الگ بات ہے اورکسی راوی کی کچھ روایات منکر ہوں، وہ دوسری بات ہے، کتب اصول حدیث میں اس کو تفصیل سے بیان کیاگیاہے، وہاں ملاحظہ کیاجاسکتاہے۔صرف ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔

قَالَ ابْنُ دَقِيقِ الْعِيدِ فِي شَرْحِ الْإِلْمَامِ: قَوْلُهُمْ: رَوَى مَنَاكِيرَ، لَا يَقْتَضِي بِمُجَرَّدِهِ تَرْكَ رِوَايَتِهِ حَتَّى تَكْثُرَ الْمَنَاكِيرُ فِي رِوَايَتِهِ، وَيُنْتَهَى إِلَى أَنْ يُقَالَ فِيهِ: مُنْكَرُ الْحَدِيثِ ; لِأَنَّ مُنْكَرَ الْحَدِيثِ وَصْفٌ فِي الرَّجُلِ يَسْتَحِقُّ بِهِ التَّرْكَ لِحَدِيثِهِ. وَالْعِبَارَةُ الْأُخْرَى لَا تَقْتَضِي الدَّيْمُومَةَ، كَيْفَ وَقَدْ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ فِي مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ: يَرْوِي أَحَادِيثَ مُنْكَرَةً، وَهُوَ مِمَّنِ اتَّفَقَ عَلَيْهِ الشَّيْخَانِ، وَإِلَيْهِ الْمَرْجِعُ فِي حَدِيثِ الْأَعْمَالِ بِالنِّيَّاتِ.
(فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث 2/130)

ایسے ہی کسی راوی کا ضعیف ہونا(اگرچہ یہ مبہم جرح ہے،لیکن پھربھی اس بالفرض جرح تسلیم کرتے ہوئے)اورکسی راوی کی روایتوں میں کچھ ضعف ہونا ایک نہیں بلکہ الگ الگ بات ہے،کتب اصول حدیث کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ یہ تعدیل کا آخری درجہ ہے،یاپھر جرح کا پہلا مقام ،کیونکہ فی حدیثہ ضعف کو مااعلم بہ باس سے اونچا اورلاباس بہ سے کمتر مقام دیاگیاہے:

فُلَانٌ فِيهِ أَوْ فِي حَدِيثِهِ ضَعْفٌ "، وَهُوَ فِي الْجَرْحِ أَقَلُّ مِنْ قَوْلِهِمْ: " فُلَانٌ ضَعِيفُ الْحَدِيثِ "،" فُلَانٌ مَا أَعْلَمُ بِهِ بَأْسًا"،وَهُوَ فِي التَّعْبِيرِ دُونَ قَوْلِهِمْ:" لَا بَأْسَ بِهِ
(دیکھئے :مقدمہ ابن صلاح1/127)
أو في حديثه ضعف وهو في الجرح أقل من قولهم فلان ضعيف الحديث فلان ما أعلم به بأسا وهو في التعديل دون قولهم لا بأس به.
(الشذا الفياح من علوم ابن الصلاح رحمه الله تعالى1/127)

اسی تھریڈ میں ماقبل میں اشماریہ اور ابن دائود صاحبان کے درمیان وعندي لا يستحق الترك پرزبانی جنگ ہوچکی ہے،جب کہ حقیقت یہ ہے کہ لایستحق الترک کا جملہ سرے سے جرح کا جملہ ہے ہی نہیں ،حافظ ذہبی اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

الربيع بن حبيب البصري فلا يترك.
قلت: هو أبو سلمة الحنفي.بصري، يروي عن الحسن، ومحمد، وأبي جعفر الباقر.وعنه بهز بن أسد، ويحيى القطان.وثقه أحمد، وابن معين، وابن المديني، فقول الدارقطني فيه: لا يترك، ليس بتجريح له.
اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ لایترک جرح کا کلمہ نہیں ہے اورجب یہ جرح نہیں ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ اس کا شمار تعدیل میں ہوگا،کیونکہ راوی پر کوئی کلام جرح بھی نہ ہو اور تعدیل بھی نہ ہو،لغو کے قبیل سےہوگا اوردارقطنی کے راوی پر کلام کو لغو قراردینا کم ازکم ان کیلئے تو مناسب نہیں جو اپنا انتساب ان کی جانب کرتے ہیں۔

وعندي لا يستحق الترك کے ترجمہ میں زبیر علی زئی نے ایک نیا شعبدہ دکھایاہے،لایستحق الترک کا ترجمہ زبیر علی زئی نے متروک سے کیاہے، اب ان سے کوئی پوچھے کہ لایترک یالایستحق الترک کا ترجمہ متروک کب سے ہونے لگاہے،کیامتروک اور ترک میں کوئی فرق نہیں ہے؟

جہاں تک بات امام ابویوسف کو امام محمد سے اقوی قراردینے کی بات ہے تو اقوی کا مقابل ضعیف نہیں ہوتا بلکہ قوی ہوتاہے ،اور کسی راوی کو قوی کہنا براہ راست یاضمنی طورپر اس کی توثیق ہے ،نہ کہ تضعیف ۔
آپ نے ملاحظہ کیاکہ حافظ دارقطنی سے امام محمد کی تجریح میں کوئی صریح لفظ منقول نہیں ہے، یاتو وہ ایسا جملہ ہے جو تعدیل کے قریب ہے ،اس بناء پرحافظ دارقطنی کو امام محمد کو مجرحین میں شمار کرنا غلطی ہے،جب کہ یہ واضح رہے کہ دارقطنی نے ہی امام محمد کا شمارثقات وحفاظ حدیث میں کیاہے، جیساکہ ماقبل میں بھی زیلعی کے حوالہ سے بتایاگیاہے،اب صورت حال یہ ہے کہ جرح میں واضح اور صاف کلام دارقطنی سے منقول نہیں ہے ،جب کہ توثیق وتعدیل میں واضح کلام منقول ہے،اس کی مزید تفصیل ہم انشاء اللہ امام محمد کی توثیق کے ضمن میں بیان کریں گے۔

امام محمد اورمبہم جروحات

اب یہاں سے کچھ مزید جروحات پیش کریں گے جن میں امام محمد پر مبہم جرح کی گئی ہے،
امام ابن معین سے،امام ابودائود سےامام احمد بن حنبل سے،اورابن شاہین سےامام محمد کے بارے میں منقول ہے،لیس بشیئ،
اولاًتوابن معین کے نزدیک لیس بشی سے مراد بسااوقات قلیل الحدیث ہواکرتاہے جیساکہ اس کی وضاحت خود ابن معین سے منقول ہےاور جیساکہ معلمی نے بھی بیان کیاہے۔

اگرمان بھی لیں کہ یہ ابن معین کے نزدیک جرح کا کلمہ ہے تولیس بشیئ کا کلمہ جرح مبہم ہے،جرح مفسر نہیں ہے،معلمی کہتے ہیں :

إعلم أن الجرح على درجات الأولى المجمل وهو ما لم يبين فيه السبب كقول الجارح «ليس بعدل» «فاسق» ومنه على ذكره الخطيب في (الكفاية) ص 108 عن القاضي أبي الطيب الطبري قول أئمة الحديث «ضعيف» أو «ليس بشيء» وزاد الخطيب قولهم «ليس بثقة» .
(تنکیل 1/247)
اسی طرح حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ نے بھی لیس بشی کو جرح مبہم قراردیاہے دیکھئے(ہدی الساری مقدمہ فتح الباری 1/189،باب قولہ من اعادالحدیث ثلاثا) اس حدیث کے ایک راوی عبداللہ بن المثنی پر ابن معین کی جرح کو حافظ ابن حجر نے یہ کہ کر ٹال دیاکہ :

وفي الجملة فالرجل إذا ثبتت عدالته لم يقبل فيه الجرح إلا إذا كان مفسرا بأمر قادح
اسی طرح مشہور غیرمقلد یااہل حدیث عالم ارشاد الحق اثری لکھتے ہیں:
امام ابن معین کےقول لیس بشی اورامام احمد بن حنبل کے قول لہ مناکیر کو جرح مفسر کہنا فن جرح وتعدیل سے ناواقفی کی دلیل ہے(توضیح الکلام ص452)
اس سے واضح ہوگیاکہ لیس بشی جرح مبہم اورجرح مبہم قابل قبول ہوگا یاقابل رد اس کی تفصیل آگے آئے گی۔

لایکتب حدیثہ
کچھ ائمہ جیسے امام ابودائود اور یحیی بن معین نے لایکتب حدیثہ کی بھی جرح کی ہے، یہ جرح بھی مبہم ہے اوراس جرح کے مبہم ہونے کی صراحت خود معلمی نے کی ہے، چنانچہ معلمی لکھتے ہیں۔

الرابع: أن كلمة «لا تكتب حديثه» ليست بصريحة في الجرح،(تنکیل 1/305)لہذا جب یہ کلمہ جرح کے باب میں ہی صریح نہیں ہے تواس کے قائل کو جارح میں شمار کرنا بھی غلط ہوگا۔

نوٹ: واضح رہے کہ ابودائود کا قول لایکتب حدیثہ آجری کے واسطے سے منقول ہے اورکی توثیق کہیں سے منقول نہ ہونے کی وجہ سے اس قول کو زبیر علی زئی نے ضعیف قراردیاہے،لیکن یہ اہل علم کا وطیرہ نہیں ہے، اہل علم حضرات متقدمین ومتاخرین ان یاان جیسے افراد سے استدلال کرتے آرہے ہیں، ان کے واسطہ سے ائمہ کے اقوال کو اپنی کتابوں میں نقل کرتے آرہے ہیں اورکبھی محض اس بناء پر کسی قول وک تسلیم کرنے سے انکار نہیں کیاکہ وہ آجری سے منقول ہے یاابن محرز سے منقول ہے یاعبداللہ بن علی بن المدینی سے منقول ہے، بلکہ آپ کتب جرح وتعدیل کو دیکھیں گے پائیں گے کہ ان حضرات کا کلام ائمہ جرح وتعدیل اورمتاخرین علماء جرح وتعدیل نے بلاکھٹکے قبول کیاہے،لہذا ان کے واسطہ سے منسوب اقوال کی نفی کرنا یااس قول کو ضعیف قراردینا اہل علم کا شیوہ نہیں ہے۔


امام نسائی فرماتے ہیں :
وَمُحَمّد بن الْحسن ضَعِيف
ظاہر ہے کہ ضعیف کا لفظ بھی جرح مبہم ہے، اوراس سے کہیں سے بھی یہ پتہ نہیں چلتاکہ ضعف کی بنیاد کیاہے،
حافظ جوزجانی کی جرح ہے:
اسد بن عمرو وابویوسف ومحمد بن الحسن واللولوی قد فرغ اللہ منہم
حافظ جوزجانی کی شخصیت بڑی عجیب وغریب ہے، وہ کوفہ میں رکھ کر جو شیعیت کا گڑھ تھا، وہاں ناصبیت کا چراغ اپنے دم قدم سے روشن رکھااور حضرت علی کی ذات والاصفات سے انہیں کسی حد پرخاش تھی،بقول دارقطنی ایک مرتبہ جب چوزہ ذبح کرنے کیلئے ان کے شاگردوں میں سے کوئی تیار نہیں ہوا تو فرمانے لگے کہ سبحان اللہ علی توایک دن میں ہزاروں کو قتل کردیتے تھے اور یہاں کوئی ایک چوزہ ذبح کرنے والا تک نہیں ملتا۔اس کے ساتھ ان کی شخصیت میں کوفہ کے اہل علم اورعلماء سے تنفر تھا،لہذا اہل کوفہ پر ان کی جرح کو علماء جرح وتعدیل نے مردود قراردیاہے(واضح رہے کہ دارقطنی اور جوزجانی کی ملاقات ثابت نہیں، اور جس سند سے یہ روایت من قول ہے اس میں مجہول افراد ہیں ،لیکن یہ قصہ ثابت نہ بھی ہو تواس سے جوزجانی کے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے انحراف اورناصبیت سے انکار ممکن نہیں ۔

اوران کے بارے میں حاکم کہتے ہیں:

وقال السجزي، وسألته يعني الحاكم عن الجوزجاني، فقال: ثقة مأمون، إلا أنه طويل اللسان، وكان يستخف بمسلم بن الحجاج فغمزه مسلم بلا حجة.( إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال1/326)

حافظ ابن حجر کہتے ہیں:
وقال الجوزجاني كان مائلا عن الحق ولم يكن يكذب في الحديث قال بن عدي يعني ما عليه الكوفيون من التشيع قلت الجوزجاني كان ناصبيا منحرفا عن علي فهو ضد الشيعي المنحرف عن عثمان والصواب موالاتهما جميعا ولا ينبغي أن يسمع قول مبتدع في مبتدع
(فتح الباري شرح صحيح البخاري1/390)

حافظ ابن حجرمزید ک
ہتے ہیں:
وأما أبو إسحاق
الجوزجاني فقال :كان زائغا غاليا يعني في التشيع قلت: والجوزجاني غال في النصب فتعارضا(فتح الباري شرح صحيح البخاري1/406)

مزید کہتے ہیں:
وأما
الجوزجاني فقال :كان غير ثقة وقال بن أبي خيثمة عن قطبة بن العلاء تركت حديثه لأنه روى أحاديث فيها إزراء على عثمان انتهى فهذا هو ذنبه عند الجوزجاني(فتح الباري شرح صحيح البخاري1/435)

حافظ ابن حجر اس بارے میں قول فیصل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
وأما الجوزجاني فقد قلنا غير مرة إن جرحه لا يقبل في أهل الكوفة لشدة انحرافه ونصبه(فتح الباري شرح صحيح البخاري1/446)
اگر جوزجانی کی شخصیت سے درگزر یاقطع نظر کرلیاجائے توبھی قد فرغ اللہ عنہ یاعنہم جرح مفسر ہے یاجرح مبہم؟ اورجرح مفسر ہے تو جرح کے چھ درجات مین سے کس درجہ سے تعلق رکھتاہے،اس کے بیان کی ذمہ داری سے زبیر علی زئی آہستگی سے نکل گئے ہیں ،کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان باتوں کی تفصیل کی جانب جائیں گے تو الٹی آنتیں گلے پڑجائیں گی، لہذا بہتر یہی ہے کہ خاموشی سے نکل جائو،حقیقت یہ ہے کہ جوزجانی کاقد فرغ اللہ عنہم کہنا دل کے بھڑا نکالنے جیساہے،اس کا جرح وتعدیل سے کوئی تعلق نہیں۔

اگرکسی صاحب کو اصرار ہو کہ نہیں اس کا تعلق جرح وتعدیل سے ہی ہے، توان کی خدمت میں کچھ سوالات پیش ہیں، امید ہے کہ اس کے جواب باصواب سے نوازیں گے تاکہ ہم بھی ان سے اتفاق کرسکیں۔

· قد فرغ اللہ عنہم کا تعلق عدل پر جرح سے ہے یاضبط پر جرح سے؟
· اگرعدل پرجرح ہے تو کیاائمہ مسلمین کی عدالت میں جرح قابل قبول ہے؟
· اگر ضبط کے تعلق سے یہ جرح ہے تو یہ جرح مبہم ہے یامفسر ہے؟
· اگر مبہم جرح ہے تواس کا تعلق جرح کے کس طبقے سے ہے؟
· اگریہ جرح مفسر ہے تواس میں جرح کی کیا وجہ بیان کی گئی ہے۔
جوزجانی کی کتاب کا جس نے مطالعہ کیاہے، وہ اچھی طرح جانتاہے کہ اس میں مائلاعن الحق سیئ المذہب وغیرہ کے ساتھ ساتھ راوی پر ضبط کے اعتبار سے بھی کلام ہوتاہے، جیسے لیس بثقہ یاثقۃ فی الحدیث وغیرذلک،لیکن زیر بحث اقتباس میں وہ سب کچھ بھی موجود نہیں ہے،صرف اتناہی موجود ہے کہ قد فرغ اللہ عنہم ،اس سے ایسامعلوم ہوتاہے کہ جوزجانی کے نزدیک بھی ان پر کوئی معقول جرح نہیں تھی لیکن کوفہ سے نفرت نے مجبور کیاکہ کچھ نہ کچھ ضرور کہاجائےاورایک ہی جملہ میں تینوں کو شہید کردیا۔
 
Last edited:

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
ابن حبان:
ابن حبان کو علامہ زاہد الکوثری نے بجاطورپر فیلسوف الجرح والتعدیل کا خطاب دیاہے، ذرا سی بات ہوتی ہے،اس کو اس طرح بڑھاچڑھاکر پیش کرتے ہیں گویا آسمان ٹوٹ پڑا یازمین پھٹ گئی ،باتوں کو بڑھاچڑھاکر پیش کرنے کی ابن حبانی عادت پر متعدد اہل علم نے نقد کیاہے،توآئیے ان تنقیدات کو دیکھتے چلیں۔حافظ ذہبی میزان میں لکھتے ہیں:

قال الامام أبو عمرو بن الصلاح - وذكره في طبقات الشافعية: غلط الغلط الفاحش في تصرفه، وصدق أبو عمرو.وله أوهام كثيرة تتبع بعضها الحافظ ضياء الدين،(میزان الاعتدال3/507)
حافظ ذہبی ابن حبان کے بارے میں لکھتے ہیں:
«ابنُ حِبّان ربما جَرَح الثقة حتى كأنه لا يَدري ما يَخرج من رأسه(ميزان الاعتدال (1|441)
ابن حبان محمد بن الفضل السدوسی کے بارے میں کہتے ہیں:
: "اختَلَط في آخر عمره وتغيّر، حتى كان لا يدري ما يُحدّثُ به. فوقع في حديثه المناكير الكثيرة. فيجب التنكب عن حديثه فيما رواه المتأخرون. فإذا لم يُعلَم هذا من هذا، تُرِكَ الكل ولا يُحتجّ بشيءٍ منها".
اس میں دیکھ سکتے ہیں کہ ابن حبان نے جرح مفسر کیاہے،؛لیکن ان کی یہ جرح مفسر قطعا قابل اعتماد نہیں ،اورحافظ ذہبی اس کے بالمقابل دارقطنی کا توثیق کا قول نقل کرتے ہیں کہ اختلاط کے بعد ان سے مروی کسی حدیث میں نکارت نہیں پائی گئی یاکوئی منکر حدیث نہیں ملی،اس کے بعد پھر حافظ ذہبی ابن حبان کے بارے میں کہتے ہیں:
فأين هذا القول من قول ابن حبان الخَسَّاف المتهوِّر في عارم؟!
ابن حبان کے تہور اورخسافت کو مزید نمایاں کرتے ہوئے حافظ ذہبی کہتے ہیں:
". قلتُ (أي الذهبي): ولم يقدر ابن حبان أن يسوق له حديثاً منكراً. فأين ما زعم؟!».
اسی طرح سیر اعلام النبلاء میں ابن احبان پر تنقید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فأين هذا من قول ذاك الخَسَّاف المتفاصِح أبي حاتم ابن حبان في عارم؟!».
میزان الاعتدال (1|460میں حافظ ذہبی ابن حبان کو شورشرابہ کرنے والا بتاتے ہوئے کہتے ہیں:
«ابن حبان صاحب تشنيع وشغب
مزید فرماتے ہیں:

" وأما ابن حبان فقد تقعقع كعادتہ ".( ميزان الاعتدال ج3 ص45)
مزید فرماتے ہیں:
وأما ابن حبان فأسرف وتجرأ (ميزان الاعتدال ج2 ص253)
ابن عبدالہادی ابن حبان پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں:
«وقد وقع له مثل هذا التناقض والوهم في مواضع كثيرة. وقد ذكر أبو عمرو بن الصلاح أنه غلط الغلط الفاحش في تصرفه. ولو أخذنا في ذكر ما أخطأ فيه وتناقض، من ذكره الرجل الواحد في طبقتين متوهماً كونه رجلين، وجمعه بين ذكر الرجل في الكتابين كتاب الثقات وكتاب المجروحين، ونحو ذلك من الوهم والإيهام، لطال الخِطاب(الصارم المنكي،ص (103-105)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:

ابن حبان له أوهام كثيرة:(لسان الميزان ج4 ص113)
ابن حبان سے روات پر حکم لگانے کے سلسلے میں ایسی بے اعتدالی کیوں ہوئی، شیخ عبدالفتاح ابوغدہ ذہبی اوردیگر ماہرین جرح وتعدیل کے کلام کی روشنی میں یہ وجہ بتاتے ہیں:
وقد وقع ذلك للحافظ ابن حبان رحمه الله تعالى، فقد كان يتصرف في الألفاظ في تراجم الرواة لمن قبله من الأئمة، فيعبر بدلاً عنها بعبارة نفسه ، فوقع في الغلط والشطط (لقاعدة في المؤرخين للسبكي ص 67 هامش 4)
خود ابن حجر پر اس زمانے کے اہل حدیث حضرات نے نبوت کو علم اورعمل کہنے پر زندقہ کا الزام لگایاتھااورنہ صرف زندیقیقت کا الزام لگا،بلکہ ان کا بائیکاٹ کیاگیا۔
"
وقال أبو اسماعيل الانصاري سمعت عبد الصمد محمد بن محمد يقول سمعت أبي يقول: أنكروا على ابن حبان قوله النبوة والعمل وحكموا عليه بالزندقة وهجروه(لسان المزيان ج4 ص113)
بلکہ کتب تاریخ وتراجم میں تواس کی بھی صراحت ہے کہ جب انہوں نے اللہ کیلئے حد(جہت) کا انکار کیاتواس زمانے کے عاملین بالحدیث حضرات نے ان کو سجستان بدر کردیاتھا۔
محَمَّد بن الْحسن الشَّيْبَانِيّ صَاحب الرَّأْي صحب النُّعْمَان وَهُوَ أَبُو حنيفَة أَيَّامًا يسيرَة يروي عَن النُّعْمَان بن ثَابت وَعَن يَعْقُوب بن إِبْرَاهِيم وَسمع من يَعْقُوب عَن النُّعْمَان أَكثر مَا يَقُول عَلَيْهِ وَكَانَ مرجئا دَاعيا إِلَيْهِ وَهُوَ أول من رد على أهل الْمَدِينَة وَنصر صَاحبه يَعْنِي النُّعْمَان وَكَانَ عَاقِلا لَيْسَ فِي الحَدِيث بِشَيْء كَانَ يروي عَن الثِّقَات ويهم فِيهَا فَلَمَّا فحش ذَلِك مِنْهُ اسْتحق تَركه من أجل كَثْرَة خطئه لِأَنَّهُ كَانَ دَاعِيَة إِلَى مَذْهَبهم (المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين2/275)
ائمہ کرام میں سے کسی نے بھی امام محمد کوداعی الی المرجیہ نہیں کہا، یہ ابن حبان کے یہاں موجود ہے،ائمہ میں سے کسی نے بھی امام محمد کے ضبط وحفظ پر شک کا اظہار نہیں کیا، یہ ابن حبان کے یہاں موجود ہے،ہم حافظ ذہبی کی طرح کیا یہ پوچھنے کا حق نہیں رکھتے کہ وہ امام محمد کی کچھ تو روایات پیش کرتے اورثابت کرتے کہ یہ روایتیں ایسی تھیں لیکن ان کو اس میں وہم لاحق ہوا ہے اورانہوں نے اس کو غلط طورپر روایت کردیاہے، جیساکہ حافظ ذہبی نے عارم کے سلسلے میں ابن حبان کوکہاہے کہ ابن حبان نے عارم پر جرح توکی ہے لیکن وہ ان کی کوئی منکر روایت نہ پیش کرسکے۔
عرض صرف اتنااورگزارش صرف اتنی ہے کہ ابن حبان کی جرح اگرچہ مفسر ہے لیکن یہ اس لئے قابل اعتماد نہیں کہ ابن حبان الفاظ اورتعبیر ات کا صحیح خیال نہیں کرتے اور رائی کو زور بیان سے پربت بنادیتے ہیں،اسی کے ساتھ موصوف کو بسااوقات راویوں کے بارے میں ایسی باتیں کہہ جاتے ہین جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا؛لیکن یہ اپنے زوربیان میں ان چیزوں کی پروانہیں کرتے۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
خود ابن حجر پر اس زمانے کے اہل حدیث حضرات نے نبوت کو علم اورعمل کہنے پر زندقہ کا الزام لگایاتھااورنہ صرف زندیقیقت کا الزام لگا،بلکہ ان کا بائیکاٹ کیاگیا۔
غلطی سے ابن حبان کی جگہ ابن حجر لکھ دیاگیاہے، براہ کرم اسے درست کرلیں۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
یہ بڑی عجیب وغریب بات ہے کہ محدثین کرام کے یہاں وہ باتیں بھی احناف کے تعلق سے طعن وقدح میں شامل ہوجاتی ہے جسے اصول طورپر مدح میں شامل ہوناچاہئے، مثلادیکھئے، عقیلی عبدالرحمن بن مہدی سے نقل کرتے ہیں اورجیسے لسان المیزان میں بھی نقل کیاگیاہے۔
ومن طريق عبد الرحمن بن مهدي دخلت عليه فرأيت عنده كتابا فنظرت فيه فإذا هو قد أخطأ في حديث وقاس على الخطأ فوقفته على الخطأ فرجع وقطع من كتابه بالمقراض عدة أوراق (لسان الميزان (5/ 122)
سوال یہ ہے کہ یہ مدح ہے یا قدح ہے،عقلی کی نگاہ میں تو یہ قدح ہے لیکن ہرانصاف پسند اس کو امام محمد علیہ الرحمہ کی مدح ہی سمجھے گا ،اوریہیں سے امام احمد بن حنبل کے مخالف حدیث کےا عتراض کا بھی جواب ہوجاتاہے کہ جب عبدالرحمن بن مہدی نے ان کو اس حدیث میں غلطی کی نشاندہی کی تو بلاکسی رد وقدح کے اپنی غلطی تسلیم کرلیا اور اس کو اپنی کتاب سے کاٹ کر الگ کردیا، کیامخالف حدیث کا طرزعمل یہی ہوتاہے؟
اس کے آگے زبیر علی زئی نے مزید کچھ اپنی جانب سے نقل پیش کئے ہیں:
زبیر علی زئی امام احمد بن حنبل کا لیس بشی ولایکتب حدیثہ کا ریمارک نقل کرتے ہیں، جس کا جواب ماقبل میں مذکور ہوچکا،مزید ایک تبصرہ نقل کرتے ہیں کہ
لااروی عنہ شیئا،اس بارے میں عرض ہے
§ یہ مبہم جرح ہے۔
§ دوسرے امام احمد اہل الرائے حضرات سے باوجودثقاہت کے رائے کی وجہ سے روایت نہیں کرتے تھے اوررائے کی بنیاد پر جرح ناقابل التفات واعتبار جرح ہے ،جیساکہ احمد بن حنبل نے امام ابویوسف کے تذکرہ میں فرمایاہے کہ وہ اہل الرائے میں سے ہیں اور اہل الرائے سے روایت کرنا مناسب نہیں ہے۔
امام احمد بن حنبل معلی بن منصور سے اسی رائے کی وجہ سے روایت نہیں کرتے تھے حالانکہ حدیث میں ان کا مرتبہ امامت کاہے۔

مُعلى بن مَنْصُور الرَّازِيّ إِمَام مَشْهُور موثق قَالَ أَبُو دَاوُد كَانَ أَحْمد لَا يروي عَنهُ للرأي وَقَالَ أَبُو حَاتِم قيل لِأَحْمَد كَيفَ لم يكْتب عَنهُ قَالَ كَانَ يكْتب الشُّرُوط من كتبهَا لم يخل من أَن يكذب
(المغنی فی الضعفاء2/670)
جب امام احمد بن حنبل رائے کی وجہ سے معلی بن منصور سے روایت کے روادار نہیں ہوئے توپھر امام محمد سے کیسے ہوسکتے ہیں۔
معذرت:انصاف کی بات یہ ہے کہ اگرکسی کو غلطی کی جانب توجہ دلائی جائے تووہ اپنی غلطی کو خوش دلی سے تسلیم کرلے ،اوراسی کی تعلیم امام محمد بن الحسن نے بھی دی ہے جیساکہ عبدالرحمن بن مہدی کے واقعہ میں گزرا،ان ہی اکابر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی ایک غلطی تسلیم کررہاہوں ،ماقبل میں ،میں نے نقل کیاتھا۔

فُلَانٌ فِيهِ أَوْ فِي حَدِيثِهِ ضَعْفٌ "، وَهُوَ فِي الْجَرْحِ أَقَلُّ مِنْ قَوْلِهِمْ: " فُلَانٌ ضَعِيفُ الْحَدِيثِ "،" فُلَانٌ مَا أَعْلَمُ بِهِ بَأْسًا"،وَهُوَ فِي التَّعْبِيرِ دُونَ قَوْلِهِمْ:" لَا بَأْسَ بِهِ
(دیکھئے :مقدمہ ابن صلاح1/127)
أو في حديثه ضعف وهو في الجرح أقل من قولهم فلان ضعيف الحديث فلان ما أعلم به بأسا وهو في التعديل دون قولهم لا بأس به.
(الشذا الفياح من علوم ابن الصلاح رحمه الله تعالى1/127)
اس میں غلطی سے میں نے سمجھاکہ فی حدیثہ ضعف کا تعلق مااعلم بہ باس سے بھی ہے ،جب کہ یہ دونوں الگ جملے ہیں،ضعیف الحدیث سے کمتر درجہ کی جرح فی حدیثہ ضعف ہے اور مااعلم بہ باس سے اونچے درجہ لاباس بہ کاہے،میں نے جلد بازی میں اس پر غورکئے بغیر لکھ دیاکہ : ،کیونکہ فی حدیثہ ضعف کو مااعلم بہ باس سے اونچا اورلاباس بہ سے کمتر مقام دیاگیاہے:
قارئین اس کی تصحیح کرلیں۔
اشماریہ صاحب کے توجہ دلانے کی وجہ سے اس غلطی کی جانب نگاہ گئی، ان کا بھی شکریہ ۔
 
Top