• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الیاس گھمن صاحب کے "رفع یدین نہ کرنے" کا جواب

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
kitabosunnat.com/kutub-library/imam-bukhari-par-baaz-aitarazat-ka-jaiza
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
میرے محترم @ابن قدامہ بھائی!
ایک تو امیجز نہیں لگائیے۔ یونیکوڈ میں تحریر کریں تاکہ میں اس کا اقتباس بھی لے سکوں اور اسے اصل مقامات پر تلاش بھی کر سکوں۔
دوسری بات کتاب کے غیر متعلقہ صفحات بھی جو آپ نے لگا دیے ہیں انہیں نہ لگائیے۔
ویسے بھی صاحب کتاب کے نہ تو آپ مقلد ہیں اور نہ میں جو آپ ان کی تحقیق لگا رہے ہیں۔

میں نہیں جانتا کہ یہ کن کی کتاب ہے۔ لیکن روایات نعیم بن حماد کے بارے میں جو ابتدا میں اشیاء ذکر کی ہیں ان میں سے اکثر علامہ ذہبیؒ نے سیر میں ذکر کی ہیں اور اس کے بعد جو انہوں نے حکم لگایا ہے وہ میں نے ذکر کر دیا ہے ان کے حوالے سے۔ آپ کے مولوی صاحب کی تحقیق سے میں ذہبیؒ کی تحقیق کو زیادہ بہتر سمجھتا ہوں۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
لیکن روایات نعیم بن حماد کے بارے میں جو ابتدا میں اشیاء ذکر کی ہیں ان میں سے اکثر علامہ ذہبیؒ نے سیر میں ذکر کی ہیں اور اس کے بعد جو انہوں نے حکم لگایا ہے وہ میں نے ذکر کر دیا ہے ان کے حوالے سے۔ آپ کے مولوی صاحب کی تحقیق سے میں ذہبیؒ کی تحقیق کو زیادہ بہتر سمجھتا ہوں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ذہبی رحمہ اللہ کی درج بالا بات تذکرۃ الحفاظ سے نقل کی ہے ملاحظہ ہو:

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
هذا حديث منكر لا أصل له من حديث رسول الله صلى الله عليه و سلم ولا شاهد ولم يأت به عن سفيان سوى نعيم وهو مع إمامته منكر الحديث[تذكرة الحفاظ للذهبي: 2/ 419]۔

یعنی امام ذہبی رحمہ اللہ نے انہیں منکرالحدیث کہنے کے ساتھ ساتھ تذکرۃ الحفاظ میں بھی نقل کیا ہے ، اوریہ کتاب مطبوع ودستیاب ہے۔
لیکن اس کے باوجود بھی اصل مرجع کا حوالہ دینےکے بجائے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے واسطہ یہ قول نقل کیاجارہا ہے ، شاید اس کا مقصد اس حقیقت پر پردہ ڈالنا ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے انہیں تذکرۃ الحفاظ میں بھی نقل کیا ہے۔

دراصل امام ابوحنیفہ کاذکربھی امام ذہبی نے تذکرہ الحفاظ میں کیاہے اور بعض لوگ اسی بات کو ابوحنیفہ کی توثیق سمجھتے ہیں اگر یہ اصول درست ہے تو اس اصول کے تحت نعیم بن حماد بھی ثقہ ہیں کیونکہ ان کا ذکر بھی امام ذہبی نے تذکرہ الحفاظ میں کیا ہے۔

یہ تو ایک الزامی بات ہے اصل جواب یہ ہے کہ نعیم بن حماد رحمہ اللہ منکرالحدیث نہیں ہیں بلکہ ثقہ ہیں اور امام بخاری رحمہ اللہ کے استاذ ہیں بہت سارے محدثین نے انہیں ثقہ کہا ہے اورامام ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ ثقہ ہی ہیں کیونکہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کا تذکرہ اپنی کتاب ’’من تكلم فيه وهو موثوق أو صالح الحديث‘‘ میں کیا ہے دیکھئے :[من تكلم فيه وهو موثق ت الرحيلي ص: 516]

رہا تذکرۃ الحفاظ میں امام ذہبی کا منکرالحدیث کہنا تو امام ذہبی رحمہ اللہ نے منکرالحدیث عام معنی میں نہیں کہا ہے بلکہ اس سے مراد فقط یہ ہے کہ ان کی بعض احادیث میں نکارت ہے ۔
جیساکہ دیگر مقامات پر انہوں پوری صراحت کے ساتھ یہ وضاحت کی ہے مثلا عبر میں کہا:

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
نعيم بن حماد الخزاعي المروزي الفرضي الحافظ أحد علماء الأثر سمع أبا حمزة السكري وهشيما وطبقتهما وصنف التصانيف وله غلطات ومناكير مغمورة في كثرة ما روى[العبر في خبر من غبر 1/ 405]

لہٰذا امام ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ ثقہ یا کم ازکم حسن الحدیث ہی ہیں۔واللہ اعلم۔
http://forum.mohaddis.com/threads/کیا-نعيم-بن-حماد-منكر-الحديث-تھے.16787/
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
ایک تو امیجز نہیں لگائیے۔ یونیکوڈ میں تحریر کریں تاکہ میں اس کا اقتباس بھی لے سکوں اور اسے اصل مقامات پر تلاش بھی کر سکوں۔
اس کے لیے کافی وقت درکار ہے جو میرے پاس نہیں ہے
 
شمولیت
اگست 20، 2012
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
84
پوائنٹ
38
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ذہبی رحمہ اللہ کی درج بالا بات تذکرۃ الحفاظ سے نقل کی ہے ملاحظہ ہو:

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
هذا حديث منكر لا أصل له من حديث رسول الله صلى الله عليه و سلم ولا شاهد ولم يأت به عن سفيان سوى نعيم وهو مع إمامته منكر الحديث[تذكرة الحفاظ للذهبي: 2/ 419]۔

یعنی امام ذہبی رحمہ اللہ نے انہیں منکرالحدیث کہنے کے ساتھ ساتھ تذکرۃ الحفاظ میں بھی نقل کیا ہے ، اوریہ کتاب مطبوع ودستیاب ہے۔
لیکن اس کے باوجود بھی اصل مرجع کا حوالہ دینےکے بجائے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے واسطہ یہ قول نقل کیاجارہا ہے ، شاید اس کا مقصد اس حقیقت پر پردہ ڈالنا ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے انہیں تذکرۃ الحفاظ میں بھی نقل کیا ہے۔

دراصل امام ابوحنیفہ کاذکربھی امام ذہبی نے تذکرہ الحفاظ میں کیاہے اور بعض لوگ اسی بات کو ابوحنیفہ کی توثیق سمجھتے ہیں اگر یہ اصول درست ہے تو اس اصول کے تحت نعیم بن حماد بھی ثقہ ہیں کیونکہ ان کا ذکر بھی امام ذہبی نے تذکرہ الحفاظ میں کیا ہے۔

یہ تو ایک الزامی بات ہے اصل جواب یہ ہے کہ نعیم بن حماد رحمہ اللہ منکرالحدیث نہیں ہیں بلکہ ثقہ ہیں اور امام بخاری رحمہ اللہ کے استاذ ہیں بہت سارے محدثین نے انہیں ثقہ کہا ہے اورامام ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ ثقہ ہی ہیں کیونکہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کا تذکرہ اپنی کتاب ’’من تكلم فيه وهو موثوق أو صالح الحديث‘‘ میں کیا ہے دیکھئے :[من تكلم فيه وهو موثق ت الرحيلي ص: 516]

رہا تذکرۃ الحفاظ میں امام ذہبی کا منکرالحدیث کہنا تو امام ذہبی رحمہ اللہ نے منکرالحدیث عام معنی میں نہیں کہا ہے بلکہ اس سے مراد فقط یہ ہے کہ ان کی بعض احادیث میں نکارت ہے ۔
جیساکہ دیگر مقامات پر انہوں پوری صراحت کے ساتھ یہ وضاحت کی ہے مثلا عبر میں کہا:

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
نعيم بن حماد الخزاعي المروزي الفرضي الحافظ أحد علماء الأثر سمع أبا حمزة السكري وهشيما وطبقتهما وصنف التصانيف وله غلطات ومناكير مغمورة في كثرة ما روى[العبر في خبر من غبر 1/ 405]

لہٰذا امام ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ ثقہ یا کم ازکم حسن الحدیث ہی ہیں۔واللہ اعلم۔
http://forum.mohaddis.com/threads/کیا-نعيم-بن-حماد-منكر-الحديث-تھے.16787/
جزاک اللہ خیر ابن قدمہ بھائ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ذہبی رحمہ اللہ کی درج بالا بات تذکرۃ الحفاظ سے نقل کی ہے ملاحظہ ہو:

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
هذا حديث منكر لا أصل له من حديث رسول الله صلى الله عليه و سلم ولا شاهد ولم يأت به عن سفيان سوى نعيم وهو مع إمامته منكر الحديث[تذكرة الحفاظ للذهبي: 2/ 419]۔

یعنی امام ذہبی رحمہ اللہ نے انہیں منکرالحدیث کہنے کے ساتھ ساتھ تذکرۃ الحفاظ میں بھی نقل کیا ہے ، اوریہ کتاب مطبوع ودستیاب ہے۔
لیکن اس کے باوجود بھی اصل مرجع کا حوالہ دینےکے بجائے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے واسطہ یہ قول نقل کیاجارہا ہے ، شاید اس کا مقصد اس حقیقت پر پردہ ڈالنا ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے انہیں تذکرۃ الحفاظ میں بھی نقل کیا ہے۔

دراصل امام ابوحنیفہ کاذکربھی امام ذہبی نے تذکرہ الحفاظ میں کیاہے اور بعض لوگ اسی بات کو ابوحنیفہ کی توثیق سمجھتے ہیں اگر یہ اصول درست ہے تو اس اصول کے تحت نعیم بن حماد بھی ثقہ ہیں کیونکہ ان کا ذکر بھی امام ذہبی نے تذکرہ الحفاظ میں کیا ہے۔

یہ تو ایک الزامی بات ہے اصل جواب یہ ہے کہ نعیم بن حماد رحمہ اللہ منکرالحدیث نہیں ہیں بلکہ ثقہ ہیں اور امام بخاری رحمہ اللہ کے استاذ ہیں بہت سارے محدثین نے انہیں ثقہ کہا ہے اورامام ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ ثقہ ہی ہیں کیونکہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کا تذکرہ اپنی کتاب ’’من تكلم فيه وهو موثوق أو صالح الحديث‘‘ میں کیا ہے دیکھئے :[من تكلم فيه وهو موثق ت الرحيلي ص: 516]

رہا تذکرۃ الحفاظ میں امام ذہبی کا منکرالحدیث کہنا تو امام ذہبی رحمہ اللہ نے منکرالحدیث عام معنی میں نہیں کہا ہے بلکہ اس سے مراد فقط یہ ہے کہ ان کی بعض احادیث میں نکارت ہے ۔
جیساکہ دیگر مقامات پر انہوں پوری صراحت کے ساتھ یہ وضاحت کی ہے مثلا عبر میں کہا:

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
نعيم بن حماد الخزاعي المروزي الفرضي الحافظ أحد علماء الأثر سمع أبا حمزة السكري وهشيما وطبقتهما وصنف التصانيف وله غلطات ومناكير مغمورة في كثرة ما روى[العبر في خبر من غبر 1/ 405]

لہٰذا امام ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ ثقہ یا کم ازکم حسن الحدیث ہی ہیں۔واللہ اعلم۔
http://forum.mohaddis.com/threads/کیا-نعيم-بن-حماد-منكر-الحديث-تھے.16787/
امام ذہبیؒ کا ان کے بارے میں صریح قول ہے جو میں نے ما قبل میں سیر کے حوالے سے عرض بھی کیا ہے:
قُلْتُ: لاَ يَجُوْزُ لأَحَدٍ أَنْ يَحْتَجَّ بِهِ
"میں کہتا ہوں: کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ان سے دلیل پکڑے۔"
اس صریح قول کی موجودگی میں تاویلات کر کے انہیں ذہبی کے نزدیک ثقہ ثابت کرنا میرا خیال ہے کہ کوئی بہتر چیز نہیں ہے۔

اس کے لیے کافی وقت درکار ہے جو میرے پاس نہیں ہے
اور ان صفحات کو پڑھنے کے لیے بھی کافی وقت درکار ہے جو میرے پاس نہیں (ابتسامہ)۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
امام ذہبیؒ کا ان کے بارے میں صریح قول ہے جو میں نے ما قبل میں سیر کے حوالے سے عرض بھی کیا ہے:
قُلْتُ: لاَ يَجُوْزُ لأَحَدٍ أَنْ يَحْتَجَّ بِهِ
"میں کہتا ہوں: کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ان سے دلیل پکڑے۔"
اس صریح قول کی موجودگی میں تاویلات کر کے انہیں ذہبی کے نزدیک ثقہ ثابت کرنا میرا خیال ہے کہ کوئی بہتر چیز نہیں ہے۔
امام ذہبی نے کاشف میں کہا : الحافظ ، مختلف فيه ، امتحن فمات محبوسا بسامراء
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
قال ابْن حَمَّاد قَالَ غيره كَانَ يضع الحديث فِي تقوية السنة وحكايات عن العلماء فِي ثلب أبي حنيفة مزورة كذب.
الکامل 8۔251 ط العلمیۃ
قال يوسف بن عبد الله الخوارزمي: سألت أحمد بن حنبل، عن نعيم بن حماد. فقال: لقد كان من الثقات. «الكامل» (1959)
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
امام ذہبی نے کاشف میں کہا : الحافظ ، مختلف فيه ، امتحن فمات محبوسا بسامراء
قال يوسف بن عبد الله الخوارزمي: سألت أحمد بن حنبل، عن نعيم بن حماد. فقال: لقد كان من الثقات. «الكامل» (1959)
ایک مشہور اصول ہے کہ جرح مفسر تعدیل سے راجح ہوتی ہے۔ اور ذہبی کی جرح مفسر ہے۔
نسائی نے بهی جرح مفسر كی ہے:
و قال أبو على النيسابورى الحافظ : سمعت أبا عبد الرحمن النسائى يذكر فضل نعيم ابن حماد و تقدمه فى العلم و المعرفة و السنن ، ثم قيل له فى قبول حديثه ،
فقال : قد كثر تفرده عن الأئمة المعروفين بأحاديث كثيرة فصار فى حد من لا يحتج به. (تہذیب الکمال)
ابو علی نیسابوری فرماتے ہیں: میں نے ابو عبد الرحمان نسائی کو نعیم بن حماد کی فضیلت اور علم اور معرفت اور سنن میں تقدم کے بیان کرتے ہوئے سنا۔ پھر ان سے ان کی حدیث کے قبول کرنے کے بارے میں کہا گیا تو فرمایا: ائمہ معروفین سے بہت زیادہ احادیث میں ان کا تفرد بڑھ گیا ہے اور یہ اس حد پر پہنچ گئے ہیں کہ ان سے حجت نہ پکڑی جائے۔
ذہبی نے بھی اسی احتجاج کے قابل نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
رہ گئی بات حافظ کہنے کی تو حافظ توثیق ہے حفظ میں اور جرح ہے ان کی عدالت پر۔ تو ان دونوں میں کوئی منافاۃ نہیں ہے۔
یہ بر سبیل تذکرہ تھا۔ وگرنہ معاملہ کچھ یوں ہے کہ ان پر جرح اس وجہ سے ہے کہ یہ ذم اہل الرائے اور ذم ابو حنیفہ میں روایات وضع کر دیتے تھے۔ دوسری جرح ان کے کثیر الخطا اور تیسری کثیر الوہم ہونے کی وجہ سے ہے۔
اگر بالفرض ہم انہیں حدیث میں قوی مان بھی لیں تب بھی بات ذم ابو حنیفہ کی چل رہی ہے اور اس میں تو یہ متہم بالکذب و الوضع ہیں۔ اس میں ان کی بات کیسے مان لی جائے؟ چلیں ہم انہیں وضاع نہیں مانتے جیسے حافظؒ کا خیال ہے لیکن متہم بالوضع ہونے سے تو یہ کسی صورت نہیں نکلتے خصوصا اس خاص موضوع میں۔
 
Top