زبیر علی لسان المیزان کے حوالہ سے ناقل ہے :
شروع میں محمد بن الحسن جہم کے مذہب پر چلتاتھا
اس جملہ کا واضح مفہوم مخالف یہی ہے کہ آخر میں وہ جہم کے مذہب پر نہیں رہے، لیکن یہاں پر زبیر علی زئی کو یہ مفہوم مخالف مراد لینایاد نہیں رہاجیساکہ اس نے قویافی مالک میں لیاتھاکہ صرف امام مالک سے روایت میں قوی ہیں،اورنہ ہی زبیر علی زئی یہ یاد رہاکہ وہ بریکٹ میں اس کی کچھ مزید وضاحت کریں۔
ہمیں نہیں معلوم کہ جہمیت کا الزام کن دلائل کی بنیاد پر امام احمد نے لگایاہے،ہمارے سامنے امام طحاوی کی کتاب عقیدۃ الطحاوی ہے جس میں ائمہ احناف امام ابوحنیفہ ،امام ابویوسف اورامام محمد کا عقیدہ بیان کیاگیاہے،اس میں اہل سنت کے اجماعی عقیدہ کا بیان ہے،اس سے کچھ بھی انحراف نہیں، بس صرف ایک جگہ وہی لفظی اختلاف ہے کہ اعمال جزوایمان ہیں یانہیں،اس کے بعد اب چاہے کوئی بھی ائمہ احناف کے عقائد کے تعلق سے کچھ بھی کہے، اس کی بات مسموع نہیں ہوگی ،کیونکہ یہ کتاب ائمہ احناف کے عقائد میں ایک مضبوط دستاویز ہے اور ابتداسے اہل علم اس کی شرح وتوضیح کرتے چلے آرہے ہیں،بسااوقات ایسابھی ہوتاہے کہ انسان مخالف کی بات پر پوری توجہ نہیں دیتا اور اپنے خیال میں کچھ ایساسمجھ لیتاہے کہ فلاں نے غلط بات کہی ہے، جیسے امام ذہلی نے امام بخاری پرخلق قرآن کے عقیدہ کا الزام لگایا،اگرہمارے پاس امام بخاری کے اپنے الفاظ نہ ہوتے تو ہمارے سامنے کتنی مشکل ہوتی،چونکہ امام احمد بن حنبل سے جہمیت کامحض الزام منقول ہے، اس کی دلیل یاکس بنیادوہ ان کو جہمی قراردے رہے ہیں،اس بارے میں مکمل خاموشی ہے ،لہذا مبہم کسی کے عقیدہ کے بارے میں مبہم جرح قطعاًقابل اعتماد نہیں ،بالخصوص جب کہ ایک مشہور معروف اور باسند کتاب میں امام محمد کا عقیدہ اس سے الگ بتایاگیاہو۔
زبیر علی لسان المیزان کے حوالہ سے ناقل ہے :
:ہمیں نہیں معلوم کہ جہمیت کا الزام کن دلائل کی بنیاد پر امام احمد نے لگایاہے،ہمارے سامنے امام طحاوی کی کتاب عقیدۃ الطحاوی ہے جس میں ائمہ احناف امام ابوحنیفہ ،امام ابویوسف اورامام محمد کا عقیدہ بیان کیاگیاہے،اس میں اہل سنت کے اجماعی عقیدہ کا بیان ہے،اس سے کچھ بھی انحراف نہیں، بس صرف ایک جگہ وہی لفظی اختلاف ہے کہ اعمال جزوایمان ہیں یانہیں،اس کے بعد اب چاہے کوئی بھی ائمہ احناف کے عقائد کے تعلق سے کچھ بھی کہے، اس کی بات مسموع نہیں ہوگی ،کیونکہ یہ کتاب ائمہ احناف کے عقائد میں ایک مضبوط دستاویز ہے اور ابتداسے اہل علم اس کی شرح وتوضیح کرتے چلے آرہے ہیں،بسااوقات ایسابھی ہوتاہے کہ انسان مخالف کی بات پر پوری توجہ نہیں دیتا اور اپنے خیال میں کچھ ایساسمجھ لیتاہے کہ فلاں نے غلط بات کہی ہے، جیسے امام ذہلی نے امام بخاری پرخلق قرآن کے عقیدہ کا الزام لگایا،اگرہمارے پاس امام بخاری کے اپنے الفاظ نہ ہوتے تو ہمارے سامنے کتنی مشکل ہوتی،چونکہ امام احمد بن حنبل سے جہمیت کامحض الزام منقول ہے، اس کی دلیل یاکس بنیادوہ ان کو جہمی قراردے رہے ہیں،اس بارے میں مکمل خاموشی ہے ،لہذا مبہم کسی کے عقیدہ کے بارے میں مبہم جرح قطعاًقابل اعتماد نہیں ،بالخصوص جب کہ ایک مشہور معروف اور باسند کتاب میں امام محمد کا عقیدہ اس سے الگ بتایاگیاہو۔
زبیر علی لسان المیزان کے حوالہ سے ناقل ہے :
وقال حنبل بن إسحاق عن أحمد كان أبو يوسف مضعفا في الحديث وأما محمد بن الحسن وشيخه فكانا مخالفين للأثر
اوراس کا ترجمہ یہ کرتاہے:
حنبل بن اسحاق نے(امام)احمد(بن حنبل)سے نقل کیاکہ:ابویوسف (تو)حدیث میں ضعیف تھامگر محمد بن الحسن اوراس کا استاد (اس کے ساتھ)حدیث وآثار کے مخالف تھے۔
حنبل بن اسحاق نے(امام)احمد(بن حنبل)سے نقل کیاکہ:ابویوسف (تو)حدیث میں ضعیف تھامگر محمد بن الحسن اوراس کا استاد (اس کے ساتھ)حدیث وآثار کے مخالف تھے۔
ہم نے بیشتر غیرمقلدوں (بشمول ان کے اکابرعلماء)کو شکایت کرتے ہوئے پایاہے کہ دائرۃ المعارف کی کتابوں میں احناف نے جان بوجھ کر خیانت اورتصحیف وتحریف کی ہے،تعجب ہے کہ اسی دائرۃ المعارف حیدرآباد سے شائع شدہ کتاب لسان المیزان میں غلط چھپےلفظ’’مضعفا‘‘کی بنیاد پر لکھ دیاکہ ابویوسف توحدیث میں ضعیف تھا،اس میں غیرمقلدوں کی نگاہ اس جانب نہیں گئی کہ دیگر کتابوں میں تحقیق کریں کہ صحیح لفظ کیاہےمضعفاًہے یامنصفاًہے،رفع یدین اور تحت السرۃ میں بال کی کھال نکال کر اور کئی مخطوطہ میں تحت السرۃ کی وضاحت ہونے کے باوجود اس کو تحریف کہیں لیکن دائرۃ المعارف میں اگر غلطی سے منصفاًکے بجائے مضعفاًچھپ گیا تو وہ علم وتحقیق کا شاہکار اور اس کے آگے تحقیق کا راستہ بندہوجائے۔
حالانکہ ایک معمولی طالب علم بھی اگراس جملے کی صحت پر تھوڑا وقت خرچ کرتاتواس پر واضح ہوجاتاکہ یہاں پر مضعفاًغلط ہے اورمنصفاًصحیح ہےاوراس کی وجہ یہ ہے کہ امام احمد بن حنبل کے واسطہ سے ہی یہ جملہ مختلف اورمتعدد کتابوں میں منقول ہے،لیکن ہرجگہ منصفاًہی نقل ہواہے۔
رجال اور سوانح کی جن کتابوں میں منصفاًنقل ہواہے،اس کی ایک سرسری فہرست دیکھئے تاریخ بغداد ۱۶؍۳۷۲،کتور بشارعواد،تاریخ بغداد ۱۴؍۲۶۱،تحقیق مصطفی عبدالقادر عطا،تاریخ الاسلام للذہبی۴؍۹۵۴،سیر اعلام النبلاء۷؍۴۷۰،مناقب الامام ابی حنیفۃ وصاحبیہ للذہبی ص:۶۴،رفع الاصر عن قضاۃ مصر۱؍۴۶۹،لسان المیزان ۷؍۶۰،تحقیق شیخ عبدالفتاح ابوغدہ،مغانی الاخیار فی شرح معانی الآثار،۳؍۵۴۱،طبقات الحفاظ للسیوطی۱؍۱۶۱،موسوعۃ اقوال الامام احمد ؒ۳؍۲۵۳،۴؍۱۹،۴؍۱۶۵،الجامع لعلوم الامام احمدؒ۱۹؍۵۶۰،طبقات علماء الحدیث لابن عبدالھادی۱؍۴۴۲)
ان تمام کتابوں میں مضعفاکے بجائے منصفانقل ہواہے،لیکن زبیر علی زئی ہیں کہ ماننے کو تیار نہیں،اوردائرۃ المعارف سے چھپے کتاب پر ایمان بالغیب لانے کو تیار ،لیکن اس کو چھوڑ کر کسی اور بحث میں دائرۃ المعارف کوتحریف وتصحیف کا ملزم گرداننے میں ذرا بھی باک نہیں ۔
موصوف کاشترغمزہ ملاحظہ ہو،وہ یہاں النصرالربانی میں فرماتے ہیں:
تاریخ بغداد میں غلطی سے ’’مضعفا‘‘کے بجائے ’’منصفاً‘‘چھپ گیاہے
جب کہ موصوف امام ابویوسف پر لکھے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
تنبیہ:امام احمد کا ایک قول ہے وکان منصفافی الحدیث
اور وہ (ابویوسف)حدیث میں منصف(درمیانہ )تھا(تاریخ بغداد ۱۴؍۲۶۰ وسندہ صحیح)آگے مزید گلفشانی کرتے ہوئے کہتے ہیں :
یعنی وہ روایت حدیث میں آدھے راستہ پر تھا،ایک دوسری روایت میں ہے کہ وکان ابویوسف متصفا فی الحدیث(تاریخ بغداد ۲؍۱۷۹،وسندہ صحیح) حافظ ابن حجر نے اسے کان ابویوسف مضعفافی الحدیث کے الفاظ سے نقل کیاہے(لسان المیزان ۵؍۱۲۲)
اور وہ (ابویوسف)حدیث میں منصف(درمیانہ )تھا(تاریخ بغداد ۱۴؍۲۶۰ وسندہ صحیح)آگے مزید گلفشانی کرتے ہوئے کہتے ہیں :
یعنی وہ روایت حدیث میں آدھے راستہ پر تھا،ایک دوسری روایت میں ہے کہ وکان ابویوسف متصفا فی الحدیث(تاریخ بغداد ۲؍۱۷۹،وسندہ صحیح) حافظ ابن حجر نے اسے کان ابویوسف مضعفافی الحدیث کے الفاظ سے نقل کیاہے(لسان المیزان ۵؍۱۲۲)
سوال یہ ہے کہ وہ بات کہ جس کا سارے فسانے میں کہیں ذکر نہ تھا یعنی مضعفاکا ذکر متقدمین کی کتابوں میں کہیں بھی موجود نہیں،اس کا ذکر ابن حجر کے یہاں کیسے آگیا، پھر وہی ابن حجر رفع الاصر میں منصفا نقل کرتے ہیں ،اور بجائے اس کے کہ مضعفا کو تصحیف قراردیاجائے، موصوف نے تاریخ بغداد کو ہی سابقہ ارشاد میں غلط ٹھہرادیاتھااوردوسرے مقام پر یہ تو مان لیاکہ تاریخ بغداد میں منصفا اورمتصفاکے الفاظ ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ دائرۃ المعارف سے شائع مضعفاکے الفاظ سے بھی چمٹے رہنا ضروری سمجھ رکھاہے۔کوئی غیرمقلد اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اور خدا کو گواہ بناکر کہے کہ اگر ائمہ احناف کی تعریف میں کوئی بات کسی ایک کتاب میں ہوتی اور اسی کی نقل دیگر کتابوں میں اس کے برخلاف ہوتی توکیا زبیر علی زئی اسے ٹھنڈے پیٹ برداشت کرلیتا،یاپھر تحریف اور تصحیف کااعلان بالجہر کرچکاہوتا۔
دوسری بات یہ عرض کرنی ہے کہ زبیر علی زئی بسااوقات فرماتے ہیں کہ اوثق اور اقدم کی بات معتبر ہوگی چنانچہ جبحافظ سیوطی نے امام ابوحنیفہ کی صحابہ کرام کی رویت کیلئے دارقطنی کا حمزہ سہمی کے ذریعہ یہ قول نقل کیا:
لم یلق ابوحنیفۃ احدا من الصحابۃ الاانہ رأی انساًبعینہ ولم یسمع منہ (تبییض الصحیفۃ ۱۳)
اس پرزبیر علی زئی نے سوالات السہمی اورتاریخ بغداد سے امام دارقطنی کا قول نقل کیاکہ نہ رویت ثابت ہے اورنہ روایت ثابت ہے،اوراس قول کو محرف قراردیتے ہوئے لکھا:
یہ تحریف شدہ متن اصل مستند کتابوں کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے مردود ہے (الحدیث ۱۷؍۱۹)
سوال یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کے صحابہ کرام کی رویت کا معاملہ پیش آیاتو متقدم کتاب کو اصل قراردے کر متاخر کتاب کا محرف قراردیاگیالیکن جب معاملہ مضعفااورمنصفاکا ہوا تویہ سارااصول طاق پر دھرارہ گیا اور تاریخ بغداد میں ہی غلطی سے منصفا چھپ گیا،اس غیرمقلدانہ اور سلفیانہ تحقیق اور ایمانداری پر کیوں نہ قربان جایاجائے،اس علمی خیانت کے باوجود یہ حضرات اتنے زور وشور سے دوسروں کو بے ایمانی کے طعنے دیتے ہیں کہ اسے دیکھ کر وہی مثل یادآجاتی ہے کہ چورمچائے شور ۔
واضح رہے کہ دارقطنی کا یہ قول کہ رویت ثابت ہے اور روایت ثابت نہیں ،ابن عراق کنانی نے حافظ ابن حجر سے بھی نقل کیاہے جیساکہ تنزیہ الشریعۃ میں موجود ہے ۔
وَقَالَ الْحَافِظ ابْن حجر فِي اللِّسَان: وَقد وَقع لنا هَذَا الحَدِيث من وَجه آخر أخرجه ابْن النجار وَهُوَ بَاطِل أَيْضا فَذكره، ثمَّ قَالَ: وَقَالَ حَمْزَة السَّهْمِي: سَمِعت الدَّارَقُطْنِيّ يَقُول: لم يلق أَبُو حنيفَة أحدا من الصَّحَابَة، إِنَّمَا رأى أنسا بِعَيْنِه وَلم يسمع مِنْهُ.واضح رہے کہ دارقطنی کا یہ قول کہ رویت ثابت ہے اور روایت ثابت نہیں ،ابن عراق کنانی نے حافظ ابن حجر سے بھی نقل کیاہے جیساکہ تنزیہ الشریعۃ میں موجود ہے ۔
(تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة1/272)
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ تین حفاظ حدیث نے دارقطنی سے یہی نقل کیاہے کہ امام ابوحنیفہ کی حضرت انس سے رویت ثابت ہے روایت ثابت نہیں ہے ؛لیکن اس کے باوجود یہ قول محرف ہے کیونکہ ابن جوزی اور سوالات سہمی میں اس کے برخلاف ہے ،جب کہ مضعفا کا قول تاریخ بغداد کے محض دائرۃ المعارف والے نسخہ میں ہے ،جب کہ لسان المیزان کی ہی دیگر اشاعتوں مین اس کو منصفاًلکھاگیاہے اور تاریخ بغداد ومابعد کی تمام کتابوں میں منصفاہی ہے،اس کے باوجود یہ قول محرف نہیں ہے۔ایسے برخود غلط لوگ جب علم دین کی پیشوائی کریں گے تو ان کے شاگرد اورعقیدت کیش دین وایمان پر جوبھی نشترنہ چلائیں وہ کم ہے۔
إذا كان ربُّ البيت بالطبل ضارباً
فلا تلُمِ الأطفالَ فيه على الرقص.
نوٹ :واضح رہے کہ موجودہ لسان المیزان کے نسخوں میں دارقطنی کا قول محض عدم ملاقات تک ہے رویت کی بات اس میں نہیں ہے۔
وقال حمزة السهمي: سمعت الدارقطني يقول: لم يلق أبو حنيفة أحدا من الصحابة.(۱؍۶۱۶)
ممکن ہے کہ ابن عراق کنانی کے پاس لسان المیزان کا جو نسخہ ہو ،اس میں پوری بات ہو۔
ترجمہ کی گلفشانی:
زبیر علی زئی نے واقع میں عربی سے ارد وترجمہ میں اجتہادواستنباط کی دنیا آباد کی ہے،ہرقدم پر ان کا ترجمہ نظروفکر کو اپنی جانب متوجہ کرتاہے اور نئے نئے جلوے دکھاتاہے،اب یہی دیکھئے کہ منصفا فی الحدیث کا انہوں نے کتنا شاندار ترجمہ کیاہے۔
وقال حمزة السهمي: سمعت الدارقطني يقول: لم يلق أبو حنيفة أحدا من الصحابة.(۱؍۶۱۶)
ممکن ہے کہ ابن عراق کنانی کے پاس لسان المیزان کا جو نسخہ ہو ،اس میں پوری بات ہو۔
ترجمہ کی گلفشانی:
زبیر علی زئی نے واقع میں عربی سے ارد وترجمہ میں اجتہادواستنباط کی دنیا آباد کی ہے،ہرقدم پر ان کا ترجمہ نظروفکر کو اپنی جانب متوجہ کرتاہے اور نئے نئے جلوے دکھاتاہے،اب یہی دیکھئے کہ منصفا فی الحدیث کا انہوں نے کتنا شاندار ترجمہ کیاہے۔
اور وہ (ابویوسف)حدیث میں منصف(درمیانہ )تھا(تاریخ بغداد ۱۴؍۲۶۰ وسندہ صحیح)یعنی وہ روایت حدیث میں آدھے راستہ پر تھا۔
یہ اتنا شاندار ترجمہ ہے کہ ان کے عقیدت مندوں کو اپنے گھر میں فریم کراکر رکھ لیناچاہئے،چونکہ ہم عربی لغت میں اجتہاد کے منصب پر فائز نہیں ہیں ،یہ مقام تو صرف زبیر علی زئی جیسے لوگوں کو ہی حاصل ہے ،کہ وہ اپنی خداد طبعیت سے نکتہ آفرینی کرتے ہوئے عربی الفاظ کے نت نئے معنی تراشتے رہتے ہیں،جن کا عربوں اوراہل زبان حضرات کو بھی خیال تک نہیں گزرتا،کاش کوئی غیرمقلد طالب علم ہمت کرکے ان کی عربی دانی اور عربی الفاظ میں نئے معانی کےا جتہاد پر پی ایچ ڈی یادکتوراہ کرےتاکہ عربوں کے سامنے زبیر علی زئی کی خدمات نمایاں ہوکر سامنے آسکیں ،یہ ہمت خضرحیات صاحب بھی کرسکتے ہیں(ابتسامہ)
ہم نے کتابوں میں تلاش کیاتو ہمیں کہیں منصفا فی البحث کا جملہ ملا،کہیں منصفا فی العلم کا،کہیں منصفا فی المذاکرۃ کا ،کہیں منصفا فی الرعیۃ کا وغیرہ ذلک،اب اگر زبیر علی زئی والا ترجمہ کیاجائے تو پھر اہل زبان اگر غش کھاکرنہ گریں توکیاکریں ۔
تیراپتہ نہ پائیں تو ناچار کیاکریں
مُنصفاکا ترجمہ درمیان اور آدھے راستہ میں کرنے کی غلطی کی وجہ یہ ہے کہ زبیر علی زئی نے کہیں کسی عربی لغت میں جو بغیر اعراب کے ہوگی اس میں شاید دیکھ لیاہوگاکہ منصف کا ترجمہ نصف طریق کاہے ،جب کہ وہ تھوڑی تلاش اور تحقیق کرتے –جس تحقیق کا ان کو دعویٰ ہے-تومعلوم ہوتاکہ جس لفظ کا ترجمہ نصف طریق ہے وہ مصنف م کے پیش کے ساتھ نہیں بلکہ منصف م کے زبر کے ساتھ ہے۔
الْمَخْرَفُ: الْبُستانُ. والْمَخْرَفُ: الْطَّريقُ. ومَزْحَفُ الْحَيَّةِ: مَدَبُّها. والْمَنْصَفُ: نِصْفُ الْطَّريقِ
(مجعم دیوان الادب1/282)الْمَخْرَفُ: الْبُستانُ. والْمَخْرَفُ: الْطَّريقُ. ومَزْحَفُ الْحَيَّةِ: مَدَبُّها. والْمَنْصَفُ: نِصْفُ الْطَّريقِ
مزید دیکھئے
والنَّصفة: الْخُدّام، واحدهم ناصِف. والمَنْصفُ من الطَّرِيق وَمن النَّهار وَمن كل شَيْء وسَطُه.
(تہذیب اللغۃ12/143)
وَمِنْهُ الْحَدِيثُ «حَتَّى إِذَا كَانَ بِالْمَنْصَفِ» أَيِ الْمَوْضِعِ الوَسَط بَيْنَ الموضِعين.
(النهاية في غريب الحديث والأثر5/66)
کیااب بھی زبیر علی زئی کی عربی زبان وادب کی کم مائیگی کسی مزید دلیل کی محتاج ہے۔فبای حدیث بعدہ یومنون
Last edited: