میراتوخیال ہے کہ جوشخص فقہاء پر کلام کرے تواسے کم ازکم عربی کی شد بد ہونی ہی چاہئے۔اگراتنابھی نہیں ہے اوراس کے باوجود فقہاء پر کلام کی جسارت کی جائے توپھراس کو کس چیز سے تعبیر کیاجائے میرے پاس اس کیلئے الفاظ نہیں ہیں۔
بہرحال اس عبارت کاوہ مطلب نہیں جوآپ نے سمجھاہے۔
دیکھئے بیان چل رہاہے اجارہ کا۔
اب ایک فاحشہ خاتون ہے۔وہ کسی مکان کواجارہ یعنی کرایہ پر لیتی ہے وہ پیشہ کرتی ہے اوراسی پیشہ کے روپئے کوکرایہ کی مد میں دیتی ہے توصاحب مکان کیلئے یہ پیسے لیناجائز ہوگایانہیں۔یہ اصل اختلاف ہے۔
امام ابوحنیفہ کاکہناہے کہ اگرچہ کسب حرام ہے لیکن صاحب مکان کیلئے کرایہ لیناجائز ہوگاکیونکہ اگرصورت حال ایسی ہوتی کہ کوئی شخص مکان کرایہ پر لیتا لیکن کرایہ طے نہ ہوتاتواس کوقیمت مثل دیاجاتااگرچہ کرایہ طے نہ ہونے کی وجہ سے یہ اجارہ فاسد ہوتا۔وہی صورت حال یہاں بھی ہے کہ ایک خاتون فاحشہ مکان کرایہ پر لیتی ہے اس کاکسب حراب ہے جس کی وجہ سے اجارہ فاسدہوگالیکن اس فاحشہ کے روپے کرایہ کے مد میں لینامالک مکان کیلئے درست ہوگا۔
اس کی دلیل یہ ہوسکتی ہے کہ مشہور حدیث ہے کہ
حضرت بریرہ رضی اللہ عنہاکے پاس صدقہ کاکچھ کھانے پینے کاسامان آیا۔حضورپاک بھی ان کے یہاں گئے تودیکھااورفرمائش کی کہ ان کوبھی کھلایاجائے ۔انہوں نے عرض کیاکہ یہ توصدقہ کاہے۔
اس پر حضور نے فرمایاکہ وہ تمہارے لئے صدقہ ہوگاہمارے لئے توہدیہ ہوگا۔
اس سے فقہاء نے یہ استنباط کیاکہ ملک بدل جانے سے مال کی حیثیت بھی بدل جاتی ہے۔
اب وہ فاحشہ خاتون پیشہ کرتی ہیں تویہ ان کیلئے وبال عظیم ہے لیکن وہ اس روپئے کوچونکہ کرایہ کے مد میں اداکرتی ہیں لہذا مکان جوکرایہ لے رہاہے تو اپنے مکان کاکرایہ لے رہاہے اوریہ اس کیلئے درست ہوگاامام ابوحنفیہ کے نزدیک صاحبین کے نزدیک وہ بھی درست نہیں ہوگا۔
نوٹ:فقہاء بالخصوص فقہاء احناف عمومی قانونی طورپر بات کرتے ہیں کہ جواز کاآخری پہلوکیاہوسکتاہے لیکن تقوی اورایک مسلمان کاشعار کیاہوناچاہئے وہ سبھی کو استفت قلبک یعنی خود اپنے ضمیر سے پوچھ کر عمل کرلیناچاہئے۔والسلام
بہرحال اس عبارت کاوہ مطلب نہیں جوآپ نے سمجھاہے۔
دیکھئے بیان چل رہاہے اجارہ کا۔
اب ایک فاحشہ خاتون ہے۔وہ کسی مکان کواجارہ یعنی کرایہ پر لیتی ہے وہ پیشہ کرتی ہے اوراسی پیشہ کے روپئے کوکرایہ کی مد میں دیتی ہے توصاحب مکان کیلئے یہ پیسے لیناجائز ہوگایانہیں۔یہ اصل اختلاف ہے۔
امام ابوحنیفہ کاکہناہے کہ اگرچہ کسب حرام ہے لیکن صاحب مکان کیلئے کرایہ لیناجائز ہوگاکیونکہ اگرصورت حال ایسی ہوتی کہ کوئی شخص مکان کرایہ پر لیتا لیکن کرایہ طے نہ ہوتاتواس کوقیمت مثل دیاجاتااگرچہ کرایہ طے نہ ہونے کی وجہ سے یہ اجارہ فاسد ہوتا۔وہی صورت حال یہاں بھی ہے کہ ایک خاتون فاحشہ مکان کرایہ پر لیتی ہے اس کاکسب حراب ہے جس کی وجہ سے اجارہ فاسدہوگالیکن اس فاحشہ کے روپے کرایہ کے مد میں لینامالک مکان کیلئے درست ہوگا۔
اس کی دلیل یہ ہوسکتی ہے کہ مشہور حدیث ہے کہ
حضرت بریرہ رضی اللہ عنہاکے پاس صدقہ کاکچھ کھانے پینے کاسامان آیا۔حضورپاک بھی ان کے یہاں گئے تودیکھااورفرمائش کی کہ ان کوبھی کھلایاجائے ۔انہوں نے عرض کیاکہ یہ توصدقہ کاہے۔
اس پر حضور نے فرمایاکہ وہ تمہارے لئے صدقہ ہوگاہمارے لئے توہدیہ ہوگا۔
اس سے فقہاء نے یہ استنباط کیاکہ ملک بدل جانے سے مال کی حیثیت بھی بدل جاتی ہے۔
اب وہ فاحشہ خاتون پیشہ کرتی ہیں تویہ ان کیلئے وبال عظیم ہے لیکن وہ اس روپئے کوچونکہ کرایہ کے مد میں اداکرتی ہیں لہذا مکان جوکرایہ لے رہاہے تو اپنے مکان کاکرایہ لے رہاہے اوریہ اس کیلئے درست ہوگاامام ابوحنفیہ کے نزدیک صاحبین کے نزدیک وہ بھی درست نہیں ہوگا۔
نوٹ:فقہاء بالخصوص فقہاء احناف عمومی قانونی طورپر بات کرتے ہیں کہ جواز کاآخری پہلوکیاہوسکتاہے لیکن تقوی اورایک مسلمان کاشعار کیاہوناچاہئے وہ سبھی کو استفت قلبک یعنی خود اپنے ضمیر سے پوچھ کر عمل کرلیناچاہئے۔والسلام