امام ابوحنیفہ کا فتویٰ بابت مدت رضاعت!!!
حنفی مقلدین حضرات اپنے امام کے علم و فضل کو بیان کرتے ہوئے انتہائی مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔ حالانکہ میری معلومات کی حد تک آج تک کوئی مقلد صحیح سند کے ساتھ ابوحنیفہ کی علمیت کو ثابت نہیں کر پایا اور صرف خالی باتوں سے ابوحنیفہ کو سب سے بڑا مجتہد اور سب سے بڑا فقہی ثابت کر نا چاہتا ہے۔ کیا محض باتوں سے بھی کبھی کچھ ثابت ہوا ہے ؟؟؟!!!
یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے جسے ہم اکثر بیشتر دیکھتے ہیں لیکن میں آپ کو تصویر کا دوسرا رخ احناف کی معتبر کتابوں سے دکھانا چاہتا ہوں۔ ملاحظہ فرمائیں
احناف کی انتہائی معتبر کتاب قدوری میں لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک رضاعت کی مدت ڈھائی سال ہے۔ اسکے برعکس اللہ تبارک و تعالی نے قرآن مجید میں رضاعت کی مدت دو سال بیان فرمائی ہے۔
اب بجائے اسکے کہ حنفی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ اقرار کرتے کہ ہمارے امام سے غلطی ہوگئی ہے۔ الٹا اپنے امام کے اس خلاف قرآن فتوے کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شبیراحمد عثمانی دیو بندی صاحب اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ابو حنیفہ جو رضاعت کی مدت ڈھائی سال بتاتے ہیں انکے پاس کوئی اور دلیل ہوگی۔
استغفراللہ اندھی تقلید کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ شبیر صاحب یہ بتانے میں ناکام رہے کہ وہ دلیل کہاں ہے جسکی بنیاد پر ابوحنیفہ نے یہ خلاف قرآن فتوی دیا ؟؟؟
صاحب ہدایہ نے قرآن کی آیت جس میں حمل اور رضاعت کی مدت کو جمع کرکے ڈھائی سال بیان کیا گیاہے۔ اس آیت کو ابوحنیفہ کی دلیل بتایا ہے اور اپنے امام کے ناجائز دفاع میں لغت کا سہارا لے کر حمل سے مراد بچے کو گود میں اٹھانا بتایا ہے۔ صاحب قدوری اور صاحب ہدایہ ابوحنیفہ کی اندھی تقلید میں یہ بھول گئے کہ قرآن کی تفسیر حدیث سے کی جاتی ہے لغت سے نہیں۔ حدیث کو چھوڑ کر لغت کا استعمال تو منکر حدیث کرتے ہیں۔
اس بحث کا نتیجہ تین صورتوں میں نکلتا ہے جس میں سے کسی ایک صورت کو ماننا لازمی و ناگزیر ہے۔
پہلی صورت یہ ہے کہ اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ امام ابوحنیفہ نے پورا قرآن نہیں پڑھا تھا۔ اگر انہوں نے پورا قرآن پڑھا ہوتا تو انکی نظر سے یقیناًقرآن کا وہ مقام ضرور گزار ہوتا جہاں اللہ رب العالمین نے رضاعت کی مدت دو سال بیان فرمائی ہے۔
دوسری صورت میں اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ امام ابوحنیفہ نے پورا قرآن پڑھا تھا۔ تو مقلدین کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ پورا قرآن پڑھنے کے باوجود بھی انہوں نے جان بوجھ کر قرآن کے خلاف فتوی دیا۔
تیسری اور آخری صورت یہ ہے کہ اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ فقہ حنفی کی معتبر کتابوں میں امام ابو حنیفہ سے منسوب یہ فتوی فقہ حنفی تحریر کرنے والوں کا جھوٹ ہے جو انہوں نے امام ابوحنیفہ کے ذمہ لگا دیا ہے۔
پہلی صورت کو تسلیم کرنے کی صورت میں مقلدین کے پاس امام ابوحنیفہ کی تقلید کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ کیونکہ جس شخص نے قرآن بھی پورا نہ پڑھا ہو ،وہ امامت کا حق دار کیسے ہو سکتاہے؟!
اگرحنفی بھائی دوسری صورت کو قبول کرلیتے ہیں تو اپنے امام کی مخالفت قرآن کا کیا جواب دینگے؟ اوراس کے بعد کیا وہ اس قابل رہیں گے کہ دوسروں کو انکی تقلید کی دعوت دے سکیں؟!
مقلدین کی طرف سے آخری صورت کو تسلیم کرنے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ فقہ حنفی جھوٹ اور افتراء کا پلندہ ہے۔ جس سے براء ت واجب ہے۔
اب ہمارے بھائی یہ بتا دیں کہ ان کو مذکورہ تین صورتوں میں سے کون سی صورت قبول ہے۔ اور اگر ان کے نزدیک ان تین صورتوں کے علاوہ بھی کوئی اور صورت ہے تو برائے مہربانی آگاہ کردیں۔ ان کی طرف سے جواب کا منتظر رہونگا۔
تنبیہہ: نامناسب الفاظ و عبارات میں ترمیم کی گئی ہے۔ ازراہ کرم اپنی تحریر میں محدث فورم کے قوانین کا، دیگر یوزرز اور دیگر مکتب فکر کے پیروی کرنے والوں کے جذبات کا احترم ملحوظ رکھیں۔ انتظامیہ