عابدالرحمٰن
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 1,124
- ری ایکشن اسکور
- 3,234
- پوائنٹ
- 240
گزشتہ سے پیوستہ
عہدہ طلب کرنا جائز ہے ،اور استثنائی صورت تمام مناصب میں ہے خواہ امارت ہو ،یا انتظامی منصب ہو،یا قضاء کا منصب ہو یا اسمبلی اور ممبر پارلیمینٹ کا منصب ہو ،جب ان مناصب کے لیے کوئی دوسرا شخص اللہ کے حکم کے مطابق انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے والاموجود نہ ہوتو اس صورت میں خود سے عہدہ طلب کرنا جائز ہے جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے عہدہ طلب کیا۔ (ملخصاً ازفتاویٰ عثمانی ج۳ص۵۰۷،)اور اس حدیث پاک سے ان علماء کرام نے استدلال کیا ہے:
واستدل بہذالحدیث من منع طلب الامارۃ والقضاء مطلقا،ویدل علی خلاف ذالک قول اللہ تعالی حکایۃ لسیدنا یوسف علیہ السلام ،،اجعلنی علی خزائن الأرض إنی حفیظ أمین (سورۃ یوسف رقم الایۃ ۵۵)
وقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام من طلب قضاء المسلمین حتی ینالہ ثم غلب عدلہ جورہ فلہ الجنۃ ،ومن غلب جورہ عدلہ فلہ النار اخرجہ أبو داؤد عن أبی ہریرۃ۔وسکت علیہ ہو والمنذری ،وسندہ لامطعن فیہ (نیل الاوطار ج۸ص۴۹۸)
وکذالک قولہ علیہ السلام لا حسد إلافی اثنتین رجل اٰتاہ اللہ مالا فسلطہ علی ہلکتہ فی الحق واٰخر اٰتاہ الحکمۃ فہو یقضی بہا ویعلمہا۔ اخرجہ البخاری وغیرہ عن عبداللہ ۔
ومن أجل ہذہ الدلائل اختار أکثر الفقہاء التفصیل،فإن کان الطالب غیر أہل لذالک المنصب من الامامۃ او القضاء فإن طلبہ محظور مطلقا ،وکذالک إذا کان الطلب لحب المال والرئاسۃ والشرف فإنہ منہی عنہ علی الاطلاق ،وأما إذا کان للإصلاح بین الناس وإقامۃ العدل فلیس بمنہی عنہ۔
(تکملۃ فتح الملہم ج۳ص۲۴۳،۲۴۴,وہٰکذا تستفاد من عبارۃ إعلاء السنن ج۱۵ص۴۴)
ترجمہ: اور امارت وقضاء کے عہدہ کی طلب کی مطلقا ممانعت پر بعض اہل علم نے اس حدیث پاک سے استدلال کیا ہے ،جب کہ باری تعالی کا ارشاد پاک جو حضرت یوسف علیہ السلام کے قول کو نقل کرتے ہوئے آیا ہے کہ مجھے ملک مصر کا وزیر خزانہ بنا دیجیے اس لئے کہ میں اس کی حفاظت کرنے والا اور جاننے والاہوںاس کے خلاف دلالت کرتا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یوسف علیہ السلام ایک نبی ہیں اور نبی کےلئے کسی کی اقتداء جائز نہیں کیونکہ نبوت ایک مہتم بالشان مقام ہوتا ہے دنیا کا بڑا سےبڑا عہدہ اور مرتبہ بھی ،مقام ومرتبہ نبوت کے مقابلہ میں ہیچ ہے ،تو ظاہر ہے اتنی عظیم شخصیت ایک ادنیٰ کی اطاعت کیسے کرسکتی تھی اس لئے انبیاء کرام ہی امارت اور اقتدار کے زیادہ مستحق اور اہل ہوتے ہیں۔
اور رسول کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ جس نے مسلمانوں کے قضاء کو طلب کیا پھر اس کو حاصل کرلیا ،پھر اس کا عدل وانصاف اس کے ظلم وجور پر غالب رہا تو اس کے لیے جنت ہے اور جس کا ظلم وستم اس کے عدل وانصاف پر غالب رہا تو اس کے لیے جہنم ہے ، اس حدیث کو امام ابو داؤد نے حضرت ابو ہریرہؓ کی سندسے نقل کیا ہے،اور ابو داؤد اور علامہ منذری نے اس پر سکوت فرمایا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔
اسی طرح رسول پاکؐ ﷺ کا ارشاد ہے کہ حسد وغبطہ صرف دو چیزوں میں جائز ہے ایک وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے مال ودولت سے نوازا پھر اس کو راہ حق میں خرچ کرنے کے لیے مسلط کردیا۔دوسرے وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے حکمت ودانائی سے سرفراز کیا اوروہ اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے اور لوگوں کو سکھلاتا ہے اس حدیث کو امام بخاری نے حضرت عبداللہ کی سند سے تخریج کی ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان دلائل کی روشنی میں اکثرحضرات فقہاء کرام نے منصب وعہدہ کے مطالبہ کے سلسلے میں احتیاط واحتیاج کے پہلو کو مد نظر
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عہدہ طلب کرنا جائز ہے ،اور استثنائی صورت تمام مناصب میں ہے خواہ امارت ہو ،یا انتظامی منصب ہو،یا قضاء کا منصب ہو یا اسمبلی اور ممبر پارلیمینٹ کا منصب ہو ،جب ان مناصب کے لیے کوئی دوسرا شخص اللہ کے حکم کے مطابق انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے والاموجود نہ ہوتو اس صورت میں خود سے عہدہ طلب کرنا جائز ہے جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے عہدہ طلب کیا۔ (ملخصاً ازفتاویٰ عثمانی ج۳ص۵۰۷،)اور اس حدیث پاک سے ان علماء کرام نے استدلال کیا ہے:
واستدل بہذالحدیث من منع طلب الامارۃ والقضاء مطلقا،ویدل علی خلاف ذالک قول اللہ تعالی حکایۃ لسیدنا یوسف علیہ السلام ،،اجعلنی علی خزائن الأرض إنی حفیظ أمین (سورۃ یوسف رقم الایۃ ۵۵)
وقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام من طلب قضاء المسلمین حتی ینالہ ثم غلب عدلہ جورہ فلہ الجنۃ ،ومن غلب جورہ عدلہ فلہ النار اخرجہ أبو داؤد عن أبی ہریرۃ۔وسکت علیہ ہو والمنذری ،وسندہ لامطعن فیہ (نیل الاوطار ج۸ص۴۹۸)
وکذالک قولہ علیہ السلام لا حسد إلافی اثنتین رجل اٰتاہ اللہ مالا فسلطہ علی ہلکتہ فی الحق واٰخر اٰتاہ الحکمۃ فہو یقضی بہا ویعلمہا۔ اخرجہ البخاری وغیرہ عن عبداللہ ۔
ومن أجل ہذہ الدلائل اختار أکثر الفقہاء التفصیل،فإن کان الطالب غیر أہل لذالک المنصب من الامامۃ او القضاء فإن طلبہ محظور مطلقا ،وکذالک إذا کان الطلب لحب المال والرئاسۃ والشرف فإنہ منہی عنہ علی الاطلاق ،وأما إذا کان للإصلاح بین الناس وإقامۃ العدل فلیس بمنہی عنہ۔
(تکملۃ فتح الملہم ج۳ص۲۴۳،۲۴۴,وہٰکذا تستفاد من عبارۃ إعلاء السنن ج۱۵ص۴۴)
ترجمہ: اور امارت وقضاء کے عہدہ کی طلب کی مطلقا ممانعت پر بعض اہل علم نے اس حدیث پاک سے استدلال کیا ہے ،جب کہ باری تعالی کا ارشاد پاک جو حضرت یوسف علیہ السلام کے قول کو نقل کرتے ہوئے آیا ہے کہ مجھے ملک مصر کا وزیر خزانہ بنا دیجیے اس لئے کہ میں اس کی حفاظت کرنے والا اور جاننے والاہوںاس کے خلاف دلالت کرتا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یوسف علیہ السلام ایک نبی ہیں اور نبی کےلئے کسی کی اقتداء جائز نہیں کیونکہ نبوت ایک مہتم بالشان مقام ہوتا ہے دنیا کا بڑا سےبڑا عہدہ اور مرتبہ بھی ،مقام ومرتبہ نبوت کے مقابلہ میں ہیچ ہے ،تو ظاہر ہے اتنی عظیم شخصیت ایک ادنیٰ کی اطاعت کیسے کرسکتی تھی اس لئے انبیاء کرام ہی امارت اور اقتدار کے زیادہ مستحق اور اہل ہوتے ہیں۔
اور رسول کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ جس نے مسلمانوں کے قضاء کو طلب کیا پھر اس کو حاصل کرلیا ،پھر اس کا عدل وانصاف اس کے ظلم وجور پر غالب رہا تو اس کے لیے جنت ہے اور جس کا ظلم وستم اس کے عدل وانصاف پر غالب رہا تو اس کے لیے جہنم ہے ، اس حدیث کو امام ابو داؤد نے حضرت ابو ہریرہؓ کی سندسے نقل کیا ہے،اور ابو داؤد اور علامہ منذری نے اس پر سکوت فرمایا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔
اسی طرح رسول پاکؐ ﷺ کا ارشاد ہے کہ حسد وغبطہ صرف دو چیزوں میں جائز ہے ایک وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے مال ودولت سے نوازا پھر اس کو راہ حق میں خرچ کرنے کے لیے مسلط کردیا۔دوسرے وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے حکمت ودانائی سے سرفراز کیا اوروہ اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے اور لوگوں کو سکھلاتا ہے اس حدیث کو امام بخاری نے حضرت عبداللہ کی سند سے تخریج کی ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان دلائل کی روشنی میں اکثرحضرات فقہاء کرام نے منصب وعہدہ کے مطالبہ کے سلسلے میں احتیاط واحتیاج کے پہلو کو مد نظر
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔