• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابو حنیفہ اہل رائے اور اہل حدیث

شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
111
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
حَدَّثَنِي مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ سَلْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ سَأَلْتُ أَبَا يُوسُفَ وَهُوَ بِجُرْجَانَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ، فَقَالَ: «وَمَا تَصْنَعُ بِهِ مَاتَ جَهْمِيًّا»

محمّد بن سعید بن سلم اپنے باپ سے نقل کرتا ہے کہ انہوں نے ابو یوسف سے جرجان میں ابو حنیفہ کے بارے میں پوچھا انہوں نے کہا میں اس سے کچھ نہیں لیتا جہمی مرا
جھم بن صفوان کے لئے کتاب العَلو للعلي الغفار از اِمام شمس الدین الذہبی میں ہے کہ

فرقہ جھمیہ والے یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے اور اللہ تعالیٰ اُن کے اِس باطل قول سے پاک ہے بلکہ اُس کا عِلم ہر وقت ہمارے ساتھ ہے
الله ھر جگہ موجود ھے، کیا یہ حنفیہ کا مذھب نہیں؟؟؟؟ اور کیا جھم بن صفوان نے بعینہ تمہارے عقائد کی تشریح نہیں کی؟
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
111
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ابْنُ عَمِّ، أَحْمَدَ بْنِ مَنِيعٍ أَخْبَرَنِي غَيْرُ، وَاحِدٍ،: مِنْهُمْ أَبُو عُثْمَانَ سَعِيدُ بْنُ صُبَيْحٍ أَخْبَرَنِي أَبُو عَمْرٍو الشَّيْبَانِيُّ، قَالَ: ” لَمَّا وَلِيَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ حَمَّادِ بْنِ أَبِي حَنِيفَةَ الْقَضَاءَ قَالَ: مَضَيْتُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَيْهِ فَقُلْتُ: بَلَغَنِي أَنَّكَ تَقُولُ: الْقُرْآنُ كَلَامُ اللَّهِ وَهُوَ مَخْلُوقٌ، فَقَالَ: هَذَا دِينِي وَدِينُ آبَائِي، فَقِيلَ لَهُ: مَتَى تَكَلَّمَ بِهَذَا قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَهُ أَوْ بَعْدَمَا خَلَقَهُ أَوْ حِينَ خَلَقَهُ، قَالَ: فَمَا رَدَّ عَلَيَّ حَرْفًا، فَقُلْتُ: يَا هَذَا اتَّقِ اللَّهَ وَانْظُرْ مَا تَقُولُ وَرَكِبْتُ حِمَارِي وَرَجَعْتُ

إِسْمَاعِيلُ بْنُ حَمَّادِ بْنِ أَبِي حَنِيفَةَ کہتے ہیں کہ قرآن مخلوق ہے اور یہی میرے باپ اور دادا کا مذھب ہے
187 حَدَّثَنِي أَبُو مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ ، سَمِعْتُ إِسْمَاعِيلَ بْنَ حَمَّادِ بْنِ أَبِي حَنِيفَةَ ، يَقُولُ : هُوَ دِينُهُ وَدِينُ آبَائِهِ يَعْنِي الْقُرْآنُ مَخْلُوقٌ [السنة لعبد الله بن أحمد بن حنبل]
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
111
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
حَدَّثَنِي مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ سَلْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ سَأَلْتُ أَبَا يُوسُفَ وَهُوَ بِجُرْجَانَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ، فَقَالَ: «وَمَا تَصْنَعُ بِهِ مَاتَ جَهْمِيًّا»

محمّد بن سعید بن سلم اپنے باپ سے نقل کرتا ہے کہ انہوں نے ابو یوسف سے جرجان میں ابو حنیفہ کے بارے میں پوچھا انہوں نے کہا میں اس سے کچھ نہیں لیتا جہمی مرا
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَسَنِ بْنِ أَبِي مَالِكٍ، عَنْ أَبِي يُوسُفَ، قَالَ ” أَوَّلُ مَنْ قَالَ: الْقُرْآنُ مَخْلُوقٌ أَبُو حَنِيفَةَ

اسحٰق بن عبد الرحمان کہتے ہیں حسن بن ابی مالک سی وہ ابو یوسف سے جس نے سب سے پہلے کہا قرآن مخلوق ہے وہ ابو حنیفہ ہے

اس کی سند میں اسحاق بن عبد الرحمان مجھول ہے
حدثنا أبو زرعة قَالَ: فَأَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مُسْهِرٍ يَقُولُ: قَالَ سَلَمَةُ بْنُ عَمْرٍو الْقَاضِيُّ عَلَى الْمِنْبَرِ: لَا رَحِمَ اللَّهُ أَبَا حَنِيفَةَ، فَإِنَّهُ أَوَّلُ مَنْ زعم أن القرآن مخلوق.
[تاريخه أبي زرعة الدمشقي ص 504]
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
111
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
کتاب الجرح والتعديل از ابن ابی حاتم کے مطابق

نا عبد الرحمن أنا إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني فيما كتب إلى [قال] حدثنى اسحاق بن راهويه قال سمعت جريرا يقول قال محمد بن جابر اليمامى: سرق ابو حنيفة كتب حماد منى

اسحاق بن راهويه کہتے ہیں میں نے جریر کو سنا کہ محمد بن جابر اليمامى نے کہا کہ ابو حنیفہ نے مجھ سے حماد کی کتابیں چوری کیں

الذھبی کتاب میں مُحَمَّدُ بنُ جَابِرِ بنِ سَيَّارٍ السُّحَيْمِيُّ اليَمَامِيُّ پر لکھتے ہیں. ضَعَّفَهُ: يَحْيَى، وَالنَّسَائِيُّ. اس کی تضعیف یحیی اور نسائی نے کی ہے وَقَالَ البُخَارِيُّ: لَيْسَ بِالقَوِيِّ. بخاری نے کہا ہے قوی نہیں وَقَالَ أَبُو حَاتِمٍ: سَاءَ حِفْظُهُ، وَذَهَبتْ كُتُبُهُ ابو حاتم کہتے ہیں اس کا برا حافظہ تھا قُلْتُ: مَا هُوَ بِحُجَّةٍ، وَلَهُ مَنَاكِيْرُ عِدَّةٌ كَابْنِ لَهِيْعَةَ
جابر جعفی (ضعیف) کی اِس روایت کا متن ، اسی کتاب کی بعینہ اگلی روایت میں صحیح سند سے ابن مبارک سے بھی ثابت ھے۔
نا عبد الرحمن نا أحمد بن منصور المروزي قال سمعت سلمة بن سليمان قال قال عبد الله - يعني ابن المبارك: ان اصحابي ليلو موننى في الرواية عن ابى حنيفة، وذاك انه اخذ كتاب محمد بن جابر عن حماد بن أبي سليمان فروى عن حماد ولم يسمعه منه
الجرح وتعديل لابن أبي حاتم: ج8، ص450
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
111
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
نا عبد الرحمن أنا إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني فيما كتب إلى [قال] حدثنى اسحاق بن راهويه قال سمعت جريرا يقول قال محمد بن جابر اليمامى: سرق ابو حنيفة كتب حماد منى

اسحاق بن راهويه کہتے ہیں میں نے جریر کو سنا کہ محمد بن جابر اليمامى نے کہا کہ ابو حنیفہ نے مجھ سے حماد کی کتابیں چوری کیں

الذھبی کتاب میں مُحَمَّدُ بنُ جَابِرِ بنِ سَيَّارٍ السُّحَيْمِيُّ اليَمَامِيُّ پر لکھتے ہیں. ضَعَّفَهُ: يَحْيَى، وَالنَّسَائِيُّ. اس کی تضعیف یحیی اور نسائی نے کی ہے وَقَالَ البُخَارِيُّ: لَيْسَ بِالقَوِيِّ. بخاری نے کہا ہے قوی نہیں وَقَالَ أَبُو حَاتِمٍ: سَاءَ حِفْظُهُ، وَذَهَبتْ كُتُبُهُ ابو حاتم کہتے ہیں اس کا برا حافظہ تھا قُلْتُ: مَا هُوَ بِحُجَّةٍ، وَلَهُ مَنَاكِيْرُ عِدَّةٌ كَابْنِ لَهِيْعَةَ
محمد بن جابر جعفی ضعیف ھے، لیکن فی نفسہ صدوق ھے، جیسا امام ابن حجر نے کہا ھے، باقی ابن مبارک سے بھی جابر جعفی کے اس بیان کی تصدیق ھوجاتی ھے۔ ملاحظہ کریں
ابن مبارک رحمه الله اور ابوحنیفه
نا عبد الرحمن نا أحمد بن منصور المروزي قال سمعت سلمة بن سليمان قال قال عبد الله - يعني ابن المبارك: ان اصحابي ليلو موننى في الرواية عن ابى حنيفة، وذاك انه اخذ كتاب محمد بن جابر عن حماد بن أبي سليمان فروى عن حماد ولم يسمعه منه

امام عبد الله بن مبارک کہتے ھیں: میرے اصحاب مجھے ابوحنیفہ سے روایت کرنے پر ملامت کرتے ھیں، وہ اِس لئے ، کہ ابوحنیفہ نے محمد بن جابر جعفی کے یہاں رکھی ھوئی حماد بن ابی سلیمان کی کتابیں حاصل کرلیں، پھر ابوحنیفہ اِن کتابوں سے روایت بیان کرنے لگے، حالانکہ انہوں نے یہ کتابیں حماد سے نہیں سنی تھیں
[الجرح وتعديل لابن أبي حاتم: ج8، ص450] وسندہ صحیح
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
111
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
بہت سے ثقہ راوی اور حدیث کے امام ، امام ابو حنیفہ کے مسلک پر تھے

تاریخ بغداد از الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ) ج ١٥ ص ٦٤٧ کے مطابق

يحيى بن معين، قال: ما رأيت أفضل من وكيع بن الجراح، قيل له: ولا ابن المبارك؟ قال: قد كان لابن المبارك فضل، ولكن ما رأيت أفضل من وكيع، كان يستقبل القبلة، ويحفظ حديثه، ويقوم الليل، ويسرد الصوم، ويفتي بقول أبي حنيفة، وكان قد سمع منه شيئا كثيرا، قال يحيى بن معين: وكان يحيى بن سعيد القطان يفتي بقوله أيضا.
جو ھیڈنگ ڈالی ھے وہ ایک گپ سے زیادہ کچھ نہیں،
اور میرے لئے مضحکہ خیز بات اور آپ کے لئے افسوس کی بات یہ ھے۔ کہ اپنے امام کے خلاف تو ھر ھر سند کی جانچ پڑتال ، اور ھر ممکن کوشش کرکے، ھر طرح کا حیلے بہانے بنا کر ، اپنے امام کے خلاف وارد شدہ آثار کا رد کرتے ھو،
اور جب امام کے حق میں کسی کا قول نظر آتا ھے، تو سند کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے؟؟؟
ماسی لئے کہتے ھیں گمراھی کی اگر کوئی ماں ھوتی تو تقلید اُس کی بھی ماں ھوتی،
مذکورہ روایت ابن معین سے ثابت ھی نہیں۔ اس کی سند اس طرح سے ھے۔
أخبرنَا عمر بن إِبْرَاهِيم قَالَ أنبأ مكرم قَالَ أنبأ عَليّ بن الْحُسَيْن بن حبَان عَن أَبِيه قَالَ سَمِعت يحيى بن معِين قَالَ مَا رَأَيْت أفضل من وَكِيع بن الْجراح__
۔
اس قول کی سند ضعیف ہے کیونکہ علی بن الحسین کے باپ، "حسین بن حبان بن عمار بن واقد" مجھول ہے۔ اس کا ذکر تاریخ بغداد اور تاریخ الاسلام میں بغیر کسی جرح اور تعدیل کے ملتا ہے۔ لہذا وہ لوگ جو اس قول کی صحت کے قائل ہیں ان پر لازمی ہے کہ وہ اس شخص کی صداقت اور ضبط ثابت کریں۔

نہ صرف اس قول کی سند ضعیف ہے بلکہ اس کا متن بھی شاذ اور منکر ہے جس سے یہ روایت مزید ضعف کا شکار ہے۔
اس ضعیف قول میں بتایا گیا ہے کہ امام یحیی بن معین کے مطابق امام وکیع امام ابن المبارک سے بھی زیادہ افضل ہیں، جبکہ امام ابن معین سے اس کے الٹ ثابت ہے۔

امام عثمان بن سعید الدارمی نے ایک دفعہ امام یحیی بن معین سے پوچھا:

فابن المبارك أعجب إليك أو وكيع فلم يفضل
"ابن المبارک کو آپ زیادہ پسند کرتے ہیں یا وکیع کو؟" تو امام ابن معین نے دونوں میں سے کسی کو دوسرے پر فضیلت نہیں دی۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر 63/92، اسنادہ حسن)
صرف یہی روایت اس ضعیف روایت کو منکر اور مردود ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔

امام وکیع بن الجراح خود ایک مجتہد تھے


مزید یہ کہ امام وکیع کسی کے قول پر فتوی نہیں دیتے تھے کیونکہ وہ خود ایک مجتہد و فقیہ تھے۔ چنانچہ امام ابو الحسن العجلی فرماتے ہیں:
ثِقَةٌ، عَابِدٌ، صَالِحٌ، أَدِيْبٌ، مِنْ حُفَّاظِ الحَدِيْثِ، وَكَانَ مُفْتِياً
"وہ ثقہ عابد صالح ادیب حفاظ حدیث میں سے تھے، اور وہ ایک مفتی تھے۔"
(سیر اعلام النبلاء 9/152)
فتاوی عالمگیری میں فقہاء کا اجماع نقل کیا گیا ہے کہ مفتی کے لیے اہل اجتہاد میں سے ہونا واجب ہے۔

اسی طرح امام ابراہیم بن شماس فرماتے ہیں:
رَأَيْتُ أَفْقَهَ النَّاسِ وَكِيْعاً
"لوگوں میں سب سے بڑے فقیہ میں نے وکیع کو پایا ہے۔"
(سیر اعلام النبلاء 9/155)
امام ابن عمار فرماتے ہیں:
ما كان بالكوفة في زمان وكيع بن الجراح أفقه ولا أعلم بالحديث من وكيع
"وکیع بن الجراح کے زمانے میں کوفہ میں ان سے بڑا کوئی حدیث کا عالم اور فقیہ نہیں تھا۔"
(تاریخ بغداد 13/479، اسنادہ صحیح)
لہذا یہ کہنا کہ امام وکیع قرآن و حدیث کی بجائے ابو حنیفہ کے قول پر فتوی دیتے تھے، بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔

بلکہ امام وکیع نے الٹا امام ابو حنیفہ کے ایک فتوی کو بدعت اور اہل الرائے کا فتوی قرار دیے کر جھٹلا دیا۔ چنانچہ جب امام ترمذی نے اپنی سنن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کی:

«أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَلَّدَ نَعْلَيْنِ۔۔۔»
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانیوں کی اونٹنیوں کے گلوں میں جوتیوں کا ہار ڈالا۔۔۔"
تو امام ترمذی نے فرمایا:

سَمِعْتُ يُوسُفَ بْنَ عِيسَى يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ حِينَ رَوَى هَذَا الحَدِيثَ، فَقَالَ: «لَا تَنْظُرُوا إِلَى قَوْلِ أَهْلِ الرَّأْيِ فِي هَذَا، فَإِنَّ الإِشْعَارَ سُنَّةٌ، وَقَوْلُهُمْ بِدْعَةٌ». وَسَمِعْتُ أَبَا السَّائِبِ يَقُولُ: " كُنَّا عِنْدَ وَكِيعٍ، فَقَالَ لِرَجُلٍ عِنْدَهُ مِمَّنْ يَنْظُرُ فِي الرَّأْيِ: أَشْعَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيَقُولُ أَبُو حَنِيفَةَ هُوَ مُثْلَةٌ؟ قَالَ الرَّجُلُ: فَإِنَّهُ قَدْ رُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ أَنَّهُ قَالَ: الإِشْعَارُ مُثْلَةٌ، قَالَ: فَرَأَيْتُ وَكِيعًا غَضِبَ غَضَبًا شَدِيدًا، وَقَالَ: أَقُولُ لَكَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقُولُ قَالَ إِبْرَاهِيمُ، مَا أَحَقَّكَ بِأَنْ تُحْبَسَ، ثُمَّ لَا تَخْرُجَ حَتَّى تَنْزِعَ عَنْ قَوْلِكَ هَذَا "
"میں نے یوسف بن عیسیٰ کو یہ حدیث وکیع کے حوالے سے روایت کرتے ہوئے سنا، انہوں نے فرمایا کہ اس مسئلے میں اہل رائے کا قول نہ دیکھو اس لئے کہ نشان لگانا (یعنی اشعار) سنت ہے اور اہل رائے کا قول بدعت ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ میں نے ابوسائب سے سنا وہ کہتے ہیں ہم وکیع کے پاس تھے کہ انہوں نے اہل رائے میں سے ایک شخص سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشعار کیا (یعنی نشان لگایا) اور امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ یہ مثلہ ہے، اس پر وکیع غصے میں آگئے اور فرمایا میں تم سے کہتا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اور تم کہتے ہو کہ ابراہیم نخعی نے یوں کہا، تم اس قابل ہو کہ تمہیں قید کر دیا جائے یہاں تک کہ تم اپنے اس قول سے رجوع کرلو۔"
(سنن الترمذی 906)
یہ قول صریح طور پر ثابت کرتا ہے کہ:
1- امام وکیع سنت کے تابع تھے، اور وہ قرآن و حدیث پر فتوی دیتے تھے۔
2- امام وکیع ابو حنیفہ کے قول پر فتوی نہیں دیتے تھے۔
3- امام وکیع کے نزدیک تقلید ایک مذموم اور قابل سزا عمل ہے۔


امام الجرح والتعدیل شمس الدین الذہبی فرماتے ہیں:

مَا فِيهِ إِلَّا شُرْبُهُ لِنَبِيذِ الْكُوفِيِّينَ وَمُلَازَمَتُهُ لَهُ جَاءَ ذَلِكَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْهُ انتهى
یعنی امام وکیع نے ابو حنیفہ کے صرف ایک ہی قول پر فتوی دیا اور وہ ہے کوفییوں کی نبیذ پینے کے جواز میں۔۔۔
(تذکرۃ الحفاظ 1/224)
کیا فتوی دینے کا مطلب توثیق کرنا ہے؟

ابو السائب روایت کرتے ہیں: میں نے وکیع کو کہتے سنا:


وجدنا أبا حنيفة خالف مائتي حديث
"ہم نے ابو حنیفہ کو ایک سو حدیثوں میں مخالفت کرتے پایا"
(تاریخ بغداد 13/407، اسنادہ صحیح)
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
111
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
الذھبی کتاب سیر الاعلام میں لکھتے ہیں

قَالَ مُحَمَّدُ بنُ سَعْدٍ العَوْفِيُّ: سَمِعْتُ يَحْيَى بنَ مَعِيْنٍ يَقُوْلُ:
كَانَ أَبُو حَنِيْفَةَ ثِقَةً، لاَ يُحَدِّثُ بِالحَدِيْثِ إِلاَّ بِمَا يَحْفَظُه، وَلاَ يُحَدِّثُ بِمَا لاَ يَحْفَظُ.
وَقَالَ صَالِحُ بنُ مُحَمَّدٍ: سَمِعْتُ يَحْيَى بنَ مَعِيْنٍ يَقُوْلُ: كَانَ أَبُو حَنِيْفَةَ ثِقَةً فِي الحَدِيْثِ


یحیی بن معین کہتے ہیں ابو حنیفہ ثقه تھے.

زبیر علی زئی رحم الله نے اعتراض کیا ہے کہ اس کی سند ثابت نہیں لیکن اگر اس طرح جرح و تعدیل کی چھان بین کی جائے تو شاید ہی کوئی مجروح رہے اور کوئی ثقه. دوسرے اس طریقہ کار کو صرف چند شخصیات تک محدود کرنا صریح تعصب ہے
واہ جو آپ کا قلم گُل کھلائے وہ چیز ازخود لید بن جائے،
کیا کہنے میرے پیارے بھائی کے، کہاں سے لاتے ھو آپ اتنی سستی باتیں؟ میرے خیال میں ایک ادنی سا طالبعلم بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ رجال کی تحقیق نہیں کرنی چاھیئے سوائے غالی مقلدین کے،
اپنے امام کی طرف منسوب غیر ثابت شدہ روایت جن میں امام موصوف کی تعریف بیان ھوئی ھے، اُس میں کوئی تحقیق نہیں کر رھے، اور امام موصوف کے خلاف ھر روایت کو حیلے بہانوں سے دجل کرکے رد کر رھے ھو؟ کیا یہی اصولِ محدثین ھے؟ کیا اس کو تحقیق کہیں گے؟
۔
مذکورہ روایت کے راوی کو تو کوثری نے بھی ساقط الاعتبار قرار دیا ھے، [تعلیق الکوثري علی مناقب الامام ابي حنیفه للذهبي: ص، 28/29]

امام خطیب نے محمد بن سعد العوفی کو لین کہا". [تاریخ بغداد للخطیب: 13/419]

اور اِس روایت میں محمد بن احمد بن عصام بھی مجھول ھے!!
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
111
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ الطُّوسِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ، عَنْ سُلَيْمٍ الْمُقْرِئِ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ حَمَّادًا، يَقُولُ: ” أَلَا تَعْجَبُ مِنْ أَبِي حَنِيفَةَ يَقُولُ: الْقُرْآنُ مَخْلُوقٌ، قُلْ لَهُ يَا كَافِرُ يَا زِنْدِيقُ

سفیان کہتے ہیں میں نے حماد کو سنا کہ تم کو ابو حنیفہ کے قول پر تعجب نہیں ہوتا کہتا ہے قرآن مخلوق ہے میں نے اس کو کہا اے کافر اے زندیق

اس کی سند میں إِسْحَاقُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ الطُّوسِيُّ ہے جس کا حال کتابوں میں موجود نہیں دوسرا راوی سليم المقرئ ہے جس کی توثیق نہیں ملی

اگر یہ سلیم بن عيسى المقرئ ہے امام عقیلی کتاب الضعفاء الكبير میںکہتے ہیں

سُلَيْمُ بْنُ عِيسَى مَجْهُولٌ فِي النَّقْلِ، حَدِيثُهُ مُنْكَرٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ


امام بخاری رحمه الله نے کہا:
قال لي ضرار بن صرد: حدثنا سلیم سمع سفیان قال لي حماد أبلغ أبا حنيفة ألمشرك أني برئ منه قال: وكان يقول: القرآن مخلوق [تاريخ الكبير للإمام البخاري: 2/127]

اس روایت کے راوی سلیم المقرئ حسن الحدیث ھیں، امام ذھبی نے سلیم کے ترجمہ میں کہا:
إمام في القراءة، جائز الحديث، ومرة: صاحب حمزة الزيات وأخص تلامذته به وأحذقهم بالقراءة وأقومهم بالحرف وهو الذي خلف حمزة في الإقراء بالكوفة، حتى إن رفقاءه في القراءة على حمزة قرؤوا عليه لإتقانه
[
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
111
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
حَدَّثَنِي مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ سَلْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ سَأَلْتُ أَبَا يُوسُفَ وَهُوَ بِجُرْجَانَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ، فَقَالَ: «وَمَا تَصْنَعُ بِهِ مَاتَ جَهْمِيًّا»

محمّد بن سعید بن سلم اپنے باپ سے نقل کرتا ہے کہ انہوں نے ابو یوسف سے جرجان میں ابو حنیفہ کے بارے میں پوچھا انہوں نے کہا میں اس سے کچھ نہیں لیتا جہمی مرا

مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ سَلْمٍ مجھول ہے لیکن پھر بھی اسکی بات کو صحیح مانتے ہوئے کتاب میں نقل کرتے ہیں
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ثنا خَالِدُ بْنُ خِدَاشٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ قَرِيبٍ الْأَصْمَعِيِّ، عَنْ حَازِمٍ الطُّفَاوِيِّ قَالَ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ: «أَبُو حَنِيفَةَ إِنَّمَا كَانَ يَعْمَلُ بِكُتُبِ جَهْمٍ تَأْتِيهِ مِنْ خُرَاسَانَ

عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ قَرِيبٍ الْأَصْمَعِيِّ روایت کرتے ہیں کہ …. ابو حنیفہ جھم کی کتابوں پر عمل کرتے تھے جو خراسان سے آئی تھیں
ابو یوسف سے یہ قول بسند صحیح منقول ھے
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ زُهَيْرٍ بِتُسْتَرَ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْبَغَوِيّ قَالَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَبِي مَالِكٍ عَنْ أَبِي يُوسُفَ قَالَ أَوَّلُ مَنْ قَالَ الْقُرْآنُ مَخْلُوقٌ أَبُو حَنِيفَةَ يُرِيدُ بِالْكُوفَةِ
[المجروحين لابن حبان: ج3، ص64/65]

عمر بن حماد بن ابی حنیفہ سے مروی قول:
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِدْرِيسَ الأَنْصَارِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ قَالَ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَمَّادِ بْنِ أَبِي حَنِيفَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا حَنِيفَةَ يَقُولُ الْقُرْآنُ مَخْلُوقٌ قَالَ فَكَتَبَ إِلَيْهِ بن أَبِي لَيْلَى إِمَّا أَنْ تَرْجِعَ وَإِلَّا لأَفْعَلَنَّ بِكَ فَقَالَ قَدْ رَجَعْتُ فَلَمَّا رَجَعَ إِلَى بَيْتِهِ قُلْتُ يَا أَبِي أَلَيْسَ هَذَا رَأْيُكَ قَالَ نَعَمْ يَا بُنَيَّ وَهُوَ الْيَوْمَ أَيْضًا رَأْيِي وَلَكِنْ أَعْيَتْهُمُ التَّقِيَّةُ
[المجروحين لابن حبان: ج3، ص65]
.
قاضی سلمہ بن عمرو کی گواھی:
حدثنا أبو زرعة قَالَ: فَأَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مُسْهِرٍ يَقُولُ: قَالَ سَلَمَةُ بْنُ عَمْرٍو الْقَاضِيُّ عَلَى الْمِنْبَرِ: لَا رَحِمَ اللَّهُ أَبَا حَنِيفَةَ، فَإِنَّهُ أَوَّلُ مَنْ زعم أن القرآن مخلوق.
[تاريخه أبي زرعة الدمشقي ص 504]
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
111
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54

بد اللہ کتاب السنہ میں روایت کرتے ہیں جس میں ابو حنیفہ کو کافر کہا گیا ہے سند ہے

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَوْنِ بْنِ الْخَرَّازِ أَبُو مُحَمَّدٍ، وَكَانَ، ثِقَةً، ثنا شَيْخٌ، مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ: قِيلَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْنٍ: هُو أَبُو الْجَهْمِ فَكَأَنَّهُ أَقَرَّ أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ يَقُولُ: قَالَ لِي حَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ ” اذْهَبْ إِلَى الْكَافِرِ يَعْنِي أَبَا حَنِيفَةَ فَقُلْ لَهُ: إِنْ كُنْتَ تَقُولُ: إِنَّ الْقُرْآنَ مَخْلُوقٌ فَلَا تَقْرَبْنَا “
عبد الله کتاب السنہ میں روایت لکھتے ہیں

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَسَنِ بْنِ أَبِي مَالِكٍ، عَنْ أَبِي يُوسُفَ، قَالَ ” أَوَّلُ مَنْ قَالَ: الْقُرْآنُ مَخْلُوقٌ أَبُو حَنِيفَةَ

اسحٰق بن عبد الرحمان کہتے ہیں حسن بن ابی مالک سی وہ ابو یوسف سے جس نے سب سے پہلے کہا قرآن مخلوق ہے وہ ابو حنیفہ ہے

اس کی سند میں اسحاق بن عبد الرحمان مجھول ہے
أَخْبَرَنَا العتيقي، قَالَ: أَخْبَرَنَا جعفر بن مُحَمَّد بن علي الطاهري، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو القاسم البغوي، قَالَ: حَدَّثَنَا زياد بن أيوب، قَالَ: حَدَّثَنِي حسن بن أبي مالك، وكان من خيار عباد الله، قال: قلت لأبي يوسف الْقَاضِي: ما كان أَبُو حنيفة يقول في القرآن؟ قال: فقال: كان يقول: القرآن مخلوق، قال: قلت: فأنت يا أبا يوسف؟ فقال: لا، قال أَبُو القاسم: فحدثت بهذا الحديث الْقَاضِي البرتي، فقال لي: وأي حسن كان، وأي حسن كان؟! يعني الحسن بن أبي مالك، قال أَبُو القاسم: فقلت للبرتي: هذا قول أبي حنيفة؟ قال: نعم، المشئوم.
قال: وجعل يقول: أحدث بحلق
تاريخ بغداد للخطيب: ج15، ص516] وسنده صحيح

أَخْبَرَنِي الخلال، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَد بن إبراهيم، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَر بن الحسن الْقَاضِي، قَالَ: أخبرنا إسماعيل بن إسحاق القاضي، قال: حَدَّثَنَا عباس بن عبد العظيم، قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَد بن يونس، قال: كان أَبُو حنيفة في مجلس عيسى بن موسى، فقال: القرآن مخلوق، قال: فقال: أخرجوه، فإن تاب وإلا فاضربوا عنقه
حوالہ مذکورہ بالا۔

أَخْبَرَنَا الْبَرْقَانِيّ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّد بن العباس الخزاز، قَالَ: حَدَّثَنَا جعفر بن مُحَمَّد الصندلي، قَالَ: حَدَّثَنَا إسحاق بن إبراهيم ابن عم ابن منيع، قَالَ: حَدَّثَنَا إسحاق بن عَبْد الرَّحْمَن، قَالَ: حَدَّثَنَا حسن بن أبي مالك، عن أبي يوسف، قال: أول من قال: القرآن مخلوق: أَبُو حنيفة
حوالہ مذکورہ بالا
 
Top