اعتدال سے جب بھی باہر کوئی چیز نکلتی ہے تووہ مذموم بن جاتی ہے اوریہیں سے شدت پسندی پیداہوتی ہے۔ملک اوروطن سے محبت اگرفطری حدود میں ہو توکوئی مضائقہ نہیں لیکن یہ چیز حد سے تجاوز کرجائے تو وطن پرستی اورمذہب کاکفن بن جایاکرتی ہے۔کسی شخصیت سے محبت میں بھی اعتدال ہوناچاہئے اورنفرت میں بھی ۔
کسی بات کی نسبت قائل تک صحیح طورپر ثابت ہو ۔اس کا مطالبہ کرنا اچھی بات ہے اورمستحسن امر ہے لیکن اس میں بھی اعتدال کے مراتب اورحداد کا خیال رکھنااز حد ضروری ہے کہ کس امر کیلئے کیسااورکون ساثبوت طلب کیاجائے۔ اوربے اعتدالی میں مبتلاہوکر اس کے حدود کوپامال کرنا نامناسب امر ہے۔
قران کریم رہتی دنیا تک انسانیت کی ہدایت کیلئے اللہ نے نازل کیاہے لہذا اس کے ثبوت اورصحت کا اس قدراہتمام کیاہے کہ اسے ہردور میں اس قدرتواتراوراتنے جم غفیر نے روایت کیاہے کہ جس کے بعد کوئی شک باقی نہیں رہتا۔احادیث کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہوا۔کچھ احادیث متواتر ہیں لیکن بیشتراحادیث خبر آحاد ہیں لہذا ان کی نسبت وہ یقین نہیں ہوسکتاجوقران پاک کی بہ نسبت ہے۔پھراحادیث میں خود اجلہ محدثین نے فضائل اعمال اورشرعی احکام اورحلال وحرام کے معاملات میں تفریق کی ہے کہ فضائل میں تھوڑی ڈھیل برتی ہے اورحلال وحرام میں سختی سے کام لیاہے۔
اسی طرح مزید غوروفکر سے کام لیں توتاریخی واقعات اورغزوات کے باب میں محدثین نے مزید نرمی سے کام لیاہے اوراس سلسلے میں واقدی جیسے روات پر بھی اعتبار کیاہے۔مزید غورکریں گے توپتہ چلے گاکہ خود اسماء الرجال کے فن میں بھی وہ سختی نہیں برتی گئی جوحدیث پاک کے سلسلے میں ہے۔ یعنی حدیث کا کوئی ٹکرااگر دوسرے روات کے بیان سے مختلف ہے تواسے شاذ اورمنکر کہاگیالیکن اگرایک امام جرح وتعدیل سے کئی روات کسی شخص کے بارے میں کلام نقل کرتے ہیں تو وہاں اس دقت نظر کا ثبوت نہیں دیاگیاجتناکہ احادیث میں برتاگیاہے۔
یہ ثبوت اوراثبات کی فطری ترتیب ہے۔اگرکوئی شخص چاہے کہ احادیث وسنن کے سلسلے میں بھی وہی صحت سند درکار ہو جو قرآن پاک کی ہے تویہ اس کے بیمار ذہن اورعقل کی علامت ہوگی ۔اسی طرح جب کچھ لوگ کسی شخصیت کے فضائل اورکمالات کے تعلق سے بخاری اوراحادیث جیسی صحت سند کا مطالبہ کرتے ہیں تویہ ان کی ائمہ اعلام کی کتابوں اوراس میں درج ترتیب اورطریقہ کار سے ناواقفیت کی نشانی اوردلیل ہوتی ہے۔
تابعیت تو دور کی بات ہے ۔ضعیف روایت سے کسی کا رسول پاک کو دیکھنااوران کی صحبت میں رہناثابت ہوجاتاہے جیساکہ حافظ ابن حجر نے الاصابہ میں تصریح کی ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
القسم الاول فیمن وردت صحبتہ بطریق الروایۃ عنہ اوعن غیرہ سواء کانت الطریق صحیحۃ او حسنۃ اوضعیفۃ او وقع ذکرہ بمایدل علی الصحبۃ بای طریق کان ۔(الاصابہ فی تمییز الصحابۃ 1/12)پھراس کے بعد انہوں نے عہد حضور میں ولادت کو صحابیت کی دلیل بنایاہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
حضورپاکؐ کے پاس نومولود بچوں کویقینالایاجاتاہے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم تحنیک کرتے اان کانام رکھتے اوربرکت کی دعائیں دیاکرتے تھے۔ بعض ایسے بھی بیانات منقول ہیں جیساکہ ابن حجر نے ذکر کیاہے کہ اس عہد میں یہ دستور تھاکہ بچوں کو حضورکے پاس لایاجاتاتھا لیکن اسمیں تخلف عین ممکن ہے۔ صحابہ کرام حضور پاک کے جتنے عاشق صادق تھے ان کی ہمیشہ کوشش ہوتی تھی کہ کسی بہانے سے حضور کی زیارت کا موقع ملے حضور ان کے مسکن اورگھر کو رونق بخشیں ۔لیکن حضرت عبدالرحمن بن عوف نے اپنی شادی میں مدعو نہیں کیاتھا۔پھر یہ کہ بچوں کوحضور پاک کی خدمت میں لانے کی بات تسلیم کی جائے تو یہ صرف مدینہ اورچند قریبی بستیوں تک محدود ہوگا ۔وہ بستیاں جو مدینہ سے دور تھیں مثلامکہ معظمہ،طائف،یمن اوردوسری دوردراز جگہین ۔وہاں کے بچے کس طرح آسکتے ہوں گے۔
پھر حافظ ابن حجر نے امام شافعی کو تبع تابعین میں شامل کیاہے جب کہ ایک بھی روایت صحیحہ ایسی پیش نہیں کی جاسکتی جس سے پتہ چلے کہ ان کی کسی تابعی سے ملاقات ثابت ہے۔
یہ تمام امور یہ واضح کرتی ہیں کہ تابعیت کے انکار میں سند صحیح کا جوزورلگایاجارہاہے وہ علم اورتحقیق سے کوسوں دور ہے۔اورمقصد شاید علمی تحقیق نہیں بلکہ امام ابوحنیفہ کی ضد اورمخالفت ہے۔خیراس چیز نے ماضی میں بھی بہت سے لوگوں کوبرباد کیاہے۔حال میں بھی برباد ہورہے ہیں اورآئندہ بھی ہوں گے ۔نہ ماضی کی کوششوں سے امام عالی مقام پر کچھ اثرپڑاہے اورنہ ہی حال کی کوششوں سے کچھ اثرمرتب ہونے والاہے۔
امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی تابعیت کے سلسلہ میں جہاں تک بات روایت کی اوراس کی صحت کی ہے تو حافظ ذہبی نے صراحتاکہہ دیاہے کہ انہ صح(مناقب امام ابی حنیفۃ وصاحبیہ)،اورحافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ بسند لاباس بہ (تبییض الصحیفۃ) تودوحفاظ حدیث اگرکسی سند کو صحیح ٹھہرارہے ہیں تویہ اس بات کی علامت ہے کہ ان کے پاس اس سلسلے کی تمام رواۃ کی معلومات بہم تھیں۔ سیف بن جابر کے احوال سے اگرہم لاعلم ہیں تویہ کیسے لازم آیاکہ حافظ ذہبی جنہوں نے اس روایت کی تصحیح کی ہے اورحافظ ابن حجر جنہوں نے اس روایت کو بسند لاباس بہ کہاہے وہ بھی اس سے لاعلم ہوں گے۔ زیادہ سے زیادہ جوبات کہی جاسکتی ہے وہ یہ موجودہ کتب جرح وتعدیل میں اس راوی کے تعلق سے ہمیں کچھ نہیں ملتا۔ تویہ جانناچاہئے کہ اولاتو جرح وتعدیل اورطبقات ورجال کی تمام کتابیں ہماری دسترس میں نہیں ہیں۔ بہت سی ایسی کتابیں جوکہ امتداد زمانہ اورگردش ایام کے ہاتھوں دست برد ہوگئیں اوربہت سی ایسی کتابیں ہیں جوکتب خانوں کے نیم تاریک کمروں میں کسی محقق کی منتظر ہیں۔اس بناء پر کسی شخص کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی لاعلمی اورجہالت کو بحث واستدلال میں حجت بنائے۔
پھربات یہیں تک منحصر نہیں ہے ۔حافظ دارقطنی جوانکار تابعیت میں پیش قدم ہیں ۔ان سے پیشتر حافظ حدیث ابن کاس نخعی نے جوبڑے پایہ کے محدث گزرے ہیں۔ انہوں نے یہ تصریح کی ہے۔
من فضائلہ انہ روی عن اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فان العلماء اتفقواعلی ذلک واختلفوفی عددھم فمنھم من قال انہم ستۃ وامراۃ ومنھم من قال سبعۃ وامراۃ۔(رسالہ فی مناقب الائمۃ الاربعۃ ،قلمی مخطوط کتب خانہ عارف حکمت نمبر252،(کتاب التواریخ )یہ رسالہ حسین بن حسین احمد الطولونی کی تصنیف ہے جو حافظ زین الدین قاسم بن قطلوبغا کے شاگرد ہیں)
دیکھئے ۔یہاں ابن کاس کے بیان سے پتہ چلتاہے کہ ان کے دور تک اس بات میں کوئی اختلاف نہیں تھاکہ امام ابوحنیفہ نے نہ صرف صحابہ کرام کی زیارت کی ہے بلکہ ان سے روایت بھی کی ہے۔
بات صرف ابن کاس نخعی کی نہیں ہے بلکہ دارقطنی کے ایک اوراستاذ حدیث ابوحامد حضرمی ہیں۔ ان کی تاریخ وفات مین اختلاف ہے ۔تاریخ بغداد میں خطیب نے خود ان کا بیان نقل کیاہے کہ میں225میں پیداہوا۔بعض دیگر علماء نے ان کی تاریخ ولادت230بیان کی ہے۔یہ بڑے پایہ کے محدث تھے ۔صحاح ستہ کے مولفین کے ہم عصر ہیں۔ دارقطنی اوردیگر کبارمحدثین ان کے شاگردوں میں ہیں۔ ان کا انتقال محرم321میں ہوا۔
انہوں نے امام اعظم ابوحنیفہ کے صحابہ کرام سے روایت کو ایک جزء میں جمع کیاتھا۔ان کا جزء حافظ ابن حجر عسقلانی کی المعجم المفہرس اورحافظ ابن طولون دمشقی متوفی953کی الفہرست الاوسط میں داخل ہے۔(ابن ماجہ اورعلم حدیث118)
حافظ ابوسعد سمان حافظ دارقطنی سے زمانی طورپر قریب ہیں۔ ان کا نام اسماعیل،ابوسعد کنت سمان کی نسبت سے مشہور ہیں۔ ان کی ذات جامع العلوم تھی۔ یہ فقیہہ ،مورخ،اصولی، لغوی اورمشہور حافظ حدیث ہیں۔حافظ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں ان کا مبسوط ترجمہ لکھاہے جس کی ابتداء ان الفاظ سے ہوتی ہے۔
کان امامابلامدافعۃ فی القراءۃ والحدیث والرجال والفرائض والشروط،عالمابفقہ ابی حنیفۃ والخلاف بینہ وبین الشافعی وعالمابفقہ الزیدیۃدیگر محدثین نے بھی ان کی تعریف اچھے لفظوں سے کی ہے لیکن چونکہ وہ مائل بہ اعتزال تھے اس لئے حافظ ذہبی نے اس جہت سے ان پر ناراضگی کااظہار کیاہے لیکن اس سے ان کی ثقاہت اوراتقان پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
امام اعظم کی صحابہ سے مرویات پر انہوں نے بھی ایک جزء تالیف کیاہے۔یہ جزء اگرچہ بعینہ موجود نہیں ہیں۔ لیکن جامع مسانید الامام الاعظ میں مسند حافظ ابن خسروکے حوالہ سے روایات ذکر کردی گئ ہیں۔
اسی طرح مشہور محدث ابومعشرعبدالکریم طبری نے بھی امام ابوحنیفہ کی صحابہ سے مرویات پر احادیث کو جمع کرنے کا اہتمام کیاہے۔ان کایہ جزء حافظ ابن حجر العسقلانی کی المعجم المفہرس اورحافظ ابن طولون دمشق کی الفہرست الاوسط کی مرویات میں داخل ہے۔
یہ بات قبل ازیں ذکر کی جاچکی ہے کہ حافظ عبدالقادرالقرشی جن کے شاگردوں میں حافظ عراقی بھی ہیں۔ انہوں نے بھی امام اعظم کی صحابہ کرام سے مرویات پر ایک جزء کی تالیف کی تھی۔ اس کے علاوہ ماقبل میں جن علماء کے بیانات اس تعلق سے ذکر کئے گئے کہ امام ابوحنیفہ نے حضرت انس کو دیکھاہے ۔ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اگر روایت ابن سعد نہ بھی ہوتی اورمحض ان اجلہ علماء کے بیانات ہوتے تویہ امام ابوحنیفہ کی تابعیت کے اثبات کیلئے کافی تھا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی بات کی نسبت قائل تک صحیح طورپر ثابت ہو ۔اس کا مطالبہ کرنا اچھی بات ہے اورمستحسن امر ہے لیکن اس میں بھی اعتدال کے مراتب اورحداد کا خیال رکھنااز حد ضروری ہے کہ کس امر کیلئے کیسااورکون ساثبوت طلب کیاجائے۔ اوربے اعتدالی میں مبتلاہوکر اس کے حدود کوپامال کرنا نامناسب امر ہے۔
قران کریم رہتی دنیا تک انسانیت کی ہدایت کیلئے اللہ نے نازل کیاہے لہذا اس کے ثبوت اورصحت کا اس قدراہتمام کیاہے کہ اسے ہردور میں اس قدرتواتراوراتنے جم غفیر نے روایت کیاہے کہ جس کے بعد کوئی شک باقی نہیں رہتا۔احادیث کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہوا۔کچھ احادیث متواتر ہیں لیکن بیشتراحادیث خبر آحاد ہیں لہذا ان کی نسبت وہ یقین نہیں ہوسکتاجوقران پاک کی بہ نسبت ہے۔پھراحادیث میں خود اجلہ محدثین نے فضائل اعمال اورشرعی احکام اورحلال وحرام کے معاملات میں تفریق کی ہے کہ فضائل میں تھوڑی ڈھیل برتی ہے اورحلال وحرام میں سختی سے کام لیاہے۔
اسی طرح مزید غوروفکر سے کام لیں توتاریخی واقعات اورغزوات کے باب میں محدثین نے مزید نرمی سے کام لیاہے اوراس سلسلے میں واقدی جیسے روات پر بھی اعتبار کیاہے۔مزید غورکریں گے توپتہ چلے گاکہ خود اسماء الرجال کے فن میں بھی وہ سختی نہیں برتی گئی جوحدیث پاک کے سلسلے میں ہے۔ یعنی حدیث کا کوئی ٹکرااگر دوسرے روات کے بیان سے مختلف ہے تواسے شاذ اورمنکر کہاگیالیکن اگرایک امام جرح وتعدیل سے کئی روات کسی شخص کے بارے میں کلام نقل کرتے ہیں تو وہاں اس دقت نظر کا ثبوت نہیں دیاگیاجتناکہ احادیث میں برتاگیاہے۔
یہ ثبوت اوراثبات کی فطری ترتیب ہے۔اگرکوئی شخص چاہے کہ احادیث وسنن کے سلسلے میں بھی وہی صحت سند درکار ہو جو قرآن پاک کی ہے تویہ اس کے بیمار ذہن اورعقل کی علامت ہوگی ۔اسی طرح جب کچھ لوگ کسی شخصیت کے فضائل اورکمالات کے تعلق سے بخاری اوراحادیث جیسی صحت سند کا مطالبہ کرتے ہیں تویہ ان کی ائمہ اعلام کی کتابوں اوراس میں درج ترتیب اورطریقہ کار سے ناواقفیت کی نشانی اوردلیل ہوتی ہے۔
تابعیت تو دور کی بات ہے ۔ضعیف روایت سے کسی کا رسول پاک کو دیکھنااوران کی صحبت میں رہناثابت ہوجاتاہے جیساکہ حافظ ابن حجر نے الاصابہ میں تصریح کی ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
القسم الاول فیمن وردت صحبتہ بطریق الروایۃ عنہ اوعن غیرہ سواء کانت الطریق صحیحۃ او حسنۃ اوضعیفۃ او وقع ذکرہ بمایدل علی الصحبۃ بای طریق کان ۔(الاصابہ فی تمییز الصحابۃ 1/12)پھراس کے بعد انہوں نے عہد حضور میں ولادت کو صحابیت کی دلیل بنایاہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
القسم الثانی من ذکر فی الصحابۃ من الاطفال الذین ولدو ا فی عھدالنبی صلی اللہ علیہ وسلم لبعض الصحابۃ من النساء اوالرجال ممن مات صلی اللہ علیہ وسلم وھوفی دون سن التمییز ،اذ ذکر اولئک فی الصحابۃ انماھوعلی سبیل الالحاق لغلبۃ الظن علی انہ صلی اللہ علیہ وسلم راھم لتوفر دواعی اصحابہ علی احضارھم اولادھم عندہ عندولادتھم لیحنکھم ویسمیھم ویبرک علیھم والاخباربذلک کثیرۃ شھیرۃ۔(نفس المصدر)
حضورپاکؐ کے پاس نومولود بچوں کویقینالایاجاتاہے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم تحنیک کرتے اان کانام رکھتے اوربرکت کی دعائیں دیاکرتے تھے۔ بعض ایسے بھی بیانات منقول ہیں جیساکہ ابن حجر نے ذکر کیاہے کہ اس عہد میں یہ دستور تھاکہ بچوں کو حضورکے پاس لایاجاتاتھا لیکن اسمیں تخلف عین ممکن ہے۔ صحابہ کرام حضور پاک کے جتنے عاشق صادق تھے ان کی ہمیشہ کوشش ہوتی تھی کہ کسی بہانے سے حضور کی زیارت کا موقع ملے حضور ان کے مسکن اورگھر کو رونق بخشیں ۔لیکن حضرت عبدالرحمن بن عوف نے اپنی شادی میں مدعو نہیں کیاتھا۔پھر یہ کہ بچوں کوحضور پاک کی خدمت میں لانے کی بات تسلیم کی جائے تو یہ صرف مدینہ اورچند قریبی بستیوں تک محدود ہوگا ۔وہ بستیاں جو مدینہ سے دور تھیں مثلامکہ معظمہ،طائف،یمن اوردوسری دوردراز جگہین ۔وہاں کے بچے کس طرح آسکتے ہوں گے۔
پھر حافظ ابن حجر نے امام شافعی کو تبع تابعین میں شامل کیاہے جب کہ ایک بھی روایت صحیحہ ایسی پیش نہیں کی جاسکتی جس سے پتہ چلے کہ ان کی کسی تابعی سے ملاقات ثابت ہے۔
یہ تمام امور یہ واضح کرتی ہیں کہ تابعیت کے انکار میں سند صحیح کا جوزورلگایاجارہاہے وہ علم اورتحقیق سے کوسوں دور ہے۔اورمقصد شاید علمی تحقیق نہیں بلکہ امام ابوحنیفہ کی ضد اورمخالفت ہے۔خیراس چیز نے ماضی میں بھی بہت سے لوگوں کوبرباد کیاہے۔حال میں بھی برباد ہورہے ہیں اورآئندہ بھی ہوں گے ۔نہ ماضی کی کوششوں سے امام عالی مقام پر کچھ اثرپڑاہے اورنہ ہی حال کی کوششوں سے کچھ اثرمرتب ہونے والاہے۔
امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی تابعیت کے سلسلہ میں جہاں تک بات روایت کی اوراس کی صحت کی ہے تو حافظ ذہبی نے صراحتاکہہ دیاہے کہ انہ صح(مناقب امام ابی حنیفۃ وصاحبیہ)،اورحافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ بسند لاباس بہ (تبییض الصحیفۃ) تودوحفاظ حدیث اگرکسی سند کو صحیح ٹھہرارہے ہیں تویہ اس بات کی علامت ہے کہ ان کے پاس اس سلسلے کی تمام رواۃ کی معلومات بہم تھیں۔ سیف بن جابر کے احوال سے اگرہم لاعلم ہیں تویہ کیسے لازم آیاکہ حافظ ذہبی جنہوں نے اس روایت کی تصحیح کی ہے اورحافظ ابن حجر جنہوں نے اس روایت کو بسند لاباس بہ کہاہے وہ بھی اس سے لاعلم ہوں گے۔ زیادہ سے زیادہ جوبات کہی جاسکتی ہے وہ یہ موجودہ کتب جرح وتعدیل میں اس راوی کے تعلق سے ہمیں کچھ نہیں ملتا۔ تویہ جانناچاہئے کہ اولاتو جرح وتعدیل اورطبقات ورجال کی تمام کتابیں ہماری دسترس میں نہیں ہیں۔ بہت سی ایسی کتابیں جوکہ امتداد زمانہ اورگردش ایام کے ہاتھوں دست برد ہوگئیں اوربہت سی ایسی کتابیں ہیں جوکتب خانوں کے نیم تاریک کمروں میں کسی محقق کی منتظر ہیں۔اس بناء پر کسی شخص کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی لاعلمی اورجہالت کو بحث واستدلال میں حجت بنائے۔
آخر ہم دوسرے روات کے بارے میں بھی تودیگر محدثین کے بیانات پر ہی انحصار کرتے ہیں اورانہی کے بیانات پر اطمینان قلب نصیب ہوتاہے تویہاں دوحافظ حدیث کی کسی سند کی تحسین وتصحیح پر اطمینان ہوتاہے تواس میں چیں بجبیں ہونے کی کیابات ہے؟اگرایک شخص کو یہ کہنے کا حق ہے کہ ہمیں چونکہ اس راوی کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔ اس لئے ہم اس سند کو مجہول روات کی وجہ سے ضعیف سمجھیں گے تواگراس کے مقابلہ میں دوسراکہتاہے کہ جب دوحفاظ حدیث نے جو صرف حدیث کے حافظ ہی نہیں بلکہ نقد رجال کے ماہر بھی ہیں انہوں نے اس روایت کی تصحیح وتحسین کی ہے توہم بھی اس سند کو قابل استدلال مانیں گے توکیایہ بات سرے سے قابل تسلیم ہی نہیں ہوگی ؟اوراس قابل ہوگی کہ اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیاجائے۔
پھربات یہیں تک منحصر نہیں ہے ۔حافظ دارقطنی جوانکار تابعیت میں پیش قدم ہیں ۔ان سے پیشتر حافظ حدیث ابن کاس نخعی نے جوبڑے پایہ کے محدث گزرے ہیں۔ انہوں نے یہ تصریح کی ہے۔
من فضائلہ انہ روی عن اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فان العلماء اتفقواعلی ذلک واختلفوفی عددھم فمنھم من قال انہم ستۃ وامراۃ ومنھم من قال سبعۃ وامراۃ۔(رسالہ فی مناقب الائمۃ الاربعۃ ،قلمی مخطوط کتب خانہ عارف حکمت نمبر252،(کتاب التواریخ )یہ رسالہ حسین بن حسین احمد الطولونی کی تصنیف ہے جو حافظ زین الدین قاسم بن قطلوبغا کے شاگرد ہیں)
دیکھئے ۔یہاں ابن کاس کے بیان سے پتہ چلتاہے کہ ان کے دور تک اس بات میں کوئی اختلاف نہیں تھاکہ امام ابوحنیفہ نے نہ صرف صحابہ کرام کی زیارت کی ہے بلکہ ان سے روایت بھی کی ہے۔
بات صرف ابن کاس نخعی کی نہیں ہے بلکہ دارقطنی کے ایک اوراستاذ حدیث ابوحامد حضرمی ہیں۔ ان کی تاریخ وفات مین اختلاف ہے ۔تاریخ بغداد میں خطیب نے خود ان کا بیان نقل کیاہے کہ میں225میں پیداہوا۔بعض دیگر علماء نے ان کی تاریخ ولادت230بیان کی ہے۔یہ بڑے پایہ کے محدث تھے ۔صحاح ستہ کے مولفین کے ہم عصر ہیں۔ دارقطنی اوردیگر کبارمحدثین ان کے شاگردوں میں ہیں۔ ان کا انتقال محرم321میں ہوا۔
انہوں نے امام اعظم ابوحنیفہ کے صحابہ کرام سے روایت کو ایک جزء میں جمع کیاتھا۔ان کا جزء حافظ ابن حجر عسقلانی کی المعجم المفہرس اورحافظ ابن طولون دمشقی متوفی953کی الفہرست الاوسط میں داخل ہے۔(ابن ماجہ اورعلم حدیث118)
حافظ ابوسعد سمان حافظ دارقطنی سے زمانی طورپر قریب ہیں۔ ان کا نام اسماعیل،ابوسعد کنت سمان کی نسبت سے مشہور ہیں۔ ان کی ذات جامع العلوم تھی۔ یہ فقیہہ ،مورخ،اصولی، لغوی اورمشہور حافظ حدیث ہیں۔حافظ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں ان کا مبسوط ترجمہ لکھاہے جس کی ابتداء ان الفاظ سے ہوتی ہے۔
الحافظ الکبیر المتقن
ان کے شیوخ حدیث کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ طلب حدیث میں انہوں نے شہروں کی خاک چھانی ۔حافظ ابن عساکر نے ان کی شیوخ کی تعداد تین ہزار چھ سوبیان کی ہے۔یہ بیک واسطہ محمد بن ہارون حضرمی کے بھی شاگرد ہیں۔ حافظ ابوسعد سمان کے شاگردوں مین خطیب بغدادی، عبدالعزیز کتانی، طاہر بن الحسین، ابوعلی الحداد جیسے بلندپایہ محدثین شامل ہیں۔ حافظ ذہبی ان کی شان میں کہتے ہیں۔کان امامابلامدافعۃ فی القراءۃ والحدیث والرجال والفرائض والشروط،عالمابفقہ ابی حنیفۃ والخلاف بینہ وبین الشافعی وعالمابفقہ الزیدیۃدیگر محدثین نے بھی ان کی تعریف اچھے لفظوں سے کی ہے لیکن چونکہ وہ مائل بہ اعتزال تھے اس لئے حافظ ذہبی نے اس جہت سے ان پر ناراضگی کااظہار کیاہے لیکن اس سے ان کی ثقاہت اوراتقان پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
امام اعظم کی صحابہ سے مرویات پر انہوں نے بھی ایک جزء تالیف کیاہے۔یہ جزء اگرچہ بعینہ موجود نہیں ہیں۔ لیکن جامع مسانید الامام الاعظ میں مسند حافظ ابن خسروکے حوالہ سے روایات ذکر کردی گئ ہیں۔
اسی طرح مشہور محدث ابومعشرعبدالکریم طبری نے بھی امام ابوحنیفہ کی صحابہ سے مرویات پر احادیث کو جمع کرنے کا اہتمام کیاہے۔ان کایہ جزء حافظ ابن حجر العسقلانی کی المعجم المفہرس اورحافظ ابن طولون دمشق کی الفہرست الاوسط کی مرویات میں داخل ہے۔
یہ بات قبل ازیں ذکر کی جاچکی ہے کہ حافظ عبدالقادرالقرشی جن کے شاگردوں میں حافظ عراقی بھی ہیں۔ انہوں نے بھی امام اعظم کی صحابہ کرام سے مرویات پر ایک جزء کی تالیف کی تھی۔ اس کے علاوہ ماقبل میں جن علماء کے بیانات اس تعلق سے ذکر کئے گئے کہ امام ابوحنیفہ نے حضرت انس کو دیکھاہے ۔ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اگر روایت ابن سعد نہ بھی ہوتی اورمحض ان اجلہ علماء کے بیانات ہوتے تویہ امام ابوحنیفہ کی تابعیت کے اثبات کیلئے کافی تھا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔