السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس اعتراض کا کیا جواب ہے
" کہ محدثین منسوخ احادیث یا پہلی دور کی احادیث اپنی کتابوں کی پہلی ابواب میں لاتے ہیں ۔اور ناسخ بعد میں لاتے ہیں ۔
جس طرح کہ اس نے ایک مثال دی ہے کہ صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھنے والی حدیث پہلے لائے اور روشنی میں پڑھنے والی حدیث کو بعد میں لائے ہے جس سے یہ ثابت ہوا ہے کہ اندھیرے والی حدیث منسوخ ہے "
یہ کوئی قاعدہ قانون نہیں، یہ احناف کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہےکہ ایسے قواعد گڑھتے ہیں کہ کسی طرح اپنے امام کے قول کو درست ثابت کر سکیں۔ اور مذکورہ قاعدہ تو مجھے دیوبند کی پیدائیش کے بعد کا معلوم ہوتا ہے اور غالب گمان یہ ہے کہ یہ قاعدہ امین اکاڑوی کی گڑھنت ہے!!
نوٹ: ویسے یہ قاعدہ پیش کرنے سے پہلے ان مقلدین کو یہ تو تسلیم کرنا چاہیے کہ محدثین مجتہد و فقیہ بھی ہیں!!
پہلے اور بعد محدثین کے ابواب اور ناسخ و منسوخ کے بارے میں مقلدین کی غلط فہمی
اسلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایک فورم پر مسئلہ رفع یدین پر گفتگو کے دوران ایک حنفی نے یہ دلیل پیش کی:
رفع یدین سے متعلق آپ نے ترمذی کے حوالے سے جو لکھا کہ امام ترمذی نے پہلے رفع یدین کا باب باندھاپھر عددم رفع یدین کا باب باندھا اور حدیث لائے تو آپ کو شاید محدیثین کا اصول معلوم نہیں کہ محدیثین پہلا باب اس عمل کا لاتے ہیں جو منسوخ ہوچکا ہو اور پھر اس کے بعد اس عمل کا باب لاتے ہیں جو ناسخ ہوتا ہے
دیگر مسائل پر بھی مقلدین اکثر یہ واویلا کرتے نظر آتے ہیں کہ اہلحدیث منسوخ روایات پر عمل کرتے ہیں جبکہ ہم مقلدین ناسخ روایات پر عمل کرتے ہیں اس ضمن میں یہ خود ساختہ قاعدہ و قانون بہت زور و شور سے بیان کیا جاتا ہے کہ محدثین نے پہلے منسوخ اور پھر ناسخ روایات نقل کی ہیں!!! اس خود ساختہ دعوے کی تردید میں بے شمار دلائل پیش کئے جا سکتے ہیں لیکن یہاں ہم صرف دس حوالوں پر ہی اکتفا کر رہے ہیں جو امید ہے مقلدین کی اس غلط فہمی کے ازالے کے لئے کافی و شافی ہوں گے۔1
1:۔امام ابو داؤد نے باب باندھا:
"باب من لم ير الجهر ببسم الله الرحمٰن الرحيم" (سنن ابي داؤد ص ۱۲۲ قبل حديث ۷۸۲)
اس کے بعد امام ابو داؤد نے دوسرا باب باندھا:
"باب من جهر بها" (سنن ابی داؤد ص ۱۲۲ قبل حديث ۷۸۶)
یعنی امام ابو داؤد نے پہلے
بسم الله الرحمٰن الرحيم عدمِ جهر (سراً فی الصلٰوة) والا باب لکھا اور بعد میں
بسم الله بالجهروالا باب باندھا تو کیا حنفی مقلدین تیار ہیں کہ سراً بسم اللہ کو منسوخ اور جہراً بسم اللہ کو ناسخ قرار دیں؟ اگر نہیں تو پھر ان کا اصول کہاں گیا؟
نوٹ: امام ترمذی نے بھی ترکِ جہر کا پہلے اور جہر کا باب بعد میں باندھا ہے
(سنن الترمذي ص ۶۸-۶۷ قبل حديث ۲۴۴-۲۴۵)
2:-امام ترمذی نے باب باندھا:
"باب ما جاء في الوتر بثلاث" (سنن الترمذي ص ۱۲۲ قبل حديث ۴۵۹)
پھر بعد میں یہ باب باندھا:
"باب ما جاء في الوتر بركعة" (سنن الترمذی قبل حديث ۴۶۱)
کیا حنفی مقلدین اپنے خود ساختہ قاعدے و قانون کی رو سے تین وتر کو منسوخ اور ایک وتر کو ناسخ سمجھ کر ایک وتر پڑھنے کے قائل و فاعل ہو جائیں گے؟!!!
3:۔ امام ابنِ ماجہ نے پہلے خانہ کعبہ کی طرف پیشاب کرنے کی ممانعت والا باب باندھا:
"باب النهي عن استقبال القبلة بالغائط والبول" (سنن ابن ماجه ص ۴۸ قبل حديث ۳۱۷)
اور بعد میں یہ باب باندھا:
"باب الرخصة في ذلك فی الكنيف و إباحته دون الصحاري"(یعنی صحراء کی بجائے بیت الخلاء میں قبلہ رخ ہونے کے جواز کا بیان)
(سنن ابن ماجه ص ۴۹ قبل حديث ۳۲۲)
مقلدین بتائیں کہ کیا وہ اپنے خود ساختہ اصول کی وجہ سے قبلہ رخ پیشاب کرنے کی ممانعت کو منسوخ سمجھتے ہیں؟
4:- امام نسائی نے رکوع میں ذکر (یعنی تسبیحات) کے کئی باب باندھے مثلاً:
"باب الذكر في الرکوع" (سنن النسائي ص ۱۴۴قبل حديث ۱۰۴۷)
اور بعد میں یہ باب باندھا:
"باب الرخصة في ترك الذكر في الركوع" (سنن النسائي ص ۱۴۵قبل حديث ۱۰۴۵)
کیا تقلیدی قاعدے کی رو سے رکوع کی تسبیحات پڑھنا بھی منسوخ ہے؟
5:- امام ابن ابی شیبہ نے نماز میں ہاتھ باندھنے کا باب درج زیل الفاظ میں لکھا:
"وضع اليمين علی الشمال" (مصنف ابن ابي شيبة ۳۹۰/۱ قبل حديث ۳۹۳۳)
اور بعد میں یہ باب باندھا:
"من كان يرسل يديه في الصلٰوة" (مصنف ابن ابي شيبة جلد ۱ ص۳۹۱ قبل حديث ۳۹۴۹)
کیا حنفی اپنے تقلیدی اصول کی رو سے ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کے لئے تیار ہیں؟
6:-امام نسائی نے پہلے نمازِ عصر کے بعد نوافل پڑھنے کی ممانعت والا باب باندھا:
"النهی عن الصلاة بعد العصر" (سنن النسائي ص ۷۸ قبل حديث ۵۶۷)
اور بعد میں یہ باب باندھا:
"الرخصة في الصلاة بعد العصر" (سنن النسائي ص ۷۹ قبل حديث ۵۷۴)
کیا حنفیوں کے تقلیدی قاعدے کی رو سے عصر کے بعد نوافل کی ممانعت والی حدیث منسوخ ہے؟
7: -امام ابو داؤد نے تین تین دفعہ اعضائے وضو دھونے کا باب باندھا:
"باب الوضوء ثلاثاً ثلاثاً" (سنن ابي داؤد ص ۲۹ قبل حديث ۱۳۵)
اور بعد میں ایک دفعہ اعضائے وضو دھونے کا باب باندھا:
"باب الوضوء مرة مرة" (سنن ابي داؤد ص ۳۰ قبل حديث ۱۳۸)
کیا وضو میں تین تین دفعہ اعضاء دھونا منسوخ ہے؟ اگر نہیں تو تقلیدی قاعدہ کہاں گیا؟
8:-امام نسائی نے سجدوں کی دعا کے کئی باب باندھے مثلاً:
"عدد التسبيح في السجود" (سنن النسائي ص ۱۵۷ قبل حديث ۱۱۳۶)
اور بعد میں یہ باب باندھا:
"باب الرخصة في ترك الذكر في السجود" (سنن النسائي ص ۱۵۷ قبل حديث۱۳۷)
کیا تقلیدی قاعدے کی رو سے سجدے کی تسبیحات بھی منسوخ ہیں؟
9:-امام ابن ابی شیبہ نے
" من قال:لاجمعة ولا تشريق الا في مصر جامع"کا باب باندھ کر وہ روایات پیش کیں جن سے بعض لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ گاؤں میں جمعہ نہیں پڑھنا چاہئے
(مصنف ابن ابي شيبة ۱۰۲/۲ قبل حديث ۵۰۵۹)
اور بعد میں یہ باب باندھا:
"من كان يری الجمعة في القری وغيرها"یعنی جو شخص گاؤں وغیرہ میں جمعہ کا قائل ہے پھر وہ صحیح روایات پیش کیں جن سے گاؤں میں نماز جمعہ پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے۔
(مصنف ابن ابي شيبة جلد ۲ ص ۱۰۱-۱۰۲ قبل حديث ۵۰۶۸)
کیا حنفی اپنے نرالے قاعدے کی لاج رکھتے ہوئے گاؤں میں نماز جمعہ کی مخالف تمام روایات کو منسوخ سمجھتے ہیں؟
10:- امام ابن ابی شیبہ نے نماز جنازہ میں چار تکبیروں کا باب باندھا:
"ما قالوا فی التكبير علی الجنازة من كبّر أربعاً" (مصنف ابن ابي شيبة ۲۹۹/۳ قبل حديث ۱۱۴۱۶)
اور اس کے فوراً بعد پانچ تکبیروں کا باب باندھا:
"من كان يكّبر علی الجنازة خمساً" (مصنف ابن ابي شيبة ۳۰۲/۳ قبل حديث ۱۱۴۴۷)
کیا کسی حنفی میں جرات ہے کہ وہ اپنے تقلیدی قاعدے کی لاج رکھتے ہوئے جنازے کی چار تکبیروں کو منسوخ اور پانچ کو ناسخ کہہ دے؟
بشکریہ ابو طلحہ السلفی