• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

النصر الربانی فی ترجمہ محمد بن الحسن الشیبانی

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
آپ لوگوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ آپ ایک عام راوی اورائمہ مسلمین دونوں کو ایک ہی ترازو میں تولناچاہتے ہیں،جب کہ اصول حدیث کی لکھی ہوئی تمام کتابیں یہ بات بہت وضاحت کے ساتھ بتارہی ہیں کہ ائمہ مسلمین جن کوامت کے درمیان عمومی قبولیت حاصل ہے، ان کی عدالت پر جرح کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔
یہ بھی ایک نمونہ ہے دلیل سے عاری جذباتی پوسٹ کا،کیامحدثین نے عقیدہ ومسلک کی وجہ سے جرح نہیں کیاہے؟کیامحدثین نے منافرت اورمعاصرت کی بنیاد پر جرح نہیں کیاہے؟ کیامحدثین نے بلاوجہ اور بغیرکسی دلیل اورحجت کے جرح نہیں کیاہے؟کیامحدثین نے اشتعال اورغصہ میں آکر جرح نہیں کیاہے،کیابعضے محدثین کوکسی خاص شہر والوں سے کد اورعناد نہیں تھا؟اگرنا میں جواب ہے تو پھر واضح کیجئے تاکہ دلائل سے آپ کی تسلی کی جائے اوراگرہاں میں جواب ہے تو جوبات آپ دیگر روات کے بارے میں مانتے ہیں وہی امام محمد کے بارے میں ماننے میں کیوں اتنی تکلیف ہونے لگتی ہے؟
امام مالک کے بارے میں اگر امام لیث کہیں کہ انہوں نے ستر حدیث کی مخالفت کی ہے توہم نہ مانیں لیکن اگرکوئی محدث یہ کہہ دے کہ امام محمد حدیث کے مخالف تھے تو بغیر تحقیق کے اسے بسروچشم تسلیم کرلیں اگرعجلی یہ کہہ دیں کہ امام شافعی قلیل الحدیث تھےتو صدہزار بار انکار، لیکن یہی بات ابوحنیفہ کے حق میں فورا تسلیم کرلیں ،اگر بعض اکابر فقہاامام احمد بن حنبل کو فقیہ تسلیم نہ کریں تو ان پر لعنت بھیجیں لیکن اگر یہی بات کوئی امام محمد کے تعلق سے کہے کہ وہ حدیث کے مخالف تھے تو مدعی سے زیادہ تسلیم کرنے کو تیار،یہ ہے انصاف اورعلمی غیرجانبداری کا نمونہ۔
اگرکوئی خدا کا بندہ کہے کہ ان اقوال کی تھوڑی تحقیق اورجانچ پرکھ کر لیں تواس کو کہاجائے۔

تاریخ کا ایک طالب علم اچھی طرح جانتاہے کہ اہل الرائے اوراہل الحدیث کے درمیان ایک دور میں کیسی مخاصمت تھی ،جس کو امام احمد بن حنبل نے مازلنانلعن اھل الرائے واھل الرائے یلعونناسے تعبیر کیاہے۔
اس طرح کے دورنگی روش سے علم وتحقیق کا بھلانہیں ہوتا،علم اورتحقیق مکمل غیرجانبداری چاہتے ہیں اورایک طالب کیلئے انصاف سے بڑھ کرکوئی اورخصلت نہیں ہے۔
غیرمقلدین عموما پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ احناف کو تمام محدثین سے ضد رہی ہے یہ بالکل خلاف واقعہ بات ہے،جومحدثین مسلکی طورپر احناف کے خلاف تھے اوراس بنیاد پر انہوں نے جرحیں کی ہیں، ان کا جواب احناف نے ضرور دیاہے،جیسے امام بخاری،ابن حبان ،خطیب بغداد وغیرذلک
لیکن جن محدثین نے اپنادائرہ کار صرف جرح وتعدیل تک محدود رکھا،ان کے بارے میں عمومی طورپر کسی بھی حنفی نے کبھی لب کشائی نہیں کی،امام مسلم کی جرح امام ابوحنیفہ پر ہے لیکن کیاکسی حنفی نے امام مسلم کو تنقید کا نشانہ بنایاہے،امام نسائی کی تنقید امام ابوحنیفہ پر ہے لیکن کیاکسی نے ان کو -سوائے متعنت ہونے کے جس کا دیگر کوبھی اعتراف ہے-تنقید کی ہے۔اس موقع پر یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جیسارویہ آپ دوسروں کے ساتھ روا رکھیں گے ،دوسرے بھی آپ کے ساتھ وہی رویہ روارکھیں گے ۔
کیاخوب سودانقدہے،اس ہاتھ دے ،اس ہاتھ لے​
نظیر اکبر آبادی کے کلام سے جی نہ بھراتوایک محدث کا حوالہ پیش کرتاہوں، امید ہے کہ اس سے افاقہ ہوگا۔
وقال إبراهيم بن هانئ: سمعت أبا داود يقع في ابن معين فقلت: تقع فيه. فقال: من جرَّ ذيول الناس جرُّوا ذيوله.

التَّكْميل في الجَرْح والتَّعْدِيل ومَعْرِفة الثِّقَات والضُّعفاء والمجَاهِيل2-286،ترجمہ ابن معین
غیر مقلدین آپ کے سر پر اس قدر سوار ہیں ، کہ ائمہ جرح و تعدیل میں بھی آپ کو یہی جھگڑا نظر آتا ہے ، بہر صورت دنیا گواہ ہے ، جو تعصب حنفی مذہب میں ہے ، کسی اور کے ہاں اس کا عشر عشیر بھی نہ ہوگا ، علامہ کوثری کی تأنیب الخطیب جیسی متعصبانہ کاوشیں جن کے حصے میں آئی ہیں ، انہیں عدل و انصاف والی بات کرتے ہوئے ذرا باک ہونی چاہیے ۔
میری عرض بالکل سادہ ہے کہ اگر آپ نے کسی کو میزان جرح و تعدیل میں تولنا ہے ، تواس میں اصول بھی اہل جرح و تعدیل کے ہی ہوں گے ۔
اگر امام محمد یا کسی حنفی بزرگ پر کسی محدث نے غلط جرح کی ہے ، تو اصول جرح و تعدیل کی روشنی میں ہی اس کا جواب دیا جائے ، اپنے خود ساختہ اصول بنانے کا مطلب تو یہی ہے کہ حقیقی اصول مطلب براری کے لیے کافی نہیں ہوسکے ۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
بہر صورت دنیا گواہ ہے ، جو تعصب حنفی مذہب میں ہے ، کسی اور کے ہاں اس کا عشر عشیر بھی نہ ہوگا ، علامہ کوثری کی تأنیب الخطیب جیسی متعصبانہ کاوشیں جن کے حصے میں آئی ہیں ،
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ بڑی جماعتیں عموماًفراخ دل اور وسیع القلب ہواکرتی ہیں اورچھوٹی جماعتوں کے اندر تنگ نظری اور تعصب زیادہ ہوتاہے،دنیا کی تاریخ سے گواہی چاہئےتو پھرعیسائیوں اوریہودیوں کا موازنہ کرلیجئے۔
عیسائیوں کے مقابلہ میں یہودیوں میں نفرت ،تنگ نظری اور تعصب کوٹ کوٹ کر بھراہواہوتاہے
اسلام میں اس کی مثال دیکھنی ہو تو سنیوں اورشیعوں کو دیکھ لیں۔
سنی عالم اسلام کی بڑی جماعت ہے اوراسی نسبت سے فراخ دل اور وسیع القلب ہے، شیعہ چھوٹی جماعت ہیں اور اسی نسبت سے تنگ نظر اور متنفر ہیں۔
سنی مسلمانوں میں سب سے بڑی تعداد حنفیوں کی ہےاورسب سے چھوٹی جماعت غیرمقلدوں کی ہے، اب اس تاریخی روشنی میں خود غورکرلیجئے کہ متعصب اورتنگ نظر کون ہے؟
علامہ کوثری کی تأنیب الخطیب جیسی متعصبانہ کاوشیں جن کے حصے میں آئی ہیں ، انہیں عدل و انصاف والی بات کرتے ہوئے ذرا باک ہونی چاہیے
اگر علامہ کوثری کی بات میرے ذمہ اس لئے لگائی جارہی ہے کہ وہ بھی حنفی اورمیں بھی حنفی توپھر تھوڑا آپ کو بھی آئینہ دکھاتاچلوں ،آپ خود کو جن محدثین کی جانب منسوب کرتے ہیں ان کی زبان کیسی تھی،حمیدی امام ابوحنیفہ کو ابوجیفہ مسجد حرام کے اندر فرمایاکرتے تھے، اولاًتواللہ نے تنابزبالالقاب سے منع کیاہے لیکن اگرکوئی بدبخت اس حکم قرآنی کونظرانداز کرنے پر ہی تلاہواہے تواس کیلئے مسجد حرام کا استعمال کیاجائے گا؟کیاشریف انسان کالب ولہجہ اسی طرح کا ہواکرتاہے؟
اگرآپ کہیں کہ حمیدی نے اپنے علم ودانست کی روشنی میں امام ابوحنیفہ کو گمراہ سمجھ کر اوردین کا مخالف جان کر یہ لہجہ اپنایاتھاتوکیا یہی عذر علامہ کوثری کی جانب سے نہیں ہوسکتاکہ انہوں امام ابوحنیفہ کو ولی اللہ اورامام المسلمین سمجھ کر ان پر سخت زبان میں اعتراض کرنے والوں پر سختی سے جواب دیا،ویسے ماقبل میں آپ پڑھ چکے ہیں
من جرَّ ذيول الناس جرُّوا ذيوله.
ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہو ویسی سنو
یاپھر اللہ نے کوئی سند نازل کردی ہے کہ کوئی محدث کسی کو کچھ بھی کہہ سکتاہے لیکن اگرکسی نے جواب میں کچھ کہنے کی کوشش کی تو پھر وہ دین کا دشمن اور متعصب ہے؟
یقین مانئے کہ اگر احناف واقعتا متعصب ہوتے تو جس طرح احناف کاصدیوں سے غلبہ رہاہے،آج محدثین کی جرح وتعدیل والی ایک بھی کتاب نہ ملتی،یہ تو احناف کی وسعت قلبی اور راوداری کی مثال ہے۔
ایک بات واضح رہے کہ آپ چاہے جتنے دائوپیج لگالیں ،اگرمحدثین کے کلام کو ماننے کا یہ مطلب ہے کہ ائمہ مسلمین کو گمراہ اورفاسق تسلیم کرلیاجائے تواس کیلئے کوئی ہوشمند انسان تیار نہیں ہوگا ، ہاں جن لوگوں نے اپنے خرمن عقل کو پہلے سے آگ لگارکھی ہے،ان سے کچھ بھی بعید نہیں ۔
اگر امام محمد یا کسی حنفی بزرگ پر کسی محدث نے غلط جرح کی ہے ، تو اصول جرح و تعدیل کی روشنی میں ہی اس کا جواب دیا جائے ، اپنے خود ساختہ اصول بنانے کا مطلب تو یہی ہے کہ حقیقی اصول مطلب براری کے لیے کافی نہیں ہوسکے
ماقبل میں جوکچھ ذکر کیاگیاہے،اس میں کون سا اصول خود ساختہ ہے ۔
جرح مبہم پر جواختلافات ہیں وہ ہرایک جانتاہے،اصولی بات یہی ہے کہ جرح مبہم مقبول نہیں ،لیکن چونکہ محدثین کا بیشتر کلام اسی قسم کا ہے،اس لئے کہاگیاکہ عام حالات میں اسے قبول کیاجائے گا،لیکن اختلافی حالات میں اسے قبول نہیں کیاجائےگا۔
معاصرت کی بنیاد پر کی گئی جرح ناقابل قبول ہے،کیایہ ہمارا بنایاہوا اصول ہے؟
مسلک اورعقیدہ کی بناپر جرح ناقابل قبول ہے کیایہ ہمارا بنایاہوا اصول ہے؟
کسی خاص شہر والوں پر تحامل کی بناء پر جرح ناقابل قبول ہے،کیایہ ہمارا بنایاہوا اصول ہے؟
فقہ واستنباط کی بنیاد پر کی گئی جرح کا اعتبار نہیں ،کیایہ ہمارا بنایاہوا اصول ہے؟
اگر یہ سب کتب اصول حدیث میں موجود ہے تو پھر اس کو ہمارے سرتھوپنے کی کیاوجہ ہے؟
اگرہم اس کاجائزہ لیں کہ امام محمد پر کون سی جرح عقیدہ کی بنیاد پر ہے اوراس کوناقابل اعتبار بایں بناقراردیں کہ راوی کے عقیدہ سے راوی کی ثقاہت وعدالت پر اثر نہیں پڑتا ،
کون سی جروحات وہ ہیں جس میں ان پر مخالفت حدیث کا الزام بغیر دلیل عائد کیاگیااورمعترض نے اختلاف فہم اور مخالفت حدیث کے فرق کو نہیں سمجھا،ورنہ اگر محض الفاظ سے ہی ہم کسی کومخالف حدیث تسلیم کرنے لگیں توامام مالک کوبھی لیث بن سعد مصری کے قول کی بنیاد پر حدیث کا مخالف مانناپڑے گا۔
وہ حضرات جن کو کوفہ کے باشندوں سے خاص کد اورعناد ہے جیسے جوزجانی،ابن سعد وغیرہ جیساکہ حافظ ابن حجر نے تصریح کی ہے۔ان کی جرح اہل کوفہ پر جانچ پرکھ کے بعد ہی قبول ہوگی،کیایہ ہمارا بنایاہوا اصول ہے؟
اگرہم ان چیزوں کو پرکھتے اور جانچتے ہیں توکیایہ اصول حدیث سے ہٹ کر ہے؟
خضرحیات صاحب بار بار پوچھتے ہیں کہ جرح مبہم مقبول کیوں نہیں،اس کا جواب بھی دیئے دیتے ہیں
مبہم جرح میں بسااوقات ایساہوتاہے کہ راوی کسی ایسی بنیاد پر جرح کرتاہے جو قابل جرح نہیں ہے،اس کی مثالیں کتب اصول حدیث میں موجود ہیں،اب جب امام محمد پر کوئی راوی مطلقاضعیف کی جرح کرتاہے توہمیں نہیں معلوم کہ وہ عقیدہ کی بنیاد پر جرح کررہاہے یاامام محمد کو مخالف حدیث سمجھ کر جرح کررہاہے یاوہ یہ سمجھ کر جرح کررہاہے وہ عادل نہیں ہیں،توجب تک ہمین اس کے جرح کی بنیاد کا علم نہیں ہوگا توہم کیسے طے کرلیں یکطرفہ طورپر کہ نہیں اس نے ضبط کی بنیاد پر ہی ضعیف کہہ کر جرح کیاہے؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ بڑی جماعتیں عموماًفراخ دل اور وسیع القلب ہواکرتی ہیں اورچھوٹی جماعتوں کے اندر تنگ نظری اور تعصب زیادہ ہوتاہے،دنیا کی تاریخ سے گواہی چاہئےتو پھرعیسائیوں اوریہودیوں کا موازنہ کرلیجئے۔
عیسائیوں کے مقابلہ میں یہودیوں میں نفرت ،تنگ نظری اور تعصب کوٹ کوٹ کر بھراہواہوتاہے
اسلام میں اس کی مثال دیکھنی ہو تو سنیوں اورشیعوں کو دیکھ لیں۔
سنی عالم اسلام کی بڑی جماعت ہے اوراسی نسبت سے فراخ دل اور وسیع القلب ہے، شیعہ چھوٹی جماعت ہیں اور اسی نسبت سے تنگ نظر اور متنفر ہیں۔
سنی مسلمانوں میں سب سے بڑی تعداد حنفیوں کی ہےاورسب سے چھوٹی جماعت غیرمقلدوں کی ہے، اب اس تاریخی روشنی میں خود غورکرلیجئے کہ متعصب اورتنگ نظر کون ہے؟

اگر علامہ کوثری کی بات میرے ذمہ اس لئے لگائی جارہی ہے کہ وہ بھی حنفی اورمیں بھی حنفی توپھر تھوڑا آپ کو بھی آئینہ دکھاتاچلوں ،آپ خود کو جن محدثین کی جانب منسوب کرتے ہیں ان کی زبان کیسی تھی،حمیدی امام ابوحنیفہ کو ابوجیفہ مسجد حرام کے اندر فرمایاکرتے تھے، اولاًتواللہ نے تنابزبالالقاب سے منع کیاہے لیکن اگرکوئی بدبخت اس حکم قرآنی کونظرانداز کرنے پر ہی تلاہواہے تواس کیلئے مسجد حرام کا استعمال کیاجائے گا؟کیاشریف انسان کالب ولہجہ اسی طرح کا ہواکرتاہے؟
اگرآپ کہیں کہ حمیدی نے اپنے علم ودانست کی روشنی میں امام ابوحنیفہ کو گمراہ سمجھ کر اوردین کا مخالف جان کر یہ لہجہ اپنایاتھاتوکیا یہی عذر علامہ کوثری کی جانب سے نہیں ہوسکتاکہ انہوں امام ابوحنیفہ کو ولی اللہ اورامام المسلمین سمجھ کر ان پر سخت زبان میں اعتراض کرنے والوں پر سختی سے جواب دیا،ویسے ماقبل میں آپ پڑھ چکے ہیں
من جرَّ ذيول الناس جرُّوا ذيوله.
ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہو ویسی سنو
یاپھر اللہ نے کوئی سند نازل کردی ہے کہ کوئی محدث کسی کو کچھ بھی کہہ سکتاہے لیکن اگرکسی نے جواب میں کچھ کہنے کی کوشش کی تو پھر وہ دین کا دشمن اور متعصب ہے؟
یقین مانئے کہ اگر احناف واقعتا متعصب ہوتے تو جس طرح احناف کاصدیوں سے غلبہ رہاہے،آج محدثین کی جرح وتعدیل والی ایک بھی کتاب نہ ملتی،یہ تو احناف کی وسعت قلبی اور راوداری کی مثال ہے۔
ایک بات واضح رہے کہ آپ چاہے جتنے دائوپیج لگالیں ،اگرمحدثین کے کلام کو ماننے کا یہ مطلب ہے کہ ائمہ مسلمین کو گمراہ اورفاسق تسلیم کرلیاجائے تواس کیلئے کوئی ہوشمند انسان تیار نہیں ہوگا ، ہاں جن لوگوں نے اپنے خرمن عقل کو پہلے سے آگ لگارکھی ہے،ان سے کچھ بھی بعید نہیں ۔

ماقبل میں جوکچھ ذکر کیاگیاہے،اس میں کون سا اصول خود ساختہ ہے ۔
جرح مبہم پر جواختلافات ہیں وہ ہرایک جانتاہے،اصولی بات یہی ہے کہ جرح مبہم مقبول نہیں ،لیکن چونکہ محدثین کا بیشتر کلام اسی قسم کا ہے،اس لئے کہاگیاکہ عام حالات میں اسے قبول کیاجائے گا،لیکن اختلافی حالات میں اسے قبول نہیں کیاجائےگا۔
معاصرت کی بنیاد پر کی گئی جرح ناقابل قبول ہے،کیایہ ہمارا بنایاہوا اصول ہے؟
مسلک اورعقیدہ کی بناپر جرح ناقابل قبول ہے کیایہ ہمارا بنایاہوا اصول ہے؟
کسی خاص شہر والوں پر تحامل کی بناء پر جرح ناقابل قبول ہے،کیایہ ہمارا بنایاہوا اصول ہے؟
فقہ واستنباط کی بنیاد پر کی گئی جرح کا اعتبار نہیں ،کیایہ ہمارا بنایاہوا اصول ہے؟
اگر یہ سب کتب اصول حدیث میں موجود ہے تو پھر اس کو ہمارے سرتھوپنے کی کیاوجہ ہے؟
اگرہم اس کاجائزہ لیں کہ امام محمد پر کون سی جرح عقیدہ کی بنیاد پر ہے اوراس کوناقابل اعتبار بایں بناقراردیں کہ راوی کے عقیدہ سے راوی کی ثقاہت وعدالت پر اثر نہیں پڑتا ،
کون سی جروحات وہ ہیں جس میں ان پر مخالفت حدیث کا الزام بغیر دلیل عائد کیاگیااورمعترض نے اختلاف فہم اور مخالفت حدیث کے فرق کو نہیں سمجھا،ورنہ اگر محض الفاظ سے ہی ہم کسی کومخالف حدیث تسلیم کرنے لگیں توامام مالک کوبھی لیث بن سعد مصری کے قول کی بنیاد پر حدیث کا مخالف مانناپڑے گا۔
وہ حضرات جن کو کوفہ کے باشندوں سے خاص کد اورعناد ہے جیسے جوزجانی،ابن سعد وغیرہ جیساکہ حافظ ابن حجر نے تصریح کی ہے۔ان کی جرح اہل کوفہ پر جانچ پرکھ کے بعد ہی قبول ہوگی،کیایہ ہمارا بنایاہوا اصول ہے؟
اگرہم ان چیزوں کو پرکھتے اور جانچتے ہیں توکیایہ اصول حدیث سے ہٹ کر ہے؟
خضرحیات صاحب بار بار پوچھتے ہیں کہ جرح مبہم مقبول کیوں نہیں،اس کا جواب بھی دیئے دیتے ہیں
مبہم جرح میں بسااوقات ایساہوتاہے کہ راوی کسی ایسی بنیاد پر جرح کرتاہے جو قابل جرح نہیں ہے،اس کی مثالیں کتب اصول حدیث میں موجود ہیں،اب جب امام محمد پر کوئی راوی مطلقاضعیف کی جرح کرتاہے توہمیں نہیں معلوم کہ وہ عقیدہ کی بنیاد پر جرح کررہاہے یاامام محمد کو مخالف حدیث سمجھ کر جرح کررہاہے یاوہ یہ سمجھ کر جرح کررہاہے وہ عادل نہیں ہیں،توجب تک ہمین اس کے جرح کی بنیاد کا علم نہیں ہوگا توہم کیسے طے کرلیں یکطرفہ طورپر کہ نہیں اس نے ضبط کی بنیاد پر ہی ضعیف کہہ کر جرح کیاہے؟
ویسے (اگر مجھے صحیح یاد ہے تو) لکھنوی رح نے الرفع و التکمیل میں یہ فرمایا ہے کہ حافظ ابن حجر رح سے پہلے تک مطلقا جرح مبہم کو قبول نہیں کیا جاتا تھا.

امام ابو حنیفہ رح کے بارے میں اس طرح کی ایک کتاب کراچی کے جامعۃ الدراسات کے ایک طالب علم کی گزشتہ دنوں نظروں سے گزری تھی. انہوں نے امام پر ہونے والی جروحات کا جائزہ لے کر امام کو ثقہ ثابت کیا ہے. اور میرا خیال ہے کہ کراچی میں جامعۃ الدراسات اہل حدیث حضرات والا ہی ہے. یہ ان صاحب کا جامعہ سے ڈاکٹریٹ کا مقالہ ہے.
نام دوبارہ دیکھ کر بتاؤں گا.

امام محمد رح کے بارے میں اس طرح کی کوئی کتاب ہو تو رہنمائی فرمائیے.
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ بڑی جماعتیں عموماًفراخ دل اور وسیع القلب ہواکرتی ہیں اورچھوٹی جماعتوں کے اندر تنگ نظری اور تعصب زیادہ ہوتاہے،دنیا کی تاریخ سے گواہی چاہئےتو پھرعیسائیوں اوریہودیوں کا موازنہ کرلیجئے۔
عیسائیوں کے مقابلہ میں یہودیوں میں نفرت ،تنگ نظری اور تعصب کوٹ کوٹ کر بھراہواہوتاہے
اسلام میں اس کی مثال دیکھنی ہو تو سنیوں اورشیعوں کو دیکھ لیں۔
سنی عالم اسلام کی بڑی جماعت ہے اوراسی نسبت سے فراخ دل اور وسیع القلب ہے، شیعہ چھوٹی جماعت ہیں اور اسی نسبت سے تنگ نظر اور متنفر ہیں۔
سنی مسلمانوں میں سب سے بڑی تعداد حنفیوں کی ہےاورسب سے چھوٹی جماعت غیرمقلدوں کی ہے، اب اس تاریخی روشنی میں خود غورکرلیجئے کہ متعصب اورتنگ نظر کون ہے؟
اگر علامہ کوثری کی بات میرے ذمہ اس لئے لگائی جارہی ہے کہ وہ بھی حنفی اورمیں بھی حنفی توپھر تھوڑا آپ کو بھی آئینہ دکھاتاچلوں ،آپ خود کو جن محدثین کی جانب منسوب کرتے ہیں ان کی زبان کیسی تھی،حمیدی امام ابوحنیفہ کو ابوجیفہ مسجد حرام کے اندر فرمایاکرتے تھے، اولاًتواللہ نے تنابزبالالقاب سے منع کیاہے لیکن اگرکوئی بدبخت اس حکم قرآنی کونظرانداز کرنے پر ہی تلاہواہے تواس کیلئے مسجد حرام کا استعمال کیاجائے گا؟کیاشریف انسان کالب ولہجہ اسی طرح کا ہواکرتاہے؟
اگرآپ کہیں کہ حمیدی نے اپنے علم ودانست کی روشنی میں امام ابوحنیفہ کو گمراہ سمجھ کر اوردین کا مخالف جان کر یہ لہجہ اپنایاتھاتوکیا یہی عذر علامہ کوثری کی جانب سے نہیں ہوسکتاکہ انہوں امام ابوحنیفہ کو ولی اللہ اورامام المسلمین سمجھ کر ان پر سخت زبان میں اعتراض کرنے والوں پر سختی سے جواب دیا،ویسے ماقبل میں آپ پڑھ چکے ہیں
من جرَّ ذيول الناس جرُّوا ذيوله.
ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہو ویسی سنو
یاپھر اللہ نے کوئی سند نازل کردی ہے کہ کوئی محدث کسی کو کچھ بھی کہہ سکتاہے لیکن اگرکسی نے جواب میں کچھ کہنے کی کوشش کی تو پھر وہ دین کا دشمن اور متعصب ہے؟
یقین مانئے کہ اگر احناف واقعتا متعصب ہوتے تو جس طرح احناف کاصدیوں سے غلبہ رہاہے،آج محدثین کی جرح وتعدیل والی ایک بھی کتاب نہ ملتی،یہ تو احناف کی وسعت قلبی اور راوداری کی مثال ہے۔
ایک بات واضح رہے کہ آپ چاہے جتنے دائوپیج لگالیں ،اگرمحدثین کے کلام کو ماننے کا یہ مطلب ہے کہ ائمہ مسلمین کو گمراہ اورفاسق تسلیم کرلیاجائے تواس کیلئے کوئی ہوشمند انسان تیار نہیں ہوگا ، ہاں جن لوگوں نے اپنے خرمن عقل کو پہلے سے آگ لگارکھی ہے،ان سے کچھ بھی بعید نہیں ۔
خیر ، اس موضوع کو جتنا مرضی لمبا کرلیں ، ہوجائے گا ، آپ کے وسعت ظرفی والے اصول کے تحت امید ہے ، آپ ’ حنفی سواد اعظم ‘ کا حصہ ہونے کی رو سے محدثین اور ان کا دفاع کرنے والی ’ جماعۃ قلیلہ ‘ کو معاف فرمائیں گے ۔
ماقبل میں جوکچھ ذکر کیاگیاہے،اس میں کون سا اصول خود ساختہ ہے ۔
اس کے بعد آپ نے جو کچھ لکھا ، سب خود ساختہ ترجیحات ہی ہیں ۔ مثلا :
اصولی بات یہی ہے کہ جرح مبہم مقبول نہیں
معاصرت کی بنیاد پر کی گئی جرح ناقابل قبول ہے،کیایہ ہمارا بنایاہوا اصول ہے؟
اس اصول کا اطلاق غلط ہے ۔ ورنہ اکثر اقوال جرح و تعدیل معاصرین کے ہی ایک دوسرے کے متعلق ہیں ۔
مسلک اورعقیدہ کی بناپر جرح ناقابل قبول ہے کیایہ ہمارا بنایاہوا اصول ہے؟
امام محمد پر کئی گئی ’ مبہم جروح ‘ یہ بات کہاں سے آگئی کہ یہ عقیدہ کے اختلاف کی بنیاد پر کی گئی ہیں ۔
کسی خاص شہر والوں پر تحامل کی بناء پر جرح ناقابل قبول ہے،کیایہ ہمارا بنایاہوا اصول ہے؟
فقہ واستنباط کی بنیاد پر کی گئی جرح کا اعتبار نہیں ،کیایہ ہمارا بنایاہوا اصول ہے؟
اگر یہ سب کتب اصول حدیث میں موجود ہے تو پھر اس کو ہمارے سرتھوپنے کی کیاوجہ ہے؟
ان اصولوں کا اطلاق غلط ہے ۔ اس طرح تو بالخصوص مقلدین کے ہاں تمام ائمہ کسی نے کسی مسلک و مذہب سے منسلک تھے ، کوئی بھی جرح باقی نہیں رہ جائے گی ۔
اگرہم اس کاجائزہ لیں کہ امام محمد پر کون سی جرح عقیدہ کی بنیاد پر ہے اوراس کوناقابل اعتبار بایں بناقراردیں کہ راوی کے عقیدہ سے راوی کی ثقاہت وعدالت پر اثر نہیں پڑتا ،
کون سی جروحات وہ ہیں جس میں ان پر مخالفت حدیث کا الزام بغیر دلیل عائد کیاگیااورمعترض نے اختلاف فہم اور مخالفت حدیث کے فرق کو نہیں سمجھا،ورنہ اگر محض الفاظ سے ہی ہم کسی کومخالف حدیث تسلیم کرنے لگیں توامام مالک کوبھی لیث بن سعد مصری کے قول کی بنیاد پر حدیث کا مخالف مانناپڑے گا۔
وہ حضرات جن کو کوفہ کے باشندوں سے خاص کد اورعناد ہے جیسے جوزجانی،ابن سعد وغیرہ جیساکہ حافظ ابن حجر نے تصریح کی ہے۔ان کی جرح اہل کوفہ پر جانچ پرکھ کے بعد ہی قبول ہوگی،کیایہ ہمارا بنایاہوا اصول ہے؟
اگرہم ان چیزوں کو پرکھتے اور جانچتے ہیں توکیایہ اصول حدیث سے ہٹ کر ہے؟
یہ اصول کس جگہ پڑھے ہیں آپ نے ؟؟ انہیں کتابوں میں دھیان سے دیکھیں ، انہیں ائمہ کے اقوال اسی قسم کے رواۃ میں بطور استشہاد ذکر کیے گئے ہیں ۔
خضرحیات صاحب بار بار پوچھتے ہیں کہ جرح مبہم مقبول کیوں نہیں،اس کا جواب بھی دیئے دیتے ہیں
مبہم جرح میں بسااوقات ایساہوتاہے کہ راوی کسی ایسی بنیاد پر جرح کرتاہے جو قابل جرح نہیں ہے،اس کی مثالیں کتب اصول حدیث میں موجود ہیں،اب جب امام محمد پر کوئی راوی مطلقاضعیف کی جرح کرتاہے توہمیں نہیں معلوم کہ وہ عقیدہ کی بنیاد پر جرح کررہاہے یاامام محمد کو مخالف حدیث سمجھ کر جرح کررہاہے یاوہ یہ سمجھ کر جرح کررہاہے وہ عادل نہیں ہیں،توجب تک ہمین اس کے جرح کی بنیاد کا علم نہیں ہوگا توہم کیسے طے کرلیں یکطرفہ طورپر کہ نہیں اس نے ضبط کی بنیاد پر ہی ضعیف کہہ کر جرح کیاہے؟
یہ باتیں آپ کے لیے نئی ہوں گی ۔ میری نظر میں جرح و تعدیل دونوں کے متعلق یہ اصول اور اعتراضات موجود ہیں ، ان سب باتوں کے باوجود جرح اور تعدیل دونوں مبہم مقبول ہیں ، الا إذا تعارضا فلا یقبل الجرح إلا مفسرا ۔
’ جرح مفسر ‘ کی رٹ بھی آپ اسی لیے لگا رہے ہیں ، کہ آپ اس فن کو چند شخصیات کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں ، ورنہ اگر کتب جرح و تعدیل دیکھی جائیں ، تو ان میں اکثر جرح و تعدیل دونوں مبہم ہی ہیں ، اور عموما رواۃ کےمتعلق یہ قابل قبول ہیں ، سب کے نزدیک ، اور جو ’ تفسیر ‘ کی شرط لگائے گا ، اسے اپنے لیے الگ سے کتابیں لکھنی یا لکھوانی پڑیں گی اور وہ بھی ہزاروں میں سے چند سو راویوں کے بعد اس کا ’ علم جرح و تعدیل ‘ جواب دے جائے گا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ویسے (اگر مجھے صحیح یاد ہے تو) لکھنوی رح نے الرفع و التکمیل میں یہ فرمایا ہے کہ حافظ ابن حجر رح سے پہلے تک مطلقا جرح مبہم کو قبول نہیں کیا جاتا تھا.
حافظ ابن حجر نے راویوں کے متعلق ائمہ کے اقوال جمع کیے ہیں ، ان میں اکثریت انہیں اقوال کی ہے ، جو بغیر تفسیر کے جرح یا تعدیل کے ہے ۔ اس میں حافظ ابن حجر کا کوئی قصور نہیں ، انہوں نے جرح و تعدیل کی ’ واقعاتی حیثیت ‘ بیان کردی ہے ، جو تمام ائمہ جرح و تعدیل کے ہاں مقبول و معمول ہے ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
حافظ ابن حجر نے راویوں کے متعلق ائمہ کے اقوال جمع کیے ہیں ، ان میں اکثریت انہیں اقوال کی ہے ، جو بغیر تفسیر کے جرح یا تعدیل کے ہے ۔ اس میں حافظ ابن حجر کا کوئی قصور نہیں ، انہوں نے جرح و تعدیل کی ’ واقعاتی حیثیت ‘ بیان کردی ہے ، جو تمام ائمہ جرح و تعدیل کے ہاں مقبول و معمول ہے ۔
جی ان کا یہی مسلک راجح ہے۔ لیکن کیا اس کا اطلاق ان لوگوں کے بارے میں جرح پر بھی کیا جا سکتا ہے جو حسد اور بغض کا خصوصی نشانہ تھے؟ یا جن پر مخالفت حدیث کا الزام ان کے فقہ کی وجہ سے لگتا تھا؟ ان پر تو ظاہر ہے جرح مبہم کثیر تعداد میں ہونی تھی۔
بہرحال میرا اس بارے میں خیال یہ ہے کہ ہمارے پاس ان کی مرویات بھی موجود ہیں اور دوسرے رواۃ کی بھی۔ ہمیں انہیں ایک جگہ جمع کر کے یہ دیکھنا چاہیے کہ جرح کے مطابق ہیں یا نہیں۔ خود ہی ان کی حیثیت معلوم ہو جائے گی۔ ابھی تک غالباً اس پر کام نہیں ہوا ہے۔ اسی طرح ابو حنیفہؒ کی روایات بھی ہیں جن پر @رضا میاں بھائی نے کام شروع کیا تھا۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
وأما الجرح فلا يقبل إلا مفسرا مبين السبب، لأن الناس يختلفون فيما يجرح وما لا يجرح، فيطلق أحدهم الجرح بناء على أمر اعتقده جرحا، وليس بجرح في نفس الأمر، فلا بد من بيان سببه، لينظر فيه أهو جرح أو لا. وهذا ظاهر مقرر في الفقه وأصوله".
وذكر الخطيب الحافظ (1) أنه مذهب الأئمة من حفاظ الحديث ونقاده مثل البخاري ومسلم وغيرهما.
وعقد الخطيب بابا في "بعض أخبار من استفسر في الجرح فذكر مالا يصلح جارحا" (2)، منها: عن شعبة أنه قيل له: لم تركت حديث فلان؟ فقال: رأيته يركض على برذون فتركت حديثه! ! . ومنها عن مسلم بن غبراهيم أنه سئل عن حديص لصالح المري فقال: ما تصنع بصالح! ذكروه يوما عند حماد بن سلمة فامتخط حماد! ؟ .
استشكال الجرح المجمل في كتب الرجال:
وقد أورد ابن الصلاح ههنا استشكالا لا بد أن يورده كل مسلم بالحديث، وهو أن كتب الجرح والتعديل التي صنفها الأئمة، "قل ما يتعرضون فيها لبيان السبب، بل يقتصرون على مجرد قولهم فلان ضعيف .. وفلان ليس بشيء، ونحو ذلك، فاشتراط بيان السبب يفضي إلى تعطيل ذلك وسد باب الجرح في الأغلب الأكثر".
وهذا الإشكال قد أجاب عنه الإمام أبو عمرو بن الصلاح جواباحسنا ارتضاه العلماء، فقال: وجوابه أن ذلك وإن لم نعتمده في إثبات الجرح والحكم به فقد اعتمدناه في أن توقفنا عن قبول حديث من قالوا فيه مثل ذلك بناء على أن ذلك أوقع عندنا فيهم ريبة قوية يوجب مثلها التوقف.
ثم من انزاحت عن الريبة ببحث عن حاله أوجب الثقة بعدالته قبلنا حديثه، ولم نتوقف، كالذين احتج بهم صاحبا الصحيحين وغيرهما ممن مسهم مثل هذا الجرح من غيرهم، فافهم ذلك فإنه مخلص حسن"
فاحفظ هذه الفائدة الهامة في باب الجرح المبهم. ولا تبادر تقليدا لمن لا يعرف الحديث وأصوله إلى تضعيف الحديث وتوهينه بمجرد الأقوال المبهمة، والجروح غير المفسرة.

منہج النقد فی علوم الحدیث۱؍۹۹
 
Top