اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ1۔ حدثنا نعیم بن حماد قال حدثنا الفزاری قال کنت عند سفیان فنعی النعمان فقال الحمد اللہ کان نیقص الاسلام عروۃ عروۃ ما ولد فی الاسلام اشام منہ (اسنادہ حسن) (تاریخ الصغیر للبخاری ص 171)
ترجمہ: امام ابو اسحاق الفزاریؒ نے کہا میں امام سفیان ثوریؒ کے پاس تھا تو ان کے ہاں ابو حنیفہ کی وفات کی خبر پہنچھی تو انہوں نے کہا الحمداللہ اچھا ہوا مرگیا ابو حنیفہ تو اسلام کی تمام کڑیوں کو ایک ایک کر کے توڑ رہا تھا اسلام میں اس سے زیادہ منحوس کوئی شخص پیدا نہیں ہوا
دثنی احمد بن محمد بن یحیی بن سعید القطان ثنا ابو نعیم قال کنامع سفیان جلوسا فی المسجدالحرام فاقبل ابو حنیفۃ یرید فلمار آہ سفیان قال قومو ا بنا لا یعدنا ھذا بجربہ فقمنا وقام سفیان وکنا مرۃ اخری جلوسا مع سفیان فی المسجدالحرام فجاء ابو حنیفۃ فجلس فلم تشعریہ فلما زآہ سفیان استدار فجعل ظھرہ الیہ (اسنادہ حسن) (کتاب السنۃ) جلد اول ص 199)
ترجمہ:امام ابو نعیم ؒ نے کہا ہم امام سفیان ثوریؒ کیساتھ مسجد الحرام میں بیھٹے ہوئے تھے پس ابو حنیفہ آیا ہو اس (سفیان) کی طرف آنا چاہتا تھا جاب امام سفیان ؒ نے اس کو دیکھا امام سفیانؒ ثوری نے کا کھڑے ہوجاؤ یہ شخص اپنی خارش سے ہمیں بھی خارش زدہ کردے گا پس ہم کھڑے ہوگئے اور امام سفیان ثوریؒ بھی کھڑے ہوگے ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم بھیٹے ہوئے تھے امام سفیان ثوریؒ کیساتھ مسجدالحرام میں پس انکے پاس ابو حنیفہ آیا اور بیٹھ گیا تو ہمیں اس کا پتہ نہیں چلا۔ تو جب امام سفیانؒ نے اس کو دیکھا تو اس سے منہ پھیر لیا اور اپنی پشت اس کی طرف کردی
میں ذرا مصروفیت کی وجہ سے یہاں سے غیر حاضر کیا ہوا کہ یہاں تو جنگ ہی چھڑ گئی (ابتسامہ)۔
محترم ابن قدامہ بھائی!حدثنا نعیم بن حماد قال حدثنا الفزاری قال کنت عند سفیان فنعی النعمان فقال الحمد اللہ کان نیقص الاسلام عروۃ عروۃ ما ولد فی الاسلام اشام منہ (اسنادہ حسن) (تاریخ الصغیر للبخاری ص 171)
ترجمہ: امام ابو اسحاق الفزاریؒ نے کہا میں امام سفیان ثوریؒ کے پاس تھا تو ان کے ہاں ابو حنیفہ کی وفات کی خبر پہنچھی تو انہوں نے کہا الحمداللہ اچھا ہوا مرگیا ابو حنیفہ تو اسلام کی تمام کڑیوں کو ایک ایک کر کے توڑ رہا تھا اسلام میں اس سے زیادہ منحوس کوئی شخص پیدا نہیں ہوا
اس روایت کا ایک راوی ہے نعیم بن حماد۔ اس پر کچھ عجیب و غریب جروحات ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ یہ ابو حنیفہ کے مثالب میں روایات گھڑتا تھا۔
قال ابْن حَمَّاد قَالَ غيره كَانَ يضع الحديث فِي تقوية السنة وحكايات عن العلماء فِي ثلب أبي حنيفة مزورة كذب.
الکامل 8۔251 ط العلمیۃ
"غیرہ" سے مراد غیر احمد بن شعیب ہیں۔ ہو سکتا ہے اس پر یہ اعتراض ہو کہ یہاں جارح مجہول ہے۔ لیکن اس جرح کو اسی جہالت کے ساتھ ابن عدی اور ذہبی نے ذکر کیا ہے۔
لیکن اس جرح کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے جسے ذہبی نے سیر میں ذکر کیا ہے:
ثُمَّ قَالَ ابْنُ عَدِيٍّ: ابْنُ حَمَّادٍ مُتَّهَمٌ فِيْمَا يَقُوْلُ؛ لِصَلاَبَتِهِ فِي أَهْلِ الرَّأْيِ (2) .
وَقَالَ لِي ابْنُ حَمَّادٍ: وَضَعَ نُعَيْمٌ حَدِيْثاً عَنْ عِيْسَى بنِ يُوْنُسَ، عَنْ حَرِيْزِ بنِ عُثْمَانَ -يَعْنِي: فِي الرَّأْيِ-.
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نعیم کا یہ فعل صرف ابو حنیفہؒ کے خلاف نہیں تھا بلکہ وہ اہل الرائے کے بارے میں ایسے متشدد تھے کہ حدیث گھڑنے سے بھی نہیں چوکتے تھے۔
اسی لیے ذہبی نے اپنا فیصلہ یوں دیا ہے:
قُلْتُ: لاَ يَجُوْزُ لأَحَدٍ أَنْ يَحْتَجَّ بِهِ، وَقَدْ صَنَّفَ كِتَابَ (الفِتَنِ) ، فَأَتَى فِيْهِ بِعَجَائِبَ وَمَنَاكِيْرَ.
سیر اعلام النبلاء 10۔609 ط رسالہ
اس کے علاوہ ان کی روایات پر بھی جروحات موجود ہیں۔
اس روایت میں میری تحقیق کے مطابق ایک فنی خرابی ہے۔ احمد بن محمد کے استاد ہیں ابو نعیم۔ یہ ابو نعیم النخعی الصغیر ہیں۔ اور ان کے بارے میں مصنف کے والد امام احمدؒ فرماتے ہیں جیسا کہ مزی نے نقل کیا ہے:دثنی احمد بن محمد بن یحیی بن سعید القطان ثنا ابو نعیم قال کنامع سفیان جلوسا فی المسجدالحرام فاقبل ابو حنیفۃ یرید فلمار آہ سفیان قال قومو ا بنا لا یعدنا ھذا بجربہ فقمنا وقام سفیان وکنا مرۃ اخری جلوسا مع سفیان فی المسجدالحرام فجاء ابو حنیفۃ فجلس فلم تشعریہ فلما زآہ سفیان استدار فجعل ظھرہ الیہ (اسنادہ حسن) (کتاب السنۃ) جلد اول ص 199)
ترجمہ:امام ابو نعیم ؒ نے کہا ہم امام سفیان ثوریؒ کیساتھ مسجد الحرام میں بیھٹے ہوئے تھے پس ابو حنیفہ آیا ہو اس (سفیان) کی طرف آنا چاہتا تھا جاب امام سفیان ؒ نے اس کو دیکھا امام سفیانؒ ثوری نے کا کھڑے ہوجاؤ یہ شخص اپنی خارش سے ہمیں بھی خارش زدہ کردے گا پس ہم کھڑے ہوگئے اور امام سفیان ثوریؒ بھی کھڑے ہوگے ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم بھیٹے ہوئے تھے امام سفیان ثوریؒ کیساتھ مسجدالحرام میں پس انکے پاس ابو حنیفہ آیا اور بیٹھ گیا تو ہمیں اس کا پتہ نہیں چلا۔ تو جب امام سفیانؒ نے اس کو دیکھا تو اس سے منہ پھیر لیا اور اپنی پشت اس کی طرف کردی
قال عبد الله بن أحمد بن حنبل ، عن أبيه : ليس بشىء .
اور یحیی بن معین فرماتے ہیں:
و قال على بن الحسن الهسنجانى : سمعت يحيى بن معين يقول : بالكوفة كذابان :
أبو نعيم النخعى ، و أبو نعيم ضرار بن صرد .
اور ابو داؤد اور نسائی نے بھی انہیں ضعیف قرار دیا ہے۔ اسی طرح ان کے زمانے کے ابو نعیم الفضل بن دکین نے بھی انہیں ضعیف قرار دیا ہے جیسا کہ حافظؒ نے تہذیب التہذیب میں ذکر کیا ہے۔
تو ایسی صورت میں تو ان دونوں روایات سے سفیان ثوریؒ کے نزدیک ابو حنیفہؒ کی جرح ثابت نہیں ہوتی۔ لہذا میری وہی بات باقی رہتی ہے کہ:
جزاکم اللہ خیرا
وقت کی کمی کی وجہ سے صرف ایک دلیل کو پڑھ کر اس کا رد لکھ رہا ہوں۔ مشتے از خروارہ سمجھ لیں۔
پہلے تو اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی امام جرح و تعدیل کسی ایک حدیث میں کسی راوی کے منفرد ہونے کی وجہ سے اس پر نکتہ چینی کرے تو کیا وہ راوی اس کے نزدیک ضعیف و مردود ہو جاتا ہے؟؟ ایسا نہیں ہے۔
امام ترمذیؒ ایک حدیث روایت کرتے ہیں:عن أبي الدرداء: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قاء، فتوضأ، فلقيت ثوبان في مسجد دمشق، فذكرت ذلك له، فقال: صدق، أنا صببت له وضوءه. پھر اس کے بعد فرماتے ہیں:وروى معمر هذا الحديث، عن يحيى بن أبي كثير فأخطأ فيه، فقال: عن يعيش بن الوليد، عن خالد بن معدان، عن أبي الدرداء، ولم يذكر فيه الأوزاعي، وقال: عن خالد بن معدان، وإنما هو معدان بن أبي طلحة.
سنن الترمذی (1۔146 ط دار الغرب الاسلامی)
"معمر نے اس حدیث کو یحیی بن ابی کثیر سے روایت کیا ہے تو اس میں غلطی کی ہے۔۔۔۔۔"
یہ امام ترمذیؒ معمر پر غلطی کا عیب لگا رہے ہیں۔ اسی طرح ترمذی میں جا بجا شعبہ کے بارے میں بھی مذکور ہے کہ انہیں وہم ہو گیا ہے:
حدثنا ابن أبي عمر، ونصر بن علي قالا: حدثنا سفيان بن عيينة، عن أبي إسحاق نحوه، وقالا زيد بن يثيع وهذا أصح.
وشعبة وهم فيه فقال زيد بن أثيل.
(2۔214)
یہ بھی نکتہ چینی ہے لیکن کیا کوئی یہ خیال کر سکتا ہے کہ امام ترمذی شعبہ یا معمر کو ضعیف سمجھتے ہیں؟؟؟ تو معلوم ہوا کہ صرف کسی حدیث میں تفرد کی بنا پر نکتہ چینی سے کوئی راوی مجروح نہیں ہو جاتا۔ اب جب امام ابو حنیفہؒ امیر المومنین فی الحدیث سفیان ثوری کے نزدیک مجروح نہیں ہیں تو پھر مجروح کو غائب کر کے تدلیس چہ معنی دارد؟؟؟
نیز سفیان ثوری کو امیر المومنین فی الحدیث فرمایا گیا ہے اگر وہ تدلیس تسویہ کرتے ہیں جو کہ تدلیس کی سب سے بری قسم ہے تو پھر یہ تعدیل کا اعلی مرتبہ کیسے؟؟؟
حافظ ذہبی نے سیر میں یہ لکھا ہے: "بسا اوقات" سفیان ثوری ضعفاء سے بھی تدلیس کرتے تھے"
چنانچہ جب ان کی تدلیس ضعیف سے ثابت ہو جائے تو تب قبول نہیں ہونی چاہیے نہ کہ ہر وقت۔ لیکن ائمہ حدیث کا فیصلہ تو اس سے بڑھ کر ہے جو کہ میں نے اور یعقوب بن سفیان کے حوالے سے ذکر کر دیا ہے فلیراجع۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سفیان کی ثقہ روات سے تدلیس بھی انتہائی کم ہے چہ جائیکہ ضعیف روات سے۔ وہ شاذ و نادر ہوگی پھر۔
فتدبر
و اللہ اعلم