ویسے اب تو مشائخ دیوبند بھی اس پٹرول کی کرامات کے معترف ہو کر اس کو حاصل کرنے کے لیے سرتوڑ کو ششیں کر رہے ہیں اور طرح طرح کی عرضیاں تیار کرکے سعودی حکومت کو یہ یقین دلانا چاہ رہے ہیں کہ جناب ہم ہی اولین مستحق ہیں اس پٹرول کے ۔اسی وجہ سے اب شیخ الإسلام محمد بن عبد الوہاب کی دعوت بھی بڑی میٹھی لگنی شروع ہوگئ ہے ۔ اور عقائد میں اشاعرو و ماتریدیہ کی بجائے اہل سنت کا منہج درست لگنے لگا ہے ۔ اور تحفظ سنت کانفرنسیں منعقدہونی شروع ہوگئی ہیں ۔
لگتاہے کہ اپ نے تحفظ سنت کانفرنس اوراس میں قرارداد کا غلط مطلب اخذ کیاہے۔ مطلب یہ ہے کہ آپ کے ہم مسلکوں نے جو احناف بالخصوص حلقہ دیوبند کے خلاف سعودی وغیرہ میں گرد ڑائی ہے اورجس کی بنیاد پر وہاں کے کچھ لوگ ان سے بدظن ہیں ان کے سامنےا صل حقیقت لاکر اس بدگمانی کو دور کیاجائے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ ان سے آپ کی طرح زرسیاہ حاصل کیاجائے۔
یہ بات آپ کے علم میں ضرور ہوگی کہ اسی طرح کی گرد آپ کے پیشرو اوراس معاملہ میں معنوی رہنما احمد رضاخان نے بھی اڑائی تھی اورغلط سلط عقائد دیوبندیوں کے ذمہ لگایاتھا۔اس میں اصل حقیقت کو واضح کرنے کیلئے حسام الحرمین لکھ کرواضح کیاگیااورحرمین شریفین کے علماء کی بدگمانی دور کی گئی تھی۔ اب یہی کام اپ کے کچھ علماء نے انجام دیاہے اورکمال یہ ہے کہ اسی احمد رضاخان کے ایک پیروکار ارشدالقادری نے جوکتاب لکھی اس کا چربہ عربی میں تیار کردیااوراس میں فقط اتناکام زیادہ کیاکہ اس میں سعودی کے علماء کے فتاوی کا اضافہ کردیا اورکرامات سے عقائد کشید کرلیا۔اب ظاہرسی بات ہے کہ اس طرح کی کتابوں سے جولوگوں کے دلوں میں بدگمانیاں ہوئی ہوں گی اس کی تردید توضروری ہے اورسنت نبوی پر عمل ہے ۔مشہور واقعہ ہے کہ حضورپاک حضرت حفصہ یاکسی دوسری ام المومنین کے ساتھ کھڑے تھے ایک صحابی گزرے حضور نے فرمایاکہ یہ میری فلاں اہلیہ ہیں۔ ان صحابی نے عرض کیاکہ اے رسول اللہ کیامیں آپ کے بارے میں کسی شبہے میں متبلاہوسکتاہے توحضورنے فرمایاکہ شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح دوڑتاہے(مفہوم حدیث)یعنی شیطان کسی نہ کسی طرح بدگمانی ڈال دیتاہے اسی بدگمانی کے دفعیہ کیلئے میں نے بتایاکہ یہ میری بیوی ہیں کوئی اورنہیں ۔تواب اگراسی طرح دیوبند والے سعودی والوں کی بدگمانی دورکرناچاہتے ہیں تواس میں آخر برائی کیاہے جوآپ اتنے چراغ ہورہے ہیں اورایسالگتاہے کہ آتش زیرپاہے۔
وہ آئمہ حرمین جو کبھی مشبہ و مجسمہ کے رئیس تصور کیے جاتے تھے آج سرزمین دیوبند ان کے قدموں کو ترسنے لگی ہے ۔ وہی جامعہ اسلامیہ جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ فتنہ و فساد کی جڑ ہے آج اسی یونیورسٹی میں دیوبندی داخلہ لینے کی لیے کوئی بھی قیمت چکانے کے لیے تیار ہوتے ہیں حتی کہ ان لوگوں سے تزکیوں کی بھیک مانگتے ہیں جو ان کے نزدیک پٹرول پر پلنے والے ہیں ۔
علماء دیوبند نے کسی امام حرم کو مشبہ اورمجمسہ کہاہوایسی بات میرے علم میں نہیں ہے۔اگرآپ کے علم میں ہوتومیری معلومات میں اضافہ کریں۔جامعہ اسلامیہ کو فتنہ وفساد کی جڑ کس نے کہاہے اس کے بارے میں بھی میرے علم میں اضافہ کریں۔ویسے یہ بات آپ کے علم میں رہنی چاہئے کہ علماء دیوبندشروع سے ہی اس کے قائل نہیں تھے کہ ان کے طلباء وہاں پڑھیں۔ اوریہی خیال ندوہ والوں کابھی تھااسی لئے انہوں نے نہ کبھی وہاں والوں کو دعوت دی کہ آپ میرے یہاں آکر طلباء کا امتحان لیں۔ بلکہ ہمیشہ اس کی انہوں نے حوصلہ شکنی کی ہے۔یہ بات مولاناابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کے تعلق سے میرے علم میں ہے کہ ان سے جب جامعہ اسلامیہ میں ندوی طالب علموں کے داخلہ کے تعلق سے پوچھاگیاتوانہوں نے انکار کردیا۔اب کوئی طالب علم بذات خود چاہے ندوہ کاہویادیوبند کا یاکہیں اور کا اس سلسلے میں ذاتی طورپر کسی اہل حدیث سے تزکیہ لکھوائے یاکچھ اورکرے اس کی ذمہ داری دیوبند اورندوہ پر نہیں ہوتی ہے بات جب تھی کہ جب ندوہ اوردیوبند کا کوئی ذمہ دارشخص ایساکرتا۔
واہ واہ !!!کیسا اظہار نفرت ہے پٹرول سے ؟ کیا انتقام لینے کی سوچی ہے ان پٹرول والوں سے ؟
لیکن یہ ذرا محتاط رہیے گا کہ وقتی فوائد حاصل کرنے کے لیے ان پٹرول والوں کی حقانیت و عظمت کا یوں کثرت سے زبانی کلامی اعتراف کہیں آپ کے دل میں بھی نہ اتر جائے ؟
آپ کو پٹرول سے محبت ہوگی حضرت!مجھے نہ تومحبت ہے اورنہ ہی نفرت ہے بلکہ ایک گونہ انقباض اورکراہت ہی ہے۔خداآپ کو سرسے پائوں تک پٹرول سے تربترکردے اس سے زیادہ آپ کیلئے ہم اورکیادعاکرسکتے ہیں۔
ذرا تحفظ سنت ، مشاورتی اجلاس فروری ٢٠١٣ ء میں پاس کی گئی قرارداد کی ایک شق سنیے اور اندازہ لگایے کہ دار العلوم دیوبند کتنا بے تاب ہےاس پٹرول پر چلنے کے لیے :
جناب کیا ضرورت ہے سعودی حکومت کو جومشبہ مجسمہ کی سردار اور کرامات اولیاء کی منکر ہے کہ ان کے سامنے اپنے فیصلےرکھے جائیں ؟
کتنی تکلیف ہوئی ہے کہ اہل حق ( پٹرول ) کو ان کی محبوب چیز سے اب تک دور رکھا جا رہا ہے ۔
اس کی وضاحت ذکر کی جاچکی ہے۔
کیا دل کی گہرائیوں سے شکوہ کیا گیا ہٰے کہ جناب پٹرول دے کر ان غیر مقلدین کی نہیں بلکہ ہماری تائید و حمایت کی جائے ویسے بھی اب ترقی کا دور ہے جس طرح جانوروں کی جگہ گاڑیوں نے لے لی ہے اسی طرح ’’ قلادہ ‘‘ کی جگہ ’’ پٹرول ‘‘ ہونا چاہیے ۔
آپ نے یہ بات ضرور ذکر کی کہ قلادہ کی جگہ پٹرول ہوناچاہئے اوراس طرح اپنے جانتے بوجھتے بہت بڑاتیر ماردیا
لیکن یہ توبتایئے کہ بدلتے وقت کے ساتھ کون بدلاہے۔ہم پہلے بھی حنفی تھے اب بھی حنفی ہیں
لیکن کچھ لوگ بدلتے وقت کے ساتھ موحد ہوئے محمدی ہوئے۔سلفی ہوئے اثری ہوئے اہل حدیث ہوئے اورپتہ نہیں یہ روز روز کانام بدلنے کا شوق کہاں جاکر دم لے گا۔آپ کاحال تواس باب میں پٹرول والوں سے ہی ہے جس کو جگرمرادآبادی نے کہاہے
سرتسلیم خم ہے جومزاج یارمیں آئے
اگرمزاج یار اثری اورسلفی ہے توہم بھی اثری اورسلفی ہیں اورمزاج یار نے کچھ سالوں بعد کوئی اورنام رکھ لیاتوہم بھی وہی ہوجائیں کیونکہ ہماراتوہمیشہ سے طریق اورطریقہ رہاہے
چلوتم ادھر کو ہواہوجدھرکی
آپ کا مدعا ہم سمجھتے ہیں لیکن صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’’حسد نہ کر محنت کر‘‘ کے تحت ذرا ہمت کریں اور پٹرول پر اپنے اہل حق ہونے کا فیصلہ تو آپ کرچکے ہیں اب اس کی وضاحت ذرا سعودیہ والوں تک بھی پہنچا دیں ۔
ویسے آپ نے یہ توبتادیاکہ حسد نہ کر محنت کر اورآپ حضرات نے محنت کرکے سعودی والوں سے یہ لگائواورتعلق خاطرپیداکیاہے ۔آپ کی ایک محنت یعنی نام بدلنے کی توہمیں معلوم ہے اورشیخ الاسلام صاحب گن گان وغیرہ کا علم ہے لیکن اوردیگر جومحنتیں آپ نے کی ہیں اس کی تفصیلات سے ضرور ہمیں آگاہ کیجئے گا۔ہم آپ کے نہایت مشکور ہوں گے۔
اگر ہ اہل الرائے کو غلط سمجھتے ہیں تو اہل الظاہر کی بھی تائید نہیں کرتے ۔ بہر صورت یہ جانتے ہیں کہ اہل الرائے مکھی پر مکھی مارنے کے عادی ہیں جبکہ اہل الظاہر کم ازکم نصوص قرآن وسنت سے تو التزام رکھتے ہیں نا ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ظاہر یت کے بھی نقصانات ہیں لیکن یہ اہل الرائے کی خزغبلات سے بہت کم ہیں ۔
جہالت ایسے ہی کرشمے دکھایاکرتی ہے۔اس طرح کا مجمل کلام ارشاد فرماناکسی کیلئے بھی آسان ہے جامعہ اسلامیہ میں پڑھ کر بھی اگراسی طرح کے مجمل کلام کی عادت رہی ہے توپھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ذراتفصیل سے بتاتے کہ کتنے فیصد کا فرق رہاہے اورمسائل میں کیاتناسب اورکیاتوازن رہاہے۔تاکہ ہمیں بھی علم ہوتاکہ اہل الرائے اورظاہریہ کے تعلق سے آپ کی معلومات کا دائرہ کتناتنگ ہے؟اس کی پوشیدگی کیلئے ہی آپ نے اس طرح کا مجمل کلام پسند فرمایاہے۔
ویسے ایک کام کی بات بتادوں
اہل ظاہر پر مالکیہ نے رد کیاہے شافعیہ نے رد کیاہے حنابلہ نے رد کیاہے اوران کے اختلاف کو معتبر سمجھنے اورنہ سمجھنے میں اختلاف کیاہے۔ احناف کے سلسلے میں اس طرح کی رائے کا اظہار کتنوں نے کیاہے۔
مالکیہ کے معتبرفقیہہ قاضی ابوبکر ابن عربی جن کی بات یزید کے سلسلے میں اکثر اہل حدیث دوہراتے رہتے ہیں وہ بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے ہی ظاہریہ کو کہاہے
ھی امۃ سخیفۃہمیں امید ہے کہ اگلے مراسلے میں اہل ظاہراوراحناف ک مسائل میں غلط اورصحیح کا صحیح تناسب مکمل اعدادوشمار کے ساتھ پیش کریں گے۔
ہاں البتہ تمسک بنصوص الکتاب والسنۃ یعنی لااجتہاد مع النص کے قائل ہونے کی وجہ سے کوئی ہمیں اہل ظاہر سمجھتا ہے تو یہ الگ بات ہے ۔ اور یہی طریقہ کار الحمد للہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تھا ۔ جہاں نص آتی تھی وہ سرتسلیم خم کردیتے تھے نہ کہ چودہ چودہ سال اس سے جان چھڑانے پر صرف کرتے تھے ۔
کواخود کو گوراسمجھنے لگے تواس کا علاج کیاہے؟اہل ظاہر بھی خود کو آپ سے زیادہ برسرحق سمجھتے تھے لیکن ان کے بذات خود سمجھنے سے کوئی فرق نہیں پڑا۔صحابہ کرام میں مختلف طبقات تھے ایک طبقہ اگریہ سمجھتاتھاکہ حضور نے حکم دیاکہ ہم بنی قریظہ میں جاکر عصر کی نماز اداکریں تووہیں اداکریں اوردوسراسمجھتاتھاکہ اس سے حضور کی مراد تعجیل تھی اوراس لئے راستے میں ہی نماز پڑھ لیتاہے۔
صحابہ کا اختلاف بھی فہم نصوص کتاب وسنت کی بنا پر ہوتا تھا اور الحمد للہ اہل حدیث کا اختلاف بھی اسی نوعیت کا ہے ۔ جب کہ مقلدین پر نصوص کتاب وسنت کے فہم کی پابندی ہے اور پیچھے ایک امام کے( فہم کے) آمین ہے ۔
اب کسی کی خوش فہمی کا علاج تونہیں ہے۔ویسے خوش فہمی کی ایک قسم مالیخولیا بھی ہوتی ہے اس جملہ سے اسی مرض کی علامات نمایاں ہیں۔
گویا مقلدین کا اختلاف فہم نصوص مذہب میں ہوتا ہے جبکہ اہل حدیث کا اختلاف فہم نصوص کتاب وسنت میں ہوتا ہے اسی لیے ہمیں صحابہ کی یاد آتی ہے کہ صحابہ کااختلاف بھی اسی نوعیت کا تھا ۔ آپ کو بھی اگر صحابہ کی یاد ستاتی ہے تو ذرا سنگ دل ہو کر صنمِ تقلید کے پرخچے اڑا دیں اور وصال کے مزے لوٹیں ۔
ویسے صنم تقلید کہنے سے پہلے ذراتقلید کی شروعات سے اب تک جتنے مقلدین گزرے ہیں سب کو مشرک اورکافر کہنے کا فتوی صادرکردیں۔اورذراائمہ حرمین سے بھی اس کی توثیق کرالیں پھر ہم بھی آپ کی گزارش پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔اوراگریہ نہ ہوسکے توبراہ کرم اپنے الفاظ سے رجوع کا حوصلہ دکھائیں۔اوراگریہ دونوں ہی نہ ہوسکے تومجھے پیشگی کہنے دیجئے
نہ خنجراٹھے گانہ تلوار ان سے
یہ بازومیرے آزمائے ہوئے ہیں
یہ آپ کی بات بالکل درست ہے کہ صحابہ کرام بھی قرآن وسنت کا اصل مقصد معلوم کرنے کےلیے رائے چلاتے تھے اور فقہاء و مجتہدین بھی اور اہل حدیث کا بھی الحمد للہ یہی منہج ہے ۔
البتہ کتاب وسنت کو چھوڑ کر اپنی رائے چلانے والے بدقسمت کوئی ہیں تو ماشاء اللہ مقلدین ہیں جو قرآن وسنت کو ایک طرف رکھ کر امام صاحب کے اقوال پر طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں ۔ اسی وجہ سے بعض لوگوں کے نزدیک آئمہ اربعہ کے بعد ابھی تک مجتہد مطلق کوئی پیدا ہی نہیں ہوا ۔ بلکہ طرح طرح کی تقسیمات ہیں مجتہد فی المذہب ، مجتہدفی الفروع ، اصحاب التخریج ۔۔۔۔ پتہ نہیں کیا کیا ناٹک کر رکھے ہیں قرآن وسنت کوچھوڑ کر رائے زنی کرنے کے ۔ جمشید صاحب آپ نے بڑی اچھی بات کی ہے لیکن اس مغالطے کا مکتشف آپ کو نہیں سمجھا جاسکتا بلکہ بہت پہلےعلماء اس بات کا رونا روتے آئے ہیں ذرا ملاحظہ کریں
یہ بھی آپ نے اپنی جہالت کا اظہار فرمایاہے کہ اجتہاد کی طرح طرح کی تقسیم۔ جب مختلف علوم میں مختلف مراتب کی تقسیم ہوسکتی ہے توکیاصرف اجتہاد ہی ایسی اچھوت چیز ہے جس میں کوئی تقسیم نہ ہوسکے اورہرایک کو مجتہد مطلق قراردے دیاجائے۔خضرحیات صاحب کا موقف گویاہے کہ یاتوآدمی جاہل مطلق ہویامجتہد مطلق ہو درمیان میں کچھ مراتب اوردرجہ بندی نہیں ہونی چاہئے یاتوآپ رعایاہیں یاسیدھے صدرجمہوریہ اوروزیراعظم ہیں ممبراسمبلی، ممبرپارلیمنٹ اوردیگرعہدوں تک کی کوئی ضرورت نہیں۔ سیدھے ایک چھلانگ میں سارے قصے تمام۔بقول اقبال
عشق کی ایک جست نے طے کردیاقصہ تمام
اس زمین وآسمان کو بے کراں سمجھاتھامیں
یہ اجتہاد کی فراوانی اورارزانی آپ اورآپ کی جماعت کو مبارک۔اسی جہالت کی آمیزش والے اجہتاد کی برکات ہم اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کیسے کیسے فتنے اٹھ رہے ہیں اورپتہ نہیں ابھی اورکیسے کیسے نئے فتنے اٹھیں گے ایسے ہی جاہل مجتہدین کے تعلق سے اقبال نے بہت پہلے کہاتھا
زاجتہادعالمان کم نظر
اقتداربارفتگاں اولی تراست
اورجوکچھ آنجناب نے امیرصنعانی کا کمال ارشاد فرمایاہے وہ کوئی خاص وقعت نہیں رکھتا۔ اس طرح کی بات قبل ازیں ابن حزم ،ابن قیم وغیرہ کہہ چکے ہیں لیکن اس کے بالمقابل دیگر علماء نے بھی اس کی تردید کی ہے اوراجتہاد کے سلسلہ میں مختلف شروط وقیود رکھے ہیں۔ان سب کو چھوڑ کر اس شرذمہ قلیلہ کی ہی بات کا اعتبار کرلینادلائل سے قطع نظر کیوں کر رواہوسکتاہے۔