ناصر نواز خان
رکن
- شمولیت
- ستمبر 07، 2020
- پیغامات
- 111
- ری ایکشن اسکور
- 11
- پوائنٹ
- 54
یحیی بن سعید ، اگر ابوحنیفہ کی کبھی کبھار کوئی بات لیتے تھے، تو وہ اِس وجہ سے، کیونکہ ابوحنیفہ رائے (عقل) سے بات کرتے تھے، اور اکثر کسی بھی آدمی کی رائے ٹھیک بھی ھوجاتی ھے، جیسا کہ محمد بن الحسن شیبانی اور امام شافعی کے مناظرے میں بھی یہی بات ملتی ھے، کہ ابوحنیفہ عاقل یعنی اچھی رائے والے تھے،ابن عدی کتاب الكامل في ضعفاء الرجال میں لکھتے ہیں
سمعتُ ابْن حماد، حَدَّثَنا أَحْمَد بْن مَنْصُور الرمادي سَمِعت يَحْيى بن مَعِين يقول: سَمعتُ يَحْيى بْن سَعِيد القطان لا نكذب اللَّه ربما سمعنا الشيء من
رأي أبي حنيفة فاستحسناه فأخذنا بِهِ
خلاصه کلام: امام شافعی رحمه الله اور ابوحنیفہ کے شاگرد "محمد بن حسن شیبانی" کے درمیان مناظرہ ھوا۔
حسن شیبانی نے امام شافعی سے کہا: تمہارے صاحب (امام مالک) کے لئے حلال نہیں کہ وہ فتویٰ دیں، رائے سے، جبکہ اُن (امام مالک) کے پاس عقل بھی نہیں،
تو امام شافعی نے کہا: میں تجھے الله کا واسطہ دے کر پوچھتا ھوں۔ بتا ھمارے صاحب (یعنی امام مالک) ، قرآن کے عالم ھیں یا نہیں؟
حسن نے کہا: ھاں ھیں۔
امام شافعی نے پھر پوچھا: ھمارے صاحب حدیث کے عالم ھیں یا نہیں؟
حسن نے کہا: ھاں ھیں
امام شافعی نے پھر پوچھا: ھمارے صاحب صحابہ اکرام کے اختلاف کے عالم ھیں یا نہیں؟
تو
حسن نے کہا: ھاں ھیں۔
۔
پھر امام شافعی نے کہا: میں تجھے الله کا واسطہ دے کر پوچھتا ھوں ، اب یہ بتا ، تیرے صاحب (ابوحنیفہ) قرآن کے عالم ھیں یا نہیں؟
حسن نے کہا: نہیں
امام شافعی نے پوچھا: تیرے صاحب حدیثِ رسول (صلی الله عليه وسلم) کے عالم ھیں یا نہیں؟
حسن نے کہا: نہیں
امام شافعی نے پھر پوچھا: تیرے صاحب (یعنی ابوحنیفہ) صحابہ اکرام کے اختلاف پر علم رکھتے ھیں یا نہیں؟
حسن نے کہا: نہیں، لیکن وہ عقل والے ضرور تھے
امام شافعی نے فرمایا: ھمارے صاحب (امام مالک) میں یہ تینوں چیزیں تھیں جن کے بغیر فتویٰ دینا جائز نہیں، اور اگر اُن میں عقل نہیں ھوتی تو وہ فتویٰ دینے کے مجاز نہ ھوتے، اور تمہارے صاحب (ابوحنیفہ) میں یہ تینوں چیزیں ناپید تھیں۔ اِن تینوں چیزوں کے بغیر فتویٰ دینا جائز نہیں، (اور جیسا تم نے کہا کہ) کہ تمہارے صاحب عقل والے تھے، تو پھر بھی اُن کو فتویٰ دینا جائز نہیں".
عربی سند و متن ملاحظه ھو:
أخبرنا أبو عبد الرحمن السلمي، قال [سمعت عبد الله بن محمد بن علي ابن زياد، يقول (2)] سمعت محمد بن إسحاق بن خُزَيْمَة (3)، يقول: سمعت يونس بن عبد الأعلى، يقول:
قال لي الشافعي: ناظرت محمد بن الحسن، وكان عليه ثياب رقاق، وكان يناظرني فتنتفخ أَوْدَاجُه وينقطع [زرّه وتنتفخ أوداجه وينقطع زره] (4) حتى بقى بلا زر، فقال: لم يَحِلّ لصاحبكم أن يفتي - يعني (5) برأيه؛ لأنه لم يكن له عقل. فقلت له: نشدتك بالله، أكان صاحبُنا عالماً بكتاب الله عز وجل؟ قال: نعم. قلت: عالماً بحديثِ رسول الله، صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم. قلت: عالماً باختلاف أصحاب رسول الله، صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم. قلت: فنشدتك بالله، أكان صاحبك عالماً بكتاب الله؟ قال: لا. قلت: عالماً بحديث رسول الله، صلى الله عليه وسلم؟ قال: لا. قلت: كان عالماً باختلاف أصحاب رسول الله، صلى الله عليه وسلم؟ قال: لا، ولكن كان عاقلا
قلت: فكان في صاحبنا ثلاثة أشياء لا تجوز الفتيا إلا بهن. وإن لم يكن له عقل لم يجز له أن يفتي. ولم يكن في صاحبكم، ثلاثة أشياء لا تجوز الفتيا إلا بهن، وإن كان أعقل الناس [لكن لا] تجوز له الفتيا
[مناقب الشافعي للبهيقي: ج1، ص182] وسنده صحيح
باقی رہا آپ کا استدلال۔ تو وہ ازخود باطل ھوجاتا ھے، ان دلائل کے سامنے، اور امام یحیی بن سعید کہتے ھیں
مر بي أبو حنيفة وأنا في سوق الكوفة، فلم أسأله عن شيء وكان جاري بالكوفة فما قربته ولا سألته عن شيء"
"ابو حنیفہ میرے پاس سے گزرے جب میں کوفہ کی ایک مارکیٹ میں تھا، تو میں نے ان سے کسی بھی چیز کے بارے میں نہیں پوچھا، وہ کوفہ کی طرف جا رہے تھے تو میں نے نہ ان کا ساتھ دیا اور نہ ہی ان سے کچھ بھی پوچھا۔"
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج 8 ص 450 واسنادہ صحیح)