• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

النصر الربانی فی ترجمہ محمد بن الحسن الشیبانی

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ابن عبدالحکم نے کہا:میں نے (محمد بن ادریس،امام)شافعی کو فرماتے سنا،محمد بن الحسن نے کہا:میں(امام)مالک کے دروازے پر تین سال کھڑا رہاہوں، اوران کے اپنے الفاظ سے ،سات سو سے زیادہ حدیثیں سنی ہیں۔
ابن المنذر نے کہا:میں نے(امام)المزنی سے سنا،وہ کہتے ہیں کہ میں نے (امام)شافعی سے سناکہ:میں نے محمد بن الحسن سے زیادہ ہلکی چال چلنے والا کوئی موٹا نہیں دیکھااورنہ ہی اس سے زیادہ کوئی فصیح دیکھاہے۔
واقعی..... ہنسی بھی آئی اور حیرت بھی ہوئی اس ترجمے پر.
امام مالک کے دروازے پر تین سال "کھڑا رہا ہوں"
یہ ترجمہ تو میرا خیال ہے عام عقل سے سوچنے پر بھی عجیب لگتا ہے. کوئی شخص تین سال کیسے کھڑا ہو سکتا ہے؟ اس کا مطلب تو قیام کیا اور حاضر ہوا یا رہا کرنا ہی صحیح لگتا ہے.
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
قال محمد بن الحسن: أقمت على باب مالك ثلاث سنين
واقعی..... ہنسی بھی آئی اور حیرت بھی ہوئی اس ترجمے پر.
امام مالک کے دروازے پر تین سال "کھڑا رہا ہوں"
یہ ترجمہ تو میرا خیال ہے عام عقل سے سوچنے پر بھی عجیب لگتا ہے. کوئی شخص تین سال کیسے کھڑا ہو سکتا ہے؟ اس کا مطلب تو قیام کیا اور حاضر ہوا یا رہا کرنا ہی صحیح لگتا ہے.
آپ کو ترجمہ پر حیرت و ہنسی آتی ہے کہ کوئی شخص تین سال کیسے کھڑا ہو سکتا ہے!
تو یہ اعتراض آپ کو محمد بن الحسن شیبانی پر کرنا چاہیئے کیونکہ انہوں نے اسے عربی محاوہ میں استعمال کیا!
یقناً وہ تین سال امام مالک کے دروازہ کے آگے تین سال ایک ٹانگ یا دونوں ٹانگوں پر کھڑے نہیں رہے، لیکن عربی میں اسی طرح کلام کیا جاتا ہے!
اور اسی طرح اردو میں بھی ایسا ہی ہے!
اور اس کا مطلب ومفہوم وہی ہے!
لیکن علم الکلام میں جھک مار مار کر کلام کو سمجھنے کی مت ماری جائے! تو ایسا ہی ہوتا ہے!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!



آپ کو ترجمہ پر حیرت و ہنسی آتی ہے کہ کوئی شخص تین سال کیسے کھڑا ہو سکتا ہے!
تو یہ اعتراض آپ کو محمد بن الحسن شیبانی پر کرنا چاہیئے کیونکہ انہوں نے اسے عربی محاوہ میں استعمال کیا!
یقناً وہ تین سال امام مالک کے دروازہ کے آگے تین سال ایک ٹانگ یا دونوں ٹانگوں پر کھڑے نہیں رہے، لیکن عربی میں اسی طرح کلام کیا جاتا ہے!
اور اسی طرح اردو میں بھی ایسا ہی ہے!
اور اس کا مطلب ومفہوم وہی ہے!
لیکن علم الکلام میں جھک مار مار کر کلام کو سمجھنے کی مت ماری جائے! تو ایسا ہی ہوتا ہے!
لیں جی @رحمانی بھائی! ایک اور آ گئے.
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
لیں جی @رحمانی بھائی! ایک اور آ گئے.
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

من ترا ملا بگویم ۔۔ تو میرا حاجی بگو
میں تو یہ عرض کر رہا تھا کہ "شیخ زبیر علی زئیؒ" والا معنی اخذ کرنے والے "ایک اور" آ گئے۔ میں نے کسی کی تعریف تو نہیں کی تھی لیکن جنہیں اتنی سی بات بھی سمجھ نہ آئے تو پھر ظاہر ہے وہ ایسا ہی"ترجمہ" کریں گے اور کر کے آگے سے اسے "عربیت" اور "اردو" ادب کے مطابق بھی قرار دیں گے۔ ابتسامہ
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
قال ابن عبد الحكم: سمعت الشافعي يقول: قال محمد بن الحسن: أقمت على باب مالك ثلاث سنين وسمعت من لفظه أكثر من سبع مِئَة حديث.


اس روایت کے تعلق سےوہ حاشیہ میں لکھتے ہیں:

یہ روایت مع سند تاریخ بغداد(ج۲ص۱۷۳،ت۵۹۳)میں ہے ،خطیب بغداد نے یہ روایت دو سندوں سے بیان کی ہے، اول:عبداللہ بن محمد بن زیاد النیسابوری ،یہ سند صحیح ہے ؛لیکن خطیب نے اس کا متن نہیں لکھا،دوسری سند میں محمد بن عثمان القاضی کذاب ہے ۔دیکھئے میزان الاعتدال(ج۳ص۶۴۳،ت۷۹۳۵)خطیب رحمہ اللہ نے اس کذاب کا بیان کردہ متن لکھاہے،لہذا یہ روایت مردود ہے۔


زبیر علی زئی کے متعلق ان کے ’’محبین‘‘قصیدے پڑھتے ہیں کہ وہ آسمان علم سے تارے توڑ کر لاتے تھے ؛لیکن غلطیاں وہ ایسی کرتے ہیں جو ایک معمولی طالب سے بھی ممکن نہیں ،حدیث سے واقفیت رکھنے والا ہرطالب علم جانتاہے کہ جب کوئی محدث ایک متن کو کئی سند سے بیان کرے تو وہ متن ہرسند سے مروی ہوتی ہے؛ح یاتحویل کا مسئلہ اصول حدیث سے تھوڑی شدبد رکھنے والا بھی طالب علم جانتاہے ،جس نے سرسری طورپر مسلم شریف پڑھی ہے،وہ بھی جانتاہےکہ تحویل اسناد کیاہوتی ہے اورایک سے زائد سندوں سے اگر کوئی متن مروی ہو تو وہ ہرسند کی متن شمار ہوتی ہے نہ کہ صرف اس سند کی متن شمار ہوتی ہے جس کے بعد اسے ذکر کیاگیاہے۔

شاید ایسااس لئے کہ زبیر علی زئی نے اہل علم کے طریقہ پر علم کا حصول نہیں کیاہے،نہ کسی مدرسہ میں پڑھنے کی توفیق اسے ہوئی ہے،بلکہ خود سے ذاتی مطالعہ کیاہے اوربعض کتب حدیث کے اوائل واطراف کی حدیثیں پڑھ کر اجازت حدیث حاصل کرلی ہے،جس کو میاں نذیر حسین صاحب چپڑاسی سند کہاکرتے تھے۔دیکھئے(الحیاۃ بعد الممات ،ص:68،بحوالہ تناقضات زبیر علی زئی ص:19))اب ایسے چپڑاسی سند والوں کی تحقیق بھی تو’’چپڑاسیانہ‘‘ہی ہوگی، اہل علم کے طریق ومنہج پر تونہیں ہوگی۔

اگر زبیر علی زئی اصول حدیث کا یہ عام اصول بھی نہیں جانتے تھے تو ان کی قابلیت مشتبہ ہےاوراگرجانتے بوجھتے انہوں نے اس طرح کی دھوکہ بازی کی ہے تو قابل اعتبار نہیں ۔

اگرزبیر علی زئی محقق سلفی جماعت تھوڑی سی تحقیق کی زحمت گواراکرلیتے توانہیں معلوم ہوجاتاکہ ابن ابی حاتم کی تصنیف’’ آداب الشافعی ومناقبہ ‘‘میں یہ روایت محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم کے واسطہ سے موجود ہے اوراس کی سند سورج کی طرح روشن ہے۔

أنا أَبُو مُحَمَّدٍ، ثنا أَبِي، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ: " كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ يَقُولُ: سَمِعْتُ مِنْ مَالِكٍ سَبْعَ مِائَةِ حَدِيثٍ وَنَيِّفًا إِلَى الثَّمَانِ مِائَةِ لَفْظًا، وَكَانَ أَقَامَ عِنْدَهُ ثَلاثَ سِنِينَ أَوْ شَبِيهًا بِثَلاثِ سِنِينَ ".(آداب الشافعی ومناقبہ،ص:171)

مجھے واقعتاسخت حیرت ہے کہ ابن ابی حاتم کی یہ کتاب تقریباً ہر عالم کے کتب خانہ کی زینت ہوتی ہے،زبیر علی زئی نے متعدد مرتبہ دیگر مقامات پر اس کتاب کے حوالے دیئے ہیں ؛لیکن اس مقام پر وہ اس کتاب کو بالکلیہ ہی بھول گئے،شاید یہ تجاہل عارفانہ ہے۔

وقال ابن المنذر: سمعت المزني يقول: سمعت الشافعي يقول: ما رأيت سمينا أخف روحا من محمد بن الحسن وما رأيت أفصح منه.
اس روایت کے بارے میں زبیر علی زئی حاشیہ میں لکھتے ہیں:
یہ روایت مع سند تاریخ بغداد(ج۳ص۱۷۵)پرموجود ہے،اس کا ایک(راوی)الحسین بن جعفرالعنزی)ہے،جس کا تعین معلوم نہیں،ایک العنزی بغیر کسی توثیق وتجریح کے سیر اعلام النبلا(ج۱۷ص۶۲)میں مذکور ہے جو الامام الفقیہ تھا،اس کا مقام صدوق کا مقام ہے،دوسرا حسین بن جعفر الجوزجانی(الجرجانی)مجروح ہے، دیکھئے لسان المیزان(ج۲ص۲۷۷)


حقیقت یہ ہے کہ اس مقام پر بھی زبیر علی زئی کو وہم ہواہے،یہاں پر یقینی طورپر مراد حسین بن جعفر سے مراد وہی ہیں جوزبیر علی زئی کی نگاہ میں بھی ’’صدوق کا مقام‘‘رکھتے ہیں،دلیل اس کی یہ ہے کہ تاریخ بغداد میں راوی کے ساتھ عنزی کی نسبت بھی موجود ہے اورحسین بن جعفر العنزی وہی ہیں جو صدوق ہیں، دوسرے حسین بن جعفر کے بارے میں کچھ نہیں پتہ کہ ان کی نسبت کیا ہے؟،عنزی کی نسبت سے یہ بات واضح اورموکد ہوجاتی ہے کہ یہاں پر حسین بن جعفر العنزی ہی مراد ہیں، یہ سامنے کی بات تھی ؛لیکن زبیر علی زئی کو اس لئے نظرنہ آئی کہ وہ احناف کے حق میں جارہی تھی، اگریہی اس کے برعکس ہوتا یعنی اس راوی سے احناف کے خلاف کچھ مروی ہوتاتوپھر زبیر علی زئی کی’’پھرتیاں‘‘دیکھنے سے تعلق رکھتی۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
وقال الربيع: سمعت الشافعي يقول: حملت، عَن مُحَمد وقر بُخْتِيٍّ كتبا.
اس کا ترجمہ زبیر علی زئی نے کیاہے:
ربیع (بن سلیمان)نے کہا:میں نے شافعی کو فرماتے سناکہ:میں نے محمد(بن الحسن)سے (اپنے)اونٹ جتنے بوجھ کی کتابیں لی ہیں

اس ترجمہ میں بھی زبیر علی زئی نے حسب معمول گلفشانی کی ہےاور عربی زبان میں اپنے اجتہاد کا ثبوت پیش کیاہے۔زبیر علی زئی نے بختی سے سمجھاکہ بخت کے معنی اونٹ کے ہیں اور بختی کی ی ضمیر متکلم ہے،حالانکہ اس موقع پر بھی وہ خود کو اجتہاد کی بلندی سے تھوڑا نیچے لاکر اس لفظ کے معانی کتب لغت میں دیکھ لیتے تو ایسی فاش اورجاہلانہ غلطی سے محفوظ رہتے،الصحاح میں ہے:
[بخت] البَخْتُ: الجَدُّ، وهو مُعَرَّبٌ. والمبخوتُ المجدودُ. والبُخْتُ من الإبل، معرب أيضاً، وبعضهم يقول: هو عربيٌّ، وينشد:’’لَبَنَ البُخْتِ في قصاع الخلنج ‘‘الواحد بختى، والانثى بختية، وجمعه بخاتى(الصحاح تاج اللغة وصحاح العربية1/243)
[البُخْتِيّ]: واحد البُخْت، وهي الإِبل الخراسانية «2». يقال هي لغة عربية، ويقال:إِنها أعجمية معرّبة ( شمس العلوم ودواء كلام العرب من الكلوم 1/442)
فِيهِ «فأُتي بِسَارِقٍ قَدْ سَرَقَ
بُخْتِيَّة» البُخْتِيَّة: الْأُنْثَى مِنَ الجِمال البُخْت، وَالذَّكَرُ بُخْتِيّ، وَهِيَ جِمال طِوَال الْأَعْنَاقِ، وتُجْمع عَلَى بُخْت وبَخَاتِيّ، وَاللَّفْظَةُ مُعَرَّبَةٌ.( النهاية في غريب الحديث والأثر1/101)


ان تمام عربی لغات کے اقتباسات کا خلاصہ یہ ہے کہ بختی ب کے پیش اور خ کے جزم کے ساتھ خراسانی اونٹوں کوکہاجاتاہے، مذکر اونٹ کو بختی اور مونث کو بختیۃ کہتے ہیں،اس کی جمع بخت ،بخاتی وغیرہ ہوتی ہے،ب کے زبر اور خ کے جزم کے ساتھ قسمت ،نصیب اور تقدیر کے معنی میں فارسی سے معرب ہے۔
اب ہم کیا کہیں ،زبیر علی زئی کے دام الفت میں گرفتار خود ہی غورکریں کہ ان کا ممدوح کیساہے؟اس کی لیاقت کیسی ہے، اس کی علمی اوردینی صلاحیت کس پائے کی ہے؟یہ صحیح ہے کہ’’ دل لگے دیوار سے توپری کیاچیز ہے‘‘ پسند اپنی اپنی شوق اپنااپنا؛لیکن آدمی کو اپنا معیار تو ذرا اونچا رکھناچاہئے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
رحمانی صاحب زبیر علی زئی صاحب پر تعاقب لکھنے کی کوشش کر رہے ہیں ، میرے خیال میں انہیں مکمل کرنے دینا چاہیے ، تاکہ اگر کوئی ان کی تحریر کو پڑھنا چاہے تو تسلسل سے پڑھ سکے ، ان کا ’ تعاقب ‘ مکمل ہونے کے بعد دیگر احباب اس پر تبصرہ کریں تو زیادہ بہتر ہے ۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
زبیر علی زئی نے اس کے بعد کچھ اقوال نقل کئے ہیں جیسے کہ شریک نے امام محمد کی شہادت اس بناء پر رد کردی کہ وہ نماز کو ایمان میں سے نہیں سمجھتے تھے یاابویوسف کا قول کہ محمد بن الحسن مجھ سے جھوٹی باتیں منسوب کرتے ہیں ،ان اقوال کی سند کوزبیر علی زئی نے خود ہی ضعیف قراردیاہے،لہذا اس کی سند پر بحث کی ضرورت نہیں،لیکن اگر یہ سند ثابت ہوتی توبھی اس سے امام محمد بن الحسن کا ضعف ثابت نہیں ہوتا۔

احناف اوراہل الحدیث میں اعمال کے جزوایمان ہونے اورنہ ہونے کی بحث لفظی ہے ،جیساکہ ابن تیمیہ نے بھی کہاہے کیونکہ نتیجہ کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں رہ جاتاہے۔احناف اعمال کو جزو ایمان نہ مان کر بھی کہتے ہیں اعمال کا انجام نہ دینے والا فاسق وفاجر ہے ،کافر نہیں ہے اوراس کا معاملہ اللہ کی مشیت اور رضا پر ہے، چاہے توبخش دے اور چاہےتوعذاب دے اوراعمال کو جزوایمان مان کر بھی یہی بات اہل حدیث حضرات کہتے ہیں تونتیجہ کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں،اختلاف لفظی ہے،اورلفظی اختلاف کی بنیاد پر کسی کی شہادت رد کردینا قطعاًمناسب نہیں ہے۔

جہاں تک بات امام ابویوسف کے قول کی ہے تویہ بات واضح رہنی چاہئے کہ اگرچہ امام محمد امام ابویوسف کے شاگرد ہیں ؛لیکن آخر عمر میں بعض وجوہات کی بنیاد پر دونوں میں سخت اختلاف پیداہوگیاتھا،جیساکہ ان کے سوانح نگاروں نے ذکر کیاہے ،حتی کہ یہ اختلاف یہاں تک پہنچا کہ جب امام ابویوسف کا انتقال ہوا توامام محمد ان کے جنازہ میں شریک نہیں ہوئے، جب معاملہ سخت اختلاف کا ہوتوایک کی دوسرے کے بارے میں رائے قبول نہیں کرنی چاہئے،جیساکہ اس پر حافظ ابن عبدالبر نے جامع بیان العلم وفضلہ میں ایک پورا باب قائم کیاہے اورجیساکہ سبکی نے طبقات شافعیہ میں اس پر تفصیل سے لکھاہے اورجس کو شیخ عبدالفتاح ابوغدہ نے الگ سے اس کو ’’قاعدۃ فی الجرح والتعدیل وقاعدۃ فی المورخین‘‘کے نام سے شائع کیاہے۔
آگے زبیر علی زئی نے مشہور محدث اورناقد رجال ابن عدی کا قول امام محمد کے بارے میں نقل کیاہے۔

قال ابن عدي: ومحمد لم تكن له عناية بالحديث وقد استغنى أهل الحديث عن تخريج حديثه
اوراس کا ترجمہ کیاہے:
ابن عدی نے کہا:محمد(بن الحسن)کی توجہ حدیث پر نہیں تھی(یعنی اسے صرف رائے وقیاس کا دفاع ہی محبوب تھا)اہل حدیث(محدثین کرام اورمتبعین حدیث)اس کی بیان کردہ حدیثوں سے بے نیاز ہیں۔

اس ترجمہ میں زبیر علی زئی نے حسب معمول ’’مصنف کے منہ میں اپنی بات ڈالنے‘‘ کا کام کیاہے،عنایت کے معنی صرف توجہ لینا عربی کا اردو معنی مراد لینے جیساہے،آپ لغت میں دیکھیں گے تواس کے معنی مشغول رہنا،فکر مند رہنا اور بعض اوقات محنت ومشقت کے بھی آتے ہیں،ابن عدی کا منشاءجہاں تک میں سمجھ سکاہوں،یہی ہے کہ اس فن کو انہوں نے اپنااوڑھنابچھونا نہیں بنایا،اس کو اپنی توجہ کا مرکز نہیں بنایا لیکن جملے ایسے استعمال کئے جس سے غلط فہمی ہوتی ہے کہ حدیث سے ان کا کوئی لگائو ہی نہیں تھا،اوراس کی دلیل یہ ہے کہ حافظ ابن حجر کا یہ اقتباس درمیان کا ہے، ابن عدی کا قول یہاں سے شروع ہوتاہے۔

ومحمد بْن الحسن هذا ليس هُوَ من أهل الحديث، ولاَ هُوَ ممن كَانَ فِي طبقته يعنون بالحديث حتى أذكر شيئا من مسنده عَلَى أنه سمع من مالك الموطأ وكان يقول لأصحابه ما رأيت أسوأ ثناء منكم عَلَى أصحابكم إذا حدثتكم عن مالك ملأتم علي الموضوع، وَإذا حدثتكم عن غيره تجيئوني متكارهين(الکامل فی ضعفاء الرجال7/278)
اس پیراگراف میں دیکھاجاسکتاہے کہ ابن عدی اس کا بڑی صراحت سے اعتراف کررہے ہیں کہ امام محمد نےامام مالک حدیث کی سماعت کی ہےاوراس کے بعد بھی انہوں نے درس حدیث کا شغل جاری رکھاتھا،اس کے باوجود یہ کہناکہ ان کاحدیث سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا ،ایک انتہائی غلط بات ہوگی، ہاں یہی مراد صحیح ہوسکتی ہے کہ انہوں نے حدیث کو بطور فن نہیں اپنایاتھا۔

اب ایک اعتراض ہوگاکہ پھر ابن عدی نے اس طرح کے الفاظ استعمال ہی کیوں کیے، جواب یہ ہے کہ انسان کواگرکسی سے محبت ہوتی ہے تووہ الفاظ میں احتیاط برتتا ہے کہ کوئی لفظ شان کے خلاف نہ نکل جائے،لیکن اگرکسی کو کسی سے کوئی تعلق نہیں یاایک گونہ بیزاری ہے توپھر الفاظ پر دھیان نہیں دیتا،بس مطلب کسی طرح اداہوجائے۔

اس کی مثال یہ ہے کہ امام ابویوسف کے ترجمہ میں ابن سعد نے لکھاکہ انہوں نے حدیث کی تحصیل کی ،پھر ان پر فقہ غالب آگیا اور حدیث ساتھ انہوں نے ظلم کیا:

وكان يعرف بالحفظ للحديث. وكان يحضر المحدث فيحفظ خمسين وستين حديثًا فيقوم فيمليها على الناس. ثم لزم أبا حنيفة النعمان بن ثابت فتفقه وغلب عليه الرأي وجفا الحديث(الطبقات الکبریٰ لابن سعد۷؍۲۳۹)

اس کا ترجمہ زبیر علی زئی امام ابویوسف پرلکھے گئے مضمون میں یوں کرتاہے:
وہ حفظ حدیث کے ساتھ معروف تھا،....پھر اس نے ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کی شاگردی کی توفقہ سیکھی اوراس پر رائے غالب آگئی اوراس نے حدیث کے ساتھ ظلم کیا(علمی ،تحقیقی واصلاحی مقالات 1/545)

یہاں بھی مسئلہ وہی ہے کہ ابن سعدنے یہ کہنے کے بجائے کہ انہوں نے حدیث کو بطور مشغلہ یامقصد حیات اختیار نہیں کیا،یہ تعبیر اختیار کی ہے کہ انہوں نے حدیث پر ظلم کیا،اگر حدیث پڑھ کر فقہ کی جانب متوجہ ہونے کامطلب ’’حدیث پر ظلم ‘‘ہے توامام شافعی کے بارے میں کیا ارشاد ہوگا،انہوں نے کون سا درس حدیث جاری کررکھاتھا،چونکہ ان کے اتباع میں محدثین بڑی کثرت سے ہوئے ،انہوں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی حدیثیں جمع کی ،ورنہ ان سے بھی حدیث کا درس جاری نہیں ہوا ہے،امام شافعی کو چھوڑ دیں ،ان کے علاوہ بھی ایسے ائمہ گزرے ہیں جنہوں نے حدیث کی تحصیل کے بعد فقہ کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونابنایا،اس کا مطلب حدیث پر ظلم یاحدیث سے بالکلیہ بے پرواہی اورغفلت نکلنا درست نہیں ہوگا۔

ویسے یہ حقیقت ہے کہ ابن عدی یوں تو معتدل کہے جاتے ہیں اورہیں بھی ،لیکن احناف کے باب میں ان کا ااعتدال نہ جانے کہاں غائب ہوجاتاہے،امام ابوحنیفہ کے باب میں توانہوں نے انتہاکردی کہ امام ابوحنیفہ کی نیت پر ہی حملہ کرنے لگے کہ انہوں نے ایسااس وجہ سے کیاہے۔

وروى عن الحسن بْن عمارة وهذا زاد أَبُو حنيفة فِي إسناده جَابِر بْن عَبد اللَّه ليحتج بِهِ فِي إسقاط الحمد عن المأمونين
حدیث میں غلطی اوروہم کسی سے بھی ہوسکتاہے ؛لیکن اس کی بنیاد پر نیت پرحملہ کرنا کہ انہوں نے اس مقصد سے ایساکیاہے،اس کی خبر ان کو کیسے ہوگئی ،کیاوہ عنداللہ اس کے لئے ماخوذ نہیں ہوں گے،یااس کو بھی جرح وتعدیل کے کھاتہ میں ڈال کر بری کردیاجائے گا۔

حیرت ہے کہ ابن عدی اپنی اس کتاب میں ایک سے ایک کذاب اورفساق وفجار کی حدیثیں ذکرکرتے ہیں، ان حدیثوں میں جوخرابی ہوتی ہے،اس کو بیان کرتے ہیں ،راوی پر حکم لگاتے ہیں،لیکن امام محمد کے ترجمہ میں یہ سب کچھ غائب ہے،بس یہ ہے کہ ان کا شمار اہل حدیث میں نہیں ہے،حدیث سے ان کا لگائونہیں ہے،اوراہل حدیث ان کی تخریج سے بے نیاز ہیں، کیا ابن عدی کے مذکورقول میں سے کچھ بھی ایساہے کہ جس کو جرح ماناجائے، اہل حدیث نہ ہونا جرح نہیں ہے، حدیث سےاشتغال نہ رکھنا بھی جرح نہیں ہے،محدثین کا کسی کی حدیث کی تخریج نہ کرنابھی جرح نہیں ہے،ایسابھی نہیں ہے کہ ان کو موطاامام محمد کا پتہ نہ ہو،اس کا ذکر انہوں نے خود کیاہے،میراخیال یہ ہے کہ اس طرح کی صورت حال تب پیداہوتی ہے کہ جب آپ کسی کو ملزم ٹھہرانے پر بضد ہوں لیکن آپ کے پاس کوئی ثبوت بھی نہ ہو تودرمیانی راستہ یہی رہ جاتاہے کہ گول مول باتیں بناکرآگے بڑھاجائےاوریہی وجہ ہے کہ انہوں نے نہ امام محمد کی کسی حدیث کا ذکر کرکے اس کی خامی اورخرابی بیان کی اورنہ ہی امام محمد پر ہی حکم لگایا کہ وہ بطور راوی کیسے ہیں؟

جہاں تک امام محمد بن الحسن کے علم حدیث میں مہارت کا سوال ہے تویہ ان کی علم حدیث اورفقہ میں لکھی گئی کتابوں سے واضح ہوجاتاہے، امام محمد کے اساتذہ میں سفیان ثوری ،سفیان بن عیینہ اور دیگر کبار حفاظ ومحدثین بلکہ متعدد امیر المومنین فی الحدیث ہیں، خود امام مالک سے برسوں استفادہ کیا ،موطا امام محمد اورالحجۃ علی اھل المدینہ اورکتاب الآثار اس الزام کو بخوبی دفع کررہی ہیں ان کا حدیث سے کوئی اشتغال نہیں تھا،اس کے علاوہ ان کی فقہ پر لکھی کتابوں میں بھی حدیث کا بالخصوص السیر الکبیر وغیرہ میں بکثرت ذکر ہے،ایسے میں علمی حدیث سے عدم اشتغال کی بات دلائل کی روشنی میں تو بالکل ہی ناقابل التفات ہے،ابن عدی ان تمام امور کو نظرانداز کرکے نادرشاہی حکم سناتے ہیں کہ اس شخص کا حدیث سے کوئی تعلق نہیں ،محدثین کے انہی رویوں کو دیکھ کر جمال الدین قاسمی -جو خود اہل حدیث تھے، ان -کو مجبورا ًلکھناپڑا۔

وقد تجافى أرباب الصحاح الرواية عن أهل الرأي ، فلا تكاد تجد اسْمًا لهم في سند من كتب الصحاح أو المسانيد أو السنن، وإنْ كنت أعدّ ذلك في البعض تعصبًا، إذ يرى المُنْصِفُ عند هذا البعض من العلم والفقه ما يجدر أَنْ يَتَحَمَّلَ عنه، ويستفاد من عقله وعلمه، ولكن لكل دولة من دول العلم سلطة وعصبة ذات عصبية، تسعى في القضاء على من لا يوافقها ولا يقلدها في جميع مآتيها، وتستعمل في سبيل ذلك كل ما قدر لها من مستطاعها كما عرف ذلك من سبر طبقات دول العلم، ومظاهر ما أوتيته من سلطان وقوة، ولقد وجد لبعض المُحَدِّثِينَ تراجم لأئمة أهل الرأي يخجل المرء من قراءتها فضلاً عن تدوينها، وما السبب إلا تخالف المشرب على توهم التخالف، ورفض النظر في المآخذ والمدارك، التي قد يكون معهم الحق في الذهاب إليها، فإن الحق يستحيل أَنْ يكون وَقْفًا على فئة مُعَيَّنَةٍ دون غيرها، وَالمُنْصِفُ من دَقَّقَ في المدارك غاية التدقيق ثم حكم بَعْدُ.
(الجرح والتعديل للقاسمی،ص:32)
یہ پیراگراف تھوڑا طویل ضرور ہے لیکن زبیر علی زئی(کا پڑھنا توممکن نہیں )کے مداحان ضرور اس پیراگراف کو پڑھیں،اورسمجھنے کی کوشش کریں ،اس تحریر کے حاشیہ میں حاشیہ میں جمال الدین قاسمی لکھتے ہیں:
كالإمام أبي يوسف والإمام محمد بن الحسن فقد فقد لينهما أهل الحديث - كما ترى في " ميزان الاعتدال " - ولعمري لم ينصفوهما وهما البحران الزاخران، وآثارهما تشهد بِسَعَةِ عِلْمِهِمَا وَتَبَحُّرِهِمَا، بل بتقدُّمهما على كثير من الحفاظ. وناهيك كتاب " الخراج " لأبي يوسف و " موطأ " الإمام محمد. نعم كان ولع جامعي السُنَّةِ بمن طوف البلاد، واشتهر بالحفظ، والتخصص بعلم السُنَّةِ وجمعها، وعلماء الرأي لم يشتهروا بذلك لا سيما وقد أشيع عنهم أنهم يُحَكِّمُونَ الرَّأْيَ فِي الأثر، وإنْ كان لهم مرويات مسندة معروفة، رضي الله عن الجميع، وحشرنا وإياهم مع الذين أنعم الله عليهم.

اس اقتباس کو اہل حدیث حضرات خود غور سے پڑھیں کہ یہ ان کے ہی ہم مسلک ایک فرد کی جانب سے لکھی گئی ہے،اب ابن عدی کے اس قول کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے ہوسکتاہے کہ بعض حضرات کہنا شروع کردیں کہ یہ لوگ محدثین سے الگ اپنا اصول بناناچاہتے ہیں، سوال اصول بنانے کا نہیں ،سوال دلائل سے خالی اقوال کو تسلیم کرنے کا ہے،ایک قول کسی محدث کا ہمارے پاس ایساآتاہے کہ جو خارجی قرائن اوردلائل کے بالکلیہ برخلاف ہے، ایسے میں دورویے سامنے آتے ہیں :
ایک تو اہل حدیث حضرات کاہےکہ راوی اگرثقہ ہے تو مان لو ،اس سے تجاوز نہ کرو
دوسرا ہمارا ہےکہ نہیں خارجی قرائن اوردلائل کو بھی دیکھاجائے۔
اس کی مثال بعینہ یہی ہے کہ اگرکوئی شخص کہہ دے کہ کوا تمہارا کان لے گیا توایک رویہ یہ ہے کہ آپ کوا کے پیچھے بھاگنا شروع کردیں ،دوسرا رویہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ کان ٹٹول کر دیکھ لیں کہ اپنی جگہ پر ہے بھی یانہیں۔
 
Top