• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابوحنیفہ کا فتویٰ بابت مدت رضاعت!!!

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
شاہد صاحب!
آپ خود غورکریں کہ آپ نے جو جواب دیاہے وہ ہمارے سوال کا واقعی جواب ہے یاپھر’’ خانہ پری ‘‘ہے۔مجھے توایسالگتاہے کہ یہ ’’خانہ پوری‘‘ہے۔بہرحال آپ سے دوبارہ گزارش ہے کہ ہمارے سوال کی واقعیت اوراپنے جواب کی حقیقت پر ایک مرتبہ نظرثانی کرلیں۔
نہ زیادہ وقت آپ کے پاس ہوگا نہ ہی میرے پاس ۔لہذا بحث اگرکسی نتیجہ تک پہنچے تویہ بہت اچھی بات ہوگی۔اس کیلئے ضروری ہوگاکہ آپ اورمیں ضد اورانا کے خول سے باہر نکل کر بات سمجھنے اورسمجھانے یاافہام وتفہیم کی جانب سنجیدگی سے کوشش کریں۔والسلام
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
گڈ مسلم صاحب !
ویسے توہرمسلم ہی گڈ ہوتاہے آپ نے کسی شبہ کے دفعیہ کیلئے گڈمسلم اپنانام بھی رکھاہے توہم نہیں جانتے کہ آپ اپنی ذات سے کون ساشبہ دفع کرناچاہ رہے ہیں۔
ویسے جواب دینے سے قبل بہترہوگاکہ گزشتہ مراسلات پرایک نگاہ دوڑالیں۔ ورنہ ہمیں بورکرنے سے کیافائدہ ۔
شاہد نذیر صاحب نے اپنے مراسلہ کی ابتداء ہی اس بات سے کی ہے کہ امام ابوحنیفہ کو کتاب اللہ کاعلم نہیں تھااورانہوں نے کتاب اللہ کی مخالفت کی وغیرہ وغیرہ۔
مقلدین کا تویہاں دور دور تک کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔
سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بن جانا اور تجاہل عارفانہ سے کام لینا شاید آپ کا ایک انداز ہے۔ آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میرے مضمون کا بنیادی موضوع ہی مقلد کا وہ رویہ ہے جو وہ اپنے کم علم اور غیرمجتہد امام کے ساتھ روا رکھتا ہے۔ یاداشت کے لئے زرا ایک مرتبہ پھر موضوع کا مطالعہ فرمائیں اور جھوٹ بولنے کی عادت سے باز آجائیں۔

لہذا بات صرف ابن تیمیہ کے تعلق سے کریں۔نیت کاحال خداپرچھوڑدیں۔
واضح ارشاد رسول کے ہوتے ہوئے ابن تیمیہ کااس کو اپنی عملی زندگی میں نہ اپناناارشاد رسول کی مخالفت ہے یانہیں ہے؟اگرنہیں ہے تو کیوں

ویسے اس جملہ کی داد دینے کو جی چاہتاہے کیاخوبصورت جملہ ہے۔
ہرخطاسے معصوم ہرغلطی سے محفوظ حضرت ابن تیمیہ ۔
ویسے جوسوال آپ نے مجھ سے پوچھاہے۔

کیادورحاضر کے بڑے سے بڑے سلفی نے ابن تیمیہ اس کی غلطی کو تسلیم کیاہے؟ابن تیمیہ کے حالات وسوانحات پر ہزاروں صفحات لکھنے والوں نے یہ اعتراف کیاہے کہ انہوں نے سنت کی مخالفت کی تھی؟ابن تیمیہ کی تمام کتابوں کو تحقیق سے اورآب وتاب سے شائع کرنے والوں کاایک لمحہ کیلئے بھی اس جانب خیال گیاکہ شادی نہ کرناارشاد رسول کی مخالفت ہے۔
ابن تیمیہ کے اقوال کو اپنے فتاویٰ کی زینت بنانے والوں نے کبھی اس جانب توجہ کی کہ شادی کے بارے میں احادیث میں کتنی تاکید آئی ہے۔ اس کے باوجود شادی نہ کرناکتنی بری بات ہے۔
دوسروں کو چھوڑیئے آپ خود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ابن تیمیہ کا ایساکرنا غلط تھا؟انہوں نے شادی نہ کرنے ارشاد رسول ﷺکی مخالفت کی ہے؟
پہلے بھی عرض کی جاچکی ہے کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اس عمل اور ابوحنیفہ کے قرآن دشمنی پر مبنی فتویٰ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اگر آپ امام ابن تیمیہ اور ابوحنیفہ کے فعل کا آپس میں مقابلہ کروارہے ہیں تو کم از کم دونوں میں کوئی قدر تو مشترک ہونی چاہیے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ امام ابن تیمیہ اور ابوحنیفہ کا اس مسئلہ میں تقابل کروانا جہالت ہے۔

١۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا شادی نہ کرنا ذاتی فعل ہے اور غالب گمان یہی ہے کہ ایسا انہوں نے کسی شرعی عذر کی بنا پر کیا ہوگا۔ اب اگر اس بات سے اختلاف کیا جائے تو اس کے لئے دلیل کی ضرورت ہے اور مخالف اس سلسلے میں کوئی دلیل نہیں رکھتا لہذا اس بات کا ذکر کرنا بے کار ہے۔ پہلے دلیل لاو پھر مقدمہ قائم کرو۔ اس کے برعکس امام صاحب کا باقاعدہ فتویٰ موجود ہے جو کہ قرآن کے مخالف ہے اور یہ فتویٰ حنفیوں کی منظور اور تسلیم شدہ کتابوں میں درج ہے اور احناف نے اس فتویٰ کی تائید کی ہے۔جبکہ اہل حدیث نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے عمل کی تائید نہیں کی۔

٢۔ حنفی حضرات امام صاحب کے فتویٰ کو قرآن اور دلیل سے ثابت شدہ قرار دیتے ہیں جبکہ اہل حدیث ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے عمل کے لئے کوئی دلیل نہیں دیتے۔

٣۔ غالی حنفی اپنے امام کے دفاع میں قرآن میں معنوی تحریف کرتے ہیں جبکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے لئے ایسے کسی عمل کے بارے میں اہل حدیث تصور بھی نہیں کرسکتے۔

جب ان ہر دو مسائل کا آپس میں کوئی تعلق ہی نہیں تو ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے عمل کو ابوحنیفہ کے فتوے کے بالمقابل پیش کرنا ظاہر کرتا ہے کہ جمشید صاحب کا کشکول دلائل سے خالی ہے۔

گڈمسلم صاحب مناسب ہوگاکہ شاہد نذیرصاحب کو اپنی بات رکھنے دیں ہم بھی دیکھناچاہتے ہیں کہ آخران کے کشکول میں کتنی ریزگاری ہے؟
آپ کو ہمارے کشکول کی ریزگاری دیکھنے کی تو بہت فکر ہے لیکن کبھی اپنے امام کا کشکول بھی دیکھ لیا ہوتا جس میں کبھی ریزگاری تھی ہی نہیں آپ اپنے امام پر احسان فرمائیں اور ان کے کشکول میں دلائل کی کچھ ریزگاری ڈال دیِں۔

موضوع سے متعلق ایک مرتبہ پھر عرض ہے کہ امام ابوحنیفہ کے خلاف قرآن فتویٰ کی جو بھی ممکنہ وجہ ہوسکتی ہے اس کو ذکر کرکے ہم نے اسے تسلیم کر لیا ہے لیکن اس صورت کو تسلیم کرنے کے بعد جو نتیجہ برآمد ہوتا ہے اس کا جواب مقلدین سے درکا ہے کہ انہیں نتیجہ کی کون سی صورت قابل قبول ہے۔ مضمون کا ازسرنو مطالعہ کرلیں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
شاہد صاحب!
آپ خود غورکریں کہ آپ نے جو جواب دیاہے وہ ہمارے سوال کا واقعی جواب ہے یاپھر’’ خانہ پری ‘‘ہے۔مجھے توایسالگتاہے کہ یہ ’’خانہ پوری‘‘ہے۔بہرحال آپ سے دوبارہ گزارش ہے کہ ہمارے سوال کی واقعیت اوراپنے جواب کی حقیقت پر ایک مرتبہ نظرثانی کرلیں۔
نہ زیادہ وقت آپ کے پاس ہوگا نہ ہی میرے پاس ۔لہذا بحث اگرکسی نتیجہ تک پہنچے تویہ بہت اچھی بات ہوگی۔اس کیلئے ضروری ہوگاکہ آپ اورمیں ضد اورانا کے خول سے باہر نکل کر بات سمجھنے اورسمجھانے یاافہام وتفہیم کی جانب سنجیدگی سے کوشش کریں۔والسلام
جناب محترم میرا جواب انصاف پر مبنی ہے اور آپ کے مذہب کے عین مطابق ہے اس لئے آپ ضد اور انا کے خول سے باہر آکر اسے تسلیم فرمالیں۔ آپ کی تسلی کے لئے میں آپ کے معتبر علماء کے دو اصول پیش کردیتا ہوں جس کی روشنی میں ہمارا جواب درست قرار پاتا ہے۔ والحمداللہ

ملاحظہ فرمائیں: دیوبندیوں کے مناظر اسلام، ترجمان اہلسنت اور وکیل احناف جیسے القابات رکھنے والے امین اوکاڑوی صاحب فرماتے ہیں: مجتہد کی رائے کتاب وسنت اور اجماع کی دلیل پر مبنی ہوتی ہے۔اس رائے کا نام فقہ ہے اور ایسی رائے جو کسی دلیل شرعی پر مبنی نہ ہو اس رائے کو بدعت کہتے ہیں۔اس رائے سے ائمہ مجتہدین بالکل پاک ہیں۔(تجلیات صفدر،جلد سو، صفحہ ٥٤٠)

امین اوکاڑوی صاحب کے اس بیان سے معلوم ہوا کہ مجتہد کا ہر فتویٰ اور ہر رائے قرآن وحدیث کی اجماع کی دلیل پر مبنی ہوتے ہیں اور ایسا ممکن ہی نہیں کہ مجتہد کوئی ایسی بات کہے جس کی دلیل قرآن و حدیث اور اجماع میں موجود نہ ہو۔ اب جمشید صاحب یا تو اس بات کا اقرار فرمائیں کہ یہاں امین اوکاڑدی دیوبندی نے خالص کذب بیانی سے کام لیا ہے ورنہ دوسری صورت میں وہ دلیل ذکر کریں جس کی بنیاد پر ابوحنیفہ نے رضاعت کی مدت ڈھائی سال بتائی ہے۔

ابوبکر غازی پوری دیوبندی لکھتے ہیں: لیکن چونکہ یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ عقیدہ اور مسلک کا باب میں اعتماد ہمیشہ متقدمین پر کیا جاتا ہے۔ اور اس سلسلہ میں بعد میں آنے والوں پر اعتماد نہیں کیا جاتااس لئے غیر مقلدین کے عقائد اور مذہب کے بارے میں بھی وہی باتیں معتبر ہوں گی جو ان کے مذہب کی کتابوں میں مدون اور جمع ہیں،بعد میں آنے والوں کا کوئی اعتبار نہیں۔ (کچھ دیر غیرمقلدین کے ساتھ، صفحہ ١١٤)

جمشید صاحب اس اصول کی روشنی میں اپنے جواب کی حیثیت پر نظر کرلیں۔ ثابت ہوا کہ چونکہ جمشید صاحب بعد میں آنے والے غیر معتبر مقلد ہیں لہذا ان کی یہ بات کہ یہ فتویٰ امام ابوحنیفہ کی اجتہادی غلطی ہے کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ بلکہ دیوبندیوں کے نزدیک مذکورہ مسلمہ اصول کی رو سے حنفی مذہب کےمتقدمین کی بات حرف آخر ہے کہ امام صاحب کا ڈھائی سال مدت رضاعت کا فتویٰ قرآن سے ثابت ہے۔ اب مقلدین خصوصا` جمشید صاحب کے پاس اس کے علاوہ کوئی صورت باقی نہیں کہ وہ سارے کام چھوڑ کر اپنے امام کی وہ غائب دلیل لائیں جو کہ بقول شبیر احمد عثمانی "کوئی اور دلیل ہوگی" یا پھر ثابت کریں کہ قرآن سے ڈھائی سال مدت رضاعت کیسے ثابت ہوتی ہے؟

ابوبکر غازی پوری دیوبندی یہ بھی فرماتے ہیں: موجودہ دور کے غیر مقلدین اپنے اسلاف اور اکابر سے مختلف نظر آتے ہیں، معلوم نہیں ان کا اپنے اسلاف کے ساتھ یہ اختلاف فی الواقع اختلاف ہے یا یہ بھی ان کے نفاق کا کرشمہ وکرتب ہے۔(کچھ دیر غیرمقلدین کے ساتھ، صفحہ ١١٤)

کیا جمشید صاحب بتانا پسند فرمائیں گے کہ صاحب ہدایہ اور شبیر احمد عثمانی اور امین اوکاڑوی سے ان کا اختلاف ان کے نفاق کا کرشمہ و کرتب ہے یا کچھ اور؟ جمشید صاحب کو ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ موصوف اپنی تقلیدی حدود سے تجاوز نہ فرمائیں ورنہ اسی طرح ذلت اٹھائیں گے۔ آپ مقلد ہیں جس کا کام اندھا اور بہرا بن کر صرف قول امام کی پیروی ہے نہ کہ اس سے اختلاف۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
شاہد بھائی جزاکم اللہ ۔
واقعہ نقل کرنے میں شاید غلطی ہو گئی ہے ؟
مذکورہ واقعہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں پیش آیا تھا اور یہ استنباط حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہے ۔ جیساکہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے سورہ احقاف کی اس آیت کی تفسیر میں اس کا ذکر کیا ہے ۔
جی بالکل درست فرمایا محترم آپ نے!
میں نے پوسٹ میں مطلوبہ ترمیم کردی ہے۔ اصل میں صاحب کتاب یا کاتب کی غلطی سے موقوف روایت کو مرفوع بیان کردیا گیا ہے۔
اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔آمین
 

بلال شاہ

مبتدی
شمولیت
نومبر 21، 2012
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
0
السلام علیکم
وحملہ وفصالہ ثلاثون شہرا
اگر اس کی تفسیر میں یہ کہا جائے کہ مدت حمل چھ ماہ اور دو سال مدت رضاعت ہے اڑھائی سال کے عرصے میں دونوں کام مکمل ہونگے
اگر بچہ نو ماہ کے عرصے میں پیدا ہوتو پھر اڑھائی سال کے عرصے میں مدت رضاعت دوسال پوری نہیں ہوسکتی
اس بچے کا حق اسی دنیا میں پور اکروگے یا قیامت کے دن اور ویسے بھی غیر مقلدین المعروف ا ہلحدیث ( انگریز کا الاٹ کردہ ) کے نزدیک تو مدت رضاعت
اڑھائی سال تک بھی ختم نہیں ہوتی ان کے ہاں بوڑھے ہوجاؤ داڑھی سفید ہوجائے بیوی کا دودھ پیتے رہو یہ شور محض بچے کو محروم کرنے کیلئے ہے
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
967
ری ایکشن اسکور
2,912
پوائنٹ
225
السلام علیکم
ویسے بھی غیر مقلدین المعروف ا ہلحدیث ( انگریز کا الاٹ کردہ ) کے نزدیک تو مدت رضاعت
اڑھائی سال تک بھی ختم نہیں ہوتی ان کے ہاں بوڑھے ہوجاؤ داڑھی سفید ہوجائے بیوی کا دودھ پیتے رہو یہ شور محض بچے کو محروم کرنے کیلئے ہے
شائد آپ کے لیے دنیا میں یہ سزا کافی ہے اہل حق سے جلنا بھننا اور اپنے آپ میں سڑتے ہی رہنا ..........
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
سیدھا سا سوال ہے:
امام ابو حنیفہ نے جو ڈھائی سال رضاعت کا فتویٰ دیا ہے۔ اگر وہ مطابق قرآن ہے جیسا کہ آفتاب بھائی نے صاحب ہدایہ کے ریفرنس سے اس کا ثبوت دینے کی کوشش کی ہے، تو پھر آج کے احناف مدارس اس کے خلاف کیوں فتویٰ دے رہے ہیں؟ بہرحال کوئی ایک تو خلاف قرآن فتویٰ دے رہا ہے یا دونوں ہی فتوے حق ہیں؟
اگر وہ خلاف قرآن ہے ، تو اس میں کون سی شرم کی بات ہے کہ اس کا اقرار کر لیا جائے کہ امام صاحب سے یہاں غلطی ہو گئی؟ یا ان کی معصومیت کا زبانی اقرار نہیں کیا جاتا اور عملی طور پر انہیں معصوم ہی کا درجہ دیا جاتا ہے؟
باقی جوان شخص اگر بیوی کا دودھ پی لے تو اس سے میاں بیوی کے رشتہ میں فرق نہیں پڑتا۔ اگر آپ کو اس پر اعتراض ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ اس سے ٹوٹ جاتا ہے تو دلیل پیش کریں۔
بات خاص محل کی ہو اور اس کی تعمیم کر دی جائے تو وہ مختلف ہو جاتی ہے۔ ایسے فتاویٰ جات اگر فقہ حنفی سے کاپی کرنے شروع کر دئے تو فورم سے خواتین توبہ توبہ کرتی بھاگ اٹھیں گی۔ لہٰذا موضوع پر ہی بات کیجئے اور ادھر ادھر کی فضول بھرتی سے اپنی نفسیاتی کیفیات کو عیاں نہ کریں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
حضرت علی نے حضرت عمر سے کہا کہ اس عورت پر حد جاری نہیں ہوسکتی کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا جس میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے

عورت کے حمل اور اسکے بچے کو دودھ چھڑانے کی مدت ٣٠ تیس ماہ ہے
محترم آپکو ابوحنیفہ کی ناجائز محبت نے اتنا اندھا کردیا کہ یہ بھی دیکھ نہیں پارہے کہ لکھ کیا رہے ہیں اور اس سے استدلال کیا کررہے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے الفاظ پر زرا غور فرمائیں کہ وہ عورت کے حمل اور رضاعت کی مدت ملا کر ڈھائی سال بتا رہے ہیں۔ اب زرا عبارت پر ازسر نو غور فرمائیں اور بتائیں کہ ان ڈھائی سالوں میں حمل کی مدت کتنی ہے اور رضاعت کی کتنی؟؟؟ جواب آپکو خود بخود مل جائے گا۔ اور اگر ابوحنیفہ کے اس فتویٰ کی واقعی کوئی دلیل ہوتی تو شبیر عثمانی دیوبندی کو یہ ہرگز نہ کہنا پڑتا کہ امام اعظم ابوحنیفہ جو رضاعت کی مدت ڈھائی سال بتاتے ہیں ان کے پاس کوئی اور دلیل ہوگی۔(تفسیر عثمانی)​
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
امام ابوحنیفہ کا فتویٰ بابت مدت رضاعت!!!
تصویر کا ایک رخ

حنفی مقلدین حضرات اپنے امام کے علم و فضل کو بیان کرتے ہوئے انتہائی مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔ حالانکہ میری معلومات کی حد تک آج تک کوئی مقلد صحیح سند کے ساتھ ابوحنیفہ کی علمیت کو ثابت نہیں کر پایا اور صرف خالی باتوں سے ابوحنیفہ کو سب سے بڑا مجتہد اور سب سے بڑا فقہی ثابت کر نا چاہتا ہے۔ کیا محض باتوں سے بھی کبھی کچھ ثابت ہوا ہے ؟؟؟!!!

تصویر کا دوسرارخ

یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے جسے ہم اکثر بیشتر دیکھتے ہیں لیکن میں آپ کو تصویر کا دوسرا رخ احناف کی معتبر کتابوں سے دکھانا چاہتا ہوں۔ ملاحظہ فرمائیں

احناف کی انتہائی معتبر کتاب قدوری میں لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک رضاعت کی مدت ڈھائی سال ہے۔ اسکے برعکس اللہ تبارک و تعالی نے قرآن مجید میں رضاعت کی مدت دو سال بیان فرمائی ہے۔

اندھی تقلید

اب بجائے اسکے کہ حنفی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ اقرار کرتے کہ ہمارے امام سے غلطی ہوگئی ہے۔ الٹا اپنے امام کے اس خلاف قرآن فتوے کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شبیراحمد عثمانی دیو بندی صاحب اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ابو حنیفہ جو رضاعت کی مدت ڈھائی سال بتاتے ہیں انکے پاس کوئی اور دلیل ہوگی۔

استغفراللہ اندھی تقلید کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ شبیر صاحب یہ بتانے میں ناکام رہے کہ وہ دلیل کہاں ہے جسکی بنیاد پر ابوحنیفہ نے یہ خلاف قرآن فتوی دیا ؟؟؟

صاحب ہدایہ نے قرآن کی آیت جس میں حمل اور رضاعت کی مدت کو جمع کرکے ڈھائی سال بیان کیا گیاہے۔ اس آیت کو ابوحنیفہ کی دلیل بتایا ہے اور اپنے امام کے ناجائز دفاع میں لغت کا سہارا لے کر حمل سے مراد بچے کو گود میں اٹھانا بتایا ہے۔ صاحب قدوری اور صاحب ہدایہ ابوحنیفہ کی اندھی تقلید میں یہ بھول گئے کہ قرآن کی تفسیر حدیث سے کی جاتی ہے لغت سے نہیں۔ حدیث کو چھوڑ کر لغت کا استعمال تو منکر حدیث کرتے ہیں۔


تین فیصلہ کن صورتیں​


اس بحث کا نتیجہ تین صورتوں میں نکلتا ہے جس میں سے کسی ایک صورت کو ماننا لازمی و ناگزیر ہے۔

پہلی صورت یہ ہے کہ اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ امام ابوحنیفہ نے پورا قرآن نہیں پڑھا تھا۔ اگر انہوں نے پورا قرآن پڑھا ہوتا تو انکی نظر سے یقیناًقرآن کا وہ مقام ضرور گزار ہوتا جہاں اللہ رب العالمین نے رضاعت کی مدت دو سال بیان فرمائی ہے۔

دوسری صورت میں اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ امام ابوحنیفہ نے پورا قرآن پڑھا تھا۔ تو مقلدین کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ پورا قرآن پڑھنے کے باوجود بھی انہوں نے جان بوجھ کر قرآن کے خلاف فتوی دیا۔

تیسری اور آخری صورت یہ ہے کہ اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ فقہ حنفی کی معتبر کتابوں میں امام ابو حنیفہ سے منسوب یہ فتوی فقہ حنفی تحریر کرنے والوں کا جھوٹ ہے جو انہوں نے امام ابوحنیفہ کے ذمہ لگا دیا ہے۔

فیصلہ آپ کے ہاتھ

پہلی صورت کو تسلیم کرنے کی صورت میں مقلدین کے پاس امام ابوحنیفہ کی تقلید کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ کیونکہ جس شخص نے قرآن بھی پورا نہ پڑھا ہو ،وہ امامت کا حق دار کیسے ہو سکتاہے؟!

اگرحنفی بھائی دوسری صورت کو قبول کرلیتے ہیں تو اپنے امام کی مخالفت قرآن کا کیا جواب دینگے؟ اوراس کے بعد کیا وہ اس قابل رہیں گے کہ دوسروں کو انکی تقلید کی دعوت دے سکیں؟!

مقلدین کی طرف سے آخری صورت کو تسلیم کرنے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ فقہ حنفی جھوٹ اور افتراء کا پلندہ ہے۔ جس سے براء ت واجب ہے۔

اب ہمارے بھائی یہ بتا دیں کہ ان کو مذکورہ تین صورتوں میں سے کون سی صورت قبول ہے۔ اور اگر ان کے نزدیک ان تین صورتوں کے علاوہ بھی کوئی اور صورت ہے تو برائے مہربانی آگاہ کردیں۔ ان کی طرف سے جواب کا منتظر رہونگا۔

تنبیہہ: نامناسب الفاظ و عبارات میں ترمیم کی گئی ہے۔ ازراہ کرم اپنی تحریر میں محدث فورم کے قوانین کا، دیگر یوزرز اور دیگر مکتب فکر کے پیروی کرنے والوں کے جذبات کا احترم ملحوظ رکھیں۔ انتظامیہ
آپ کا فرما یا ہوا بجا ہے لیکن براہ مہربانی آپ امام صاحب کی گستاخی نہ کریں
 
Top