اللہ تعالیٰ اور نبی علیہ السلام کے علاوہ اور کی بات لی بھی جاسکتی ہے اور رد بھی کی جاسکتی ہے ۔ اگر موافق نص ہو تو قبول ورنہ رد کی جائے گی ۔
1۔تمام آئمہ کرام رحمہم اللہ اجمعین ہمارے علماء میں سے ہیں ۔ان کا احترام ضروری ہیں ۔ حسن ظن کا تقاضا بھی یہ ہیں کہ ہم ان کو اللہ تعالیٰ کے ہاں نیک گردانے، نبی علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص عوام میں نیکی پر مشہور ہو اللہ اس کی مغفرت کردیتا ہے ۔
2۔ لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ کہیں پر بھی اللہ اور اس کے رسول نے ہم کو ان کی پیچھے چلنے اور ان سے منسوب ہر بات پر عمل کرنے کا نہیں کہا ہے ۔
خود ان ہی آئمہ کرام نے بھی اپنی تقلید سے لوگوں کو منع کیا ہوا ہے ۔
3۔ ان کے دور میں چونکہ احادیث کی تدوین نہ ہونے کے برابر تھی اس وجہ سے ان حضرات نے اجتہاد سے کام لیا ہیں ۔یا پھر حدیث کسی غیر معتبر شخص کے واسطے سے ملا تو قبول نہیں کیا ۔
شیخ البانی صاحب نے"
رفع الملام عن ائمۃ الاعلام" میں تقریباً دس وجوہات بتائیں ہیں کہ آئمہ کرام نے کیوں احادیث کے خلاف فتوے دیے ہیں ۔
4۔ان کے اقول کو قرآن وحدیث کے ترازو میں تولا جائے گا نہ کہ اس کے برعکس ۔
5۔بہت سارے ایسے مسائل ہیں کہ یہ حضرات ہماری توجہ صحیح ومناسب جگہ پر لے جاتے ہیں ۔
6۔یہ نہیں کہ حدیث(جوصریح اور سنداً صحیح ثابت ہو) کو ہم کسی مذہب کے لیے چھوڑدے اور ان سے جوابات بنائے کہ یہ فلاں صحابی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اور وہ فقیہہ نہیں ہے اس لیے یہ ناقابل قبول ہے ۔
7۔نبی علیہ السلام کے مقابلے میں کسی صحابی رضی اللہ عنہ کی بات بھی قبول نہیں کی جائے گی ۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کیا صحابی نعوذباللہ رسول کی مخالفت کرتا ہے ۔
نہیں بلکہ کبھی وہ اندھیرے میں رہ جاتا ہے اور اپنی اجتہاد میں خطاء ہوجاتا ہے ۔ ایک مثال لیجیئے ۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ آپ حج تمتع کو جائز سمجھتے ہیں حالانکہ آپ کے والد عمر رضی اللہ عنہ اس سے روکا کرتے تھے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: یہ بتاؤ کہ میرے والد ایک کام سے منع کريں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا حکم دیں تو میرے والد کی بات مانی جائےگی یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانا جائے گا؟ کہنے والے نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم و عمل کو قبول کیا جائے گا۔ تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو لیا جائے گا تو پھر میرے والد کے قول کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مقابلے میں کیوں پیش کرتے ہو۔(ترمذی۱\۱۶۹،طحاوی۱\۳۹۹)
واللہ اعلم ۔