- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
جناب جب آپ لوگوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ آپ وحدۃ الوجود ، تصور شیخ ۔۔۔۔ جیسے گمراہ کن عقائد کے حامل ہیں تو آپ کہتے ہیں کہ جناب ہماری طرف غلط بات منسوب کی گئی ہے اور یہ اہل حدیث ہمارے بارے میں غلط فہمیاں پھیلاتے ہیں لہذا سعودیہ والوں کے سامنے کشف حقیقت ہونا چاہیے ۔المہند کے عقائد کو سعودی علماء سے ہم دریافت کریں۔
غیرمقلدین کے بزرگوں نے جوکچھ لکھاجوکھاہے اس کو بھی ہم ہی دریافت کریں۔
اب المہند تو چونکہ آپ کے اپنوں کی لکھی ہوئی ہے آپ کو مشورہ دیا گیا کہ خود اسی کتاب کو پیش کردیں تاکہ آپ کے بارے میں حقیقت حال معلوم ہو جائے ۔ اس میں غلط بات کیا ہے ؟
رہی یہ بات کہ اہل حدیث کے اکابرین کے بارے میں آپ کو دریافت کرنے کے لیے اس وجہ سے کہا تھا چونکہ آپ کا دعوی تھا کہ ہم کچھ چیزیں چھپا لیتے ہیں ۔۔۔۔۔ ہم نے گزارش کی کہ آپ کے مطابق جو کچھ ہم چھپاتے ہیں آپ اس کو طشت از بام کر لیں ۔ کیا بات ہے غلط اس میں ؟
الطیور تقع علی أشکالہا کے مصداق اب آپ کو دوسرے بے اصول نظر آنا شروع ہوگئے ہیں ۔
میں نے لکھا تھا کہ ظاہریہ و اہل الرائے دونوں جادہ سے ہٹے ہوئے ہیں البتہ مؤخر الذکر گروہ پہلے سے زیادہ نقصان دہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے مجھے لا علمی کا طعنہ دیا اور کہا کہ اعداد و شمار کے ذریعے ثابت کریں ۔اورانہوں نے ظاہریہ اوراہل رائے میں غلطی کے تناسب اورفیصد کی بات کی تھی جب اس تعلق سے سوال کیاگیاکہ وہ تناسب اورفیصد کی وضاحت کریں اورمجمل کلام نہ کریں توارشاد ہوا۔
میں نے اپنی لا علمی کا اعتراف کرتے ہوئے آپ سے گزارش کی تھی کہ آپ اپنے علمی سمندر میں غوطہ زن ہو کر کچھ ارشاد فرما دیں تاکہ اس کو بھی دیکھا جاسکے کہ آپ کتنے پانی میں ہیں ؟
بہر صورت میں اب بھی یہ سمجھتا ہوں کہ ایک شخص ظاہر نصوص کو مضبوطی سے تھام لیتا اس کے برعکس دوسرا نصوص کا طرح طرح کے بہانوں سے رد کرتا ہے تو مؤخر الذکر ہی زیادہ نقصان دہ ہے ۔ ایک آدمی کا منہج ہے نص پرستی جبکہ دوسرے کا منہج ہے نص سے جان چھڑانا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی سے پوچھ لیں کہ دونوں کے درمیان کیافرق ہے ؟
منہج صحیح کیا قرآن وسنت کے مطابق عمل کرنا ۔یہ عبارت بالواسطہ یہ بھی کہہ رہی ہے کہ صحیح منہج کا معیار یہ ہے کہ وہ ان حضرات سے محبت رکھے ورنہ ان کا منہج صحیح نہیں۔ اورصحیح منہج صرف وہی ہے جو ان سے محبت رکھے ورنہ نہیں۔عوام کے طبقہ میں اس طرح کی کلیت پسندی پر ان الفاظ میں طنز کیاجاتاہے
جوکالاوہ میرے باپ کا سالا
اس طرح کاکلیہ بول دینا توبڑاآسان ہے لیکن اس کو ثابت کرناکارے دارد۔ ان کے پاس اثبات میں ہے کیا۔نہ کوئی قول رسول ہے نہ کوئی قول صحابی ہے لے دے کر امام احمد بن حنبل اورکچھ اسی طرح کے محدثین کے کچھ اقوال ہیں جس میں انہوں نے حضرات محدثین کی فضیلت ومنقبت پر کچھ باتیں کہی ہیں۔ انہی چیزوں سے ان لوگوں نے یہ سمجھ لیاہے کہ یہ ہمارے معیار حق وصداقت ہونے کی دلیل ہوگئی۔ پتہ نہیں اقوال رجال کب سے ان کے نزدیک معیار حق وصداقت ہوگئے۔
جو شخص اس منہج کو صحیح سمجھتا ہے وہ اس منہج پر چلنے والوں سے بھی محبت رکھے گا
جو اس منہج کو درست نہیں سمجھتا وہ اس منہج پر چلنے والون سے بغض رکھے گا ۔
اب یہ باتیں علماء کے پیش نظر تھیں اور اپنے تجربات کی بنیاد پر انہوں نے یہ باتیں کہی ہیں اور اہل سنت اور اہل بدعت کی نشانیاں بتادی ہیں جس سے اہل بدعت کا پول کھلتا ہے تو وہ چیختے ہیں ۔
اس میں قرآن وسنت سے یا قول صحابہ سے دلیل مانگنے کا کیا تک بنتا ہے ؟ البتہ آپ جیسے کہنہ مشق مقلدین جن کے اجتہادات پر خود امام صاحب بھی زندہ ہوں تو سر پیٹ کر رہ جائیں ان سے کوئی بعید نہیں کہ وہ امام ابو حنیفہ کے فضائل اور احناف کے فضائل قرآن وسنت سے نکال لیں ۔
اہل حدیث جب چاہتے ہیں عمرو بن شعیب کو حجت سمجھتے ہیں جب چاہتے اس کو رد کردیتے ہیں ۔۔۔۔ یہ بات کچھ گہری ہے اس کو فن حدیث سے تعلق رکھنے والے اہل حدیث ہی جان سکتے ہیں مقلدین جن کو حدیث سے خدا واسطے کا بیر ہے وہ قواعد مصطلح کی باریکیوں تک پہنچنا نہیں چاہتے ۔۔۔۔ اس کو سمجھنے کے لیے ایک اور قاعدہ ذہن میں رکھیں صحیحین میں مدلسین کی معنعن روایات مقبول ہیں جبکہ غیر صحیحین میں مقبول نہیں ہیں ۔ویسے یہ ان کی پرانی عادت ہے جب چاہاکسی چیز سے استدلال کرلیااورجب چاہااسی چیز کو متروک قراردے دیا۔ امام احمد بن حنبل اسی بارے میں کہتے ہیں۔
قَالَ أَبُو داود: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ: أهل الحديث إذا شاءوا احتجُّوا بعَمْرو بْن شُعَيْب، وإذا شاءوا تركوه [5] .7/434تاریخ الاسلام
ابودائود کہتے ہیں کہ میں نے احمد بن حنبل کو یہ کہتے سناکہ اہل حدیث جب چاہتے ہیں عمروبن شعیب سے استدلال کرلیتے ہیں اورجب چاہتے ہیں اس کو ترک کردیتے ہیں۔
یہی حال ان کا اقوال رجال کے بارے میں ہے جب مرضی نہ ہوگی توکہیں گے اللہ کے رسول کے سواکسی کی بات قابل حجت نہیں اورجب مرضی ہوگی توکچھ محدثین کے فضائل ومناقب والے اقوال کو حجت بناکر پیش کرتے پھریں گے۔
عام مثال ہے کہ سونار جس سونے کو چاہے رکھ لیتا ہے جس کو چاہے رد کردیتا ہے اب آپ اس سے قبول و رد کی دلیلیں پوچھیں گے تو جواب وہاں سے ملے گا وہی جواب یہاں سمجھیں ۔
بہر صورت کچھ قواعد و ضوابط اور قرائن ہوتے ہیں جن کو مد نظر رکھتے ہوئے محدثین ایسے فیصلے کرتے ہیں اگر آپ اس حوالے سے تسلی کرنا چاہتے ہیں تو الگ دھاگہ شروع کرلیں تاکہ آپ کی تشفی کا سامان مہیا کیا جاسکے ۔
آپ نے جو قول پیش کیا ہے اس میں ’’ اہل حدیث ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور یہ قول امام احمد بن حنبل کا ہے لہذا اس سے مراد اس زمانے کے اہل حدیث ہیں آپ مجھے یہ بتائیں اگر اس زمانے کے اہل حدیث آپ کے نزدیک من مانیاں کرنے کی وجہ سے ناقابل حجت ہیں تو آپ جن احادیث سے امام صاحب کے مذہب کو تقویت دینے کے لیے استدلال کرتے ہیں وہ کن کی روایات ہیں ؟ امام احمد بن حنبل نے جن لوگوں کو اہل حدیث کہا ہے ان کو ایک طرف کرکے آپ ذرا ایک حدیث بھی ثابت کرکے دکھائیں ؟
محدثین سے برہمی اپنی جگہ پر لیکن جناب اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہ ماریں ۔
حضور کے معجزات اور پشین گوئیاں یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصا تھا حضور کے پاس وحی بھی آتی تھی ان کے پاس جتنی بصیرت تھی وہ تو کسی مجتہد کے پاس نہیں ہوسکتی چہ جائیکہ مقلد اس بات کا دعوی شروع کردے ۔یہ بھی آج کل کے غیرمقلدین کی لاعلمی کی ایک مثال ہے ۔ اگرکوئی ظاہری اسباب پر نگاہ کرتے ہوئے کچھ کہتاہے تواس کو سیدھے عقیدہ سے جوڑدیاجاتاہے۔ ظاہری اسباب پر نگاہ کرتے ہوئے کسی چیز کے بارے میں ناامیدی کا اظہار کرناعقیدہ کے منافی نہیں ہے۔ بلکہ خود احادیث میں اس تعلق سے رہنمائی ملتی ہے کہ ظاہری اسباب کو نگاہ میں رکھ کر اس طرح کی بات کی جاسکتی ہے۔ غزوہ بدر میں مشرکین مکہ کی طاقت وشوکت اورمسلمانوں کی قلت تعداد اوربے سروسامانی کو دیکھتے ہوئے حضورپاک نے بارگاہ الہی میں جوالفاظ عرض کئے تھے اس کا ایک ٹکرانقل کرتاہوں شاید آپ کو صحت عقیدہ کا علم ہوجائے کہ ایسی باتیں عقیدہ کی صحت کے خلاف نہیں ہیں۔
اللهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ(مسلم ،باب الامداد بالملائکۃ")
اے اللہ اگریہ جماعت اورگروہ مسلمین فناکے گھاٹ اترگئی تو زمین میں تیری پرستش نہیں ہوگی۔
مصنف ابن ابی شیبہ اور مسند احمد اورمسند عبد بن حمید کی روایت میں تو لاتعبد فی الارض کے ساتھ ابدا کا بھی اضافہ ہے یعنی روئے زمین پر پھرکبھی تیری پرستش اورعبادت نہ ہوگی۔
کیااللہ کی قدرت سے یہ بعید تھاکہ اس گروہ مسلمین کی ہلاکت کے بعد بھی اللہ کی پرستش زمین پر کی جائے ۔لیکن حضورپاک نے یہ بات ظاہری اسباب کے اعتبار سے کہی تھی۔
اسی ظاہری اعتبار سے بھی میں نے عرض کیاتھاکہ اگرسعودی سوتے خشک ہوگئے تویہاں کی ندیاں اورنالے بھی خشک ہونے میں دیر نہیں لگائیں گی۔امید ہے کہ میری یہ بات آنجناب کی سمجھ میں آگئی ہوگی۔
حضور کے متعلق اللہ نے فرمایا و ما ینطق عن الھوی إن ھو إلا وحی یوحی
اور آپ اپنے متعلق کیا عقیدہ رکھتے ہیں جناب ؟ ہندوستان میں کوئی نیا فتنہ پھر اٹھنے والا تو نہیں ؟
کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ
بہر صورت ہم کسی صاحب بصیرت شخص کی پیشین گوئی کا انکار نہیں کرتے لیکن ہر ایک کی بات آنکھیں بند کرکے مانتے بھی نہیں ۔
جس طرح سعودیہ سے پہلے علم کے یہ دریا رواں دوراں تھے اس کے بعد بھی یونہی ٹھاٹھیں مارتے رہیں گے ۔ ان شاء اللہ لاتزال طائفۃ من أمتی ظاہر ین علی الحق ۔۔۔۔۔۔۔ علی رغم أنوف المبتدعۃاسی ظاہری اعتبار سے بھی میں نے عرض کیاتھاکہ اگرسعودی سوتے خشک ہوگئے تویہاں کی ندیاں اورنالے بھی خشک ہونے میں دیر نہیں لگائیں گی۔امید ہے کہ میری یہ بات آنجناب کی سمجھ میں آگئی ہوگی۔
سبحان اللہ ۔ اسی بحر میں اگر ہم کہیں کہ وہی لوگ جن پر کفر کے فتوی لگتے تھے آج ان کو منصف مان کر ان کے پاس عرضیاں تیار کرکے کیوں بھیجی جارہی ہیں ۔ مہند میں اسی طرح انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ وغیرہ نے محمد بن عبد الوہاب پر طعن و تشنیع کے پل باندھے اور ان کو گمراہ قرار دیا ہے لیکن آج کے دیوبندی ان کو منصف مانے بیٹھے ہیں ۔ کیوں ؟آپ ہمیں سمجھارہے ہیں یاپھردلیل نہ ملنے پر خود کو تسلی دے رہے ہیں۔آپ نے دعویٰ کیاتھاکہ ہماراتعلق اس وقت سے ہے جب عرب میں پٹرول کاظہورنہیں ہواتھاراقم نے اس دعویٰ دلیل مانگی توآپ نے فرمایاکہ چندہ کرکے بھیجاہے۔جب میں نے یہ کہاہے کہ اس میں تودوسرے بھی شریک رہے ہیں آپ کے تعلق وہ خصوصی نوعیت پٹرول کی دولت سے پہلے کہاں تھی جس کا دعویٰ کیاجارہاہے تو آپ اب فرمارہے ہیں۔
اور ایک گروہ ہمیشہ سے اس حسرت میں رہا ہے کہ کاش ہمیں بھی کوئی کھینچے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تاحال کوششیں جاری ہیں اور اب تو مزید یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ شاید ہندوستان میں یہ کشش کام نہیں کرتی سعودیہ جا کر قسمت آزما کر دیکھتے ہیں ۔بہرحال اتنی بات اصولی طورپرتسلیم شدہ ہے کہ پٹرول کی دولت کی اپنی طاقت اورکشش اورجذب ہے جس نے ہندوستان میں ایک گروہ کو مستقل اپنی جانب کھینچاہے ۔
زیر بحث دو باتیں تھیں :میں جانتاتھاکہ اپ آخر اسی میں پر آئیں گے ۔غیرمقلدین کی یہ پرانی عادت ہے جب زیر بحث موضوع پر بات نہیں کرسکتے تویاتوسیدھے امام ابوحنیفہ کی جانب جاتے ہیں یاپھر تقلید پر آجاتے ہیں اوراپناپراناراگ الاپناشروع کردیتے ہیں۔
ان میں سےایک کہ اہل حدیث کا آپس میں اختلاف اور مقلدین کا آپس میں اختلاف پہلا جائز اور دوسرا قابل مذمت کیوں ہے ؟
اس پر تو آپ کی تسلی ہوگئی ہوگی شاید ۔
دوسری بات تھی : پٹرول پر کون مرتا ہے ؟ اس پر بھی کافی حد تک بات قارئین کے لیے تو واضح ہوگئی ہوگی البتہ آپ ابھی تک بات کو دھکا لگانے کی کوشش کرر ہے ہیں ۔۔۔۔ ہم بھی ان شاء اللہ مستعد ہیں ۔
موضوع سے ہٹنے کا نہ کوئی ارادہ تھا اور نہ ہی ہے ۔
ضمنی باتیں نکل آتی ہیں اصل موضوع کے ساتھ ساتھ اگر ان پر بات کر لی جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ موضوع سے ہٹنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
پہلی بات تو یہ ہے اگر ان بزرگوں نے فقہ حنفی سے اختلاف کیا ہے تو اس میں فقہ حنفی کا کیا کمال ہے بلکہ یہ تو اللہ کا ان پر احسان ہے کہ اللہ نے ان کو حق بات کی طرف رجوع کرنے کی توفیق عطا فرمائی ۔۔ ورنہ اگر وہ فقہ حنفی کے اصول و ضوابط پر پابند رہتے تو یقینا اس سعادت سے محروم رہتے ۔کسی شخص کو کسی مذہب کا پابند بنادینااس بات کا اعلان ہے کہ اس کے اندر وہ صلاحیت نہیں کہ وہ علی الاطلاق اجتہاد کرسکے۔ اگراس کے اندر جزئی طورپر بعض مسائل میں اجتہاد کرنے کی صلاحیت ہے توکرے ۔کس نے منع کیاہے؟۔متاخرین میں ابن ہمام نے بعض مسائل میں اختلاف کیاہے۔حضرت شاہ ولی اللہ نے بعض مسائل میں اختلاف کیاہے مولانا عبدالحی لکھنوی نے بعض مسائل میں اختلاف کیاہے مولانا تقی عثمانی نے بعض مسائل میں اختلاف کیاہے ۔اگرعلم صلاحیت لیاقت ہے تواجتہاد کیجئے اورجتنی لیاقت اوراستعداد ہے اسی کے حد تک اجتہاد کیجئے۔ اوراگرعلم اورلیاقت نہیں ہے توپھرکسی ایک مجہتد کے پابند رہئے۔یہ توعقل کا فطری تقاضہ ہے۔ لیکن اب کچھ لوگ اس فطری طریقہ کے خلاف ہی اجتہاد کرناچاہیں توان کی مرضی ہے۔
چونکہ اس طرح کی جرأت فقہ حنفی میں جسارت سمجھی جاتی ہے اس لیے یہ بزرگ حنفیوں کے زیر عتاب رہے ہیں علامہ عبد الحیی لکھنوی کےبارے مین حنفیوں کی کیا رائے ہے؟ آپ سے مخفی نہیں ہوگی ۔
ظاہر ہے ہر مسئلہ میں مختلف اقوال میں سے کسی ایک کی بات راحج ہو سکتی ہے ۔ لیکن خرابی یہ ہے مقلد ’’ کسی بھی ایک سلف ‘‘ کی رائے کو اختیار نہیں کرتا کہ یہ تو تحقیق ہے بلکہ ہر دفعہ ’’ ایک ہی سلف ‘‘ کی رائے کو ترجیح دے کر اپنے مقلد جامد ہونے کی لاج رکھتا ہے ۔اورکتنے مسائل ایسے ہیں جہاں سلف متفق ہیں اورکتنے مسائل ایسے ہیں جہاں سلف کا اختلاف ہے۔ یقینابڑی اوربہت بڑی تعداد ایسے مسائل کی ہے جہاں سلف کااختلاف ہے۔ ایسے موقع پر ضروری ہے کہ وہ کسی ایک سلف کے فہم کوراجح اوردوسرے کو مرجوح قراردیں اوریہی کام فقہ شافعی میں بھی ہوتاہے فقہ مالکی میں بھی ہوتاہے اورفقہ حنبلی اورحنفی میں بھی ہوتاہے لیکن اس کے باوجود ایک خود کو سلفی کہہ دیتاہے اورخود کو سلفی کہہ کر دوسرے کو تقلید کا طعنہ دیتاہے تمام اسلاف کی باتیں بیک وقت توکوئی بھی نہیں مان سکتا۔اگرکوئی کہتاہے تو وہ جھوٹاہے یعنی کہ بیک وقت تین طلاق ایک اورتین طلاق تین نہیں ہوسکتا۔ بیک وقت حیض کی طلاق نافذ اورعدم نافذ نہیں ہوسکتی اسی طرح دیگر مسائل کاحال ہے توسلفیت نے کون سانیاتیرماراہے مختلف فیہ مسائل میں سلفی کے پاس اگرکچھ اسلاف کے نام ہیں تواتنے ہی یاکم وبیش نام ہمارے بھی پاس اسلاف کے ہیں توسلفیت کا وہ جزواعظم کیاہے جس کی بناء پر کوئی خود کو سلفی کہتاہے۔
جہاں تک قرآن وسنت کے چشمہ صافی سے سیراب ہونے کی بات ہے تویہ چشمہ صافی ہرایک کیلئے صاف ہے ۔کسی مخصوص فرقہ کیلئے نہیں ہے۔ جس نے سلف کانام نہاد عینک لگارکھاہے۔
کاش کہ مقلدین اس حقیقت کوسمجھ کر اس پر علم پیرا ہو جائیں ۔جہاں تک قرآن وسنت کے چشمہ صافی سے سیراب ہونے کی بات ہے تویہ چشمہ صافی۔کسی مخصوص فرقہ کیلئے نہیں ہے۔ جس نے سلف کانام نہاد عینک لگارکھاہےہرایک کیلئے صاف ہے
تحقیق کا ضابطہ و اصول اتباع قرآن وسنت ہے ۔ اس کے علاوہ سب کچھ بے اصولیاں اور بے ضابطگیاں ہی ہیں ۔ چاہے کوئی مانے یا نہ مانے ۔جہاں تک مسائل میں تحقیق اورگنجائش کی بات ہے تو وہ کام ہمارے بزرگ پہلے ہی کرچکے ہیں اورحسب استعداد وصلاحیت اب بھی یہ کام ہورہاہے جیساکہ کچھ مثالیں ماقبل میں دی گئیں لیکن ایک اصول اورضابطہ کے ساتھ۔ بے اصولی اوربے ضابطہ پن نہیں کسی حکیم اورکسی ڈاکٹر جس کو قلم پکڑناآگیاوہ مسائل پر کلام کرنے لگے جیساکہ آپ حضرات کے حکیموں اورڈاکٹروں نے حال کررکھاہے ۔