میں نے کہاتھا۔
اورجولوگ امام ابوحنیفہ کو قلیل الحدیث کہتے ہیں وہ جہالت وسفاہت کامظاہرہ اورمجاہرہ دونوں کررہے ہیں۔
اس پر کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ قلیل الحدیث ہیں یا کثیر الحدیث یہ ہماری تحریر کا موضوع بالکل نہیں تھا اس کے باوجوبھی جمشید صاحب نے جواب میں اس پر بھی بات کرنا ضروری سمجھا اگر جمشید صاحب نے سادہ لفظوں یہ بات کہی ہوتی تو موضوع سے غیر متعلق اس بات کو نظر انداز کرکے ہم آگے بڑھ جاتے مگر آن جناب نے بڑے سخت قسم کے الفاظ میں یہ بات رکھی ہے، لکھتے ہیں:
امام ابوحنیفہ قلیل الحدیث تھے اس پر بحث کرنے سے قبل اس سے قبل کے مراسلے میں قلت حدیث کے جواسباب بیان کئے ہیں۔ اس پر ایک نگاہ ڈال لیجئے۔اس کے علاوہ ایک اورسبب جومناسب ہے وہ عرض کردوں۔
ہرمحدث نے حدیث بیان کرنے میں،حدیث لینے میں اورحدیث کوکتابوں میں لکھنے میں اپناایک معیار قائم کیاہے۔اسی معیار کے حساب سے حدیثیں کم اورزیادہ روایت کی گئی ہیں۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں سخت شرطیں رکھیں ۔اس لئے کتاب میں کم حدیثیں ہیں۔ امام احمد بن حنبل نے کمزور شرطیں اپنی مسند کیلئے طے کیاتوپچاس ہزارحدیثیں اس میں ہوگئیں۔
امام شعبہ احادیث کے اخذ کرنے میں بڑے محتاط تھے اورانہی سے روایت لیتے تھے جس پر ان کو پورابھروسہ ہوتاتھا۔اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے پاس موجود حدیثوں کی تعداد 15ہزار سے زیادہ نہیں ہوتی ہے۔جیساکہ تذکرۃ الحفاظ میں مذکور ہے۔اوراس طرح کے دوسرے حفاظ حدیث کا ذکر تذکرۃ الحفاظ میں موجود ہے کہ ان کے پاس دس ہزار حدیثیں تھیں، دوہزار حدیثیں تھیں،ایک ہزار حدیث تھی وغیرذلک۔
امام ابوحنیفہ مجتہد ہیں۔ احادیث کے اصول وضوابط کے سلسلے میں ان کی اپنی رائے ہے جوکتب اصول فقہ میں مذکور
ہے۔حدیث کی روایت کے سلسلہ میں ان کاکہنایہ ہے کہ وہی حدیث بیان کرناصحیح ہے جوکہ محدث نے اپنے سننے کے وقت سے لے کر کربیان کرتے وقت یاد رکھاہو اوراس درمیان اس حدیث سے ذہول اورغفلت نہ ہوئی ہو۔ یہ بہت سخت شرط ہے اوریہ بھی ایک وجہ ہے جس کی وجہ سے امام ابوحنیفہ کی روایتیں کم ہوئی ہیں۔اسی کے ساتھ دوسری جو6وجوہات میں نے بیان کی ہیں اس کوبھی ذرادوہرالیجئے۔
یہ بات کسی نے بھی نہیں کہی ہے کہ امام ابوحنیفہ قلیل الحدیث فی نفس الامر ہیں۔جس نے بھی قلیل الحدیث اورقلیل الروایۃ کہاہے وہ اپنے تک امام ابوحنیفہ کے حدیث پہنچنے کے اعتبار سے کہاہے۔ جس کو جتنی حدیثیں پہنچی یامعلوم ہوئی اس کے اعتبار سے اس نے یہ بات کہی۔
فی نفسہ امام ابوحنیفہ کٰثیرالحدیث اورکبارمحدثین میں سے ہیں۔ جیساکہ حافظ ذہبی کے تذکرۃ الحفاظ میں تذکرہ کرنے سے معلوم ہوتاہے۔ امام ابوحنیفہ کی کثرت حدیث توایک مستقل موضوع کا متقاضی ہے انشاء اللہ جلد ہی اس پر کچھ لکھنے کی کوشش کروں گا فی الحال کفایت اللہ صاحب کے استدلال کا ایک جائزہ لے لیتے ہیں۔
استدلال کی خامی
امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
نا عبدان بن عثمان قال سمعت بن المبارك يقول كان أبو حنيفة مسكينا في الحديث [الجرح والتعديل موافق 8/ 449 وسندہ صحیح عبدان ھو الحافظ العالم أبو عبد الرحمن عبدالله بن عثمان بن جبلة بن أبي رواد]
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ثنا محمد بن يوسف الفربري ثنا على بن خشرم ثنا على بن إسحاق قال سمعت بن المبارك يقول كان أبو حنيفة في الحديث يتيم [الكامل في الضعفاء 7/ 6 وسندہ صحیح یوسف الفربری من رواۃ الصحیح للبخاری]
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سمعت محمد بن محمود النسائي يقول : سمعت علي بن خشرم يقول : سمعت علي بن إسحاق السمرقندي يقول : سمعت ابن المبارك يقول : كان أبو حنيفة في الحديث يتيما [المجروحين لابن حبان 2/ 331 وسندہ حسن ]
حضرت عبداللہ بن مبارک سے امام ابوحنیفہ کی تعریف وتوصیف بہت زیادہ منقول ہے۔ حتی کہ حافظ المغرب ابن عبدالبر
عبداللہ بن مبارک سے امام ابوحنیفہ کی تعریف میں کلمات نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔
وعن ابن المبارک روایات کثیرۃ فی فضائل ابی حنیفۃ ،وذکرھاابویعقوب فی کتابہ وذکرھاغیرہ(الانتقاء 207)
عبداللہ بن مبارک سے امام ابوحنیفہ کی تعریف میں بہت سی روایتیں ہیں۔ اس کو ابویعقوب نے اپنی کتاب میں اوردوسروں نے ذکر کیاہے۔
اب کے اس کے بعد ضروری ہوتاہے کہ ہم اس کاصحیح محمل قائم کریں۔
اس سلسلے کی تمام روایتیں کو دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت ابن مبارک کی زبان سے نکلنے والاجملہ یہ ہوگاکہ
کان ابوحنیفۃ فی الحدیث یتیماابوحنیفہ حدیث میں یکتاتھے۔اوران کی مراد یہ ہوگی کہ حدیث کی تفہیم تشریح اوراس کے باریکیوں کو سمجھنے میں وہ فرد فرید تھے اس کو بعض راویوں نے یتیم سے مسکین سمجھ لیا۔کسی نے کچھ اورسمجھ لیا۔
اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ملاعلی قاری شارح مشکوۃ اپنی معروف کتاب الاثمار الجنیۃ فی اسماء الحنفیہ میں لکھتے ہیں۔
عن سوید بن نصرعن ابن مبارک انہ قال:لاتقولوا:رای ابی حنیفۃ ولکن قولوا!انہ تفسیرالحدیث(ص 151/1)
حضرت ابن مبارک کہتے ہیں کہ ابوحنیفہ کی رائے مت کہو بلکہ اس کو حدیث کی تفسیر کہاکرو۔اوراسی سے یہ بھی بات سمجھی جاسکتی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مبارک امام ابوحنیفہ کو سب سے زیادہ افقہ کیوں قراردے رہے ہیں۔
ویسے بھی امام ابوحنیفہ اورعبداللہ بن مبارک کے پورے حالات کو دیکھنے کے بعد ترجیح کا پلہ اسی کے حق میں جھکتاہے۔
ویسے آنجناب حضرت ابن تیمیہ والے تھریڈ میں جس حسن ظن سے کام لے رہے تھے اس کا آدھابھی حسن ظن یہاں کام میں لائیں توشاید اس قول کا صحیح مطلب سمجھنے لگیں۔
اس کے علاوہ بعض محدثین سے مروی ہے کہ کسی حدیث کے کثیرطرق جب ان کے پاس نہ ہوتے تو وہ اس حدیث میں خود کو یتیم سمجھتے جیساکہ ابراہیم بن سعید الجوہری کہتےہیں۔
کل حدیث لم یکن عندی من مئۃ وجہ فانافیہ یتیم
ہروہ حدیث جومیرے پاس سوطرق سے نہ ہوں میں اس میں یتیم ہوں۔
ابوعمر حفص بن غياث المتوفى:194 ھ رحمہ اللہ ۔
امام عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدثني إبراهيم سمعت عمر بن حفص بن غياث يحدث عن أبيه قال كنت أجلس إلى أبي حنيفة فاسمعه يفتي في المسألة الواحدة بخمسة أقاويل في اليوم الواحد فلما رأيت ذلك تركته وأقبلت على الحديث[السنة لعبد الله بن أحمد 1/ 205 واسنادہ صحیح ]۔
کفایت اللہ صاحب نے حفص بن غیاث کاکلام نقل کیاہے۔ اس میں دور دور تک امام ابوحنیفہ کے قلت حدیث کاذکر نہیں ہے وہ صرف اتنابیان کرتے یہں کہ میں ان کی مجلس میں بیٹھاکرتاتھااور وہ ایک مسئلہ کے پانچ طرح کے جواب دیاکرتے تھے جب میں نے اس کو دیکھاتوچھوڑدیااورحدیث کی جانب توجہ کی۔
اس پورے کلام میں امام ابوحنیفہ کا قلیل الحدیث ہونا کہاں سے ثابت ہوتاہے۔اس کے بارے میں سوائے اس کے کیاکہاجائے۔
کما أن عين السخط تبدي المساويا
ویسے بھی کسی بھی ایک مسئلہ میں مختلف اقوال سب سے زیادہ امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ کے ہیں۔ اگریقین نہ ہوتوان کے فقہی اقوال دیکھ لیں اوراس کی وجہ یہ ہے کہ وہ صحابہ کرام اورتابعین عظام کے کسی مسئلہ مین مختلف اقوال ہونے کی صورت میں اس کے قائل ہیں کہ تمام اقوال صحیح ہیں اس میں ایک کو لینااوربقیہ کوچھوڑناان کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ جیساکہ حافظ ابن عبدالبر نے جامع بیان العلم وفضلہ میں ذکر کیاہے۔
محمد بن عبدالرحمن الصیرفیقال:
قلت لاحمد بن حنبل :اذااختلف اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی مسالۃ ھل یجوز لناان ننظر فی اقوالھم لنعلم مع من النصواب منہم فنتبعہ ؟فقال لی:لایجوز النظربین اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :فقلت:فکیف الوجہ فی ذلک؟فقال:تقلد ایھم احببت:
قال ابوعمر:ولم نرالنظرفیمااختلفوافیہ خوفامن التطرق الی النظرفیماشجربینھم وحارب فیہ بعضھم بعضا(909)
اب کفایت اللہ صاحب کی اصطلاح کے مطابق ایک مسئلہ میں کئی اقوال سے اگرکوئی شخص قلیل الحدیث ہوتاہے توشاید ان کی نگاہ میں امام احمد بن حنبل بھی قلیل الحدیث ہیں۔ اوراگراس لحاظ سے امام احمد بن حنبل قلیل الحدیث نہیں ہوتے ہیں توپھر اس قول سے امام ابوحنیفہ کس طرح قلیل الحدیث ہوجائیں گے۔
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدثنا بن حماد حدثني صالح ثنا على قال سمعت يحيى بن سعيد يقول مر بي أبو حنيفة وأنا في سوق الكوفة فقال لي قيس القياس هذا أبو حنيفة فلم أسأله عن شيء قيل ليحيى كيف كان حديثه قال ليس بصاحب [الكامل في الضعفاء 7/ 7 واسنادہ صحیح]۔
امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدثناه محمد بن عيسى قال حدثنا صالح قال حدثنا علي بن المديني قال سمعت يحيى بن سعيد يقول مر بي أبو حنيفة وأنا في سوق الكوفة فقال لي تيس القياس هذا أبو حنيفة فلم أسأله عن شيء قال يحيى وكان جاري بالكوفة فما قربته ولا سألته عن شيء قيل ليحيى كيف كان حديثه قال لم يكن بصاحب الحديث [ضعفاء العقيلي 4/ 283]۔
خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أخبرنا البرقاني أخبرنا محمد بن العباس بن حيويه أخبرنا محمد بن مخلد حدثنا صالح بن احمد بن حنبل حدثنا علي يعني بن المديني قال سمعت يحيى هو بن سعيد القطان وذكر عنده أبو حنيفة قالوا كيف كان حديثه قال لم يكن بصاحب حديث[تاريخ بغداد 13/ 445 واسنادہ صحیح]۔
دیکھتے ہیں لم یکن بصاحب حدیث کا صحیح مفہوم کیاہے اوراس کو حافظ ذہبی کے کلام سے ہی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مناقب ابوحنیفہ وصاحبیہ میں وہ علی بن مدینی سے یحیی بن سعید القطان کا یہ قول نقل کرتے ہیں۔
قال علی بن المدینی : قیل لیحیی بن سعید القطان کیف کان حدیث ابی حنیفۃ قال:لم یکن بصاحب حدیث
پھراس کے بعد وہ اس کی تشریح اس طورپر کرتے ہیں کہ ان میں محدثین کی طرح ضبط واتقان نہیں تھا۔یعنی جن لوگوں نے امام ابوحنیفہ کو ضعیف فی الحدیث گرداناہے ان کے خیال میں امام ابوحنیفہ دیگرمحدثین کے مقابلہ میں ضبط کے معاملہ میں کمتر تھے۔اسی کی تشریح حافظ ذہبی نے اس طورپر کی ہے۔
قلت: لم یصرف الامام ھمتہ لضبط الالفاظ والاسناد ،وانماکانت ھمتہ القرآن والفقہ ،وکذلک حال کل من اقبل علی فن فانہ یقصر عن غیرہ
اب اگریہ معنی مراد لیاجائے اوریہی معنی مراد لینا صحیح ہے توپھر لیس بصاحب حدیث سے قلت حدیث مراد لینا قطعاغلط اورناسمجھی ہوگی۔ بلکہ اس کا مفہوم یہ ہوگاکہ وہ محدثین کی طرح حفظ وضبط کامالک نہیں ہے جیساکہ حافظ ذہبی نے سمجھاہے۔
اگراس قول کا معنی وہی ہے جوکفایت اللہ صاحب نے سمجھاہے یعنی قلت حدیث توپھر یہ کوئی جرح ہی نہیں ہوئی اورحافظ ذہبی کا امام ابوحنیفہ کی تلیین میں یہ مثال پیش کرنا قطعاغلط ہوگا۔
صحیح بات یہی ہے کہ یہ کلمہ جرح کاہے اوراس سے مراد حفظ وضبط کی کمی ہے نہ کہ قلت روایت۔ کفایت اللہ صاحب اپنی غلطی کی تصحیح کرلیں۔
امام حمیدی رحمہ اللہ کے شاگردامام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سمعت الحميدي يقول قال أبو حنيفة قدمت مكة فأخذت من الحجام ثلاث سنن لما قعدت بين يديه قال لي استقبل القبلة فبدأ بشق رأسي الأيمن وبلغ إلى العظمين، قال الحميدي فرجل ليس عنده سنن عن رسول الله صلى الله عليه و سلم ولا أصحابه في المناسك وغيرها كيف يقلد أحكام الله في المواريث والفرائض والزكاة والصلاة وأمور الإسلام [التاريخ الصغير 2/ 43]۔
حمیدی کے استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ جس کی تقلید کی جائے احکام میں یااس کے اجتہادات پر عمل کیاجائے وہ کثیرالحدیث ہوناچاہئے۔ اسی کے لحاظ سے ہم بات کرتے ہیں۔اوردیکھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ قلیل الحدیث ثابت ہوتے ہیں یاکثیرالحدیث ۔
حنفیوں میں بڑے نامور محدثین گزرے ہیں ابن معین امام جرح وتعدیل
حافظ ذہبی کے نزدیک غالی حنفیوں میں سے ہے ۔ دیکھئے وہ کیاکہتے ہیں۔
الرواة الثقات المتكلم فيهم بما لا يوجب" (1|30): «ابن معين كان من الحنفيّةِ الغُلاة في مذهبه، وإن كان مُحَدِّثاً».
ابن معین غالی حنفی ہیں باوجود اس کے کہ وہ محدث ہیں۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ و سیراعلام النبلاء میں ابن معین کاشمار حنفیوں میں کرتے ہیں چنانچہ اسی میں مذکور ہے کہ جب ابن معین سے پوچھاگیاکہ آدمی امام ابوحنیفہ کے اجتہاد پر عمل کرے یاامام شافعی کے اجتہاد پر تویحیی بن معین نے کہا
مَا أَرَى لأَحَدٍ أَنْ يَنْظُرَ فِي رَأْيِ الشَّافِعِيِّ، يَنْظُرُ فِي رَأْيِ أَبِي حَنِيْفَةَ أَحَبُّ إِلَيَّ.
میں کسی کیلئے یہ درست نہیں سمجھتاکہ وہ امام شافعی کے اجتہاد پر عمل کرے میرے نزدیک امام ابوحنیفہ کی رائے پر عمل کرنا بہتر اورمحبوب ہے۔
اس پر حافظ ذہبی کہتے ہیں۔
قُلْتُ: قَدْ كَانَ أَبُو زَكَرِيَّا -رَحِمَهُ اللهُ- حَنَفِيّاً فِي الفُرُوْعِ، فَلِهَذَا قَالَ هَذَا، وَفِيْهِ انحِرَافٌ يَسِيْرٌ عَنِ الشَّافِعِيِّ
امام وکیع بن الجراح بقول ابن معین فقہ حنفی کے مطابق فتوی دیاکرتے تھے(سیراعلام النبلاء ترجمہ وکیع بن الجراح)امام یحیی بن سعید القطان بہت سارے مسائل میں فقہ حنفی پر عمل پیراتھے۔(سیر اعلام النبلاء وروایۃ عباس الدوری)
ان کے علاوہ ہزاروں محدثین ہیں۔
اگران حضرات نے امام ابوحنیفہ کی رائے پر عمل کیاہے اوران کے اجتہادات کو اختیار کیاہے تواس کا صاف سیدھا مطلب ہے کہ امام ابوحنیفہ کثیر الحدیث ہیں۔ ورنہ یہ لوگ امام ابوحنیفہ کی آراء اوراجتہادات کوکیوں اختیار کرتے۔ ابن معین ہوں یاوکیع بن الجراح یاسعیدبن القطان ان کا مقام ومرتبہ حمیدی اوران جیسوں سے بہت زیادہ ہے ۔لہذا حمیدی کے اصول سے ہی ثابت ہوگیاہے کہ امام ابوحنیفہ کثیرالحدیث ہیں وللہ الحمد۔
ثانیاسندنہایت ضعیف ہے۔حمیدی کی امام ابوحنیفہ سے لقاء ثابت نہیں ہے ۔ درمیان کا راوی محذوف ہے ۔
ثالثاً امام حمیدی پرخود کے استاذ بھائی محمد بن الحکم نے سخت جرح کی ہے اورانہیں جھوٹابتایاہے۔(راجع طبقات الشافعیہ ترجمہ حمیدی)
امام ابوحنیفہ پر جس طرح حمیدی نے لعن طعن کی ہے اورنام بگاڑاہے اس پر کہنے کوجی چاہتاہے کہ جس شخص کو علم حدیث نے لعن طعن کرنے سے نہیں روکا تواس سے جاہل رہنابہتر ہے۔لیکن ہم یہی دعاکرتے ہیں ربنالاتجعل فی قلوبناغلاللذین امنوا۔