اما م نسائی کا قلیل الروایٰۃ کہناازقبیل مرویات ہے نہ کہ اس اعتبار سے کہ وہ فی نفسہ کتنی حدیثوں کے ناقل وعالم تھے۔امام نسائی
آپ فرماتے ہیں:أبو حنيفة ليس بالقوي في الحديث وهو كثير الغلط والخطأ على قلة روايته [تسمية الضعفاء والمتروکين : 71]۔
ابن عدی نے بھی وہی بات کہی ہے جسے میں بار بار دوہراچکاہوں۔ وقد روى من الحديث یہ بات ازقبیل مرویات ہے یعنی امام ابوحنیفہ نے کتنی حدیث روایت کی ۔اس قبیل سے نہیں کہ وہ فی نفسہ کتنی حدیثیں جانتے تھے یاکتنی حدیثوں کے واقف کار اورحامل وناقل تھے۔ابن عدی
آپ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں:
أبو حنيفة له أحاديث صالحة وعامة ما يرويه غلط وتصاحيف وزيادات في أسانيدها ومتونها وتصاحيف في الرجال وعامة ما يرويه كذلك ولم يصح له في جميع ما يوريه الا بضعة عشر حديثا وقد روى من الحديث لعله أرجح من ثلاثمائة حديث من مشاهير وغرائب وكله على هذه الصورة لأنه ليس هو من أهل الحديث ولا يحمل على من تكون هذه صورته في الحديث [الكامل في الضعفاء 7/ 12]۔
اس کے علاوہ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ابن عدی کے شیخ جن کے واسطے سے ان کی سند امام ابوحنیفہ تک پہنچتی ہے وہ خود مجروح ہیں۔ لہذا ابن عدی کا اپنے مجروح شیخ کی حدیث کو امام ابوحنیفہ پر چسپاں کرنا مناسب نہیں ہے۔
اس بات کی دلیل کہ جس نے امام ابوحنیفہ کوقلیل الحدیث کہاہے وہ اپنے معلومات اوراس تک امام ابوحنیفہ کی حدیث پہنچنے کے اعتبار سے ہے۔ نہ یہ کہ نفس الامر میں امام ابوحنیفہ اتنی ہی حدیثوں کے حامل ہیں۔یہ ہےکہ
تاریخ بغداد جلد 15میں ابوبکر بن ابی داؤد کہتے ہیں۔
امام محمد بن حبان التميمي، البستي، متوفي354ھ رحمہ اللہ۔جمیع ماروی ابوحنیفہ من الحدیث مئۃ وخمسون حدیثاً
امام ابوحنیفہ نے کل 130حدیثیں روایت کی ہیں۔
یہ اختلاف ہی بتارہاہے کہ بات روایت کے اعتبار سے ہے۔نفس الامر کے اعتبار سے نہیں ہے۔ابن عدی کہتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ کی روایت 300سے زیادہ ہے۔
ابن حبان کی عادت ہے کہ وہ معمولی باتوںکو بڑھاچڑھاکر پیش کرتے ہیں۔ اورسوئی کوبلم بھالابنادیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بعد کے محدثین نے ان پر سخت تنقید کی ہے۔امام ابن حبان رحمہ اللہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
وكان رجلا جدلا ظاهر الورع لم يكن الحديث صناعته، حدث بمائة وثلاثين حديثا مسانيد ماله حديث في الدنيا غيرها أخطأ منها في مائة وعشرين حديثا.إما أن يكون أقلب إسناده، أو غير متنه من حيث لا يعلم فلما غلب خطؤه على صوابه استحق ترك الاحتجاج به في الاخبار.[المجروحين لابن حبان: 2/ 321]۔
حافظ ذہبی جن کے نام پر یہ تھریڈ قائم ہے۔ وہ ابن حبان پر سخت جرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
ایک دوسری جگہ وہ لکھتے ہیں۔«ابنُ حِبّان ربما جَرَح الثقة حتى كأنه لا يَدري ما يَخرج من رأسه!»ميزان الاعتدال (1|441)
تیسری جگہ لکھتے ہیں۔فأين هذا القول من قول ابن حبان الخَسَّاف المتهوِّر في عارم؟! فقال: "اختَلَط في آخر عمره وتغيّر، حتى كان لا يدري ما يُحدّثُ به. فوقع في حديثه المناكير الكثيرة. فيجب التنكب عن حديثه فيما رواه المتأخرون. فإذا لم يُعلَم هذا من هذا، تُرِكَ الكل ولا يُحتجّ بشيءٍ منها". قلتُ (أي الذهبي): ولم يقدر ابن حبان أن يسوق له حديثاً منكراً. فأين ما زعم؟!». ميزان الاعتدال: (6|298)
میزان میں ہی ایک دوسرے مقام پر وہ کہتے ہیں۔ «ابن حبان صاحب تشنيع وشغب»،(1|460)
ان نقولات کے بعد اب زیادہ ضرورت نہیں رہ جاتی ہے کہ ہم ابن حبان کے بارے میں مزید کچھ اپنی جانب سے عرض کریں۔ اگرچہ عرض کرنے کو بہت کچھ ہے۔فأين هذا من قول ذاك الخَسَّاف المتفاصِح أبي حاتم ابن حبان في عارم؟! سيراعلام النبلاء (10|267)
مجھے تواس میں کہیں بھی دور دور تک قلت روایت کاذکر نظرنہیں آرہاہے۔ آپ ہی بتادیں کہ اس میں کہاں سے امام ابوحنیفہ کی قلت روایت کاذکر مل رہاہے۔امام أبو عبد الله الحاكم النيسابوري المتوفى: 405ھ رحمہ اللہ۔
آپ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں:
النوع الحادي والخمسون : معرفة جماعة من الرواة لم يحتج بحديثهم ولم يسقطوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ هذا النوع من هذه العلوم معرفة جماعة من الرواة التابعين فمن بعدهم لم يحتج بحديثهم في الصحيح ولم يسقطوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ومثال ذلك في أتباع التابعين : موسى بن محمد بن إبراهيم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔أبو حنيفة النعمان بن ثابت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فجميع من ذكرناهم في هذا النوع بعد الصحابة والتابعين فمن بعدهم قوم قد اشتهروا بالرواية ولم يعدوا في الطبقة الأثبات المتقنين الحفاظ والله أعلم[معرفة علوم الحديث ص: 337]۔
اس کے برعکس اسی کتاب میں دوسرے مقام پر امام ابوحنیفہ کو ثقات روات مین شمار کیاہے۔
دیکھئے 49واں باب۔ اس میں لکھتے ہیں۔
پھراس کے بعد اہل مدینہ کا ذکر کیاہے۔ اہل مکہ کا ذکر کیاہے۔چنانچہ لکھتے ہیں۔ ومن اھل مکۃ مجاہد بن جبر، عمروبن دینار،وعبدالملک بن جریج،وفضیل بن عیاض وغیرھم ۔اس کے بعد اہل مصر کا ذکر کیاہے۔پھراہل شام کا ذکر کیاہے پھریمن والوں کا ذخر ہے۔ پھریمامہ والوں ذکر ہے اوراہل کوفہ میں وہ لکھتے ہیں۔ھذاالنوع من معرفۃ الائمۃ الثقات المشہورین من التابعین واتباعھم ،ممن یجمع حدیثھم للحفظ والمذاکرۃ والتبرک بھم،وبذکرھم من الشرق الی الغرب
ومن اہل الکوفۃ :عامر بن شراحل الشعبی، وسعید بن جبیرالاسدی،وابراہیم النخعی،وابواسحاق السبیعی،وحماد بن بی سلیمان،ومنصور بن المعتمر،ومغیرۃ بن مقسم الضبی،والاعمش الاسدی،ومسعر بن کدام الھلالی،وابوحنیفۃ النعمان بن ثابت التیمی،وسفیان بن سعید الثوری وداؤد بن نصیرالطاءی،وزفر بن الھذیل وعافیہ بن یزید القاضی وغیرھم وغیرھم
مجھے واقعتاحیرت ہے کہ آپ نے قلت روایت کو حافظ ذہبی کی جانب کس طرح منسوب کردیاجب کہ خود انہوں نے ان کا تذکرہ حفاظ حدیث کی فہرست میں کیاہے۔امام ذھبی شمس الدين محمد بن احمد الذہبي، متوفي748 ھ رحمہ اللہ۔
آپ مناقب ابی حنیفہ میں لکھتے ہیں:
قلت: لم يصرف الإمام همته لضبط الألفاظ والإسناد، وإنما كانت همته القرآن والفقه، وكذلك حال كل من أقبل على فن، فإنه يقصر عن غيره [مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه ص: 45]۔
حافظ ذہبی کے اس پورے قول میں قلت حدیث کی بات کہاں سے ملتی ہے۔ میں توحیران ہوں کہ حافظ ذہبی کے اس قول کو انہوں نے کس طرح قلت حدیث پر محمول کرنے کی کوشش کی ہے۔
اولاتویہ حافظ ذہبی کا اپناجملہ نہیں ہے بلکہ انہوں نے تلیین کرنے والوں کے قول کی وجہ کے طورپر لکھاہے۔
ثانیااس میں قلت حدیث کا ذکر نہیں ہے۔بالفرض زیادہ سے زیادہ جوبات کہی جاسکتی ہے کہ وہ حافظہ کے اعتبار سے ملین ہیں۔ اس سے قلت حدیث کا ثبوت کیسے ہوگیا۔ پھربھی ان کو شکوہ رہتاہے کہ ان کو خرد بین لگانے کامشورہ کیوں دیاجاتاہے۔ انہی وجوہات سے آپ کو خردبین لگانے کا مشورہ دیاگیاہے جس قول سے جوبات ثابت نہیں ہوپاتی اس کوبھی ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔
ثالثاً حافظ ذہبی نے خود امام ابوحنیفہ کا تذکرۃ الحفاظ مین ذکر کیاہے اوران کو حفاظ حدیث میں شمار کرتے ہیں ان کی جانب اس قول کی نسبت کرنے میں توکچھ شرم کرنی چاہئے۔
کفایت اللہ صاحب کو مشورہ ہے کہ اگراسی طرح ان کو اسی طرح گنتی پوری کرنی تھی اورتاویل القول بمالایرضی بہ القائل کا ثبوت دیناتھاتوپھر دس پر خواہ مخواہ اکتفاء کیا۔سوہزار تک بھی اپنے عدد پہنچاسکتے تھے۔
یحیی بن معین جس دور میں تھے اس مین محدثین کا دوردراز کا سفر کرنا اورایک حدیث کے کثیرطرق جمع کرنا شامل تھالہذا ان کے پاس حدیثوں کا ذکرطرق اورسند کی کثرت کی وجہ سے بہت زیادہ تھاجیساکہ خود یحیی بن معین،امام احمد بن حنبل،علی بن مدینی اوردوسرے محدثین کے بارے میں ہمیں ملتاہے کہ ان کے پاس لاکھوں حدیثیں تھیں۔آخرمیں جہاں تک اس کی بات ہے کہ یحیی بن معین نے امام ابوحنیفہ کو لابشی فی الحدیث کہاہے۔تواس کا مطلب سمجھناچاہئے
جیساکہ کفایت اللہ صاحب نے یہاں اس کو قلیل الحدیث کے معنی میں پیش کیاہے اور وہ صحیح بھی ہے۔لیکن قلیل الحدیث کس اعتبار سے۔
وقال أبو الحسن بن البراء ، سمعت عليا يقول : لا نعلم أحدا من لدن آدم كتب من الحديث ما كتب يحيى .
قال أحمد بن عقبة ، سألت يحيى بن معين : كم كتبت من الحديث ؟ قال : كتبت بيدي هذه ست مائة ألف حديث -قلت : يعني بالمكرر .
امام احمد بن حنبل کی مسند کے بارے میں جوروایتیں ہیں کہ انہوں نے لاکھوں حدیثوں سے اس کا انتخاب کیاہے وہ بھی سب کو معلوم ہی ہوگا۔ لہذا ابن معین کے قلیل الحدیث کہنے کامقصد یہی ہوسکتاہے کہ ان کے پاس دیگرمحدثین کی طرح ایک حدیث کے سینکڑوں طرق وغیرہ نہیں تھےقال أبو العباس السراج : سمعت محمد بن يونس ، سمعت علي بن المديني ، يقول : تركت من حديثي مائة ألف حديث ، منها ثلاثون ألفا لعباد بن صهيب .
لیکن نفس حدیث کے معاملے میں وہ قلیل الحدیث تھے یہ بات کہنا یا سمجھنا اسی قلت فہم کی نشانی ہے جس کی طرف سابق مین اشارہ کرچکاہوں۔
ہم اسے ایک مثال سے واضح کرتے ہیں۔
امام بخاری امیرالمومنین فی الحدیث بھی ہیں اورفقہ واجتہاد میں ان کا بڑامقام ہے۔لیکن دیکھئے سوائے شراحان صحیح بخاری کے کسی بھی فقیہہ نے ان کے فقہی اقوال سے تعرض نہیں کیاہے اوراس کی زحمت گوارانہیں کی ہے کہ جب وہ فقہاء کے مذاہب بیان کریں تواس میں امام بخاری کا فقہی مسلک بھی بیان کریں۔ خود ان کے شاگرد امام ترمذی حدیث ذکر کرنے کے بعد فقہاء کا مسلک بیان کرتے ہیں۔محدثین میں امام عبداللہ بن مبارک، احمد بن حنبل،اسحق راہویہ،کا ذکرتے ہیں۔ امام بخاری کاذکرنہیں کرتے۔ان کاذکر صرف وہیں کرتے ہیں جہاں کہ کوئی حدیث اوراس کے علل کے سلسلے کی بات ہو۔
اگراس سے کوئی شخص یہ مراد لے کہ امام بخاری فقیہہ نہیں ہیں تواس کے بارے میں میرے خیال سے آپ بھی جہالت وسفاہت سے کمترالفاظ استعمال نہیں کریں گے۔
اس کی وجہ کیاہے بس یہی ہے کہ کوئی شخص کئی فنون میں ماہر ہوتاہے لیکن کوئی ایک جہت اتنی غالب آجاتی ہے کہ دوسری تمام جہتیں دب جاتی ہیں ۔
انشاء اللہ وقت اورفرصت ملنے پر امام ابوحنیفہ کے علم حدیث کے تعلق سے کچھ لکھناچاہوں۔ ویسے اس موضوع پر دوکتابیں اچھی لکھی گئی ہیں۔ ایک تومکانۃ الامام ابوحنیفہ بین المحدثین دکتور محمد قاسم عبدہ حارثی کی ہے۔اوردوسری کتاب مکانۃ الامام ابوحنیفہ فی الحدیث مولانا عبدالرشید نعمانی (رحمہ اللہ)کی ہے۔ ان کا بھی مطالعہ کریں شاید کچھ نئی اورکام کی بات معلوم ہوجائے۔یہی حال بعینہ امام ابوحنیفہ کاہے۔ان پر فقہ کی جہت اتنی غالب آگئی کہ دوسری جہتیں جوان کے قاری کلام اللہ،ناقل حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی وہ دھیمی پڑگئی ۔
یہ توبالکل صحیح فرمایاہے آپ نے کہ امام ابوحنیفہ ضعیف ہیں تب بھی کوئی بات نہیں۔ قلیل الحدیث ہیں تب بھی کوئی بات نہیں۔ البانی سے نقل کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ حدیث کورد کردیاکرتے تھے۔ تب بھی کوئی بات نہیں۔ ابن تیمیہ والے تھریڈ میں جو امام ابوحنیفہ کے مبلغ علم کے تعلق سے گل افشانی کی ہے تب بھی کوئی بات نہیں۔ اس تھریڈ میں آگے چل کر رات بھر میں قرآن ختم کرنے کے تعلق سے امام ابوحنیفہ کے تعلق سے جو خوش گفتاری کی ہے تب بھی کوئی بات نہیں۔جمشیدصاحب نے امام صاحب کو قلیل الحدیث کہنے والوں کےحق میں جو سخت زبان استعمال کی ہے کیا اس کی زد میں یہ اجلہ محدثین نہیں آتے ؟؟؟ پھر یہ بات بھی ناقابل فہم ہے کہ امام صاحب کوقلیل الحدیث مان لینے میں کیا ان کی توہیں ہے؟؟؟ اس سے قبل والے مراسلے میں قارئین دیکھ سکتے ہیں کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے بہت سارے محدثین کو قلیل الحدیث بھی کہا ہے مگر ان کی جلالت شان اور ان کی عظمت و منقبت کو تسلیم بھی کیا ہے ، لہٰذا امام صاحب کو قلیل الحدیث مان لینے سے امام صاحب کی شان میں کوئی گستاخی نہیں ہے۔
کفایت اللہ صاحب کا ایمان تو اس وقت کھول اٹھتاہے اورحرارت ایمانی ١٠٠ڈگری سے اس وقت پار کرجاتی ہے جب حضرت ابن تیمیہ کے تعلق سے کوئی یہ کہے کہ ان کی طبیعت مین حدت وشدت ہے۔اوران کی تحریروں میں نسبتااعتدال وتوازن کم ہے۔
بس یہ سنتے کے ساتھ وہ تمام تحمل اوربرداشت اورخوش اخلاقی کاجومظاہرہ امام ابوحنیفہ کے سلسلے میں ہوتاہے غائب ہوجاتاہے اورغیرت ایمانی اس پر آمادہ کردیتی ہے کہ امام ابوحنیفہ کو خواہ مخواہ بحث کے بیچ میں گھسیٹاجائے اور وہ اقوال جن کو علماء نے بدبودار سمجھ کر خارج کردیاہے پھر سے چبایاجائے۔
اناللہ واناالیہ راجعون