• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا مقام ومرتبہ حافظ ذہبی کی نگاہ میں

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جزاکم اللہ خیرا وبارک فیکم کفایت اللہ بھائی جان، بہت ہی احسن انداز میں ایک ایک بات کو آپ نے علیحدہ علیحدہ رکھ کر سمجھا دیا ہے۔ الحمدللہ، معلومات میں تو بہت اضافہ ہوا ہی، لیکن انداز تحریر کی شائستگی سب سے زیادہ دل کو لگی۔ اللہ تعالیٰ آپ کے علم و عمل میں خوب برکتیں عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
بسم اللہ الرحمن الرحیم

کفایت اللہ صاحب نے بالآ خر اپنے جواب کے مکمل ہونے کا اعلان کیا۔ انہوں نے اس ناچیز کے معروضات پر بہت تفصیلی اورطولانی کلام کیاہے ۔ان کے ایک دومراسلات دیکھ کر یہ اندازہ ہوچلاتھاکہ بقیہ جواب کس قسم کاہوگا اوروہ آئندہ اپنے مراسلات میں کیاچیزیں پیش کریں گے۔ ارادہ توہواکہ اسی وقت سے ان کے مراسلات کا جواب لکھناشروع کردوں کیونکہ بقول غالب ۔۔۔۔۔۔۔۔

قاصد کے آتے آتے خط ایک اورلکھ رکھوں
میں جانتاہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں

لیکن پھر خود کوسمجھایاکہ ان کے آخری مراسلے تک انتظار کرلیتے ہیں اوردیکھتے ہیں شاید وہ کچھ نئی بات پیش کریں اورکچھ مستحکم دلائل سے اپنی بات کو مزین کریں توہمیں آئندہ کسی مراسلے کی ضرورت ہی نہیں ہوگی بلکہ ان کے دلائل کے سامنے سرتسلیم خم کردیں گے۔

لیکن کفایت اللہ صاحب کے پورے مراسلات ازاول تااخر دیکھ کر اجمالی تبصرہ یہی ہے کہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔انہوں نے اپنی پرانی باتیں ہی کچھ مزید پھیلاکر اورشرح واطناب کے ساتھ بیان کردی ہیں۔ گویا شراب وہی پرانی ہے صرف بوتل یاجام بدلاہے۔

اصولی بات :

میں نے اپنے مراسلے کی ابتداء میں ہی بتادیاتھاکہ گفتگو کا موضوع کیاہوگا۔ گفتگو کا موضوع ہے

امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا مقام ومرتبہ حافظ ذہبی کی نگاہ میں
یہ میں نے تھریڈ کا عنوان قائم کیاتھا۔ اس کے بعد میں نے لکھاتھا۔

پہلے یہ نقطہ طے کرلیں کہ بحث کا موضوع یہ ہے کہ کیاامام ذہبی نے امام ابوحنیفہ کو ضعیف قراردیاہے۔ اس لئے اس میں جوبھی بات ہوگی حافظ ذہبی کے اعتبار سے ہی ہوگی۔دوسروں کے اعتبار سے نہیں ہوگی اورہمیں امید ہے کہ کوئی دوسراشخص بھی اس میں خلط مبحث نہ کرے گا اورجوکوئی یہ بات کرے وہ علم اوراعتماد کے ساتھ بات کرے۔
اسے دیکھ کرکوئی بھی سمجھ سکتاہے کہ اصل بحث یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کا حافظ ذہبی کے نزدیک کیامقام ومرتبہ ہے۔ بات اس پر نہیں ہورہی ہے کہ حافظ ذہبی نے جن دلائل کی بناء پر ان کو یہ مقام ومرتبہ دیاہے وہ بذات خود کیسے ہیں۔ مجھے یاد پڑتاہے کہ ایک مرتبہ آنجناب نے اپنافلسفہ مجھے سمجھانے کی کوشش کی تھی اورچن محمد دیوبندی کے ذکر میں لکھاتھاجس کا مفہوم کچھ یوں تھا

کسی بات کاکسی تک ثابت ہونااوربات ہے اوراس بات کا صحیح ہونادوسری بات ہے
آپ اپنی اسی بات کو یہاں بھی یاد رکھیں کہ تھریڈ کا موضوع ہے حافظ ذہبی کی نگاہ میں، امام ابوحنیفہ کامقام ومرتبہ۔ نہ کہ فی الواقع کیاسچ ہے اورکیاغلط ہے۔ اگرآپ مزید وسعت کے طالب ہیں اورموضوع کی تنگی کا شکوہ ہے توپھررضاصاحب کے شروع کردہ تھریڈ میں اپنی بات رکھیں۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
ہرمصنف اپنی تصنیف میں ایک معیار ملحوظ رکھتاہے۔اوراسی کے اعتبار سے اس تصنیف کو دنیا دیکھتی ہے۔ مثلا کفایت اللہ صاحب ایک کتاب لکھیں "ہندوستان میں اردو کے عظیم ادباء"اب اس کتاب میں جس کابھی ذکر آئے گا اس کے بارے میں یہ سمجھنا درست ہوگاکہ وہ کفایت اللہ صاحب کے نزدیک اردو کا عظیم ادیب ہے۔ الایہ کہ کفایت اللہ صاحب خود کہہ دیں کہ فلاں کومیں نے ذکر کیاہے وہ اردو کا عظیم ادیب نہیں ہے لیکن میں نے فلاں وجہ سے اس کو ذکر کردیاہے تووہ اس سے مستثنی ہوگا۔ اب اگرکوئی ایساکرے کہ اس طرح کی دوچار مثالیں لے کر یہ ثابت کرناشروع کردے کہ کتاب میں موجود افراد کفایت اللہ صاحب کے نزدیک عظیم ادباء میں نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے چند ایسے ادیبوں کا ذکر کرکے پھران کو عظیم ادیب نہیں کہاہے۔ تواس کو سوائے اس کے یہ کیاکہاجائے گاکہ اس نے غلط سمجھ کر اپنے پور استدلال کی بنیاد اسی پر رکھی ہے۔

وکم من عائب قولاصحیحا
وافتہ من الفہم السقیم

کفایت اللہ صاحب کا تذکرۃ الحفاظ اورالمعین فی طبقات المحدثین اورذکر من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل میں امام ابوحنیفہ کے بارے میں تاویل وتوجیہ اسی فہم سقیم کے قبیل سے ہے۔
ذرادیکھتے چلیں کہ حافظ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں اپنے لئے کیامعیار قائم کیاہے۔

هذه تذكرة باسماء معدلى حملة العلم النبوي ومن يرجع إلى اجتهادهم في التوثيق والتضعيف، والتصحيح والتزييف وبالله اعتصم وعليه اعتمد واليه انيب.(تذکرۃ الحفاظ جلد1/2)

یہ ایسے حاملین علم نبوی کا ذکر ہے کہ راویوں کے توثیق وتضعیف اورحدیث کی تصحیح وتزییف میں ان کی جانب رجوع کیاجاتاہے۔اب اس کتاب میں جس کا بھی ذکر آئے گا۔اس کے بارے میں یہ باور کرناصحیح ہوگاکہ وہ اسی صفت سے متصف ہے جس کا حافظ ذہبی نے ذکر کیاہے۔الایہ کہ حافظ ذہبی کی صراحت خوداس کے خلاف ہو۔

حافظ ذہبی بیشتر طورپر اس کتاب میں مذکور فرد کا کیامقام ہے۔ وہ حدیث میں کیساہے ۔ اس کی وضاحت کرتے چلے جاتے ہیں۔خود کفایت اللہ صاحب نے اس سلسلے میں پانچ مثالیں پیش کی ہیں۔

١:أبو بشر أحمد بن محمد بن عمرو بن مصعب بن بشر بن فضالة المروزي:
المصعبي الحافظ الأوحد أبو بشر أحمد بن محمد بن عمرو بن مصعب بن بشر بن فضالة المروزي الفقيه إلا أنه كذاب [تذكرة الحفاظ: 3/ 18]۔


٢: إبراهيم بن محمد بن أبي يحيى الفقيه المحدث أبو إسحاق الأسلمي المدني۔
امام ذہبی اپنی اسی کتاب میں اس راوی کا تذکرہ کرتے ہوئے اہل فن سے ناقل ہیں:
وقال يحيى القطان: سألت مالكا عنه أكان ثقة في الحديث قال: لا، ولا في دينه. وقال أحمد بن حنبل: قدري جهمي كلا بلاء فيه ترك الناس حديثه. وقال ابن معين وأبو داود: رافضي كذاب. وقال البخاري: قدري جهمي تركه ابن المبارك والناس.[تذكرة الحفاظ: 1/ 181]۔




٣:محمد بن عمر بن واقد الأسلمي۔
امام ذہبی اپنی اسی کتاب میں اس کاتذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
الواقدي هو محمد بن عمر بن واقد الأسلمي مولاهم أبو عبد الله المدني الحافظ البحر [تذكرة الحفاظ:1/ 254]۔یہ اس قدر ضعیف راوی ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس کا مکمل ترجمہ بھی نقل نہیں کیا ہے۔


پوراترجمہ دیکھئے۔
الواقدي هو محمد ابن عمر بن واقد الاسلمي مولاهم أبو عبد الله المدني الحافظ البحر لم اسق ترجمته هنا لا تفاقهم على ترك حديثه وهو من اوعية العلم لكنه لا يتقن الحديث وهو رأس في المغازي والسير ويروى عن كل ضرب.مات سنة سبع ومائتين، حمل عن ابن عجلان وابن جريج ومعمر وهذه الطبقة.ولى قضاء بغداد، وكان له رئاسة وجلالة وصورة عظيمة.عاش ثمانيا وسبعين سنة رحمه الله وسامحه 1/348)


٤: أبو العباس محمد بن يونس بن موسى القرشي السامي البصري۔
امام ذہبی رحمہ اللہ اپنی اس کتاب میں اس کا بھی تذکرہ کیا ہے اورساتھ ہی میں اس پرشدید جرح بھی کی ہے ، لکھتے ہیں:
الكديمي الحافظ المكثر المعمر أبو العباس محمد بن يونس بن موسى القرشي السامي البصري محدث البصرة وهو واه [تذكرة الحفاظ:2/ 144]۔



٥: أبو معشر نجيح بن عبد الرحمن السندي۔
امام ذہبی رحمہ اللہ اپنی اسی کتاب میں ان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
أبو معشر السندي المدني الفقيه صاحب المغازي، هو نجيح بن عبد الرحمن تذكرة الحفاظ


اس میں حافظ ذہبی کی عبارت دیکھ لیجئے۔

أبو معشر السندي المدني الفقيه صاحب المغازي، هو نجيح بن عبد الرحمن: كاتب امرأة من بني مخزوم فأدى إليها فاشترت أم موسى بنت منصور ولاءه في ما قيل وكان من أوعية العلم على نقص في حفظه. رأي أبا أمامة بن سهل وروى عن محمد بن كعب القرظي وموسى بن يسار ونافع وابن المنكدر ومحمد بن قيس وطائفة. ولم يدرك سعيد بن المسيب وذلك في جامع أبي عيسى الترمذي، وأظنه سعيدا المقبري فإنه يكثر عنه، حدث عنه ابنه محمد وعبد الرزاق وأبو نعيم ومحمد بن بكار ومنصور بن أبي مزاحم وطائفة. قال ابن معين: ليس بقوي. وقال أحمد بن حنبل: كان بصيرا بالمغازي صدوقا وكان لا يقيم الإسناد. وقال أبو نعيم: كان أبو معشر سنديا الكن

توگویا یہ پانچوں تراجم ایسے ہیں جس کوحافظ ذہبی نے حفاظ میں بھی شمار کیاہے اورعدالت وضبط میں جوکمی تھی اس کی بھی وضاحت کردی ہے۔ اس کے برعکس امام صاحب کے ترجمہ میں دیکھئے ۔ جرح کا ایک بھی لفظ نہیں ہے۔ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے پتہ چلتاہے کہ حفظ اورضبط کے اعتبار سے ان میں کوئی کمی تھی۔ اب اگراس کوحافظ ذہبی کی شرط پر حملۃ العلم النبوی میں شمار کرتاہے اوران میں جن کی جانب حدیث کی تصحیح وتضعیف میں رجوع کیاجاتاہے توکیاوہ کچھ غلط کرتاہے؟ سارامسئلہ یہ ہے کہ کفایت اللہ صاحب دوسرے روات پر کہی گئی باتوں کو امام صاحب پر چسپاں کرناچاہتے ہیں جب کہ خود امام صاحب کے ترجمہ میں جوکچھ ذکر کیاہے اس کا ذکر کیاجاناپسند نہیں کرتے۔
دیکھیں امام ابوحنیفہ کا پوراترجمہ جو تذکرۃ الحفاظ میں ہے۔

أبو حنيفة الامام الاعظم فقيه العراق النعمان بن ثابت بن زوطا التيمي مولاهم الكوفي مولده سنة ثمانين رأى انس بن مالك غير مرة لما قدم عليهم الكوفة رواه ابن سعد عن سيف بن حابر انه سمع ابا حنيفة يقوله وحدث عن عطاء ونافع وعبد الرحمن بن هرمز الاعرج وعدى بن ثابت وسلمة بن كهيل وابي جعفر محمد بن علي وقتادة وعمرو بن دينار وابي اسحاق وخلق كثير، تفقه به زفر بن الهذيل وداود الطائي والقاضى أبو يوسف ومحمد بن الحسن واسد بن عمرو والحسن بن زياد الؤلؤى ونوح الجامع وابو مطيع البلخي وعدة.
وكان قد تفقه بحماد بن ابي سليمان وغيره وحدث عنه وكيع ويزيد بن هارون وسعد بن الصلت وابو عاصم وعبد الرزاق وعبيد الله بن موسى وابو نعيم وابو عبد الرحمن المقرى وبشر كثير.
وكان اماما ورعا عالما عاملا متعبدا كبير الشأن لا يقبل جوائز السلطان بل يتجر ويتكسب.
قال ضرار بن صرد سئل يزيد بن هارون ايما افقه الثوري أو
أبو حنيفة ؟ فقال: أبو حنيفة افقه وسفيان احفظ للحديث.
وقال ابن المبارك: أبو حنيفة افقه الناس.
وقال الشافعي: الناس في الفقه عيال على ابي حنيفة.
وقال يزيد ما رأيت احدا اورع ولا اعقل من ابي حنيفة.
وروى احمد بن محمد بن القاسم بن محرز عن يحيى بن معين قال: لا بأس به لم يكن يتهم.ولقد ضربه يزيد بن عمر بن هبيرة على القضاء فابى ان

(1/168)


--------------------------------------------------------------------------------

يكون قاضيا.
قال أبو داود رحمه الله ان ابا حنيفة كان اماما.وروى بشر بن الوليد عن ابي يوسف قال كنت امشي مع ابي حنيفة فقال رجل لآخر: هذا أبو حنيفة لا ينام الليل، فقال: والله لا يتحدث الناس عنى بما لم افعل، فكان يحيي الليل صلاة ودعاء وتضرعا.
قلت مناقب هذا الامام قد افردتها في جزء.
كان موته في رجب سنة خمسين ومائة رضى الله عنه.
انبأنا ابن قدامة اخبرنا ابن طبرزذ انا أبو غالب بن البناء انا أبو محمد الجوهري انا أبو بكر القطيعي نا بشر بن موسى انا أبو عبد الرحمن المقرئ عن ابي حنيفة عن عطاء عن جابر انه رآه يصلى في قميص خفيف ليس عليه ازار ولا رداء قال.
ولا أظنه صلى فيه الا ليرينا انه لا بأس بالصلاة في الثوب الواحد.
یہی بات المعین فی طبقات المحدثین کی ہے اس میں انہوں نے علم حدیث سے واقفیت رکھنے والے کیلئے ضروری قراردیاہے کہ وہ ان محدثین کے نام جانے ۔چنانچہ وہ مقدمہ میں لکھتے ہیں۔

المعین فی طبقات المحدثین کے ذکر میں وہ لکھتے ہیں۔

فھذہ مقدمۃ فی ذکر اسماء اعلام حملۃ الاٰثار النبویہ تبصرالطالب النبیہ وتذکر المحدث المفید بمن یقبح بالطلبۃ ان یجھلوھم ولیس ھذا کتاب بالمستوعب للکبار بل لمن سار ذکر ہ فی الاقطار والاعصار،وباللہ اعتصم والیہ انیب (المعین فی طبقات المحدثین)
یہ مقدمہ آثارنبوی کے حاملین کاہے جس سے طالب علم کوبصارت اورمحدث مفید کو یاددہانی حاصل ہوگی اوریہ ایسے محدثین پرمشتمل ہے جس سے لاعلم رہنابراہے۔اس کتاب میں تمام کبار محدثین کا ذکر نہیں کیاگیاہے۔ بلکہ ان کبار محدثین کا ذکر کیاگیاہے جن کی شہرت ملکوں اوزمانوں میں پھیلی ہوئی ہے۔

اس سے معلوم ہوگیاکہ حافظ ذہبی امام صاحب کو کبارمحدثین میں شمار کرتے ہیں اوروہ ایسے محدثین میں ہیں جن کی شہرت ملکوں اورزمانوں پر محیط ہے۔

) اس کے علاوہ ذکر من یعتمد قولہ فی الجرح میں حافظ ذہبی لکھتے ہیں۔
فلما کان عندانقراض عامۃ التابعین فی حدود الخمسین ومئۃ تکلم طائفۃ من الجھابذۃ فی التوثیق والتضعیف فقال ابوحنیفۃ :مارایت اکذب من جابر الجعفی وضعف الاعمش جماعۃ ووثق الآخرین وانتقد الرجال شعبہ ومالک (صفحہ 5،اربع رسائل فی علوم الحدیث 175)
ہمیں حیرت اس بات پر ہے کہ کفایت اللہ صاحب امام صاحب کا محدث ہوناحافظ حدیث ہونا اورروات کی جرح وتعدیل کرنا سب کچھ تسلیم کرتے ہیں۔
امام صاحب حفاظ حدیث کی صف میں ہیں اس سے کس کو اختلاف ہے؟؟؟احادیث کی روایت میں انہوں نے بھی حصہ لیا ہے اور اس معنی میں وہ محدث بھی ہیں اور حفاظ کی صف میں شامل بھی ہیں
لیکن پھر معااپنی بات سے یوں کہہ کر پلٹ جاتے ہیں۔
یہ تو بالکل وہی مثال ہوئی کی انگلی کٹا کے شہیدوں میں نام لکھانا !!!
انگلی کٹا کر کوئی شہیدوں کی صف میں تو کھڑا ہوسکتا ہے مگر شہادت کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا، صف میں کھڑے ہونے میں اورصف میں میں دوسروں کا مقام پانے میں بڑا فرق ہے ، بات امام ذہبی کی ہورہی ہے تو آپ امام ذہبی ہی کی کوئی ایسی صریح روایت پیش کردیں کہ جس میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ’’حافظ‘‘ کے لقب سے ملقب کیا ہو!!!

کفایت اللہ صاحب کی اس بات نے کہ امام ابوحنیفہ حفاظ حدیث کی صف میں ہیں لیکن حافظ نہیں ہے۔ شعر کی ایک صنعت ،صنعت تضاد کی یاد تازہ کردی ہے۔

انگلی کٹا کر کوئی شہیدوں کی صف میں تو کھڑا ہوسکتا ہے مگر شہادت کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا، صف میں کھڑے ہونے میں اورصف میں میں دوسروں کا مقام پانے میں بڑا فرق ہے۔
یہ تقریر بھی مدعا عنقاہے اپنے عالم تقریر کا کے قبیل سے ہے۔ کیاکہناچاہ رہے ہیں المعنی فی بطن القائل۔حفاظ حدیث کی صف میں ہیں لیکن حافظ نہیں ہے گویاجنرلوں کی فہرست میں آپ کانام ہے لیکن آپ جنرل نہیں۔ پولس کے اعلیٰ حکام کی فہرست میں آپ کا نام ہے لیکن آپ اعلیٰ پولس افسر نہیں ہیں۔ اس سے بھی زیادہ بے کار بات اورکوئی اورہوسکتی ہے؟

آپ امام ذہبی ہی کی کوئی ایسی صریح [/COLOR]روایت پیش کردیں کہ جس میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ’’حافظ‘‘ کے لقب سے ملقب کیا ہو
اپ نے توہم سے مطالبہ کردیاہے کہ ہم کہیں سے لفظ الحافظ دکھائیں۔ اگرہم نے جوابی مطالبہ کردیاہے کہ کہیں حافظ ذہبی کی زبان سے لکھادکھائیں ابوحنیفہ ضعیف ۔پھر کیاہوگا؟ کیاآنجناب سے یہ چھوٹاسامطالبہ ہم کرسکتے ہیں۔ اب اس پر جوجواب آنجناب کا ہوگا۔ وہی جواب میرابھی ہوگا۔

قلیل الروایۃ بہت سارے تراجم کے ساتھ لکھاہوادکھایاضرورآپ نے لیکن افسوس ہے کہ اس کا صحیح مطلب سمجھنے سے قاصر رہے۔ فلاں کثیر الروایہ ہے اورفلاں قلیل الروایہ ہے اس بارے مین سطحی نظر سے فیصلہ نہیں کرناچاہئے بلکہ

1: اولاتویہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ احادیث کا ذخیرہ جوہم سنتے ہیں کہ فلاں محدث کو چھ لاکھ حدیثیں یاد تھیں۔فلاں کو دس لاکھ حدیث یاد تھی۔ اورفلاں کو اتنی زیادہ یاد تھی ۔ تواس سے کسی غلط فہمی میں نہیں پڑناچاہئے کہ بعد والوں کو متقدمین سے زیادہ علم حدیث میں رسوخ اورملکہ تھا بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ایک حدیث کے جتنے طرق ہوتے جاتے ہیں۔ اس کواتنی ہی حدیث سے تعبیر کیاگیاہے۔ مثلا حدیث انماالاعمال بالنیات جوحضرت عمر سے مروی ہے۔ دورکبار تابعین کے زمانہ میں صرف اسکایہی طریقہ تھا بعد کے زمانہ میں جب علم حدیث سے اشتغال رکھنے والوں کی کثرت ہوئی تو بیان کیاجاتاہے کہ اس کے 700طرق ہوگئے۔ گویایہ 700حدیثیں ہوگئیں۔
اب کوئی بتائے کہ کبار تابعین میں سے جس کو یہ حدیث صرف ایک طرق سے ملی تھی اوربعد والے کو جس کو 700طرق سے ملی دونوں میں نفس حدیث کے علم کے لحاظ سے کیافرق رہا۔

صحیح حدیثوں کی تعداد طرق کے بغیرزیادہ نہیں ہے۔۔توجس کا زمانہ دور نبوی سے قریب رہاہے اس زمانے میں طرق کی یہ کثرت نہیں تھی لہذا اگرکسی نے احکام وغیرہ کی احادیث کے ساتھ 7ہزار یا8ہزار حدیثیں حاصل کرلیں اوربعد والوں نے انہی احادیث کو بے تحاشہ طرق اورسند کے ساتھ حاصل کیاتونفس حدیث کے علم کے اعتبار سے دونوں میں کیافرق رہا۔
اس لحاظ سے اگرمتقدمیں سے کسی کو قلیل الحدیث کہاجائے تواس پر تالیاں بجانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کا صحیح محمل سمجھنے کی ضرورت ہے۔

2: دوسرے اس فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک ہے نفس حدیث کا علم ہونا دوسرے اس کو روایت کرنا۔ یہ دو الگ الگ باتیں ہیں۔ بہت سے لوگ ان دونوں میں فرق اورامتیاز کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اورجہاں کسی بڑے تابعی کے ساتھ قلیل الحدیث یاقلیل الروایہ کا ذکر آتاہے ۔ غلط فہمی سے یہ سمجھ جاتے ہیں کہ ان کے علم حدیث کا مبلغ یہی دوتین سوحدیثیں یا اس سے تھوڑی سے زیادہ ہوں گی۔ یہ عین ممکن ہے بلکہ واقع ہے کہ ایک شخص نے حدیث کا علم بہت حاصل کیا ہو لیکن خود کو روایت حدیث کیلئے فارغ نہیں کیابلکہ قضاء کی ذمہ داری یاکسی دوسرے علمی کام میں مشغول رہا۔ظاہر سی بات ہے کہ ایسی صورت میں اس کی روایت کی تعداد بہت کم ہوگی۔ لہذا اس سے کسی کو نفس علم حدیث میں کم سمجھنابڑی بھول ہے۔

صحابہ کرام میں آپ اس کی مثال دیکھیں حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ سے کتنی حدیثیں مروی ہیں اورحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کتنی حدیثں مروی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کوئی احمق ہی ہوگاجویہ سمجھنے کی غلط فہمی کرے گاکہ حضرت ابوبکر کے پاس حدیثوں کا ذخیرہ کم تھا۔
کبار تابعین میں سے قاضی شریح کو دیکھیں جن کے بارے میں حافظ ذہبی نے لکھاہے کہ وہ قلیل الحدیث ہیں۔ یعنی ان سے بہت کم روایتیں مروی ہین کیونکہ انہوں یہ بات مشہور ومعروف ہے کہ وہ مخضرمین میں سے ہےیعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایالیکن ملاقات نہ ہوئی۔ انتقال کے بعد اسلام لائے۔ حضرت عمر ان کے بے لاگ فیصلوں سے متاثر تھے۔ خود ایک اعرابی کے ساتھ گھوڑے کے معاملہ میں ان کو حکم بنایااوراپنے خلاف ان کے بے لاگ فیصلہ کو سن کر بڑے متاثر ہوئے اور کہاکہ ھل القضاء الاھکذا قول فصل وحکم عدل ۔

(تفصیلات کیلئے الاصابہ دیکھیں اس وقت کتاب حاضر نہیں ہے جو لکھاہے یادداشت سے لکھاہے۔ہوسکتاہے کہ الفاظ میں کچھ ردوبدل ہوگیاہولیکن مفہوم یہی ہے۔)

پھر اس کو کوفہ کا قاضی بنادیا۔وہ ساٹھ سال قضاء کے منصب پر رہے۔ جس کو رات دن مختلف فیصلوں سے واسطہ پڑتاہو کیااس کے پاس حضور کی احادیث احکام کا بڑاذخیرہ نہ ہوگا۔جب کہ حضرت عمر نے جو خط حضرت قاضی شریح کو بھیجاتھاوہ فقہاء کے درمیان مشہور ومعروف ہے اورایک دستاویز کی حیثیت رکھتاہے۔ جس میں کسی مسئلہ کو کتاب اللہ مین اولا اورپھر سنت نبوی مین ڈھونڈنے کا ذکرہے۔ توکیایہ بات باورکی جاسکتی ہے کہ قاضی شریح نے ساٹھ سالہ کے عرصہ میں انگنت فیصلے یوں ہی متعلقہ احادیث کو ڈھونڈے بغیر کیاہوگا۔
اوراس کی سب سے بڑی دلیل کہ قلیل الحدیث سے قلیل الروایہ مراد ہیں۔ خود قاضی شریح کا تذکرۃ الحفاظ میں تذکرہ ہے۔ اگروہ قلیل الحدیث ہیں جیساکہ ہمیں کفایت اللہ صاحب باور کرانے پر تلے ہیں۔توپھرتذکرۃ الحفاظ میں ان کے تذکرہ کی کیاتک بنتی ہے ۔

44-21/2خ س-شريح بن الحارث بن قيس القاضي أبو أمية الكندي الكوفي الفقيه ويقال شريح بن شرحبيل: من المخضرمين استقضاه عمر على الكوفة ثم علي فمن بعده وحدث عن عمر وعلي وابن مسعود رضي الله عنهم. وعنه الشعبي والنخعي وعبد العزيز بن رفيع ومحمد بن سيرين وطائفة استعفى من القضاء قبل موته بسنة من الحجاج(تذکرۃ الحفاظ 1/46)

3: تیسرے یہ کہ ایک شخص کثیر حدیث کا علم رکھتاہے لیکن گوشہ گیر ہے گمنامی پسند کرتاہے اس سے بھی اس سے روایتیں کم ہوتی ہیں۔ ایسے میں یہ گمان کرنا کہ نفس الامر میں بھی وہ شخص قلیل الحدیث ہے۔ علم حدیث سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ مثلا دیکھیں مشہور مخضرمی اورتابعی اورفقہ حنفی کے موسسین میں سے ایک حضرت علقمہ بن مرثد کے ذکرمیں ہے۔

أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بنُ طَارِقٍ، أَنْبَأَنَا أَبُو المَكَارِمِ التَّيْمِيُّ، أَنْبَأَنَا الحَدَّادُ، أَنْبَأَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ أَحْمَدَ بنِ الحَسَنِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بنُ غِيَاثٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنِ المُسَيَّبِ بنِ رَافِعٍ، قَالَ:قِيْلَ لِعَلْقَمَةَ: لَوْ جَلَسْتَ فَأَقْرَأْتَ النَّاسَ وَحَدَّثْتَهُم.قَالَ: أَكْرَهُ أَنْ يُوْطَأَ عَقِبِي، وَأَنْ يُقَالَ: هَذَا عَلْقَمَةُ.(سیراعلام النبلاء4/60)

4: کسی سے حدیث کم ہونے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بسااوقات ایک شخص کئی علوم میں ماہر ہوتاہے لیکن کوئی ایک جہت اس پر اتناغالب آجاتی ہے کہ دوسرے جہت کو تمام لوگ بھلابیٹھتے ہیں۔ مثلا دیکھیں امام بخاری کے محدث ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ اسی طرح وہ فقیہ اورمجتہد بھی تھے لیکن ان کی فقاہت اوراجتہاد کی صفت دبی ہوئی ہے۔ کسی نے بھی ان کے اقوال کو ذکر کرنے کی فقہاء میں سے ضرورت نہیں سمجھی۔ سوائے شراحان بخاری حدیث کے۔ خود کے شاگرد امام ترمذی نے اپنی سنن یاالجامع میں ان کے اقوال ذکر نہیں کئے اس کی جگہ ابن مبارک،اسحق بن راہویہ،احمد بن حنبل اورسفیان ثوری اوردیگر اہل کوفہ (یعنی امام ابوحنیفہ)کاذکرکیاہے اوربعد کے شاید ہی کسی فقیہ نے ان کے فقہی اقوال کی جانب توجہ دی ہو۔

اس سے جس طرح یہ قیاس غلط اوراحمقانہ ہوگاکہ امام بخاری صرف محدث ہیں فقیہہ نہیں ہیں۔ اسی طرح یہ قیاس بھی بعض حضرات کا غلط ہے کہ امام ابوحنیفہ صرف فقیہہ ہیں محدث نہیں ہیں۔ اوراس کی دلیل صرف یہ بناتے ہیں کہ کتب ستہ میں ذکر نہیں ہے۔

6: وجہ یہ ہے کہ بہت سے حضرات ایسے تھے جنہوں نے کبار صحابہ سے دین کا علم حاصل کیاتھا اوردین کا علم اس زمانہ میں تھاہی کیا قران وحدیث اوران دونوں کا ثمرہ فقہ۔لیکن وہ جوار رحمت میں جلد ہی منتقل ہوگئے ۔اس لئے لوگوں نے ان کی جانب رجوع نہیں کیایالوگ ان سے مستفید نہیں ہوئے ۔یہ بھی ایک بڑی وجہ کبار صحابہ کے حدیث کم ہونے کی ہے۔ ہاں اگران کی بھی لمبر عمر ہوتی اورزمانہ دراز تک وہ رہتے توان سے بھی لوگ استفادہ کرتے اوران کے علم کااظہار ہوتالیکن اس کی نوبت ہی نہیں آئی ۔

یہ میں نے کسی کے قلیل الحدیث ہونے کی چند موٹی موٹی وجوہات بیان کی ہیں کہ ایک شخص علم حدیث میں وسیع علم کے حامل ہوتے ہوئے بھی کس طرح اس کی روایتیں بہت کم ہوجاتی ہیں۔ میراخیال ہے کہ اس بحث کو اگرکفایت اللہ صاحب غورسے پڑھیں گے توشاید جلد بازی میں قائم کی گئی اپنی رائے بدل دیں۔ والسلام
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
محترم جمشید صاحب !
کسی عالم ،راوی کی حقیقت معلوم کرنا ہو تو اس کو اصول و ضوابط کی روشنی میں دیکھنا ہو گا کہ آیا یہ عالم یا راوی کس درجہ کا ہے۔اہل علم تمام اصول وضوابط کو دیکھ کر ہی فیصلہ کریں گے نہ کہ صرف ایک عالم کی بات مان کر کسی راوی کی درجہ بندی مقرر کی جائے گی ۔اب آپ سے التماس ہے کہ اس میں غور کریں اور خود ہی اصول محدثین کی روشنی میں تمام ائمہ محدثین رحمہم اللہ کے اقوال ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے متعلق دیکھیں اور نتیجہ اخذ کریں جو آپ سمجھیں وہ ہم کو بھی سمجھا دیں۔ بات ختم ۔اگر آپ نے ننتیجہ صحیح اخذ کیا تو شاباش اور اگر نتیجہ میں کسی بے راہ روی کا شکار ہوئے تو اس کو واضح کر دیا جائے گا ۔

یہ بھی یاد رہے کہ فیصلہ مناظر نہیں کرتا بلکہ سامعین اور قارئین ہی کرتے ہیں آپ کی تحریریں پڑھ کر قارئین نتیجہ بالکل واضح نکال لیتے ہیں ۔اب آپ کی مرضی ۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
میں ابن بشیر صاحب کی بات سے اتفاق رکھتا ہوں۔ میری گذارش ہے کہ اگر حافظ ذہبی اور چند علماء کے علاوہ بھی اگر دوسرے تمام محدثین کے اقوال اس مسئلے میں بتا دیے جائیں، تو اچھا رہے گا۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
بشیرصاحب اوررضاصاحب !دونوں حضرات خلط مبحث سے اس بحث کو محفوظ رکھیں اوراگرتمام علماء کے اقوال کو ذکر کرناہے تورضاصاحب اپنے شروع کردہ تھریڈ ’کیاامام ابوحنیفہ ثقہ ہیں‘میں اپنے جوہردکھائیں ۔اس تھریڈ کا موضوع صرف حافظ ذہبی اورامام ابوحنیفہ ہیں اس لئے اس کو اسی تک محدود رکھیں ۔مہربانی ہوگی ۔
دوسری بات میراجواب مکمل ہونے سے قبل براہ کرم اس تھریڈ میں اپنے مراسلے پوسٹ نہ کیاکریں ۔جب جواب مکمل ہوجائے توپھر جومرضی وہ پوسٹ کیجئے ۔والسلام
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جمشید بھائی جان، ازراہ کرم اگر آپ کا جواب مکمل نہ ہوا ہو تو پوسٹ کے آخر میں ’جاری ہے‘ لکھ دیا کریں۔ اوپر آپ کی پوسٹ کے آخر میں والسلام کے لفظ سے یہی محسوس ہوا کہ شاید آپ کی بات ختم ہو گئی ہے۔ میری اس پوسٹ سمیت درج بالا تینوں پوسٹس کو کچھ دن میں نامنظور کر کے آپ کا جواب ختم ہونے کے بعد کسی مقام پر منتقل کر دیا جائے گا۔ ان شاءاللہ۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
میں نے کہاتھا۔
اورجولوگ امام ابوحنیفہ کو قلیل الحدیث کہتے ہیں وہ جہالت وسفاہت کامظاہرہ اورمجاہرہ دونوں کررہے ہیں۔
اس پر کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں۔

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ قلیل الحدیث ہیں یا کثیر الحدیث یہ ہماری تحریر کا موضوع بالکل نہیں تھا اس کے باوجوبھی جمشید صاحب نے جواب میں اس پر بھی بات کرنا ضروری سمجھا اگر جمشید صاحب نے سادہ لفظوں یہ بات کہی ہوتی تو موضوع سے غیر متعلق اس بات کو نظر انداز کرکے ہم آگے بڑھ جاتے مگر آن جناب نے بڑے سخت قسم کے الفاظ میں یہ بات رکھی ہے، لکھتے ہیں:
امام ابوحنیفہ قلیل الحدیث تھے اس پر بحث کرنے سے قبل اس سے قبل کے مراسلے میں قلت حدیث کے جواسباب بیان کئے ہیں۔ اس پر ایک نگاہ ڈال لیجئے۔اس کے علاوہ ایک اورسبب جومناسب ہے وہ عرض کردوں۔
ہرمحدث نے حدیث بیان کرنے میں،حدیث لینے میں اورحدیث کوکتابوں میں لکھنے میں اپناایک معیار قائم کیاہے۔اسی معیار کے حساب سے حدیثیں کم اورزیادہ روایت کی گئی ہیں۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں سخت شرطیں رکھیں ۔اس لئے کتاب میں کم حدیثیں ہیں۔ امام احمد بن حنبل نے کمزور شرطیں اپنی مسند کیلئے طے کیاتوپچاس ہزارحدیثیں اس میں ہوگئیں۔
امام شعبہ احادیث کے اخذ کرنے میں بڑے محتاط تھے اورانہی سے روایت لیتے تھے جس پر ان کو پورابھروسہ ہوتاتھا۔اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے پاس موجود حدیثوں کی تعداد 15ہزار سے زیادہ نہیں ہوتی ہے۔جیساکہ تذکرۃ الحفاظ میں مذکور ہے۔اوراس طرح کے دوسرے حفاظ حدیث کا ذکر تذکرۃ الحفاظ میں موجود ہے کہ ان کے پاس دس ہزار حدیثیں تھیں، دوہزار حدیثیں تھیں،ایک ہزار حدیث تھی وغیرذلک۔

امام ابوحنیفہ مجتہد ہیں۔ احادیث کے اصول وضوابط کے سلسلے میں ان کی اپنی رائے ہے جوکتب اصول فقہ میں مذکور ہے۔حدیث کی روایت کے سلسلہ میں ان کاکہنایہ ہے کہ وہی حدیث بیان کرناصحیح ہے جوکہ محدث نے اپنے سننے کے وقت سے لے کر کربیان کرتے وقت یاد رکھاہو اوراس درمیان اس حدیث سے ذہول اورغفلت نہ ہوئی ہو۔ یہ بہت سخت شرط ہے اوریہ بھی ایک وجہ ہے جس کی وجہ سے امام ابوحنیفہ کی روایتیں کم ہوئی ہیں۔اسی کے ساتھ دوسری جو6وجوہات میں نے بیان کی ہیں اس کوبھی ذرادوہرالیجئے۔

یہ بات کسی نے بھی نہیں کہی ہے کہ امام ابوحنیفہ قلیل الحدیث فی نفس الامر ہیں۔جس نے بھی قلیل الحدیث اورقلیل الروایۃ کہاہے وہ اپنے تک امام ابوحنیفہ کے حدیث پہنچنے کے اعتبار سے کہاہے۔ جس کو جتنی حدیثیں پہنچی یامعلوم ہوئی اس کے اعتبار سے اس نے یہ بات کہی۔

فی نفسہ امام ابوحنیفہ کٰثیرالحدیث اورکبارمحدثین میں سے ہیں۔ جیساکہ حافظ ذہبی کے تذکرۃ الحفاظ میں تذکرہ کرنے سے معلوم ہوتاہے۔ امام ابوحنیفہ کی کثرت حدیث توایک مستقل موضوع کا متقاضی ہے انشاء اللہ جلد ہی اس پر کچھ لکھنے کی کوشش کروں گا فی الحال کفایت اللہ صاحب کے استدلال کا ایک جائزہ لے لیتے ہیں۔

استدلال کی خامی​

امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
نا عبدان بن عثمان قال سمعت بن المبارك يقول كان أبو حنيفة مسكينا في الحديث [الجرح والتعديل موافق 8/ 449 وسندہ صحیح عبدان ھو الحافظ العالم أبو عبد الرحمن عبدالله بن عثمان بن جبلة بن أبي رواد]
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ثنا محمد بن يوسف الفربري ثنا على بن خشرم ثنا على بن إسحاق قال سمعت بن المبارك يقول كان أبو حنيفة في الحديث يتيم [الكامل في الضعفاء 7/ 6 وسندہ صحیح یوسف الفربری من رواۃ الصحیح للبخاری]
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سمعت محمد بن محمود النسائي يقول : سمعت علي بن خشرم يقول : سمعت علي بن إسحاق السمرقندي يقول : سمعت ابن المبارك يقول : كان أبو حنيفة في الحديث يتيما [المجروحين لابن حبان 2/ 331 وسندہ حسن ]
حضرت عبداللہ بن مبارک سے امام ابوحنیفہ کی تعریف وتوصیف بہت زیادہ منقول ہے۔ حتی کہ حافظ المغرب ابن عبدالبر
عبداللہ بن مبارک سے امام ابوحنیفہ کی تعریف میں کلمات نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔
وعن ابن المبارک روایات کثیرۃ فی فضائل ابی حنیفۃ ،وذکرھاابویعقوب فی کتابہ وذکرھاغیرہ(الانتقاء 207)
عبداللہ بن مبارک سے امام ابوحنیفہ کی تعریف میں بہت سی روایتیں ہیں۔ اس کو ابویعقوب نے اپنی کتاب میں اوردوسروں نے ذکر کیاہے۔

اب کے اس کے بعد ضروری ہوتاہے کہ ہم اس کاصحیح محمل قائم کریں۔

اس سلسلے کی تمام روایتیں کو دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت ابن مبارک کی زبان سے نکلنے والاجملہ یہ ہوگاکہ کان ابوحنیفۃ فی الحدیث یتیماابوحنیفہ حدیث میں یکتاتھے۔اوران کی مراد یہ ہوگی کہ حدیث کی تفہیم تشریح اوراس کے باریکیوں کو سمجھنے میں وہ فرد فرید تھے اس کو بعض راویوں نے یتیم سے مسکین سمجھ لیا۔کسی نے کچھ اورسمجھ لیا۔

اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ملاعلی قاری شارح مشکوۃ اپنی معروف کتاب الاثمار الجنیۃ فی اسماء الحنفیہ میں لکھتے ہیں۔

عن سوید بن نصرعن ابن مبارک انہ قال:لاتقولوا:رای ابی حنیفۃ ولکن قولوا!انہ تفسیرالحدیث(ص 151/1)
حضرت ابن مبارک کہتے ہیں کہ ابوحنیفہ کی رائے مت کہو بلکہ اس کو حدیث کی تفسیر کہاکرو۔اوراسی سے یہ بھی بات سمجھی جاسکتی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مبارک امام ابوحنیفہ کو سب سے زیادہ افقہ کیوں قراردے رہے ہیں۔

ویسے بھی امام ابوحنیفہ اورعبداللہ بن مبارک کے پورے حالات کو دیکھنے کے بعد ترجیح کا پلہ اسی کے حق میں جھکتاہے۔

ویسے آنجناب حضرت ابن تیمیہ والے تھریڈ میں جس حسن ظن سے کام لے رہے تھے اس کا آدھابھی حسن ظن یہاں کام میں لائیں توشاید اس قول کا صحیح مطلب سمجھنے لگیں۔
اس کے علاوہ بعض محدثین سے مروی ہے کہ کسی حدیث کے کثیرطرق جب ان کے پاس نہ ہوتے تو وہ اس حدیث میں خود کو یتیم سمجھتے جیساکہ ابراہیم بن سعید الجوہری کہتےہیں۔
کل حدیث لم یکن عندی من مئۃ وجہ فانافیہ یتیم
ہروہ حدیث جومیرے پاس سوطرق سے نہ ہوں میں اس میں یتیم ہوں۔

ابوعمر حفص بن غياث المتوفى:194 ھ رحمہ اللہ ۔

امام عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدثني إبراهيم سمعت عمر بن حفص بن غياث يحدث عن أبيه قال كنت أجلس إلى أبي حنيفة فاسمعه يفتي في المسألة الواحدة بخمسة أقاويل في اليوم الواحد فلما رأيت ذلك تركته وأقبلت على الحديث[السنة لعبد الله بن أحمد 1/ 205 واسنادہ صحیح ]۔
کفایت اللہ صاحب نے حفص بن غیاث کاکلام نقل کیاہے۔ اس میں دور دور تک امام ابوحنیفہ کے قلت حدیث کاذکر نہیں ہے وہ صرف اتنابیان کرتے یہں کہ میں ان کی مجلس میں بیٹھاکرتاتھااور وہ ایک مسئلہ کے پانچ طرح کے جواب دیاکرتے تھے جب میں نے اس کو دیکھاتوچھوڑدیااورحدیث کی جانب توجہ کی۔

اس پورے کلام میں امام ابوحنیفہ کا قلیل الحدیث ہونا کہاں سے ثابت ہوتاہے۔اس کے بارے میں سوائے اس کے کیاکہاجائے۔
کما أن عين السخط تبدي المساويا
ویسے بھی کسی بھی ایک مسئلہ میں مختلف اقوال سب سے زیادہ امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ کے ہیں۔ اگریقین نہ ہوتوان کے فقہی اقوال دیکھ لیں اوراس کی وجہ یہ ہے کہ وہ صحابہ کرام اورتابعین عظام کے کسی مسئلہ مین مختلف اقوال ہونے کی صورت میں اس کے قائل ہیں کہ تمام اقوال صحیح ہیں اس میں ایک کو لینااوربقیہ کوچھوڑناان کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ جیساکہ حافظ ابن عبدالبر نے جامع بیان العلم وفضلہ میں ذکر کیاہے۔

محمد بن عبدالرحمن الصیرفیقال:
قلت لاحمد بن حنبل :اذااختلف اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی مسالۃ ھل یجوز لناان ننظر فی اقوالھم لنعلم مع من النصواب منہم فنتبعہ ؟فقال لی:لایجوز النظربین اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :فقلت:فکیف الوجہ فی ذلک؟فقال:تقلد ایھم احببت:
قال ابوعمر:ولم نرالنظرفیمااختلفوافیہ خوفامن التطرق الی النظرفیماشجربینھم وحارب فیہ بعضھم بعضا(909)
اب کفایت اللہ صاحب کی اصطلاح کے مطابق ایک مسئلہ میں کئی اقوال سے اگرکوئی شخص قلیل الحدیث ہوتاہے توشاید ان کی نگاہ میں امام احمد بن حنبل بھی قلیل الحدیث ہیں۔ اوراگراس لحاظ سے امام احمد بن حنبل قلیل الحدیث نہیں ہوتے ہیں توپھر اس قول سے امام ابوحنیفہ کس طرح قلیل الحدیث ہوجائیں گے۔

امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدثنا بن حماد حدثني صالح ثنا على قال سمعت يحيى بن سعيد يقول مر بي أبو حنيفة وأنا في سوق الكوفة فقال لي قيس القياس هذا أبو حنيفة فلم أسأله عن شيء قيل ليحيى كيف كان حديثه قال ليس بصاحب [الكامل في الضعفاء 7/ 7 واسنادہ صحیح]۔

امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدثناه محمد بن عيسى قال حدثنا صالح قال حدثنا علي بن المديني قال سمعت يحيى بن سعيد يقول مر بي أبو حنيفة وأنا في سوق الكوفة فقال لي تيس القياس هذا أبو حنيفة فلم أسأله عن شيء قال يحيى وكان جاري بالكوفة فما قربته ولا سألته عن شيء قيل ليحيى كيف كان حديثه قال لم يكن بصاحب الحديث [ضعفاء العقيلي 4/ 283]۔

خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أخبرنا البرقاني أخبرنا محمد بن العباس بن حيويه أخبرنا محمد بن مخلد حدثنا صالح بن احمد بن حنبل حدثنا علي يعني بن المديني قال سمعت يحيى هو بن سعيد القطان وذكر عنده أبو حنيفة قالوا كيف كان حديثه قال لم يكن بصاحب حديث[تاريخ بغداد 13/ 445 واسنادہ صحیح]۔
دیکھتے ہیں لم یکن بصاحب حدیث کا صحیح مفہوم کیاہے اوراس کو حافظ ذہبی کے کلام سے ہی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مناقب ابوحنیفہ وصاحبیہ میں وہ علی بن مدینی سے یحیی بن سعید القطان کا یہ قول نقل کرتے ہیں۔

قال علی بن المدینی : قیل لیحیی بن سعید القطان کیف کان حدیث ابی حنیفۃ قال:لم یکن بصاحب حدیث
پھراس کے بعد وہ اس کی تشریح اس طورپر کرتے ہیں کہ ان میں محدثین کی طرح ضبط واتقان نہیں تھا۔یعنی جن لوگوں نے امام ابوحنیفہ کو ضعیف فی الحدیث گرداناہے ان کے خیال میں امام ابوحنیفہ دیگرمحدثین کے مقابلہ میں ضبط کے معاملہ میں کمتر تھے۔اسی کی تشریح حافظ ذہبی نے اس طورپر کی ہے۔
قلت: لم یصرف الامام ھمتہ لضبط الالفاظ والاسناد ،وانماکانت ھمتہ القرآن والفقہ ،وکذلک حال کل من اقبل علی فن فانہ یقصر عن غیرہ
اب اگریہ معنی مراد لیاجائے اوریہی معنی مراد لینا صحیح ہے توپھر لیس بصاحب حدیث سے قلت حدیث مراد لینا قطعاغلط اورناسمجھی ہوگی۔ بلکہ اس کا مفہوم یہ ہوگاکہ وہ محدثین کی طرح حفظ وضبط کامالک نہیں ہے جیساکہ حافظ ذہبی نے سمجھاہے۔
اگراس قول کا معنی وہی ہے جوکفایت اللہ صاحب نے سمجھاہے یعنی قلت حدیث توپھر یہ کوئی جرح ہی نہیں ہوئی اورحافظ ذہبی کا امام ابوحنیفہ کی تلیین میں یہ مثال پیش کرنا قطعاغلط ہوگا۔

صحیح بات یہی ہے کہ یہ کلمہ جرح کاہے اوراس سے مراد حفظ وضبط کی کمی ہے نہ کہ قلت روایت۔ کفایت اللہ صاحب اپنی غلطی کی تصحیح کرلیں۔

امام حمیدی رحمہ اللہ کے شاگردامام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سمعت الحميدي يقول قال أبو حنيفة قدمت مكة فأخذت من الحجام ثلاث سنن لما قعدت بين يديه قال لي استقبل القبلة فبدأ بشق رأسي الأيمن وبلغ إلى العظمين، قال الحميدي فرجل ليس عنده سنن عن رسول الله صلى الله عليه و سلم ولا أصحابه في المناسك وغيرها كيف يقلد أحكام الله في المواريث والفرائض والزكاة والصلاة وأمور الإسلام [التاريخ الصغير 2/ 43]۔

حمیدی کے استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ جس کی تقلید کی جائے احکام میں یااس کے اجتہادات پر عمل کیاجائے وہ کثیرالحدیث ہوناچاہئے۔ اسی کے لحاظ سے ہم بات کرتے ہیں۔اوردیکھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ قلیل الحدیث ثابت ہوتے ہیں یاکثیرالحدیث ۔

حنفیوں میں بڑے نامور محدثین گزرے ہیں ابن معین امام جرح وتعدیل
حافظ ذہبی کے نزدیک غالی حنفیوں میں سے ہے ۔ دیکھئے وہ کیاکہتے ہیں۔

الرواة الثقات المتكلم فيهم بما لا يوجب" (1|30): «ابن معين كان من الحنفيّةِ الغُلاة في مذهبه، وإن كان مُحَدِّثاً».
ابن معین غالی حنفی ہیں باوجود اس کے کہ وہ محدث ہیں۔

اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ و سیراعلام النبلاء میں ابن معین کاشمار حنفیوں میں کرتے ہیں چنانچہ اسی میں مذکور ہے کہ جب ابن معین سے پوچھاگیاکہ آدمی امام ابوحنیفہ کے اجتہاد پر عمل کرے یاامام شافعی کے اجتہاد پر تویحیی بن معین نے کہا
مَا أَرَى لأَحَدٍ أَنْ يَنْظُرَ فِي رَأْيِ الشَّافِعِيِّ، يَنْظُرُ فِي رَأْيِ أَبِي حَنِيْفَةَ أَحَبُّ إِلَيَّ.
میں کسی کیلئے یہ درست نہیں سمجھتاکہ وہ امام شافعی کے اجتہاد پر عمل کرے میرے نزدیک امام ابوحنیفہ کی رائے پر عمل کرنا بہتر اورمحبوب ہے۔
اس پر حافظ ذہبی کہتے ہیں۔

قُلْتُ: قَدْ كَانَ أَبُو زَكَرِيَّا -رَحِمَهُ اللهُ- حَنَفِيّاً فِي الفُرُوْعِ، فَلِهَذَا قَالَ هَذَا، وَفِيْهِ انحِرَافٌ يَسِيْرٌ عَنِ الشَّافِعِيِّ
امام وکیع بن الجراح بقول ابن معین فقہ حنفی کے مطابق فتوی دیاکرتے تھے(سیراعلام النبلاء ترجمہ وکیع بن الجراح)امام یحیی بن سعید القطان بہت سارے مسائل میں فقہ حنفی پر عمل پیراتھے۔(سیر اعلام النبلاء وروایۃ عباس الدوری)
ان کے علاوہ ہزاروں محدثین ہیں۔

اگران حضرات نے امام ابوحنیفہ کی رائے پر عمل کیاہے اوران کے اجتہادات کو اختیار کیاہے تواس کا صاف سیدھا مطلب ہے کہ امام ابوحنیفہ کثیر الحدیث ہیں۔ ورنہ یہ لوگ امام ابوحنیفہ کی آراء اوراجتہادات کوکیوں اختیار کرتے۔ ابن معین ہوں یاوکیع بن الجراح یاسعیدبن القطان ان کا مقام ومرتبہ حمیدی اوران جیسوں سے بہت زیادہ ہے ۔لہذا حمیدی کے اصول سے ہی ثابت ہوگیاہے کہ امام ابوحنیفہ کثیرالحدیث ہیں وللہ الحمد۔
ثانیاسندنہایت ضعیف ہے۔حمیدی کی امام ابوحنیفہ سے لقاء ثابت نہیں ہے ۔ درمیان کا راوی محذوف ہے ۔

ثالثاً امام حمیدی پرخود کے استاذ بھائی محمد بن الحکم نے سخت جرح کی ہے اورانہیں جھوٹابتایاہے۔(راجع طبقات الشافعیہ ترجمہ حمیدی)

امام ابوحنیفہ پر جس طرح حمیدی نے لعن طعن کی ہے اورنام بگاڑاہے اس پر کہنے کوجی چاہتاہے کہ جس شخص کو علم حدیث نے لعن طعن کرنے سے نہیں روکا تواس سے جاہل رہنابہتر ہے۔لیکن ہم یہی دعاکرتے ہیں ربنالاتجعل فی قلوبناغلاللذین امنوا۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top