• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الیکشن سے مربوط مسائل کا شرعی حل

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ

عہدہ طلب کرنا جائز ہے ،اور استثنائی صورت تمام مناصب میں ہے خواہ امارت ہو ،یا انتظامی منصب ہو،یا قضاء کا منصب ہو یا اسمبلی اور ممبر پارلیمینٹ کا منصب ہو ،جب ان مناصب کے لیے کوئی دوسرا شخص اللہ کے حکم کے مطابق انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے والاموجود نہ ہوتو اس صورت میں خود سے عہدہ طلب کرنا جائز ہے جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے عہدہ طلب کیا۔ (ملخصاً ازفتاویٰ عثمانی ج۳ص۵۰۷،)اور اس حدیث پاک سے ان علماء کرام نے استدلال کیا ہے:
واستدل بہذالحدیث من منع طلب الامارۃ والقضاء مطلقا،ویدل علی خلاف ذالک قول اللہ تعالی حکایۃ لسیدنا یوسف علیہ السلام ،،اجعلنی علی خزائن الأرض إنی حفیظ أمین (سورۃ یوسف رقم الایۃ ۵۵)
وقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام من طلب قضاء المسلمین حتی ینالہ ثم غلب عدلہ جورہ فلہ الجنۃ ،ومن غلب جورہ عدلہ فلہ النار اخرجہ أبو داؤد عن أبی ہریرۃ۔وسکت علیہ ہو والمنذری ،وسندہ لامطعن فیہ (نیل الاوطار ج۸ص۴۹۸)
وکذالک قولہ علیہ السلام لا حسد إلافی اثنتین رجل اٰتاہ اللہ مالا فسلطہ علی ہلکتہ فی الحق واٰخر اٰتاہ الحکمۃ فہو یقضی بہا ویعلمہا۔ اخرجہ البخاری وغیرہ عن عبداللہ ۔
ومن أجل ہذہ الدلائل اختار أکثر الفقہاء التفصیل،فإن کان الطالب غیر أہل لذالک المنصب من الامامۃ او القضاء فإن طلبہ محظور مطلقا ،وکذالک إذا کان الطلب لحب المال والرئاسۃ والشرف فإنہ منہی عنہ علی الاطلاق ،وأما إذا کان للإصلاح بین الناس وإقامۃ العدل فلیس بمنہی عنہ۔
(تکملۃ فتح الملہم ج۳ص۲۴۳،۲۴۴,وہٰکذا تستفاد من عبارۃ إعلاء السنن ج۱۵ص۴۴)

ترجمہ: اور امارت وقضاء کے عہدہ کی طلب کی مطلقا ممانعت پر بعض اہل علم نے اس حدیث پاک سے استدلال کیا ہے ،جب کہ باری تعالی کا ارشاد پاک جو حضرت یوسف علیہ السلام کے قول کو نقل کرتے ہوئے آیا ہے کہ مجھے ملک مصر کا وزیر خزانہ بنا دیجیے اس لئے کہ میں اس کی حفاظت کرنے والا اور جاننے والاہوںاس کے خلاف دلالت کرتا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یوسف علیہ السلام ایک نبی ہیں اور نبی کےلئے کسی کی اقتداء جائز نہیں کیونکہ نبوت ایک مہتم بالشان مقام ہوتا ہے دنیا کا بڑا سےبڑا عہدہ اور مرتبہ بھی ،مقام ومرتبہ نبوت کے مقابلہ میں ہیچ ہے ،تو ظاہر ہے اتنی عظیم شخصیت ایک ادنیٰ کی اطاعت کیسے کرسکتی تھی اس لئے انبیاء کرام ہی امارت اور اقتدار کے زیادہ مستحق اور اہل ہوتے ہیں۔
اور رسول کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ جس نے مسلمانوں کے قضاء کو طلب کیا پھر اس کو حاصل کرلیا ،پھر اس کا عدل وانصاف اس کے ظلم وجور پر غالب رہا تو اس کے لیے جنت ہے اور جس کا ظلم وستم اس کے عدل وانصاف پر غالب رہا تو اس کے لیے جہنم ہے ، اس حدیث کو امام ابو داؤد نے حضرت ابو ہریرہؓ کی سندسے نقل کیا ہے،اور ابو داؤد اور علامہ منذری نے اس پر سکوت فرمایا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔
اسی طرح رسول پاکؐ ﷺ کا ارشاد ہے کہ حسد وغبطہ صرف دو چیزوں میں جائز ہے ایک وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے مال ودولت سے نوازا پھر اس کو راہ حق میں خرچ کرنے کے لیے مسلط کردیا۔دوسرے وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے حکمت ودانائی سے سرفراز کیا اوروہ اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے اور لوگوں کو سکھلاتا ہے اس حدیث کو امام بخاری نے حضرت عبداللہ کی سند سے تخریج کی ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان دلائل کی روشنی میں اکثرحضرات فقہاء کرام نے منصب وعہدہ کے مطالبہ کے سلسلے میں احتیاط واحتیاج کے پہلو کو مد نظر
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ

رکھا ہے چنان چہ علماء فرماتے ہیں کہ اگر امامت وقضاء کے عہدے کا طالب شخص نا اہل اور غیر مستحق ہو تو اس صورت میں طلب عہدہ مطلقاممنوع ہے اسی طرح اگر طلب منصب حب مال اور اقتدار سلطنت کی ہوس اور مال ودولت کی لالچ میں ہو تو اس وقت بھی عہدہ کا طلب مطلقا ممنوع ہے لیکن اگر لوگوں کی اصلاح مقصود ہو اور عہدہ قبول کرکے عدل وانصاف کو قائم کرنے کا عزم وحوصلہ ہو تو اس صورت میں طلب عہدہ ومنصب مذموم نہیں ہے بلکہ مباح ہے اس سےیہ بات واضح ہوگئی کہ ایسے شخص کا الیکشن میں نمائندہ بن کر کھڑا ہونے کا حکم بدرجہ اولیٰ معلوم کیا جاسکتاہے ۔
شرعی قوانین کی مخالفت کرنے والے اداروں کے رکن بننے کا حکم شرعی
ہر وہ ادارہ یا مرکز یا تنظیم جہاں اسلامی قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہو یا ان کے مقاصد اور منشور میں اسلامی قانون کی تضحیک ہو یا ان اداروں کے قوانین وضوابط اسلامی قانون سے متصادم ہوں ،خواہ اس طرح کے ادارے وتنظیم ممالک اسلامیہ میں ہوں یا غیر اسلامیہ میں اور اس ادارے کے منشور میں یہ بات شامل ہو کہ اس تنظیم یا ادارے کےہر فرد یا رکن یا ملازم پر ہر حال میں اس کی پاسداری اور لحاظ کرنا لازم ہوگا ،۔ تو شریعت مطہرہ کی روشنی میں ایسے اسلام مخالف قانون ساز اداروں میں ملازمت کرنا یا ان کا رکن یا ممبر بننایا ان کی مجالس میں شرکت کرنا در پردہ ان اداروں کو تقویت اور مضبوطی فراہم کرنا شمارہوگااور ان کا یہ عمل تعاون علی الاثم میں شمار ہوگا جو شرعی نقطہ سے جائز نہیں ، لہٰذاان میں شرکت کرنا جائز نہیں۔
( عزیز المفتی غیر مطبوعہ از مفتی عزیز الرحمٰن بجنوریؒ وھٰکذا قال مفتی کفایت اللہ ؒ فی کفایت المفتی ج:۹ص:۲۵۶)
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى۝۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۝۰۠ وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۲ [٥:٢]

اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کا عذاب سخت ہے
امام احمد بن حنبلؒ صحیح اسناد کے ساتھ سیدنا ابو موسی اشعریؓ سے روایت فرماتے
عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ : قُلْتُ لِعُمَرَ ’’ إنَّ لِي كَاتِبًا نَصْرَانِيًّا قَالَ ما لَكَ قَاتَلَكَ اللَّهُ ! أَمَا سَمِعْت َاللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ (يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَاۗءَ۝۰ۘؔ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ) (المائدة ) أَلا اتَّخَذْتَ حَنِيفِيًّا (يعني مسلماً) قَالَ قُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لِي كِتَابَتُهُ وَلَهُ دِينُهُ قَالَ لا أُكْرِمُهُمْ إذْ أَهَانَهُمْ اللَّهُ ، وَلا أُعِزُّهُمْ إذْ أَذَلَّهُمْ اللَّهُ ، وَلا أُدْنِيهِمْ إذْ أَقْصَاهُمْ اللَّهُ‘‘
ترجمہ: ابو موسی اشعریؓ فرماتے ہیں کہ: (میں نے سیدنا عمر بن خطاب سے کہا: میرا ایک کاتب نصرانی ہے۔ انہوں نے غصہ میں کہا تیرا بیڑہ غرق ہو تو نے ایسا کیوں کیا! کیا تو نے سنا نہیں کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
(اے ایمان والو! یہود ونصاری کو اپنے دوست نہ بناؤ یہ تو صرف ایک دوسرے ہی کہ دوست ہیں)
کیوں نہیں تو نے ایک مسلمان کو رکھ لیا ہوتا۔ میں نے عرض کی: اے امیر المومنین مجھے تو محض اس کی کتابت سے مطلب ہے، وہ جانے اور اس کا دین۔ آپ نے فرمایا: میں تو ان کا اکرام نہیں کروں گا کیونکہ اللہ تعالی نے ہی ان کی اہانت فرمائی ہے۔اور نہ ان کی عزت کروں گا کیونکہ اللہ تعالی نے ہی انہیں ذلیل ورسواء کیا ہے، اور نہ انہیں اپنے سے قریب کرو ں گا جبکہ اللہ تعالی ہی نے انہیں دھتکار دیا ہے)۔
ایک اور حدیث میں جس کو اوس بن شرجیل نے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں:
عن أوس بن شرحبیل أنہ سمع رسول اللہ ﷺ یقول من مشی مع ظالم لیقویہ وہو یعلم أنہ ظالم فقد خرج من
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ

الاسلام۔ (مشکوٰۃص۴۳۶ ج۶ص۱۲۲،المعجم الکبیر ج۲ص۲۷۱)
حضرت اوس بن شرحبیل ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول کریم ﷺسے سناکہ آپ ﷺ ارشاد فرما رہے تھے کہ جو شخص کسی ظالم کو تقویت پہنچانے کے لئے اس کے ساتھ چلے گا جب کہ اس کو معلوم ہے کہ وہ ظالم ہے تو وہ اسلام کے کمال سے نکل گیا ۔
البتہ اگر کوئی ایسا ادارہ ہے کہ منشور یا ان کا مقصد اسلام کو اور اسلامی تعلیمات کو نقصان پہنچانا ہو اور وہاں کے ملازمین و ممبران کو اپنے مذہبی قوانین پر عمل کرنے کی رخصت ہو ، یا کوئی فرد ان اداروں میں اس نیت اور مقصد سے شرکت کرتا ہے کہ وہ گفت وشنید کے بعد ان کی اصلاح کرسکتا ہے ،یا اس نیت سے شرکت کرتا ہے تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ یہ غیر اسلامی تنظیمیں اسلام یا مسلمان مخالف تو کوئی کا م نہیں کرہی ہیں ،اگر یہ اغراض پیش نظر ہیں تو ان اداروں میں شرکت کی جا سکتی ہے ۔ اس شر ط کے ساتھ کہ وہ خود ا ن کے مقاصد میں معاون اور ملوث نہ ہو ہوجائے۔
حدیث پاک میں ارشاد ہے،حضرت ابو بکر صدیقؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
’’ الناس إذارأو الظالم فلم یأخذوا علی یدیہ أوشک أن یعمہم اللہ بعقاب منہ‘‘
(کنز العمال،ج۳ص۷۱ :مسنداحمد بن حنبل،ج۱ص۲۰۸ا:سنن ابی داؤدج۴ص۲۱۴)
ترجمہ: اگر لوگ ظالم کو دیکھ کر اس کا ہاتھ نہ پکڑیںتو کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذاب عام نازل فرمادے۔
لہٰذا ظلم وزیادتی اور خلاف شریعت قانون کو روکنے کی نیت سے ایسے ادارے کی رکنیت اختیار کرنا اس کی شرعاً گنجائش معلو م پڑتی ہے ، بصورت دیگراگر یہ معلوم ہو کہ اس ادارے کی رکنیت اور شمولیت اختیا ر کرنے میںوہاں کے قوانین و ضوابط میں کوئی تبدیلی نہیںہوگی بلکہ ادارے کے قوانین ہی پر کار بند رہنا پڑ ے گا اور اس کے ما تحت رہ کر کام کرنا ہوگا اور وہا ں اصول شریعت کے خلاف بھی کام کرنا پڑے گا تو اس صورت حال میں ایسے ادارے اور جماعت وپارٹی کی رکنیت وشمولیت اختیار کرنا جائز نہیں ہے ۔
حلف وفاداری اور شریعت:
ہر ملک اور مخصوص اداروں یا سیاسی جماعتوں کا ان کا اپنا آئین اور دستور ہوتا ہے جس میں شمولیت کے لئے حلف وفاداری لیا جا تا ہے ،کچھ جگہوں میں تو شمولیت کرنے والے ملازم ہوں یا ممبر ان کو اپنے مذہب کے مطابق ہی حلف برداری کےلئے کہا جاتا ہے یہاں تک تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن اس کے برعکس اگر کسی ادارہ یا جماعت وپارٹی کا دستور ومنشور اور اصول قانون شریعت اسلامی اور قرآن وحدیث کے اصول کے با لکل خلاف ہو،اور اس میں شمولیت ورکنیت اختیار کرنے والوں کے لیے خلاف شریعت قانون سے بھی وفاداری کا عہدوپیمان کرنا پڑے اور خلاف شریعت دفعات سے وفاداری کا حلف اٹھانا پڑے ، توایک مسلمان کے لئے اس طرح کے دفعات وقوانین سے وفاداری کا حلف لینا اور اس عہد وپیمان کرنا کہ میں اس ادارے کے تمام قوانین کا پاس ولحاظ کروںگا (اگرچہ وہ خلاف شرع ہی کیوںنہ ہوں) ،جائز نہیں ۔
اس لئےکہ رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایاہے:
عن النواس بن سمعان قال قال رسول اللہ ﷺ لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق۔
(شر ح السنۃ :ج۱۰ ص۴۴: المعجم الکبیر :ج۱۸ ص۱۷۰: ،مصنف بن ابی شیبہ: ج۱۲ص۵۴)

حضرت نواس بن سمعان ؓ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ جس مسئلہ میں خالق اللہ رب العزت کی نا فرمانی لازم آتی ہو اس میں کسی بھی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ
’’ عن علی قال قال رسول اللہﷺ لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ إنما الطاعۃ فی المعروف‘‘
(بخاری شریف :باب ما جاء فی اجازۃ خبرالواحد الصدوق،مسلم: کتاب الامارۃ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ: ج۲ رقم ۴۸۷۱)

حضرت علی ؓ سے روایت کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ معصیت اور گناہ کے کام میں کسی بھی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے اطاعت وفرماں بر داری صرف نیک کاموں میں جائز ہے ۔
خلاصہ کلام : مذکورہ بالا احادیث شریفہ سے معلوم ہوا کہ امیروحاکم کی بات کو سننا اوراطاعت کرنا اسی طرح کسی ادارے اور جماعت وپارٹی کے قوانین واصول کے ساتھ وفاداری اس وقت تک جائز ہے ،جب تک وہ قرآن وحدیث کے مخالف نہ ہوں ،اگر ادارہ یا جماعت وپارٹی کا کوئی حکم وقانون شریعت کی حدود سے متجاوز ہو اور اس پر عمل پیرا ہونے میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور عدم اطاعت لازم آتی ہو، تو اس صورت میں اس کے ساتھ وفاداری کا عہد کرنا یا اس کے لیے حلف اٹھانا کسی کلمہ گو شخص کے لئے جائز نہیں ۔
بائبل اور انجیل پر حلف لینے کا شرعی حکم:
حلف کہتے ہیں کسی کتاب محترم کو ہاتھ میں لیکرکسی حالف کا یہ اظہاراور اعلان کرنا،کہ میں جو کچھ اعلان اور اقرار کررہا ہوں وہ با لکل صحیح ہے ،اور یہ کتاب اس بات کی سند ہےکہ میں اپنے قول و فعل میں سچا ہوں۔اب چونکہ حالف کے اعتقاد کے مطابق یہ کتاب مکرم اور قابل احترام ہے اور وہ اس کا دل کی گہرائی سے قابل تعظیم اور لائق احترام ہونا تسلیم کرتاہے اس لئے اس کا تعلق ایمان اور عقائد ے جڑ گیااور روئے زمین پر اس وقت کلام اللہ (قرآن پاک )کے علاوہ کوئی کتاب برحق نہیں ہے، اور یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ موجودہ زمانے میں جو تورات وانجیل کے نسخے ہیں وہ تحریف شدہ ہیں گویا وہ کتاب اللہ نہیں بلکہ کتاب الناس ہیں۔ اور اس وقت کو ئی ایک نسخہ بھی دنیا میں بالکل اصلی حالت میں موجود نہیں ہے بلکہ تمام نسخے افتراء علی اللہ اور تحریف وتغیر سے پر ہیں،اس لئے کسی مسلمان کےلئے جائز نہیں ہے کہ وہ ان کتابوں کو ہاتھ میں لے کر قسم کھائے۔
اور ان کتابوں پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانے کا مطلب ہے ان کا منجانب اللہ ہونے اور ان کے برحق ہونے کی تصدیق کرنیکا،جو جائز نہیں ،البتہ اگر کوئی مسلمان طوعاً وکرہاًاس پر مجبور ہو،اور اس کے بغیر حصول انصاف اور ظلم وستم سے بچنا نا ممکن ہو تو بادل نخواستہ کر اہت کے ساتھ اس کی تعظیم وتوقیر اور احترام واکرام کا اعتقاد دل میں لئے بغیر دفع مضرت کی نیت سے ہاتھ رکھ کر حلف لے سکتا ہے۔ اور جس کی توثیق وتصدیق واجازت رابطہ عالم اسلامی کے زیر نگرانی اسلامک فقہ اکیڈمی کی پانچویں سمینار منعقدہ ۸-۱۶ربیع الثانی ۱۴۰۲؁ھ میں ہوئی اور علماء امت جن نکات پر متفق ہوئے ان میں سے ایک یہ ہے ۔
إذا کان القضاء فی بلد ما حکمہ غیر اسلامی یوجب علی من توجہت علیہ الیمین وضع یدہ علی التوراۃ او لإنجیل أو کلیہما فعلی المسلم أن یطلب من المحکمۃ وضع یدہ علی القرآن فإن لم یستجب لطلبہ یعتبر مکرہا ولابأس علیہ أن یضع یدہ علیہما أوعلی أحدہما دون أن ینوی بذالک تعظیما۔
(قرارات مجلس المجمع الفقہی الاسلامی ۱۴۰۲ھ؁/۸۵بحوالہ جدید فقہی مسائل ج۱ص۴۷۰)
اگر کسی غیر اسلامی مملکت کی عدالت قسم لینے والے کے لیے توریت یاا نجیل یا ان دونوں پر ہاتھ رکھنا ضروری قراردیتی ہو تو مسلمانوں کو چا ہیے کہ وہ عدالت سے قرآن کریم پر ہاتھ رکھنے کا مطالبہ کرے ،اگر اس کا مطالبہ نہ مانا جائے تو ایسے کو محبور سمجھا جائے گا اور دونوں یا کسی ایک پر تعظیم کی نیت کے بغیر ہاتھ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔ (اسلامی فقہ اکیڈمی مکہ مکرمہ کے فیصلے ص۱۲۰)
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ
مسلمانوں کا مسلم مخالف پارٹیوں میں شمولیت کرنا :
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایک ایسی جمہوریت کہ جہاں’’ ہندو‘‘ اکثریت ہے ،اور جب سے یہ ملک آزاد ہوا ہے اس وقت سے یہاں کی اکثریت ہندو راشٹر قائم کرنے کی فکر میں رہتی ہے کچھ کھل کر اس اظہار کرتے ہیں اور کچھ کا خفیہ ایجنڈہ ہو تاہے ،تو کچھ نے سیکولر کا مکھوٹا لگا رکھا ہے تا کہ مسلم ووٹ حاصل کیا جاسکے، لیکن درپردہ ہیں سب مسلم دشمن۔ اب رہی وہ پارٹیاں جن کی مسلم دشمنی بالکل عیاں ہےاور ان کے آئین ودستور ودفعات میں بھی درج ہے، ان کی بنیاد ہی مسلم دشمنی پر قائم ہے، اور ان کے یہاں مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ اور ان کی عائلی اور خارجی زندگی کی صیانت وحفاظت کی کوئی ضمانت اور گارنٹی نہیں ہے اور نہ ان کے اصول میں ہے، توایسی سیاسی جماعتوںاور پارٹیوں میں مسلمانوں کی شرکت قطعی مفید اور کار آمد نہیں ، اورنہ ہی کوئی مسلمان اس میں شریک وشمولیت اختیار کرکے ان کے اصول وقوانین کی اصلاح کرسکتاہے اور نہ اس کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس لیے اس طرح کی پارٹیوں اور جماعتوں میں مسلمانوں کی شرکت اور شمولیت کرنا اور ان کی جانب سے الیکشن میں انتخاب لڑنا باعث گناہ عظیم اور حرام ہوگا اور’’ تعاون علی الاثم والعدوان ‘‘کے متراف ہوگا اور مسلمانوں کی دشمنی میں کافروں کے ساتھ برابر کے شریک ہوگا۔ (کفایت المفتی ج۹ص۲۵۶)
حدیث شریف میں ہے:
عن ابن مسعود عن النبی ﷺ قال من رضی عمل قوم فہو منہم ومن کثر سواد قوم فہو منہم
(تفسیر رازی سورۃ المائدہ ج۱۲، ص۵۴التفسیر الکبیر ج۱۲ص۵۴، سبل السلام ج۷ص۱۰۷)

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓفرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : جو کوئی کسی قوم کے عمل سے راضی ہے وہ اسی میں سے ہے اور جو کوئی کسی قوم کی جماعت کو زیادہ کرے وہ بھی اسی میں سے ہے ۔
لیکن اگر کوئی شخص اس نیت سے ان اسلام مخالف پارٹیوں میں شریک ہوتا ہے کہ اس میں داخل ہوکر اس کے ایجنڈے اور اصول کو بدلنے کی سعی وکوشش کریگا تو ظاہر ہے کہ اس کی حسن نیت کے مطابق اس میں شمولیت کی اجازت بوقت ضرورت دی جاسکتی ہے بشرطیکہ وہ خود اس میں شریک ہوکر اسی کا آلہ کار بن کر نہ رہ جائے اور اس کی حیثیت تماش بین کی نہ رہ جائے ۔
مسند احمد اور معجم کبیر وغیرہ میں حضرت سہل بن حنیف ؓسے روایت ہے کہ رسول اکر مؐ نے ارشاد فرمایا :
من أذل عندہ مؤمن فلم ینصرہ ویقدرعلی أن ینصرہ أذلہ اللہ علی رؤس الأشہاد یوم القیامۃ۔
(المعجم الکبیر ج۶ص۷۳:شعب الإیمان ،ج۶ص۱۱۰:مسند احمد ، ج۲۵ص۳۶۱)

جس شخص کے سامنے کسی مؤمن کو ذلیل ورسوا کیا جارہا ہو اور وہ اس کی مدد پر قدرت رکھنے کے باوجود مددنہ کرسکے ،تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن (میدان محشر میں) رسوا وذلیل کرے گا ۔
اس حدیث کی رو سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص اسلام مخالف ایجنڈے کے بدلنے پر قدرت وطاقت رکھتا ہے ،اور وہ اس مسلم مخالف واسلام دشمنی پر بنائی گئی پارٹی میں اصلاح کی نیت سے شریک ہوتا ہے تو اس کی گنجائش ہے ،لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ اس میں مسلمانوں کی اکثریت ہو ،تنہا مسلم کچھ بھی نہیں کرسکتا ،اس لئے تنہا مسلمان کا ایسی پارٹی شریک ہوناجائز نہیں۔اس کے لئےعدم شرکت ہی زیادہ افضل واولیٰ ہے۔
سیکولر پارٹیوں کی طرف سے انتخاب لڑنا:
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ
اوپر واضح کیا جا چکا ہےکہ ہندوستان ایک ہندو اکثریت والا ملک ہے ،اس لئے زیادہ تر سیاسی پارٹیاں غیر مسلموں کی ہی ہیں اس لئے حکومت بھی ان ہی لوگوں کی بنتی ہے اور پھر جو بھی حکومت تشکیل پاتی ہے وہ اکثریت کا خیال رکھتی ہے ،ان حالالت میں کچھ پارٹیاں ایسی وجود میں میں آئیں جو سیکولر ہیں اور مسلم مفاد کا خیال اکثریت کے مقابلہ میں زیادہ رکھتی ہیں،اور مسلم مفادات کا تحفظ بھی کرتی ہیں ،ان پارٹیوں کی بنیاد مسلم دشمنی پر نہیں ہوتی اور دستور اساسی مسلم نواز ہوتا ہے،اس سب کے باوجود ان کی مسلم دشمنی کے سبب ان کے بعض جزوی قانون مسلم مفادات کے مغائر ہوتے ہیں کھلم کھلا اسلام دشمنی پر مبنی پارٹیوں کے مقابلے میں یہ پارٹیاں اہون ہوتی ہیں ۔
فقہ کا اصول ہے ،،إذا ابتلیت ببلیتین فاختر أہونہما، ’’
اہون البلیتین کا مطلب یہ ہے کہ دو مصیبتوں میں سے کم تر مصیبت کو اختیار کر لیا جائے اس اصول کے پیش نظر اس میں مسلمانوں کے لیے شرکت کرنا جائز ہوگا ۔اور ان کی طرف سے انتخاب لڑ نااور ان کی حکومت ریاست اور وزارت میں شامل ہونا جائز ہوگا تاکہ جب کوئی قانون یا بل مسلمانوں کے خلاف پاس ہو تو وہ سینہ سپر ہوکر قانون کے دائرہ میں رہ کر اس کی مخالفت کر سکیں۔
اور اگر مسلما ن کلی طور پر ان سیاسی پارٹیوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیںتو یہ مسلمانوں کے حق میں زیادہ نقصان دہ اور خطرناک ہے ، اس صورت میں غیروں کو زیادہ فائدہ ہوگا ۔ اوراگر مسلمان سیاست میں شریک ہوتے ہیں تو ان مسلم مخالف جماعتوں کو مسلمانوں کے خلاف کام کرنےکے مواقع کم فراہم ہوں گے ۔ اسلئے مسلمانوں کےحق میں یہ بات زیادہ فائدہ مند ہوگی کہ ایوان بالا میں حق کی آواز بلند کرنے اور مسلمانوں کی آواز کو ایوان حکومت اور زیر اقتدارحکومت کے ارباب تک پہنچانے اور اسلام مخالف اور مسلم دشمنی پر مبنی قانون پر قدغن لگا نے کے لئے سیکولر جماعت میں شرکت مسلمانوں کےلئے وقت کا اہم تقاضہ ہے۔ اور شریعت اسلامیہ میں اس کی گنجائش ہے ۔
ہندوستان میں خالص مسلم سیاسی جماعت بنانا:
جیسا کہ واضح کیا جا چکا ہے کہ ہندوستان ہندو اکثریت والا ملک ہے ،اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے جہاں مختلف اور متعدد سیاسی سیکولر اور غیر سیکو لر پارٹیاں اور جماعتیں موجود ہیں ،جن کی قیادت وسیادت غیر مسلموں کے ہاتھوں میں ہے، اور اس ملک میں مسلمان نہایت اقلیت میں ہیں،اور ان کا ملک میں کوئی خاص اثر رسوخ بھی نہیں ہے۔اور مسلمان آپس میں متفق بھی نہیںہیںمسلمانوں کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے ، ہر ایک کے اپنے جدا گانہ افکار اور نظریات ہیں ،مسلمانوں کی کوئی اجتماعیت ،اتفاقیت اور شیرازہ بندی نہیںہے، ایسی صورت میں خالص مسلم سیاسی اور اسلامی پارٹی کا قیام موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لیے نا مناسب اور غیر موزوں ہوگا ،اس لیے کہ جب کوئی نمائندہ انتخابات میں مسلم پارٹی اوراسلامی پارٹی کی طرف سے امیدوار بن کر کھڑ ا ہوتا ہے تو اس کے با لمقابل کئی مسلم امیدوار میدان میں آجاتے ہیں جس کا نتیجہ شکست کی شکل میں برآمد ہوتا ہے، علاوہ ازیں جب کوئی مسلم پارٹی وجود میں آتی ہے تو دیکھنے میں آیا کہ تمام فرقہ پرست تنظیمیں متحد ہو جاتی ہیں ۔اس سے فائدہ اٹھاکر غیر مسلموں کے ووٹوں کو یکجا کرلیتی ہیں۔اور اسکی وجہ سے مسلم مخالف ذہنیت کو تقویت ملتی ہے۔اسلام کے خلاف اور مسلمانوں کے معاملہ میں تمام کفار ایک ملت ہیں خواہ ان کے اندر کتنی ہی تنظیمیں کیوں نہ ہو ں، اس لئے ان حالات میں خالص مسلم سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان شدت پسنداورمتعصب ہندواور فرقہ پرستوں کو آپس میںمتحد ومتفق کرنے کے موقع فراہم کرنےکےمترادف ہوگا جو مسلمانوں کے لئے خطرناک اور نقصان دہ ثابت ہوگا ،اس لئے مسلمانوں کا علیٰحدہ سےکوئی سیاسی جماعت قائم کرنا مناسب نہ ہوگا ۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ
مسلم عورتوں کا کسی پارٹی کی طرف سے انتخاب لڑنا:
امارت وسیاست کے معاملات میں اسلام نے عورت کی شمولیت کو ہر گز پسند نہیں کیا ہے ۔اور نہ ہی عورت کی جسمانی ساخت اور فطری صلاحیت ایسی ہے کہ امارت وسیاست جیسے معاملات میں وہ حصہ لے ،اسلام نے امارت کے لئے جن شرائط کی پابندی لگائی وہ اسپر بھی پوری نہیں اتر تی ۔اسلام میں بے حیائی اور مردوزن کے آزادانہ اختلاط کی کوئی گنجائش نہیں ہے ،نیز اس ایسی صورت میں عائلی قوانیں بھی تباہ ہوجاتے ہیں جو اسلامی نقطہ نظر سے کافی اہمیت کے حامل ہیں ،اس جگہ یہ ذکر دینا بھی زیادہ مناسب رہیگاکہ جب اہل ایران نے بنت کسریٰ (پوران ،نوشیرواں کی پوتی اور شیرویہ کی بہن ) کو اپنا بادشاہ بنا لیا ،تو جب یہ خبر نبی کریم ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا:
کَیْفَ یَفْلح قَوْم وَلَّوْ اَمْرَھُم اِمْرَاۃً (بخاری کتاب المغازی)
ترجمہ: وہ قوم کیسے فلاح پاسکتی ہے جس نے اپنا سر براہ ایک عورت کو بنالیا ہو۔
اور حدیث شریف میں ہے:
( عن ابي هریرة رض قال رسول الله ص اذا کانت امراءکم خیارکم و اغنیاءکم سمعاءکم و امورکم شوری بینکم فظهرالارض خیر لکم من بطنھا واذا کان امراء کم شرارکم واغنیاءکم بخلاءکم وامورکم الیٰ نساءکم فبطن الا رض خیر من ظھرھا۔ ( رواه الترمذی بحوالہ مشکٰوۃ ،باب تغیر الناس)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تمہارے حکمران اچھے لوگ ہوں اور تمہارے دولتمند سخی ہوں اور تمہارے معاملات باہمی مشورے سے طے ہوتے ہوں تو تمہارے لئے زندگی موت سے بہتر ہے اور جب تمہارے حکمران بد کردار ہوں اور دولتمند بخیل ہوں اور تمہارے معاملات بیگمات کے حوالے ہوں تو تمہاری موت زندگی سے بہتر ہے۔
ارشاد ربانی ہے ۔
يٰنِسَاۗءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِنِ اتَّــقَيْتُنَّ فَلَا تَخْـضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا۝۳۲ۚ وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاہِلِيَّۃِ الْاُوْلٰى وَاَقِمْنَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتِيْنَ الزَّكٰوۃَ وَاَطِعْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۝۰ۭ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللہُ لِيُذْہِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَيْتِ وَيُطَہِّرَكُمْ تَطْہِيْرًا۝۳۳ۚ (سورۃ الاحزاب رقم الا یۃ ۳۲)
ترجمہ: اےپیغمبر کی بیویو تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو کسی (اجنبی شخص سے) نرم نرم باتیں نہ کیا کرو تاکہ وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کا مرض ہے کوئی امید (نہ) پیدا کرے۔ اور ان دستور سےکے مطابق بات کیا کرو .اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور جس طرح (پہلے) جاہلیت (کے دنوں) میں اظہار تجمل کرتی تھیں اس طرح زینت نہ دکھاؤ۔ اور نماز پڑھتی رہو اور زکوٰة دیتی رہو اور خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتی رہو۔ اے (پیغمبر کے) اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی (کا میل کچیل) دور کردے اور تمہیں بالکل پاک صاف کردے .
عورتوں کو اللہ تبارک وتعالی نے خانگی امور کو سنبھالنے ،گھریلو زندگی کو سنوارنے ،بال بچوں اور اولاد کی صحیح تربیت کرنے اور گھر کے اندورونی وداخلی معاملات کی دیکھ ریکھ کرنے کے لئے گھر کی ملکہ او ررانی بناکر پیدا کیا ،اور یوں فرمایا کہ عورت گھرکی ملکہ ہے گھر کے اندر کی ذمہ داری سنبھالنا ،بچوں کی تربیت کرنا اور شوہر کے مال ومتاع کی حفاظت کرنا اس کے فرض منصبی میں داخل ہے ،جس طرح کہ گھر کے باہر کی زندگی کو
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ

سنوارنا ،مال ودولت کمانا ،مردوں کی ذمہ داری ہے ،مرد حضرات گھر کے باہر کے نظام زندگی کو کنٹرول کریں اور عورت گھر کے اندر کے نظام کو کنٹرول کریں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ولایت وحکم رانی کا اہل، اور وزارت امامت کے لائق مرد ہی ہوسکتا ہے ، عورت منصب وزارت وامامت اور حکومت وسیاست کی اہل نہیں ،عورتوں کو ولایت وحکمرانی دینے منصب وزارت وقیادت پر فائز کرنے اور انتخاب میں امیدوار بن کر کھڑے ہونے میںبہت سارے شرعی مفاسد اور امورمنکرہ کا ارتکاب لاز آتا ہے ،مثلا نا محرم مردوں کے ساتھ اختلاط ،اسٹیج پر عوام کے سامنے خطاب ، بلا محرم دور دراز کا سفر ،کونسلوں اور اسمبلیوں میں غیر محرم اجنبی مردوں کے سامنے روبر وہوکر بیٹھنا، وغیرہ وغیرہ کی وجہ سے عورتوں کا انتخاب میں امید وار بننا شرعا ممنوع اور شریعت کےخلاف ہے ۔
حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب نوراللہ مرقدہ لکھتے ہیں ،، عورتوں کا امیدوار بننا ممنوع ہے ہاں ووٹ دیتے وقت شرعی پردہ کا لحاظ رکھنا لازم ہوگا اور بطور امیدوار کھڑا ہونا عورتوں کے لئےمناسب نہیں ،کیوں عورتوں کے لئے شرعی ضروریات کی رعایت کے ساتھ کونسل یا اسمبلی کی شرکت انتہائی مشکل اور دشوارہے۔
عورتوں کا پولنگ بوتھ پر جا کر ووٹ ڈالنا:
حضرت مفتی عزیزالرحمٰن صاحب بجنوری نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں کہ مسلم عورتین اس طور پر اپنا ووٹ ڈال سکتی ہیں کہ ان کی بے پردگی نہ ہو اور ان کے پردہ کا باقاعدہ انتظام ہو اور اگراس عورت کے ساتھ اس کا کوئی محرم بھی ہو تو اچھا ہےنیز انتظامیہ کی طرف سے عورتوں کی جانچ کرنے والی بھی عورتیں ہوں اگر ایسا نہیں ہے تو خاتوں ملازمہ کا مطالبہ کرنا چاہئے اگر انتظامیہ اس مطالبہ کو پورا کردیتی ہے تو ووٹ ڈالنا چاہئے،نہیں تو ووٹ ڈالنا اس کےلئے جائز نہ ہوگا( عزیز المفتی غیرمطبوعہ)
اور مفتی کفایت اللہ صاحبؒ فرماتے ہیں
اگر عورت شرعی حدود کی رعایت کرتے ہوئے با پردہ ہوکر جس امید وار کو اہل اور لائق سمجھے اپنا ووٹ ڈال سکتی ہے ضروری ہے کہ پولنگ بوتھ پر بقاعدہ طورپر عورتوں کےلئے پردے کا معقول انتظام ہو ،غیر محرم اجنبی مرد حضرات منتظم نہ ہوں ،اور زنانہ اسٹاف بھی ہو ،تو اس صورت میں مسلمان عورتوں کے لیے ووٹ ڈالنا جائز ہے ، اور اگرصرف غیر محرم مرد ہی ہوں تو اس صورت میں عورت کے لئے ووٹ ڈالنے کے لئےجانا جائز نہیں ہے ،بلکہ ان کو زنانہ منتظم کا مطالبہ کرنا چاہئےاگر ایسا ہوجاتا ہے تو ٹھیک ہے۔،اور اگر زنانہ منتظم نہ ہوں تو عورت کے ساتھ اس کا شوہر یا کو ئی محرم شرعی ہو تو بھی جاکر ووٹ دے سکتی ہے بشرطیکہ اجنبی مردوں کے ساتھ اختلاط نہ ہو۔ (مستفاد کفایت المفتی ج۹ص۳۵۷)
مسلمان عورتوں کا قانوں ساز اداروں کا ممبر بننا:
جیسا کہ واضح کیا جا چکا ہے کہ مسلم عورتوں کی ذمہ داریاں ان کی خانگی ذمہ داریاں ہیں امور خانہ داری سنبھالنا یہ عورتوں کی ذمہ داری ہے اور بیرونی یعنی باہری ذمہ داریاں مردوں کی ہیں اس لئے عورتوں کے لئے جائز نہیں کہ وہ مردوں کے کام میں دخیل ہوں، عورت کی آواز بھی عورت عورت ہوتی ہے اور یہ اس کی زینت ہے۔جیسا کہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے۔
قرآن وحدیث اور اسلامی فقہ میں عورتوں کے متعلق شدید تاکید آئی ہے کہ وہ اپنے گھر کی ملکہ اور رانی بن کر رہیں اور بال بچوں کی تعلیم وتربیت ،شوہر کے مال ومتاع کی حفاظت کرنے کےلئے اپنے گھروں میں قرار پکڑیں ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
شریعت مطہرہ کے یہ تمام مسائل اس بات کے متقاضی ہیں کہ جہاں نامحرم مردوں سے اختلاط اور بے پردگی کا خطرہ ہو اور عورتوں کی عفت وعصمت کی چادر تارتار ہونے کا خطرہ لاحق ہو وہاں عورتوں کے لئے جانا شرعا ممنوع ہے ،لہٰذا چوں کہ کسی بھی قانون ساز ادارہ کے ممبرکے لئے شرعی حدود وتقاضے کو پورا کرنا انتہائی دشوار امر ہے ، بے پردگی لازمی ، عورتوں کا اجنبی مردوں سے ہم کلام ہو نا ضروری ہے،کھلے چہرہ کے ساتھ آمنے سامنے بیٹھنا ،اسٹیج پر برسر عام مجمع میں خطاب کرنا بھی نا گزیر ہے ، اس لئے ان تمام حالات کے پیش نظر قرآن وحدیث کے اصول وقوانین کے مطابق اور شریعت مطہرہ کی رو سے کسی عورت کےلئے کسی قانون ساز ادارے کا ممبربننا یا اسمبلی وکونسل کا رکن بننا شرعا ممنوع اور ناجائز ہے ۔ فقط واللہ اعلم با لصواب
احقر العباد
(مفتی) عابدالرحمٰن بجنوری مظاہری
بن مفتی عزیزالرحمٰن صاحب بجنوری نور اللہ مرقدہ
مدنی دارالافتاء
مدرسہ عربیہ مدینۃ العلوم
محلہ مردھگان بجنور (یوپی)
۱۵/محرم الحرام ۱۴۳۴؁ھ
یوم الجمعہ
 
Top