• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابوحنیفہ کی تابعیت اورمولانا رئیس ندوی کا انکار

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
9: حافظ مزی
النعمان بن ثابت التیمی ،ابوحنیفۃ الکوفی مولی بنی تیم اللہ بن ثعلبہ ،فقیہ اھل العراق،وامام اصحاب الرای وقیل انہ من ابناء فارس ،رای انس بن مالک۔(تہذیب الکمال 29/418
نعمان بن ثابت ابوحنیفہ الکوفی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے حضرت انس بن مالک کو دیکھاہے ۔

10: علامہ صفدی
ورای انس بن مالک غیرمرۃ بالکوفۃ ،قالہ ابن سعد وروی ابوحنیفۃ رضی اللہ عنہ عطاء ابن ابی رباح وقال: مارایت افضل منہ (الوافی بالوفیات 27/89)
امام ابوحنیفہ نے انس بن مالک کو متعدد مرتبہ کوفہ مین دیکھاہے۔ یہ بات ابن سعد نے کہی ہے۔ امام ابوحنیفہ نے عطاء بن ابی رباح سے روایت کی ہے اوران کے بارے میں کہاہے کہ میں نے ان سے زیادہ افضل کسی شخص کو نہیں دیکھا۔

11: ابن عبدالہادی المقدسی الحنبلی
فاول ھولاء الائمۃ المذکورین ،واقربھم زمنا الی سید المرسلین الامام ابوحنیفۃ النعمان بن ثابت التیمی الکوفی ،احد الائمۃ الاعلام وفقیہ اہل العراق،ادرک جماعۃ من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم
ورای انس بن مالک خادم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وصاحبہ غیرمرۃ
لماقدم علیھم الکوفۃ،وری عن جماعۃ من سادات التابعین(مناقب الائمۃ الاربعۃ ،محمد بن احمد عبدالہادی المقدسی الحنبلی متوفی 744ھج،ص58)
ان ائمہ اربعہ میں سے سب سے اول اورزمانہ کے اعتبار سے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ قریب امام ابوحنیفہ نعمان بن چابت التیمی الکوفی ہیں۔ نامور ائمہ میں سے ایک ہیں ۔عراق کے فقیہہ ہیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی ایک جماعت کا زمانہ پایا اورانس بن مالک رسول پاک کے خادم اورصحابی کو متعدد مرتبہ دیکھاجب وہ کوفہ تشریف لائے۔ انہوں نے سادات تابعین سے روایت اخذ کیاہے۔

12: ابن کثیر
ھوالامام ابوحنیفۃ واسمہ النعمان بن ثابت التیمی،مولاھم الکوفی،فقیہ العراق، واحد ائمۃ الاسلام، والسادۃ الاعلام،واحد ارکان العلماء واحد الائمۃ الاربعہ اصحاب المذاہب المتبعۃ ،وھواقدمھم وفاۃ ،لانہ ادرک عصرالصحابۃ ،ورای انس بن مالک،قیل:وغیرہ،وذکر بعضھم انہ روی عن سبعۃ من الصحابہ ۔فاللہ اعلم
البدایہ والنہایہ لابن کثیر،13/415)

13-14حافظ جزری وتوربشتی
ملاعلی قاری لکھتے ہیں۔
فانہ قدراٰی انسا وغیرہ من الصحابۃ علی ماذکرۃ الشیخ الجزری فی اسماء رجال القراء والتوربشتی فی تحفۃ المسترشد وصاحب کشف الکشاف فی سورۃ المومنین وصاحب مراۃ الجنان وغیرھم من العلماء المتبحرین فمن نفی انہ تابعی فامامن التتبع القاصر اوالتعصب الفاتر
شرح شرح نخبة الفكر في مصطلحات أهل الأثرص200،مکتبہ مشکاۃ

15: حافظ ولی الدین ازی المعروف حافظ عراقی

وقفت علی فتیارفعت الی الشیخ ولی الدین العراقی (صورتھا)
ھل روی ابوحنیفۃ عن احد من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم وھل یعد من التابعین ام لا؟
(فاجاب بمانصہ): الامام ابوحنیفہ لم یصح لہ روایۃ عن احد من الصحابۃ وقد رای انس بن مالک فمن یکتف فی التابعی بمجرد رویۃ الصحابی یجعلہ تابعیا ومن لم یکتف بذلک لایعدہ تابعیا۔(تبییض الصحیفۃ ص15)

حافظ زین الدین عراقی مقدمہ ابن الصلاح کی شرح التقیید والایضاح میں ان تابعین کو شمار کرتے ہوئے جنہوں نے عمروبن شعیب سے روایت کی ہے۔ امام صاحب کانام بھی ذکر کیاہے ۔چنانچہ تابعی کی تبع تابعی سے روایت کی بحث میں فرماتے ہیں۔
الامرالثالث انہ قد روی عنہ جماعۃ کثیروں من التابعین غیرھولاء ولم یذکرھم عبدالغنی وھم ثابت بن عجلان وحسان بن عطیہ،وعبداللہ بن عبدالرحمن وعبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج والعلاء بن الحرچ الشامی ومحمد بن اسحق بن یسار ومحمد -جمادہ،ومحمد بن عجلان وابوحنیفہ النعمان بن ثابت(التقید والایضاح ص289)

16:
حافظ عبدالقادرالقرشی
ادعی بعضھم انہ سمع ثمانیۃ من الصحابۃ وقد جمعھم غیرواحد فی جزء ورویناھذاالجزء عن بعض شیوخنا،وقد جمعت اناجزءا فی بیان استحالۃ ذلک من بعضحم وھذا طریق الانصاف وذکر فی ھذالجزء من سمعہ من الصحابۃ ومن راہ وذکر ت عن الخطیب انہ رای انس بن مالک ورددت قول من قال انہ ماراہ وبینت ذلک بیاناشافیا۔والحمدللہ(الجواہرالمضیئۃ 1/54)

بعض حضرات نے دعویٰ کیاہے کہ امام ابوحنیفہ نے آٹھ صحابہ سے روایتیں سنی ہیں۔ اوراس کو بعض لوگوں نے ایک جزئ میں جمع کیاہے اورہم نے اپنے بعض شیوخ سے اس جزء کی روایت کی ہے ۔ایک جزئ میں امام ابوحنیفہ کی صحابہ کی روایت سے تعلق سے ہم نے بھی لکھاہے اوراس مین بعض صحابہ سے امام ابوحنیفہ کی روایت کے ناممکن ہونابیان کیاہے کیونکہ انصاف کا طریقہ یہی ہے۔اس جزئ میں جن صحابہ سے امام ابوحنیفہ کی روایت ثابت ہے اورجن صحابہ کرام کو دیکھاہے اس کابیان ہے۔خطیب کاقول میں نے ذکرکیاہے کہ امام ابوحنیفہ نے حضرت انس کو دیکھاہے اوران لوگوں کی تسلی بخش تردید کی ہے جویہ کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ نے حضرت انس کو نہیں دیکھاہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
حافظ جزری کی غایۃ النھایہ فی طبقات القراء کا حوالہ مل گیاہے سوچاکہ اسے ملاعلی قاری کے حوالہ چھوڑنے کے بجائے براہ راست اسے نقل ہی کردوں ۔
النعمان بن ثابت بن زوطا الإمام أبو حنيفة الكوفي فقيه العراق والمعظم في الآفاق مولى بني تيم الله بن ثعلبة، روى القراءة عرضاً عن الأعمش وعاصم وعبد الرحمن بن أبي ليلى ورأى أنس بن مالك وحدث عن عطاء والأعرج ونافع مولى ابن عمر وعكرمة، روى القراءة عنه الحسن بن زياد، (غاية النهاية في طبقات القراء للجزری 634
نعمان بن ثابت بن زوطا امام ابوحنیفہ کوفی عراقیوں کے فقییہ اوردنیا بھر میں قابل تعظیم بنوتیم اللہ بن ثعلیہ کے مولی۔ انہوں نے قرات اعمش ،عاصم اورعبدالرحمن بن ابی لیلی پر پڑھ کر روایت کی اورانہوں نے انس بن مالک کو دیکھا اورعطاء ،اعرج،نافع مولی ابن عمر،عکرمہ، سے روایت کی ہے۔ ان سے حسن بن زیاد نے قرات کی روایت کی ہے

17/18: حافظ عامری وحافظ علائی

وذکرالحافظ العامری فی تالیفہ الریاض المستطابہ وکذلک ملخصہ صالح بن صلاح العلائی ،ومن خطہ نقلت ،ان الامام اباحنیفۃ رای عبداللہ بن الحارث بن جزء الصحابی وسمع منہ قولہ،من تفقہ فی دین اللہ کفاہ اللہ ھمہ ورزقہ من حیث لایحتسب (شذرات الذہب،2/229-230،لابن عبدالحی العکری الحنبل الدمشقی)
اورحافظ عامری نے الریاض المستطابہ میں ذکر کیاہے اوراس کی تلخیص جو صالح بن علائی نے کی ہے۔ اوران کی تلخیص سے میں نے نقل کیاہے وہ یہ ہے۔ امام ابوحنیفہ نے عبداللہ بن حارث بن جزء نامی صحابی کی زیارت کی ہے اوران سے یہ حدیث سنی ہے: قولہ،من تفقہ فی دین اللہ کفاہ اللہ ھمہ ورزقہ من حیث لایحتسب

19: حافظ مغلطائی
اکمال تہذیب الکمال فی اسماء الرجال میں ابن عبدالبر کے الاستغناء کے حوالہ سے امام صاحب کے حضرت انس بن مالک اورعبداللہ بن حارث بن جزء الزبیدی کے رویت کا اثبات کیاہے۔

20: حافظ ابن حجر
"امام ابوحنیفہ نے صحابہ کی ایک جماعت کو پایاہے۔ اس لئے کہ آپ کی کوفہ میں80میں ولادت ہوئی ہے۔اوراس وقت وہاں صحابہ میں سے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی موجود تھے۔اس لئے کہ بالاتفاق ان کی وفات 80کے بعد ہوئی ہے۔ اوران دنوں بصرہ میں انس بن مالک موجود تھے ۔اس لئے کہ ان کی وفات 90میں یااس کے بعد ہوئی ہے۔ اورابن سعد نے ایسی سند سے جس میں کوئی خرابی نہیں ہے ۔بیان کیاہے کہ امام ابوحنیفہ نے حضرت انس کو دیکھاہے۔ نیز ان دونوں حضرات کے علاوہ اوربھی بہت سے صحابہ مختلف شہروں میں بقید حیات موجود تھے۔ بعض علماء نے امام ابوحنیفہ کی صحابہ سے روایت کردہ احادیث کے بارے میں مختلف جزء جمع کئے ہیں۔ لیکن ان کی اسناد ضعف سے خالی نہیں ہیں۔
امام صاحبؓ کے ادراک صحابہ کے باب میں قابل اعتماد وہ امر ہے جوگزرچکااوربعض صحابہ کی رویت کے بارے میں قابل اعتماد وہ روایت جس کو ابن سعد نے طبقات میں ذکر کیاہے لہذا اس اعتبار سے امام ابوحنیفہ تابعین کے طبقہ میں سے ہیں اوریہ مرتبہ دوسرےشہروں میں بسنے والے آپ کے ہم عصر ائمہ میں سے کسی ایک کوبھی حاصل نہ ہوسکا۔ جیسے امام اوزاعی کوجوشام میں تھے اورحمادین(امام حماد بن سلمہ اورامام حماد بن زید)کو جوبصرہ میں تھے اورامام ثوری کوجوکوفہ میں تھے اورامام مالک کو جومدینہ میں تھے اورامام مسلم بن خالد زنجی کو جومکہ میں تھے اورامام لیث بن سعد کو جومصر میں تھے۔
حافظ ابن حجر کی بات یہاں ختم ہوتی ہے۔(تبییض الصحیفۃ للسیوطی ص15)


تہذیب التہذیب میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔
النعمان بن ثابت التیمی ،ابوحنیفۃ الکوفی مولی بنی تیم اللہ ابن ثعلبہ وقیل انہ من ابناء فارس،رأی انسا روی عن عطاء بن ابی رباح(تہذیب التہذیب 10/449)
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
21: حافظ سخاوی

حافظ سخاوی امام صاحب کی تابعیت کے تعلق سے لکھتے ہیں۔
وفی الخمسین ومائۃ من السنین الامام المقلد احد من عد فی التابعین ابوحنیفۃ النعمان بن ثابت الکوفی قضی ای مات۔(فتح المغیث4/341)

22: حافظ قسطلانی

حافظ قسطلانی سے بھی امام صاحب کی تابعیت کااثبات منقول ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔

ومن التابعین الحسن البصری،وابن سبرین، والشعبی ،وابن المسیب وابوحنیفہ(تذکرۃ الراشد ص275)

اس کے علاوہ دوسری جگہ وہ لکھتے ہیں۔

ابن ابی اوفی عبداللہ جو صحابی ابن صحابی ہیں۔کوفہ میں وفات پانے والے یہ سب سے اخیر شخص ہیں۔ جنہوں نے ۸۷میں کوفہ میں وفات پائی۔ (اخیرعمر میں) ان کی آنکھیں جاتی رہی تھیں۔کہاگیاہے کہ امام ابوحنیفہ نے سات سال کی عمر میں ان کو دیکھاتھا۔(ارشاد الساری شرح صحیح البخاری 1/212)

23: حافظ سیوطی

تیبیض الصحیفۃ میں حافظ سیوطی نے امام صاحب کی تابعیت پر حافظ زین عراقی اورحافظ ابن حجر کا فتوی نقل کیاہے جس کے حوالے پیچھے گزرچکے ہیں۔

24: ملاعلی قاری

التابعی ھومن لقی الصحابی ھذا ھوالمختار قال العراقی وعلیہ عمل الاکثرین وقد اشارالنبی صلی اللہ علیہ وسلم الی الصحابی والتابعی بقولہ "طوبی لمن راٰنی ولمن رای من راٰنی:فاکتفی بمجرد الرویۃ ۔قلت:وبہ یندرج الامام الاعظم فی سلک التابعین فانہ قدراٰی انسا وغیرہ من الصحابۃ علی ماذکرۃ الشیخ الجزری فی اسماء رجال القراء والتوربشتی فی تحفۃ المسترشد وصاحب کشف الکشاف فی سورۃ المومنین وصاحب مراۃ الجنان وغیرھم من العلماء المتبحرین فمن نفی انہ تابعی فامامن التتبع القاصر اوالتعصب الفاتر(شرح شرح النخبۃ ص200)
تابعی وہ ہے جسے صحابی سے لقاء(رویت)حاصل ہو ۔یہی مختار قول ہے۔ عراقی کہتے ہیں کہ اسی پر اکثرکا عمل ہے اوراسی کی جانب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی اورتابعی کیلئے اشارہ کیاہے۔ بہتری ہو اس کیلئے جس نے مجھے دیکھااوراس کیلئے جس نے میرے دیکھنے والے کو دیکھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف رویت پراکتفاء فرمایا۔میں کہتاہوں کہ تابعین کی لڑی میں امام اعظم بھی مندرج ہوتےہیں کیونکہ انہوں نے حضرت انس اوردیگر صحابہ کرام کو دیکھاجیساکہ شیخ جزری نے اسماء رجال القراء اورتوربشتی نے تحفۃ المسترشد اورصاحب کشف الکشاف نے سورہ مومنین میں اورصاحب مراۃ الجنان اوردیگر علماء متبحرین میں ذکر کیاہے توجس نے بھی امام ابوحنیفہ کے تابعی ہونے کی نفی کی ہے تواس کی وجہ صرف یہی رہی ہے یاتواس نے تحقیق وتلاش میں کم ہمیتی سے کام لیایاتعصب کی زیادتی نے اس کو اس پر آمادہ کیا۔
25: محمد اکرام سندھی

محمد اکرام سندھی مشہور محدث گزرے ہیں اوران کی نخبۃ الفکر پر امعان النظر نام کے سے شرح نے شہرت حاصل کی ہے۔ سید میاں نذیر حسین صاحب نے بھی انکار تابعیت مین معیارالحق مین اس کا حوالہ دیاہے۔محمد اکرام سندھی اپنی اس شرح میں لکھتے ہیں۔

قال بعض المحققین وبہ ینرج الامام الاعظم فی سلک التابعین فانہ قد رای انس بن مالک وغیرہ من الصحابۃ علی ماذکرہ الشیخ الجزری فی اسماء رجال القراء والامام التوربشتی فی تحفۃ المسترشدین وصاحب مراۃ الجنان وغیرھم من العلماء المتبحرین ۔انتھیامعان النظر 211

26: مرعی بن یوسف الحنبلی

دسویں صدی ہجری کے مشہور حنبلی عالم مرعی بن یوسف الحنبلی اپنی مایہ ناز کتاب تنویرالصحیفۃ میں لکھتے ہیں۔

وکانت ولادتہ فی عصرالصحابۃ وھومن التابعین علی الصحیح،قال الحافظ ابن حجر،ادرک الامام ابوحنیفۃ جماعۃ من الصحابۃ علی الصحیح لانہ ولد بالکوفۃ سنہ ثمانین من الہجرۃ وبھایومئذ من الصحابۃ عبداللہ بن ابی اوفی،قال الحافظ الذہبی انہ رای انس بن مالک رضی اللہ وھوصغیروذکر جماعۃ انہ روی جماعۃ من الصحابہ ۔۔۔۔۔ والصواب انہ لم تثبت روایتہ عن واحد منہم (تنویربصائرالمقلدین فی مناقب لائمۃ الاربعۃ المجتہدین ،لمرعی بن یوسف الحنبلی ص12،مخطوطہ
ان کی ولادت صحابہ کے دور میں ہوئی تھی اور وہ صحیح قول کے مطابق تابعین میں سے ہیں۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ نے صحابہ کرام کی ایک جماعت کا زمانہ صحیح قول کے مطابق پایاہے۔کیونکہ ان کی ولادت کوفہ میں سنہ80ہجری میں ہوئی ہے اوراس وقت کوفہ میں حضرت عبداللہ بن ابی اوفی موجود تھے۔حافظ ذہبی کہتےہیں کہ انہوں نے حضرت انس کو صغرسنی میں دیکھاہے ۔ایک جماعت کا کہناہے کہ انہوں نے صحابہ کرام سے روایت بھی کی ہے اوردرست بات یہ ہے کہ ان کی کسی صحابی سے روایت ثابت نہیں ہے۔

27: صاحب شذرات الذہب ابن عبدالحی العکری الحنبلی الدمشقی

وفیھاتوفی الامام ابوحنیفۃ النعمان بن ثابت الکوفی ،مولی بنی تیم اللہ بن ثعلبہ ،ومولدہ سنہ ثمانین، رای انسا وغیرہ۔وذکرالحافظ العامری فی تالیفہ الریاض المستطابہ وکذلک ملخصہ صالح بن صلاح العلائی ،ومن خطہ نقلت ،ان الامام اباحنیفۃ رای عبداللہ بن الحارث بن جزء الصحابی وسمع منہ قولہ،من تفقہ فی دین اللہ کفاہ اللہ ھمہ ورزقہ من حیث لایحتسب (شذرات الذہب،2/229-230،لابن عبدالحی العکری الحنبل الدمشقی)
اوراسی سنہ(۱۵۰ہجری)میں امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کوفی مولی بنی تیم اللہ بن ثعلبہ نے وفات پائی ۔ ان کی پیدائش سنہ 80ہجری میں ہوئی ہے۔ اورحافظ عامری نے الریاض المستطابہ میں ذکر کیاہے اوراس کی تلخیص جو صالح بن علائی نے کی ہے۔ اوران کی تلخیص سے میں نے نقل کیاہے وہ یہ ہے۔ امام ابوحنیفہ نے عبداللہ بن حارث بن جزء نامی صحابی کی زیارت کی ہے اوران سے یہ حدیث سنی ہے۔ جوشخص اللہ کے دین میں تفق حاصل کرے گاللہ اس کے اندیشوں کیلئے کافی ہوجائؑے گا اوراس کو ایسی جگہ سے رزق نصیب کرے گاجہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوگا۔

28ابن حجرہیتمی

الخیرات الحسان میں لکھتے ہیں۔

وحینئذفھومن اعیان التابعین الذ ین شملھم قولہ تعالیٰ والذین اتبعوھم باحسان رضی اللہ عنہم ورضواعنہ (الخیرات الحسان24)
اس لحاظ سے(کہ صحابی کو محض دیکھنے والاتابعی ہوتاہے)امام ابوحنیفہ تابعین میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ کایہ ارشاد شامل ہے والذین اتبعوھم باحسان

اب متفرقات طورپر کچھ نام ذکر کئے جاتے ہیں۔
29: ابن سعد
ابن سعد انہوں نے طبقات ابن سعد میں امام صاحب کے حضرت انس اورحضرت عبداللہ بن حارث بن جزء کو دیکھنے کا ذکر کیاہے جس کے حوالہ حافظ ابن عبدالبر،حافظ ذہبی ،حافظ ابن حجر اوردیگر محدثین کے کلام میں گزرچکے ہیں۔

30حافظ وزیر یمانی
نے بھی العواصم والقواصم میں امام ابوحنیفہ کے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھنے کی بات کہی ہے۔ لیکن اس پر زیادہ بھروسہ اس لئے نہیں کیاجاسکتاکہ العواصم والقواصم میں موصوف خود لکھتے ہیں کہ میرے پاس اس وقت کتابیں کم نہیں اومراجع زیادہ نہیں ہیں۔

31: ابن ندیم
اپنی مشہور عالم کتاب الفہرست میں جو کے اس کے دور سے پہلے کی کتابوں کا ریکارڈ ہے۔ اہل الرائے کے باب میں حضرت امام ابوحنیفہ کے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھنے کی بات کہی ہے۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
اس طرح کے اقوال توہم رفیق طاہر صاحب سے زیادہ پیش کرسکتے ہیں ۔صرف ایک ہی حوالہ کافی ہوگا۔
قال عمروبن الحارث
مارایت علمااشرف ولااھلااسخف من اھل الحدیث (جامع بیان العلم وفضلہ1027)

میں نے کوئی علم حدیث سے زیادہ اشرف اورکوئی قوم اہل حدیث سے زیادہ کم عقل والی نہیں دیکھی۔
رفیق طاہر صاحب اس قول کا مطلب بغیرکسی تاویل کے ذرابتاناپسند کریں گے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ اس طرح کے اقوال بہت زیادہ پیش کر سکتے ہیں بلکہ میں تو کہوں گا کہ اس ہی طرح کے اقوال پیش کر سکتے ہیں بس کہ جنکا کوئی سر پیر نہیں ہوتا ۔
اور اسی ہی طرح کے اقوال آپ نے ابھی تک پیش کیے ہیں ۔
جو کہ سب کے سب
" جھوٹ " ہیں
البتہ صحیح سند کے ساتھ کسی معتبر شخص کا قول آپ تاقیامت پیش نہیں کرسکتے ۔
طحاوی دوراں صاحب کبھی اس قول کی سند پر بھی نظر ڈالی ہے ؟؟؟
اسکی سند میں " قاسم ، احمد بن زہیر ، اور محمد بن سلام " کون ہیں ؟؟؟
ذار انکا تعین کرکے ان کی توثیق اور اتصال سند تو بیان کرنے کی جرأت کریں !
ہاں جو قول میں نے پیش کیے ہیں انکی سند کی صحت میں بیان کرسکتا ہوں ۔ إن شاء اللہ۔
اور ہاں
اصل بات تو ہماری ابوحنیفہ کی تابعیت سے متعلق ہے
جسکا امام صاحب انکار رہے ہیں اور آپ انہیں تابعی بنانے پر مصر ہیں ، اس پر ہی کوئی دلیل بسند صحیح بیان فرمادیں ، قیل وقال کا سلسلہ تو لا متناہی ہوتا ہے
جلدی کریں تاکہ ہم فیصلہ کر سکیں کہ کون جھوٹا ہے ، مقلد یا امام !
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
29: ابن سعد
ابن سعد انہوں نے طبقات ابن سعد میں امام صاحب کے حضرت انس اورحضرت عبداللہ بن حارث بن جزء کو دیکھنے کا ذکر کیاہے جس کے حوالہ حافظ ابن عبدالبر،حافظ ذہبی ،حافظ ابن حجر اوردیگر محدثین کے کلام میں گزرچکے ہیں۔
جن اہل وعلم نے بھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے لکھا ہے کہ انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھا تھا تو وہ اہل علم تو یہ بات دو، تین، چار سو سال بعد بتلا رہے ہیں۔ یہ اہل علم وہاں موجود نہیں تھے جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھ رہے تھے کہ ان کا قول کسی گواہی یا شہادت کے برابر سمجھتے ہوئے پیش کیا جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ان اہل علم سے سند صحیح کے ساتھ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے حضرت انس رضی اللہ کو دیکھنے کا ذکر ملتا ہو۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ کوئی دینی مسئلہ تو تھا نہیں کہ اس بارے اہل علم حضرات اس قدر حساس ہوتے جس قدر حدیث کے بیان میں حساسیت ہوتی ہے لہذا امکان غالب یہی ہے کہ جس طرح تاریخی قصوں کا ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہونا کسی سند کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ پہلوں کی کہی ہوئی بات ہی پر اعتماد کرتے ہوئے کسی بات کو آگے نقل کر دیا جاتا ہے۔ ائمہ کے مناقب میں بھی یہی کام ہوا ہے کہ لوگوں نے سنی سنائی تاریخ ہی آگے نقل کی ہے۔
آپ کے کل کلام میں یہ ایک روایت ایسی ہے جس کی بنیاد سند پر ہے اور اس کی سند کی تحقیق ممکن ہے بشرطیکہ کہ یہ روایت موجود ہو۔ طبقات ابن سعد مطبوع موجود ہے۔آپ اس سے اس روایت کو سند کے ساتھ تلاش کر کے یہاں بیان فرما دیں۔ اس روایت پر غور کیا جا سکتا ہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
تعجب کی بات یہ ہے کہ میں نے دلائل ذکر ہی نہیں کئے ۔لیکن ابوالحسن علوی صاحب دلائل پر گفتگوشروع کردے رہے ہیں۔ اس قدر پیش قدمی یاجلد بازی کی ضرورت سمجھ نہیں آئی۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ اس طرح کے اقوال بہت زیادہ پیش کر سکتے ہیں بلکہ میں تو کہوں گا کہ اس ہی طرح کے اقوال پیش کر سکتے ہیں بس کہ جنکا کوئی سر پیر نہیں ہوتا ۔
اور اسی ہی طرح کے اقوال آپ نے ابھی تک پیش کیے ہیں ۔
جو کہ سب کے سب
" جھوٹ " ہیں
البتہ صحیح سند کے ساتھ کسی معتبر شخص کا قول آپ تاقیامت پیش نہیں کرسکتے ۔
طحاوی دوراں صاحب کبھی اس قول کی سند پر بھی نظر ڈالی ہے ؟؟؟
اسکی سند میں " قاسم ، احمد بن زہیر ، اور محمد بن سلام " کون ہیں ؟؟؟
ذار انکا تعین کرکے ان کی توثیق اور اتصال سند تو بیان کرنے کی جرأت کریں !
ہاں جو قول میں نے پیش کیے ہیں انکی سند کی صحت میں بیان کرسکتا ہوں ۔ إن شاء اللہ۔
اور ہاں
اصل بات تو ہماری ابوحنیفہ کی تابعیت سے متعلق ہے
جسکا امام صاحب انکار رہے ہیں اور آپ انہیں تابعی بنانے پر مصر ہیں ، اس پر ہی کوئی دلیل بسند صحیح بیان فرمادیں ، قیل وقال کا سلسلہ تو لا متناہی ہوتا ہے
جلدی کریں تاکہ ہم فیصلہ کر سکیں کہ کون جھوٹا ہے ، مقلد یا امام !
جناب آپ کو پوچھنے کی عادت بہت زیادہ ہے یہ اچھی بات ہے لیکن اگرافراط سے ہے تومخاطب کے بارے میں شک ہونے لگتاہے۔ آپ مجھ سے پوچھے بغیر ہی بتادیں کہ یہ سند صحیح ہے ضعیف ہے۔ موضوع ہے۔اس کے بعد ہم اپنی بات رکھیں گے اورانشاء اللہ آپ ہی کے لب ولہجہ میں رکھیں گے۔ بقیہ باتیں انشاء اللہ آپ کی وضاحت کے بعد۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
تعجب کی بات یہ ہے کہ میں نے دلائل ذکر ہی نہیں کئے ۔لیکن ابوالحسن علوی صاحب دلائل پر گفتگوشروع کردے رہے ہیں۔ اس قدر پیش قدمی یاجلد بازی کی ضرورت سمجھ نہیں آئی۔
محترم !
آپ دلائل دیتے ہی کب ہیں ؟؟؟
جناب آپ کو پوچھنے کی عادت بہت زیادہ ہے یہ اچھی بات ہے لیکن اگرافراط سے ہے تومخاطب کے بارے میں شک ہونے لگتاہے۔ آپ مجھ سے پوچھے بغیر ہی بتادیں کہ یہ سند صحیح ہے ضعیف ہے۔ موضوع ہے۔اس کے بعد ہم اپنی بات رکھیں گے اورانشاء اللہ آپ ہی کے لب ولہجہ میں رکھیں گے۔ بقیہ باتیں انشاء اللہ آپ کی وضاحت کے بعد۔
جو بات آپ نے پیش کی ہے اسکی صحت اور دلیل آپکے ذمہ ہے ۔
یا صاف کہیے کہ میں بھی اپنے امام کی طرح " یتیم فی الحدیث " ہوں ۔
پھر ہم سارا قصہ ہی کہہ سنائیں گے ۔ إن شاء اللہ
اور یہ بتانا نہ بھولیے گا کہ آپ جھوٹے ہیں یا آپکے امام صاحب ؟!
کیونکہ دلیل تو آپکے اقرار کے مطابق آپ نے دی ہی نہیں اور نہ جانے کب دیں گے ؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ اس طرح کے اقوال بہت زیادہ پیش کر سکتے ہیں بلکہ میں تو کہوں گا کہ اس ہی طرح کے اقوال پیش کر سکتے ہیں بس کہ جنکا کوئی سر پیر نہیں ہوتا ۔
اور اسی ہی طرح کے اقوال آپ نے ابھی تک پیش کیے ہیں ۔
جو کہ سب کے سب
" جھوٹ " ہیں
البتہ صحیح سند کے ساتھ کسی معتبر شخص کا قول آپ تاقیامت پیش نہیں کرسکتے ۔
طحاوی دوراں صاحب کبھی اس قول کی سند پر بھی نظر ڈالی ہے ؟؟؟
اسکی سند میں " قاسم ، احمد بن زہیر ، اور محمد بن سلام " کون ہیں ؟؟؟
ذار انکا تعین کرکے ان کی توثیق اور اتصال سند تو بیان کرنے کی جرأت کریں !
ہاں جو قول میں نے پیش کیے ہیں انکی سند کی صحت میں بیان کرسکتا ہوں ۔ إن شاء اللہ۔
اور ہاں
اصل بات تو ہماری ابوحنیفہ کی تابعیت سے متعلق ہے
جسکا امام صاحب انکار رہے ہیں اور آپ انہیں تابعی بنانے پر مصر ہیں ، اس پر ہی کوئی دلیل بسند صحیح بیان فرمادیں ، قیل وقال کا سلسلہ تو لا متناہی ہوتا ہے
جلدی کریں تاکہ ہم فیصلہ کر سکیں کہ کون جھوٹا ہے ، مقلد یا امام !
جناب آپ کو پوچھنے کی عادت بہت زیادہ ہے یہ اچھی بات ہے لیکن اگرافراط سے ہے تومخاطب کے بارے میں شک ہونے لگتاہے۔ آپ مجھ سے پوچھے بغیر ہی بتادیں کہ یہ سند صحیح ہے ضعیف ہے۔ موضوع ہے۔اس کے بعد ہم اپنی بات رکھیں گے اورانشاء اللہ آپ ہی کے لب ولہجہ میں رکھیں گے۔ بقیہ باتیں انشاء اللہ آپ کی وضاحت کے بعد۔
محترم جمشید بھائی جان میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا ۔ لیکن ایک بات آپ سے کہنا چاہتا ہوں مشورہ سمجھیں یا نصیحت۔ابھی تک آپ نے اس پر کوئی دلیل پیش نہیں کی۔حالانکہ موقف سامنے رکھنے کے بعد فرسٹ دلیل پیش کرنا ہوتا ہے۔ایک سچے مسلم کےلیے ایک ہی صحیح ثابت شدہ بات کا ماننا ہی ہوتا ہے۔جو ایک بات صحیح ثابت شدہ کو نہ مانے اس کے سامنےہزار باتیں رکھ دی جائیں وہ کوئی نہ کوئی تاویل کر ہی ڈالے گا۔آپ اتنی لمبی چوڑی بحث کرتے جارہے ہیں ۔بھائیوں کے اسرار پر بھی آپ نے دلیل کی طرف رجوع نہیں کیا۔امید ہے کہ مزید بھائیوں کو انتظار نہیں کروائیں گے۔ان شاءاللہ
رفیق طاہر بھائی نے ایک بات پیش کی
محترم علوی صاحب !
ابو حنیفہ تو اہل الرائے کا بھی امام نہیں تھے۔
کبھی فرصت ملنے پر اس حقیقت سے بھی نقاب کشائی کر یں گے إن شاء اللہ ۔
فی الحال صرف اتنا ہی کافی ہے کہ طحاوی دوراں کے امام صاحب بھی جھگڑے کرنے میں مشہور تھے فقہ میں مشہور نہ تھے اور نہ ہی فقہ جانتے تھے ملاحظہ فرمائیں :
أخبرنا أبو بكر احمد بن علي بن عبد الله الزجاجي الطبري حدثنا أبو يعلى عبد الله بن مسلم الدباس حدثنا الحسين بن إسماعيل حدثنا احمد بن محمد بن يحيى بن سعيد حدثنا يحيى بن آدم حدثنا سفيان بن سعيد وشريك بن عبد الله والحسن بن صالح قالوا أدركنا أبا حنيفة وما يعرف بشيء من الفقه ما نعرفه إلا بالخصومات
تاریخ بغداد ج 13 ص 431
اور نہ ہی طحاوی دوراں کے امام صاحب مجتہد تھے !
ملاحظہ فرمائیں :
أخبرنا البرقاني أخبرنا أبو يحيى زنجويه بن حامد بن حمدان النصري الإسفراييني إملاء حدثنا أبو العباس السراج قال سمعت أبا قدامة يقول سمعت سلمة بن سليمان قال قال رجل لابن المبارك كان أبو حنيفة مجتهدا قال ما كان بخليق لذاك كان يصبح نشيطا في الخوض إلى الظهر ومن الظهر إلى العصر ومن العصر إلى المغرب ومن المغرب إلى العشاء فمتى كان مجتهدا
وسمعت أبا قدامة يقول سمعت سلمة بن سليمان يقول قال رجل لابن المبارك أكان أبو حنيفة عالما قال لا ما كان بخليق لذاك ترك عطاء وأقبل على أبي العطوف

تاریخ بغداد ج 13 ص 431
اور یہی بات امام غزالی المنخول میں بھی کہی ہے اور یہ اضافہ بھی فرمایا ہے کہ انہیں نہ تو حدیث آتی تھی نہ ہی لغت :
وأما أبو حنيفة فلم يكن مجتهدا لأنه كان لا يعرف اللغة وعليه يدل قوله ولو رماه بأبو قبيس وكان لا يعرف الأحاديث ولهذا ضري بقبول الأحاديث الضعيفة ورد الصحيح منها ولم يكن فقيه النفس بل كان يتكايس لا في محله على مناقضة مآخذ الأصول
المنخول ص 581
اس کے جواب میں آپ نے ایک پوسٹ کردی
اس طرح کے اقوال توہم رفیق طاہر صاحب سے زیادہ پیش کرسکتے ہیں ۔صرف ایک ہی حوالہ کافی ہوگا۔
قال عمروبن الحارث
مارایت علمااشرف ولااھلااسخف من اھل الحدیث (جامع بیان العلم وفضلہ1027)

میں نے کوئی علم حدیث سے زیادہ اشرف اورکوئی قوم اہل حدیث سے زیادہ کم عقل والی نہیں دیکھی۔
رفیق طاہر صاحب اس قول کا مطلب بغیرکسی تاویل کے ذرابتاناپسند کریں گے؟
حالانکہ آپ کا حق تھا کہ رفیق بھائی کی اس بات پر بحث کرتے کہ ثابت ہے بھی کہ نہیں بحث نہ کرکے آپ نےمان لیا اور پھراس پوسٹ پر رفیق بھائی نے کہا کہ محترم یہ بات تو ثابت ہی نہیں بلکہ اس کی سند میں تو ضعیف راوی ہیں۔اور پھر آپ نے کہا کہ
آپ مجھ سے پوچھے بغیر ہی بتادیں کہ یہ سند صحیح ہے ضعیف ہے۔ موضوع ہے۔
اس طرح کی بات کا آپ کی قلم سے نکلنا کیامعنی رکھتا ہے ۔اس کی مثال تو ایسے ہے کہ ایک آدمی پانی پی رہا ہوتا ہے اور دوسرا دور سےدیکھ رہا ہوتا ہے تیسرا آدمی آکر دور سے دیکھنے والے آدمی سے بڑی سختی سے پوچھنا شروع کردیتا ہے کہ وہ جو پانی پی رہا ہے وہ سادہ پانی ہے یا میٹھا پانی۔
بات آپ نے پیش کی ہے اور اس کا ثبوت بھی آپ پر ہے کسی اور پر نہیں۔اپنا بوجھ کسی اور پر مت ڈالیں،اور ہاں رفیق بھائی جان کی یہ بات بڑی شدت سے آپ کے جواب کی منتظر ہے
جمشید طحاوی صاحب
ابھی تو ہم نے آپکے پیش کردہ حوالہ جات کی اسانید پر فنی بحثیں شروع نہیں کی ہیں ۔
فی الحال تو صرف یہ پوچھا ہے کہ آپکے امام صاحب کہتے ہیں میں نے عطاء بن ابی رباح سے افضل کسی کو نہیں دیکھا ، اور آپ کہہ رہے ہیں کہ دیکھا ہے ۔
تو آپ دونوں میں سے جھوٹا کون ہے ؟
آپکی یاوا گوئی کا جواب ہم نہیں دیتے کہ ہماری مروت کے خلاف ہے ۔
صرف اسی سوال کے جواب کا مطالبہ کرتے ہیں
بس
کسی بھی موضوع پر بات ہو دو ٹوک بات کا جتنا فائدہ ہوتا ہے لمبی تقریر کا نہیں،لمبی تقریر موضوع کو بےوقت بنا دیتی ہے۔اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ بات کو جلداز جلدسمیٹ کر بھائیوں کےسوالوں کےجوابات دینے کی کوشش کریں،اور ہاں جو ٹاپک ہے اسی پربات کو رکھیں موضوع تبدیل کرنے کی کوشش نہ کریں۔ابھی موضوع سمت غیر کی طرف بڑھنے کی کوشش کررہا ہے تمام بھائی کنٹرول کرنے کی کوشش کریں۔جزاک اللہ ۔دل دکھانے والی بات پر پیشگی معذرت۔والسلام
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
کلیم حیدرصاحب
آپ کے مراسلے کا شکریہ
محترم یہ بات تو ثابت ہی نہیں بلکہ اس کی سند میں تو ضعیف راوی ہیں
یہ جملہ رفیق طاہر صاحب نے کہاں لکھاہے۔براہ کرم کوٹ کرکے بتائیں۔ ویسے آپ نے یہ نہیں بتایاکہ
تعجب کی بات ہے کہ اگررفیق طاہر صاحب غیرمتعلق بحث چھیڑیں امام ابوحنیفہ کے تعلق سے تویہی ’’نصیحت‘‘ آپ نے ان کو نہیں کی لیکن میرے لئے ’’نصیحت‘‘کامراسلہ لکھناضروری سمجھا۔ حالانکہ جس شخص نے غیرمتعلق مراسلہ پہلی بار لکھاوہ میں نہیں تھا ۔اب ہم اس کو کیاسمجھیں یہ آپ ہی بتایئے۔
اس مثال نے توغضب ہی ڈھادیاہے۔ کچھ نہ سمجھے خداکرے کوئی کے قبیل سے ہے۔
رفیق طاہرصاحب نے مجھ سے فرمایاکہ اس حدیث کی صحت پیش کریں ۔میں نے پوچھاکہ آپ پہلے اپناموقف بتادیں۔اس پر آپ نے پانی والی مثال دوہرادی جوپانی پربنی عمارت کی طرح ہی ہے۔
رفیق طاہر صاحب یہ کہیں
اور یہ بتانا نہ بھولیے گا کہ آپ جھوٹے ہیں یا آپکے امام صاحب ؟!
تومحدث فورم کی انتظامیہ ٹھنڈے پیٹوں اسے برداشت کرتی ہے
میں لکھوں
توہم یہ ماننے پر مجبور ہوں گے کہ رفیق طاہر اوران کے اگلے اسی اسخف کا مصداق ہیں

توانتظامیہ اسے حذف کرنا ضروری سمجھے!
اس کی کوئی مناسب توجیہ بیان کرسکتے ہیں؟
جہاں تک جواب کی بات ہے تو وہ بہت جلد ہوجائے گاویسے اس سلسلے میں پوری انتظامیہ کی بے تابی دیکھنے کے قابل ہے۔ایک کے بعد ایک منتظمین آتے چلے جاتے ہیں۔ اب پتہ نہیں پھر کون صاحب تشریف لائیں۔۔
دل دکھانے والی بات پر پیشگی معذرت۔والسلام
 
Top