بہت سے ثقہ راوی اور حدیث کے امام ، امام ابو حنیفہ کے مسلک پر تھے
تاریخ بغداد از الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ) ج ١٥ ص ٦٤٧ کے مطابق
يحيى بن معين، قال: ما رأيت أفضل من وكيع بن الجراح، قيل له: ولا ابن المبارك؟ قال: قد كان لابن المبارك فضل، ولكن ما رأيت أفضل من وكيع، كان يستقبل القبلة، ويحفظ حديثه، ويقوم الليل، ويسرد الصوم، ويفتي بقول أبي حنيفة، وكان قد سمع منه شيئا كثيرا، قال يحيى بن معين: وكان يحيى بن سعيد القطان يفتي بقوله أيضا.
جو ھیڈنگ ڈالی ھے وہ ایک گپ سے زیادہ کچھ نہیں،
اور میرے لئے مضحکہ خیز بات اور آپ کے لئے افسوس کی بات یہ ھے۔ کہ اپنے امام کے خلاف تو ھر ھر سند کی جانچ پڑتال ، اور ھر ممکن کوشش کرکے، ھر طرح کا حیلے بہانے بنا کر ، اپنے امام کے خلاف وارد شدہ آثار کا رد کرتے ھو،
اور جب امام کے حق میں کسی کا قول نظر آتا ھے، تو سند کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے؟؟؟
ماسی لئے کہتے ھیں گمراھی کی اگر کوئی ماں ھوتی تو تقلید اُس کی بھی ماں ھوتی،
مذکورہ روایت ابن معین سے ثابت ھی نہیں۔ اس کی سند اس طرح سے ھے۔
أخبرنَا عمر بن إِبْرَاهِيم قَالَ أنبأ مكرم قَالَ أنبأ عَليّ بن الْحُسَيْن بن حبَان عَن
أَبِيه قَالَ سَمِعت يحيى بن معِين قَالَ مَا رَأَيْت أفضل من وَكِيع بن الْجراح__
۔
اس قول کی سند ضعیف ہے کیونکہ علی بن الحسین کے باپ، "حسین بن حبان بن عمار بن واقد" مجھول ہے۔ اس کا ذکر تاریخ بغداد اور تاریخ الاسلام میں بغیر کسی جرح اور تعدیل کے ملتا ہے۔ لہذا وہ لوگ جو اس قول کی صحت کے قائل ہیں ان پر لازمی ہے کہ وہ اس شخص کی صداقت اور ضبط ثابت کریں۔
نہ صرف اس قول کی سند ضعیف ہے بلکہ اس کا متن بھی شاذ اور منکر ہے جس سے یہ روایت مزید ضعف کا شکار ہے۔
اس ضعیف قول میں بتایا گیا ہے کہ امام یحیی بن معین کے مطابق امام وکیع امام ابن المبارک سے بھی زیادہ افضل ہیں، جبکہ امام ابن معین سے اس کے الٹ ثابت ہے۔
امام عثمان بن سعید الدارمی نے ایک دفعہ امام یحیی بن معین سے پوچھا:
فابن المبارك أعجب إليك أو وكيع فلم يفضل
"ابن المبارک کو آپ زیادہ پسند کرتے ہیں یا وکیع کو؟" تو امام ابن معین نے دونوں میں سے کسی کو دوسرے پر فضیلت نہیں دی۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر 63/92، اسنادہ حسن)
صرف یہی روایت اس ضعیف روایت کو منکر اور مردود ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔
امام وکیع بن الجراح خود ایک مجتہد تھے
مزید یہ کہ امام وکیع کسی کے قول پر فتوی نہیں دیتے تھے کیونکہ وہ خود ایک مجتہد و فقیہ تھے۔ چنانچہ امام ابو الحسن العجلی فرماتے ہیں:
ثِقَةٌ، عَابِدٌ، صَالِحٌ، أَدِيْبٌ، مِنْ حُفَّاظِ الحَدِيْثِ، وَكَانَ مُفْتِياً
"وہ ثقہ عابد صالح ادیب حفاظ حدیث میں سے تھے، اور وہ ایک مفتی تھے۔"
(سیر اعلام النبلاء 9/152)
فتاوی عالمگیری میں فقہاء کا اجماع نقل کیا گیا ہے کہ مفتی کے لیے اہل اجتہاد میں سے ہونا واجب ہے۔
اسی طرح امام ابراہیم بن شماس فرماتے ہیں:
رَأَيْتُ أَفْقَهَ النَّاسِ وَكِيْعاً
"لوگوں میں سب سے بڑے فقیہ میں نے وکیع کو پایا ہے۔"
(سیر اعلام النبلاء 9/155)
امام ابن عمار فرماتے ہیں:
ما كان بالكوفة في زمان وكيع بن الجراح أفقه ولا أعلم بالحديث من وكيع
"وکیع بن الجراح کے زمانے میں کوفہ میں ان سے بڑا کوئی حدیث کا عالم اور فقیہ نہیں تھا۔"
(تاریخ بغداد 13/479، اسنادہ صحیح)
لہذا یہ کہنا کہ امام وکیع قرآن و حدیث کی بجائے ابو حنیفہ کے قول پر فتوی دیتے تھے، بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔
بلکہ امام وکیع نے الٹا امام ابو حنیفہ کے ایک فتوی کو بدعت اور اہل الرائے کا فتوی قرار دیے کر جھٹلا دیا۔ چنانچہ جب امام ترمذی نے اپنی سنن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کی:
«أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَلَّدَ نَعْلَيْنِ۔۔۔»
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانیوں کی اونٹنیوں کے گلوں میں جوتیوں کا ہار ڈالا۔۔۔"
تو امام ترمذی نے فرمایا:
سَمِعْتُ يُوسُفَ بْنَ عِيسَى يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ حِينَ رَوَى هَذَا الحَدِيثَ، فَقَالَ: «لَا تَنْظُرُوا إِلَى قَوْلِ أَهْلِ الرَّأْيِ فِي هَذَا، فَإِنَّ الإِشْعَارَ سُنَّةٌ، وَقَوْلُهُمْ بِدْعَةٌ». وَسَمِعْتُ أَبَا السَّائِبِ يَقُولُ: " كُنَّا عِنْدَ وَكِيعٍ، فَقَالَ لِرَجُلٍ عِنْدَهُ مِمَّنْ يَنْظُرُ فِي الرَّأْيِ: أَشْعَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيَقُولُ أَبُو حَنِيفَةَ هُوَ مُثْلَةٌ؟ قَالَ الرَّجُلُ: فَإِنَّهُ قَدْ رُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ أَنَّهُ قَالَ: الإِشْعَارُ مُثْلَةٌ، قَالَ: فَرَأَيْتُ وَكِيعًا غَضِبَ غَضَبًا شَدِيدًا، وَقَالَ: أَقُولُ لَكَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقُولُ قَالَ إِبْرَاهِيمُ، مَا أَحَقَّكَ بِأَنْ تُحْبَسَ، ثُمَّ لَا تَخْرُجَ حَتَّى تَنْزِعَ عَنْ قَوْلِكَ هَذَا "
"میں نے یوسف بن عیسیٰ کو یہ حدیث وکیع کے حوالے سے روایت کرتے ہوئے سنا، انہوں نے فرمایا کہ اس مسئلے میں اہل رائے کا قول نہ دیکھو اس لئے کہ نشان لگانا (یعنی اشعار) سنت ہے اور اہل رائے کا قول بدعت ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ میں نے ابوسائب سے سنا وہ کہتے ہیں ہم وکیع کے پاس تھے کہ انہوں نے اہل رائے میں سے ایک شخص سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشعار کیا (یعنی نشان لگایا) اور امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ یہ مثلہ ہے، اس پر وکیع غصے میں آگئے اور فرمایا میں تم سے کہتا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اور تم کہتے ہو کہ ابراہیم نخعی نے یوں کہا، تم اس قابل ہو کہ تمہیں قید کر دیا جائے یہاں تک کہ تم اپنے اس قول سے رجوع کرلو۔"
(سنن الترمذی 906)
یہ قول صریح طور پر ثابت کرتا ہے کہ:
1- امام وکیع سنت کے تابع تھے، اور وہ قرآن و حدیث پر فتوی دیتے تھے۔
2- امام وکیع ابو حنیفہ کے قول پر فتوی نہیں دیتے تھے۔
3- امام وکیع کے نزدیک تقلید ایک مذموم اور قابل سزا عمل ہے۔
امام الجرح والتعدیل شمس الدین الذہبی فرماتے ہیں:
مَا فِيهِ إِلَّا شُرْبُهُ لِنَبِيذِ الْكُوفِيِّينَ وَمُلَازَمَتُهُ لَهُ جَاءَ ذَلِكَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْهُ انتهى
یعنی امام وکیع نے ابو حنیفہ کے صرف ایک ہی قول پر فتوی دیا اور وہ ہے کوفییوں کی نبیذ پینے کے جواز میں۔۔۔
(تذکرۃ الحفاظ 1/224)
کیا فتوی دینے کا مطلب توثیق کرنا ہے؟
ابو السائب روایت کرتے ہیں: میں نے وکیع کو کہتے سنا:
وجدنا أبا حنيفة خالف مائتي حديث
"ہم نے ابو حنیفہ کو ایک سو حدیثوں میں مخالفت کرتے پایا"
(تاریخ بغداد 13/407، اسنادہ صحیح)