• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الیکشن سے مربوط مسائل کا شرعی حل

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’جمہوریت اور اسلام ایک دوسرے کی ضد ہیں،جو کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے۔یا تو’’اللہ پرایمان‘‘اوراسکا نازل کیا ہوا قانون ہوگا یا پھر’’طاغوت پر ایمان‘‘اوراسکا کہا قانون ہوگا۔کیونکہ اللہ کی شریعت کے متصادم ہر نظام ہی طاغوت ہے،رہے وہ لوگ جو جمہوریت کو اسلامی شورائیت کا پر تو قرار دیتے ہیں تو انکی رائے کسی اعتبار کے قابل نہیں۔کیونکہ شوری کی نوبت وہاں آتی ہے جہاں شریعت سے نص موجود نہ ہو اور(شوری)کے مجاز بھی صرف دین کے عالم اور متقی اہل حل و عقد ہو سکتے ہیں،مگر جمہوریت اس کے برعکس ہے‘‘
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
محمد اقبال کیلانی حفظہ اللہ اپنی کتاب "توحید کے مسائل" میں لکھتے ہیں:
اگر ایک کافرانہ نظام ،سوشلزم کے ساتھ اسلام کا لفظ لگانے سے وہ نظام کفر ہی رہتا ہے تو پھر ایک دوسرے کافرانہ نظام جمہوریت کے ساتھ اسلامی کا لفظ لگانے سے کیسے وہ مشرف بہ اسلام ہو جائے گا؟یہ فلسفہ ہماری ناقص عقل سے بالاتر ہے ہمارے نزدیک اسلامی جمہوریت کے غیر اسلامی ہونے کے دلائل صد فیصد وہی ہیں جو اسلامی سوشلزم کے غیر اسلامی ہونے کے ہیں۔کل کلاں اگر کوئی شاطر اسلامی سرمایہ داری یا اسلامی یہودیت یا اسلامی عیسائیت وغیرہ کا فلسفہ ایجاد کر ڈالے تو کیا اسے بھی قبول کر لیا جائے گا؟آخر اسلامی تاریخ میں پہلے سے استعمال کی گئی کتاب و سنت سے ثابت شدہ اصطلاحات نظام خلافت ،نظام شورائیت سے پہلو تہی کرنے کی وجہ کیا ہے؟کیا ہمارے مسلم دانشور اور مفکرین اس نکتہ پر سنجیدگی سے غور کرنا پسند فرمائیں گے؟
جمہوریت بھی کفر کا نظام ہے
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
شیخ کے اس کلام کو’’ڈاکڑ شفیق الرحمن حفظہ اللہ‘‘نے اپنی کتاب’’جمہوریت دین جدید‘‘میں درج کیا ہے۔۔۔اس کا حوالہ کچھ یوں درج ہے،ان کی کتاب میں ’’فتوی علامہ ناصر الدین البانی‘‘
 

احمد طلال

مبتدی
شمولیت
فروری 14، 2012
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
78
پوائنٹ
0
سچ تو یہ ہے جمہوریت کچرہ دان ہے۔ اس طرزحکومت میں پارلیمنٹ کوئی بھی قانون پاس کر سکتی ہے خواہ وہ اسلامی قوانین کے خلاف ہی کیوں نہ ہو ۔ لیکن خلافت میں سپریم آئین قرآن و سنت ہے۔ اور خلافت ہی مسلمانوں کی حکمرانی کا طریقہ کار ہے جو اسلام سکھاتا ہے۔
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بھائی آپ نے کافروں کے نظام حیات کو ہی اسلام کا نظام ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جو مجھ جیسے بندے کی برداشت سے باہر ہے، میرے بھائی اسلام کا نظام حیات خلافت اس کفریہ جمہوریت کے متضاد ایک کامل نظام ہے اگر ایک حرام چیز میں کچھ فوائد ہوں تو اس سے وہ چیز حلال نہیں ہو جاتی بالکل اسی طرح اگر جمہوریت کے کچھ اصول اسلام کے اصولوں کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں تو اس سے یہ کفریہ نظام کسی قیمت پر بھی اسلامی نظام کہلانے کا حقدار نہیں بن سکتا!!!
آپ نے تو جمہوریت کے وہ اصول جو اسلام کے اصولوں کے خلاف ہیں ان کو بھی اسلامی اصول ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے جیسے نبی ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ جو امارت طلب کرئے ہم اس کو امارت نہیں دیتے اور آپ نے اس واضح اصول کو بھی غلط تاویلات سے جائز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حکومت طلب کی جاسکتی ہے، میں ان شاءاللہ آپ کی باطل تاویلات کا رَد قرآن اور صحیح احادیث سے پیش کرونگا۔
سب سے پہلے شورائی نظام سے بات شروع کرتے ہیں پھر سٹپ بائی سٹپ آگے بات کرتے جائیں گے جیسے جیسے مجھے وقت ملا میں لکھتا رہوں گا ان شاءاللہ، اللہ جانتا ہے میں آجکل بہت مصروف ہوں مگر اس اہم مسئلے بارے بتانا اور اس باطل کفریہ نظام جمہوریت کا رَد کرنا اور اپنے مسلمان بھائیوں کو بتانا سب سے اہم خیال کرتا ہوں اللہ ہم سب کو حق بات کو قبول کرنے کی توفیق دے آمین۔
آپ نے لکھا ہے کہ
اسلام کا شورائی (جمہوری)نظام:
نظام کی اہمیت اور تقدس کا یہ عالم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب مقدس قرآن مجید کی ایک مکمل سورت کا نام ہی ”سورة الشوریٰ“ ہے اور اس میں مسلمانوں کے شورائی (جمہوری) طرزِ حکمرانی کو عبادات اور اخلاق جیسے اوصافِ مومنانہ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ کسی کی رائے سے اختلاف رکھنے والے کو مکمل طور پر برداشت کرنا‘ اس کی بات پر توجہ دینا‘ یعنی حزب اختلاف (اپوزیشن) کو مطمئن کرنا اور اکثریت کے فیصلے کا پورا پورا احترام کرنا اور از روئے قران و سنت اور آثارِ صحابہ واجب ہے۔ جبکہ سورة آلِ عمران کی(۱۵۹)نمبر آیت میں مشورہ لینے کے حکم کے ساتھ عزم اور توکل کے حکم میں بھی دراصل اشارہ اسی بات کا ہے کہ اکثریت کی رائے سے جو فیصلہ طے ہو جائے اسے عزم بالجزم کے ساتھ نافذ کر دیا جائے اور نتائج کے سلسلے میں اللہ کی ذات پر توکل اور بھروسہ کیا جائے اور یہی اسلامی جمہوریت کا امتیاز اور مطلوب و مقصود بھی ہے۔
سب سے پہلے یہ کہ اسلام میں صرف ایک ہی جماعت ہوتی ہے دوسری جماعت یعنی حزب اختلاف::باغی گروہ::کا کوئی تصور نہیں ہے آپ نے جہاں اس لفظ کا استعمال کیا ہے وہ اصولاً یہاں لگتا بھی نہیں ہے کیونکہ اگر ایک بندہ دس لوگوں میں بیٹھ کر ان سے مشورہ کرتا ہے تو ہر کوئی اپنی سوچ و عقل سے ہی مشورہ ے گا اگر 3 کا ایک جیسا مشورہ ہے اور 7 کا ایک جیسا اور اس بندے کا اپنا ذاتی مشورہ ان دونوں گروہوں سے بھی مختلف ہے تو وہ کیسے ان کو باغی گروہ کہہ سکتا ہے؟؟؟
کیونکہ نبی ﷺ نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے کئی ایک مواقع پر مشورہ کیا ہے تو آپ ﷺ نے ہمیشہ اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کیا ہے بلکہ جو زیادہ مناسب سمجھتے تھے اسی کا حکم دیا کرتے تھے جیسا کہ
نبی ﷺ نے غروہ ِبدر میں ایک صحابی حباب بن منذررضی اللہ عنہ کے مشورے سے لشکر ِ مجاہدین کے پڑاؤ کی جگہ تبدیلی کی، اُحد میں جب بعض صحابہ نے مدینہ سے باہر نکل کرلڑنے کے حوالے سے شدید خواہش اورجوش وخروش کا مظاہرہ کیا تو آپ نے اپنی رائے کے برعکس باہر نکل کر لڑنے کا فیصلہ کرلیا مگربعد میں صحابہ نے محسوس کیا کہ باہر نکل کر لڑنے کی خواہش کے اظہارکے حوالے سے اُن سے زیادتی ہوئی ہے تو انہوں نے تقریباً متفقہ طور پراس سے دستبرداری کا اظہار کردیا مگراب آپﷺ نے باہر نکل کر لڑنے کا اپنا فیصلہ تبدیل نہ کیا اور فرمایا کہ
کوئی نبی جب اپنا ہتھیار پہن لے تو مناسب نہیں کہ اُسے اتارے تاآنکہ اللہ اس کے درمیان اور اس کے دشمن کے درمیان فیصلہ فرما دے ۔ احمد
شورائیت میں فیصلہ کرنے والے کے پاس لوگوں کا مشورہ آتا ہے نہ کہ فیصلہ۔ حقیقت یہ ہے کہ مشورہ تب تک ہی مشورہ ہے جب تک چھوڑا بھی جا سکتا ہو، جب وہ چھوڑا نہ جاسکتا ہواوراُسے ماننا لازم ہو تو پھر وہ مشورہ نہیں ہوتا بلکہ فیصلہ ہوتا ہے ۔
اب میں آیت بھی ساتھ پیش کرتا ہوں اور دیکھتے ہیں کہ آپ نے اتنی بڑی بات کیسے کہہ دی کہ
:::اکثریت کے فیصلے کا پورا پورا احترام کرنا اور از روئے قران و سنت اور آثارِ صحابہ واجب ہے۔ جبکہ سورة آلِ عمران کی(۱۵۹)نمبر آیت میں مشورہ لینے کے حکم کے ساتھ عزم اور توکل کے حکم میں بھی دراصل اشارہ اسی بات کا ہے کہ اکثریت کی رائے سے جو فیصلہ طے ہو جائے اسے عزم بالجزم کے ساتھ نافذ کر دیا جائے:::
وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ
اور شریک مشورہ رکھو ان کو ایسے (اہم اور اجتماعی) کاموں میں، پھر جب آپ (کسی معاملے میں) پختہ ارادہ کر لو تو اللہ پر بھروسہ رکھیں۔ آل عمران: 159
یعنی مشاورت کے بعد جس پر آپ کی رائے پختہ ہو جائے، پھر اللہ پر توکل کرکے اسے کر گزریئے۔ اس سے ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ مشاورت کے بعد بھی آخری فیصلہ حکمران کا ہی ہوگا نہ کہ ارباب مشاورت یا ان کی اکثریت کا جیسا کہ جمہوریت میں ہے۔ دوسری یہ کہ سارا اعتماد و توکل اللہ کی ذات پر ہو نہ کہ مشورہ دینے والوں کی عقل و فہم پر۔
اور آپ نے یہ فہم کہاں سے اخذ کیا ہے کہ اکثریت کا خیال رکھا جائے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
تو جب ہمارا نظام خلافت ہی ٹھہرا تو بادشاہت کو ہم کیوں تسلیم کرتے ہیں۔۔۔
حالانکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بادشاہت کو ٹھکرا دیا تھا۔۔۔
جب وفات کا وقت آیا تھا تب اللہ نے جبریل علیہ السلام کے ذریعے پیغام دیا تھا۔۔۔
کے بادشاہت اور بعد میں جنت۔۔۔ یا اپنے رب سے ملاقات۔۔۔ تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے ملاقات کو ترجیح دی تھی۔۔۔
تو ہم اس بادشاہت کو نشانے پر نہیں رکھتے؟؟؟۔۔۔ حالانکہ حدیث موجود ہے۔۔۔ جس پر ڈاکٹراسرار کی تقریر موجود ہے۔۔۔ کھاجانے والے ملکویت۔۔۔
اس پر بھی کچھ روشنی ڈالیں۔۔۔
[video=youtube;SYvFITQ6U-0]https://www.youtube.com/watch?v=SYvFITQ6U-0[/video]​
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اس طرح تو بادشہت بہی اسلامی نام لگانے سے بدل نہیں جاتی اور کفر ہی قرار پائی گی۔ اصل میں مسئلہ اتنا سادہ نہیں ھے جتنا کیلانی صاحب نہ بتایا ھے۔ جمہوریت اور سوشلزم کا تقابل غلط ھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم بھائی! آپ سے کس نے کہا کہ بادشاہت کفر ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

1. ﴿ وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَىٰ مُلْكِ سُلَيْمَانَ ... ﴾ ... سورة البقرة: 102
کہ ’’اور اس چیز کے پیچھے لگ گئے جسے شیاطین (حضرت) سلیمان کی بادشاہت میں پڑھتے تھے۔‘‘

2. ﴿ وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّـهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا ... ﴾ ... سورة البقرة: 247
کہ ’’اور انہیں ان کے نبی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے طالوت کو تمہارا بادشاه بنا دیا ہے۔‘‘

3. ﴿ فَهَزَمُوهُم بِإِذْنِ اللَّـهِ وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ وَآتَاهُ اللَّـهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاءُ .... ﴾ ... البقرة: 251
کہ ’’چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہوں نے جالوتیوں کو شکست دے دی اور (حضرت) داؤد (علیہ السلام) کے ہاتھوں جالوت قتل ہوا اور اللہ تعالیٰ نے داؤد ﷤ کو مملکت وحکمت اور جتنا کچھ چاہا علم بھی عطا فرمایا۔‘‘

4. ﴿ قُلِ اللَّـهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ‌ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌ ﴾ ... آل عمران: 26
کہ ’’آپ کہہ دیجئے اے اللہ! اے تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو جسے چاہے عزت دے اورجسے چاہے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘

5. ﴿ فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَ‌اهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُم مُّلْكًا عَظِيمًا ﴾ ... النساء: 54
کہ ’’پس ہم نے تو آل ابراہیم کو کتاب اور حکمت بھی دی اور بڑی بادشاہت بھی عطا فرمائی۔‘‘

6. ﴿ وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُ‌وا نِعْمَةَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنبِيَاءَ وَجَعَلَكُم مُّلُوكًا وَآتَاكُم مَّا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِينَ ﴾ ... المائدة: 20
کہ ’’اور یاد کرو موسیٰ ﷤ نے اپنی قوم سے کہا، اے میری قوم کے لوگو! اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا ذکر کرو کہ اس نے تم میں سے پیغمبر بنائے اور تمہیں بادشاه بنا دیا اور تمہیں وه دیا جو تمام عالم میں کسی کو نہیں دیا۔‘‘

7. ﴿ رَ‌بِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ فَاطِرَ‌ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَ‌ةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِين ﴾ ... يوسف: 101
کہ ’’اے میرے پروردگار! تو نے مجھے ملک عطا فرمایا اور تو نے مجھے خواب کی تعبیر سکھلائی۔ اے آسمان وزمین کے پیدا کرنے والے! تو ہی دنیا وآخرت میں میرا ولی (دوست) اور کارساز ہے، تو مجھے اسلام کی حالت میں فوت کر اور نیکوں میں ملا دے۔‘‘

8. ﴿ فَتَعَالَى اللَّـهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۖ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ رَ‌بُّ الْعَرْ‌شِ الْكَرِ‌يمِ ﴾ ... المؤمنون: 116
کہ ’’اللہ تعالیٰ سچا بادشاه ہے وه بڑی بلندی والا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی بزرگ عرش کا مالک ہے۔‘‘

9. ﴿ قَالَ رَ‌بِّ اغْفِرْ‌ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّن بَعْدِي ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ ﴾ ... ص: 35
کہ ’’کہا کہ اے میرے رب! مجھے بخش دے اور مجھے ایسی بادشاہت عطا فرما جو میرے سوا کسی (شخص) کے لائق نہ ہو، تو بڑا ہی دینے والا ہے۔‘‘
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن میں ایک بات جاننا چاہ رہا تھا۔۔۔ اپنی معلومات میں اضافے کی نیت سے
اقتدار بھی اللہ ہی دیتا ہے اور اللہ چاہتا ہے تو چھین لینا ہے۔۔۔
لیکن انبیاء علیہ السلام کی بادشاہت میں اور موجودہ بادشاہت میں کس حد تک مماثلت ہے؟؟؟۔۔۔
یہ جتنی بھی بادشاہت پر قرآنی آیات پیش کی گئی ہیں میں یہ جاننا چاہتا ہوں کے کیا اس سے پہلے خلافت کا تصور تھا؟؟؟۔۔۔
لیکن ہماری شریعت اور باقی انبیاء علیہ السلام کی شریعت میں تو فرق ہے ہمیں حکم ہے كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ بس۔۔۔
لیکن عمل تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی شریعت پر کرنا ہے۔۔۔ کیونکہ اگر معاملہ یہ نہ ہوتا تو حضرت عمررضی اللہ عنہ سے نبیﷺ یہ ارشاد نہ فرماتے کے اگر آج موسٰی علیہ السلام بھی دنیا میں آجائیں تو اُس وقت تک جنت میں نہیں جائیں گے جب تک میری لائی ہوئی شریعت پر عمل نہیں کرتے (واللہ اعلم)۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو خلافت کا نظام دیا تھا۔۔۔
اب اگر ہم ان آیات کو بنیاد بنا کر بادشاہت کو صحیح تسلیم کرلیں تو پھر اُن میں سے تھوڑی تھوڑی شریعت بھی ہوجائے۔۔۔ کیا خیال ہے؟؟؟۔۔۔
تو کیا ہم خود اکملت لکم دینکم کا رد نہیں رہے۔۔۔
ذرا سوچئے!
 
Top