• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابو حنیفہ اہل رائے اور اہل حدیث

شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
111
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
ابن عدی کتاب الكامل في ضعفاء الرجال میں لکھتے ہیں

سمعتُ ابْن حماد، حَدَّثَنا أَحْمَد بْن مَنْصُور الرمادي سَمِعت يَحْيى بن مَعِين يقول: سَمعتُ يَحْيى بْن سَعِيد القطان لا نكذب اللَّه ربما سمعنا الشيء من

رأي أبي حنيفة فاستحسناه فأخذنا بِهِ
یحیی بن سعید ، اگر ابوحنیفہ کی کبھی کبھار کوئی بات لیتے تھے، تو وہ اِس وجہ سے، کیونکہ ابوحنیفہ رائے (عقل) سے بات کرتے تھے، اور اکثر کسی بھی آدمی کی رائے ٹھیک بھی ھوجاتی ھے، جیسا کہ محمد بن الحسن شیبانی اور امام شافعی کے مناظرے میں بھی یہی بات ملتی ھے، کہ ابوحنیفہ عاقل یعنی اچھی رائے والے تھے،
خلاصه کلام: امام شافعی رحمه الله اور ابوحنیفہ کے شاگرد "محمد بن حسن شیبانی" کے درمیان مناظرہ ھوا۔
حسن شیبانی نے امام شافعی سے کہا: تمہارے صاحب (امام مالک) کے لئے حلال نہیں کہ وہ فتویٰ دیں، رائے سے، جبکہ اُن (امام مالک) کے پاس عقل بھی نہیں،
تو امام شافعی نے کہا: میں تجھے الله کا واسطہ دے کر پوچھتا ھوں۔ بتا ھمارے صاحب (یعنی امام مالک) ، قرآن کے عالم ھیں یا نہیں؟
حسن نے کہا: ھاں ھیں۔
امام شافعی نے پھر پوچھا: ھمارے صاحب حدیث کے عالم ھیں یا نہیں؟
حسن نے کہا: ھاں ھیں
امام شافعی نے پھر پوچھا: ھمارے صاحب صحابہ اکرام کے اختلاف کے عالم ھیں یا نہیں؟
تو
حسن نے کہا: ھاں ھیں۔
۔
پھر امام شافعی نے کہا: میں تجھے الله کا واسطہ دے کر پوچھتا ھوں ، اب یہ بتا ، تیرے صاحب (ابوحنیفہ) قرآن کے عالم ھیں یا نہیں؟
حسن نے کہا: نہیں
امام شافعی نے پوچھا: تیرے صاحب حدیثِ رسول (صلی الله عليه وسلم) کے عالم ھیں یا نہیں؟
حسن نے کہا: نہیں
امام شافعی نے پھر پوچھا: تیرے صاحب (یعنی ابوحنیفہ) صحابہ اکرام کے اختلاف پر علم رکھتے ھیں یا نہیں؟
حسن نے کہا: نہیں، لیکن وہ عقل والے ضرور تھے

امام شافعی نے فرمایا: ھمارے صاحب (امام مالک) میں یہ تینوں چیزیں تھیں جن کے بغیر فتویٰ دینا جائز نہیں، اور اگر اُن میں عقل نہیں ھوتی تو وہ فتویٰ دینے کے مجاز نہ ھوتے، اور تمہارے صاحب (ابوحنیفہ) میں یہ تینوں چیزیں ناپید تھیں۔ اِن تینوں چیزوں کے بغیر فتویٰ دینا جائز نہیں، (اور جیسا تم نے کہا کہ) کہ تمہارے صاحب عقل والے تھے، تو پھر بھی اُن کو فتویٰ دینا جائز نہیں".

عربی سند و متن ملاحظه ھو:
أخبرنا أبو عبد الرحمن السلمي، قال [سمعت عبد الله بن محمد بن علي ابن زياد، يقول (2)] سمعت محمد بن إسحاق بن خُزَيْمَة (3)، يقول: سمعت يونس بن عبد الأعلى، يقول:
قال لي الشافعي: ناظرت محمد بن الحسن، وكان عليه ثياب رقاق، وكان يناظرني فتنتفخ أَوْدَاجُه وينقطع [زرّه وتنتفخ أوداجه وينقطع زره] (4) حتى بقى بلا زر، فقال: لم يَحِلّ لصاحبكم أن يفتي - يعني (5) برأيه؛ لأنه لم يكن له عقل. فقلت له: نشدتك بالله، أكان صاحبُنا عالماً بكتاب الله عز وجل؟ قال: نعم. قلت: عالماً بحديثِ رسول الله، صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم. قلت: عالماً باختلاف أصحاب رسول الله، صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم. قلت: فنشدتك بالله، أكان صاحبك عالماً بكتاب الله؟ قال: لا. قلت: عالماً بحديث رسول الله، صلى الله عليه وسلم؟ قال: لا. قلت: كان عالماً باختلاف أصحاب رسول الله، صلى الله عليه وسلم؟ قال: لا، ولكن كان عاقلا
قلت: فكان في صاحبنا ثلاثة أشياء لا تجوز الفتيا إلا بهن. وإن لم يكن له عقل لم يجز له أن يفتي. ولم يكن في صاحبكم، ثلاثة أشياء لا تجوز الفتيا إلا بهن، وإن كان أعقل الناس [لكن لا] تجوز له الفتيا
[مناقب الشافعي للبهيقي: ج1، ص182] وسنده صحيح

باقی رہا آپ کا استدلال۔ تو وہ ازخود باطل ھوجاتا ھے، ان دلائل کے سامنے، اور امام یحیی بن سعید کہتے ھیں
مر بي أبو حنيفة وأنا في سوق الكوفة، فلم أسأله عن شيء وكان جاري بالكوفة فما قربته ولا سألته عن شيء"
"ابو حنیفہ میرے پاس سے گزرے جب میں کوفہ کی ایک مارکیٹ میں تھا، تو میں نے ان سے کسی بھی چیز کے بارے میں نہیں پوچھا، وہ کوفہ کی طرف جا رہے تھے تو میں نے نہ ان کا ساتھ دیا اور نہ ہی ان سے کچھ بھی پوچھا۔"
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج 8 ص 450 واسنادہ صحیح)
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
111
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
ابن عدی کتاب الكامل في ضعفاء الرجال میں لکھتے ہیں

سمعتُ ابْن حماد، حَدَّثَنا أَحْمَد بْن مَنْصُور الرمادي سَمِعت يَحْيى بن مَعِين يقول: سَمعتُ يَحْيى بْن سَعِيد القطان لا نكذب اللَّه ربما سمعنا الشيء من

رأي أبي حنيفة فاستحسناه فأخذنا بِهِ
اسی طرح امام یحیی القطان سے پوچھا گیا کہ "ابو حنیفہ کی حدیث کیسی ہے؟"، تو آپ نے فرمایا:
"لم يكن بصاحب الحديث"
"وہ صاحبِ حدیث نہیں تھے۔"
(الکامل لابن عدی ج 7 ص 2473، الضعفاء الکبیر للعقیلی ج 4 ص 282، تاریخ بغدادج 13 ص 445، واسنادہ صحیح)
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
111
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
قال يَحْيى بْن مَعِين وكان يَحْيى بْن سَعِيد يذهب فِي الفتوى إِلَى مذهب الكوفيين.

یحیی بن معین کہتے ہیں کہ یحیی بن سعید کوفہ کے مذھب (اہل رائے) پر فتوی دیتے تھے
امام علی بن عبد اللہ المدینی اپنے استاد امام یحیی بن سعید کا مذہب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"ومن بعد سفيان يحيى بن سعيد القطان كان يذهب مذهب سفيان الثوري وأصحاب عبد الله"
"اور سفیان (الثوری) کے بعد آئے یحیی بن سعید القطان جنہوں نے سفیان الثوری اور سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اصحاب کے مذہب کی پیروی کی۔"
(العلل لابن المدینی: ص 44)
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
111
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
سمعت أَبَا عَرُوبة يَقُول: سَمعتُ سُفْيَان بْن وكيع يَقُولُ: سَمعتُ أَبِي يَقُولُ: سَمعتُ أَبَا حنيفة يَقُول البول فِي المسجد أحسن من بعض القياس.

ابو عَرُوبة کہتے ہیں انہوں نے سُفْيَان بْن وكيع کو سنا انہوں نے اپنے باپ وكيع کو کہ ابو حنیفہ کو سنا انہوں نے کہا کہ بعض قیاس سے بہتر ہے کہ مسجد میں پشاب کرے
اس میں سفیان ضعیف ھے خود امام وکیع نے غالبا اپنے بیٹے جرح کر رکھی ھے۔ حوالہ مجھے مل نہیں رہا
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
111
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
سمعت أَبَا عَرُوبة يَقُول: سَمعتُ سُفْيَان بْن وكيع يَقُولُ: سَمعتُ أَبِي يَقُولُ: سَمعتُ أَبَا حنيفة يَقُول البول فِي المسجد أحسن من بعض القياس.

ابو عَرُوبة کہتے ہیں انہوں نے سُفْيَان بْن وكيع کو سنا انہوں نے اپنے باپ وكيع کو کہ ابو حنیفہ کو سنا انہوں نے کہا کہ بعض قیاس سے بہتر ہے کہ مسجد میں پشاب کرے
امام وکیع نے فرمایا:

نا أبو حنيفة أنه سمع عطاء إن كان سمعه
"ابو حنیفہ نے ہمیں روایت کی، انہوں نے عطاء سے سنا، اگر واقعی انہوں نے سنا ہے تو"
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم 1/226، تاریخ بغداد 13/425، اسنادہما صحیحان)
ابو السائب روایت کرتے ہیں: میں نے وکیع کو کہتے سنا:


وجدنا أبا حنيفة خالف مائتي حديث
"ہم نے ابو حنیفہ کو ایک سو حدیثوں میں مخالفت کرتے پایا"
(تاریخ بغداد 13/407، اسنادہ صحیح)
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
111
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
حَدَّثَنَا ابن حماد قَالَ وحدثني أَبُو بَكْر الأعين، حَدَّثني يَعْقُوب بْن شيبة عن الحسن الحلواني سَمِعْتُ شَبَابَةَ يَقُولُ كَانَ شُعْبَة حسن الرأي فِي أَبِي حنيفة فكان يستنشد فِي هَذِهِ الأبيات

شعبہ امام ابو حنیفہ کے لئے حسن رائے رکھتے تھے اور ان کی تعریف میں اشعار بھی کہتے تھے
اس میں ابن حماد خود ضعیف ھے، اور امام شعبه سے صحیح سند سے منقول ھے کہ
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَتَّابٍ الْأَعْيَنَ، ثنا مَنْصُورُ بْنُ سَلَمَةَ الْخُزَاعِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ، «يَلْعَنُ أَبَا حَنِيفَةَ» ، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: وَكَانَ شُعْبَةُ " يَلْعَنُ أَبَا حَنِيفَةَ [السنة لعبد الله بن أحمد: ج 1 ص 211 قال المحقق دکتور محمد سعيد سالم القحطاني : اسنادہ صحیح]


امام منصوربن سلمہ الخزاعی نے کہا : میں نے امام حماد بن سلمہ کو سنا وہ ابوحنیفہ پر لعنت کرنے تھے ، ابوسلمہ نے کہا اورامام شعبہ ابوحنیفہ پر لعنت کرتے تھے
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
111
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
سمعت أَبَا عَرُوبة يَقُول: سَمعتُ سُفْيَان بْن وكيع يَقُولُ: سَمعتُ أَبِي يَقُولُ: سَمعتُ أَبَا حنيفة يَقُول البول فِي المسجد أحسن من بعض القياس.

ابو عَرُوبة کہتے ہیں انہوں نے سُفْيَان بْن وكيع کو سنا انہوں نے اپنے باپ وكيع کو کہ ابو حنیفہ کو سنا انہوں نے کہا کہ بعض قیاس سے بہتر ہے کہ مسجد میں پشاب کرے
اگر سفیان بن وکیع آپ کے نزدیک ضعیف نہیں، تو سفیان بن وکیع سے یہ بھی منقول ھے
حدثني سفيان بن وكيع سمعت أبي يقول إذا ذكر أبو حنيفة في محلس سفيان كان يقول نعوذ بالله من شر النبطي إذا استعرب.
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
111
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
سَمِعْتُ أَبِيَ يَقُولُ: عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ، أَنَّهُ قَالَ: «مِنْ حُسْنِ عِلْمِ الرَّجُلِ أَنْ يَنْظُرَ فِي رَأْي أَبِي حَنِيفَةَ

میں نے اپنے باپ احمد سے سنا کہ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ نے کہا کہ آدمی کے علم کا حسن یہ ہے کہ وہ ابو حنیفہ کی رائے جانتا ہو
رائے اور چیز ھے اور روایت کرنا اور چیز ھے، رائے عقل سے نکلتی ھے (ظنی) جب کہ روایت (قطعی) گواہی ھوتی ھے۔ اور عقل پر میں اوپر مناظرہ پیش کرچکا ھوں محمد بن حسن شیبانی اور امام شافعی کا۔
خیر امام مھدی نے بہترین مفصل جرح کر رکھی ھے ابوحنیفہ پر
حدثنا محمد بن بشار قال: سمعت عبد الرحمن يقول: بين أبي حنيفة وبين الحق حجاب.

المعرفة والتاريخ ج2 ص784

حدثنا أبو بكر بن خلاد قال: سمعت عبد الرحمن بن مهدي قال: سمعت حماد بن زيد يقول: سمعت أيوب يقول - وذكر أبا حنيفة - فقال: يريدون أن يطفئوا نور الله بأفواههم ويأبى الله إلا أن يتم نوره.

المعرفة والتاريخ ج2 ص785
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
111
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
بعض محدثین عمل میں ضعیف حدیث کو لینے کے قائل تھے اور اسی طرح رائے کے مقابلہ میں حدیث ضعیف کو ترجیح دیتے تھے امام بخاری کا شروع میں یہی منہج تھا جیسا کہ کتاب ادب المفرد اور کتاب الفاتحہ خلف الامام سے ہوتا ہے لیکن صحیح میں انہوں نے اس کو چھوڑ دیا

عبد اللہ بن احمد اپنے باپ احمد سے کتاب السننہ میں نقل کرتے ہیں

سَأَلْتُ أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ عَنِ الرَّجُلِ، يُرِيدُ أَنْ يَسْأَلَ، عَنِ الشَّيْءِ، مِنْ أَمْرِ دِينِهِ مَا يُبْتَلَى بِهِ مِنَ الْأَيْمَانِ فِي الطَّلَاقِ وَغَيْرِهِ فِي حَضْرَةِ قَوْمٍ مِنْ أَصْحَابِ الرَّأْي وَمِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ لَا يَحْفَظُونَ وَلَا يَعْرِفُونَ الْحَدِيثَ الضَّعِيفَ الْإِسْنَادِ وَالْقَوِيَّ الْإِسْنَادِ فَلِمَنْ يَسْأَلُ، أَصْحَابَ الرَّأْي أَوْ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ عَلَى مَا كَانَ مِنْ قِلَّةَ مَعْرِفَتِهِمْ؟ [ص:181] قَالَ: يَسْأَلُ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ وَلَا يَسْأَلُ أَصْحَابَ الرَّأْي، الضَّعِيفُ الْحَدِيثِ خَيْرٌ مِنْ رَأْي أَبِي حَنِيفَةَ

میں نے اپنے باپ سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا جو دین کے کسی کام پر جس سے ایمان برباد نہ ہو جسے طلاق یا دیگر پر اصحاب رائے کے پاس جائے یا ان اصحاب حدیث کے پاس جائے جو حدیث کو صحیح طرح یاد نہیں رکھتے اور قوی الاسناد کو ضعیف الاسناد سے جدا نہیں کر پاتے تو ان دونوں میں سے کس سے سوال کرے اصحاب رائے سے یا قلت معرفت والے اصحاب حدیث سے امام احمد نے کہا اصحاب حدیث سے سوال کرے اور اصحاب رائے سے نہیں ایک ضعیف حدیث ابو حنیفہ کی رائے سے بہتر ہے
اس روایت پر جو ھیڈنگ اور تبصرہ لگایا ھے تم نے، میری ھنسی نہیں رُک رھی، عجیب باتیں ھیں تم لوگوں کی، تمہاری پیش کردہ روایت میں ابوحنیفہ پر جرح ھے، اور بطور طنز کہا گیا ھے کہ ابوحنیفہ کی رائے سے ضعیف حدیث بہتر ھے۔
اسی تعصب کی وجہ سے امام ابو حنیفہ کی تنقیص کرنا عبادت تصور ہونے لگا اور جھوٹ کا ایک انبار ان کے حوالے سے بیان کیا گیا مثلا جرح و تعدیل کے امام احمد کتاب السنہ از عبدللہ میں کہتے ہیں

حَدَّثَنِي مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ سَلْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ سَأَلْتُ أَبَا يُوسُفَ وَهُوَ بِجُرْجَانَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ، فَقَالَ: «وَمَا تَصْنَعُ بِهِ مَاتَ جَهْمِيًّا»

محمّد بن سعید بن سلم اپنے باپ سے نقل کرتا ہے کہ انہوں نے ابو یوسف سے جرجان میں ابو حنیفہ کے بارے میں پوچھا انہوں نے کہا میں اس سے کچھ نہیں لیتا جہمی مرا

مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ سَلْمٍ مجھول ہے لیکن پھر بھی اسکی بات کو صحیح مانتے ہوئے کتاب میں نقل کرتے ہیں

تاریخ الجرجاں از أبو القاسم حمزة بن يوسف بن إبراهيم السهمي القرشي الجرجاني (المتوفى: 427هـ) میں اس راوی کی تعریف لکھی ہے رجل من ولد قتيبة ایک آدمی جو قتيبة میں پیدا ہوا اس کے علاوہ اس کا احوال نہیں ملتا
محمد بن سعيد بن سلم کی موافقت سعید بن سلم نے کر رکھی ھے

قال ابو زرعہ الرازی کان ابو حنیفۃ جھمیا وکان محمد بن الحسن جھمیا (کتاب الضعفاء ص 570) اخرجہ خطیب فی تاریخ بغداد جلد 2 ص 179 جلد 4 ص 253 (بسند صحیح عن ابی زرعہ الرازی نحوہ ، وعلقہ الحافظ ابن حجر عسقلانی فی لسان المیزان جلد 5 ص 122)
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
111
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ثنا خَالِدُ بْنُ خِدَاشٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ قَرِيبٍ الْأَصْمَعِيِّ، عَنْ حَازِمٍ الطُّفَاوِيِّ قَالَ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ: «أَبُو حَنِيفَةَ إِنَّمَا كَانَ يَعْمَلُ بِكُتُبِ جَهْمٍ تَأْتِيهِ مِنْ خُرَاسَانَ

عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ قَرِيبٍ الْأَصْمَعِيِّ روایت کرتے ہیں کہ …. ابو حنیفہ جھم کی کتابوں پر عمل کرتے تھے جو خراسان سے آئی تھیں

اسکی سند میں عبد الملك بن قريب الأصمعي ہیں. الذھبی میزان الاعتدال میں ان کو ابو داود صدوق کہتے ہیں .الأزدي ، ضعيف الحديث کہتے ہیں اور أبو زيد الأنصاري کذاب کہتے ہیں
ابو الفتح الازدي بدات خود ضعیف ھے، اور ابو زید انصاری کون ھیں؟ اور ان کے قول کی سند پیش کریں؟ باقی الأصمعي ثقة صدوق ھیں:
نا عبد الرحمن نا الحسين بن الحسن الرازي قال سألت يحيى بن معين عن الاصمعي فقال: لم يكن ممن يكذب، وكان [من - ] اعلم الناس في فنه[الجرح وتعدیل لابن ابی حاتم]

أخبرنا الأزهري، حَدَّثَنَا محمد بن العباس الخزاز- على شك داخلني فيه- أخبرنا أَبُو مزاحم مُوسَى بْن عُبَيْد اللَّهِ قَالَ: سمعت إبراهيم الحربي يقول: كان أهل البصرة أهل العربية، منهم أصحاب الأهواء إلا أربعة فإنهم كانوا أصحاب سنة، أبو عمرو بن العلاء، والخليل بن أحمد ويونس بن حبيب، والأصمّعي.

أخبرنا البرقاني، أَخْبَرَنَا الْحُسَيْن بْن عَلِيّ التميمي، حَدَّثَنَا أَبُو عوانة يعقوب بن إسحاق الإسفراييني قال: سمعت أبا أمية يقول: سمعت أحمد بن حنبل يثني على الأصمعي في السنة. قال: وسمعت علي بن المديني يثني عليه.
أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ شَاذَانَ، أخبرنا أبي، حَدَّثَنَا أَبُو عَمرو عُثْمَان بْن مُحَمَّد بْن أَحْمَدَ بْن هارون السّمرقنديّ- بتنيس- حدّثنا أبو أميّة محمّد بن إبراهيم ابن مسلم الطرسوسي قال: سمعت أحمد بن حنبل ويحيى بن معين يثنيان على الأصمعي في السنة.
أخبرني الأزهري، أخبرنا علي بن عمر الحافظ، حدّثني إبراهيم بن محمّد بن إبراهيم، حَدَّثَنَا أبو الحديد عبد الوهاب بن سعد، أخبرنا علي بن الحسين بن خلف، حدّثنا علي بن محمّد بن حيون الأنصاريّ، حدّثنا محمّد بن أبي ذكير الأسواني قال:س معت الشافعي يقول: ما رأيت بذلك العسكر أصدق لهجة من الأصمعي.
أَخْبَرَنَا الصيمري، حدّثنا علي بن الحسن الرّازيّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ الزعفراني.
وأَخْبَرَنَا عُبَيْد الله بن عمر الواعظ، حدّثنا أبي، حَدَّثَنَا الْحُسَيْن بن صدقة قَالا:
حَدَّثَنَا ابن أَبِي خَيْثَمَة قَالَ: سَمِعْتُ يحيى بن معين يقول: الأصمعي ثقة.
أَخْبَرَنَا أحمد بن أبي جعفر، أخبرنا محمد بن عدي البصري- في كتابه- حدثنا أبو عبيد محمد بن علي الآجري قال: سئل أبو داود عن الأصمعي فقال: صدوق.
أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّد عَبْد اللَّهِ بْن عَلِيّ بْنِ عِيَاضٍ الْقَاضِي- بِصُورَ- وَأَبُو نَصْرٍ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بن أحمد الوراق- بِصَيْدَا- قَالا: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ جُمَيْعٍ الْغَسَّانِيُّ قال: سمعت أحمد بن عبد الله أبا بكر الشيباني يَقُولُ: سمعت أبا إِسْحَاق إِبْرَاهِيم بن مُحَمَّد المصري يقول: سمعت أبا الحسن منصورا- يعني ابن إسماعيل الفقيه- يقول:
سمعت الرّبيع بن سليم يقول: سمعت الشافعي يقول: ما عبر أحد عن العرب بأحسن من عبارة الأصمعي
.

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْد اللَّه مُحَمَّد بْن عَبْد الواحد، أخبرنا محمّد بن العبّاس، حَدَّثَنَا أبو بكر أحمد بن محمد بن عيسى المكي، حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن القاسم بن خلاد قَالَ:
سمعت إسحاق الموصليّ يقول: لم أر كالأصمعيّ يدعي شيئا من العلم، فيكون أحد أعلم به منه.
 
Top