پس ہم وھابیوں کے ہاں الوھیت کے شرک میں سب سے بڑی چیز غیراللہ سے مانگنا شامل ہے اور آج کل جسکو ہم الوھیت کا شرک کہتے ہیں وہ اسی مانگنے میں کیا جاتا ہے اور آجکل ہم اسی مانگنے سے ہی روکتے ہیں یہ تو تھا ہمارا نظریہ کہ الوھیت کے شرک میں سب سے بڑی چیز یہی غیراللہ سے مانگنا ہے
اب آپ کے ہاں بھی اسی کو شرک کہا جاتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور سے نہ مانگا جائے کیونکہ آپ کے ہاں بھی ابو جہل یہی اللہ کے علاوہ بتوں سے مانگتا تھا اور اسی طرح ہندو بھی یہی کرتے ہیں اور عیسائی بھی عیسی علیہ السلام اور مریم علیھا السلام سے مانگتے ہیں پس آپ کے ہاں بھی کسی نہ کسی طرح اس طرح مانگنا ہی شرک ہے چاہے وہ بتوں سے مانگنا ہو یا نیک لوگوں سے مانگنا ہو یہاں تک میرا خیال ہے مطلقا آپ انکار نہیں کر سکتے البتہ اسکے اندر آگے مانگنے کی قسمیں بنا سکتے ہیں جیسا کہ آپ نے فتوی عزیزی کی اوپر بات کی ہوئی ہے
پس میں اب تک کی بحث کا نچوڑ پیش کرنے لگا ہوں کہ
1-آپ کے ہاں بھی بعض صورتوں میں اللہ کے علاوہ مانگنا الوھیت کا شرک کہلاتا ہے مگر اللہ کے علاوہ مانگنے والا ہر دفعہ مشرک نہیں ہوتا بلکہ اس مانگنے کے عمل کے شرک بننے کے لئے کچھ شرائط ہوتی ہیں جیسا کہ فتوی عزیزی میں بتائی گئی ہیں
2-آپ نے یہ تھریڈ بھی اسی لئے شروع کیا تھا کہ ہم وھابی سب غیراللہ سے مانگنے والوں کو شرک فی الوھیت کہنا شروع کر دیتے ہیں یہ نہیں دیکھتے کہ اس الوھیت کا مدار کس پہ ہے یا اس الوھیت کی شرائط کیا ہیں کہ جس کے بعد یہ سمجھا جائے کہ وہ مانگنے والا اس غیراللہ کو الہ سمجھ کر ہی مانگ رہا ہے
اس نچوڑ پہ آپکو کوئی اعتراض ہو تو بتائیں تو تاکہ اسی کے تناظر میں آگے بات چل سکے