لطیفہ یاکثیفہ
جوحضرت خفیف الروح کا ترجمہ ہلکی چال فرمائیں اور منصفا کاترجمہ آدھاراستہ کریں،ان سے لطیفہ نہیں بالضرور کثیفہ ہی صادر ہوگا،زبیر علی زئی نے اپنے مضمون النصرالربانی میں کئی مرتبہ الاسانید الصحیحہ کا حوالہ دیاہے،مثلا امام ایک جگہ لکھتے ہیں:
تاریخ بغداد(ج۲؍ص۱۷۹)اس کی سند صحیح ہے،دیکھئے الاسانید الصحیحہ فی اخبار ابی حنیفۃ قلمی ،ص۱۱۸،(الحدیث ۷؍۱۴)
علماء قلمی کتابوں کا بھی حوالہ دیتے رہے ہیں، لیکن یہ قلمی کتابیں عموماوہ ہوتی ہیں جوکسی لائبریری میں ہوتی ہیں اورجس سے استفادہ کرنا ممکن ہوتاہے،ایسابھی ہوا ہے کہ اہل علم اپنی کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں لیکن بیشتر صورتوں میں یہ کتابیں مطبوعہ ہوتی ہین، اور اگر مصنف کی کتاب طبع نہیں ہوئی ہے تو وہ یہ نہیں لکھتا،’’ دیکھئے فلاں کتاب صفحہ نمبر،بلکہ یہ لکھتاہے کہ میں اپنی زیر تکمیل کتاب میں اس موضوع پر مزید وضاحت سے لکھ رہاہوں، وغیرذلک۔یہ سند صحیح ہے ،دیکھئے الاسانید الصحیحۃص۲۴۲ (الحدیث ۷؍۱۵)
دوسری بات یہ ہے کہ کوئی بھی شخص جس کو علم سے ذرہ برابر بھی مس ہے،وہ اپنے مسودہ کو کبھی ’’قلمی ‘‘ نہیں کہتا،اس کو اہل علم مسودہ کہتے ہیں ،لیکن زبیر علی زئی کو قلمی ،مخطوطہ اورمسودہ کافرق کیامعلوم ،وہ اپنے ہی مسودہ کو ’’قلمی‘‘ قراردیتے ہیں ،ہم اتنے پر ہی قلم روک لیتے ہیں، ورنہ جی توچاہتاتھاکہ ذرا ابن دائود سے پوچھیں کہ مصنف اپنی زندگی اورحین حیات اپنے مسودہ کو اگرقلمی کہے توایسے مصنف کی جگہ کہاں پر ہونی چاہئے ۔
لیکن اپنی ہی تصنیف کو قلمی بتانا اوراس کاحوالہ دینا یہ ظرافت طبع تو بس زبیر علی زئی کے یہاں ہوسکتی تھی اور جوہوئی ہے،زبیر علی صاحب نے بارہااپنے اس مخطوطہ اوربقلم خود’’ قلمی‘‘کا حوالہ دیاہے، اس پر ایک صاحب نے ان کو رقم منی آرڈر کرکے درخواست کی ،کہ اپنے اس قلمی کو زیراکس کراکر بھیج دیں تاکہ آپ کے حکم کے مطابق کہ ’’دیکھئےالاسانید الصحیحہ،ص۱۱۸‘‘،ہم بھی دیکھ سکیں،اس پر زبیر علی زئی کا جواب دیکھئے۔
( تناقضات زبیر علی زئی ص۳۷)الاسانیدالصحیحہ فی الحال شائع نہیں ہوئی (بلکہ)قلمی حالت میں موجود ہےاگرمیں نے ایک ہزار کتابوں میں اس کا حوالہ دیاہے توبھی کوئی بات نہیں،آپ کو یہ کتاب صرف شائع ہونے کے بعد ہی مل سکتی ہے،چھپنے سے پہلے مخطوطے کی فوٹواسٹیٹ کسی حالت میں نہیں مل سکتی،لہذا اس سلسلے میں بے غم رہیں اورکسی ذریعہ سے اپنی رقم منگوالیں،کتاب مذکور کے شائع ہونے کا فی الحال کوئی امکان نہیں ،منزل ابھی بہت دور ہے،انشاءاللہ۔
امید ہے اس سلسلے میں آپ آئندہ کوئی خط نہیں لکھیں گے اورنہ آپ کے کسی خط کا اس سلسلے میں جواب دیاجائے گا۔
حافظ زبیر علی زئی مدرسہ اہل حدیث حضرو ،۱۶؍ستمبر ۲۰۰۹ء
واضح رہے کہ جن صاحب نے زبیر علی زئی کو یہ خط لکھاتھا وہ خود حضرو اٹک کے رہنے والے تھے اور گورنمنٹ ہائی اسکول نمبر۱کے ملازم تھے اوران کا نام سمیع اللہ خان تھا۔
(سوال یہ ہے کہ بقول زبیر علی زئی یہ کتاب ’’قلمی‘‘ ہے،کسی پبلک لائبریری میں نہیں ہے بلکہ زبیر علی زئی کی ملکیت ہے، زبیر علی زئی اسے زیراکس کراکر بھی دینے کو تیار نہیں اورکتاب مطبوعہ بھی نہیں ہے اور مستقبل قریب میں بھی مطبوعہ ہونے کی امید نہیں ہے (بلکہ زبیر علی زئی دنیا سے سدھار گئے مگر اپنی ضد میں اس کتاب کو طباعت سے مشرف کرنے کے بجائے’’قلمی‘‘بناکر ہی چلے گئے)ایسے میں بار بار لکھنا کہ’’دیکھئے الاسانید الصحیحہ ‘‘توآدمی کیسے دیکھے گا،کتاب دستیاب نہیں،اورزبیر علی زئی صاحب دیکھنے دینے کیلئے تیار نہیں،اس گتھی کو ذرا ابن دائود یاززبیر علی زئی کے خاص معتقدین سلجھادیں تو بڑی مہربانی ہوگی)
ہوسکتاہےکہ یہ سب پڑھ کر آپ کے چہرے پر تبسم نمودار ہوجائے ،لیکن قبل اس کے ،کہ یہ تبسم دم توڑے، ایک قہقہہ کیلئے تیار ہوجائے،زبیر علی زئی نے ’’تحت التکمیل‘‘کتاب کے مطالعے کا مشورہ دیاہے،اب جو کتاب زبیر علی زئی کے تحت تکمیل کو پہونچ رہی ہو،اس کا مطالعہ قاری کیسے کرے گا،اس گتھی کو زبیر علی زئی نے سلجھایاہی نہیں ،لہذا یہ ابھی تک معمہ ہی ہے۔
گلفشانی ملاحظہ ہو:
اس معمہ کو بھی کوئی خاص معتقد سلجھائیں توبڑی مہربانی ہوگی کہ تحت التکمیل کتاب کا مطالعہ کیسے کیاجاسکتاہے؟راقم الحروف کی کتاب اکاذیب علمائے دیوبند’’تحت التکمیل‘‘ کا مطالعہ فرمائیں(تعداد رکعات قیام رمضان ص۴۰)
Last edited: