• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ا بو حنیفہؒ بڑےدردمنددل والے تھے

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
کسی سے بھی دشمنی یا اختلاف کی صورت میں یہ رویہ قابل عمل نہیں کہ اُس کی اچھائی کو یا اُس کی صحیح باتوں کو نظر انداز کر دیا جائے، مذکورہ کتاب "اخبار ابی حنیفہ" مستند ہے یا نہیں، یا اس میں جو ابوحنیفہ صاحب کا یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے یہ صحت کے اعتبار سے درست ہے یا نہیں، اس سے قطع نظر اگر یہ واقعہ صحیح بھی ہے تو بہت اچھی بات ہے، کیونکہ اس واقعے میں ایک اچھا سبق بیان کیا گیا ہے، اور ابوحنیفہ صاحب نے جو شاگرد کو بات کی وہ بھی درست ہے، اللہ کسی کو نعمت دے تو اس کو ان نعمتوں کا نمودونمائش اور دوسروں کو حقیر جاننے جیسے قبیح عمل سے ہٹ کر اظہار ضرور کرنا چاہئے۔
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
و لایجرمنکم شنأن قوم علی ان لا تعدلوا اعدلو هو اقرب للتقوی.۔۔۔۔۔۔۔۔ المائدہ 8۔
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
کیوں کیا علمائے اہل حدیث سے غلطی نہیں ہوسکتی؟
۔
بلکل ہوسکتی ہے اور آپ کا ان سے بیزاری کا اظہار بھی یہی بتاتا ہے کہ ان کی اکثر باتیں غلط تھیں ۔لیکن عجب بات یہی ہے کہ جوباتیں انہوں نے درست کہیں تھی ان کو آپ جدید غیر مقلدین غلط کہتے ۔


عجیب بات ہے یہاں جب اپنے مطلب کی بات ہے تو اہل حدیث عالم کو اتنے احترام سے ذکر کررہے ہو ''شیخ الکل محدث جلیل میاں نذیر حسین دہلوی'' ویسے آپ اور آپ کے علماء اہل حدیثوں کو گالیاں دیتے نہیں تھکتے۔ سچ ہے دیوبندی اپنے مفاد کے غلام ہیں۔
پہلے معیار الحق نکا ٹائٹل دیکھ لیں وہاں جو لکھا ھوا تھا اسی کو نقل کیا تھا ۔

شیخ الکل محدث جلیل لکھا ہوا ہے کہ نہیں ؟ بس اسی کو نقل کیا ہے اب یہ آپ کی مرضی اسے مانو یا رد کردو ۔ میں نے تو صرف آپ کے شیخ الکل صاحب کا احترام آپ کے ترز عمل سے دیکھنا تھا جو کہ نظر آرہا ہے کہ میں نے ان کا ادب و احترام دکھایا کہ نام نہاد اہل حدیث لوگ صاحب معیار الحق کو محدث جلیل اور شیخ الکل کہتے ہیں اور مسٹر شاہد نزیر کو یہ القابات دیکھ کر گالیاں یاد آگئیں ۔
اور الحمد للہ یہ بھی صاف نظر آچکا کہ زاتی انا کا غلام کون ہے یا یوں کہیں کہ نفس پرست کون ہے کہ اپنے نفس کے خلاف قرآن پیش کرو تو بھی نہیں ماننا ،حدیث پیش کرو توبھی نہیں ماننا،صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کچھ پیش کرو تو بھی نہیں ماننا ، اکابرین امت سے کچھ پیش کرو تو بھی انکار کردینا ہے اور تو اور وہ اکابرین غیر مقلدیت جنہوں نے اپنی زندگیاں وقف کردیں اس جدید فرقے کی اشاعت کے لئے ان کی کہی یا لکھی باتوں کو بھی نہیں ماننا ۔ اب مسٹر شاہد نزیر کہیں گے کہ ہم قرآن و حدیث کے خلاف ہر کسی کی بات رد کردیتے ہیں (ابتسامہ) آپ کے شیخ الکل نے جو دلیل بیان کی ان اکرم عنداللہ اتقکم۔الحجرات یہ انہیں نے ایک غلط انسان کے اعزاز میں پیش کی ہے انکا استدلال غلط تھا اور وہ یہ استدلال کرنے کے جرم میں مشرک ہوگئے ہیں ۔

ہم علماء کی بات نہیں بلکہ انکے دلائل قبول کرتے ہیں اور دلائل بتاتے ہیں کہ ابوحنیفہ میں کوئی خوبی نہیں تھی۔
الحمد للہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالٰی علیہ کی عظمت آپ کی تائد کی محتاج نہیں آپ نہیں مانتے نہ مانو ،ہمیں کسی غیر مقلد مولوی یا جاہل کے تعریفی کلمات کی ضرورت بھی نہیں ۔ یہاں یا کہیں بھی آپ کے فرقہ کے علامہ حضرات کے اقوال اسلئے پیش کئے جاتے ہیں کہ کم از کم آپ جیسے بدزبان غیر مقلدین کی حقیقت فرقہ جدیدہ کے عوام و علما کے سامنے آتی رہے ۔ کیسے ؟ وہ ایسے کہ صاحب معیار الحق نے امام اعظم رحمہ اللہ کے بارے میں فرمایا
1
بیچ فضائل امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے
2
فضائل سے امام صاحب کے ہم کو عین عزت اور فخر ہے
3
اسلئے کہ وہ ہمارے پیشوا ہیں
4
ہم ان کے امر حق میں پیرو ہیں
5
ان کی فضیلت تابعی ہونے پر موقوف نہیں
6
ان کا مجتہد ہونا
7
متبع سنت
8
متقی
9
اور پرہیزگار ہونا کافی ہے ان کے فضائل میں
10
اور آخر میں جو بات میں نے پیش کی وہ ہے اللہ کا قرآن جسے نزیر حسین دہلوی صاحب نے دلیل بنایا ہے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالٰی علیہ کی شان بیان کرنے کے بارے میں ۔
ان اکرم عنداللہ اتقکم۔الحجرات ترجمہ:اللہ کے ہاں تم میں سے زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں سے زیادہ متقی اور پرہیزگار ہے۔

اب شاہد نزیر کیا فرماتے ہیں اس سوال کے بارے میں کہ
کیا فرقہ جماعت اہلحدیث کے شیخ الکل محدث جلیل میاں نذیر حسین دہلوی بھی جھوٹے ہیں ؟
مسٹر شاہد نزیر کے لئے پورے گیارہ سوالات پیش کردئے ہیں
نمبر وار بتائیے کہ آپ کے شیخ الکل محدث جلیل میاں نزیر حسین دہلوی صاحب نے جو القابات دئیے ہیں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو ، وہ آپ کے فرقہ جماعت اہل حدیث میں قبول ہیں یا نہیں ۔
اور اگر قبول ہیں تو کیوں اور اگر قبول نہیں تو کیوں ۔
جو غیر مقلد ان القابات کو قبول کرتے ہیں اور جو قبول نہیں کرتے ان کا مقام ۔
سب سے اہم ترین بات جس کی وضاحت آنی چاھئیے وہ یہ ہے کہ میاں صاحب نے امام اعظم رحمہ اللہ کے فضائل بیان کرتے ہوئے آیت قرآنی سے استدلال کیا ہے ۔ اگر یہ استدال غلط کیا تو اس غلط کو غلط ثابت کیجئے اور بتائیے کہ غلط ثابت کرچکنے کے بعد میاں نزیر حسین دہلوی شیخ الکل و محدث جلیل رہے یا کچھ اور بن گئے ؟
شکریہ

(نوٹ:-انتظامیہ سے گزارش کہ پورا مراسلہ ہی گم کرنے کی بجائے جن الفاظ پر اعتراض ہو قوانین محدث فورم کی روسے انہیں ایڈیٹ کردیا جائے۔شکریہ)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
(نوٹ:-انتظامیہ سے گزارش کہ پورا مراسلہ ہی گم کرنے کی بجائے جن الفاظ پر اعتراض ہو قوانین محدث فورم کی روسے انہیں ایڈیٹ کردیا جائے۔شکریہ)
سہج صاحب دعا کریں اللہ تعالی انتظامیہ کو اس قدر وسائل دے تاکہ چند اراکین فورم کے لیے خصوصی نگران متعین کر لیے جائیں جن کا کام صرف یہی ہو کہ فلاں فلاں کی شراکتوں سے ’’ اخلاق پارے ‘‘ الگ کرنے ہیں ۔
بہر صورت یہ تو بعد کی بات ہے فی الوقت جو آپ حضرات سے ہوتا ہے کریں جو انتظامیہ کی استطاعت میں ہوگا وہ کرتے رہیں گے ۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
لگے رہیے۔ ابو حنیفہ سے کوئی دیرینہ دشمنی تو نہیں ہے آپ کی؟
محترم! اخبار ابی حنیفہ کیوں ناقابل اعتبار ہے جب کہ اس کے مولف کے بارے میں خطیب بغدادی کہتے ہیں كان صدوقا، وافر العقل، جميل المعاشرة، عارفا بحقوق أهل العلم وہ صدوق (سچے)، وافر عقل والے، اچھی معاشرت والے، اہل علم کے حقوق کو جاننے والے تھے؟؟؟
اللہ پاک آپ کو ہدایت دے۔



مجھے اس روایت کی صحت کے بارے میں علم نہیں۔ یہ تاریخ کی ہی ایک قسم ہے اور ممکن ہے صحیح ہو اور ممکن ہے نہ ہو۔

اس کی سند بھی حاضر ہے ، اس سے اندازہ لگایا جا سکت ہے کہ یہ روایت مستند ہے یا کمزور،جناب قاضی ابو عبداللہ صیمری نے لکھا ہے:
قال اخبرنا احمد ابن محمد الصیرفی قال حدثنا احمد بن محمد المسکی قال حدثنا علی بن محمد القاضی قال حدثنا احمد ابن عمار بن ابی مالک الجنبی عن ابیہ عن الحسن بن زید قال : رآی ابو حنیفۃ علی بعض جلسائہ ثیابا رثۃ۔۔۔۔۔۔ الی آخرہ
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
لگے رہیے۔ ابو حنیفہ سے کوئی دیرینہ دشمنی تو نہیں ہے آپ کی؟
محترم! اخبار ابی حنیفہ کیوں ناقابل اعتبار ہے جب کہ اس کے مولف کے بارے میں خطیب بغدادی کہتے ہیں كان صدوقا، وافر العقل، جميل المعاشرة، عارفا بحقوق أهل العلم وہ صدوق (سچے)، وافر عقل والے، اچھی معاشرت والے، اہل علم کے حقوق کو جاننے والے تھے؟؟؟
اللہ پاک آپ کو ہدایت دے۔



مجھے اس روایت کی صحت کے بارے میں علم نہیں۔ یہ تاریخ کی ہی ایک قسم ہے اور ممکن ہے صحیح ہو اور ممکن ہے نہ ہو۔

ابوعبداللہ حسین بن علی الصیمری کی کتاب ''أخبار ابي حنيفة واصحابه'' مکتبہ عزیزیہ ملتان سے مطبوع ہے۔
صیمری سچے تھے اور کتاب مذکور میں سندیں موجود ہیں۔،لیکن اس کتاب کی عام روایات ضعیف ،مجروح اور کذاب راویوں سے مروی ہیں مثلا۔:
1۔احمد بن عطیہ الحمانی (کذاب) دیکھیئے الکامل لابن عدی ج1 ص202
2۔شاذان المروزی (کذاب) دیکھئے کتاب الجرح والتعدیل ج8ص 480
3۔ابوالحسن علی بن الحسن الرازی (ضعیف) دیکھیئے تاریخ بغداد ج11 ص 388
4۔ابوعبیداللہ محمد بن عمران بن موسی المرزبانی (ضعیف) تاریخ بغداد ج 3 ص 135
5۔عبداللہ بن محمد بن ابراہیم الحلوانی ابوالقاسم الشاہد ابن الثلاج (کذاب یضع الحدیث) دیکھیئے تاریخ بغداد ص 10 ص 136
6۔محمد بن شجاع الثلجی (کذاب) دیکھیئے الکامل لابن عدی ج6 ص 2293
7۔ابوعبد اللہ احمد بن محمد بن علی الصیرفی :ابن الابنوسی (ضعیف) دیکھیئے تاریخ بغداد ج5 ص 29
8۔حامد بن آدم(مجروح) دیکھیئے احوال الرجال للجوزجانی 381
9۔خارجہ بن مصعب (متروک ) دیکھیئے تقریب التہذیب 1612
10۔حسن بن زیاد اللؤلؤی (کذاب) دیکھیئے تاریخ یحی بن معین (روایۃ الدوری 1765
اس کتاب میں بہت سے مجہول راویوں کی روایات بھی درج ہیں مثلا عمربن اسحاق بن ابراہیم (ص89) مجہول ہے مختصر یہ کہ صرف صیمری کی کتاب کاحوالہ دے دینا کافی نہیں بلکہ سند کی مکمل تحقیق کرکے صحیح ثابت ہوجانے کے بعد ہی حوالہ دینا چاہیے ورنہ ایسے حوالوں کی علمی میدان میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
بیان کیے گئے واقعہ میں کتاب لکھنے والے کا استاد ابوعبد اللہ احمد بن محمد بن علی الصیرفی :ابن الابنوسی ضعیف ہے ، اس کے لیے تفصیل دیکھیے:تاریخ بغداد ج5 ص 29
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اس کی سند بھی حاضر ہے ، اس سے اندازہ لگایا جا سکت ہے کہ یہ روایت مستند ہے یا کمزور،جناب قاضی ابو عبداللہ صیمری نے لکھا ہے:
قال اخبرنا احمد ابن محمد الصیرفی قال حدثنا احمد بن محمد المسکی قال حدثنا علی بن محمد القاضی قال حدثنا احمد ابن عمار بن ابی مالک الجنبی عن ابیہ عن الحسن بن زید قال : رآی ابو حنیفۃ علی بعض جلسائہ ثیابا رثۃ۔۔۔۔۔۔ الی آخرہ


ابوعبداللہ حسین بن علی الصیمری کی کتاب ''أخبار ابي حنيفة واصحابه'' مکتبہ عزیزیہ ملتان سے مطبوع ہے۔
صیمری سچے تھے اور کتاب مذکور میں سندیں موجود ہیں۔،لیکن اس کتاب کی عام روایات ضعیف ،مجروح اور کذاب راویوں سے مروی ہیں مثلا۔:
1۔احمد بن عطیہ الحمانی (کذاب) دیکھیئے الکامل لابن عدی ج1 ص202
2۔شاذان المروزی (کذاب) دیکھئے کتاب الجرح والتعدیل ج8ص 480
3۔ابوالحسن علی بن الحسن الرازی (ضعیف) دیکھیئے تاریخ بغداد ج11 ص 388
4۔ابوعبیداللہ محمد بن عمران بن موسی المرزبانی (ضعیف) تاریخ بغداد ج 3 ص 135
5۔عبداللہ بن محمد بن ابراہیم الحلوانی ابوالقاسم الشاہد ابن الثلاج (کذاب یضع الحدیث) دیکھیئے تاریخ بغداد ص 10 ص 136
6۔محمد بن شجاع الثلجی (کذاب) دیکھیئے الکامل لابن عدی ج6 ص 2293
7۔ابوعبد اللہ احمد بن محمد بن علی الصیرفی :ابن الابنوسی (ضعیف) دیکھیئے تاریخ بغداد ج5 ص 29
8۔حامد بن آدم(مجروح) دیکھیئے احوال الرجال للجوزجانی 381
9۔خارجہ بن مصعب (متروک ) دیکھیئے تقریب التہذیب 1612
10۔حسن بن زیاد اللؤلؤی (کذاب) دیکھیئے تاریخ یحی بن معین (روایۃ الدوری 1765
اس کتاب میں بہت سے مجہول راویوں کی روایات بھی درج ہیں مثلا عمربن اسحاق بن ابراہیم (ص89) مجہول ہے مختصر یہ کہ صرف صیمری کی کتاب کاحوالہ دے دینا کافی نہیں بلکہ سند کی مکمل تحقیق کرکے صحیح ثابت ہوجانے کے بعد ہی حوالہ دینا چاہیے ورنہ ایسے حوالوں کی علمی میدان میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔


بیان کیے گئے واقعہ میں کتاب لکھنے والے کا استاد ابوعبد اللہ احمد بن محمد بن علی الصیرفی :ابن الابنوسی ضعیف ہے ، اس کے لیے تفصیل دیکھیے:تاریخ بغداد ج5 ص 29
جزاک اللہ خیرا حافظ بھائی
ذرا اس استاد کی تفصیل ملاحظہ فرمائیے وہیں سے جہاں کا آپ نے حوالہ دیا ہے:۔
أحمد بن محمد بن علي، أبو عبد الله الصيرفي المعروف بابن الآبنوسي
سمع علي بن محمد بن الزبير الكوفي، وعبد الله بن إسحاق بن إبراهيم الخراساني، وأبا بكر الشافعي، ودعلج بن أحمد، ومحمد بن عمر ابن الجعابي، وأبا علي ابن الصواف، ومن طبقتهم وبعدهم.
وكان كثير الكتب والسماع، ولم يرو إلا شيئا يسيرا، حدثنا عنه أبو بكر البرقاني، والقاضي أبو عبد الله الصيمري.
سمعت أبا بكر البرقاني ذكر ابن الآبنوسي فلم يحمد أمره، وقال: سألني عن كتاب الجامع الصحيح لأبي عيسى الترمذي، فقلت: هو سماعي لكن ليس لي به نسخة، قال أبو بكر: فوجدت في كتب ابن الآبنوسي بعد موته نسخة بكتاب أبي عيسى قد ترجمها وكتب عليها اسمي واسمه، وسمع لنفسه في النسخة مني، فذكرت أنا هذه الحكاية لحمزة بن محمد بن طاهر الدقاق، فقال: لم يكن ابن الآبنوسي ممن يتعمد الكذب، لكنه كان قد حبب إليه جمع الكتب، فكان إذا حصل له كتاب ترجمة وكتب عليه اسم راويه واسمه قبل أن يسمعه ثم يسمعه بعد ذلك.
حدثني أبو القاسم الأزهري، قال: توفي أبو عبد الله بن الآبنوسي بالدينور ودفن بها في ذي الحجة من سنة أربع وتسعين وثلاث مائة.

یہ برقانی نے جو بات کی ہے سرے سے جرح ہی نہیں ہے۔ پھر اس کی وضاحت حمزہ بن محمد بن طاہر الدقاق نے اسی وقت کر دی تھی جس کی تفصیل اس حوالے میں ہی لکھی ہے۔ پھر اسے ضعیف کہنا چہ معنی دارد؟

البتہ حافظ بھائی یہ تاریخ ہے اور محدثین کا فن اسماء رجال و فن جرح و تعدیل (خود یہ فنون بھی علوم الحدیث کے زمرے میں شامل ہیں لیکن ہیں تاریخ کی ہی ایک قسم) حدیث کے لیے ہے نہ کہ تاریخ کے لیے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمیں تاریخ کے کچھ رواۃ حدیث میں ہونے کی وجہ سے یا کسی اور سبب جیسے شہرت وغیرہ کی وجہ سے ان کی تفصیل مل جاتی ہے۔
پھر مزید یہ کہ تاریخ میں بہت سے ان رواۃ کو قبول کیا گیا ہے جنہیں حدیث میں قبول نہیں کیا گیا۔ اسی لیے اس قسم کے رواۃ کی وجہ سے کسی تاریخی کتاب کو ناقابل اعتبار نہیں کہا جا سکتا۔
اسی لیے علماء کرام فرماتے ہیں کہ تاریخ کی صحیح ترین روایت بھی حدیث سے کم درجہ رکھتی ہے۔
تاریخ میں بے شمار رواۃ مجہول ہیں، بے شمار پر علم حدیث میں جرح ہے لیکن تمام تاریخ کی کتب ان سے بھری ہوئی ہیں۔ بے شمار جگہوں پر اغلاط ہیں۔ بخاریؒ کی تاریخ الکبیر کا یہ حال ہے کہ ان کے استاذ ابو حاتم ان کی اغلاط پر پوری کتاب بنا دیتے ہیں۔ تو کیا پھر بخاری کی تاریخ الکبیر ساقط الاعتبار ٹھہری؟
امام ابو حنیفہ کے مثالب میں خطیب بغدادیؒ بہت سی روایات لاتے ہیں جن کے رواۃ بھی کچھ مقامات پر ثقات ہیں لیکن بڑے بڑے علماء حدیث و جرح و التعدیل ان روایات کو قبول نہیں کرتے نہ ان کا ذکر کرتے ہیں۔ حافظ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ (مناقب و مثالب کے) بعض اقوال قبول اور بعض رد ہیں۔
تو میرے بھائی ان دونوں چیزوں میں یعنی تاریخ اور حدیث میں فرق کرنا ضروری ہے۔
آپ نے کتاب کی بابت جو بات کہی وہ تو حدیث کی بعض کتب کو بھی ساقط نہیں کرتی جیسے سنن ابن ماجہ وغیرہ کو چہ جائیکہ ایک تاریخ کی کتاب کو ساقط کر دے۔ فافہم
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
جزاک اللہ خیرا حافظ بھائی
ذرا اس استاد کی تفصیل ملاحظہ فرمائیے وہیں سے جہاں کا آپ نے حوالہ دیا ہے:۔
أحمد بن محمد بن علي، أبو عبد الله الصيرفي المعروف بابن الآبنوسي
سمع علي بن محمد بن الزبير الكوفي، وعبد الله بن إسحاق بن إبراهيم الخراساني، وأبا بكر الشافعي، ودعلج بن أحمد، ومحمد بن عمر ابن الجعابي، وأبا علي ابن الصواف، ومن طبقتهم وبعدهم.
وكان كثير الكتب والسماع، ولم يرو إلا شيئا يسيرا، حدثنا عنه أبو بكر البرقاني، والقاضي أبو عبد الله الصيمري.
سمعت أبا بكر البرقاني ذكر ابن الآبنوسي فلم يحمد أمره، وقال: سألني عن كتاب الجامع الصحيح لأبي عيسى الترمذي، فقلت: هو سماعي لكن ليس لي به نسخة، قال أبو بكر: فوجدت في كتب ابن الآبنوسي بعد

میں نے ابو بکر برقانی کو ابن الآبنوسی کا ذکر کرتے سنا تو انھوں نے موصوف کی توثیق نہ بیان کی۔ کیا برقانی کا ان کی توثیق بیان نہ کرنا ابن الآبنوسی کے ضعف پر دلالت نہیں کرتا؟؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
میں نے ابو بکر برقانی کو ابن الآبنوسی کا ذکر کرتے سنا تو انھوں نے موصوف کی توثیق نہ بیان کی۔ کیا برقانی کا ان کی توثیق بیان نہ کرنا ابن الآبنوسی کے ضعف پر دلالت نہیں کرتا؟؟
میں نے ابو بکر برقانی کو ابن الآبنوسی کا ذکر کرتے سنا تو انہوں نے ان کے معاملہ کی تعریف نہیں کی اور کہا۔۔۔۔
یہ جو "اور" ہے یعنی "واؤ" اسے تفسیریہ کہتے ہیں۔ برقانیؒ نے جو کچھ بیان کیا یہ اصل جرح اور بات ہے۔ اسی طرح کی بات کو جرح مفسر کہتے ہیں لیکن برقانیؒ کی یہ بات جرح بنتی نہیں ہے اگر عقل سے دیکھیں۔ یعنی جس بات سے انہوں نے جرح کی اور سمجھی ہے وہ بنیاد ہی کوئی خاص نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ بھی مجہول الحال ہوں گے۔ عدالت تو آگے دقاق کے الفاظ سے معلوم ہو رہی ہے کہ وہ جان کر جھوٹ نہیں بولتے تھے۔ لیکن ثقاہت کا علم نہیں۔
واؤ سے پہلے کے الفاظ تو ویسے ہی محتمل المعنیین ہیں۔ وہ الفاظ اکیلے ہوں تو انتہائی کمزور جرح ہوگی غالبا۔
 
Top