• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا مقام ومرتبہ حافظ ذہبی کی نگاہ میں

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
امام نسائی
آپ فرماتے ہیں:أبو حنيفة ليس بالقوي في الحديث وهو كثير الغلط والخطأ على قلة روايته [تسمية الضعفاء والمتروکين : 71]۔
اما م نسائی کا قلیل الروایٰۃ کہناازقبیل مرویات ہے نہ کہ اس اعتبار سے کہ وہ فی نفسہ کتنی حدیثوں کے ناقل وعالم تھے۔

ابن عدی
آپ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں:
أبو حنيفة له أحاديث صالحة وعامة ما يرويه غلط وتصاحيف وزيادات في أسانيدها ومتونها وتصاحيف في الرجال وعامة ما يرويه كذلك ولم يصح له في جميع ما يوريه الا بضعة عشر حديثا وقد روى من الحديث لعله أرجح من ثلاثمائة حديث من مشاهير وغرائب وكله على هذه الصورة لأنه ليس هو من أهل الحديث ولا يحمل على من تكون هذه صورته في الحديث [الكامل في الضعفاء 7/ 12]۔
ابن عدی نے بھی وہی بات کہی ہے جسے میں بار بار دوہراچکاہوں۔ وقد روى من الحديث یہ بات ازقبیل مرویات ہے یعنی امام ابوحنیفہ نے کتنی حدیث روایت کی ۔اس قبیل سے نہیں کہ وہ فی نفسہ کتنی حدیثیں جانتے تھے یاکتنی حدیثوں کے واقف کار اورحامل وناقل تھے۔

اس کے علاوہ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ابن عدی کے شیخ جن کے واسطے سے ان کی سند امام ابوحنیفہ تک پہنچتی ہے وہ خود مجروح ہیں۔ لہذا ابن عدی کا اپنے مجروح شیخ کی حدیث کو امام ابوحنیفہ پر چسپاں کرنا مناسب نہیں ہے۔

اس بات کی دلیل کہ جس نے امام ابوحنیفہ کوقلیل الحدیث کہاہے وہ اپنے معلومات اوراس تک امام ابوحنیفہ کی حدیث پہنچنے کے اعتبار سے ہے۔ نہ یہ کہ نفس الامر میں امام ابوحنیفہ اتنی ہی حدیثوں کے حامل ہیں۔یہ ہےکہ

تاریخ بغداد جلد 15میں ابوبکر بن ابی داؤد کہتے ہیں۔
جمیع ماروی ابوحنیفہ من الحدیث مئۃ وخمسون حدیثاً
امام محمد بن حبان التميمي، البستي، متوفي354ھ رحمہ اللہ۔
امام ابوحنیفہ نے کل 130حدیثیں روایت کی ہیں۔
ابن عدی کہتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ کی روایت 300سے زیادہ ہے۔
یہ اختلاف ہی بتارہاہے کہ بات روایت کے اعتبار سے ہے۔نفس الامر کے اعتبار سے نہیں ہے۔

امام ابن حبان رحمہ اللہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
وكان رجلا جدلا ظاهر الورع لم يكن الحديث صناعته، حدث بمائة وثلاثين حديثا مسانيد ماله حديث في الدنيا غيرها أخطأ منها في مائة وعشرين حديثا.إما أن يكون أقلب إسناده، أو غير متنه من حيث لا يعلم فلما غلب خطؤه على صوابه استحق ترك الاحتجاج به في الاخبار.[المجروحين لابن حبان: 2/ 321]۔
ابن حبان کی عادت ہے کہ وہ معمولی باتوںکو بڑھاچڑھاکر پیش کرتے ہیں۔ اورسوئی کوبلم بھالابنادیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بعد کے محدثین نے ان پر سخت تنقید کی ہے۔

حافظ ذہبی جن کے نام پر یہ تھریڈ قائم ہے۔ وہ ابن حبان پر سخت جرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
«ابنُ حِبّان ربما جَرَح الثقة حتى كأنه لا يَدري ما يَخرج من رأسه!»ميزان الاعتدال (1|441)
ایک دوسری جگہ وہ لکھتے ہیں۔

فأين هذا القول من قول ابن حبان الخَسَّاف المتهوِّر في عارم؟! فقال: "اختَلَط في آخر عمره وتغيّر، حتى كان لا يدري ما يُحدّثُ به. فوقع في حديثه المناكير الكثيرة. فيجب التنكب عن حديثه فيما رواه المتأخرون. فإذا لم يُعلَم هذا من هذا، تُرِكَ الكل ولا يُحتجّ بشيءٍ منها". قلتُ (أي الذهبي): ولم يقدر ابن حبان أن يسوق له حديثاً منكراً. فأين ما زعم؟!». ميزان الاعتدال: (6|298)
میزان میں ہی ایک دوسرے مقام پر وہ کہتے ہیں۔ «ابن حبان صاحب تشنيع وشغب»،(1|460)
تیسری جگہ لکھتے ہیں۔
فأين هذا من قول ذاك الخَسَّاف المتفاصِح أبي حاتم ابن حبان في عارم؟! سيراعلام النبلاء (10|267)
ان نقولات کے بعد اب زیادہ ضرورت نہیں رہ جاتی ہے کہ ہم ابن حبان کے بارے میں مزید کچھ اپنی جانب سے عرض کریں۔ اگرچہ عرض کرنے کو بہت کچھ ہے۔

امام أبو عبد الله الحاكم النيسابوري المتوفى: 405ھ رحمہ اللہ۔

آپ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں:
النوع الحادي والخمسون : معرفة جماعة من الرواة لم يحتج بحديثهم ولم يسقطوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ هذا النوع من هذه العلوم معرفة جماعة من الرواة التابعين فمن بعدهم لم يحتج بحديثهم في الصحيح ولم يسقطوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ومثال ذلك في أتباع التابعين : موسى بن محمد بن إبراهيم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔أبو حنيفة النعمان بن ثابت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فجميع من ذكرناهم في هذا النوع بعد الصحابة والتابعين فمن بعدهم قوم قد اشتهروا بالرواية ولم يعدوا في الطبقة الأثبات المتقنين الحفاظ والله أعلم[معرفة علوم الحديث ص: 337]۔
مجھے تواس میں کہیں بھی دور دور تک قلت روایت کاذکر نظرنہیں آرہاہے۔ آپ ہی بتادیں کہ اس میں کہاں سے امام ابوحنیفہ کی قلت روایت کاذکر مل رہاہے۔

اس کے برعکس اسی کتاب میں دوسرے مقام پر امام ابوحنیفہ کو ثقات روات مین شمار کیاہے۔
دیکھئے 49واں باب۔ اس میں لکھتے ہیں۔

ھذاالنوع من معرفۃ الائمۃ الثقات المشہورین من التابعین واتباعھم ،ممن یجمع حدیثھم للحفظ والمذاکرۃ والتبرک بھم،وبذکرھم من الشرق الی الغرب
پھراس کے بعد اہل مدینہ کا ذکر کیاہے۔ اہل مکہ کا ذکر کیاہے۔چنانچہ لکھتے ہیں۔ ومن اھل مکۃ مجاہد بن جبر، عمروبن دینار،وعبدالملک بن جریج،وفضیل بن عیاض وغیرھم ۔اس کے بعد اہل مصر کا ذکر کیاہے۔پھراہل شام کا ذکر کیاہے پھریمن والوں کا ذخر ہے۔ پھریمامہ والوں ذکر ہے اوراہل کوفہ میں وہ لکھتے ہیں۔

ومن اہل الکوفۃ :عامر بن شراحل الشعبی، وسعید بن جبیرالاسدی،وابراہیم النخعی،وابواسحاق السبیعی،وحماد بن بی سلیمان،ومنصور بن المعتمر،ومغیرۃ بن مقسم الضبی،والاعمش الاسدی،ومسعر بن کدام الھلالی،وابوحنیفۃ النعمان بن ثابت التیمی،وسفیان بن سعید الثوری وداؤد بن نصیرالطاءی،وزفر بن الھذیل وعافیہ بن یزید القاضی وغیرھم وغیرھم
امام ذھبی شمس الدين محمد بن احمد الذہبي، متوفي748 ھ رحمہ اللہ۔
آپ مناقب ابی حنیفہ میں لکھتے ہیں:
قلت: لم يصرف الإمام همته لضبط الألفاظ والإسناد، وإنما كانت همته القرآن والفقه، وكذلك حال كل من أقبل على فن، فإنه يقصر عن غيره [مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه ص: 45]۔
مجھے واقعتاحیرت ہے کہ آپ نے قلت روایت کو حافظ ذہبی کی جانب کس طرح منسوب کردیاجب کہ خود انہوں نے ان کا تذکرہ حفاظ حدیث کی فہرست میں کیاہے۔
حافظ ذہبی کے اس پورے قول میں قلت حدیث کی بات کہاں سے ملتی ہے۔ میں توحیران ہوں کہ حافظ ذہبی کے اس قول کو انہوں نے کس طرح قلت حدیث پر محمول کرنے کی کوشش کی ہے۔
اولاتویہ حافظ ذہبی کا اپناجملہ نہیں ہے بلکہ انہوں نے تلیین کرنے والوں کے قول کی وجہ کے طورپر لکھاہے۔
ثانیااس میں قلت حدیث کا ذکر نہیں ہے۔بالفرض زیادہ سے زیادہ جوبات کہی جاسکتی ہے کہ وہ حافظہ کے اعتبار سے ملین ہیں۔ اس سے قلت حدیث کا ثبوت کیسے ہوگیا۔ پھربھی ان کو شکوہ رہتاہے کہ ان کو خرد بین لگانے کامشورہ کیوں دیاجاتاہے۔ انہی وجوہات سے آپ کو خردبین لگانے کا مشورہ دیاگیاہے جس قول سے جوبات ثابت نہیں ہوپاتی اس کوبھی ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔
ثالثاً حافظ ذہبی نے خود امام ابوحنیفہ کا تذکرۃ الحفاظ مین ذکر کیاہے اوران کو حفاظ حدیث میں شمار کرتے ہیں ان کی جانب اس قول کی نسبت کرنے میں توکچھ شرم کرنی چاہئے۔

کفایت اللہ صاحب کو مشورہ ہے کہ اگراسی طرح ان کو اسی طرح گنتی پوری کرنی تھی اورتاویل القول بمالایرضی بہ القائل کا ثبوت دیناتھاتوپھر دس پر خواہ مخواہ اکتفاء کیا۔سوہزار تک بھی اپنے عدد پہنچاسکتے تھے۔
آخرمیں جہاں تک اس کی بات ہے کہ یحیی بن معین نے امام ابوحنیفہ کو لابشی فی الحدیث کہاہے۔تواس کا مطلب سمجھناچاہئے
جیساکہ کفایت اللہ صاحب نے یہاں اس کو قلیل الحدیث کے معنی میں پیش کیاہے اور وہ صحیح بھی ہے۔لیکن قلیل الحدیث کس اعتبار سے۔
یحیی بن معین جس دور میں تھے اس مین محدثین کا دوردراز کا سفر کرنا اورایک حدیث کے کثیرطرق جمع کرنا شامل تھالہذا ان کے پاس حدیثوں کا ذکرطرق اورسند کی کثرت کی وجہ سے بہت زیادہ تھاجیساکہ خود یحیی بن معین،امام احمد بن حنبل،علی بن مدینی اوردوسرے محدثین کے بارے میں ہمیں ملتاہے کہ ان کے پاس لاکھوں حدیثیں تھیں۔
وقال أبو الحسن بن البراء ، سمعت عليا يقول : لا نعلم أحدا من لدن آدم كتب من الحديث ما كتب يحيى .

قال أحمد بن عقبة ، سألت يحيى بن معين : كم كتبت من الحديث ؟ قال : كتبت بيدي هذه ست مائة ألف حديث -قلت : يعني بالمكرر .
قال أبو العباس السراج : سمعت محمد بن يونس ، سمعت علي بن المديني ، يقول : تركت من حديثي مائة ألف حديث ، منها ثلاثون ألفا لعباد بن صهيب .
امام احمد بن حنبل کی مسند کے بارے میں جوروایتیں ہیں کہ انہوں نے لاکھوں حدیثوں سے اس کا انتخاب کیاہے وہ بھی سب کو معلوم ہی ہوگا۔ لہذا ابن معین کے قلیل الحدیث کہنے کامقصد یہی ہوسکتاہے کہ ان کے پاس دیگرمحدثین کی طرح ایک حدیث کے سینکڑوں طرق وغیرہ نہیں تھے
لیکن نفس حدیث کے معاملے میں وہ قلیل الحدیث تھے یہ بات کہنا یا سمجھنا اسی قلت فہم کی نشانی ہے جس کی طرف سابق مین اشارہ کرچکاہوں۔

ہم اسے ایک مثال سے واضح کرتے ہیں۔

امام بخاری امیرالمومنین فی الحدیث بھی ہیں اورفقہ واجتہاد میں ان کا بڑامقام ہے۔لیکن دیکھئے سوائے شراحان صحیح بخاری کے کسی بھی فقیہہ نے ان کے فقہی اقوال سے تعرض نہیں کیاہے اوراس کی زحمت گوارانہیں کی ہے کہ جب وہ فقہاء کے مذاہب بیان کریں تواس میں امام بخاری کا فقہی مسلک بھی بیان کریں۔ خود ان کے شاگرد امام ترمذی حدیث ذکر کرنے کے بعد فقہاء کا مسلک بیان کرتے ہیں۔محدثین میں امام عبداللہ بن مبارک، احمد بن حنبل،اسحق راہویہ،کا ذکرتے ہیں۔ امام بخاری کاذکرنہیں کرتے۔ان کاذکر صرف وہیں کرتے ہیں جہاں کہ کوئی حدیث اوراس کے علل کے سلسلے کی بات ہو۔
اگراس سے کوئی شخص یہ مراد لے کہ امام بخاری فقیہہ نہیں ہیں تواس کے بارے میں میرے خیال سے آپ بھی جہالت وسفاہت سے کمترالفاظ استعمال نہیں کریں گے۔
اس کی وجہ کیاہے بس یہی ہے کہ کوئی شخص کئی فنون میں ماہر ہوتاہے لیکن کوئی ایک جہت اتنی غالب آجاتی ہے کہ دوسری تمام جہتیں دب جاتی ہیں ۔
یہی حال بعینہ امام ابوحنیفہ کاہے۔ان پر فقہ کی جہت اتنی غالب آگئی کہ دوسری جہتیں جوان کے قاری کلام اللہ،ناقل حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی وہ دھیمی پڑگئی ۔
انشاء اللہ وقت اورفرصت ملنے پر امام ابوحنیفہ کے علم حدیث کے تعلق سے کچھ لکھناچاہوں۔ ویسے اس موضوع پر دوکتابیں اچھی لکھی گئی ہیں۔ ایک تومکانۃ الامام ابوحنیفہ بین المحدثین دکتور محمد قاسم عبدہ حارثی کی ہے۔اوردوسری کتاب مکانۃ الامام ابوحنیفہ فی الحدیث مولانا عبدالرشید نعمانی (رحمہ اللہ)کی ہے۔ ان کا بھی مطالعہ کریں شاید کچھ نئی اورکام کی بات معلوم ہوجائے۔

جمشیدصاحب نے امام صاحب کو قلیل الحدیث کہنے والوں کےحق میں جو سخت زبان استعمال کی ہے کیا اس کی زد میں یہ اجلہ محدثین نہیں آتے ؟؟؟ پھر یہ بات بھی ناقابل فہم ہے کہ امام صاحب کوقلیل الحدیث مان لینے میں کیا ان کی توہیں ہے؟؟؟ اس سے قبل والے مراسلے میں قارئین دیکھ سکتے ہیں کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے بہت سارے محدثین کو قلیل الحدیث بھی کہا ہے مگر ان کی جلالت شان اور ان کی عظمت و منقبت کو تسلیم بھی کیا ہے ، لہٰذا امام صاحب کو قلیل الحدیث مان لینے سے امام صاحب کی شان میں کوئی گستاخی نہیں ہے۔
یہ توبالکل صحیح فرمایاہے آپ نے کہ امام ابوحنیفہ ضعیف ہیں تب بھی کوئی بات نہیں۔ قلیل الحدیث ہیں تب بھی کوئی بات نہیں۔ البانی سے نقل کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ حدیث کورد کردیاکرتے تھے۔ تب بھی کوئی بات نہیں۔ ابن تیمیہ والے تھریڈ میں جو امام ابوحنیفہ کے مبلغ علم کے تعلق سے گل افشانی کی ہے تب بھی کوئی بات نہیں۔ اس تھریڈ میں آگے چل کر رات بھر میں قرآن ختم کرنے کے تعلق سے امام ابوحنیفہ کے تعلق سے جو خوش گفتاری کی ہے تب بھی کوئی بات نہیں۔
کفایت اللہ صاحب کا ایمان تو اس وقت کھول اٹھتاہے اورحرارت ایمانی ١٠٠ڈگری سے اس وقت پار کرجاتی ہے جب حضرت ابن تیمیہ کے تعلق سے کوئی یہ کہے کہ ان کی طبیعت مین حدت وشدت ہے۔اوران کی تحریروں میں نسبتااعتدال وتوازن کم ہے۔
بس یہ سنتے کے ساتھ وہ تمام تحمل اوربرداشت اورخوش اخلاقی کاجومظاہرہ امام ابوحنیفہ کے سلسلے میں ہوتاہے غائب ہوجاتاہے اورغیرت ایمانی اس پر آمادہ کردیتی ہے کہ امام ابوحنیفہ کو خواہ مخواہ بحث کے بیچ میں گھسیٹاجائے اور وہ اقوال جن کو علماء نے بدبودار سمجھ کر خارج کردیاہے پھر سے چبایاجائے۔
اناللہ واناالیہ راجعون
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
سناہے کہ ایک چودھری صاحب تھے انہوں نے کہیں اپنی بھینسوں پر شرط باندھ لی کہ دواور دوچارنہیں بلکہ تین ہوتے ہیں گھر ائے بیوی کو واقعہ سنایا۔بیوی نے کہاکہ اب کیاہوگااپ توہار جائیں گے اوربھینسیں بھی ہاتھ سے جائیں گی۔ چودھری صاحب نے بیوی کو جواب دیافکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں.
میں مانوں گاہی نہیں کہ دواوردوچار ہوتے ہیں یہی کہتارہوں گاکہ دو اوردو تین ہوتے ہیں۔
کچھ ایسی ہی صورت حال یہاں بھی ہے۔ اہل علم نے کتابوں میں کیالکھاہے کس لفظ سے کیامطلب مراد لیاہے اس سے کوئی بحث نہیں ۔ بس اپنی ضد پوری کرنی ہے خواہ وہ کیسے بھی ہو۔
جب امام ابوحنیفہ کوقلیل الحدیث قراردینے کی ضد تھی تواس لفظ لیس بصاحب حدیث سے قلیل الحدیث مراد لیاجارہاتھاکہ جیساکہ ماقبل کے پوسٹ میں کفایت اللہ صاحب نے کیاہے .
اوراب امام ابوحنیفہ کو ضعیف قراردینے کی ضد ہے تواسی لفظ لیس بصاحب حدیث کا مطلب "حدیث میں بکثرت غلطیاں کرنے والے"مراد لیاجارہاہے۔ اس کو بحث اوردلیل نہیں کہتے بلکہ اہل علم کی زبان میں شترغمزہ کہتے ہیں۔

ائیے سابقہ پوسٹ کی طرح ان کی اس دلیل کا بھی جائزہ لیں۔
کفایت اللہ صاحب کی غلط فہمی کی پوری بنیاد دوچیزیں ہیں۔ ایک تویہ کہ قلت کے بعد جو بات ہے وہ حافظ ذہبی کی اپنی رائے ہے امام صاحب کے سلسلہ میں ۔جب کہ یہ محض مغالطہ ہے۔اس پر نئے سرے سے نظرڈالتے ہیں۔

اولاحافظ ذہبی کہتے ہیں کہ اس میں دوقول ہیں۔

کچھ لوگوں نے انہیں ثقہ اورحجت تسلیم کیاہے .

کچھ لوگوں نے نہیں لین اورکثرت سے حدیث میں غلطیاں کرنے والاکہاہے

پھردوسراقول کہ جولوگ ان کو حدیث میں لین مانتے ہیں اس کو پہلے بیان کیاہے
اس بارے میں یحیی بن سعید القطان کا قول نقل کیاہے لیس بصاحب حدیث
پھر اس کے بعد انہوں نے اپنی بات کہی ہے اوریہیں پر کفایت اللہ صاحب کو مغالطہ ہورہاہے۔ ان کے بیان کرنے کا منشاء یہ نہیں ہے کہ امام ابوحنیفہ حدیث میں کمزور اورضعیف ہیں بلکہ صرف جارحین کے اقوال کی وجہ بیان کرنی ہے کہ جارحین کے جرح کا منشاء یہ ہے کہ انہوں نے احادیث کے ضبط واتقان کی طرف توجہ نہیں دی۔
اگر یہی منشاء حافظ ذہبی کا ہوتاکہ امام ابوحنیفہ حدیث میں ضعیف ہیں تو پھر تقریباہرکتاب جہاں انہوں نے امام ابوحنیفہ کا ذکر کیاہے وہ توثیق کے اقوال نقل نہ کرتے بلکہ یحیی بن سعید القطان کا قول نقل کرتے ۔لیکن ہم کہیں بھی یحیی بن سعید القطان کا قول نہیں دیکھتے ہیں بلکہ ہرجگہ امام جرح وتعدیل یحیی بن معین سے توثیق کا قول منقول دیکھتے ہیں خواہ وہ تذکرہ الحفاظ ہو 1/176،سیر اعلام النبلاء ہو 6/393،یاپھر تاریخ الاسلام ہو یاپھر تذہیب التہذییب ہو،بطور خاص تذہیب التہذیب چونکہ بطور خاص کتب ستہ کے رجال پر لکھی گئی ہے۔ اس میں امام ابوحنیفہ کی توثیق توابن معین سے منقول ہے لیکن جرح کا کوئی لفظ منقول نہیں ہے ۔ اس سے بھی صاف طورپر اسی کی تائید ہوتی ہے کہ وہ ان لوگوں مین سے نہیں ہیں جو امام صاحب کو ضعیف قراردیتے ہیں ۔ دوسری بات یہ یاد رکھنی چاہئے کہ یہ کتاب مناقب ابی حنیفۃ وصاحبیہ پہلے لکھی گئی اورتذکرۃ الحفاظ وسیر اعلام النبلاءاس کے بعد کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ دونوں کتابوں میں امام ابوحنیفہ کے ذکر میں اس کتاب کا حوالہ ملتاہے۔اوراگربالفرض مان بھی لیاجائے کہ پہلے حافظ ذہبی اس کے قائل تھے کہ امام ابوحنیفہ حدیث میں لین ہیں توبعد میں ان کی رائے یقینابدل گئی جیساکہ بقیہ کتب میں جرح کا کوئی نام ونشان نہیں بلکہ صرف تعدیل کا لفظ ہی ملتاہے۔
کفایت اللہ صاحب کے استدلال کی خامیاں واضح ہوں وہ لکھتے ہیں۔
اس کے بعد امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس دوسرے قول کی تردید بالکل نہیں کی ہے جب کہ امام ذہبی کا معمول ہے کہ ایسے مواقع پر غیر درست جروح کو رد کردیتے ہیں ،
اس نقطہ اعتراض کے جواب میں عرض ہے کہ جب وہ معااس کے بعد امام صاحب کی توثیق نقل کرنے والے ہیں تو پھر کلام کی ضرورت کیاتھی اورجو آنجناب نے فرمایاہے کہ وہ غیردرست جروح کو رد کردیتے ہیں تویہ بات مطلقانہیں ہے۔
مثال کے طورپر دیکھئے ۔اسی کتاب میں امام محمد کے ذکر میں ص93میں امام احمد بن حنبل سے منقول ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ امام ابویوسف حدیث میں منصف تھے اورامام ابوحنیفہ اورامام محمد حدیث کی مخالفت کرتے تھے
۔

یہ واضح طورپر کسی انسان کی عدالت میں نقص ہے کہ وہ احادیث رسول اکرم کی مخالفت کرتاہے لیکن اس کے باوجود وہ یہاں پر کچھ نہیں کہتے جب کہ سابق میں وہ کہہ ائے ہیں کہ تنقید کرنے والوں کی تنقید محض ضبط کے اعتبار سے ہے عدالت کے اعتبار سے نہیں ہے۔

(جہاں تک امام احمد کی اس بات کا تعلق ہے کہ امام ابوحنیفہ یاامام محمد حدیث کی مخالفت کرتے تھے تووہ ان کے اپنے فہم کے اعتبار سے ہے ۔جیساکہ جب امام مالک نے البیعان بالخیار مالم یتفرقا پر عمل نہیں کیاتو ابن ابی ذئب نے قتل کا فتویٰ دے دیا۔یہی واقعہ جب امام احمد سے پوچھاگیاتوانہوں نے وہاں کہاکہ امام امالک نے حدیث کو رد نہیں کیابلکہ اس کی تاویل کی ۔(کتاب المعرفۃ والتاریخ 1/686)
یہی صورت یہاں بھی ہے کہ امام ابوحنیفہ یاامام محمد کسی حدیث سے جومطلب سمجھتے ہیں دوسراکچھ اورسمجھتاہے اوراپنے فہم کو حجت سمجھ کر اس کو مخالفت حدیث سے تعبیر کرتاہے تووہ صرف قائل کی حدتک مخالفت حدیث ہے نفس الامر میں نہیں۔)

اسی کتاب میں ایک مثال دیکھئے۔ وہ ابن معین سے نقل کرتے ہیں ۔
یحیی بن معین یقول: مارایت فی اصحاب الرای اثبت فی الحدیث،ولااحفظ،ولااصح روایۃ من ابی یوسف،وابوحنیفۃ صدوق،غیران فی حدیثہ مافی حدیث المشائخ-یعنی من الغلط-
یحیی بن معین کہتے ہیں کہ میں نے رای والوں میں حدیث میں پکااورحفظ والا اورصحیح روایت کرنے والا ابویوسف سے زیادہ کسی کونہیں دیکھا،اورابوحنیفہ صدوق ہیں سوائے اس کے کہ ان کی حدیث میں وہ بات ہوتی ہے جومشائخ کی حدیث میں ہوتی ہے ۔حافظ ذہبی اس کی تفسیر غلطی سے کرتے ہیں۔

یہاں دیکھئے حافظ ذہبی نے صرف مشائخ کی تفسیر بیان کی ہے خود کوئی قول نقل نہیں کیاہے اوراس قول کے مطابق چلیں توامام ابوحنیفہ صدوق ہیں۔ کبھی کبھار غلطیاں ہوتی ہیں۔ یعنی اگر اس کو اختصار سے کہیں توصدوق یھم قلیلا ،ایسے شخص کی حدیث حدیث حسن ہوگی۔
اب چونکہ کفایت اللہ صاحب کے قول کے مطابق حافظ ذہبی غیردرست جرح کو رد کردیتے ہیں
اوریہاں کوئی تردید وغیرہ نہیں کی اس لئے اس کوتومان ہی لیناچاہئے کیاخیال ہے؟اس بارے میں۔
اگرہم اسی قسم کے مثال ڈھونڈنے بیٹھیں توپھر یہ یقین مانئے یہ مضمون نہیں بلکہ مقالہ بن جائے گا۔

اس کے بعد وہ کہتے ہیں
اورامام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنا یہ کوئی اصول نہیں بتایا ہے کہ میں جس قول کو آخر میں پیش کروں وہی میرا موقف ہے ، بلکہ امام ذھبی رحمہ اللہ کی کتب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ ایسی کسی ترتیب کے پابند نہیں ہیں
اس کا دعویٰ تومیں نے بھی نہیں کیاہے بلکہ میں نے یہی کہاہے کہ عموماجوکلام اخر میں نقل کیاجاتاہے وہی مصنف کی مراد سمجھی جاتی ہے۔ اب اس کو اپ قاعدہ اورمعمول سمجھ رہے ہیں توالگ بات ہے۔
ویسے اپ جتنی مثالیں اس کی نقل کریں گے کہ حافظ ذہبی نے شروع میں اپنی بات کہی ہے بعد میں دوسرانقطہ نظررکھاہے۔اس سے دوگنی مثالیں میں اس کی نقل کروں گاکہ حافظ ذہبی نے اخرمیں جوبات کہی ہے وہی ان کی مراد بھی ہے۔ازمائش شرط ہے۔

اس کے بعدکفایت اللہ صاحب نے ابراہيم بن عبداللہ بن حاتم الھروي کی مثال نقل کی ہے اورفرمایاہے
اب ذرا غور کریں کہ اسی راوی کے بارے میں اپنی ایک کتاب میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے سب سے آخر میں امام نسائی کی جرح نقل کی تھی اور دوسری کتاب میں اسی راوی کا ترجمہ توثیق پر ختم کرتے ہیں !!
ہماری گزارش ہے کہ اگر اپ میزان اوردیوان کے حوالوں کے ساتھ ساتھ دیگر تمام کتابوں میں امام ابوحنیفہ کا تذکرہ ڈھونڈتے اورحافظ ذہبی کے کلام کی روشنی میں امام ابوحنیفہ کامقام ومرتبہ سمجھنے کی کوشش کرتے تواس ورطہ حیرت سے نجات پاجاتے جس میں تاحال مبتلاہیں۔ لیکن اگرایسانہیں ہورہاہے تواس کی اپنی وجوہات ہیں۔

انہی باتوں کو دوسری کتابوں،تذکرۃ الحفاظ،سیراعلام النبلاء،تاریخ الاسلام،تذہیب التہذیب اوردیگر کتابوں کی روشنی میں دیکھیں گے(کفایت اللہ صاحب کے میزان اوردیوان پر بات اگے چل کرہوگی اوربتایاجائے گاکہ انہوں نے جن دلیلوں کی بنیاد پر اپنے دعوی کی بنیاد رکھی ہے وہ کتنے کمزور ہیں)
وہ فرماتے ہیں کہ اخری کلام امام کاہے جو امام ابوداؤد نے کہاہے ۔
رحم اللہ مالکاکان اماما،رحم اللہ الشافعی کان اماما،رحم اللہ اباحنیفۃکان اماما
کفایت اللہ صاحب کے خیال سے یہ توثیق کا لفظ نہیں ہے۔ وہ ہمیں بتاناپسند کریں گے کہ اگر یہ توثیق کا لفظ نہیں ہے توپھر حافظ ذہبی نے توثیق میں اس کاحوالہ کیوں دیاہے اس کو کیوں ذکر کیاہے؟حافظ ذہبی اوردیگر ائمہ عظام نے ہمیشہ سے اس کو توثیق کے معنی میں ہی مراد لیاہے۔ اب کفایت اللہ صاحب کچھ دوسراسمجھیں تویہ ان کی فہم ہے۔وہ جوچاہیں سمجھیں ہمیں کفایت اللہ صاحب کے مخصوص فہم سے غرض نہیں ہے ؟

پھر یاد رہے کہ ہم نے کبھی بھی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی امامت سے انکار نہیں کیا ہے ، بلکہ میری اکثر تحروں میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ساتھ امام لفظ نظر آئے گا یعنی ہم بھی مانتے ہیں کہ دیگر ائمہ کی طرح یہ بھی ایک امام تھے ۔
کفایت اللہ صاحب کے اس لطفیہ کو دیکھ کر ایک پرانالطیفہ بہت پہلے کا پڑھاہوا سن لیجئے۔

کسی دریا کے کنارے گھوڑوں کے پاؤں میں نعل ٹھونکے جارہے تھے یہ منظربڑی دیر سے ایک مینڈک دیکھ رہاتھا اوراس کے دل میں بھی اپنے پاؤں میں نعل لگوانے کی خواہش پنپ رہی تھی۔ جب صبر نہ ہواتواس نے بھی اپناپاؤں نعل لگانے والے کی جانب بڑھادیا۔
اگرعاقلی ایک اشارہ بسست
اس کے علاوہ یہاں کفایت اللہ صاحب کتنی معصومیت سے کہہ رہے ہیں کہ ہم بھی ان کو دیگر ائمہ کی طرح امام مانتے ہیں۔ جب کہ وہ سابق میں ایک پوسٹ میں وہ کس اعتبار سے امام ابوحنیفہ کو امام مانتے ہیں اس کی اچھی طرح وضاحت کرچکے ہیں۔ دیکھئے کفایت اللہ صاحب کی تحریریں۔

مثال نمبر1
دینی معلومات میں امام صاحب کی حیثیت ہی کیا ہے کہ ان پر رد کرنے کے لئے متخصص ہونے کی ضرورت پڑے ایسے لوگوں پر گلی محلہ کے بچے بھی بآسانی رد کرسکتے ہیں۔
مثال نمبر2

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بہت بڑے امام بلکہ امام اعظم تھے اس میں کوئی شبہہ نہیں ، لیکن وہ حدیث کے نہیں بلکہ رائے وقیاس کے امام اعظم تھے، یہ بات سمجھنے کی ہے۔
مثال نمبر 3
اسی طرح اسی تھریڈ میں ایک رات میں قرآن پڑھنے پر امام صاحب پر جوگلفشانی اورطلاقت لسانی کا مظاہرہ کیاہے یہ تمام باتیں کہنے کیلئے کافی ہیں کہ آپ کے دل میں جوکچھ ہے وہ ظاہر ہوچکاہے۔ اب سے الفاظ کے پردے میں چھپایانہیں جاسکتا۔ویسے کفایت اللہ کے امام ابوحنیفہ کو امام کہنے کا مقصد اورامام ابوداؤد کے امام کہنے کے مقصد مین زمین واسمان کا فرق ہے۔ چہ نسبت خاک راپاعالم پاک
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
امام ابوحنیفہ کی ثقاہت کی بحث

امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی شخصیت ان تاریخی اورمظلوم شخصیتوں کی طرح ہے جن کی صاف وشفاف شخصیت کو زبان حسد اورلسان تعصب نے دھندلااورمیلاکرنے کی کوشش کی۔ یہ کوششیں کرنے والے اپنی کوششوں اورحسرتوں سمیت قبر میں جالیٹے اورپھران کی ان کوششوں کوتاریخ کے صفحات نے اپنے سینے میں دفن کرلیا۔یہ دفینہ صدیوں تک وہی مدفون رہا۔ تاریخ کی سینے میں دفن ان اتہام تراشیوں کو دوبارہ سے ظہور میں لانے کی بھرپور کوشش شروع کردی ہے لیکن ایسالگتاہے کہ جوحال پہلوں کا ہواتھاوہی پچھلوں کابھی ہوگا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام ابوحنیفہ کے بارے میں جرح وتعدیل کی کتابوں میں بہت کچھ ہے لیکن کیایہ بہت کچھ صفائی نیت اوراخلاص قلب کا نتیجہ ہے یاتعصب اورحسد کی کارفرمائی ہے۔ اس بارے میں اگر ہم کچھ عرض کریں گے توپھر ہمارے مہربان ناک بھوں چڑھاناشروع کردیں گے اس لئے مناسب ہے کہ اس بارے میں انہی لوگوں کے بیانات شائع کئے جائیں جن کا تعلق حدیث اورعلم حدیث سے رہاہے۔

امام جرح وتعدیل یحیی بن معین تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ اس فن میں ان کی امامت اورقیادت مسلم ہے۔ دیکھئے وہ کیافرماتے ہیں۔
عن عباس بن محمد الدوری قال:سمعت یحیی بن معین یقول: اصحابنایفرطون فی ابی حنیفۃ واصحابہ ،فقیل لہ اکان ابوحنیفہ یکذب فقال :کان انبل من ذلک(جامع بیان العلم وفضلہ ،باب ماجاء فی ذم القول فی دین اللہ بالرای والظن والقیاس علی غیراصل ص1081)
امام یحیی بن معین کے اس قول سے اتناواضح ہوگیاہے کہ امام ابوحنیفہ پر محدثین کی تنقید انصاف پر مبنی نہیں بلکہ اس میں افراط اورحد سے تجاوز کیاگیاہے۔یہی بات ابن عبدالبر نے بھی کہی ہے ۔
ونقمواایضا علی ابی حنیفۃ الارجاء،ومن اھل العلم من ینسب الی الارجاء کثیر،لم یعن احد بنقل قبیح ماقیل فیہ کماعنوابذلک فی ابی حنیفہ لامامتہ،وکان ایضا مع ھذا یحسد وینسب الیہ مالیس فیہ،ویختلق علیہ مالایلیق بہ (المصدرالسابق )
ابن عبدالبر کے اس ارشاد میں کئی باتیں اہم ہیں۔

1: کچھ باتیں جو محدثین کے ننزدیک قابل اعتراض تھیں وہ اگرچہ دوسروں میں بھی موجود تھیں لیکن محدثین نے ان کے مثالب جمع کرنے پر اتنی توجہ نہیں دی جتنی کہ امام ابوحنیفہ کے مثالب اورمطاعن پر توجہ دی اورجہاں کہیں سے کچھ ایسی بات مل سکتی تھی جس سے امام ابوحنیفہ پر زد پڑے اس کو بطورخاص نقل کیا۔

2:اس میں حسد کی کارفرمائی شامل تھی ۔ یہ سب کچھ بسااوقات اخلاص نیت اور صرف روایت کے مدنظرنہیں ہواتھابلکہ اس میں اہل الحدیث اوراہل الرای کی گروہ واریت تقسیم کی بھی کارفرمائی شامل تھی ۔

3:صرف یہی نہیں کیاگیاکہ ان کے متعلق جومثالب اورمطاعن ملے ان کو نقل کرنے پر خاص توجہ دی گئی بلکہ ان کی جانب ایسی باتیں منسوب کردی گئیں جس سے وہ بالکل بری اورپاک دامن تھے ۔
یہ بات کہ امام ابوحنیفہ کی جانب غیرثابت شدہ باتیں منسوب کردی گئی ہیں صرف ابن عبدالبر کا بیان نہیں بلکہ ہمارے کرم فرما کفایت اللہ صاحب کے ممدوح حضرت ابن تیمیہ بھی یہی کہتے ہیں ۔

ان اباحنیفہ وان کان الناس خالفوہ فی اشیاء وانکروھاعلیہ،فلایستریب احد فی فقھہ وفھمہ وعلمہ،وقد نقلوانہ اشیاء یقصدون بھاالشناعۃعلیہ وھی کذب علیہ قطعا (منہاج السنۃ النبویہ1/259 )[/QUOTE]

یہاں پر حضرت ابن تیمیہ نے یہ بات صاف کردی ہے کہ امام ابوحنیفہ کی کچھ لوگوں نے اپنی جانب سے اوراپنے جی سے گڑھ کر باتیں ان کی جانب منسوب کردی ہیں۔ اوریہ کرنے والے کون ہوسکتے ہیں بتانے کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔

حضرت ابن تیمیہ کا ذکر درمیان میں آگیا۔بات اصلاحضرت ابن عبدالبر کی ہورہی تھی۔ حضرت ابن عبدالبر نے کئی مقامات پر اس کی تشریح کی ہے کہ محدثین کے امام ابوحنیفہ پر جرح میں بسااوقات حسد کی کارفرمائی شامل رہی ہے۔ ایک مقام توگزرچکا۔دوسری جگہ وہ فرماتے ہیں۔

وکان مع ذلک محسودا لفہمہ وفطنتہ(الانتقاء فی فضائل الائمۃ الثلاثۃ 277)

تیسری جگہ وہ لکھتے ہیں ۔

قال ابوعمر:وافرط اصحاب الحدیث فی ذم ابوحنیفۃ رحمہ الہ وتجاوزاالحد فی ذلک ( جامع بیان العلم وفضلہ ،باب ماجاء فی ذم القول فی دین اللہ بالرای والظن والقیاس علی غیراصل 1080)
صرف اتنے پر بس نہیں ہے بلکہ حافظ ابوعمروابن عبدالبرالانتقاء میں امام ابویوسف کے ذکر میں ابن جریر طبری کی یہ بات نقل کرنے کے بعد کہ اہل حدیث نے امام ابویوسف کی احادیث نقل کرنے یاان سے اخذ کرنے سے پرہیز کیاہے ،اس پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں۔

واما سائراھل الحدیث فھم کالاعداء لابی حنیفۃ واصحابہ(الانتقاء فی فضائل الائمۃ الثلاثۃ ص333)

اتنی شہادتوں کے بعد اب اس کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے کہ ہم مزید شہادتیں پیش کریں ۔آخر میں صرف ایک اہل حدیث عالم شیخ جمال الدین قاسمی کی شہادت پیش کردیتے ہیں جس سے محدثین حضرات کے اہل الرائے کے بارے میں طرزعمل کا معمولی سااندازہ ہوسکے گا۔

وقد تجافی ارباب الصحاح الروایۃ عن اہل الرای ،فلاتکاد تجد اسما لھم فی سند من کتب الصحاح اوالمسانید اوالسنن وان کنت اعد ذلک فی البعض تعصبا،اذیری المنصف عندھذاالبعض من العلم والفقہ ،مایجدر ان یتحمل عنہ، ویستفاد من عقلہ وعلمہ ولکن لکل دولۃ من دول العلم سلطۃ وعصبۃ ذات عصبیۃ ،تسعی فی القضاء علی من لایوافقھا ولایقلدھافی جمیع مآتیھا،وتستعمل فی سبیل ذلک کل ماقدرلھامن مستطاعھا،کماعرف ذلک من سبرطبقات دول العلم،ومظاہرمااوتیتہ من سلطان وقوۃ۔ولقد وجد لبعض المحدثین تراجم لائمۃ اہل الرای ،یخجل المرء من قراءتھا فضلاًعن تدوینھا،وماالسبب الاتخالف المشرب، علی توھم التخالف ورفض النظرفی المآخذ والمدارک،التی قدیکون معھم الحق فی الذہاب الیھا،فان الحق یستحیل ان یکون وقفا علی فئۃ معینۃ دون غیرھا،والمنصف من دقق فی المدارک غایۃ التدقیق ثم حکم بعد۔( الجرح والتعدیل ص24)

شیخ قاسمی نے اپنے قول "وقد تجافی ارباب الصحاح الروایۃ عن اہل الرای کی تشریح میں لکھاہے۔

کالامام ابی یوسف،والامام محمد بن الحسن،فقد لینھمااہل الحدیث، کماتری فی میزان الاعتدال،ولعمری لم ینصفوھما،وھماالبحران الزاخران وآثارھماتشھد بسعۃ علمھما وتبحرھما بل بتقدمھاعلی کثیرمن الحفاظ وناھیک کتاب الخراج لابی یوسف وموطاالامام محمد

اتنی شہادتیں یہ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ امام ابوحنیفہ اوران کے متبعین کے خلاف کس طرح کی گرد اڑائی گئی ہے اورکس طرح سے ان کی شفاف اورپاکیزہ شخصیت کو دھندلااورگدلا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اگراس مضمون کے طویل ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں امام ابوحنیفہ پرمحدثین کی جرح کے بعض ایسے شواہد پیش کرتاجس کو پڑھ کر قارئین کوہماری پیش کردہ بات کی صداقت کا اندازہ ہوجاتا۔اورسند کی تحقیق کرنے کی ضرورت ہی نہ پیش آتی کیونکہ جب متن ہی اپنے وضع اورکذب کی شہادت دے رہاہوتوپھرسند کی تحقیق کی کیاحاجت رہ جاتی ہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
امام ابوحنیفہ پرمحدثین کرام کی جرح اور ان کی نوعیت


امام ابوحنیفہ پر محدثین کرام نے جوجرحیں کی ہیں اسے آسانی کیلئے چار خانوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے۔
پہلی قسم جرح کی وہ ہے جس میں امام ابوحنیفہ کے معتقدات کو گمراہ کن کہاگیاہے اوریہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ امام ابوحنیفہ مرجئہ قدریہ اورتمام گمراہ فرقوں کے عقائد کے حامل تھے۔ اس سلسلے میں یہ لطیفہ بلکہ کثیفہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ امام ابوحنیفہ کے معتقدات کو نشانہ بنانے والوں نے یہ سوچنے کی کبھی زحمت گوارانہیں کی ایک شخص تمام گمراہ کن عقائد کا حامل کس طرح ہوسکتاہے ۔جومرجئہ ہوگا وہ قدریہ نہیں ہوگا۔ جو قدریہ ہوگا۔وہ خارجی نہیں ہوگا جو خارجی ہوگا وہ جہمی نہیں ہوگا۔

امام ابوحنیفہ کے معتقدات پر جوجرحیں ہیں وہ تمام کی تمام خواہ کتنی ہی اعلیٰ اورصحیح سند کے ساتھ ہوں اس لائق ہیں کہ انہیں ردی کی ٹوکری میں پھینک دیاجائے یاردی کی ٹوکری میں پھینکنے سے کسی کی دل شکنی ہورہی ہے تواسے نذرآتش کردیاجائے۔امام ابوحنیفہ کے معتقدات پر کتابیں موجود ہیں۔ کچھ توخود ان کی جانب صحیح طورپر منسوب ہیں ۔جس میں محدثین کرام کے بیان کردہ غلط عقائد کا نام ونشان تک نہیں ۔ اور سب سے بڑھ کر اوروزنی شہادت العقیدۃ الطحاویہ ہے جس میں امام طحاوی نے جو مشہور محدث اورفقیہہ ہیں انہوں نے امام ابوحنیفہ امام ابویوسف اورامام محمد کے عقائدبیان کرنے کااہتمام کیاہے اس میں ان چیزوں کا دور دور تک کوئی نام ونشان نہیں ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی امام ابوحنیفہ کو عقائد کے اعتبار سے نشانہ بناتاہے تویہ سخافت عقل کی نشانی ہے۔محدثین کرام کی جرح کا ایک بڑاحصہ اسی قسم کاہے۔

اسی میں ایک اہم بات جس پر بطورخاص توجہ رہنی چاہئے وہ یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کو عام طورپر مرجئہ کہاگیاہے۔ حالانکہ نتیجہ کے اعتبار سے محدثین نے جوکچھ کہاہے اورامام ابوحنیفہ نے جوکچھ کہاہے اس میں ذرہ برابر بھی کوئی فرق نہیں ہے اوراگربطور فرض اس کو ارجاء تسلیم بھی کرلیں تویہ ارجاء اہل السنۃ ہے جیساکہ فرق وملل پر لکھنے والوں نے بیان کیاہے۔

محدثین کرام کے جرح کی دوسری قسم وہ ہے جس میں جرح کا نام ونشان توموجود نہیں ہے بلکہ جرح کرنے والے نے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں اوردل کا بخار نکالاہے۔اوراگرایماندارانہ اورمنصفانہ مزاجی سے جائزہ لیاجائے توجرح کرنے والاخود قابل جرح اورمجروح ہوگا۔اس کی ایک دومثالیں پیش کرتاہوں۔

عبداللہ بن الزبیر الحمیدی مشہور محدث اورامام بخاری کے اجلہ اساتذہ میں سے ہیں۔ ان سے منقول ہے کہ وہ امام ابوحنیفہ کو سرعام "ابوجیفہ "فرمایاکرتے تھے اورصرف یہ نہیں کہ عام جگہوں پر ان کا یہ حال تھابلکہ وہ اس فعل شنیع کا ارتکاب مسجد حرام میں لوگوں کے مجمع کے درمیان کیاکرتے تھے(تاریخ بغداد 13/432،بحوالہ نشرالصحیفہ 138)

اس سے سرسری طورپر مت گزرجائیے ۔ذراسوچئے کیالعن طعن ایک مومن کااخلاق ہوسکتاہے ۔کیااس فعل شنیع کی شریعت میں مذمت ہوئی ہے یامدح کی گئی ہے۔ کیاحضورپاک نے منافقوں کی صفت نہیں بیان کی "اذاخاصم فجر"اب اگرکوئی دوسرا حمیدی کو اخلاق کے لحاظ سے مجروح قراردے تو کیااس میں کچھ غلط بات ہوگی؟

سفیان ثوری مشہور محدث اورفقیہہ ہیں۔ یہ دل نہیں مانتاکہ ان کے جیسے محتاط اورمتقی شخص نے یہ بات کہی گئی لیکن چونکہ ان کی جانب یہ قول منسوب ہے لہذاہم بھی ان کی جانب نسبت کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

عبداللہ بن احمد نے کتاب السنۃ1/195میں نقل کیاہے ۔وہ فرماتے ہیں کہ کوفہ میں یاامت محمدیہ کوئی شخص ایساپیدانہیں ہوجس نے اسلام کو اتنانقصان پہنچایاہو جتنا کہ امام ابوحنیفہ نے پہنچایاہے۔بعض روایت میں اشام کا بھی ذکر ہے یعنی اسلام میں ان سے زیادہ نحوست والا پیدانہیں ہوا۔

اولاتواسلام نحوست کا قائل نہیں ہے۔نحوست بالفرض اگر ہے بھی توتین چیزوں میں جیساکہ حدیث میں آتاہے۔ پھر ان حضرت پر کیاکوئی وحی نازل ہوئی تھی کہ انہوں نے ایک فرد کو نہ صرف منحوس قراردیابلکہ ان کو اسلام میں سب سے زیادہ منحوس قراردے دیا۔ کیاوہ علم غیب کے بھی مدعی ہیں کہ آگے چل کر ان سے بھی زیادہ کوئی اسلام کو نقصان پہنچانے والا یاان سے زیادہ نحوست والا پیدانہیں ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ ایسی بے بنیاد بات ہے کہ کہنے والاخود مجروح ہوجاتاہے اوردرجہ ثقاہت سے گر کر مجروحین کی صف میں بلند مقام پاتاہے۔لیکن افسوس کہ جن ناقلین نے اس کلام کو نقل کیا۔انہوں نے بھی باوجود علم وفہم کے اس کلام میں موجود خامیوں کی جانب قطعاکوئی توجہ نہیں دی۔

آخر میں ایک لطیفہ کے طورپر ایک محدث ابن جارود کی بات نقل کرتاہوں ۔قارئین خود اندازہ لگائیں اورسوچیں کہ کیامحدثین کرام کی اس قسم کی باتوں کوبھی بلاتامل اورغوروفکر کے تسلیم کرلیاجائے کہ مستند ہے ان کا فرمایاہوا۔
ابن جارود لکھتے ہیں۔
النعمان بن ثابت ابوحنیفہ جل حدیثہ وھم وقد اختلف فی اسلامہ (الانتقاء ص287)
اس لطیفہ بلکہ کثیفہ کو دیکھ کر ہم محوحیرت ہیں کہ دل کو پیٹیں یاجگر کو روئیں اورکہیں سے سعودی ریال کا انتظام ہوجائے تونوحہ گرکوبھی رکھ لیں۔(ابتسامہ)

اس پر حافظ بدرالدین عینی نے عقدالجمان میں بالکل صحیح لکھاہے
وھل یحل لمن یتسم بالاسلام ان یقول ھذاالقول کیاجوشخص صفت اسلام اورایمان سے متصف ہے وہ اس طرح کی بے بنیاد اوراحمقانہ بات کہہ سکتاہے۔اناللہ واناالیہ راجعون۔

محدثین کرام کی امام ابوحنیفہ پر جرح کی تیسری قسم وہ ہے جس میں ان کے اجتہادات پر اعتراض کیاگیاہے ۔

یہ جرح کی کوئی بات نہیں ہوسکتی ہے۔فروعی مسائل میں ہمیشہ اختلاف رہاہے۔صحابہ کرام کے درمیان فروعی مسائل میں واضح طورپر اختلاف تھا۔ اکابرتابعین کے درمیان فروعی مسائل میں ہزاروں اختلاف تھے لیکن کبھی کسی نے اس کی وجہ سے کسی کو مجروح نہیں کہا۔صغارتابعین اورتبع تابعین کے اجلہ علماء اورفقہاء کے درمیان بھی اختلاف رہاہے اس کی وجہ سے کبھی کسی نے کسی پر جرح نہیں کی ۔مکہ،مدینہ اورکوفہ کے علماء کے درمیان بعض مسائل میں قدیم زمانے سے اختلاف چلاآرہاتھالیکن اس کو کسی نے جرح کا موجب نہیں گردانا۔ امام اوزاعی نے امام ابوحنیفہ کے مسائل سیر پر اعتراض واردکئے اورتردید کی ۔جس پر امام ابویوسف نے الردعلی سیرالاوزاعی لکھی ۔جس کے بعد پھر امام شافعی نے کتاب الام میں امام اوزاعی کی جانب سے دفاع کا فریضہ انجام دیاہے۔کیایہ بھی کوئی طعن کی وجہ سےبن سکتاہے؟

امام محمد نے الرد علی اہل المدینہ لکھی۔ امام شافعی نے الرد علی محمد بن الحسن کے نام سے ایک پوراباب لکھا۔ عیسی بن ابان نے امام شافعی کی تردید میں ایک مستقل کتاب لکھی۔ پھراس کے بعد امام شافعی نے عیسی بن ابان کی کتاب کا جواب دیاجس کاجواب الجواب خصاف نے لکھا۔علماء کے درمیان مناقشہ اورتنقید توچلتاہی رہاہے کیااس کو بھی وجہ جرح شمار کردیاجائے گا۔

۔اگرفروعی مسائل میں اختلاف کی وجہ سے کوئی مجروح ہوسکتاہے توپھربڑے بڑے محدثین بھی مجروحین کی صف میں نظرآئیں گے۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ ابن ابی شیبہ نے اپنی مایہ ناز تصنیف "مصنف " میں ایک باب باندھاہے جس میں بزعم خود یہ ثابت کرنا چاہاہے کہ انہوں نے اس میں حدیث رسول کی مخالفت کی ہے۔ مقبل الوادعی کو چونکہ امام ابوحنیفہ سے کمال درجہ کابغض اورنفرت ہے اس لئے اس نے اس پورے باب کو باوجود طوالت وضخامت کے اپنی بیہودہ کتاب نشرالصحیفہ میں جگہ دی ہے۔ابن ابی شیبہ کے اعتراضات اس کتاب کے علماء نے قدیم دور سے ہی شافی کافی جواب دیئے ہیں۔جن میں صاحب جواہرالمضیئۃ حافظ قرشی اورحافظ قاسم بن قطلوبغا بطورخاص قابل ذکر ہیں۔ ماضی قریب میں نائب شیخ الاسلام خلافت عثمانیہ علامہ شیخ محمد زاہد الکوثری نے نہایت تحقیقی جواب النکت الطریفہ فی التحدث عن ردود ابن ابی شیبہ علی ابی حنیفہ کے نام سے لکھاہے جوطبع ہوکر قبول عام حاصل کرچکاہے۔
ابن ابی شیبہ کے علاوہ دوسرے بعض ظاہرپرستوں نے جن کے علم کی وسعت حدیث کے ظاہر حد تک محدود تھی جب امام ابوحنیفہ کے دقت مدارک تک اورلطیف استنباط تک نہ پہنچ سکے توان پر مختلف قسم کی جرحیں کردی۔جس کے نمونےکتب جرح کی مختلف کتابوں میں بکھڑے پڑے ہیں۔یہ اگرچہ بنیادی طورپر جرح نہیں ہے لیکن اس کے باوجود مقبل الوادعی نے نشرالصحیفہ میں اس کو بطورجرح ذکر کرکے اپنی کتاب کی ضخامت بڑھانے کی کوشش کی ہے۔

امام ابوحنیفہ پر محدثین کی جرح کی چوتھی قسم وہ ہے جوواقعتاجرح ہے اورجس میں انہوں نے محدثانہ حیثیت سے امام ابوحنیفہ پر کلام کیاہے

لیکن اس میں بھی دوحیثیتیں ہیں۔ اول تویہ کہ بیشتر جرحیں غیرمفسر ہیں۔یعنی جرح کاسبب اوراس کی وجہ بیان نہیں کیاگیا۔کچھ جرحیں ایسی ہیں جو واقعتامفسر ہیں لیکن اس کی تعداد بہت کم ہے ۔
ایسانہیں ہے کہ یہ چار تقسیم کرنے میں ہم نے کوئی جدت طرازی کی ہو اورکوئی نیاکام کیاہو یاکسی بدعت کو جگہ دی ہو بلک اس سے قبل حافظ ابن عبدالبر بھی قریب قریب وہی بات کہہ چکے ہیں۔ ہم ان کی بات بطور تائید پیش کررہے ہیں۔

قال ابوعمر:کثیرمن اھل الحدیث استجازواالطعن علی ابی حنیفۃ،لردہ کثیرامن اخبارالآحاد العدول، لانہ کان یذہب فی ذلک الی عرضھا علی مااجتمع علیہ من الاحادیث ومعانی القرآن ،فماشذ عن ذلک ردہ وسماہ شاذا،وکان مع ذلک ایضایقول: الطاعات من من الصلاۃ وغیرھا لاتسمی ایمانا،وکل من قال من قال من اھل السنۃ الایمان قول وعمل ینکرون قولہ، ویبدعونہ بذلک وکان مع ذلک محسودا لفھمہ وفطنتہ(الانتقاء ص277)
الانتقاء کے محقق شیخ عبدالفتاح ابوغدہ کہتے ہیں۔
رحم اللہ اباحنیفہ فقد لخص فی ھذہ الکلمات القلیلۃ سبب الطعن فی الامام ابی حنیفۃ ممن طعن فیہ من اھل الحدیث فذکر ثلاثۃ اسباب:

1 مسلک ابی حنیفہ فی العمل باخبارالآباد کماشرحہ

2 قولہ فی الطاعات لاتدخل فی مسمی الایمان

3 کونہ کان مع ذلک محسودا لفھمہ وفطنتہ
(الانتقاء ص277)
اس کے علاوہ حافظ ابن عبدالبر نے جامع بیان العلم میں بھی محدثین کرام کے امام ابوحنیفہ پر اعتراضات کے اسباب بیان کئے ہیں۔اس کیلئے دیکھئے۔(جامع بیان العلم وفضلہ1080)

یہاں ہم ایک بات صاف کردیں کہ امام ابوحنیفہ خبرواحد کو مطلقا رد نہٰیں کرتے تھے بلکہ اس سے جوامر فرض کے درجہ مین ثابت ہواہے خبرواحد سے اس فریضہ پر فرضیت کے درجے میں اضافہ کے قائل نہیں تھے بلکہ وجوب کے درجے میں اضافہ کے قائل تھے مثلا نماز فرض ہے نص قرآنی اوراحادیث کثیرہ متواترہ سے۔

اس کے بالمقابل ایک حدیث آتی ہے طمانیت کی جس نے نماز کے ارکان کو تعدیل کے ساتھ ادانہیں کیا طمانینت کے ساتھ نماز نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی۔ رسول پاک نے ایک شخص کوجلدی جلدی نماز پڑھتے دیکھ کر فرمایا۔ قم فصل فانک لم تصل
امام ابوحنیفہ تعدیل ارکان کو فرض نہٰیں کہتے بلکہ واجب کہتے ہیں۔ اس کوکوئی بھی شخص حدیث کی تردید نہیں کرے گا لیکن بعض لوگوں نے ائمہ احناف کے بیان میں اس مضمون کی پوری تشریح نہ ہونے کی وجہ سے یاپھر حسدوتعصب سے اس کو حدیث کی تردید وتغلیط کانام دے ڈالا۔ اسی بات کی بہترین انداز میں تشریح علامہ انورشاہ کشمیری نے بھی کی ہے اس کیلئے دیکھئے۔
 

ابوحبان

مبتدی
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
15
ری ایکشن اسکور
74
پوائنٹ
0
مثلا اسی کتاب میں ناقدین میں ابو الفتح محمد بن الحسين الازدي الموصلي کابھی تذکرہ ہے [ذكر من يعتمد قوله في الجرح والتعديل ص: 209]۔
اورخود حافظ ذہبی رحمہ اللہ انہیں اپنی بہت سی کتابوں میں ضعیف قرار دے چکے ہیں، جیساکہ تفصیل آگے آرہی ہے۔


کفایت بھائی یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ابو الفتح الازدی کو جارحین میں شمار کرکے پھر اس کو ضعیف قرار دیکر اس کی جرح کو رد کیا گیا ہے لیکن امام ابوحنیفۃ نے جو جرح وتعدیل کی ہے اسے تو سب نے لیا ہے اور استدلال میں بھی پیش کرتے ہیں جیسا کہ مارایت افضل من عطاء ولا اکذب من جابر الجعفی ہے ،
دوسری بات یہ ہے کہ کیا مجروح جارحین کی جرح مطلقا مردود ہے؟ ابن حجر العسقلانی الشافعی نے بھی فتح الباری میں الازدی کے کئی جروح کو رد کیاہے لیکن کئی جگھوں پر قبول بھی کیا ہے اگر اس سلسلہ میں شواہد درکار ہوں تو پیش کیا جائیگا لیکن شاید اس قسم کے شواہد آپ جیسے زیرک ساتھی کو ضرورت ہی نہیں
 
شمولیت
فروری 01، 2012
پیغامات
34
ری ایکشن اسکور
85
پوائنٹ
54
امام ذہبی کا سير أعلام النبلاء اور تذكرة الحفاظ میں کسی شخص کا ذکر کرنے سے ان کے نزدیک اس شخص کا ثقہ ہونا لازم نہیں ہوتا ء اس کی ایک مثال إبراهيم بن محمد بن أبى يحيى ہیں

سير أعلام النبلاء
إِبْرَاهِيْمُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ أَبِي يَحْيَى الأَسْلَمِيُّ
هُوَ الشَّيْخُ، العَالِمُ، المُحَدِّثُ، أَحَدُ الأَعْلاَمِ المَشَاهِيْرِ، أَبُو إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيْمُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ أَبِي يَحْيَى الأَسْلَمِيُّ مَوْلاَهُم، المَدَنِيُّ، الفَقِيْهُ.

تذكرة الحفاظ
إبراهيم بن محمد بن أبي يحيى الفقيه المحدث أبو إسحاق الأسلمي المدني أحد الأعلام

ميزان الاعتدال
إبراهيم بن أبى يحيى، هو أبو إسحاق إبراهيم بن محمد بن أبى يحيى الاسلمي المدنى، أحد العلماء الضعفاء.

المغني في الضعفاء
ابراهيم بن محمد بن ابي يحيى الاسلمي تركه جماعة وضعفه آخرون للرفض والقدر
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
مثلا اسی کتاب میں ناقدین میں ابو الفتح محمد بن الحسين الازدي الموصلي کابھی تذکرہ ہے [ذكر من يعتمد قوله في الجرح والتعديل ص: 209]۔
اورخود حافظ ذہبی رحمہ اللہ انہیں اپنی بہت سی کتابوں میں ضعیف قرار دے چکے ہیں، جیساکہ تفصیل آگے آرہی ہے۔


کفایت بھائی یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ابو الفتح الازدی کو جارحین میں شمار کرکے پھر اس کو ضعیف قرار دیکر اس کی جرح کو رد کیا گیا ہے لیکن امام ابوحنیفۃ نے جو جرح وتعدیل کی ہے اسے تو سب نے لیا ہے اور استدلال میں بھی پیش کرتے ہیں جیسا کہ مارایت افضل من عطاء ولا اکذب من جابر الجعفی ہے ،
دوسری بات یہ ہے کہ کیا مجروح جارحین کی جرح مطلقا مردود ہے؟ ابن حجر العسقلانی الشافعی نے بھی فتح الباری میں الازدی کے کئی جروح کو رد کیاہے لیکن کئی جگھوں پر قبول بھی کیا ہے اگر اس سلسلہ میں شواہد درکار ہوں تو پیش کیا جائیگا لیکن شاید اس قسم کے شواہد آپ جیسے زیرک ساتھی کو ضرورت ہی نہیں
ابوحبان بھائی ! آپ کے سوال کا جواب بہت ہی آسان ہے اس کے باوجود آپ سے گذارش ہے کہ جمشید صاحب کو اطمینان سے جواب لکھنے دیں ، اسکائی پی پر آپ سے گفتگو کے وقت میں نے کہہ دیا تھا کہ اس موضوع پر فرصت میں بات کریں گے بہتریہی ہوتا کہ ہم اس مسئلہ پر اسکائی پی پر ہی بات کرتے ، لیکن اگر آپ کو اس تعلق سے کچھ لکھنا بھی ہے تو اولا میری پوری تحریر پڑھ لیں اور ثانیا کسی دوسرے دھاگہ میں اپنی بات رکھیں یہاں صرف ہمارے اور جمشید صاحب کے بیچ بات چل رہی ہے اس موضوع کو ہم دونوں کے بیچ ہی رہنے دیں تو بہتر ہے باقی آپ کو لکھنے سے کوئی نہیں روک رہا ہے پورا فورم اس کے لئے موجود ہے آپ بآسانی دوسرا دھاگہ شروع کرسکتے ہیں۔
بارک اللہ فیک۔
 
شمولیت
فروری 01، 2012
پیغامات
34
ری ایکشن اسکور
85
پوائنٹ
54
لیکن اس عبارت کے حافظ ذہبی کی جانب مستند ہونے میں کئی شکوک وشبہات ہیں۔
اس مسئلہ کا آسان حل یہ ہے کہ اس پوسٹ کے مطابق ديوان الضعفاء کے تین نسخے موجود ہیں

أريد شراء مخطوط ديوان الضعفاء للذهبي

أريد شراء مخطوط ديوان الضعفاء للذهبي


ایک مكتبة أحمد الثالث ترکی میں، دوسرا مكتبة الظاهرية
دمشق میں اور تیسرا مكتبة الأحقاف يمن میں
ان تینوں کے موازنہ سے حقیقت ان شاء الله واضح ہو جائے گی
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
جیساکہ ماقبل میں آپ کفایت اللہ صاحب کی بات ملاحظہ کرچکے ہیں کہ یہ گفتگو ہمارے اورکفایت اللہ صاحب کے درمیان ہے لہذا اس کو ہم دونوں کے درمیان ہی رہنے دیجئے ۔
دوسرے بات صرف نسخہ کی نہیں بلکہ صحت نسبت کی بھی ہوگی ۔
 
شمولیت
فروری 01، 2012
پیغامات
34
ری ایکشن اسکور
85
پوائنٹ
54
جیساکہ ماقبل میں آپ کفایت اللہ صاحب کی بات ملاحظہ کرچکے ہیں کہ یہ گفتگو ہمارے اورکفایت اللہ صاحب کے درمیان ہے لہذا اس کو ہم دونوں کے درمیان ہی رہنے دیجئے ۔
دوسرے بات صرف نسخہ کی نہیں بلکہ صحت نسبت کی بھی ہوگی ۔
معذرت چاہتا ہوں آپ دونوں بحث جاری رکهیں

بات یہ ہے کہ کسی کتاب کی تحقیق میں اس کے قلمی نسخے نہایت اہم ہوتے ہیں ،
آپ کی پوسٹ سے لگتا ہے کہ آپ کے پاس موجود ہیں ، اگر نہیں تو ان تک رسائی کی کوشش میں کیا حرج ہے .
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top