• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابن تیمیہؒ نے تاتاریوں کی تکفیر اور ان کے خلاف قتال کیوں کیا؟

ام کشف

رکن
شمولیت
فروری 09، 2013
پیغامات
124
ری ایکشن اسکور
386
پوائنٹ
53
2- اگر کسی شخص کا تعلق کسی ایسے گروہ سے کہ ان کے لٹریچر میں کفریہ شرکیہ عقائد موجود ہیں تو اس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ وہ شخص بھی اسی کفریہ و شرکیہ عقائد کا حامل ہے۔ مثلا ہم جانتے ہیں دیوبندی اور بریلوی حضرات کی کتابیں اور تحریریں کفریہ و شرکیہ عقائد پر مبنی ہیں مگر ہم ہر ایک دیوبندی اور بریولوی پر خود قضاء کے عہدہ کو ہاتھ میں لیکر دائرہ اسلام سے خارج کرنے کا حق نہیں رکھتے۔
یہ کہاں لکھا ہے
 
شمولیت
جنوری 19، 2013
پیغامات
301
ری ایکشن اسکور
571
پوائنٹ
86
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
محترم علی ولی صاحب:
آپ کی تحریر سے آپ کے علمی ذوق کا بخوبی اندازہ ہوا۔ بڑی خوشی ہوئی آپ نے بہت ہی محتاط انداز میں اپنے خیالات کا اظہارفرمایا۔ اگر آپ میری آخری پوسٹ سے متفق نہیں ہیں تو کوئی بات نہیں۔ کسی کی کسی بھی بات سے متفق ہونا ضروری نہیں خواہ آپ ہوں یا کوئی اور۔
بہرحال وقت کے ساتھ ساتھ آپ کو تجربہ ہوتا رہے گا۔ ان شاء اللہ العزیز
لگتا ہے جناب نے تکفیر کی تجربہ گاہ فورم کو بنایا ہوا ہے مہربانی کرکے اگر یہی تجربہ آپ جی ایچ کیو اور پارلیمنٹ کے سامنے کر لیں تو بات بن جائے ۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
حافظ سعید صاحب نے شام کے جہاد کو صحیح کہا ہے
موجودہ دور میں جماعۃ الدعوہ پر یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ ہم شام میں رافضیوں کے خلاف ہونے والی اہل السنہ کی لڑائی کو فساد کہتے ہیں اور اس لڑائی کو حرام کہتے ہیں، جو کہ سراسر بے بنیاد اور من گھڑت لوگوں کے منہ کی باتیں ہیں۔ ہم شام کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں پہلے دن سے اپنا موقف واضح اور دوٹوک رکھتے ہیں،اور آج بھی اس کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ اور شعیوں کے بارے بھی ہم وہی عقیدہ رکھتے ہیں جو تمام اہل السنہ علماء کا ہے ، جو کہ ہم گاہے گاہے آپ کے سامنے بیان کرتے رہیں گے ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر جماعت الدعوۃ کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والے حضرات خوف خدا رکھتے ہوئے اسلام اور اہل اسلام کے لیے امن کا پیغام ثابت ہوں-


 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اگر علماء علماء سو ہو جائیں بقول آپ کے۔تو یہ فتوی فیکٹری چلانے کا آپ کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔جس کام کے آپ مکلف ہی نہیں اس میں ٹانگ مت پھنسائیں۔۔۔جزاک اللہ
آپ کی بات سے تو یہ مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اگر مرزایوں کو حکومت یا علماء کافر قرار دیں تو ہم اور آپ ان کو کافر مانیں ورنہ عوام کو یہ اختیار نہیں کہ کہ وہ خود سے مرزایوں کو کافر قرار دے سکیں ؟؟؟؟؟؟؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔

میں نے ساری گفتگو پڑھی ، جو حقیقتا ، محمد آصف مغل اور القول السدید کے مابین تھی، درمیان میں ایک دو فضول ٹانگیں اڑانے والے بھی ٹپکے ، مگر بحث چلتی رہی ، اور میں شکرگزار ہوں دونوں اطراف کا جنہوں نے اس سخت بحث میں کچھ نہ کچھ آداب اخلاقیات کا خیال ملحوظ رکھا۔

مجھے اس بحث سے جو بات سمجھ آئی وہ درج ذیل ہیں:

1- الشیخ اسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے جس بنیاد پر تاتاریوں کی تکفیر اور انسے قتال کیا ، ان میں سے آج کوئی بھی ظاہرہ طور پر ان خواص کا حامل نہیں ، اگر کسی کے باطن میں ایسا کچھ ہے تو ہمیں اس پر کلام کا اختیار نہیں۔

2- اگر کسی شخص کا تعلق کسی ایسے گروہ سے کہ ان کے لٹریچر میں کفریہ شرکیہ عقائد موجود ہیں تو اس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ وہ شخص بھی اسی کفریہ و شرکیہ عقائد کا حامل ہے۔
مثلا ہم جانتے ہیں دیوبندی اور بریلوی حضرات کی کتابیں اور تحریریں کفریہ و شرکیہ عقائد پر مبنی ہیں مگر ہم ہر ایک دیوبندی اور بریولوی پر خود قضاء کے عہدہ کو ہاتھ میں لیکر دائرہ اسلام سے خارج کرنے کا حق نہیں رکھتے۔

3- اور اگر کسی مسلمان سے کسی کفریہ وشرکیہ عمل کا ارتکاب ہوجائے تو اس پر اس عمل پر حکم لگے نہ کہ اس فاعل شخص پر، کیونکہ کسی خاص فاعل پر حکم لگانا "خالہ جی دا ویڑہ نہیں"۔

4- کچھ لوگ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ انکی زندگی کا مقصد ہی صرف لوگوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنا تھا، اور وہ ہر وقت اس کام کے لئے مظطرب رہتے تھے کہ مجھے موقع ملے اور میں مزید کچھ مسلمانوں کو مخرج عن الملۃ قرار دوں، اور آج کے تکفیری حضرات ہی امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایسے چہرہ کو پیش کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
ورنہ موصوف امام صاحب اس مسئلے پر جتنے محتاط پا گئے ہیں تو اس کو دیکھ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ یاد تازہ ہوجاتی ہے۔۔
کہ ایک ایسا بادشاہ جو سرعام کفر کر رہا تھا، اور پھر اس کفر کو بزور بازو نافذ کر رہا تھا، اور امام احمد بن حنبل جیسا عالم انکو سمجھا رہا تھا ، مگر پھر بھی وہ باز نہیں آرہا تھا ، اس الٹا اسنے امام اہل السنہ رحمہ اللہ اور دوسرے اہل السنہ کو ظلم کی چکی میں پیسا، قتل کیا ، قید کیا ۔۔۔
اس کے باوجود امام اہل السنہ جیسا عالم بھی اس کی تکفیر سے "جہالت" کی وجہ سے توقف کیا ہوا تھا، اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔۔ جب سمجھانے والا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ مگر کفریہ عقیدہ کا مرتکب حکمران سمجھے تو امام اہل السنہ اس پر جہالت کا اندیشہ خیال کر کے کفر و ارتداد کا حکم نہ لگائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔



تو آج کے حکمران کو کس ایسے عالم نے دربار میں جا کر ، ون ٹو ون بیٹھ کر سمجھا لیا ہے کہ وہ یہ سکے کہ حجت تمام ہوگئی ہے اور اب میں اسے کافر کہنے لگا ہوں؟؟؟

کوئی بھی نہیں ، کوئی بھی نہیں ۔۔۔

تو پھر فیس بک اور فورمز پر بیٹھ کر حجتیں تمام کرنے والے اور قضاء کا کام کرنے والوں کو اس خطرناک کام سے باز رہنا چاہیئے۔

آخر میں ایک عرض :


ان أریدا لا الاصلاح ما استطعت۔​
میرا مقصود صرف اور اصلاح ہے جس قدر میں اس کی استطاعت رکھتا ہوں۔​
یا اللہ!مجھے اور ہم سب کو صراط مستقیم دکھا اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرما۔آمین !​
وما توفیقی الا با للہ
مرزایوں کے متعلق آپ کا کیا عقیدہ ہے کیا آپ نے ان کی کتابیں پڑھیں ؟؟؟ اگر حکومت وقت یا علما ء ان کے متعلق کفر کا فتویٰ نا لگاتے تو آپ ان کے بارے میں کیا راے رکھتے؟؟ کیا اس بات کا انتظار کرتے کہ علماء ان کو کافر قرار دیں تم ہم ان کو کافر مانیں گے ؟؟؟

اگر حکمران صریح کفر کے مرکتب ہوں جیسے یہود و نصاریٰ کو دعوت دیں کہ مسلمانوں پر بمباری کریں بے گناہوں کا خوں بہائیں - تو کیا پھر بھی ہمیں علماء کے فتوے انتظار کرنا پڑے گا ؟؟؟ کہ اگر وہ حکمرانوں کو کافر قرار دیں گے تو مانیں گے ورنہ نہیں ؟؟؟ جب کہ عوام اس قابل نا ہو کہ حکمرا نوں کو اس کفر سے باز رکھے ؟؟

جواب کا انتظار رہے گا
 

علی ولی

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
81
پوائنٹ
21
محمد جواد بھائی ، اللہ آپ سے راضی ہو ۔

مجھے حیرت ہے کہ آپ کیوں دانستہ طور پر اس حقیقت کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ قادیانی کے مرتد و کافر یا زندیق ہونے پر علماء اہل السنہ کا اتفاق ہوچکا ہے اور ان پر تکفیر المعین کی تمام شروط و موانع برسر عدالت پورے اور زائل کیئے جاچکے ہیں۔ اور اہل علم اور اہل قضاء انکے ارتداد کی تصدیق کر چکے لہذا انکے مرتد اور زندیق ہونے میں کسی بھی مکتبہ فکر کے کسی بھی پیروکار کو کوئی شک نہیں الحمداللہ ، ا
 

علی ولی

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
81
پوائنٹ
21
محترم آپ ایک ایسے گروہ کی تکفیر یعنی قادیانی کو مسلم حکمرانوں اور اداروں کی تکفیر سے خلط ملط کر رہے ہیں۔ آپ میری طرف سے جس کو مرضی قادیانی کی طرح مرتد قرار دے دیں ، بھلا مجھے کیا اعتراض ہوگا، لیکن آپ قادیانی جیسی تکفیر کے لئے وہی راہ اختیار کرنا لازم ہے، جس سے گزر کر قادیانی مرتد بنے۔ تب ا
جو کہ میری ناقص معلومات کے مطابق کہیں بھی پورا نہیں کیا گیا۔

اور رہا آپ کا دوسرا سوال ، تو معذرت کے ساتھ ، اس میں کچھ تفصیل ہے ، میں استفادہ عام کے لئے پیش کیٗے دیتا ہوں۔ ان شاء اللہ

اہل السنۃ کے ہاں مسئلہ تکفیر میں اصول و ضوابط کا التزام اور اس مسئلہ میں کلام کے اہل لوگوں کی وضاحت اچھی طرح کر دی گئی ہے ۔
مگر آج کل تکفیری لوگ ( جو لوگوں کی بلا دلیل وغیر منصفانہ تکفیر کر تے ہیں ) دعویٰ کرتے ہیں کہ کوئی بھی معیّن تکفیر کر سکتا ہے ( یعنی کسی معیّن مسلمان کو کافر قرار دینا) اور تکفیر کرنے کے بعد اس کو معاشرہ میں واضح کرنا اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں اور اس چیز کا انکار کرتے ہیں کہ تکفیر معیّن صرف جید علماءاور فقہاء کا کام ہے ۔
تکفیری یہ کیوں کہتے ہیں ؟اس لیے کہ جن کی وہ تکفیر کر رہے ہوتے ہیں مثلا معین حکمران وغیرہ علماء اہل السنۃ ( جن سے خود تکفیری حضرا ت عقیدہ ، تفسیر اور فقہ لیتے ہیں ) وہ ان حکمرانوں کی معین تکفیر نہیں کر رہے ہوتے ۔
یہاں سے یہ مسئلہ تکفیر فتنہ کی شکل اختیار کرتا ہے کہ اگر آجکل علماء اہل السنۃ حکمرانوں کی تکفیر معین نہیں کرتے تو یہ تکفیر ی حضرات اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں اب یہ کام ان پر اور ہر عام آدمی پر لازم ہے کہ چاہے وہ تکفیر معین کے اصول وضوابط جانے یا نہ جانے وہ اس کا مکلف ہو یا نہ ہو ( یقیناً مکلف تو اہل علم ہی ہیں ) وہ لوگوں کو کافر قرار دے گا خاص طور پر حکمرانوں کو معین کر کے ،لہذا بغیر علم اور آگاہی کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنا انکا پسندیدہ مشغلہ ٹھہرا !!
کسی خاص شخص کی تکفیر کو ن کرے گا اور کن شروط و قیود پر کرے گا ؟ ایک قابل و ضاحت مسئلہ ہے مگر تکفیری حضرات اس مسئلہ کو کبھی واضح نہیں کرتے مقصد صاف ہے تاکہ وہ اس پر خطر کام کو اس طرح مسخ کریں کہ لوگ انہیں حق پر اور اہل السنہ کے علماءکو حقیر و گمراہ جانیں ۔
یہ عام عادت ہے کہ تکفیری حضرات لوگوں کی نظر میں اہل علم کی اتنی تحقیر کر دیتے ہیں کہ لوگ اس مسئلہ میں الجھ جاتے ہیں ۔
وہ لوگ جن کی تکفیر کی جا سکتی ہے وہ مختلف ہیں اسی طرح جو تکفیر کرنے کا حق رکھتے ہیں وہ بھی مختلف ہیں ۔یہ بات ہم آنے والی سطورمیں سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں واضح کریں گے انشا ءاللہ ۔
تکفیر کے لحاظ سے :
1۔ کچھ لوگ وہ ہیں کہ جن کی تکفیر کا حق صرف اور صرف علماء کو ہے اور کسی عامی کو یادینی علم و حکمت سے کورے شخص کو نہیں ۔
اور کچھ لوگ وہ ہیں جن کی ہر مسلمان تکفیر کر سکتا ہے بلکہ ہر مسلمان پر انکی تکفیر کرنا لازم ہے ۔

آئیے ہم اس مسئلہ کو تفصیلاً واضح کرتے ہیں ۔

تکفیر کے لحاظ سے لوگ دو گروہوں میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں
اول: اصل کافر
دوم : اسلام سے ارتدار اختیار کرنے والا




اول : اصل کافر:۔
انکو بھی دو گرو ہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔

(۱)۔ ایسے لوگوں کی تکفیر جن کا کوئی مذہب نہ ہو :
ان کی مثال دہریے لوگ ہیں ( جو اللہ کے وجود اور اس کے خالق و مالک ہونے کےہی انکاری ہیں ) یا وہ لوگ (جو اللہ کو تو مانتے ہیں یعنی وجود کے قائل ہیں مگر دین بشمول اسلام کے نہیں )تمام مسلمان ( عام آدمی ، داعی ، طلباء اور علماء اکرام ) ایسے لوگوں کی تکفیر کر سکتے ہیں بلکہ کرنی واجب ہے اور اس گروہ کے ہر شخص کی بھی، جو ان جیسا عقیدہ اور اعمال رکھتا ہے کیونکہ یہ عقیدہ اور اعمال کفر اکبر ہیں ( ایسا کفر جو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے )
اللہ اور اس کے محبوب نبی محمد ﷺ نے ان لوگوں کی تکفیر فرمائی ہے اور اس پر علماء کا اجماع بھی ہے کہ یہ گروہ کافر ہیں ۔
الشیخ عبید الجبری فرماتے ہیں :۔
'' یہ کفار ہیں کیونکہ انہوں نے اللہ کا کلمہ قبول ہی نہیں کیا ''
مزید فرمایا :۔
'' ہر مسلمان کو جان لینا چاہئے کہ قرآن و حدیث اور علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ دین صرف دو قسم کے ہیں ایک وہ جو اللہ کا کلمہ قبول کرتا ہے اور یہ مسلمان ہیں اور دوسرا وہ جو اللہ کے کلمہ کا انکار کرتا ہے یہ کفار ہیں ۔''
(ب) ایسے شخص کی تکفیر کرنا جو اسلام کے علاوہ دوسرے ادیان مثلا عیسائیت ،بدھ مت ،سکھ ازم، اور یہودیت وغیرہ کو مانتے ہیں ،تمام مسلمان (عام آدمی ،داعی ، طلباءاور علماء اکرام )ان کی تکفیر کر سکتے ہیں بلکہ کرنی چاہئے ہراس شخص کی جو ان گروہوں میں سے ہے کیونکہ ان کے عقائد اور اعمال کفر اکبر ہیں اور ان کے کفر کا بیان قرآن و حدیث اور اجماع اہل علم سے واضح ہے کہ یہ لوگ محمد ﷺ اور اسلام پر ایمان نہیں لائے ۔
الشیخ عبیدالجبری مزید فرماتے ہیں :
وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی دعوت ( دعوت آخرالزمان محمدﷺ) سے اعراض کیا اور اسلام میں داخل نہیں ہوئے یعنی یہودی عیسائی اور ہندو وغیرہ ۔۔۔۔ یہ کفار ہیں اس پر قرآن و حدیث اور علماء کا اجماع دلیل ہے۔ حتی کہ ایسے لوگوں کی تکفیر نہ کرنے والوں کو تنبیہ کرتے ہوئے امام الدعوۃ محمد بن عبدالوہاب ؒ اپنے دس نواقض اسلام میں ان لوگوں کے بارے جو اسلام کے علاوہ دوسرے ادیان کے پیروکار ہیں فرماتے ہیں تیسرا ناقض یہ ہے :
''جو کسی مشرک و کافر کو کافر یامشرک نہ مانے یا وہ ان کے کفر میں شک رکھے یا انکے عقائد و نظریات کو درست تسلیم کر ے ، تو اس شخص نے کفر کیا ۔''
(مولفات الشیخ محمد بن عبدالوھابؒ 212,213)
اب ہم دوسری قسم کی طرف آتے ہیں
دوم: دین سے ارتداراختیار کرنے والے :۔
کسی معیّن فرد کی تکفیر یامسلمانوں میں سے معین مسلم حکمران کی تکفیرکرنا:
یہ کام صرف اور صرف متبحر فی العلم اور دین میں راسخ العلم کا حق ہے داعی یا دینی طالب علم کے لئے جائز نہیں بلکہ تمام طبقہ علماء بھی اس کے فیصلے کے مکلف نہیں ہیں ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان ،ارکان اسلام اور ارکان ایمان کو تسلیم کرنے کا دعوے دار ہوتا ہے۔
قرآن و سنت میں ایسے شخص کی معین تکفیر نہیں کی گئی جیسا کہ گزشتہ بیان کردہ دو گروہوں کی گئی ہے ۔ اس کی وجہ ان کا اسلام کا اظہار اورمسلمان ہونے کا دعوی کرنا ہے ۔
لہذا ایسے شخص کی تکفیر صرف تب ہی ممکن ہے جب اس کے فعل کا کفر یہ یا شرکیہ ہونا قرآن و حدیث ، فہم سلف سے ثابت ہو اور تکفیر معین کی تمام شروط پوری ہوں اور موانع ( کفر سے بچا نے والے اسباب) ختم ہو جائیں ان سب اصول و ضوابط کا جائزہ لینے کے بعد صرف اور صرف اہل علم کو حق ہے کہ وہ کسی کلمہ گو کی تکفیر معین کریں کیونکہ وہ اس کے مکلف ہیں نہ کہ ہماری گلیوں ، محلوں اور شہروں کے ''مفتیان''!
یعنی جس مسلمان کو علماء و اہل قضاء متفقہ طور پر مرتد قرار نہ دے چکے ہوں ، انکی تکفیر ہر عامی نہیں کرسکتا ، ہاں البتہ جن کی تکفیر علماء اور اہل قضہ کر چکے ہوں ، انہیں ب مسلمان کافر و مرتد قرار و پکار سکتے ہیں ، مثلا قادیانی وغیرہ
یہ کام محض اہل علم کا ہے ۔ ہم اس میں چھیڑ چھاڑ کے اہل نہیں ! یہ میدان ہمارا ( عوام الناس اور عام اہل علم کا ) نہیں ہے ۔
شیخ السلام امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں :
'' کسی شخص کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ کسی شخص کو مسلمانوں میں سے کافر قرار دے ۔۔۔جب تک ثبوت پایہ تکمیل تک نہ پہنچ جائیں ''
( مجموع الفتاوٰی 12/466)
مزید فرمایا :
''یقینا ًکسی شخص کی تکفیر ( معین ) شروط اور موانع رکھتی ہے ۔ ''
( مجموعۃ الفتاوی 12/487 -488)
شیخ محمد عمر بذمل ،امام ابن تیمیہ ؒ کی اوپر بیان کردہ تکفیر معیّن کے بارے دونوں بیانات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :۔
کوئی شخص معین (مسلمانوں میں سے ) علماءاہل السنہ کے نزدیک کافر نہیں بنتا ماسوائے مندرجہ ذیل وجوبات کے مکمل ہونے پر :
۱۔ ثبوت کا پایہ تکمیل کو پہنچنا ( قرآن و سنت اور اجماع سلف صالحین سے )
۲۔ شروط کی مکمل موجود گی
۱۔(علم) صحیح حصول علم
۲۔(عمداً) کفر یہ فعل کو جان بوجھ کر کرنا
۳۔موانع زائل ہونے پر جو کہ مندرجہ ذیل چار ہیں :
۱۔ جاہل نہ ہو
۲۔ کفر یہ کام پر مجبورنہ کیا گیا ہو
۳۔غیرارادی یا غلطی سے نہ چاہتے ہوئے کوئی کا م سرزد ہو جانا
۴۔متاؤل یعنی کسی تاویل کی بنیاد پر کفر یہ کام کر رہا ہے ۔
لہذا کسی معین شخص کو اس وقت تک کا فر قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک اوپر بیان کردہ معاملات سے اس کو توثیق نہ ہو جائے ،جو کہ تکفیر مطلق کے بر عکس ہے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں :
یقیناً تکفیر مطلق کی وجہ سے تکفیر معین لازم نہیں آتی حتی کہ ( ثبوت ایک خاص یا معین فرد میں پایہ تکمیل کو پہنچ جائے ) شروط ( تکفیر معین) پوری ہوں جائیں اور موانع ختم ہو جائیں ۔
(مجموع الفتاوٰی 12/487 -88)
یعنی ہم گزشتہ حصے میں یہ جاننے میں کامیاب رہے ہیں کہ کن لازمی اصولوں پر تکفیر کی جاتی ہے اوپر بیان کردہ صورتیں یہ تھیں :
۱۔ ثبوت کی موجودگی
۲۔ تکفیر معین کی شروط
۳۔ موانع تکفیر معین
یہ صرف کسی مسلمان کی تکفیر کے لیے ہے نہ کہ کسی کافر معین کے لیے کیونکہ وہ تو منکر اسلام ہیں۔ قاضی عیاض ؒفرماتے ہیں :
ہم ( تمام مسلمان ) اس شخص کو کا فر سمجھتے ہیں جو مسلمانوں کے دین کے علاوہ دوسرے ادیان کے پیروکار ہیں ۔
(الشفاء تعریفہ حقوق المصطفی 2/1671)
کیونکہ کسی معین مسلمان کو کافر قرار دینے کے لیے کچھ صورتیں درکار ہیں ( مثلا کفریہ عمل کاہونا شروط کا پایا جانا ،موانع زائل ہونا ) لہذا عہدہ تکفیر صرف اور صرف ان لوگوں کے لیے خاص ہے جو اسلام کا بھر پور علم رکھتے ہوں، علوم قرآن و تفاسیر کے اصولوں ، حدیث نبوی کے علوم اور استدلال فقہ پر دسترس رکھتے ہوں یہ وہ لوگ ہیں جو جانتے ہیں کہ شروط پوری ہیں یا موانع زائل ہیں یا یہ کہ کس کا کام کفریہ ہے اور کس کا نہیں ۔بجائےیہ کہ گلی محلوں کے مفتیان جو کہ ان علوم اور قواعد سے کورے ہیں اور ایمان و کفر پر فیصلے کرتے پھر یں ۔۔۔۔!
اس بنیاد پر الشیخ صالح الفوزان ﷾فرماتے ہیں :۔
'' کسی شخص پر ارتداد کا حکم لگانا یا کسی شخص کو دین سے خارج قرار دینا صرف اہل علم کو زیب دیتا ہے اور وہ اہل علم جو راسخ العلم ہیں اور وہ شرعی قضا ء کے عہدے پر ہو ں یا مفتیان کرام ہو ں ۔یہ بالکل دوسرے معاملات کی طرح ہی ہے ۔اور ہر کسی شخص کو ،طالب علم کو اور انکو جو علم کے لیے مقرر ہیں اختیار نہیں لیکن جو ان میں نا سمجھ ہیں۔
یہ ان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی کے ارتداد کے بارے میں فیصلہ کریں چونکہ اس سے فساد پیدا ہو گا اور بعض اوقات ایسا ہو گا کہ کسی مسلمان کو کافر قرار دے دیں مگر وہ ( حقیقت میں ) نہ ہو لہذا کسی مسلمان کی تکفیر کرنا اگرچہ اس میں نواقص میں سے کوئی پایا بھی جاتا ہو تو یہ ایک انتہائی خطرناک کام ہے''
'' جس نے بھی اپنے بھائی کو کہا اے کافر، اے فاسق اور وہ نہ ہوتو الفاظ اسی کہنے والے پر لوٹ آتے ہیں ۔''
لہذا وہ لوگ جو کسی شخص کے ارتداد کا فیصلہ کریں گے یا تو وہ قاضی ہوں گے جو فتوی دینے کے اہل بھی ہیں یا وہ جو ان کےفیصلوں کو نافذ کرتے ہیں یعنی مسلمانوں کے حکمران ہیں اس کے علاوہ جو بھی ہے وہ محض بوکھلا پن ہے ''
( مراجعان فی فقد الوافقی )
شیخ حفظہ اللہ اس بارے میں مزید فرماتے ہیں :
'' یہ جہلاء پر لازم ہے کہ وہ خاموش رہیں ،زبان مت کھولیں اور اللہ سے ڈریں جو غالب اور جلال والاہے اور علم کے بغیر کلام مت کریں۔ ''
اللہ فرماتا ہے:
[[وَاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ]]
''اور یہ کہ تم اللہ پر وہ بات کہو جو تم نہیں جانتے ۔ ''
( الاعراف : 33 )
پس کسی جاہل شخص کے لیےجائز نہیں کہ وہ علمی معاملات پر کلام کرے ،خاص طور پر ایسے معاملات جن کا تعلق ایمان وکفر ، جہاد وقتال اور الولا ءوالبراء سے ہوجہاں تک اہل علم کی عزت و حرمت پر طعنہ زنی اور غیبت کا تعلق ہے تو یہ غیبت کی شدید ترین قسم ہے اوریہ کوئی جائزصورت نہیں ۔
اور جہاں تک موجود ہ حالات ہیں جو گز ر گئے ہیں یا گزر رہے ہیں تو یہ لازم ہے کہ اس کے بارے میں مکمل تصدیق اور باہمی مشورے کے بغیر اہل علم کی خدمت میں پیش کریں تاکہ وہ جائزہ لیں اور اس کے بارے میں شرعی فتویٰ جاری کریں نہ کہ خود مدعی ، خود گواہ ،خود قاضی اور خود ہی جلاد ۔۔۔۔۔!
جہاں تک عام مسلمانوں کا اور طالب علموں کا تعلق ہے تو گزارش ہے کہ یہ انکا مسئلہ نہیں ۔۔ خاص طور پر کفر و ایمان کے فیصلے کرنا ۔
وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۭوَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا 83؀
اللہ رب العزت کا فرمان ہے اور جب ان کے پاس امن یا خوف کا کوئی معاملہ آتا ہے تو اسے مشہور کر دیتے ہیں اور اگر وہ اسے رسول کی طرف اور اپنے حکم دینے والوں کی طرف لوٹا تے تو وہ لوگ اسے ضرور جان لیتے جو ان میں سے اس کا اصل مطلب نکالتے ہیں ۔
( سورہ النساء : 83)
کہیں ایسے تمام لوگ اس سلسلے میں مغالطہ کھا کر خود ہی اس حکم کے مصداق ٹھہر جائیں گے جو وہ کسی پر لگا رہے تھے'' ۔
لہذا ایسے مسئلے میں زبان پر قابورکھنا لازم ہے ۔ اللہ اپنی پناہ میں رکھے !
یہ بہت ہی خطرناک مسئلہ ہے تو اس میں اللہ سے ڈرنا چاہیے زبان کھولنے سے بچنا چایئے ماسوائے انکے جو ان مسائل میں اختیار دیے گے یا ذمہ داری دیے گے ہیں !
آخر میں اس مضمون سے جو نتیجہ اخذہوا وہ مندرجہ ذیل ہے ۔
۱۔ ایسے لوگوں کی تکفیر کرنا جولا دین ہیں یعنی دہرئیے ،ہر مسلمان پر بلا تفریق ،مطلق یا معین دونوں طرح لازم ہے ۔
۲۔ ایسے لوگوں کی تکفیر کرنا جو دوسرے ادیان کے پیروکارہیں عیسائی ، یہودی ،ہندو وغیرہ ہر مسلمان پر بلا تفریق مطلق اور معین دونوں طرح لازم آتا ہے ۔
۳۔ کسی مسلمان کی تکفیر کرنا :
صرف اور صرف راسخ العلم ، اہل قضاء لوگ ہی اس عہدہ پر فائز ہیں ان کے علاوہ کسی کے لیے یہ کام جائز نہیں چاہے مطلق ہو یا معین !
اک شبہ :
تکفیر ی حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح وہ ایسے شخص کو جو لا دین و باطل ادیان پر ہو اسکی تکفیر کر سکتے ہیں ایسے ہی انکے لیے یہ بھی لازم ہے کہ وہ اگر کسی مسلمان کو کفریہ کام کرتا دیکھیں تو اس کی بھی تکفیر کرنا اپنا حق و فرض سمجھیں ۔
لیکن یہ کوئی سادہ وجہ نہیں ، وہ لوگ جن کا کوئی مذہب نہیں یا جو دوسرے ادیان کے پیرو کار ہیں اور اسلام اور ایمان کی جزو یات کے منکرہیں ان کی تکفیر ہر مسلمان پر بلا تفریق فرض و لازم ہے اس کے لیے شائد کثیر علم بھی درکار نہیں ہے ۔حتی کے ایک نو مسلم خود بخود یہ سمجھ جاتا ہے کہ پہلے وہ کافر کیوں تھا؟
جبکہ دوسری طرف کسی مسلمان شخص کو کافر قرار دینا چاہے عام مسلمان ہو یا حکمران یہ راسخ العلم افراد کا کام ہے اس وجہ سے کہ یہ ایک بہت ہی زیادہ احتیاط کا کام ہے کیونکہ وہ شخص اسلام کے اراکین اور ایمان کی جزو یات پر ایمان رکھنے کا دعویدار ہے اور خود کو مسلمان گردانتاہے ۔
لہذا جو اہل علم اس کام کے مکلف ہیں ان کے لیے لازمی ہے کہ وہ مندرجہ ذیل چیزوں کا راسخ علم رکھتے ہوں ۔
۱۔ جانتے ہوں کہ کفر کی کتنی اقسام ہیں ۔
۲۔ تکفیر کے قواعد و ضوابط سے مکمل آشنا ہو ں یعنی (عمل کے کفریہ ہونے یا نہ ہونے ،ثبوت کی صحت ، شروط و موانع کے بارے راسخ العلم ہوں )
۳۔ وہ علوم قرآن و تفاسیر ، شرو حات احادیث و استدلال ، علم حدیث ، فقہ اور عربی لغت سمیت دوسرے دینی علوم پر بھرپور دسترس رکھتے ہوں اور بالخصوص وہ اس تکفیر مطلق اور معین کے بارے پورا علم رکھتے ہوں ۔
عام مسلمان کو اس مسئلہ میں زبان کھولنے سے بچناا چاہئے اور اس کام میں الجھنے کی بجائے فائدہ مند علم اور نیک اعمال میں رغبت رکھنی چاہیے یہ اس کی درست سمت میں رہنمائی کرنے والی چیزیں ہیں اور اس مسئلہ کو انہی پر چھوڑ دیں جو اس کے ذمہ دار ہیں ۔

میں امید کرتا ہوں اب ٓپکی پریشانی ختم ہوجائے گی ان شاء اللہ
 

ام کشف

رکن
شمولیت
فروری 09، 2013
پیغامات
124
ری ایکشن اسکور
386
پوائنٹ
53
محمد جواد بھائی ، اللہ آپ سے راضی ہو ۔

مجھے حیرت ہے کہ آپ کیوں دانستہ طور پر اس حقیقت کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ قادیانی کے مرتد و کافر یا زندیق ہونے پر علماء اہل السنہ کا اتفاق ہوچکا ہے اور ان پر تکفیر المعین کی تمام شروط و موانع برسر عدالت پورے اور زائل کیئے جاچکے ہیں۔ اور اہل علم اور اہل قضاء انکے ارتداد کی تصدیق کر چکے لہذا انکے مرتد اور زندیق ہونے میں کسی بھی مکتبہ فکر کے کسی بھی پیروکار کو کوئی شک نہیں الحمداللہ ، ا
تو ہم علماء کے انتظار میں کیوں ہیں جب عدالت نے تمام شروط زائل کردیئے ہیں عجیب بات کی آپ نے یا دوسرے لفظوں میں اچھی ڈنڈی ماری یعنی عدالت میں بیٹھے جج صاحبان وہ کس بنیاد پر فیصلہ زائل کررہے ہیں بات کو آسان لفظوں میں کیجئے یعنی وہ کس دارلعلوم کے فارغ ہیں جنہوں نے تکفیر المعین کی تمام شروط وموانع دیکھنے کے بعد قادیانی کو کافر قرار دیا
 

علی ولی

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
81
پوائنٹ
21
تو ہم علماء کے انتظار میں کیوں ہیں جب عدالت نے تمام شروط زائل کردیئے ہیں عجیب بات کی آپ نے یا دوسرے لفظوں میں اچھی ڈنڈی ماری یعنی عدالت میں بیٹھے جج صاحبان وہ کس بنیاد پر فیصلہ زائل کررہے ہیں بات کو آسان لفظوں میں کیجئے یعنی وہ کس دارلعلوم کے فارغ ہیں جنہوں نے تکفیر المعین کی تمام شروط وموانع دیکھنے کے بعد قادیانی کو کافر قرار دیا
ڈنڈی تکفیری حضرات مارتے ہیں ضوابط تکفیر میں ، میں نہیں محترمہ!

محترمہ یہاں ججوں کی قابلیت کا فیصلہ نہیں کیا جا رہا ، بلکہ انکے کردار کی بات کی جا رہی ہے۔

یعنی ریاستی ادارے کا کیا کردار ہونا چاہیٗے اس مسئلے میں اور ہاں ایک بات واضح رہے اگر علماء اہل السنہ کی جماعت کسی گروہ یا شخص کے کفر متفق ہوجائے اور متفقہ فتوی جاری کر دیں تو وہ گروہ یا شخص مرتد و کافر قرار دیا جائے گا اور بلایا جائے گا۔
باقی رہی پاکستانی عدالتوں کی بات ، تو وہ دونوں طرف کے دلائل اور براہین سن کر اس علماء کےفتوی کی توثیق یا تردیدکرنے کی مجاز ہیں۔
یعنی جن افراد کا یہ عہدہ ہے ، وہ بلا شبہ اہل علم اور اہل قضاء ہیں۔ اور محترمہ جب قادیانیوں کا کیس چلا تھا تو عدالت کے ججوں نے تکفیر مسلم کا خوب مطالعہ کر کے ہی کیس چلایا تھا اور علماء کے متفقہ فیصلے کی تائید میں حکم جاری کیا تھا۔ قادیانیوں کے خلاف عدالتی کاروائی کی ساری روداد کتابی شکل میں موجود ہے، پڑھ لیں ، افاقہ ہوگا انشاء اللہ
 
Top