بسم اللہ الرحمن الرحیم
بھائی آپ نے کافروں کے نظام حیات کو ہی اسلام کا نظام ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جو مجھ جیسے بندے کی برداشت سے باہر ہے، میرے بھائی اسلام کا نظام حیات خلافت اس کفریہ جمہوریت کے متضاد ایک کامل نظام ہے اگر ایک حرام چیز میں کچھ فوائد ہوں تو اس سے وہ چیز حلال نہیں ہو جاتی بالکل اسی طرح اگر جمہوریت کے کچھ اصول اسلام کے اصولوں کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں تو اس سے یہ کفریہ نظام کسی قیمت پر بھی اسلامی نظام کہلانے کا حقدار نہیں بن سکتا!!!
آپ نے تو جمہوریت کے وہ اصول جو اسلام کے اصولوں کے خلاف ہیں ان کو بھی اسلامی اصول ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے جیسے نبی ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ جو امارت طلب کرئے ہم اس کو امارت نہیں دیتے اور آپ نے اس واضح اصول کو بھی غلط تاویلات سے جائز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حکومت طلب کی جاسکتی ہے، میں ان شاءاللہ آپ کی باطل تاویلات کا رَد قرآن اور صحیح احادیث سے پیش کرونگا۔
سب سے پہلے شورائی نظام سے بات شروع کرتے ہیں پھر سٹپ بائی سٹپ آگے بات کرتے جائیں گے جیسے جیسے مجھے وقت ملا میں لکھتا رہوں گا ان شاءاللہ، اللہ جانتا ہے میں آجکل بہت مصروف ہوں مگر اس اہم مسئلے بارے بتانا اور اس باطل کفریہ نظام جمہوریت کا رَد کرنا اور اپنے مسلمان بھائیوں کو بتانا سب سے اہم خیال کرتا ہوں اللہ ہم سب کو حق بات کو قبول کرنے کی توفیق دے آمین۔
آپ نے لکھا ہے کہ
اسلام کا شورائی (جمہوری)نظام:
نظام کی اہمیت اور تقدس کا یہ عالم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب مقدس قرآن مجید کی ایک مکمل سورت کا نام ہی ”سورة الشوریٰ“ ہے اور اس میں مسلمانوں کے شورائی (جمہوری) طرزِ حکمرانی کو عبادات اور اخلاق جیسے اوصافِ مومنانہ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ کسی کی رائے سے اختلاف رکھنے والے کو مکمل طور پر برداشت کرنا‘ اس کی بات پر توجہ دینا‘ یعنی حزب اختلاف (اپوزیشن) کو مطمئن کرنا اور اکثریت کے فیصلے کا پورا پورا احترام کرنا اور از روئے قران و سنت اور آثارِ صحابہ واجب ہے۔ جبکہ سورة آلِ عمران کی(۱۵۹)نمبر آیت میں مشورہ لینے کے حکم کے ساتھ عزم اور توکل کے حکم میں بھی دراصل اشارہ اسی بات کا ہے کہ اکثریت کی رائے سے جو فیصلہ طے ہو جائے اسے عزم بالجزم کے ساتھ نافذ کر دیا جائے اور نتائج کے سلسلے میں اللہ کی ذات پر توکل اور بھروسہ کیا جائے اور یہی اسلامی جمہوریت کا امتیاز اور مطلوب و مقصود بھی ہے۔
سب سے پہلے یہ کہ اسلام میں صرف ایک ہی جماعت ہوتی ہے دوسری جماعت یعنی حزب اختلاف::باغی گروہ::کا کوئی تصور نہیں ہے آپ نے جہاں اس لفظ کا استعمال کیا ہے وہ اصولاً یہاں لگتا بھی نہیں ہے کیونکہ اگر ایک بندہ دس لوگوں میں بیٹھ کر ان سے مشورہ کرتا ہے تو ہر کوئی اپنی سوچ و عقل سے ہی مشورہ ے گا اگر 3 کا ایک جیسا مشورہ ہے اور 7 کا ایک جیسا اور اس بندے کا اپنا ذاتی مشورہ ان دونوں گروہوں سے بھی مختلف ہے تو وہ کیسے ان کو باغی گروہ کہہ سکتا ہے؟؟؟
کیونکہ نبی ﷺ نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے کئی ایک مواقع پر مشورہ کیا ہے تو آپ ﷺ نے ہمیشہ اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کیا ہے بلکہ جو زیادہ مناسب سمجھتے تھے اسی کا حکم دیا کرتے تھے جیسا کہ
نبی ﷺ نے غروہ ِبدر میں ایک صحابی حباب بن منذررضی اللہ عنہ کے مشورے سے لشکر ِ مجاہدین کے پڑاؤ کی جگہ تبدیلی کی، اُحد میں جب بعض صحابہ نے مدینہ سے باہر نکل کرلڑنے کے حوالے سے شدید خواہش اورجوش وخروش کا مظاہرہ کیا تو آپ نے اپنی رائے کے برعکس باہر نکل کر لڑنے کا فیصلہ کرلیا مگربعد میں صحابہ نے محسوس کیا کہ باہر نکل کر لڑنے کی خواہش کے اظہارکے حوالے سے اُن سے زیادتی ہوئی ہے تو انہوں نے تقریباً متفقہ طور پراس سے دستبرداری کا اظہار کردیا مگراب آپﷺ نے باہر نکل کر لڑنے کا اپنا فیصلہ تبدیل نہ کیا اور فرمایا کہ
کوئی نبی جب اپنا ہتھیار پہن لے تو مناسب نہیں کہ اُسے اتارے تاآنکہ اللہ اس کے درمیان اور اس کے دشمن کے درمیان فیصلہ فرما دے ۔ احمد
شورائیت میں فیصلہ کرنے والے کے پاس لوگوں کا مشورہ آتا ہے نہ کہ فیصلہ۔ حقیقت یہ ہے کہ مشورہ تب تک ہی مشورہ ہے جب تک چھوڑا بھی جا سکتا ہو، جب وہ چھوڑا نہ جاسکتا ہواوراُسے ماننا لازم ہو تو پھر وہ مشورہ نہیں ہوتا بلکہ فیصلہ ہوتا ہے ۔
اب میں آیت بھی ساتھ پیش کرتا ہوں اور دیکھتے ہیں کہ آپ نے اتنی بڑی بات کیسے کہہ دی کہ
:::اکثریت کے فیصلے کا پورا پورا احترام کرنا اور از روئے قران و سنت اور آثارِ صحابہ واجب ہے۔ جبکہ سورة آلِ عمران کی(۱۵۹)نمبر آیت میں مشورہ لینے کے حکم کے ساتھ عزم اور توکل کے حکم میں بھی دراصل اشارہ اسی بات کا ہے کہ اکثریت کی رائے سے جو فیصلہ طے ہو جائے اسے عزم بالجزم کے ساتھ نافذ کر دیا جائے:::
وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ
اور شریک مشورہ رکھو ان کو ایسے (اہم اور اجتماعی) کاموں میں، پھر جب آپ (کسی معاملے میں) پختہ ارادہ کر لو تو اللہ پر بھروسہ رکھیں۔ آل عمران: 159
یعنی مشاورت کے بعد جس پر آپ کی رائے پختہ ہو جائے، پھر اللہ پر توکل کرکے اسے کر گزریئے۔ اس سے ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ مشاورت کے بعد بھی آخری فیصلہ حکمران کا ہی ہوگا نہ کہ ارباب مشاورت یا ان کی اکثریت کا جیسا کہ جمہوریت میں ہے۔ دوسری یہ کہ سارا اعتماد و توکل اللہ کی ذات پر ہو نہ کہ مشورہ دینے والوں کی عقل و فہم پر۔
اور آپ نے یہ فہم کہاں سے اخذ کیا ہے کہ اکثریت کا خیال رکھا جائے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟