• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الیاس گھمن کے اعتراضات کا جواب

abujarjees

مبتدی
شمولیت
جون 27، 2015
پیغامات
75
ری ایکشن اسکور
31
پوائنٹ
29
الیاس گھمن کہتا ہے کہ امام نووی کہتے یہ بات کہ محدیثین کا یہ ضابطہ ہے کہ وہ منسوخ احادیث کو پہلے لاتے ہیں اور ناسخ احادیث کوبعد میں لاتے ہیں۔۔۔ اس لیے ابن داود بھائی ذرہ امام نووی رحہ کہ اس قول کے بارے میں کچھ بتائیں
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
سورۃ فاتحہ نہ پڑھنے کے بارے میں جامع ترمذی کی ایک روایت پیش کی ہے،
جس میں ہے کہ جابر بن عبداللہ رضہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث کہ ’’ سورۃ فاتحہ کے سوائے کوئی نماز نہیں ہوتی‘‘ جو شخص اکیلا پڑھے اس کے لیئے ہے، اور جب امام کے پیچھے ہو تو نہ پڑھے۔
حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ ابْنِ أُکَيْمَةَ اللَّيْثِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ مِنْ صَلَاةٍ جَهَرَ فِيهَا بِالْقِرَائَةِ فَقَالَ هَلْ قَرَأَ مَعِي أَحَدٌ مِنْکُمْ آنِفًا فَقَالَ رَجُلٌ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ إِنِّي أَقُولُ مَالِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَ قَالَ فَانْتَهَی النَّاسُ عَنْ الْقِرَائَةِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا جَهَرَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الصَّلَوَاتِ بِالْقِرَائَةِ حِينَ سَمِعُوا ذَلِکَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَابْنُ أُکَيْمَةَ اللَّيْثِيُّ اسْمُهُ عُمَارَةُ وَيُقَالُ عَمْرُو بْنُ أُکَيْمَةَ وَرَوَی بَعْضُ أَصْحَابِ الزُّهْرِيِّ هَذَا الْحَدِيثَ وَذَکَرُوا هَذَا الْحَرْفَ قَالَ قَالَ الزُّهْرِيُّ فَانْتَهَی النَّاسُ عَنْ الْقِرَائَةِ حِينَ سَمِعُوا ذَلِکَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَيْسَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ مَا يَدْخُلُ عَلَی مَنْ رَأَی الْقِرَائَةَ خَلْفَ الْإِمَامِ لِأَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ هُوَ الَّذِي رَوَی عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثَ وَرَوَی أَبُو هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ مَنْ صَلَّی صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ فَهِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ فَقَالَ لَهُ حَامِلُ الْحَدِيثِ إِنِّي أَکُونُ أَحْيَانًا وَرَائَ الْإِمَامِ قَالَ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِکَ وَرَوَی أَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَمَرَنِي النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُنَادِيَ أَنْ لَا صَلَاةَ إِلَّا بِقِرَائَةِ فَاتِحَةِ الْکِتَابِ وَاخْتَارَ أَکْثَرُ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ أَنْ لَا يَقْرَأَ الرَّجُلُ إِذَا جَهَرَ الْإِمَامُ بِالْقِرَائَةِ وَقَالُوا يَتَتَبَّعُ سَکَتَاتِ الْإِمَامِ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْقِرَائَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ فَرَأَی أَکْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ الْقِرَائَةَ خَلْفَ الْإِمَامِ وَبِهِ يَقُولُ مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَکِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَرُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَکِ أَنَّهُ قَالَ أَنَا أَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ وَالنَّاسُ يَقْرَئُونَ إِلَّا قَوْمًا مِنْ الْکُوفِيِّينَ وَأَرَی أَنَّ مَنْ لَمْ يَقْرَأْ صَلَاتُهُ جَائِزَةٌ وَشَدَّدَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي تَرْکِ قِرَائَةِ فَاتِحَةِ الْکِتَابِ وَإِنْ کَانَ خَلْفَ الْإِمَامِ فَقَالُوا لَا تُجْزِئُ صَلَاةٌ إِلَّا بِقِرَائَةِ فَاتِحَةِ الْکِتَابِ وَحْدَهُ کَانَ أَوْ خَلْفَ الْإِمَامِ وَذَهَبُوا إِلَی مَا رَوَی عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَرَأَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلْفَ الْإِمَامِ وَتَأَوَّلَ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا صَلَاةَ إِلَّا بِقِرَائَةِ فَاتِحَةِ الْکِتَابِ وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَإِسْحَقُ وَغَيْرُهُمَا وَأَمَّا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ فَقَالَ مَعْنَی قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ إِذَا کَانَ وَحْدَهُ وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ حَيْثُ قَالَ مَنْ صَلَّی رَکْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَکُونَ وَرَائَ الْإِمَامِ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ فَهَذَا رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَأَوَّلَ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ أَنَّ هَذَا إِذَا کَانَ وَحْدَهُ وَاخْتَارَ أَحْمَدُ مَعَ هَذَا الْقِرَائَةَ خَلْفَ الْإِمَامِ وَأَنْ لَا يَتْرُکَ الرَّجُلُ فَاتِحَةَ الْکِتَابِ وَإِنْ کَانَ خَلْفَ الْإِمَامِ
سنن الترمذي (جامع ترمذي) » كتاب الصلاة » [صفة الصلاة] » باب ما جاء في ترك القراءة خلف الإمام إذا جهر الإمام بالقراءة
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ جہری نماز سے فارغ ہوئے اور فرمایا کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قرات کی ہے ایک شخص نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تب ہی تو میں کہتا ہوں کہ مجھ سے قرآن میں جھگڑا کیوں کیا جاتا ہے راوی کہتے ہیں پھر لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جہری نمازوں میں قرات سے رک گئے اس باب میں ابن مسعود عمران بن حصین جابر بن عبداللہ سے بھی روایات مروی ہیں امام ابوعیسی ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن ہے ابن اکیمہ لیثی کا نام عمارہ ہے اور انہیں عمرو بن اکیمہ بھی کہا جاتا ہے زہری کے بعض اصحابہ نے اس حدیث کو روایت کرتے ہوئے یہ الفاظ زیادہ بیان کئے ہیں کہ زہری نے کہا اس کے بعد لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرات کرتے ہوئے سنتے تو قرات کرنے سے باز رہتے امام ابوعیسی ترمذی فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے قرات خلف الامام کے قائلین پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ اس حدیث کو بھی حضرت ابوہریرہ نے روایت کیا ہے اور انہیں سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص نماز پڑھے اور اس میں سورت فاتح نہ پڑھے تو اس کی نماز ناقص ہے اور نامکمل ہے حضرت ابوہریرہ سے حدیث نقل کرنے والے راوی نے کہا کہ میں کبھی کبھی امام کے پیچھے نماز پڑھتا ہوں تو ابوہریرہ نے فرمایا دل میں پڑھ لیا کر ابوعثمان نہدی نے بھی حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا مجھے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ میں اعلان کروں کہ جو شخص نماز میں سورت فاتحہ نہ پڑهے اس کی نماز نہیں ہوتی محدثین نے یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ اگر امام زور سے قرات کرے تو پھر امام کے پیچھے مقتدی قرات نہ کرے اور انہوں نے کہا کہ سکتوں کے درمیاں پڑھ لے اہل علم کا امام کے پیچھے نماز پڑهتے ہوئے قرات کرنے کے بارے میں اختلاف ہے اکثر صحابہ و تابعین اور بعد کے اہل علم کے نزدیک امام کے پیچھے قرات کرنا جائز ہے امام مالک ابن مبارک امام شافعی امام احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے عبداللہ بن مبارک سے مروی ہے انہوں نے فرمایا میں امام کے پیچھے قرات کرتا تھا اور دوسرے لوگ بھی امام کے پیچھے قرات کرتے تھے سوائے اہل کوفہ کے لیکن جو شخص امام کے پیچھے قرات نہ کرے میں اس کی نماز کو بھی جائز سمجھتا ہوں اہل علم کی ایک جماعت نے سورت فاتحہ کے نہ پڑھنے کے مسئلہ میں شدت سے کام لیا اور کہا کہ سورت فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی چاہے اکیلا ہو یا امام کے پیچھے ہو انہوں نے حضرت عبادہ بن صامت کی روایت سے استدلال کیا ہے اور عبادہ بن صامت نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھی اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول پر عمل کیا کہ سورت فاتحہ پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی امام شافعی اور اسحاق وغیرہ کا یہی قول ہے امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ قول کہ سورت فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی اکیلے نماز پڑھنے والے پر محمول ہے ان کا استدلال حضرت جابر کی حدیث سے ہے کہ انہوں نے فرمایا جس شخص نے کسی رکعت میں سورت فاتحہ نہیں پڑھی گویا کہ اس نے نماز پڑھی ہی نہیں سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں حضرت جابر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی ہیں اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث کی تاویل کرتے (لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ) جو فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی اس سے مراد وہ ہے جو اکیلا نماز پڑھتا ہو لیکن اس کے باوجود امام احمد بن حنبل نے یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ امام کے پیچھے ہوتے ہوئے بھی کوئی آدمی سورت فاتحہ نہ چھوڑے

سب سے پہلے تو گھمن صاحب سے پو چھا جائے کہ گھمن میاں ! جس عبارت سے آپ جابر رضی اللہ عنہ کا قول بتلا رہے ہوں وہاں آپ کو ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث نظر نہیں آئی، جسے امام ترمذی نے بیان کر کے یہ بھی فرمادیا کہ:
امام ابوعیسی ترمذی فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے قرات خلف الامام کے قائلین پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ اس حدیث کو بھی حضرت ابوہریرہ نے روایت کیا ہے اور انہیں سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص نماز پڑھے اور اس میں سورت فاتح نہ پڑھے تو اس کی نماز ناقص ہے اور نامکمل ہے حضرت ابوہریرہ سے حدیث نقل کرنے والے راوی نے کہا کہ میں کبھی کبھی امام کے پیچھے نماز پڑھتا ہوں تو ابوہریرہ نے فرمایا دل میں پڑھ لیا کر ابوعثمان نہدی نے بھی حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا مجھے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ میں اعلان کروں کہ جو شخص نماز میں سورت فاتحہ نہ پڑهے اس کی نماز نہیں ہوتی محدیثن نے یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ اگر امام زور سے قرات کرے تو پھر امام کے پیچھے مقتدی قرات نہ کرے اور انہوں نے کہا کہ سکتوں کے درمیاں پڑھ لے
امام ترمذی رحمہ اللہ نے امام احمد رحمہ اللہ کا یہ جو موقف بیان کیا گیا وہ یہ ہے:
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ قول کہ سورت فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی اکیلے نماز پڑھنے والے پر محمول ہے ان کا استدلال حضرت جابر کی حدیث سے ہے کہ انہوں نے فرمایا جس شخص نے کسی رکعت میں سورت فاتحہ نہیں پڑھی گویا کہ اس نے نماز پڑھی ہی نہیں سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں حضرت جابر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی ہیں اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث کی تاویل کرتے (لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ) جو فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی اس سے مراد وہ ہے جو اکیلا نماز پڑھتا ہو لیکن اس کے باوجود امام احمد بن حنبل نے یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ امام کے پیچھے ہوتے ہوئے بھی کوئی آدمی سورت فاتحہ نہ چھوڑے
امام تزمذی رحمہ اللہ نے یہی موقف امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا بیان کیا:
عبداللہ بن مبارک سے مروی ہے انہوں نے فرمایا میں امام کے پیچھے قرات کرتا تھا اور دوسرے لوگ بھی امام کے پیچھے قرات کرتے تھے سوائے اہل کوفہ کے لیکن جو شخص امام کے پیچھے قرات نہ کرے میں اس کی نماز کو بھی جائز سمجھتا ہوں
اور اکثر اہل علم اور اصحاب الحدیث کا یہ موقف بیان کیا:
محدثين نے یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ اگر امام زور سے قرات کرے تو پھر امام کے پیچھے مقتدی قرات نہ کرے اور انہوں نے کہا کہ سکتوں کے درمیاں پڑھ لے اہل علم کا امام کے پیچھے نماز پڑهتے ہوئے قرات کرنے کے بارے میں اختلاف ہے اکثر صحابہ و تابعین اور بعد کے اہل علم کے نزدیک امام کے پیچھے قرات کرنا جائز ہے امام مالک ابن مبارک امام شافعی امام احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے
بات اتنی سی ہے کہ امام احمد بن حنبل اور عبد اللہ بن مبارک نے امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے والے کی نماز کو باطل قرار نہیں دیا اس وجہ سے کہ ایک صحابی کے قول کی وجہ سے کسی کو اجتہادی خطا ہو سکتی ہے! وگرنہ امام کے پیچھے قراءت فاتحہ کے وہ بھی قائل ہیں۔ فتدبر!!
رہی بات اس کی کہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول کیوں مقبول نہیں! اس کی دلیل بھی امام ترمذی نے بیان کر دی ہے!! اور وہ ابو هریرہ رضی اللہ عنہ کی مروی مرفوع حدیث ہے!!

اور یہ قاعدہ تو حنفیوں میں بھی ہے کہ صحابہ کا قول حجت نہیں، اور وہ بھی جب ایک مرفوع حدیث کے مخالف ہو!!
اسی فاتحہ خلف امام کے متعلق گھمن صاحب کے سرفراز خان صفدر فرماتے ہيں:
''حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے صحیح سمجھا یا غلط بہر حال یہ صحیح بات ہے کہ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے اور ان کی یہی تحقیق اور یہی مسلک و مذہب تھا مگر فہم صحابی اور موقوف صحابی حجت نہیں ہے۔''
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 156 جلد 02 احسن الکلام فی ترک القراۃ خلف الامام – سرفراز خان صفدر دیوبندی

جب کہ جابر رضی اللہ عنہ کے اس قول میں امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کی نفی بھی نہیں، بلکہ اتنا بیان ہے کہ اس کی نماز پھر بھی ہو جائے گی!! اور یہی مطلب امام احمد بن حنبل اور عبد اللہ بن مبارک رحمہم اللہ نے اخذ کیا ہے۔
جابر رضی اللہ کے قول کے یہ معنی انہیں کے دوسرے قول کو سے مزید واضح ہو جاتے ہیں۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، أنبأ أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ، أنبأ عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، ثنا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، ثنا شُعْبَةُ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ يَزِيدَ الْفَقِيرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ: " كُنَّا نَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، خَلْفَ الْإِمَامِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ، وَفِي الْأُخْرَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ "
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم ظہر اور عصر کی نمازوں میں امام کے پیچھے پہلی دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ اور ایک مزید سورۃ پڑھتے تھے اور آخری دو رکعتوں میں صرف سورۂ فاتحہ پڑھتے تھے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 243 جلد 02 السنن الكبرى - أحمد بن الحسين بن علي ، أبو بكر البيهقي - دار الكتب العلمية، بيروت

اس اثر کی سند کے صحیح ہے ۔ علامہ سندھی حنفی رحمہ اللہ علامہ البوصیری رحمہ سے نقل کرتے ہیں کہ اس کی سند صحیح ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ مزید فرماتے ہیں کہ یہ موقوف اثر حکماً مرفوع ہے الاّ یہ کہا جائے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے اس مسئلہ میں عمومی ادلہ سے استدلال کیا ہے۔
قَوْلُهُ (كُنَّا نَقْرَأُ) فِي الزَّوَائِدِ قَالَ الْمِزِّيُّ مَوْقُوفٌ ثُمَّ قَالَ هَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ رِجَالُهُ ثِقَاتٌ وَقَدْ يُقَالُ الْمَوْقُوفُ فِي هَذَا الْبَابِ حُكْمُهُ الرَّفْعُ إِلَّا أَنْ يُقَالَ يُمْكِنُ أَنَّهُمْ أَخَذُوا ذَلِكَ مِنَ الْعُمُومَاتِ الْوَارِدَةِ فِي الْبَابِ فَلَا يَدُلُّ قِرَاءَتُهُمْ عَلَى الرَّفْعِ بَقِيَ أَنَّهُ يُعَارِضُ حَدِيثَ جَابِرٍ «مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ» وَيُقَدَّمُ عَلَيْهِ لِضَعْفِ ذَلِكَ وَلَا أَقَلَّ أَنَّ هَذَا أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ قَطْعًا فَلْيُتَأَمَّلْ.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 460 جلد 01 حاشية السندي على سنن ابن ماجه - محمد بن عبد الهادي السندي - دار المعرفة

اس اثر سے یہ استدلال کرنا بھی مستحکم نہیں کہ جابر رضی اللہ عنہ جہری نمازوں میں قراءت خلف امام کے قائل نہیں تھے، کیونکہ یہاں جہری نماز کا ذکر نہیں، بلکہ سری نماز کا بیان ہے، اور جابر رضی اللہ عنہ کا مقصود یہ بتلانا ہے کہ سری نمازوں میں پہلی دو رکعت میں مقتدی فاتحہ کے ساتھ ایک سورۃ اور بھی پڑھے، اور آخری دو رکعتوں میں فاتحہ!!
اب گھمن صاحب سے کو ئی پوچھے، کہ میاں! جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی یہ بات کیوں نہیں مانتے!!
اس کے علاوہ جامع ترمذی میں وارد اس اثر کے متعلق امام اسحاق بن ابراہیم حنظلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس میں احتمال ہے کہ مراد وہ رکعت ہو جس کو مقتدی امام کے ساتھ بحالت رکوع میں ملتا ہے سو اس کی یہ رکعت قراءت کے بغیر کافی ہوگی۔
وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ , أنا أَبُو زَكَرِيَّا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنْبَرِيُّ وَأَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمُزَكِيُّ قَالُوا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْعَبْدِيُّ , نا ابْنُ [ص:163] بُكَيْرٍ , نا مَالِكٌ , عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ , عَنْ جَابِرٍ , قَالَ: «مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا وَرَاءَ الْإِمَامِ» لَفْظُ حَدِيثِ أَبِي زَكَرِيَّا وَأَبِي نَصْرٍ , وَكَذَلِكَ رَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ وَغَيْرُهُ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ مَوْقُوفًا وَفِيهِ حُجَّةٌ عَلَى تَعْيِينِ الْقِرَاءَةِ فِي الصَّلَاةِ بِأُمِّ الْقُرْآنِ وَوُجُوبِ قِرَاءَتِهَا فِي كُلِّ رَكْعَةٍ مِنْ رَكَعَاتِ الصَّلَاةِ خِلَافَ قَوْلِ مَنْ قَالَ: لَا يَتَعَيَّنُ وَلَا يَجِبُ قِرَاءَتِهَا فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُخْرَيَيْنِ وَأَمَّا قَوْلُهُ: إِلَّا وَرَاءُ الْإِمَامِ فَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ مِنْ مَذْهَبِهِ جَوَازُ تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ فِيمَا يَجْهَرُ الْإِمَامُ فِيهِ بِالْقِرَاءَةِ فَقَدْ رَوَيْنَا عَنْهُ فِيمَا تَقَدَّمَ: كُنَّا نَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ خَلْفَ الْإِمَامِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ وَفِي الْأُخْرَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ الْمُرَادُ بِهِ الرَّكْعَةَ الَّتِي يُدْرِكُ الْمَأْمُومُ إِمَامَهُ رَاكِعًا فَتُجْزِئُ عَنْهُ بِلَا قِرَاءَةٍ وَإِلَى هَذَا التَّأْوِيلِ ذَهَبَ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ فِيمَا حكَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ خُزَيْمَةَ عَنْهُ

اصل بات تو یہ ہے کہ الیاس گھمن نے جو دلیل دی ہے وہ ان کی دلیل اصل میں ہے ہی نہیں، کیونکہ فقہ حنفیہ میں مقتدی و منفرد تو کیا امام پر بھی فاتحہ کی قراءت لازم نہیں!!!
مزید ارشاد الحق الاثری کی کتاب توضیح الکلام فی وجوب القراۃ خلف الامام کا مطالعہ مفید رہے گا۔
 

عبدالوھاب

مبتدی
شمولیت
جولائی 12، 2015
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
3
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@عبدالوھاب
اگر آپ وہ احادیث بھی لکھ دیں تو ان شاء اللہ ان کا مفصل جواب لکھنے میں آسانی رہے گی!!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں نے بھی یہی ویڈیو دیکھی ہے جو آپ نے بھی شاید دیکھی ہو گی،آپ بہتر جانتے ہیں کہ انہوں نے اس میں کونسی احادیث کا ذکر کیا ہے اور وہ کہاں پر ہیں
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
الیاس گھمن کہتا ہے کہ امام نووی کہتے یہ بات کہ محدیثین کا یہ ضابطہ ہے کہ وہ منسوخ احادیث کو پہلے لاتے ہیں اور ناسخ احادیث کوبعد میں لاتے ہیں۔۔۔ اس لیے ابن داود بھائی ذرہ امام نووی رحہ کہ اس قول کے بارے میں کچھ بتائیں
وَهَذِهِ عَادَةُ مُسْلِمٍ وَغَيْرِهِ مِنْ أَئِمَّةِ الْحَدِيثِ يَذْكُرُونَ الْأَحَادِيثَ الَّتِي يَرَوْنَهَا مَنْسُوخَةً ثُمَّ يُعَقِّبُونَهَا بِالنَّاسِخِ
امام مسلم اور دیگر ائمہ حدیث کی یہ عادت ہے کہ وہ جن احادیث کو منسوخ سمجھتیں ہیں اسے ذکر کرتے ہیں اور اس کے بعد ان کی ناسخ حدیث کو ذکر کرتے ہیں
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 321 المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج - أبو زكريا محيي الدين يحيى النووي - بيت الأفكار الدولية
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 57 جلد 04 المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج - أبو زكريا محيي الدين يحيى النووي - مؤسسة قرطبة

اول :امام نووی نے یہاں ایک عادت بیان کی ہے، اور عادت، ''قاعدہ و ضابطہ'' نہیں ہوا کرتی!! جس کا نظارہ اوپر مراسلہ نمبر 18 میں عیاں ہے!
دوم : صحیح مسلم کی تو ایک خاص خوبی ہی اس کی ترتیب ہے کہ امام مسلم نے بہت خوب ترتیب میں احادیث درج کی ہیں کہ امام مسلم نے اس کے ابوب بھی درج نہیں کئے ، بلکہ اس کی حاجت نہیں سمجھی۔ صحیح مسلم پر تو تبویب بھی امام نووی نے کی ہے۔
اور نسخ کے ثبوت میں محدثین کی ترتیب حدیث اور ترتیب ابواب کب سے دلیل بن گئی!! فقہ حنفی کی ہی کون سی کتاب میں اسے نسخ کا ثبوت قرار دیا گیا ہے!!
 
Last edited:

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
(اسفار) کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جب سورج نکلنے کے قریب ہو، بلکہ اسکو واضح انداز میں یوں سمجھئے کہ آپ سحری کھاناآپ سحری کھانا اسوقت ختم کرتے ہیں جب سفیدی ظاہرہوجاتی ہے جسکو قرآن نے یوں تعبیر کیا ہے ۔۔ حتی یتبین الخیط الابیض من الخیط لاسود۔۔جب سفید دھاگا کالے دھاگے سے واضح ہوجاے۔اور یہی فجر کااصلی وقت ہے اور یہی اصل ۔اسفار ۔کا مفہوم ہے لیکن احناف کے عقل پر افسوس ہے کہ سحری وہ بھی اسی وقت ختم کرتے ہیں لیکن نماز اپنی مرضی کے وقت پر پڑھیں گے فبئس ما یحکمون۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اس کے معنی خود حنفیوں نے بیان کردیئے ہیں اور اس پر اپنےعلم الکلام کے گھوڑے دوڑا کر درست ثابت کرنے کی کوشش بھی کی ہے :
قوله: "وأصغرهم عضوا" فسره بعض المشايخ بالأصغر ذكرا لأن كبره الفاحش يدل غالبا على دناءة الأصل ويحرر ومثل ذلك لا يعلم غالبا إلا بالاطلاع أو الأخبار وهو نادر ويقال مثله في الأحسن زوجة المتقدم
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 301 حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح - أحمد بن محمد بن إسماعيل الطحطاوي الحنفي - دار الكتب العلمية بيروت - لبنان
اب بتلائیے کہ کس کوآلہ تناسل یعنی ذَکر کا ذِکر بہت پسند ہے؟ اور بڑا گدھا کون ہے؟
یہ جواب وہیں پیش فرماتے تو زیادہ اچھا تھا۔
ذرا یہ بتائیے کہ "بعض مشائخ" نے یہ "تفسیر" یعنی "تشریح" کی ہے یا "ترجمہ" بیان کیا ہے؟ اگر تو ترجمہ ہے تو پھر میں کیا کہہ سکتا ہوں (ابتسامہ) اور اگر تفسیر ہے تو کیا کسی لفظ کی تفسیر کو بغیر کسی ضرورت کے، بغیر کسی وجہ کے، بغیر بتائے، بغیر اشارہ دیے ترجمہ میں شامل کیا جا سکتا ہے؟؟؟
ذلک الکتاب لا ریب فیہ کی تفسیر کی گئی ہے کہ یہ مقام ریب نہیں ہے اگر شک کرنے والے شک کرتے ہیں۔ اس تفسیر کو ترجمہ میں شامل کرنا ٹھیک ہوگا؟

پھر یہ بعض مشائخ کی تفسیر ہے جو انہوں نے اپنی سمجھ اور خیال کے مطابق کر دی ہے۔ ہمیں جب یہ قبول نہیں ہے تو آپ کیوں قبول فرما رہے ہیں؟ اس طرح تو احادیث کی تشریح میں بہت سے "بعض" اہل علم کے اقوال ہوتے ہیں۔ آپ حضرات انہیں قبول فرماتے ہیں؟ وہ سب آپ کا مسلک ہوتے ہیں؟؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ جواب وہیں پیش فرماتے تو زیادہ اچھا تھا۔
یہاں یہ معاملہ آگیا تو یہاں بیان کر دیا! آپ کامؤقف تھریڈ ٹو تھریڈ متغیر تو نہیں ہوتا ہو گا!! اگر ایسا معاملہ ہے تو بتلا دیں!
ذرا یہ بتائیے کہ "بعض مشائخ" نے یہ "تفسیر" یعنی "تشریح" کی ہے یا "ترجمہ" بیان کیا ہے؟ اگر تو ترجمہ ہے تو پھر میں کیا کہہ سکتا ہوں (ابتسامہ) اور اگر تفسیر ہے تو کیا کسی لفظ کی تفسیر کو بغیر کسی ضرورت کے، بغیر کسی وجہ کے، بغیر بتائے، بغیر اشارہ دیے ترجمہ میں شامل کیا جا سکتا ہے؟؟؟
بھائی جان، انہوں نے تصریح کر دی کہ یہاں عضو یعنی ذَكر یعنی آلہ تناسل کے چھوٹا ہونے کی بات ہے! اسے بلکل ترجمہ میں استعمال کیا جا سکتا ہے! ابتسامہ سے کام نہیں چلے گا۔ بے محل ابتسامہ مہنگا ثابت ہو سکتا ہے!! ذرا احتیاط سے کام لیا کریں!!
ذلک الکتاب لا ریب فیہ کی تفسیر کی گئی ہے کہ یہ مقام ریب نہیں ہے اگر شک کرنے والے شک کرتے ہیں۔ اس تفسیر کو ترجمہ میں شامل کرنا ٹھیک ہوگا؟
آپ نے کو مثال پیش کی ہے ، یہاں صادق نہیں آتی، کیونکہ ذلك الكتاب لا ريب فيه کی عبارت سے یہ مستفید ہو تا ہے کہ شک کرنے والوں کے شک سے قرآن کے لا ریب ہونے کوئی فرق نہیں آتا، یہ اس عبارت کے مستفید ہوتا ہے، عبارت کا متن نہیں۔ فتدبر!! لہذا یہ ترجمہ نہیں ہو گا۔ لیکن عضو یعنی ذَكر یعنی آلہ تناسل کا لفظ مذکورہ عبارت کے ترجمہ میں لکھنا بلکل درست ہے!! کیونکہ عضو تو آنکھ بھی ہے، ناک بھی، اور کان بھی، لیکن یہاں کس عضو کا ذِکر ہے ، یہ علمائے احناف نے خود بیان کر دیا کہ یہاں ذَکر کا یعنی آلہ تناسل کا ذِکر ہے۔ لہذا عضو کا ترجمہ آلہ تناسل کرنا علمائے احناف کی صراحت کے ساتھ بلکل درست ہے!!
پھر یہ بعض مشائخ کی تفسیر ہے جو انہوں نے اپنی سمجھ اور خیال کے مطابق کر دی ہے۔ ہمیں جب یہ قبول نہیں ہے تو آپ کیوں قبول فرما رہے ہیں؟ اس طرح تو احادیث کی تشریح میں بہت سے "بعض" اہل علم کے اقوال ہوتے ہیں۔ آپ حضرات انہیں قبول فرماتے ہیں؟ وہ سب آپ کا مسلک ہوتے ہیں؟؟
اشماریہ بھائی! یہاں یہ بیان کیا گیا ہے کہ بعض علمائے احناف نے اس کی صراحت کر دی ہے کہ عضو سے مراد ذَکر یعنی آلہ تناسل ہے، یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ دیگر نے اس کی نفی کی ہے۔
خیر آپ یہ بتلا دیں آپ (اشماریہ) کے نزدیک عضو سے مراد ذَکر یعنی آلہ تناسل نہیں، تو یہاں عضو سے کون سا عضو مراد ہے؟ ۔
بلکل جناب! احادیث کی تشریح میں اہل علم کے اقوال ہوتے ہیں، اور قرائین ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ کس قول کو قبول کیا جائے اور کس قول کو قبول نہ کیا جائے! شروحات حدیث اور تفاسیر میں بعض اہل علم کے اقوال کے مقابلہ میں دیگر اہل علم کے اقوال بھی ہوتے ہیں!!
آپ دیگر حنفی علماء سے دکھلا دیں کہ دیگر علمائے احناف نے یہاں عضو سے مراد ذَکر یعنی آلہ تناسل کے علاوہ دوسرا کوئی عضو مراد لیا ہے!! اور وہ کون سا عضو ہے وہ بھی بتلا دیں!! مگر یاد رہے، وہ عالم اور وہ کتاب جس سے آپ یہ پیش کریں، دالعلوم دیوبند کی بنا سے پہلے کی ہونی چاہئے!!
اب بتلائیے کہ کس کوآلہ تناسل یعنی ذَکر کا ذِکر بہت پسند ہے؟ اور بڑا گدھا کون ہے؟
''اتنا تو تسلیم کر لیں کہ یہ بعض علمائے احناف بہت بڑے گدھے تھے''
خیر رہنے دیں اس بات کو! لیکن آئندہ کے لئے ایسے الفاظ استعمال کرتے ہوئے احتیاط کیجئے گا!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

یہاں یہ معاملہ آگیا تو یہاں بیان کر دیا! آپ کامؤقف تھریڈ ٹو تھریڈ متغیر تو نہیں ہوتا ہو گا!! اگر ایسا معاملہ ہے تو بتلا دیں!
جی نہیں۔ لیکن ایک بات جہاں چل رہی ہو وہاں جواب یا اس کا لنک ہونا مناسب ہوتا ہے۔ بہرحال جیسے آپ کی مرضی۔

بھائی جان، انہوں نے تصریح کر دی کہ یہاں عضو یعنی ذَكر یعنی آلہ تناسل کے چھوٹا ہونے کی بات ہے! اسے بلکل ترجمہ میں استعمال کیا جا سکتا ہے! ابتسامہ سے کام نہیں چلے گا۔ بے محل ابتسامہ مہنگا ثابت ہو سکتا ہے!! ذرا احتیاط سے کام لیا کریں!!
عجیب! اسے "بالکل" ترجمہ میں کیسے اور کس قانون سے استعمال کیا جاسکتا ہے؟ جب کہ یہ مراد ہو اور وہ بھی بقول بعض کے۔ دیگر نے اس مراد کو بیان نہ کیا ہو؟؟؟

آپ نے کو مثال پیش کی ہے ، یہاں صادق نہیں آتی، کیونکہ ذلك الكتاب لا ريب فيه کی عبارت سے یہ مستفید ہو تا ہے کہ شک کرنے والوں کے شک سے قرآن کے لا ریب ہونے کوئی فرق نہیں آتا، یہ اس عبارت کے مستفید ہوتا ہے، عبارت کا متن نہیں۔ فتدبر!! لہذا یہ ترجمہ نہیں ہو گا۔ لیکن عضو یعنی ذَكر یعنی آلہ تناسل کا لفظ مذکورہ عبارت کے ترجمہ میں لکھنا بلکل درست ہے!! کیونکہ عضو تو آنکھ بھی ہے، ناک بھی، اور کان بھی، لیکن یہاں کس عضو کا ذِکر ہے ، یہ علمائے احناف نے خود بیان کر دیا کہ یہاں ذَکر کا یعنی آلہ تناسل کا ذِکر ہے۔ لہذا عضو کا ترجمہ آلہ تناسل کرنا علمائے احناف کی صراحت کے ساتھ بلکل درست ہے!!
علمائے احناف کے ساتھ "بعض" لگانے سے کی بورڈ گھستا نہیں ہے۔(جملہ معترضہ)
یہاں عبارت میں مذکور ہے "فسرہ بعض المشایخ" یعنی بعض مشائخ نے اس کی یہ تشریح کی ہے۔ اگر تشریح کو ترجمہ میں استعمال کیا جا سکتا ہے تو پھر جو میں نے مثال پیش کی ہے وہ بھی تو تشریح ہی ہے۔ عبارت میں نہ اس کا ذکر نہ اس کا ذکر۔ وہ بھی کسی نے عبارت سے مستفید کی ہے یہ بھی کسی نے عبارت سے مستفید کی ہے۔
یہ ماقبل کے ساتھ متعلق ہے "جو ان میں بڑا ہو سر کے اعتبار سے اور چھوٹا ہو عضو کے اعتبار سے"۔ صرف درمیان میں سے قومہ ہٹائیں تو بات درست ہوجاتی ہے اور مطلب یہ بنتا ہے کہ جس کا سر بڑا اور "اعضاء" چھوٹے ہوں۔
یہاں ہے واحد "عضو" اور میں ترجمہ کر رہا ہوں "اعضاء" کا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عضوا تمییز ہے اور تمییز مفرد ہوتی ہے جیسے اشتريت مِتْرَيْنِ وَرَقاً، وخمسةَ عشرَ قلماً۔ ظاہر ہے پندرہ قلم ایک نہیں ہو سکتے لیکن تمییز مفرد ہے۔ تو یہاں بھی مراد تمام اعضاء ہیں اور سر بڑے اور اعضاء چھوٹے والے شخص کا ذکر ہے۔
اب ایک سوال یہ ہے کہ کیا علماء احناف نے اس بات کو قبول کیا ہے یا نہیں؟ تو آپ نے فرمایا:

آپ دیگر حنفی علماء سے دکھلا دیں کہ دیگر علمائے احناف نے یہاں عضو سے مراد ذَکر یعنی آلہ تناسل کے علاوہ دوسرا کوئی عضو مراد لیا ہے!!
جو چیز عربی عبارت سے واضح ہو اس میں مراد لکھ لکھ کر ہر جگہ نہیں دکھائی جاتی۔ بلکہ اگر کسی نے کوئی اضافی مراد لی ہو تو اسے ذکر کر دیا جاتا ہے۔ پھر بھی یہاں دو لطیف طریقوں سے رد موجود ہے۔ ایک یہ کہ "بعض مشائخ" کہا ہے۔ ان کو حیثیت نہیں دی نہ ان کی تعیین کرنے کی کوشش کی ہے۔ اثناء عبارت میں بس یہ بتا دیا ہے کہ بعض ایسے بھی کہتے ہیں۔
دوسرا یہ کہ آگے کہا ہے کہ "یہ چیز معلوم نہیں ہو سکتی الا یہ کہ اطلاع دے یا خبریں ملیں اور یہ نادر ہے۔" یعنی اس پر عمل نہیں ہو سکتا نہ اس قول کو درست مانا جا سکتا ہے۔ عجیب قول ہے یہ جو پتا ہی نہ چل سکے۔ یہ تو النادر کالمعدوم کی طرح ہے۔
لیکن اگر پھر بھی آپ کو یقین نہ ہو رہا ہو تو پھر احناف کی اصول فتوی پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ اس طرح کے "بعض" کے اقوال پر فتاوی نہیں دیے جاتے۔ پھر بھی یقین نہ ہو تو ہاتھ کنگن کو آرسی کیا کسی بھی اچھے دارالافتاء سے جا کر خود معلوم فرما لیجیے۔


مگر یاد رہے، وہ عالم اور وہ کتاب جس سے آپ یہ پیش کریں، دالعلوم دیوبند کی بنا سے پہلے کی ہونی چاہئے!!
عمدہ شرط ہے۔ بالکل اسی طرح کی جیسے ابن صلاح سے پہلے بخاری اصح الکتب بعد کتاب اللہ دکھانے کی شرط ہوتی ہے۔

''اتنا تو تسلیم کر لیں کہ یہ بعض علمائے احناف بہت بڑے گدھے تھے''
خیر رہنے دیں اس بات کو! لیکن آئندہ کے لئے ایسے الفاظ استعمال کرتے ہوئے احتیاط کیجئے گا!
انہوں نے ترجمہ کیا تھا؟؟؟
بڑے گدھے کا ذکر تو میں نے غلط ترجمہ پر اشعار کی بنیاد رکھنے والے کے لیے کیا ہے۔ یہاں کون سا موقع ہے؟؟؟
 
Last edited by a moderator:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہاں عبارت میں مذکور ہے "فسرہ بعض المشایخ" یعنی بعض مشائخ نے اس کی یہ تشریح کی ہے۔ اگر تشریح کو ترجمہ میں استعمال کیا جا سکتا ہے تو پھر جو میں نے مثال پیش کی ہے وہ بھی تو تشریح ہی ہے۔ عبارت میں نہ اس کا ذکر نہ اس کا ذکر۔ وہ بھی کسی نے عبارت سے مستفید کی ہے یہ بھی کسی نے عبارت سے مستفید کی ہے۔
یہ ماقبل کے ساتھ متعلق ہے "جو ان میں بڑا ہو سر کے اعتبار سے اور چھوٹا ہو عضو کے اعتبار سے"۔ صرف درمیان میں سے قومہ ہٹائیں تو بات درست ہوجاتی ہے اور مطلب یہ بنتا ہے کہ جس کا سر بڑا اور "اعضاء" چھوٹے ہوں۔
یہاں ہے واحد "عضو" اور میں ترجمہ کر رہا ہوں "اعضاء" کا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عضوا تمییز ہے اور تمییز مفرد ہوتی ہے جیسے اشتريت مِتْرَيْنِ وَرَقاً، وخمسةَ عشرَ قلماً۔ ظاہر ہے پندرہ قلم ایک نہیں ہو سکتے لیکن تمییز مفرد ہے۔ تو یہاں بھی مراد تمام اعضاء ہیں اور سر بڑے اور اعضاء چھوٹے والے شخص کا ذکر ہے۔
اب ایک سوال یہ ہے کہ کیا علماء احناف نے اس بات کو قبول کیا ہے یا نہیں؟ تو آپ نے فرمایا:
یعنی کہ آپ کےخیال میں ، '' بونوں'' کو امامت کراوانے کا زیادہ حق ہے!! کیونکہ ان کے ہی تمام اعضاء چھوٹے ہوتے ہیں!! چلو جناب ! احناف کے چوڑے سینے والے دراز قد افراد تو ہاتھ ملنا شروع کر دیں!!
بھائی جان! عضو کا معنی ذَکر یعنی آلہ تناسل عضو کا تعین ہے، لہٰذا اسے ترجمہ میں استعمال کیا جائے گا، یہ اس عبارت سے مستفید مسئلہ نہیں!!کہ جسے ترجمہ میں بیان نہیں کیا جائے!!
جو چیز عربی عبارت سے واضح ہو اس میں مراد لکھ لکھ کر ہر جگہ نہیں دکھائی جاتی۔ بلکہ اگر کسی نے کوئی اضافی مراد لی ہو تو اسے ذکر کر دیا جاتا ہے۔ پھر بھی یہاں دو لطیف طریقوں سے رد موجود ہے۔ ایک یہ کہ "بعض مشائخ" کہا ہے۔ ان کو حیثیت نہیں دی نہ ان کی تعیین کرنے کی کوشش کی ہے۔ اثناء عبارت میں بس یہ بتا دیا ہے کہ بعض ایسے بھی کہتے ہیں۔
دوسرا یہ کہ آگے کہا ہے کہ "یہ چیز معلوم نہیں ہو سکتی الا یہ کہ اطلاع دے یا خبریں ملیں اور یہ نادر ہے۔" یعنی اس پر عمل نہیں ہو سکتا نہ اس قول کو درست مانا جا سکتا ہے۔ عجیب قول ہے یہ جو پتا ہی نہ چل سکے۔ یہ تو النادر کالمعدوم کی طرح ہے۔
یہ اعتراض صاحب متن پر کیا جائے!!
لیکن اگر پھر بھی آپ کو یقین نہ ہو رہا ہو تو پھر احناف کی اصول فتوی پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ اس طرح کے "بعض" کے اقوال پر فتاوی نہیں دیے جاتے۔ پھر بھی یقین نہ ہو تو ہاتھ کنگن کو آرسی کیا کسی بھی اچھے دارالافتاء سے جا کر خود معلوم فرما لیجیے۔
بھائی جان! احناف اس پر فتوی دیں نہ دیں، وہ اسے باطل قرار دے دیں!!
عمدہ شرط ہے۔ بالکل اسی طرح کی جیسے ابن صلاح سے پہلے بخاری اصح الکتب بعد کتاب اللہ دکھانے کی شرط ہوتی ہے۔
نہیں جناب! آپ نے پھر غلط مثال دے دی!! اور کبھی یہ صحیح بخاری کے متعلق یہ مطالبہ ہمارے سامنے پیش کیجئے گا!!
مین نے دار العلوم دیوبند کی بنا سے پہلے کے حوالہ کی شرط اس لئے رکھی ہے کہ، علمائے دیوبند نے اپنے سے قبل فقہ حنفیہ میں وارد کئی مؤقف کو مسخ کر کے بیان کیا ہے!! اور فقہ حنفیہ کا پہلے کا مؤقف علمائے دیوبند کے مؤقف سے فقہ حنفی کی رو سے رد نہیں کیا جاسکتا!! اور ویسے بھی علمائے دیوبند کے حوالے کو تو بر صغیر کے آدھے حنفی قبول ہی نہیں کرتے!! جنہیں بریلوی کہا جاتا ہے!!
بھائی ! یہ بات اتنی واضح کیسے ہو گئی، کہ عضو کے تعین میں جھگڑا ہو رہا ہے!! یہاں تک کہ آپ نے تو تمام اعضاء کو شامل قرار دے کر ''بونوں'' کو امامت کا زیادہ حقدار قرار دے دیا!! فتدبر!!
 
Top