• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الیکشن سے مربوط مسائل کا شرعی حل

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
عابد الرحمن بھائی آپ ابھی تک میرا نقطہء نظر نہیں سمجھ پائے جو آپ نے ایسا تبصرہ فرمایا ہے کہ
اسلام بادشاہت کا مخالف ہے اور امارت کا قائل ہے جس کا مطلب ہے مسلمان جس کو بھی اپنا امیر منتخب کرلیں۔یہاں تک تو کسی حد تک جمہوریت اور امارت میں یکسانیت ہے ۔اب یہ عوام کی سمجھ داری ہے کہ وہ کس طرح کے انسان کو منتخب کرتے ہیں انتخاب میں قانونی طور یہ اجازت ہوتی ہے کہ آپ اپنی پسند کا نمائندہ منتخب کریں تو انتخابی غلطی ہماری غلطی ہے کہ ہم بے دین آدمی کو منتخب کرتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ اسلامی قانون نافذ ہو۔ارے بھائی جان مصلحت سے کام لیجئے ۔پہلے سانچہ بنائے پھر ڈھلائی کیجئے۔ سانچہ بنایا نہیں ڈھلائی شروع کردی ۔
پہلی بات یہ کہ اسلامی نظام میں ایسا ہرگز نہیں ہے کہ لوگ اپنا خلیفہ خود منتخب کرتے ہیں جیسا کہ جمہوری نظام میں ہوتا ہے بلکہ اسلام کے نظام میں یہ کام اہل حل وعقد کا کام ہے کہ وہ ایسا شخص کا انتخاب کریں جو خلیفہ کی مکمل شرائط رکھتا ہو اس کے بعد عوام نے اس خلیفہ کی سمع و اعطاعت کی بیعت کرنی ہوتی ہے اور یہ کام خوشی نہ خوشی سب کو کرنا ہوتا ہے ، جو اس شخص(خلیفہ) کو پسند کرتا ہے اور جو نہیں کرتا وہ بھی بیعت لازمی کرئے گا اگر نہیں کرتا تو وہ اس فرمانِ رسولﷺ کی ذد میں آ جائے گا کہ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ رَأَی مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا يَکْرَهُهُ فَلْيَصْبِرْ فَإِنَّهُ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَمَاتَ فَمِيتَةٌ جَاهِلِيَّةٌ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو آدمی اپنے امیر میں کوئی ایسی بات دیکھے جوا سے ناپسند ہو تو چاہئے کہ صبر کرے کیونکہ جو آدمی الجماعت سے ایک بالشت بھر بھی جدا ہوا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔:::متفق علیہ:::
اور جبکہ جمہوری سسٹم میں اس کے خلاف اصول پائے جاتے ہیں، ایک حزب اقتدار اور کئی گروپ حزب اختلاف ہوتے ہیں، اسلام میں ایک ہی حزب ہے اور وہ ہے حزب اللہ اور یہی حزب اقتدار ہوتی ہے۔
دوسری یہ بات یاد رکھیں اور اس کو اچھی طرح جان جائیں کہ اگر کسی ملک میں جمہوری نظام رائج ہے اور اس کی پارلیمنٹ میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اور وہ ملک میں اسلامی قوانین بھی رائج کر دیتے ہیں مگر نظام یہی جمہوریت کا ہی رکھتے ہیں تو بھی یہ نظام باطل کا باطل ہی رہے گا اسلامی پھر بھی نہیں کہلائے گا کیونکہ اسلام کا جو نظام حیات ہے وہ جمہوریت نہیں بلکہ خلافت ہے جب تک یہ پارلیمنٹ والے اس باطل نظام کو ختم کرکے خلافت کا اعلان نہیں کریں گے اور ایسے شخص کو خلیفہ نہیں بنائیں گے جو خلافت کی ساری شرائط رکھتا ہو تب تک اسلامی نظام نہ بن پائے گا۔
یہ بہت کام کی اور سمجھنے کی بات ہے کہ ابھی مسلمانوں نے کوئی امیر منتخب کیا نہیں ۔ اور کئی طرح کی تحریکیں شروع کردیں ۔تو بھائی حضور ﷺ کی تدفین کو موخر کیا گیا امیر بننے تک ۔ تو بھائی ہمیں بھی تمام تحریکوں کو موخر کرنا پڑے گاامیر بننے تک ۔ امیر کے انتخاب سے پہلے تمام تحریکیں غیر اسلامی کہلائیں گی (شرعی طور پر ) اور فساد فی الارض کے زمرے میں آئیں گی۔ نہیں تو آپ بتائیں کہ اس وقت کون امیر ہے کیا خود ساختہ بھی کوئی امیر ہوتا ہے۔ اور کتنے امیر ہوں گے اور میں سمجھتا ہوں آج کی تاریخ میں مسلمانوں میں اتنے امیر ہیں اتنے کسی بھی دور میں نہیں ہوئے تو کیا یہ شرعاً جائز ہیں؟ فتدبر وا یا اولی الابصار اور کلمۃالحق ضالۃ المؤمن (حکمت کی بات مومن کی گمشدہ میراث ہے) (سنن ابن ماجہ ابواب الزہد باب الحکمۃ :ص ۳۱۷)
بالکل بھائی جان یہ بات بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے اگر ہم دین خالص پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو ہم کو ملتِ واحد بننا ہوگا ایک جان بننا ہوگا، ہر کوئی غیر شرعی جماعتوں سے بغاوت کر کے اسلام کے شرعی امیر، خلیفہ، امام، سلطان کے ساتھ ملیں گے تو ہی ہم نبیﷺ کے فرمان کہ امتِ مسلمہ ایک جسم کے مانند ہے بن سکیں گے اس پر کافی عرصہ پہلے کچھ لکھا تھا اس میں سے کچھ آپ کے ساتھ شیئر کرتا ہوں۔

یحیی ولید ابن جابر بسر ابوادریس سے بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن یمان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ لوگ (اکثر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کی بابت دریافت کرتے رہتے تھے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شر اور فتنوں کی بابت پوچھا کرتا تھا اس خیال سے کہ کہیں میں کسی شر و فتنہ میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔ ایک روز میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم جاہلیت میں گرفتار اور شر میں مبتلا تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس بھلائی (یعنی اسلام) سے سرفراز کیا کیا اس بھلائی کے بعد بھی کوئی برائی پیش آنے والی ہے؟ فرمایا ہاں! میں نے عرض کیا اس بدی و برائی کے بعد بھلائی ہو گی؟ فرمایا ہاں! لیکن اس میں کدورتیں ہوں گی۔ میں نے عرض کیا وہ کدورت کیا ہو گی؟ فرمایا کدورت سے مراد وہ لوگ ہیں جو میرے طریقہ کے خلاف طریقہ اختیار کر کے اور لوگوں کو میری راہ کے خلاف راہ بتائیں گے تو ان میں دین بھی دیکھے گا اور دین کے خلاف امور بھی ہیں۔ عرض کیا کیا اس بھلائی کے بعد بھی برائی ہو گی؟ فرمایا ہاں! کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہو کر لوگوں کو بلائیں گے جو ان کی بات مان لیں گے وہ ان کو دوزخ میں دھکیل دیں گے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ان کا حال مجھ سے بیان فرمائیے فرمایا وہ ہماری قوم سے ہوں گے اور ہماری زبان میں گفتگو کریں گے۔ میں نے عرض کیا اگر میں وہ زمانہ پاؤں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ کو کیا حکم دیتے ہیں فرمایا مسلمانوں کی جماعت:::خلافت:::کو لازم پکڑو اور ان کے امام:::خلیفہ:::کی اطاعت کرو، میں نے عرض کیا کہ اگر اس وقت مسلمانوں کی جماعت نہ ہو اور امام بھی نہ ہو۔ (تو کیا کروں) فرمایا تو ان تمام فرقوں سے علیحدہ ہو جا اگرچہ تجھے کسی درخت کی جڑ میں پناہ لینی پڑے یہاں تک کہ اسی حالت میں تجھ کو موت آ جائے۔
صحیح بخاری:جلد دوم:باب:اسلام میں نبوت کی علامتوں کا بیان

حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر وبھلائی کے متعلق سوال کرتے تھے اور میں برائی کے بارے میں اس خوف کی وجہ سے کہ وہ مجھے پہنچ جائے سوال کرتا تھا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم جاہلیت اور شر میں تھے اللہ ہمارے پاس یہ بھلائی لائے تو کیا اس بھلائی کے بعد بھی کوئی شر ہوگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں میں نے عرض کیا کیا اس برائی کے بعد کوئی بھلائی بھی ہوگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اور اس خیر میں کچھ کدورت ہوگی میں نے عرض کیا کیسی کدورت ہوگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری سنت کے علاوہ کو سنت سمجھیں گے اور میری ہدایت کے علاوہ کو ہدایت جان لیں گے تو ان کو پہچان لے گا اور نفرت کرے گا میں نے عرض کیا کیا اس خیر کے بعد کوئی برائی ہوگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں جہنم کے دروازوں پر کھڑے ہو کر جہنم کی طرف بلایا جائے گا جس نے ان کی دعوت کو قبول کرلیا وہ اسے جہنم میں ڈال دیں گے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے ان کی صفت بیان فرما دیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں وہ ہماری قوم سے ہوں گے اور ہماری زبان میں گفتگو کریں گےمیں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اگر یہ مجھے ملے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا حکم فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمانوں کی جماعت :::خلافت:::کو اور ان کے امام:::خلیفہ:::کو لازم کرلینا میں نے عرض کیا اگر مسلمانوں کی جماعت ہو نہ امام، آپ نے فرمایا پھر ان تمام فرقوں سے علیحدہ ہو جانا اگرچہ تجھے موت کے آنے تک درخت کی جڑوں کو کاٹنا پڑے تو اسی حالت میں موت کے سپرد ہو جائے۔
صحیح مسلم:جلد سوم:کتاب :امارت اورخلافت کا بیان :باب: فتنوں کے ظہور کے وقت جماعت کے ساتھ رہنے کے حکم اور کفر کی طرف بلانے سے روکنے کے بیان میں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو:::خلیفہ:::کی اطاعت سے نکل گیا اور جماعت :::خلافت:::سے علیحدہ ہوگیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا اور جس نے اندھی تقلید میں کسی کے جھنڈے کے نیچے جنگ کی کسی عصبیت:::تعصب:::کی بناء پر غصہ کرتے ہوئے عصبیت کی طرف بلایا یا عصبیت کی مدد کرتے ہوئے قتل کردیا گیا تو وہ جاہلیت کے طور پر قتل کیا گیا اور جس نے میری امت پر خروج کیا کہ اس کے نیک وبد سب کو قتل کیا کسی مومن کا لحاظ کیا اور نہ کسی سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا تو وہ میرے دین پر نہیں اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔
صحیح مسلم:جلد سوم: امارت اورخلافت کا بیان
یہ ایک مثال کے طور پر احایث پیش کی ہیں اس طرح کی اور بھی احادیث موجود ہیں کہ جن کو ہم جان بوجھ کر سمجھنا نہیں چاہتے یا ہمیں ان کی واقعی ہی سمجھ نہیں آتی یا ان احادیث کو ہم اہمیت نہیں دیتے کچھ تو وجہ ہے جو ہم ان کو اگنور کرتے ہیں حالانکہ کہ ان احادیث میں اصل مسئلے:::امت کا آپس میں انتشار و افتراق::: کا حل موجود ہے بس تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
جو ایک سچا مسلم ہو وہ آج بھی دین پر ثابت قدمی دیکھا سکتا ہے۔
تو اختتام خلافت کے بعد سے آج تک اتنی بڑی اُمت مسلمہ میں کوئی ایک بھی دینی آدمی نہیں ملا جو ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے نظام کو دوبارہ سے نافذ کرسکے۔۔۔ یا شاید ہماری تعلیم اور تربیت کا وہ معیار ہی نہیں رہا؟؟؟۔۔۔
باقی میں علم غیب نہیں رکھتا اس لیے نشان دہی نہیں کرسکتا کہ وہ کون سا مسلمان ہے۔
چلیں آپ علم غیب نہیں جانتے لیکن کیا آپ اس بات کی حامی بھر سکتے ہیں کہ آپ دین پر مکمل اور پوری طرح سے ثابت القدم ہیں؟؟؟۔۔۔
بھائی آپ بات کریں کھل کر یہ پہیلیاں نہ بھوجائیں۔
محترم جس بات کو آپ پہیلی سمجھ رہے رہیں۔۔۔ یہ وہ الجھاؤ ہے جس کا شکار اُمت مسلمہ برُی طرح ہوچکی ہے۔۔۔ ہر ملک یعنی اسلامی ریاست میں اُن کا اپنا فقہ رائج ہے۔۔۔ وہ اپنے مسلک اپنے امام کی شدومد سے اطاعت میں سرتسلیم خم کئے ہوئے ہیں۔۔۔ اور دوسرے مسلمان بھائی کو بضد ہیں کے اطاعت اور پیروی میں اُن کا ہم خیال ہوجائے۔۔۔ اور خلافت کے اختتام کے بعد سے مسلمانوں کے درمیان اختلافات نے جو سر اُٹھایا ہے وہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔۔۔

اس کے لئے میں آپ سے درخواست کروں گا کہ سمیر خان اور بنت حوا کے درمیان کشیدگی کو ملاحظہ کیجئے۔۔۔ دوسری طرف یزید رحمۃ اللہ علیہ کو لیکر شیخ کفایت اللہ، اللہ اُن کی حفاظت فرمائیں اور حافظ زیبر رحمۃ اللہ کے درمیان مکالمے ہماری نظروں کے سامنے ہیں۔۔۔ اس گھٹن کے ماحول سے نکلنے کے لئے آپ ہی کوئی تجویز دیجئے کے کیسے نکلا جائے۔۔۔

ہم آج تک یہ ہی طے نہیں کرپائے کہ نماز میں ہاتھ کہاں باندھنے ہیں؟؟؟۔۔۔ آمین بآواز بلند پڑھنا ہے کہ نہیں؟؟؟۔۔۔ حضرت یزید رحمۃ اللہ علیہ سنت کے بدلنے والے تھے کہ نہیں؟؟؟۔۔۔ بیس تراویح سنت ہے یا بدعت حسنہ ہے؟؟؟۔۔۔ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم سنت ہے یا بدعت ہے؟؟؟۔۔۔ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ سانحہ کربلا ہے یا مشیعت اللہ تھی؟؟؟۔۔۔

لیکن دوسری طرف ہماری ان آپسی چپلقش سے فائدہ کون اُٹھارہا ہے؟؟؟۔۔۔ لادین قوتیں مجھے حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ قادیانی کو تو ہم کافر کہتے ہیں اور شیعہ رافضی کو اپنا بھائی بنایا ہوا اب ان تمام حالات کا جائزہ لیجئے۔۔۔ اور یہ بتائیے کے آپ کی کتنی پشتیں ہیں پچھلی جو ان حالات کو دیکھتے دیکھتے اس دارفانی سے کوچ اور ہم مسلمان عجمی اُسی کسم پرسگی کا حالت سے بدحالی کا شکار ہوگئے۔۔۔ ہم آج تک اس بات کا ہی تعین نہیں کرسکے کہ جن مسائل ومصائب کا ہم شکار ہیں اس سے کس طرح اپنی انے والی نسلوں کو محفوظ کرسکیں۔۔۔

اس کے برعکس ہمارے عرب ممالک میں بسنے والے مسلمان ہیں اُن کی خوشحالی، اُن کی ترقی، ان کے معاشرے میں دولت کی فروانی جو ہمارے سامنے ہے یہ سوال آپ سے پوچھتا ہوں کس نظام کی مرہون منت ہے؟؟؟۔۔۔ وہ عرب ہوکر کتنا خلافت کے لئے مخلص ہیں؟؟؟۔۔۔ حالانکہ قرآن وحدیث وہ ہم سے بہتر پڑھنے اور سمجھنے والی ہیں۔۔۔ آج ہمارے علماء چاہے وہ کتنے ہی پائے کے کیوں نہ ہوں۔۔۔ اپنی کسی تحقیق کو اس وقت تک مکمل ہی نہیں سمجھتے جب تک اُن کا حوالہ پیش نہ کردیں۔۔۔ بھائی یہ ہیں وہ زمینی حقائق جن سے چشم پوشی برتی جارہی ہے۔۔۔ بقول آپ کے سچا مسلمان دین پر ثابت قدم مسلمان خلافت کے بعد سے آج تک پیدا ہی نہیں ہوسکا جو خلافت کے نظام کے بات کرسکے؟؟؟۔۔۔ میں عجم کی نہیں عرب کی بات کرتا ہوں۔۔۔

ہماری بےحسی دیکھیں۔۔۔ ہم حرمین میں بیٹھ کر مجاہدین کی فتح کے لئے تو دعائیں تو کرتے ہیں لیکن کبھی اس ممبر پر بیٹھ کر ہمارے علماء نے خلافت کے نظام کے نفاذ کے لئے دعائیں کیوں نہیں کیں؟؟؟۔۔۔ اس کو شکوہ نہ سمجھا جائے بلکہ اس حقیقت کو کڑوی سچائی سمجھ کر گولی کی طرح کھانے کی عادت ڈالیں ہمیں خلافت سے محروم کرنے والے ہی ہمارے مجرم اور گناہ گار ہیں بحیثیت مسلمان ہمیں ہماری وراثت سے محروم کرنے اور اس وراثت میں سے ہمارے حق پر ڈاکہ ڈال کر خوشحال زندگی گذارنے والے اور سرحد قائم کر کے ہمارے حصے کی دولت پر عیاشیاں کرنے والے مسلمانوں کے ہی نہیں اسلام کے بھی دشمن ہیں۔۔۔ ہمیں گلی، محلوں کی زندگی دینے والے بڑے بڑے محلات بنا کر جو پرکشش زندگیاں گذار ہیں وہ اسلام اور خلافت کے دشمن ہیں۔۔۔ ہم نہیں جو اپنی بھلائی اور اپنی آنے والی نسل کے لئے جمہوری نظام کی حمایت کرتے ہیں۔۔۔ کیا آپ پھینکے ہوئے ٹکڑوں پر اپنی اور اُن کی آنے والی نسلوں کو پروان چڑھتا دیکھ سکتے ہیں؟؟؟۔۔۔

اگر آپ کو یہ زندگی پسند ہے تو مبارک باد قبول کیجئے لیکن میں کبھی نہیں چاہوں گا کے میری آنے والی نسلیں یا اُن کی نسلیں کسی کے پھینکے ہوئے ٹکڑوں پر پیراسائٹ بن کر اپنی زندگی گذاریں میں تو جانتا ہوں کہ جب مکہ کے مسلمانوں پر سرزمین مکہ تنگ کردی گئی صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے تو انہوں نے مدینہ المنورہ ہجرت کی یہ سنت ہمارے اسلاف سے ثابت ہے لیکن کیا آج کا ہندوستانی مسلمان کیا آج کا برما کا مسلمان یہ انتہائی قدم اٹھا سکتا ہے؟؟؟۔۔۔ بھائی یہ ہیں وہ زمینی حقائق اور حد سے بہت سنجیدہ سوالات آپ شاید نہیں سمجھیں گے۔۔۔ کیونکہ آپ ایک فکر رکھنے والوں کی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس کے ہر ہر لفظ کو ذہن نشین کر کے آمنا صدقنا کرچکے ہیں۔۔۔ لیکن آپ سے ازرائے ہمددری اگر ہم لعنت بھیج دیں جمہوریت پر تو آپ بتائیں وعدہ کرتے ہیں کہ ہمیں خلافت کا نظام واپس دلادیں گے؟؟؟۔۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں اس جدوجہد میں، میں آپ کے ساتھ ہوں۔۔۔ اگر اتنی جرآت آپ میں نہیں تو ہم لعنت بھیجتے ہیں دور حاضر کی بادشادہت اور خلیفہ پر جن کی عیاشیاں اُن ممالک میں جاکر بآسانی دیکھی جاسکتی ہیں۔۔۔ اگر دیکھ نہیں سکتے تو وہاں مقیم مسلمانوں سے دریافت کی جاسکتی ہیں۔۔۔ ایک سوال کا جواب دیں۔۔۔ عمرہ پر جانے والا مکہ، مدینہ اور جدہ کے علاوہ کسی دوسرے شہر اگر جانا چاہے تو کیوں اجازت نہیں ہے؟؟؟۔۔۔

میری ان باتوں کو میرا تجزیہ ہرگز نہ سمجھئے گا۔۔۔
والسلام علیکم۔
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
ماشاءاللہ بھائی آپ نے بالکل سچی باتیں کی ہیں ایسا ہی ہو رہا ہے مگر قصوروار سبھی نہیں ہیں ابھی بہت سے لوگ خلافت کے نظام کو قائم کرنے میں لگے ہوئے ہیں میں ابھی ان کے بارے نہیں بتاسکتا جن جن کو میں جانتا ہوں وقت آنے پر بتاؤنگا یہ وہ لوگ ہیں جو روس کے خلاف جہاد میں اپنے گھر بار چھوڑ کر آئے تھے ان میں تقریبا ١٠ سے ١٥ ممالک کے لوگ شامل تھے مگر اب ٣٠ سے ٤٠ ممالک کے لوگ شامل ہو چکے ہیں الحمدللہ یہ تحریک قیام خلافت کی تحریک ہے ان کا کوئی بھی جماعتی نام نہیں ہے بس مسلم کہلاتے ہیں اور یہ تکفیری بھی نہیں ہیں بلکہ جو کوئی بھی قرآن و سنت کے مطابق عمل کرتا ہے ان کو مسلم مانتے ہیں اور جو لوگ کفر و شرک میں جکڑے ہوئے ہیں ان کے کفر و شرک کو ہی ڈسکس کرتے ہیں۔ ان لوگوں نے جب دیکھا کہ روس کے جانے کے بعد جہادی گروپ آپس میں ہی کشت و خون بہانے لگے ہیں تو ان لوگوں نے سوچا کہ ١٥ سال جہاد کیا اور ١٥ لاکھ مسلمانوں قتل ہوئے اور جب دشمن بھاگ گیا تو چاہیے تو یہ تھا کہ جہادی گروپ مل کر اسلامی خلافت کا قیام کرتے ہیں مگر سبھی گروپ آپس میں ہی لڑ پڑے جس کی وجہ سے مزید کئی ہزار لوگ مارے گے، آخر اس سارے معاملے میں کچھ تو خرابی تھی جو اس کا یہ نتیجہ نکلا ہے خیر انہوں نے جو تحقیق کی تو یہ بات سامنے آئی کہ اسلام ہم کو اجتماعیت کا درس دیتا ہے اور یہاں ہم گروپ بندیوں میں تقسیم ہو کر لڑ رہے تھے، پھر ان کے سامنے وہ حدیث بھی آئی کہ امام مجاہدین کی ڈھال ہے کہ اس کے پیچھے ہوکر کفار سے لڑتے ہیں تو جب ڈھال ہی نہ ہو تو اپنا دفاع کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اور دوسری حدیث میں امام، خلیفہ کو سر ::ہیڈ:: بھی کہا گیا ہے اور ایک حدیث میں امت کو جسم واحد کی مانند کہا گیا ہے اس سے پتا چلا کہ امت جسم ہے تو اس کا سر خلیفہ ہے اگر سر کو جسم سے جدا کردیا جائے تو جسم مردہ ہو جاتا ہے وہ اپنے آپ کو قابو نہیں کرسکتا، آج ہم دیکھتے ہیں کہ ایک بازو کہیں پڑا ہے تو دوسرا کہیں، ایک ٹانگ کہیں پڑی ہے تو دوسری کہیں غرض ہورا جسم بیماریوں کے نرغے میں ہے مگر سر ہے ہی نہیں جو ان بیماروں کا علاج کروائے، امت مسلمہ زیادہ فتنوں میں گرفتار خلافت کے نظام کے بعد ہوئی ہے، خلافت کے دور میں صرف مسلکی فرقہ بندی تھی مگر خلافت کے بعد علاقائی فرقہ بندی بھی کردی گئی ہے تو ہندوستانی ہے، تو پاکستانی ہے، تو سعودی ہے تو افغانی ہے ارے بھائیو یہ اسلام نہیں ہے اسلام اجتماعیت کا نام ہے اپنے آپ کو ٹکروں میں تقسیم نہ ہونے دو ایک بنو ایک،
آپ کی بات ٹھیک ہے کہ اس سارے نقصان کے ذمہ دار اہل علم زیادہ ہیں جن کے پاس علم ہوتے ہوئے بھی لوگوں کی حق بات کی طرف رہنمائی نہیں کی بس اپنی ڈیڑھ فٹ کی مسجد بنالی تو سمجھا بہت بڑا تیر چلا لیا ہے خیر بھائی دیکھتے چلو آگے آگے ہوتا ہے کیا۔
ہمارے جو اہل علم ساتھی ہیں انہوں نے سب بھائیوں کو یہ تاکیدی حکم دیا ہوا ہے کہ جمہوریت کی جہالت کو عام کرو لوگوں کو خلافت کے نظام کی آگاہی دو ان کو بتاؤ کہ خلافت کیسا پاکیزہ نظام ہے اور جمہوریت کیسا پالید نظام ہے تو شاید لوگ اس باطل نظام کو چھوڑ کر نظام خلافت کو اپنائیں۔
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
آپ نے عربوں کی بات کی تھی تو بھائی آپ کو بتاتا چلوں کہ اس تحریک کو شروع کرنے والے عرب لوگ ہی ہیں اور ابھی بھی سب سے زیادہ عرب لوگ ہی اس میں شامل ہیں۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
عاصم بھائی۔۔۔ آپ نے اتنی محنت کی اور کہا کے کچھ حقائق ہیں جو نہیں بتاسکتے۔۔۔ میں بس آپ کو ایک بات بتادوں۔۔۔ کے اس طرح کی جدوجہد کرنے والوں کو ارہابی کہا جاتا ہے۔۔۔ یعنی باغی۔۔۔ لہٰذا میری یہ بات لکھ لیں۔۔۔ ان کی کوشش نقارخانے میں ماسوائے طوطی کی آواز کے اور کچھ نہیں۔۔۔ کیونکہ عرب ممالک میں دفن کہانیاں کبھی کسی نے پڑھنے یا جاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔۔۔ بنو اُمیہ بنو عباس کی تاریخ سب کو پتہ ہے۔۔۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کی کہانی شائد ہی کسی کو معلوم ہو۔۔۔ آخر خلیفہ عبدالمجید خان نے ایک کتاب لکھی تھی وہ آج بھی ترکی کے عجائب خانے میں دفن ہے کیوں اس کتاب کو منظر عام پر نہیں لایا جاتا؟؟؟۔۔۔ یا لانے نہیں دیا جاتا؟؟؟۔۔۔ یاد رکھیں اخیتام ہی وہ نقطہ ہوتا ہے جہاں سے آغاز ہوتا ہے۔۔۔ اچھا ایک بات بتائیں!۔ کویت پر حملہ ہوتا ہے امریکہ کو بلایا جاتا ہے مدد کے لئے۔۔۔ کیوں؟؟؟۔۔۔ کیا قرآن کی وہ آیت آپ فراموش نہیں کررہے کہ ۔۔۔


اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں باہم لڑ پڑیں تو ان میں صلح کروا دو اور اس کے بعد جو جماعت زیادتی کرے اور پھر فساد کرے تو دوسری جماعت کے ساتھ مل کر لڑو یہاں تک وہ رجوع نہ کرلیں۔۔۔

اب اس آیت کی موجودگی میں اس حکم سے انحراف کرنے والے کی سزا خود تجویز کیجئے۔۔۔
دیکھیں ہر جمعہ کو خطبہ حرمین میں پہلی آیت یہ ہوتی۔۔۔
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سیدھی سیدھی (سچی) باتیں کیا کرو
پھر ارشاد ہوا!۔
يُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭ وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًاتاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے کام سنوار دے اور تمہارے گناہ معاف فرما دے اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا اس نے بڑی مراد پالی۔

لیکن سوال یہ ہے کہ حق اور سچ بات کی گواہی کا معیار کیا ہے؟؟؟ِ۔۔۔ کیا بس سننے اور سنانے کی حد تک اس آیت کا معیار باقی رہ گیا ہے۔۔۔ اگر جواب مجھ سے جاننا ہے تو میں بس یہ ہی کہوں گا (منافقت) ابتسامہ۔۔۔۔ بھائی یقین کرلیجئے۔۔۔ آپ نہیں پہنچ سکتے ان کی سوچ تک۔۔۔ لہذا کیوں اپنے ہمدروں کو کھو رہے ہیں۔۔۔ میں بس اتنا ہی کہوں گا کے خلافت کا مرکز عرب کی سرزمین ہے اگر ہم اس کے نفاذ کی کوشش ہندوستان اور پاکستان میں کریں گے تو ماسوائے فساد فی الارض کے کچھ نہیں ہوگا کیونکہ ہم ہر قسم کی ضلالت کو بدعت فورا مان لیتے ہیں لیکن کبھی کسی نے یہ سوچنا گوارہ کیا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان عربی تھی اور ہم اردو میں ہی پھنسے ہوئے ہیں کیا یہ بدعت نہیں ہے؟؟؟۔۔۔ اگر یہ بدعت نہیں ہوگی تو جس خلافت کو آپ نافذ کرنا چاہ رہے اس پر وہ آپ کی اس نیک نیتی کی کوشش کو بدعت گرادنتے ہوئے وہ حدیث پشں کردیں گے خلافت کا مرکز عرب کی سرزمین ہے اور خلیفہ عربی ہوگا جو امام مہدی کے ظہور سے پہلے بننے گا۔۔۔اور ہم آپس میں ہی لڑپڑیں گے جیسے مجاہدین لڑ پڑے تھے ۔۔۔ لہذا نقصان ہمارا ہی ہونا ہے کیوں امریکہ بہادر کبھی نہیں چاہے گا۔۔۔ اور عرب ابھی اس کے متحمل ہی نہیں ہیں موجودہ صورتحال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔۔۔ اس لئے جس طرح وہ اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لئے قرآن وحدیث کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کررہے ہیں اسی طرح ہمیں بھی چاہئے کہ ہم بھی تھوڑا قومی مفادات اور ملک کو جو اس وقت تاریخ کے بدترین حالات سے گذر رہا ہے کی خاطر کوشش کریں کے اچھے لوگوں کو ووٹ دیکر اسمبلیوں میں پہنچائیں۔۔۔ اپنے قومی تشخص کو بچائیں۔۔۔ ورنہ ہمارا حال فلسطین سے زیادہ بدتر نہیں ہوگا۔۔۔ کے شریف گھرانوں کی لڑکیاں مساج سینٹروں میں جسم فروشی تک کرنے پر مجبور ہوگئی ہیں۔۔۔ یہ باتیں آن دی ریکارڈ ہیں۔۔۔ برائی دروازے تک پہنچ چکی ہے۔۔۔ بس گھر میں داخل ہونا باقی ہے۔۔۔ یہ ہی وقت ہے فیصلے کا ہے۔۔۔ ہم ووٹ نہیں ڈالیں گے تو ہمارا جعلی ووٹ ڈال دیا جائے گا۔۔۔ تو جب ہم یہ جانتے ہیں تو کیوں اپنا حق کسی دوسرے کو غلط شخص کے انتخاب کے لئے استعمال کرنے دیں۔۔۔ کیا آنکھ بند کرلینے سے مصیبت ٹل جائے گی؟؟؟۔۔۔ نہیں ہرگز نہیں۔۔۔
 
Top