• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

النصر الربانی فی ترجمہ محمد بن الحسن الشیبانی

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
لیکن ہم نے مبارکپوری صاحب سے لے کر دورحاضر تک کے غیرمقلدین کو دیکھاہے کہ جب ان کا من چاہتاہے تو ابن حجر کے تقریب التہذیب کے فیصلے سے دلیل کا نام لے کر شوق سے اختلاف کرتے ہیں،اس وقت ان کو جرح وتعدیل کی واقعاتی حیثیت یاد نہیں آتی ،لیکن دوسرا کوئی اگر کہے کہ ’’مبہم جرحوں‘‘ کی تحقیق کی جائے تو پھر آسمان ٹوٹ پڑتاہے۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
اطراف اورادھر اُدھر کی بحث تو بہت ہوگئی، اب اصل موضوع پر آیاجائے، یعنی زبیر علی زئی کے زیر بحث مضمون کا تنقیدی جائزہ لیاجائے ۔

النصرالربانی کا تنقیدی جائزہ
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ آخری زمانہ میں بے علم لوگ دین کے پیشوا بن جائیں گے اور آخری دور کے لوگ پہلے والوں پر لعنت کریں گے،ڈیڑھ دوصدی تک اس کا سمجھنا مشکل تھا ،لیکن آج کے حالات میں ہرشخص اس حقیقت کا بچشم خود مشاہدہ کرسکتاہے،بے علمی اورکج فہمی کے ساتھ جن لوگوں نے مسند علم وارشاد پر قدم رکھاہے،ان میں سے ایک زبیرعلی زئی ہے۔
موصوف کے ذاتی حالات کیلئے حافظ ظہور حسینی صاحب کی ’’تناقضات زبیر علی زئی‘‘کا مطالعہ کیاجائے،اورعلمی کم مائیگی کیلئے ان کی اپنی تصانیف کا ،موصوف کے محبین کا دعوی ٰ ہے کہ وہ عبرانی زبان تک میں درک رکھتے تھےلیکن حالت یہ ہے کہ عربی بھی ان سے سنبھلتی نہیں ہے اوراخف روحاً کا ترجمہ ہلکی چال فرماتے ہیں،موصوف پٹھان ہیں ،لیکن اردو کو گھر کی خادمہ سمجھتے ہیں ؛ لہذا اس زبان کے ساتھ خادمہ جیساہی سلوک فرماتے ہیں،ترجمہ اس طرح کرتے ہیں جیسے کوئی نوآموز طالب علم لفظی ترجمہ کی مشق کررہاہو۔
جاری ہے
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
مضمون کی ابتدامیں ان کی خیانت ملاحظہ ہو۔
محمد بن الحسن الشيباني، أبو عبد الله.أحد الفقهاء.لينه النسائي، وغيره من قبل حفظه.يروي عن مالك بن أنس وغيره.وكان من بحور العلم والفقه قويا في مالك .
اس عبارت کا وہ مفہوم بیان کرتے ہیں
محمد بن الحسن الشیبانی(اہل الرائے کے)فقہاء میں سے تھا،اسے (امام )نسائی وغیرہ نے اس کے (خراب)حافظے کی وجہ سے ضعیف قراردیاہے، وہ(امام )مالک وغیرہ سے روایت کرتاتھا اور وہ (امام ذہبی کے نزدیک)علم اور (اہل الرائے کے)فقہ کے دربائوں میں سے تھا،(صرف امام)مالک سے اس کی روایت قوی ہے۔

کسی بھی مصنف کو حق ہے کہ وہ بریکٹ میں تھوڑی وضاحت کرے ،لیکن بریکٹ میں ہی سہی،مصنف کی مراد کو پلٹ دینا کسی بھی اہل علم کے نزدیک جائز نہیں ہے۔
حافظ ذہبی کہتے ہیں کہ حافظے کی وجہ سے نسائی وغیرہ نے لین قراردیاہے،یہ اس میں اپنی جانب سےحافظہ کے ساتھ خرابی کو جوڑدیتے ہین اور لین کی جگہ ضعیف قراردیتے ہیں، اصول حدیث میں یہ بات متحقق ہے کہ لین اور ضعیف میں فرق ہے،لین بہت ہلکی جرح ہے ۔
حافظ ذہبی اپنا اور دیگر اہل علم کا نقطہ نظر بیان کرتے ہیں کہ وہ علم وفقہ کے دریاتھے ،یہ زبیر علی ز ئی بریکٹ میں (ذہبی کے نزدیک )لکھتے ہیں،اس جاہل کو یہ بھی پتہ نہیں کہ جب حافظ ذہبی کو اپنانقطہ نظربیان کرناہوتاہے تو وہ ’’قلت‘‘ کا استعمال فرماتے ہیں،جہاں وہ قلت کا استعمال نہیں کررہے ہیں ،وہاں وہ اپنا اور دیگر اہل علم کا نقطہ نظربیان کررہے ہوتے ہیں۔
قویافی مالک سے مفہوم مخالف زبیر علی زئی نے یہ نکالاہے کہ صرف امام مالک سے روایت کرنے میں قوی ہیں، اس جہالت پر جاہلین بھی کیوں عش عش نہ کریں۔ہمام حدیث کے ایک بڑے راوی ہیں، ان کے بارے میں منقول ہے

وقال يزيد بن هارون: كان همام قويا في الحديث.سیر اعلام النبلائ۷/289)
کیااس کا مفہوم مخالف یہ لیاجائے کہ وہ قرآن ،فقہ اور دیگر فنون میں کمزور تھے۔
حضرت عمرؓ کے بارے میں آتاہے قویافی امر اللہ کیا امراللہ کے علاوہ دیگر امور میں وہ کمزور تھے، اسی طرح بعض روات کے بارے میں قویافلاں آتاہے،اس کا یہ مفہوم تونہیں ہوتاکہ وہ اس کے علاوہ میں ضعیف ہے۔ہاں اس سے یہ ذہن نشیں ضرور ہوتاہے کہ فلاں شخصیت سے خصوصی نسبت ہے،کمال یہ ہے کہ زبیر علی زئی نے یہاں تو قویا فی مالک کا مطلب دھڑلے سے بیان کردیاکہ وہ وہ صرف امام مالک میں قوی ہیں،لیکن ایک راوی یحیی بن سلیم کے بارے میں جب امام بخاری نے فرمایا:

ماحدث الحمیدی عن یحیی بن سلیم فھو صحیح

اوراس کا مطلب تو امام محمد کے ترجمہ میں بیان کردہ مفہوم مخالف کی طرح یہی نکلتاہے کہ یحیی بن سلیم سے حمیدی کے علاوہ دیگر کی روایات مقبول نہیں ہیں اوریہی مطلب جب زبیر علی زئی کے محقق العصر البانی صاحب نے بیان کیا تودیکھئے زبیر علی زئی کیا کہنے لگے:
اوراس سے بھی زیادہ عجیب وغریب وہ استنباط ہے جو شیخ البانی رحمہ اللہ نے امام بخاری کے قول ماحدث الحمیدی عن یحیی بن سلیم فھو صحیح سے نکلتاہے کہ اگر غیرحمیدی اس یحیی بن سلیم سے روایت کریں تو وہ( امام بخاری کے نزدیک )ضعیف ہے،اسے مفہوم مخالف کہتے ہیں، دلیل صریح کے مقابلے میں مفہوم مخالف ومبہم وغیرواضح دلائل سب مردودہوتے ہیں(الحدیث۱۶؍۲۳)
اسی طرح ایک راوی ہیں، عبدالصمد بن عبدالوارث ،اس کے بارے میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں صدوق ثبت فی شعبۃ،لیکن یہاں پر زبیر علی زئی یہ مطلب نہیں نکالتاکہ عبدالصمد شعبہ کے علاوہ دیگر رواۃ میں ضعیف ہیں(القول المتین ص45)
جاری ہے
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
قویافی مالک سے مفہوم مخالف زبیر علی زئی نے یہ نکالاہے کہ صرف امام مالک سے روایت کرنے میں قوی ہیں، اس جہالت پر جاہلین بھی کیوں عش عش نہ کریں۔
اس کا یہی معنی ہے، اور یہی معنی امام ذہبی اور ابن حجر العسقلانی نے بیان کیئے ہیں!
اس معنی کو غلط کہنے والا خود جاہلوں کا سردار ہے! ویسے مقلدین حنفیہ سے اور کوئی امید رکھنا بھی غلط ہے!
 
Last edited:

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
اس مضمون کاحاشیہ نمبرایک ملاحظہ ہو:
حافظ ذہبی نے محمد بن الحسن الشیبانی پر ایک جزء لکھاہے،مگرتذکرۃ الحفاظ میں اس (محمد بن الحسن) کا بطورترجمہ ذکر نہیں کیا، جب کہ دیوان الضعفاء (۳۶۵۶)اورالمغنی فی الضعفاء(۵۴۰۶)میں اس کا ذکر ضرور کیاہے
ہم زبیر علی زئی سے اگر وہ باحیات ہوتے تو دست بستہ عرض کرتے کہ حضور!
تذکرۃ الحفاظ میں ہونے نہ ہونے سے آپ کو کیاغرض ہے،امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف کا ذکر تذکرۃ الحفاظ میں ہے لیکن پھر بھی وہ آپ کے نزدیک ضعیف ہیں تواگرایسے میں امام محمد بن الحسن کا ذکر تذکرۃ الحفاظ میں نہ ہوا توآپ کی صحت پر کیااثرپڑتا،کیونکہ اگر ذکر ہوتا،تب بھی تو آپ ماننے والے نہیں تھے،جیساامام ابویوسف اورامام ابوحنیفہ کے باب میں تسلیم نہیں کیا۔

اس کے بعد لسان المیزان سے امام محمد کا ترجمہ پیش کیاہے۔ہم اس ترجمہ ’’کی خوبیوں‘‘اورفہم کی خامی پر نگاہ کرتے چلیں۔
محمد بن الحسن بن فرقد الشيباني مولاهم الفقيه أبو عبد الله
اس عبارت کا زبیر علی زئی کا ترجمہ ملاحظہ ہو
’’محمد بن الحسن بن فرقد الشیبانی شیبانیوں کا غلام، فقیہ ابوعبداللہ ہے‘‘اس ترجمہ کی خوبی سے متاثر ہوکر اگرکوئی شخص امام محمد کوہی غلام تسلیم کرلے تویقیناًاسی کا قصور ہوگا، زبیر علی زئی کے ترجمہ کا اس میں کچھ بھی دخل نہ ہوگا،
حقیقت یہ ہے کہ امام محمد کی شیبانی نسبت ولاکے طورپر ہے،نہ کہ غلامی کے طورپر ،مطلب یہ ہے کہ غیرعرب لوگ خود کوکسی قبیلہ میں شامل کرلیتے تھے،یہ شمول صرف نسبت کے اعتبار سے ہوتی تھی،نہ کہ نسب کے اعتبار سے،اس کا رواج عرب میں عام طورپر تھا،اس سے مذکورہ فرد کو قبیلہ والوں کی طرح کے سارے حقوق مل جاتے تھے،امام محمد کابھی یہی حال ہے کہ شیبان کی جانب ان کی نسبت ولاکے طورپر ہے، نہ کہ غلامی کے طورپر ،کتب تراجم میں باوجود تلاش وتفتیش کے مجھے ایک بھی حوالہ ایسانہیں ملا جس میں بتایاگیاہو کہ امام محمد یاان کے والد یاان کے خاندان میں سے کوئی غلام رہاہو۔بلکہ متعدد کتب تراجم کا خلاصہ یہ ہے کہ :
’’امام محمد اصلاًجزیرہ کے رہنے والے تھے،ان کا خاندان وہاں مالدار اورخوش حال تھا،ان کے والد بنوامیہ کے عہد حکومت میں فوج میں بھرتی ہوکر اولاًدمشق آئے، دمشق سے پھر واسط آئے اور یہیں امام محمد پیداہوئے اورپھر ان کاخاندان واسط سے کوفہ منتقل ہوگیا‘‘۔
زبیر علی زئی کو مولاھم کے ترجمہ سے غلط فہمی ہوئی اوراس کے متعددمعانی میں سے بغیر غورکیے ہوئے،اس کا ترجمہ کا ’’شیبانیوں کا غلام ‘‘کردیا۔
جاری ہے
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
تذکرۃ الحفاظ میں ہونے نہ ہونے سے آپ کو کیاغرض ہے،امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف کا ذکر تذکرۃ الحفاظ میں ہے لیکن پھر بھی وہ آپ کے نزدیک ضعیف ہیں تواگرایسے میں امام محمد بن الحسن کا ذکر تذکرۃ الحفاظ میں نہ ہوا توآپ کی صحت پر کیااثرپڑتا،کیونکہ اگر ذکر ہوتا،تب بھی تو آپ ماننے والے نہیں تھے،جیساامام ابویوسف اورامام ابوحنیفہ کے باب میں تسلیم نہیں کیا۔
یہ اس لئے لکھا ہے کہ بعض الناس امام ابو حنیفہ کا باب تذکرۃ الحفاظ میں دیکھ کر ، امام صاحب کو امام ذہبی کی نظر میں ثقہ ثابت کرنے کی لا حاصل سعی کرتے ہیں، گو کہ امام صاحب کو بھی دیوان الضعفاء میں امام ذہبی نے ضعیف ہی قرار دیا ہے، اور امام محمد بن الحسن الشیبانی کا تو تذکرۃ الحفاظ میں بھی اس طرح ذکر نہیں، لہٰذا یہ بعض الناس کم از کم امام محمد کو امام ذہبی کی نظر میں ثقہ ثابت کرنے کی لا حاصل سعی نہ کریں!
مگر بعض الناس کی علم الکلام میں جھک مار مار کر کلام کو سمجھنے کی مت ماری جائے تو کیا کیا جا سکتا ہے!
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
یہ امر کہ امام محمد یاان کاخاندان بنوشیبان کا غلام نہیں تھا،اس کی تائید ابن خلکان کے بیان سے بھی ہوتی ہے، ابن خلکان امام محمد کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:
محمد بن الحسن الحنفي أبو عبد الله محمد بن فرقد، الشيباني بالولاء الفقيه الحنفي،
وفیات الاعیان 4/184)اوریہی بات علامہ صفدی نے بھی الوافی بالوفیات میں کہی ہے کہ امام محمد کی نسبت شیبانی کی جانب ولاءکے طورپرہے ،(الوافی بالوفیات 2/247)
لسان المیزان میں آگے چل کر حافظ ابن حجر نے امام محمد کے شاگردوں میں امام شافعی کا بھی ذکر کیاہے
امام شافعی کو امام محمد کے شاگردوں میں ذکر کرنے پر حاشیہ میں زبیر علی زئی تردید کرتے ہوئے ابن تیمیہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں:

ان ھذا لیس کذلک بل جالسہ وعرف طریقتہ وناظرہ واول من اظھرالخلاف لمحمد بن الحسن ورد علیہ الشافعی (منہاج السنۃ4/102)

ایسی بات نہیں ہے بلکہ (امام شافعی )اس کے پاس بیٹھے ہیں، اس کا طریقہ پہچاناہے اوراس سے مناظرہ کیاہے،سب سے پہلے محمد بن الحسن سے اختلاف اوراس کارد امام شافعی نے کیاہے۔
عرض کرنا یہ ہے کہ امام شافعی امام محمد پر اولین ردکرنے والے ہوں یانہ ہوں،لیکن امام شافعی کے امام محمد کے شاگرد ہونے سے انکار کی بات سب سے پہلے ابن تیمیہ ؒ نے کی ہے،یہی وجہ ہے کہ ابن تیمیہ کے اس قول کا میرے محدود اور ناقص علم کی حد تک گزشتہ صدیوں میں کوئی موافق اورموید نہیں ہوا،ماضی قریب میں ایک سلفی عالم رئیس ندوی نے اللمحات میں نہ صرف یہ کہ امام شافعی کے امام محمد کے شاگرد ہونے کا انکار کیا،بلکہ ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے یہ دعویٰ کردیاکہ امام محمد امام شافعی کے شاگرد ہیں(دیکھئے:اللمحات5/136)اگر تحقیق کی بے لگامی یوں ہی جاری رہی توکیاپتہ کل کوئی محقق ایک قدم آگے بڑھاکر امام ابوحنیفہ کو بھی امام شافعی کا شاگرد بنادے۔
گزارش یہ ہے کہ ابن تیمیہ کو چھوڑ کر دنیا کے تمام اہل علم بشمول شوافع حضرات اوربشمول ابن تیمیہ کے شاگردان سبھی اس پر متفق ہیں کہ امام شافعی امام محمد کے شاگرد ہیں اوراپنی شاگردی کا ،امام محمد سے کسب فیض کا اور امام محمد کے علم وفضل کا انہوں نے واضح الفاظ میں اعتراف کیاہےجوکتب تاریخ وتراجم میں مذکور ہیں۔ہم اختصار سے کام لیتے ہوئے اس سلسلے کی کچھ اہم اور مستند روایتیں ذکر کرتے ہیں تاکہ پتہ چلے کہ ہمارے سلفی حضرات کی تحقیقات کیاگل کھلاتی ہیں:


(تاريخ بغداد، الناشر: دار الغرب الإسلامي – بيروت2/561)
حَدَّثَنِي الحسن بن محمد الخلال، قَالَ: أخبرنا علي بن عمرو الجريري، أن علي بن محمد النخعي حدثهم، قَالَ: أخبرنا أحمد بن حماد بن سفيان، قَالَ: سمعت المزني، يقول: سمعت الشافعي، يقول: أمن الناس علي في الفقه محمد بن الحسن. (سنده صحيح)
(تاريخ بغداد، الناشر: دار الغرب الإسلامي – بيروت2/561)
أخبرنَا عمر بن إِبْرَاهِيم المقرىء قَالَ ثَنَا مكرم قَالَ أنبأ الطَّحَاوِيّ قَالَ ثَنَا أَحْمد ابْن دَاوُد بن مُوسَى قَالَ سَمِعت حَرْمَلَة قَالَ سَمِعت الشَّافِعِي يَقُول مَا رَأَيْت أحدا قطّ إِذا تكلم رَأَيْت الْقُرْآن نزل بلغته إِلَّا مُحَمَّد بن الْحسن فَأَنَّهُ كَانَ إِذا تكلم رَأَيْت الْقُرْآن نزل بلغته وَلَقَد كتبت عَنهُ حمل بعير ذَلِك وَإِنَّمَا قلت ذكر لِأَنَّهُ بَلغنِي أَنه يحمل أَكثر مِمَّا تحمل الْأُنْثَى.(سنده حسن)
(أخبار أبي حنيفة وأصحابه، المؤلف :أبو عبد الله الصَّيْمَري الحنفي (المتوفى: 436هـ)الناشر: عالم الكتب – بيروت ص:128)
یہ تمام نصوص اوراس کے علاوہ بھی دیگر نصوص ہیں اور اہل علم کےا عترافات ہیں جن سے واضح ہوتاہے کہ امام شافعی امام محمد کے شاگرد ہیں،ابن تیمیہ اگراس رافضی کی تردید سے ہٹ کر اس موضوع پر اظہار خیال کرتے توہماری متواضع رائے میں وہ اس کے قائل ہوتے کہ امام محمد امام شافعی کے استاذ ہیں ،کیونکہ بسااوقات بحث ومباحثہ میں انسان کسی ایسی چیز سے یابات سے انکار کردیتاہے کہ اگراس سے مناظرہ سے ہٹ کر وہ بات پوچھی جائے تو شاید اس کا انکار نہ کرے،اوربقول البانی ابن تیمیہ ؒنے تواس کتاب میں بعض ثابت شدہ احادیث تک کا انکار کردیاہےتوپھر امام محمد کی شاگردی کیاچیز ہے اور ابن تیمیہ علیہ الرحمۃ نے اسی پر بس نہیں کیا ،بلکہ امام احمد بن حنبل کے امام شافعی کے شاگرد ہونے سے بھی انکار کیاہے،
وَكَذَلِكَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ لَمْ يَقْرَأْ عَلَى الشَّافِعِيِّ لَكِنْ جَالَسَهُ، كَمَا جَالَسَ الشَّافِعِيُّ مُحَمَّدَ بْنَ الْحَسَنِ، وَاسْتَفَادَ كُلٌّ مِنْهُمَا مِنْ صَاحِبِهِ.
( نهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية7/533)

لیکن اہل علم کو نہ اس سے اتفاق ہے کہ امام شافعی امام محمد کے شاگرد نہیں تھے اورنہ ہی اس سے اتفاق ہے کہ امام احمد بن حنبل امام شافعی کے شاگرد نہیں تھے۔

زبیر علی زئی آگے لکھتے ہیں:
ایک غالی دیوبندی نے شیخ الاسلام کا رد لکھاہے۔(دیکھئے کتاب الحجۃ علی اہل المدینۃ:ج۱؍ص۵)لیکن یہ رد مردود ہے۔
زبیر علی زئی نے( الحدیث 50/24)میں لکھاہے :

سرفراز خان نے اہل حدیث کو غالی کہہ کر گالی دی ہے
جولفظ ان کے نزدیک اہل حدیث کوکہنے میں گالی ہے ،وہ احناف کے حق میں وہ بڑے شوق سے استعمال کرتے ہیں اور شاید حنفیوں کیلئے اسے ’’حرف شیریں‘‘سمجھتے ہیں۔
 
شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
بعض الناس امام ابو حنیفہ کا باب تذکرۃ الحفاظ میں دیکھ کر ، امام صاحب کو امام ذہبی کی نظر میں ثقہ ثابت کرنے کی لا حاصل سعی کرتے ہیں، گو کہ امام صاحب کو بھی دیوان الضعفاء میں امام ذہبی نے ضعیف ہی قرار دیا ہے،
آپ کے شیخ کفایت اللہ ہی دیوان الضعفاء کے تعلق سے کیا کہتے ہیں پہلے دیکھ لیں

"امام ذہبی رحمہ اللہ کی یہ کتاب’’دیوان الضعفاء ‘‘ امام ابن الجوزی رحمہ اللہ کی کتاب ’’الضعفاء والمتروكين‘‘ کا اختصار ہے۔
امام سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وابن الجوزي واختصره الذهبي بل وذيل عليه في تصنيفين [الإعلان بالتوبيخ لمن ذم التاريخ ص: 221] ۔

خود امام ذھبی بھی لکھتے ہیں:
أبو الفرج بن الجوزى كتابا كبيرا في ذلك كنت اختصرته أولا، ثم ذيلت عليه ذيلا بعد ذيل.[ميزان الاعتدالموافق رقم 1/ 2]۔

اب دیوان الضعفاء جس اصل کتاب ’’الضعفاء والمتروكين‘‘ لابن الجوزی کا اختصار ہے اس اصل کتاب میں امام ابوحنیفہ کا ترجمہ موجود ہے بلکہ وہ اصل عبارت بھی موجود ہے جسے امام ذہبی رحمہ اللہ نے مختصرا دیوان میں درج کیا ہے ۔"

یہ اقتباس اسی فورم سے لیا گیا ہے

لہذا امام ذہبی نے امام صاحب رحمہ اللہ کا ترجمہ صرف اس لیے ذکر کیا کیونکہ وہ جس کتاب کا اختصار کررہے ہیں اس میں امام صاحب کا ذکر پہلے سے موجود تھا نہ کہ اس وجہ سے کہ وہ ان کے نزدیک ضعیف ہے ـ
رہا سوال ابن الجوزی رحمہ اللہ کا الضعفاء والمتروکین میں ذکر کرنے کا تو خود کفایت اللہ صاحب ہی لکھتے ہیں
کسی راوی کا ضعفاء میں ذکر ہونا اس بات سے مستلزم نہیں کہ وہ راوی ضعفاء کے مؤلفین کے نزدیک ضعیف ہے کیونکہ ضعفاء کے مؤلفین ثقہ رواۃ کا تذکرہ بھی ضعفاء میں یہ بتانے کے لیے کردیتے ہیں کہ ان پر جرح ہوئی ـ( انوار البدر ص 128)

اگر اب بھی ابن داود بھائی کو اطمینان نہ ہو تو اسی دیوان الضعفاء میں عیسی بن جاریہ رحمہ اللہ، یعقوب القمی رح وغیرہ کا بھی ذکر ہے تو یہ بھی امام ذہبی کے نزدیک ضعیف ٹھرے جنہیں دن رات آپ لوگ ثقہ ثابت کرتے رہتے ہیں ـ
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ کے شیخ کفایت اللہ ہی دیوان الضعفاء کے تعلق سے کیا کہتے ہیں پہلے دیکھ لیں

"امام ذہبی رحمہ اللہ کی یہ کتاب’’دیوان الضعفاء ‘‘ امام ابن الجوزی رحمہ اللہ کی کتاب ’’الضعفاء والمتروكين‘‘ کا اختصار ہے۔
امام سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وابن الجوزي واختصره الذهبي بل وذيل عليه في تصنيفين [الإعلان بالتوبيخ لمن ذم التاريخ ص: 221] ۔

خود امام ذھبی بھی لکھتے ہیں:
أبو الفرج بن الجوزى كتابا كبيرا في ذلك كنت اختصرته أولا، ثم ذيلت عليه ذيلا بعد ذيل.[ميزان الاعتدالموافق رقم 1/ 2]۔

اب دیوان الضعفاء جس اصل کتاب ’’الضعفاء والمتروكين‘‘ لابن الجوزی کا اختصار ہے اس اصل کتاب میں امام ابوحنیفہ کا ترجمہ موجود ہے بلکہ وہ اصل عبارت بھی موجود ہے جسے امام ذہبی رحمہ اللہ نے مختصرا دیوان میں درج کیا ہے ۔"

یہ اقتباس اسی فورم سے لیا گیا ہے
اختصارہو، شرح ہو، تعلیق ہو ، یا کچھ بھی
اس اختصار ، شرح ، تعلیق میں، اسی متن اور مضمون کا وجود لازم نہیں، اس سے کم اور زیادہ ہو سکتا ہے!
امام ذہبی نے امام ابو حنیفہ کو ضعیف قرار دیا ہے! اور یہ بات ان کی کتاب دیون الضعفاء میں موجود ہے!
لہذا امام ذہبی نے امام صاحب رحمہ اللہ کا ترجمہ صرف اس لیے ذکر کیا کیونکہ وہ جس کتاب کا اختصار کررہے ہیں اس میں امام صاحب کا ذکر پہلے سے موجود تھا نہ کہ اس وجہ سے کہ وہ ان کے نزدیک ضعیف ہے ـ
رہا سوال ابن الجوزی رحمہ اللہ کا الضعفاء والمتروکین میں ذکر کرنے کا تو خود کفایت اللہ صاحب ہی لکھتے ہیں
کسی راوی کا ضعفاء میں ذکر ہونا اس بات سے مستلزم نہیں کہ وہ راوی ضعفاء کے مؤلفین کے نزدیک ضعیف ہے کیونکہ ضعفاء کے مؤلفین ثقہ رواۃ کا تذکرہ بھی ضعفاء میں یہ بتانے کے لیے کردیتے ہیں کہ ان پر جرح ہوئی ـ( انوار البدر ص 128)

اگر اب بھی ابن داود بھائی کو اطمینان نہ ہو تو اسی دیوان الضعفاء میں عیسی بن جاریہ رحمہ اللہ، یعقوب القمی رح وغیرہ کا بھی ذکر ہے تو یہ بھی امام ذہبی کے نزدیک ضعیف ٹھرے جنہیں دن رات آپ لوگ ثقہ ثابت کرتے رہتے ہیں ـ
کسی راوی کا ضعفاء میں ذکر ہونا اس بات سے مستلزم نہیں کہ وہ راوی ضعفاء کے مؤلفین کے نزدیک ضعیف ہے کیونکہ ضعفاء کے مؤلفین ثقہ رواۃ کا تذکرہ بھی ضعفاء میں یہ بتانے کے لیے کردیتے ہیں کہ ان پر جرح ہوئی ـ( انوار البدر ص 128)
یہاں مستلزم ہونے کی نفی ہے، یہ نہیں کہا ہے کہ ضعیف ہوتا ہی نہیں!
جی بالکل! درست، ضعفاء پر لکھی ہوئی کتاب میں محض نام آجانے سے راوی صاحب کتاب کے نزدیک ضعیف نہیں ہوتا!
اور اسی طرح ثقات و حفاظ پر لکھی ہوئی کتاب میں کسی کے محض تذکرہ سے وہ راوی صاحب کتاب کے نزدیک ثقہ نہیں ہوتا!
لیکن امام ابو حنیفہ کے متعلق امام ذہبی نے انہیں ضعیف ہی قرار دیا ہے!
اس فورم پر اس مسئلہ پر تفصلی وضاحت بھی کی جا چکی ہے، اگر آپ کو تلاش کرنے پر نہ ملے تو بتلائیے گا!
لہٰذا اس بات کا اطلاق امام صاحب پر نہیں ہوتا!
امام ابو حنیفہ امام ذہبی کے نزدیک بھی ضعیف ہی ہیں!
 
Last edited:

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
زبیر علی زئی لسان المیزان سے یہ عبارت نقل کرتے ہیں:
ولي القضاء أيام الرشيد.
قال ابن سعد: كان أبوه في جند أهل الشام فقدم واسطا فولد محمد بها سنة اثنتين وثلاثين ومِئَة.
قال ابن عبد الحكم: سمعت الشافعي يقول: قال
محمد بن الحسن: أقمت على باب مالك ثلاث سنين وسمعت من لفظه أكثر من سبع مِئَة حديث.
وقال ابن المنذر: سمعت المزني يقول: سمعت الشافعي يقول: ما رأيت سمينا أخف روحا من
محمد بن الحسن وما رأيت أفصح منه.
پھر وہ اس کا یہ ترجمہ کرتے ہیں:
(ہارون)رشید کے دور میں اسے عہدۂ قضا سونپاگیا،ابن سعد(کاتب الواقدی)نے کہا:اس کا والد شام کی فوج میں تھا،وہ واسط آیاتووہاں ۱۳۲ھ میں محمد(بن الحسن )پیداہوا۔
ابن عبدالحکم نے کہا:میں نے (محمد بن ادریس،امام)شافعی کو فرماتے سنا،محمد بن الحسن نے کہا:میں(امام)مالک کے دروازے پر تین سال کھڑا رہاہوں، اوران کے اپنے الفاظ سے ،سات سو سے زیادہ حدیثیں سنی ہیں۔
ابن المنذر نے کہا:میں نے(امام)المزنی سے سنا،وہ کہتے ہیں کہ میں نے (امام)شافعی سے سناکہ:میں نے محمد بن الحسن سے زیادہ ہلکی چال چلنے والا کوئی موٹا نہیں دیکھااورنہ ہی اس سے زیادہ کوئی فصیح دیکھاہے۔


اس پورے ترجمہ میں اورماقبل کے زبیر علی زئی کے ترجمہ کو اگرآپ نے غور سے پڑھاہے تو چند چیزیں نگاہ میں آئی ہوں گی،اولاًترجمہ سے ادب کا پہلو سرے سے غائب ہے، ہرجگہ تعظیمی ضمیر ’’ان ‘‘کے بجائے’’اس‘‘لکھاگیاہے ،جیسے ’’اس کا والد‘‘، پیداہوا ‘‘،امام شافعی کیلئے تکریمی الفاظ’’فرماتے سنا‘‘ اورامام محمد بن الحسن کیلئے ’’محمد بن الحسن نے کہا‘‘،امام مالک ،امام شافعی اورامام مزنی کیلئے بریکٹ میں ’’امام‘‘اورامام محمد بن الحسن محض’’محمد بن الحسن‘‘،یہ بظاہر بہت چھوٹی چیزیں ہیں، لیکن انسان کے دل اوراس دل میں چھپی کئی باتوں کا اظہار اور راز کا افشاءانہی چھوٹی چھوٹی باتوں سے ہوجایاکرتاہے یخفون فی انفسھم مالایبدون لنااوریہ کہ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ.

میں نے ماقبل میں کہاتھاکہ زبیر علی زئی کا ترجمہ ایساہوتاہے جیسے کوئی نوآموز طالب علم تحت اللفظ ترجمہ کی مشق کررہاہو،اس ترجمہ میں بھی بعض مقامات پر وہی ’’خوبیاں ‘‘نمایاں ہیں۔: أقمت على باب مالك ثلاث سنين کا ترجمہ کیاہے۔

’’
میں(امام)مالک کے دروازے پر تین سال کھڑا رہاہوں‘‘،پتہ نہیں اگر زبیر علی زئی اس کا ترجمہ’’ حاضر باش ‘‘یااس سے ملتے جلتے الفاظ سے اداکردیتے جس میں مسلسل حاضری کا مفہوم پایاجاتاہو،توان کا کیابگڑجاتا۔

بہرحال اس ترجمہ میں تو بامحاورہ اورلفظی ترجمہ کی بات ہے، اس کے آگے انہوں نے ’’ اخف روحا‘‘کا ترجمہ جس طرح’’ہلکی چال‘‘سے کیاہے،اس سے توائمہ لغت بھی اپنی قبر میں تھرا گئے ہوں گے ،چودہویں صدی میں لغت کے مجتہد اعظم نے لغت میں کیااجتہادی کارنامہ انجام دیاہے کہ ’’اخف روحا‘‘کا ترجمہ ’’ہلکی چال‘‘سے کیاہے،غضب کا اجتہاد ہے،ایسامعلوم پڑتاہے کہ حضرت مجتہد فی اللغۃ العربیۃ زبیر علی زئی نے اپنی ’’سلفی دل ودماغ‘‘سے جب ’’اخف روحا‘‘کے معنی پر غورکیاہوگا تو’’رُوح ‘‘کو’’ رَوح‘‘سمجھ کر یہ ترجمہ فرمادیاہوگا، حالانکہ اگر وہ تھوڑی دیر کیلئے اجتہاد کے منصب بالا سے نیچے اتر کر کتب لغت کی جانب رجوع کرتے توپاتے کہ راح یروح سے روحا کا ترجمہ بھی مطلقاًچال ڈھال نہیں ہے بلکہ یہ شام کی آمد ورفت کیلئے استعمال ہوتاہے،اور اگر حدیث کے ساتھ ساتھ قرآن کی جانب بھی کبھی نظرکرلیاکریں کہ وہ ادب عربی کی سب سے اعلیٰ اوربرتر کتاب ہے،اس کتاب عزیز وحکیم میں ہلکی چال کیلئے کیاخوبصورت تعبیر استعمال ہوئی ہے۔

وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ
يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا(الفرقان:۶۳)

ہم زمین سے جڑے لوگ ہیں،لہذا ہم نے جب کتب لغت کی جانب رجوع کیا تو پایاکہ خفیف الروح کا ترجمہ لطیف اورپاکیزہ مزاج ہے،بعض کتابوں میں خفیف الروح کے معنی حسن العشرۃ مطلب اچھے برتائو اوررویہ والے کے بھی ہیں،اوربعض میں اس کو نشیط کا ہم معنی بھی بتایاگیاہے،بعض میں اس کو ظریف کا مترادف بھی کہاگیاہے، اوراسی کے ساتھ خفیف القلب کے معنی ذکی اور ذہین کے ہیں، جب کہ خفیف العقل کے معنی بے وقوف اورکندۂ ناتراش کے ہیں،حافظ ذہبی نے ابن ابی داؤد کے کے ترجمہ میں ان کو خفیف الراس کہاہے جو خفیف العقل کا ہم معنی ہے۔

عربی میں کسی لفظ کا ایک سے زائد معنی ہوناعام ہے، سیاق وسباق اورمتکلم کے دوسرے کلام کی روشنی میں متعدد معانی میں سے کسی ایک کوطے کیاجائے گا۔ مثلا ابوعبداللہ بیہقی کے ترجمہ میں ابوسعد السمعانی نے لکھاہے:

أبو عيد الله البَيْهَقي
أبو عبد الله الحسين بن أحمد بن علي بن الحسن بن فطيمة البيهقي من أهل خسروجرد إحدى قرى بيهق وهو قاضيها.كان شيخاً فاضلاً، مسناً، كبيراً جليل القدر، حسن السيرة، مليح الأخلاق، كثير المحفوظ،(الصحیح: المزاح) وكان يمزح مع كل أحد ................................. كتبت عنه وما رأيت في سفري ألطف، ولا أخف روحاً، ولا أضحك سناً منه.
(التحبير في المعجم الكبير1/223)
یہاں پر کوئی شک نہیں کہ بیہقی کے حس مزاح وظرافت اورخوش طبعی کو دیکھتے ہوئے اگراس کا ترجمہ ظرافت سے کردیاجائے،لیکن امام محمد کے ترجمہ میں کسی نے اس کی وضاحت نہیں کی ہے کہ وہ بہت مزاح کرنے والے تھے یابہت ظریف وہنسوڑ تھے،بلکہ متعدد ترجمہ نگاروں بشمول ذہبی نے لکھاہے کہ وکان من اذکیاء العالم وہ دنیا کے ذہین ترین لوگوں میں سے ایک تھے،پھر یہ کہ خود امام شافعی سے امام محمد کی ذہانت وذکاوت کی تعریف صحیح سند سے منقول ہے:

حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الْخَلالُ قال أنبأنا علي بن عمرو الجريري أن أبا القاسم عَلِيّ بْن مُحَمَّد بْن كاس النخعي حدثهم قال نبأنا أحمد بن حماد بن سفيان قَالَ سمعت الربيع بن سُلَيْمَان قَالَ سمعت الشَّافِعِيّ يَقُولُ: ما رأيت أعقل من محمد بن الحسن.(تاريخ بغداد وذيوله2/172)
پھرخود امام شافعی سے بعض روات نے
ما رأيت سمينا أخف روحا من محمد بن الحسن کی جگہ یہ نقل کیاہے: وما رأيت مبدنا قط أذكى من محمد بن الحسن
یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے ،لیکن کسی لفظ کے ایک سے زائد مفہوم میں سے کسی ایک مفہوم کو طے کرنے کیلئے کافی ہے۔
غورکیجئے:
ایک ایسا شخص جس کو عربی زبان سے کوئی لگاؤاورمس نہیں ہے ،وہ شخص اجتہاد کی دعوت عام دیتاہے اور ایسے مسلک ومذہب کے فقہاء پر زبان طعن دراز کرتاہے جس میں سینکڑوں لغوی گزرے ہیں اور جس شخصیت پر وہ زبان طعن دراز کررہاہے، خود لغت میں اس کا پایہ یہ ہے کہ امام شافعی جیسے عربی زبان کے امام ان کا لوہامانتے ہیں اورکہتے ہیں کہ ان کی بات ایسی فصیح ہوتی ہے گویا قرآن نازل ہورہاہو۔
یہیں سے ایک اور اعتراض کا بھی جواب نکل آیاہے کہ بعض جاہل قسم کے لوگ ہدایہ پر ایک شعر کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں جس میں شاعرنے کہاکہ’’ ہدایہ قرآن جیسی ہے جیسے قرآن نے سابقہ شرائع کو منسوخ کیاویسے ہی ہدایہ نے ماقبل کی فقہی کتابوں کو منسوخ کردیاہے‘‘،اس پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہدایہ کالقرآن کہہ کر قرآن کی توہین یاہدایہ کو اپنے مقام سے زیادہ بلند کردیاگیاہے،وہ امام شافعی کے اس اعتراف کوکیاکہیں گےجس میں امام شافعی کہتے ہیں کہ محمد بن الحسن کی بات ایسی ہوتی تھی گویا قرآن نازل ہورہاہو۔
 
Top